شدت پسندی کا عفریت عالم اسلام کی جان چھوڑ ہی نہیں رہا ۔سماجی و سیاسی ادارے ،مذہبی راہنما،سماجی امور کے ماہرین اور دانشور اس مسئلے کے حل کے لئے اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں لیکن یہ کاوشیں بار آور ثابت نہیں ہو رہیں۔شدت پسندی ،غیرت ،حمیت کو ا س حد تک قابو میں لا چکی ہے کہ اب یہ ایک دوسرے کے مترادفات بن کر رہ گئے ہیں ۔
غیرت و حمیت قومی ہو، مذہبی ، سماجی یا خانگی معاملات سے متعلق ،یہ انصاف کے تقاضوں سے عاری ہوتی جا رہی ہے ۔شدت پسندی اور انتہا پسندی میں حدِ فاصل انصاف ہی کرتا ہے اور جب یہ حد گر جائے تو اس کا ظہور کہیں اجتماعی عدم برداشت سے ہوتا ہے ۔کہیں کچھ گروہ مذہبی اور مسلکی عصبیت کا نعرہ بلند کر کے عوام کے جذبات کو بر انگیختہ کرتے ہیں تو کہیں عسکری گروپ تشکیل پانے لگتے ہیں اور سب سے خوفناک رجحان جتھے بنا کر حملہ آور ہونا ہے ۔
ظاہر ہے غصے اور اجتماعی تُنک مزاجی کا نزلہ ہمیشہ کمزور پر گرتا ہے ۔کمزور مسلکی و مذہبی اقلیتیں ،صنفی اور نسلی طبقات اس کا نشانہ بنتے ہیں اور جب دنیا اس پر سوال اٹھاتی ہے تو ہمیں لگتا ہے کہ پوری دنیا ہمارے خلاف ہو گئی ہے ۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہے جنہیں دنیا کے پسماندہ اور ترقی پزیر ممالک میں بھی برے امیج کا سامنا ہے اور جس کے شہریوں پر ملک سے باہر جانے کے لئے ویزے کی کڑی شرائط عائد ہیں ۔کچھ عرصہ پہلے تک سارک کے بعض ممالک نے ویزہ پابندیوں کونرم کیا تھا۔ نیپال ،سری لنکا ،مالدیپ اور بھوٹان میں تمام سارک ممالک کے شہریوں کو ائیرپورٹ پر مفت ویزہ کی سہولت دی گئی ۔لیکن یہ ممالک بھی آہستہ آہستہ پاکستان کے لئے یہ سہولت ختم کر رہے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کی کمزور اقلیتیں اور مسالک کی شناخت کے حامل شہری ان ممالک میں پناہ لے رہے ہیں ۔ پہلے مغرب کے دروازے بند ہونے کے بعد ملائشیاء ، انڈونیشیاء اور خصوصاً تھائی لینڈ ایسے کمزور طبقات کی منزل بنے لیکن وہاں سختیوں کے بعد نیپال اور سری لنکا جیسے ممالک ان کی منزل ٹھہرے ۔اندرونِ سندھ سے ہندو پاکستانیوں کی بھارت نقل مکانی کی خبریں بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔
ا س مسئلے کا کیا حل ہے ؟ بہت سے لوگ سوچ رہے ہیں لیکن کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی۔جذبات کا لاؤ بھڑک رہا ہے جس میں کمزور تو جل ہی رہے ہیں لیکن جھلس ہم خود ہی رہے ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ جھلسنے کا احساس بھی ختم ہوتا جا رہا ہے ۔