working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

قومی منظرنامہ

پاکستان کے شہر کس حال میں ہیں ؟

سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر کراچی کی سالانہ رپورٹ سے اقتباس

انسان جب تہزیب یافتہ ہوا تو اس نے شہر بسائے آج بھی دنیا میں کسی بھی تہذیب کی یافت کی علامت یہ ہے اس کے شہر کتنے منظم ہیں ،وہاں معیارِ زندگی کتنی بلندیوں پر ہے ۔پوری دنیا میں یہ رجحان ہے کہ لوگ دیہات سے شہروں کی جانب منتقل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے دیہات ،قصبوں ، قصبے چھوٹے شہروں اور چھوٹے شہر بڑے شہروں میں تبدیل ہو رہے ہیں اور جو بڑے شہر ہیں ان میں سے بعض پر ملکوں کا گماں ہوتا ہے۔ پاکستان میں چونکہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے اور اس کی واضح جھلک شہروں میں نظر آتی ہے جہاں مسائل کا انبار نطر آتا ہے ۔سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر کراچی ہر سال پاکستان میں شہروں کے مسائل وسائل پر سالانہ رپورٹ جاری کرتا ہے اس سال کی The State of Social Development in Urban Pakistan 2016رپورٹ کا خلاصہ ذیل میں رقم کیا جا رہا ہے۔ اس سے سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ پاکستان میں شہر اور ان میں بسنے والی زندگی کن حالات میں ہے ۔(مدیر )

یہ باب پاکستان کی شہری معیشت کے سائز، اُس کی نشوونما اور مرکب کی مقدارنیز شہری آمدنی کی غیر منصفانہ تقسیم کو ظاہر کرتا ہے۔ شہری علاقے پاکستان کی آبادی کا انتالیس فیصد حصہ ہیں۔ تاہم دیہی شہری ہجرت موجودہ سالوں میں کم ہو چکی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بڑے شہروں میں سکیورٹی کے مسائل اور امن و امان کی کمزور صورتِ حال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 2008ء میں شہری آبادی کی نمو 2.8فیصد کے قریب تھی، اس کا مفہوم یہ ہے کہ شہری آبادی 2014میں سات کروڑ چالیس لاکھ تھی۔ جہاں تک شہری آمدنی کے سائز کا تعلق ہے، ایک اندازے کے مطابق تقریباًیہ مجموعی ملکی پیدوار (GDP) جو صنعتوں اور خدمات کے شعبے پر محیط ہے، کے نصف کا تخمینہ ہے۔ شہری آمدنی میں قابلِ توجہ نمو کے تحرک کی علاما ت 6.5فیصد کی اعلیٰ ترقی کی شرح کے ساتھ 2001.2سے 2007.8 تک دیکھی جاسکتی ہیں، لیکن تب صنعتوں میں زوال کی وجہ سے یہ شرح تیزی کے ساتھ نیچے آگئی۔ وہ شعبے جہاں ویلیو ایڈڈشہری علاقوں میں تجاوز کررہے تھے، اُن میں پچاس فیصد قومی ویلیو ایڈڈ، بشمول بینکنگ، اور انشورنس، بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ، ہول سیل اور پرچون تجارت، مکانات کی ملکیت، بجلی اور گیس، ٹرانسپورٹ اور ذرائع ابلاغ اور سماجی و معاشرتی خدمات کے شعبے ہیں۔

عالمی بنک کے تخمینوں کی بنیا دپر ایک کروڑ اسی لاکھ آبادی کے ساتھ، کراچی دُنیا کا تیسرا بڑا میٹروپولیٹن شہر ہے۔ پاکستان کے سات دوسرے شہروں کی آبادی کم ازکم بیس لاکھ ہے۔ تاہم تجزیے ظاہر کرتے ہیں کہ دوبڑ ے شہر کراچی اور لاہور آبادی کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں۔ اس کے برعکس، اس بات کی ضرورت ہے کہ درمیانے درجے کی آبادی والے شہروں کو فروغ دیا جائے، خاص طور پر پنجاب میں، اورکوئٹہ جیسے چھوٹے شہروں میں۔ ہرشہرکی فی کس آمدنی میں تغیر کے قابلِ ذکر ثبوت بھی، خاص طورپر سندھ کے شہروں کے درمیان مو جود ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں کی فی کس آمدنی کی اوسط چھوٹے شہروں کی نسبت تینتیس فیصدزیادہ ہے۔ یہ تناسب (51فیصد)سندھ میں بہت زیادہ ہے جبکہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اوسطاً فی کس آمدنی چھوٹے شہروں کی نسبت بڑے شہروں میں تئیس فیصد زیادہ ہے۔

پاکستان کے شہروں میں عوامی خدمات کی رسائی اور استعمال:

تیز رفتار شہر کاری کے نتیجہ کے طور پر موجودہ شہری ڈھانچے پر تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، سیوریج، کوڑا کرکٹ اُٹھانے کے انتظامات، کا دباؤ ہے۔ یہ باب پاکستان کے شہری علاقوں میں عوامی خدمات تک رسائی اور ان کا مناسب استعمال پر تجزیہ پیش کرتا ہے۔ گذشتہ دودہائیوں سے زائد، پاکستان کا تعلیمی لینڈ اسکیپ مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے۔ نجی شعبہ تعلیمی سہولیات مہیا کرنے کی مَد میں خصوصاًشہری علاقوں میں بنیادی شعبہ کے طورپر اُبھر کر سامنے آچکا ہے۔ Social and Living Standards Measurement (PSLM)کے سروے کے مطابق، سرکاری سکولوں میں پرائمری اندراج 2001ء سے 2014ء کے درمیان 60تا 75فیصد تنزلی کا شکا ر ہو چکا ہے۔ نجی تعلیمی اداروں میں مقابلتاًمعیاری تعلیم وسیع پرائمری اندراج کے لیے اپنا حصہ ڈال چکی ہے۔ مجموعی طور پر شماریات سے واضح ہوتا ہے کہ کل بچوں کا پینتیس فیصد(پانچ تا نو سال کی عمر)چھوٹے شہروں کے سرکاری سکولوں میں داخل ہے جہاں یہ مرکزی شہروں کے معاملے میں بائیس فیصد ہے۔ یہ پبلک سکولوں اور شہروں کے تناسب کے مابین معکوس تعلقات کے واضح اشارے ہیں۔

شہری صحت کے شعبے میں صورتِ حال ایک جیسی ہے، جہاں عوام کو صحت کی سہولیات کے استعمال کی شرح، ناقص رسائی اور معیار کے مسائل کی وجہ سے، تنزل پذیر ہے۔ نتیجے کے طورپر صحت کا نجی شعبہ خلا کو پُر کرنے کے لیے اُبھرکر سامنے آچکا ہے، لیکن کسی قاعدے اور ضابطے کا نظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ کافی حد تک استحصالی کردار اداکررہاہے۔ ماسوا حفاظتی ٹیکوں کے، شہری علاقوں میں ڈائریا اور ملیریا کے علاج اور بنیادی صحت کی خدمات بہت زیادہ کم ہیں۔ خواتین کو بچے کی پیدائش سے قبل او ر پیدائش کے بعد مشورہ کے لیے، صحتِ عامہ کی سہولیات پہلے ہی بہت کم دستیاب ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں معمولی بہتری محسوس کی گئی ہے۔

شہری علاقوں کو روزبہ روزپانی کی قلت اور پانی کی سپلائی کے ناقص معیار کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیرِ زمین پانی کے ذرائع کا خاتمہ ہورہا ہے، علاوہ پانی کی تقسیم کے نیٹ ورک میں اس کی چوری ہے۔ پی ایس ایل ایم کے سروے کے مطابق باون فیصدگھروں میں پانی کے کنکشن کے پائپ موجود ہیں۔ مثال کے طور پر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے شہروں کے اکتالیس اور پینتیس فیصد گھرانے پینے کے پانی کے لیے موٹروں اور ٹیوب ویلز کا استعمال کرتے ہیں۔ شہر کے باسیوں کو پائپس کے ذریعے پانی مہیاکرنے کا رجحان، خاص طور پر چھوٹے شہروں میں اُس بگاڑ کو واضح کرتا ہے، جو عوامی خدمات کی سطح میں ہے۔ پنجاب کو چھوڑ کر، پانی کی دستیابی کی شرائط کی صورتِ حال قابلِ رحم ہے۔ مثال کے طورپر بلوچستان میں بیاسی فیصد شہری گھرانوں کو اور سندھ میں رپورٹ کے مطابق دن میں تین گھنٹے سے کم پانی دستیاب ہوتا ہے، جبکہ پنجاب میں یہ شرح بائیس فیصد ہے۔

مجموعی طورپر اُنسٹھ فیصدشہری گھرانے پبلک سیوریج سسٹم کے ساتھ منسلک ہیں، اگرچہ صوبائی دارالحکومت اور دوسرے بڑے شہر وں کو چھوٹے شہروں کے مقابلے میں بہتر اہمیت حاصل ہے۔ ایک تشویشناک بات یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے صرف سات فیصد گھرانوں کو یہ سہولت میسر ہے۔ استعمال کی شرائط میں سندھ اور بلوچستان کے شہری علاقوں میں بالترتیب اعلیٰ ترین اور کم ترین اس سہولیات کو استعمال کرنے کے واقعات ہیں۔ یہ نوٹ کرنا بہت دلچسپ ہے کہ پنجاب کے شہری علاقوں میں تقریباًپینتالیس فیصد گھرانے پبلک سیوریج کی سہولیات کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ یہ قابلِ فکر بات ہے کہ صرف تینتالیس فیصد شہری گھرانوں کے پاس ٹھوس کوڑے کو ضائع کرنے کا رسمی نظام ہے، جبکہ گھروں سے کوڑا اُٹھانے کا تناسب صرف چھبیس فیصد ہے۔ جہاں تک بنیادی رہائشی سہولیات تک رسائی کا تعلق ہے جیسا کہ بجلی، کھانا پکانے کے لیے گیس اورٹیلی فون کنکشن وغیرہ، اگرچہ زیادہ تر شہری گھرانوں کو ان سہولیات تک رسائی ہے۔ چھوٹے بڑے شہرں کی تخصیص سے قطع نظر، یہاں وسیع پیمانے پر بجلی کی بندش، گیس لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے شدید مسائل ہیں۔

شہری سہولتوں پر شہریوں کے تصورات

نتائج سے معلوم پڑتا ہے کہ شہروں کے پچیس فیصد رہائشی خیال کرتے ہیں کہ کرپشن ملکی و مقامی ترقی کے لیے رکاوٹ ہے، جبکہ بیس فیصد کے خیال کے مطابق، سکیورٹی مسائل اور تیرہ فیصد کے مطابق غربت اس کی وجہ ہے۔ جہاں تک عوامی سہولیات مہیا کرنے میں ترجیحات ہیں توپہلے نمبر پر کوڑا کرکٹ کو تلف کرنا اور دوسرے نمبر پر صاف پینے کا پانی مہیا کرنا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بلوچستان کے شہریوں کے خیالات دوسرے صوبوں کے شہریوں کے خیالات سے الگ ہیں۔ جیسا کہ ساٹھ فیصد لوگوں کی ترجیح تعلیم اور قانون کی عملدرآمدی ہے۔ دوسری طرف دوسرے صوبوں میں پچپن سے اکسٹھ فیصد لوگوں کی ترجیح میں کوڑا اُٹھانا، پانی کی ترسیل اور سڑکیں شامل ہیں۔

جہاں تک پینے کے پانی کی دستیابی ہے، تویہ تشویش ناک بات ہے، حکومت کی کارکردگی کا اندازہ، نجی ذرائع سے پانی کے حصول کے واقعات پر لگایا جاسکتا ہے۔ مجموعی طور پر پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بالترتیب ساٹھ، تریپن، چالیس اور ستر فیصد گھرانے پانی خریدتے ہیں۔ پنجاب کے شہروں میں پانی کا معیار بڑے مسئلے کو ظاہر کرتا ہے۔ جبکہ بلوچستان میں نلوں میں پانی کی ناکافی اور کم پریشر ترسیل بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ نتائج سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں باقی صوبوں کی نسبتاً، ان کی گلیاں زیادہ صاف ستھری، اور کوڑا کرکٹ ایک جگہ پر اکٹھا کرکے تلف کیا جاتا ہے اور سیوریج کا نظام زیرِ زمین ہے۔ یہ قابلِ ذکربات ہے کہ تیس فیصد گھرانے، کوڑاکرکٹ اکٹھا کرنے کی نجی سہولت استعمال کرتے ہیں، سوائے خیبرپختوا کے جہاں یہ اوسط نو فیصد ہے۔

عوامی ہسپتالوں تک رسائی اور معیار کے لحاظ سے سب سے زیادہ 73فیصد صارف کے پی کے سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ سب سے کم 44فیصد سندھ سے ہیں۔ عوامی ہسپتالوں تک رسائی نہ ہونے کی سب سے بڑی وجوہات میں باصلاحیت ڈاکٹروں کی کمی اور سرکاری ہسپتالوں کا دور دراز ہونا ہے۔ ایک اہم نتیجہ یہ ہے کہ کے پی کے، کے شہروں میں سب سے زیادہ عوامی ٹرانسپورٹ استعمال کی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر ان سارے مسائل کے باوجود بہت کم تعداد میں شہری (بارہ سے چودہ فیصد)متعلقہ شعبوں میں شکایات درج کرواتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ فضول مشق ہے۔ سروے اس بات کا ثبوت پیش نہیں کرتا کہ لوگ عوامی خدمات کے حصول کے لیے منتخب کونسلروں پر اعتماد کرتے ہیں۔ مثال کے طورپر تقریباً40فیصد پنجاب اور کے پی کے، کے رہائشی مقامی نمائندوں کے کردار کو نہیں مانتے۔

مقامی حکومتیں اور شہری خدمات کی فراہمی

اَٹھارہویں ترمیم کے تحت فلاحی کاموں کی تمام ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل ہو چکی ہیں، جنہوں نے مزید اپنی کارآمد ذمہ داریاں اور مالی معاملات مقامی حکومتوں سے شیئر کیے ہیں۔ تاہم میونسپل ڈھانچے اور سروسز بڑھتی ہوئی شہری آبادی کے ساتھ اپنی رفتار برقرار رکھنے میں ناکام ہوئی ہیں۔ جس کے نتیجے میں ضروری سروسز کی مانگ اور فراہمی میں خلاء پیدا ہوگیا ہے۔ چاروں صوبوں کے مقامی حکومتوں کے ایک تقابلی جائزے سے یہ سامنے آیا ہے کہ کے پی کے LGO 2001سے متاثرہے جبکہ باقی صوبوں کی مقامی حکومتوں میں قانون سازی کا ڈھانچہ LG01979سے مماثلت رکھتا ہے۔

سوائے خیبر پختونخوا کے جہاں بہت سے سماجی اور اقتصادی محکموں جیسے کہ تعلیم، صحت، سماجی بہبود، واٹر سپلائی اور صحت و صفائی کے دفاتر مقامی حکومتوں کو منتقل کیے گئے ہیں۔ باقی صوبوں میں صرف بنیادی میونسپل کے کام مقامی حکومتوں کے سپرد کیے گئے ہیں۔ جیساکہ صحت و صفائی، واٹر سپلائی، کوڑا اٹھانے، سڑکیں اور گلیاں، سٹریٹ لائٹس، پارکس اور کھیل کے میدان۔ جہاں تک سماجی خدمت کی منتقلی کے ممکنہ مضمرات کی بات ہے، 2001ء پلان کی منتقلی کے دوران رجحان کو دھیان میں رکھتے ہوئے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ نئی مقامی حکومتیں اس قابل ہوں گی کہ سماجی خدمات کی بگڑتی ہوئی حالت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرسکیں۔ اگر انہیں وسائل اور اختیار میسر ہو۔ سماجی بہتری میں پیشرفت بہرحال ہر صوبے میں مرکزی اقتدار کے مطابق ہی ہوگی۔ اس لحاظ سے باقی صوبوں کی نسبت خیبر پختونخوا میں سماجی خدمات کی ترسیل میں بہتری کے زیادہ امکانات ہیں۔

شہری تناظر میں غربت کا شمار

پالیسی ساز عام طور پر غربت کو دیہی رجحان کی بنیادی وجہ سمجھتے ہیں اور غربت کو کم کرنے والے اکثر پروگرام دیہی آبادی کے بنیادی ڈھانچے اور حفاظت کے خطوط پر توجہ دیتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک غریب شہری جو منافع بخش روزگار اور صحت کے بنیادی ڈھانچے جیسے مسائل کا سامنا کرتا ہے، اس کا عام طور پر کم تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ شہری غربت پر توجہ دینے کے لیے مخصوص اقدامات کرے۔ غربت کے تخمینے سے یہ ظاہر ہوا کہ 2011.12ء میں 35فیصدشہری آبادی غریب تھی، توقع کے مطابق پنجاب میں یہ شرح کم، یعنی 34فیصد جبکہ بلوچستان میں سب سے زیادہ 48فیصد ہے۔ نتائج یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ 2001.02ء میں شہری غربت کی شرح میں اضافے کے رجحان کو دیکھا گیا، اس کے بعد 2002ء سے 2005ء کے درمیان کچھ کمی ہوئی اور پھر ا س کے بعد اضافہ ہوا۔ شہروں میں غربت کا تخمینہ لگانے سے یہ ظاہر ہوا کہ چھوٹے شہروں اور قصبوں میں غربت زیادہ ہے۔ اوسطاً43فیصد لوگ عام شہروں میں غربت کے زمرے میں آتے ہیں جبکہ 26فیصد صوبائی دارالحکومتوں اور وہاں کے لوگ غریب ہیں۔ غربت ختم کرنے کی مؤثر اور بامعنی حکمت عملی بنانے کے لیے شہری گھرانوں کی تنگ حالی اور سماجی آبادی اور معاشی صفات کے درمیان تعلق پر غور کرنا چاہیے۔ نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ خاندان کا سائز بڑھنے اور انحصار کا تناسب بڑھنے سے غربت میں اضافہ ہوا، جس سے بہبود آبادی کے پروگراموں کی اہمیت کو تقویت ملی۔ تاہم گھر کے سربراہ کی تعلیمی سطح بڑھنے اور گھر کے اثاثوں کے ذخیرے سے غربت کم ہورہی ہے۔ اس تجزیے سے ایک بات معلوم ہوئی ہے کہ خاتون کی سربراہی والے گھرانے اور شہری غربت مثبت انداز میں باہمی تعلق رکھتے ہیں۔ خاص طور پر ایسے کیسز جہاں خاتون پر پورے گھر کی ذمہ داری ہو، مرد کی وفات یا اس کی غیر موجودگی کی وجہ سے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بیرون ملک سے ترسیلات زر گھرانوں کے معیار زندگی کو بہتربنانے میں اہم کردار اداکرسکتی ہیں۔ سوائے کیلوریز کے دوسرے غذائی اجزا کی شدید کمی کے رجحان کا بھی تجزیہ کیا گیا۔ اس تجزیے سے ظاہر ہوا کہ 80فیصد گھرانے وٹامن اے، آئرن، آئیوڈین اور زنک روزانہ کے لیے تجویز شدہ مقدار سے کم لیتے ہیں۔

غربت کے درجے کے لحاظ سے اگر اعداد و شمار کا تجزیہ کیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ تقریباً95فیصد غریب گھرانے بتائے گئے غذائی اجزا کی شدید کمی کا شکا رہیں۔ اس صورتِ حال میں غریبوں کے لیے غذائی مداخلت کی سکیموں کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب جن گھرانوں میں غربت نہیں ہے، وہاں غذائی اجزا کے ذرائع کے لیے آگاہی زیادہ ہو رہی ہے۔

پائیدار شہری زندگی

صنعت اور خدمات میں اضافہ کی توجہ زیادہ تر شہروں میں مرکوز ہے۔ جس کا مطلب بڑے پیمانے پر دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت ہے۔ اس لیے اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ترقی میں یہ تبدیلی کسی عمل کے تحت ہونی چاہیے۔ تاہم تجزیات سے یہ ظاہر ہورہا ہے کہ بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کی طرف سے امن و امن کی صورتِ حال میں شدید بگاڑ سے شہروں کی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اگر ایشیا کے اہم شہروں سے موازانہ کیا جائے دوبڑے شہروں کراچی اور لاہور میں درمیانی سطح کی آبادی ہے۔ حقیقت میں کراچی کی آبادی 17400فی مربع کلومیٹر کے ساتھ دہلی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے، لیکن یہ بنیادی ڈھانچے میں بہت پیچھے ہے۔ جیسا کہ ٹرانسپورٹ کا نظام، اس کے علاوہ پاکستان کے بڑے شہروں میں دہشت گردی، تشدد اور جرائم کی وجہ سے لوگوں کی حفاظت میں خرابی کی بہت سی شکلوں میں بھاری قیمت چکانی پڑی، جس میں اقتصادی عمل میں خلل اور سرمایہ کاری کی پاکستان کے اندر اور باہر منتقلی شامل ہے۔ اگرچہ 2010سے 2014کے درمیان چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں دہشت گردی کے عمل میں مجموعی طور پر کمی واقع ہوئی ہے۔ پائیدار شہری ترقی بنیادی طور پر بڑے شہروں میں جرائم کے واقعات بڑھنے سے متاثر ہوئی ہے۔ اس لیے یہ امر باعث حیرت نہیں کہ ملک کے باقی شہروں سے کراچی کی طرف ہجرت میں گذشتہ پانچ سالوں میں کمی آئی ہے۔

گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی آلودگی جو کہ شہروں کے اندر یا ان کی حدودکے باہر صنعتوں سے آلودگی کے اخراج سے مزید بڑھ جاتی ہے اور یہ کسی چیلنج سے کم نہیں۔ اس دوران پانی کے مناسب معیار اور مقدار کا حصول، بڑھتی ہوئی شہری آبادی کا ایک مسئلہ ہے۔ یہاں بڑھتی ہوئی شہری آبادی کی وجہ سے مزید اور بھی مسائل ہیں، جیسا کہ بجلی اور گیس کی توسیع، سیوریج اور سکیورٹی اقدامات وغیرہ۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ پاکستان کے شہر، شہروں میں میعارِ زندگی کے لحاظ سے بین الاقوامی درجہ بندی میں سب سے نیچے آتے ہیں۔ یہ صاف طور پر پائیدار شہری ترقی کے لیے مضمرات ہیں اور اس چیز کا اعادہ کرتے ہیں کہ ملک کے دوسرے شہروں کی ترقی پر غور کرنا چاہیے۔

(تلخیص و ترجمہ : احمد اعجاز )