working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان میں دینی مدارس اور حالیہ تناظر

فکر و نظر

بیانیہ کی تشکیل میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن اوراسلامی نظریاتی کونسل کا کردار

ڈاکٹر رشید احمد

ڈاکٹر رشید احمد شیخ زید اسلامک سینٹر پشاور میں درس و تدریس سے منسلک ہیں ۔عالمی سطح پر کئی کانفرنسوں اور سیمنارز میں شرکت کر چکے ہیں۔بین المذاہب رواداری پر آپ کی کئی علمی و فکری کاوشیں منظرِ عام پر آچکی ہیں ۔پاکستان میں قومی بیانئے کی تشکیل میں پاکستان کے اعلی ٰ تعلیمی کمیشن اور اسلامی نظریاتی کونسل کے کرادر پر آپ نے بڑے مفصل انداز میں روشنی ڈالی ہے ۔کیونکہ یہ دونوں ادارے پاکستان کی نظریاتی و سماجی ساخت میں بہت اہم مقام کے حامل ہیں(مدیر)۔

پاکستان کا قومی بیانیہ کیا ہونا چاہیے؟ مدارس کا بیانیہ کیا ہے؟ مغرب کے متعلق بیانیہ کیا ہے؟ غیر ریاستی عناصر کون سا بیانیہ رکھتے ہیں؟ اس قسم کے لاتعداد سوالات اور اشکالات نے معاشرے کے ایک بڑے حصہ کو پریشان کر رکھاہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کے اذہان سے اس قسم کے شکوک اور شبہات دور کرنے کے لئے اقدامات ہوں۔

جہاں تک لفظ بیانیہ کا تعلق ہے تو اس کو بسا اوقات دوسری اصطلاحات مثلا ہدف، مقصدوغیرہ کا متبادل سمجھا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ اہل علم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ لغتہ اور اصطلاحی لحاظ سے اس کے معانی و مفہوم کا تعین کریں۔

بیانیہ کے بارے معرف دانشور اور کالم نگار یاسر پیرزادہ صاحب لکھتے ہیں۔

’’کسی بھی بیانئے کے تین حصے ہوتے ہیں،پیغام، پیام بر، اور پیغام رسانی کا ذریعہ۔ پیغام سیاسی بھی ہوسکتا ہے، سماجی بھی اور تاریخی اور مذہبی نوعیت کا بھی، پیغام پہنچانے والے کا معتبر ہونا لازمی ہے، اس کا کہا ہوا سند ہو، لوگ اس پر یقین کریں، وہ بااثر ہو اور پیغام پہنچانے کا اختیار رکھتا ہو‘‘(روزنامہ جنگ 24 ستمبر، 2015)

در حقیقت بیانیہ ایک جامع اصطلاح ہے اور اس کا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہو سکتاہے، اسی طرح ادب میں بیانیے کا ایک الگ مفہوم ہے اور تاریخ و سماجیات میں الگ۔ بعض اوقات تاریخ کے حوالے سے کوئی ایسی رائے پیش کی جاتی ہے جس کی بنیاد حقائق کے بجائے فرد کا ذاتی میلان پر ہوتی ہے اور اس وجہ سے غلط فہمیاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ اسی طرح ایک نقطہ نظر آہستہ آہستہ بیانیہ کی شکل اختیارکر جاتا ہے۔ جس کے دور رس نتائج ہوتے ہیں۔ یہی حال سماجی، سیاسی اور مذہبی معاملات کا ہے۔ لیکن ان سب میں خطرناک اور تشویش ناک صورتِ حال مذہبی بیانیوں کی ہے کیونکہ ، فرقہ واریت، تشدد اور عدم رواداری اسی جہ سے پیدا ہوتے ہیں، جس سے پورا معاشرہ انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کی واضح مثال ہمارے ملک کے حالات ہیں جوکہ دن بدن بگڑ رہے ہیں۔ یہاں کئے مسالک ہیں جن کے اپنے اپنے بیانئے ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر ٹھنڈے دماغ سے سوچاجائے تاکہ قوم کواس ذہنی اذیت سے چھٹکارہ ملے۔

اگر چہ آج کل بہت سے بیانئے زیر گردش ہیں تاہم ان میں سے بطور مثال چند حسبِ ذیل ہیں۔

1 مغرب اسلام کے خلاف سازش کررہاہے۔

2 مغرب اور مسلمانوں کے درمیان موجودہ کشمکش دراصل صلیبی جنگوں کا تسلسل ہے۔

3 مغرب مسلمان ملکوں میں اسلامی پارٹیوں کو برسر اقتدار نہیں آنے دیتا۔

4 مغرب مسلمان ممالک کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے درپے ہے۔

5 مغرب مدارس کے نظام کوختم کرنے کے درپے ہے۔

6 مغرب اسلام دشمنی میں اسرائیل کی تائید کرتا ہے۔

7 برائیوں کے قلع قمع کے لئے مسلح جدوجہد ہی واحد راستہ ہے۔

8 دستورِ پاکستان غیر اسلامی ہے اس لئے یہاں مسلح جدوجہد ہی تبدیلی کا بہترین ذریعہ ہے۔

9 غیر مسلموں کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق جائز نہیں۔

10 قیامِ خلافت فرض ہے۔

11 ہر فرد کو کسی بھی طریقہ سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی شرعی اجازت ہے۔

12 مغرب کا زوال قریب ہے۔

13 مغرب اسلام سے خوفزدہ ہے۔

14 مغرب مسلمانوں کا دشمن ہے۔

15 جمہوریت عین اسلامی طرزِ حکومت ہے۔

16 جمہوریت کاا سلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

یہاں یہ ملحوظ رہے کہ ضروری نہیں کہ ہر بیانیہ غلط ہو۔ عین ممکن ہے کہ کچھ بیانئے بالکل صحیح ہوں، کچھ کسی حد تک صحیح ہوں اور کچھ غلط جب کہ کچھ سرے سے ہی غلط ہوسکتے ہیں۔ ان بیانیوں کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ سے ہوسکتا ہے۔ اس صورت حال سے بری الذمہ ہونے کے بہترین فورمز ایچ ای سی اور اسلامی نظریاتی کونسل ہوسکتے ہیں۔

چونکہ بیانیہ کی نہ صرف مذہبی، سماجی اور سیاسی اہمیت ہے بلکہ اس کی تعلیمی اہمیت کسی بھی طور سے کم نہیں۔ کیونکہ عصر حاضر کی دنیا میں جامعات کا بہت اہم کردار ہے اور جامعات کے اس کردار کو تسلیم بھی کیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان میں بھی جامعات اپنا موثر کردار ادا کریں۔ اس حوالے سے اعلیٰ تعلیمی کمیشن( ایچ۔ ای۔ سی۔)کی گراں قدر خدمات ہیں تاہم اس کو مزید موثر اور مربوط بنانے کی ضرورت ہے۔ بیانیوں کی تشکیل کے حوالے اس سے یہی امید کی جاسکتی ہے کہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ

1: تمام جامعات سے ماہرین کا انتخاب ہو۔

2: کئی روزہ کانفرنسز اور ورکشاپ کا انعقاد ہو جس میں حسب ذیل امور طے ہوں

ا: بیانیہ کے مفہوم کی وضاحت

ب: بیانیہ اور اس کے دیگر ذات الصلہ الفاظ سے تمیز کرنا۔

ج: بیانیوں کی فہرست کی تیاری۔

حسب بالا امور طے کر نے کے بعد اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار شروع ہوگا۔مناسب یہ ہوگا کہ کونسل اس حوالے سے ماہرین کے ساتھ غیر رسمی بحث و تمحیص اور گفتگو کا آغاز کریں تاکہ درپیش مسئلہ کے بارے میں یکسوئی حاصل کی جاسکے۔ پاکستان کے تناظر میں اگر دیکھاجائے تو اس حوالے سے کونسل کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس میں تمام مکاتب فکر کی نمائندگی موجود ہے۔ ابتدائی طور پر قوم و ملت کو درپیش مسائل کے حوالے سے ایک سوالنامہ مرتب کرنا ہوگا اور اس کو تمام مکاتب فکر کے متعلقہ بورڈز کو بھیجنا ہوگا تاکہ وہ ان پر اپنے درمیان سیر حاصل بحث کرسکے۔ دوسرے قدم کے طور پر کونسل اپنا ایک بھر پور اجلاس منعقد کرے جس میں مستقل ممبرز کے علاوہ ان نمائندوں کو بھی بلایا جائے جن کی نامزدگی متعلقہ مکتبہ فکر کرتی ہے۔ ان ماہرین کے آراء سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں جن کی شناخت مسلکی بنیادوں پر نھیں ہے لیکن ان کی علمیت، اور مہارت مسلمہ ہے۔

اس مقصد کے حصول کے لئے کونسل میں ایک جزوقتی سیل کا قیام ممد اور معاون ہوگا۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ متعلقہ سیل ہی ماہرین کے ساتھ مستقل رابطہ میں ہوگا۔ کونسل ذرائع ابلاغ میں تشہیر کرکے دیگر لوگوں کی آراء سے بھی استفادہ کرسکتی ہے۔اس طرح اسلامی نظریاتی کونسل ماہرین کے آراء کے بعد متفقہ بیانیوں کے حصول میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ بیانیہ کی تشکیل اسلامی نظریاتی کونسل کے دائرہ اختیار میں نہیں تو اس حوالے سے اگر دستور پاکستان کی دفعہ 230 (الف) پر غور کیا جائے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ کونسل ہر وہ اقدام اٹھا سکتی ہے کہ جس سے مسلمان اپنی انفرادی اور اجتماعی حیات کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھال سکیں۔اس میں واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ

(1) اسلامی نظریاتی کونسل کے کارہائے منصبی حسب ذیل ہوں گے۔

(ا) مجلس شوری ٰ(پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا جن سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طورپر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب اور امداد ملے جن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور، مفہومی ترجمہ تصنیف جسٹس (ریٹائرڈ) محمد منیر ص 300 ط پی ایل ڈی پبلشرز لاہور،اس سے واضح ہوتا ہے کہ کونسل نہ صرف قانون سازی کے حوالے سے سفارشات مرتب کرسکتی ہے بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی حیات سے متعلق بھی سفارشات مرتب کرسکتی ہے تا کہ عوام الناس کو کسی بھی مسئلہ میں شرعی نقطہ نظر سے کما حقہ آگاہی حاصل ہو۔