working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

عالم اسلام

بنگلہ دیش میں عسکریت پسندوں کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ

زیدالحسن

بنگلہ دیش کے دار لحکومت ڈھاکہ میں گزشتہ دنوں شدت پسندوں نے ایک کیفے پر حملہ کر کے بیس سے زائد غیر ملکیوں کو ہلاک کر دیا ۔ یہ حالیہ سالوں میں بنگلہ دیش کے اندر دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات ہے جس میں انسانی جانوں کا اتنا نقصان ہوا ۔ اس کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی ہے ۔اس سے پہلے بنگلہ دیشی حکام دولت اسلامیہ کی موجودگی سے انکاری رہے ہیں ۔زید الحسن نے اس مضمون میں بنگلہ دیش میں عسکریت پسندوں کے موجودہ ڈھانچے کا بڑی تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔(مدیر)

بنگلہ دیش کی حکومت ہمیشہ اس بات پر فخر کرتی آئی ہے کہ اس نے گزشتہ کئی سالوں کے دوران مسلسل کارروائیوں سے جماعت المجاہدین بنگلہ دیش کو بے دست و پا کردیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی دو نئے اسلامی شدت پسند بھی ابھر کر سامنے آئے ہیں جنھوں نے حالیہ سالوں میں اپنا وسیع نیٹ ورک قائم کر لیا ہے ۔ گزشتہ سال تک حکومت ان کی موجودگی کے بارے میں بے خبر رہی۔

ایک گروہ اپنا جھکاؤ القاعدہ کی طرف رکھتا ہے جبکہ دوسرے کہ ہمدردیاں دولت اسلامیہ کے ساتھ ہیں۔ القائدہ سے منسلک گروہ کا نام انصار الاسلام ہے۔ 2012ء میں بغاوت کی پاداش میں فوج سے نکالے گئے میجر ضیاء الحق اس کے عسکری کمانڈر ہیں۔ اس تنظیم کے جو لوگ گرفتار کئے گئے ہیں ان سے حاصل شدہ معلومات کے مطابق دو سو سے زیادہ تربیت یافتہ لوگ ملک بھر میں ایسے موجود ہیں جو سید محمد ضیاء الحق کے عزائم کو عملی شکل دینے میں مصروف ہیں۔ انصار الاسلام جسے پہلے انصار اللہ بنگلہ ٹیم کے نام سے جانا جاتا تھا بنگلہ دیش میں تیزی سے ابھرتاہوا گروہ ہے۔ جو القائدہ کو بنگلہ دیش میں القائدہ برِ صغیر کی طرز پر لانچ کرنا چاہتا ہے لیکن القائدہ بر صغیر جس کا ہیڈ آفس پاکستان میں ہے اس نے یہ آئیڈیا منظور نہیں کیا اور تجویز دی کہ انصار اللہ کا نام بدل کر انصار الاسلام رکھ دیا جائے جوالقائدہ برِ صغیر کی ایک شاخ کے طور پر ہی کام کرے۔

اس گروہ نے 2013-14کے دوران طاقت حاصل کرنا شروع کی بالخصوص بنگلہ دیش کے شمالی علاقوں میں اس کے اثر و نفوذ میں اضافہ ہو ا۔ اس نے جماعت المجاہدین، اہلِ حدیث، حفاظتِ اسلام، اور مختلف مدارس اور معاشی طور پر کمزور طبقات سے لوگوں کو بھرتی کرنا شروع کیا۔

دوسرا گروہ جو اپنا جھکاؤ دولت اسلامیہ کی طرف رکھتا ہے اس کی سربراہی بنگالی نژاد کینیڈین تمیم چوہدری کے پاس ہے۔ دولت اسلامیہ کے ترجمان رسالے ’’دبیق ‘‘ کے مطابق تمیم چوہدری اب شیخ ابو ابراہیم الحنیف کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہ ڈاکٹروں، انجنیئرز، ٹیکنالوجی کے ماہرین، آرکیٹکٹس اور دوسرے پڑھے لکھے افراد کو بھرتی کر رہا ہے۔ ’’دبیق ‘‘ کے ایک حالیہ شمارے میں تمیم نے دعوی ٰ کیا ہے کہ جماعت اسلامی کے طلبا ونگ ’’شبیر‘‘ بھی بنگلہ دیش میں اس کے گروپ کے ساتھ کام کر رہا ہے۔

اس کے گرفتار کچھ اراکین جن میں سپریم کورٹ کے سابق جج کا بیٹا، سابق فوجی افسر کا بیٹا، سابق بیورو کریٹ اور سابق نگران حکومت کا ایک مشیر بھی شامل ہے۔ اس کے گرفتار اراکین نے انکشاف کیا ہے کہ اس کے کچھ عسکریت پسند شام کی جنگ میں بھی حصہ لے چکے ہیں اور ابھی بھی ایک سو کے قریب عسکریت پسند جن میں خواتین بھی شامل ہیں وہ شام میں جنگی کارروائیوں میں شریک ہیں۔ ان میں سے کچھ مارے جا چکے ہیں۔ دولت اسلامیہ کے ترجمان رسالے ’’دبیق‘‘ نے مرنے والے ایسے ہی ایک شخص کے حالات زندگی چھاپے ہیں جس کا تعلق بنگلہ دیش سے تھا۔

دولتِ اسلامیہ سے منسلک اس گروہ کے دو اہم ونگ ہیں۔ جنوبی ونگ میر پور اور شمالی ونگ غازی پور میں قائم ہے۔ اس کا آپریشنل ہیڈ کوارٹر سوار اور تونگی میں ہے جبکہ اس کا تربیتی مرکز میر پور میں کام کر رہا ہے۔ بنگلہ دیش کے حکام ان مراکز کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

گزشتہ اٹھارہ مہینوں میں عسکریت پسندوں نے 47افراد کو(اس میں ڈھاکہ کے حالیہ واقعہ کے ہلاک شدگان کی تعداد شامل نہیں ) ہلاک کیا ہے۔ جن میں سے 28کی ذمہ داری دولت اسلامیہ اور 8کی انصار الاسلام نے قبول کی ہے۔ انصار الاسلام نے زیادہ تر ان لوگوں کو اپنا ہدف بنایا ہے جن کا تعل�آآزاد خیال لکھاریوں، بلاگرز اور ہم جنس پرستی کے حقوق کی تحریک سے تھا۔ انھوں نے ایسے اہداف منتخب کئے جن پر اسلام کی مخالفت کالزام لگ سکتا تھا یہی وجہ تھی کہ مارے جانے والے لوگ عام لوگوں کی ہمدردیاں حاصل نہیں کر سکے۔ جبکہ دولت اسلامیہ کا ہدف زیادہ تر وہ لوگ بنے جن کا تعلق ہندو، عیسائی، بدھ مت، بہائی رہنماؤں، پیروں، شیعہ، یونیورسٹی اساتذہ اور غیر ملکیوں سے تھا۔ حکام نے ان وارداتوں میں ملوث دونوں تنظیموں کے 150افراد کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جن میں سے 50کے بیانات قلمبند کر لئے گئے ہیں۔ جبکہ سات افراد دو طرفہ فائرنگ میں ہلاک ہو گئے۔ پولیس کے ذرائع کے مطابق یہ جنگجو نئے ہیں اور ان کا تعلق جماعت المجاہدین کے ساتھ نہیں ہے۔ انھوں نے پیغام رسانی کا اپناسافٹ ویئر بنا لیا ہے اس لئے پولیس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ ان کے اطلاعاتی نظام تک رسائی حاصل کر سکے۔ دہشت گردوں کی یہ نئی کھیپ نہ صرف تعلیم یافتہ ہے بلکہ اپنے معاملات میں بہت ماہر بھی ہے اور اس کے روابط دہشت گردوں کی عالمی تنظیموں کے ساتھ قریبی نوعیت کے ہیں۔ ایک اعلیٰ سیکورٹی اہلکار کے مطابق ہم جب جماعت المجاہدین کے خلاف کارروائیوں میں شریک تھے تو ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اسی دوران دولت اسلامیہ سے منسلک ایک گروہ منظم ہو رہا ہے ہمیں اس کی بھنک گزشتہ نومبر میں پڑی۔

اس کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش کے حکام نے جماعت المجاہدین پر قابو پا لیاہے ۔ وہ دولت اسلامیہ سے منسلک گروپ پر بھی قابو پا لیں گے لیکن اس کے لئے وقت درکار ہو گا۔ کیونکہ وہ کسی بھی دوسرے عسکری گروپ کے مقابلے پر زیادہ منظم ہیں، زیادہ جانفشانی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ بہت چوکس اور ہلاکت خیز بھی ہیں۔ کسی بھی بڑے حملے سے پہلے وہ اس میں شریک افراد کی نماز جنازہ پڑھتے ہیں اور ان کے اعزاز میں الوداعی پارٹی کا انعقاد کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اگر انھیں گرفتار کیا گیا تو ساتھ ہی انھیں مار دیا جائے گا۔

حکام کے مطابق انھوں نے دولتِ اسلامیہ اور انصار الاسلام کے کئے بڑے منصوبوں کو ناکام بنایا ہے جن میں مغربی ملک کے سفارتخانے پر حملہ بھی شامل تھا۔ اس منصوبے کی اطلاع ملتے ہی حکام نے چھاپہ مار کر بھاری مقدار میں اسلحہ اور بارود بر آمد کر لیا جس کی مدد سے کئی منزلہ عمارت کو اڑایا جانامقصود تھا۔ سیکورٹی حکام کے مطابق ایسی ہی ایک اطلاع پر پولیس کو بیساکھی میلہ بھی روکنا پڑا۔ حکام کو اطلاع ملی کہ عسکریت پسند اہم تنصیبات اور شخصیات کونشانہ بنا نے والے ہیں۔ انھوں نے یہاں تک منصوبہ بندی کی کہ کیسے ایک پرائیویٹ ٹیلی ویژن پر حملہ اور قبضہ کر کے اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ تاکہ اس طرح دنیا کی توجہ بھی حاصل کی جا سکے۔

22مئی کو کابینہ کی امنِ عامہ کی کمیٹی کے سربراہ عامر حسین امو نے میڈیا کو بتایا جماعت المجاہدین حالیہ دنوں میں ہونے والی قتل کی 25 وارداتوں، انصار الاسلام 8اور دوسرے عسکری گروہ چار وارداتوں میں ملوث ہے۔ امو کادعوی ٰ ہے کہ ان ہلاکتوں میں دولتِ اسلامیہ کی شمولیت کے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے۔ اس کے مطابق جن ہلاکتوں کی ذمہ داری دولت اسلامیہ نے قبول کی ان کی انجام دہی جماعت المجاہدین نے ہی کی تھی۔ وزیر داخلہ اسد الزمان خان نے بھی کہا ہے کہ تمام ہلاکتیں باقائدہ منصوبہ بندی سے ہوئیں اور یہ کہ ملک میں دولت اسلامیہ کا کوئی وجود نہیں ہے۔ جبکہ سیکورٹی اہلکاروں کاکہنا یہ ہے کہ ملک میں دولت اسلامیہ وجود رکھتی ہے یا نہیں اس سے قطع نظر یہ حقیقت ہے کہ خطرہ نہ صرف موجود ہے بلکہ یہ حقیقی بھی ہے۔ یہ گروہ اس وقت تک پھلتے پھولتے رہیں گے جب تک حکومت ان کے بارے میں کوئی نئی حکمتِ عملی ترتیب نہیں دیتی۔ Counter-Terrorism and Transnational Crime (CTTC) کے سربراہ منیر الاسلام کے مطابق عراق، شام اور افغانستان میں جیسے جیسے عسکریت پسندوں کے لئے حالات ساز گار ہو رہے ہیں ویسے ہی وہ اپنی نظریں بر صغیر پر مرکوز کر رہے ہیں۔ اور وہ لوگ جو جہادی نقطہ نظر رکھتے ہیں وہ لوگ ان عسکریت پسند گروپوں میں شامل ہو رہے ہیں۔ دولت اسلامیہ اور القائدہ آن لان وڈیوز کے ذریعے اپنے نظریات کی تبلیغ کرتے ہیں تاکہ لوگ ان گروپوں میں شمولیت اختیار کریں۔ منیر الاسلام نے کہا کہ موجودہ عالمی صورتحال میں یہ ممکن نہیں ہے کہ عسکریت پسندی کامکمل خاتمہ کر دیا جائے مگر ہماری کوشش ہے کہ ہم اس خطرے کو محدود ضرورکردیں۔

(انگریزی سے ترجمہ : سجاد اظہر )