working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

خصوصی گوشہ ۔۔مدارس کا مسئلہ

دینی مدارس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخر مسئلہ کیا ہے ؟

محمد یٰسین ظفر

محمد یٰسین ظفر وفاق المدارس السلفیہ پاکستان کے ناضم اعلٰی اور نامور عالم دین ہیں ۔انھوں نے ا س مضمون میں مدارس کے اوپر لگائے جانے والے الزامات کا دفاع کیا ہے ، دینی مدارس کی رجسٹریشن ، انتہا پسندی میں مدارس کے کردار اور حکومتی کارروائیوں کے بارے میں پیدا ہونے والے سوالات کا جواب دیا ہے ۔وفاق المدارس السلفیہ کے رجسٹرڈ مدارس کی تعداد 1400ہے اور ان میں 40ہزار طلباء زیر تعلیم ہیں ۔

اسلام ایک عالمگیر دین اور مکمل ضابطہ حیات ہے۔ یہ زندگی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ انسان کی زندگی عقیدہ ، عبادت ، اخلاقیات او رمعاملات پر مشتمل ہے۔ جس کے لیے دین اسلام نے قدم قدم پر رہنمائی دی ہے۔ یہ رہنمائی دین کا مکمل علم رکھنے کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اس کا ایک حصہ یا جزو دوسرے سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا ۔ ارشاد ربانی ہے:

3 الایۃ سورۃ البقرۃ 208 ۔

’’ اے ایمان والو۔ تم اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘ اسلامی تعلیمات سے رہنمائی اور فائدہ اٹھانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ اس کی تمام تعلیمات کو سامنے رکھا جائے۔ پھر اس کے ثمرات میسر آئیں گے۔ ظاہر ہے اس کے لیے اسلام کی مکمل تعلیم حاصل کرنا اور جاننا ازبس ضروری ہے۔یہ کام مسلمانوں میں سے ایک گروہ سرانجام دیتا رہا ہے۔ اور اب تک دے رہا ہے۔ ویسے بھی نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم‘‘ علم کی طلب ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اس علم سے مراد شرعی علم ہے۔اور وہ کتاب وسنت پر مبنی ہے۔ جب شرعی علم کا حاصل کرنا واجب ٹھہرا تو کم از کم ان مسائل کو جاننا ضروی ہوا۔ جو روز مرہ سے متعلق ہیں۔ جیسا کہ نماز روزانہ پانچ مرتبہ ادا کی جاتی ہے۔ لہذا ایک مسلمان پر اس کے احکامات جاننا ضروری ہے۔ کیونکہ اصول یہ ہے ’’ ولایتم الواجب الابہ فھو واجب ‘‘ جس کے ادا کیے بغیر فرض چیز پوری نہیں ہوتی۔ اس کا حصول بھی واجب ہے۔ لہٰذا ایک عام مسلمان کے لیے کم ازکم ان تمام مسائل سے آگاہی ضروری ہے۔ جو اس کی زندگی میں روز مرہ پیش آتے ہیں۔ لیکن بعض معاملات فرض کفایہ میں آجاتے ہیں۔ جو کسی اور کے ادا کرنے سے یہ فرض ادا ہو جاتا ہے۔ اس پوری گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ دین اسلام ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ لیکن یہ رہنمائی لینے کے لیے ہمیں علماء ماہرین اورسکالر درکار ہیں۔اس کے لیے ہمیں ایسے تعلیمی اداروں ، دارالعلوم ۔ اسلامی مراکز اور دینی مدارس وجامعات کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے بعد سرکاری سطح پر ایسی کوئی کوشش نہیں ہوئی کہ دینی رہنمائی کی اس ضرورت کو پورا کیا جاتا۔ اور قابل اعتماد ذرائع سے علماء خطباء ، مدرسین ، مفتیان کرام، قراء اور حفاظ تیار کیے جاتے۔ حکومت کی بے توجہگی ، لاپرواہی اورعدم دلچسپی سے جو خلاپیدا ہوا ۔ اسے وقت کے ممتاز علماء ، مشائخ ، صاحب بصیرت مفکرین اسلام اور دین سے گہری محبت رکھنے والے حضرات نے پر کیا۔ انہوں نے ٹھوس بنیادوں پر ایسے تعلیمی ادارے قائم کیے۔ جہاں دین اسلام کی مکمل تعلیم دی جانے لگی۔ جس کے لیے شاندا ر نصاب تعلیم ترتیب دیا ۔ اور ماہر اور تجربہ کار اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئی۔ جنہوں نے چند سالوں میں ممتاز علماء کی ایسی جماعت تیار کر دی۔ جو دعوت وتبلیغ او ر اشاعت اسلام میں سرگرم عمل ہوگئے۔ یہ مدارس بڑوں شہروں کے بعد چھوٹے شہروں اور قصبات میں بھی قائم ہونے لگے۔ جو پورے اہتما م اور خاموشی سے خدمت سرانجام دینے لگے۔ قوم کے نو نہالوں ، نوجوانوں اور ہر طبقہ فکر کے لوگ نہ صرف مستفید ہوئے بلکہ جہالت ، ناخوانداگی کے خلاف ایک خاموش انقلاب آنے لگا۔ تعلیم پر اخراجات خود ادارہ برادشت کرتا۔ طلبہ کو مفت تعلیم رہائش ، کھانا ، کتب ، علاج ومعالجہ ، لباس ، کھیلوں کا سامان فراہم کیا جاتا۔ یہ سلسلہ تمام بڑے اداروں میں نہایت سکون کے ساتھ جاری تھا۔ پاکستان کے کسی بھی طبقے کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان مدارس اور دینی تعلیمی اداروں کے نہایت مثبت اثرات معاشرے میں موجود تھے اور ہیں۔ لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔اور دل کھول کر تعاون کرتے۔ نہ کوئی مسئلہ یا جھگڑا ، نہ فساد نہ خطرہ ۔ حتی کہ فرقہ بندی کا تصور بھی نہ تھا۔ لوگ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھیں۔اپنے بچوں کو دوسرے مسلک کے مدرسے میں حفظ قرآن کے لیے داخل کرواتے تھے۔ کوئی تصور بھی نہ تھا۔ کہ یہ فرقہ واریت کی نظر ہوجائے گا۔

حتیٰ کہ سال 1980 شروع ہوا۔ جس میں دو کام ایسے ہوئے۔ جس نے بہت سی غلط فہمیاں پیدا کیں۔ ایک افغانستان میں روسی مداخلت جس کے نتیجہ میں جہاد کا علم بلند کیا گیا۔ اور پوری اسلامی دنیا نے پاکستان کا رخ کیا۔ اور یہاں سے افغانستان ، چونکہ جہاد جیسا مقدس عمل اسلام میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ لہٰذا وقت کے حکمرانوں نے اس کے لیے علماء اور دینی مدارس کے طلبہ کو خوب استعمال کیا۔ اور یہ لوگ نہایت خلوص اور اسلامی جذبے سے سرشار ہو کر میدان میں گود پڑے ۔ یہ جانے بغیر کہ اس کا انجام کیا ہوگا۔ اور دوسرا ایران کا انقلاب ۔ یہ انقلاب ایران تک محدود نہ رہا۔ بلکہ اس کے اثرات قرب وجوار اور پڑوسی ممالک پرہوئے۔ اور بہت سا متنازعہ لڑیچر برآمد کیا گیا۔ جس نے دوسرے مسلمانوں کے جذبات مجروح کیے۔ اور فرقہ واریت کی آگ بھڑک اٹھی۔

یہ دو ر مدارس کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔ایسے مسائل پیدا ہوئے۔ جس نے بہت سی غلط فہمیوں کو جنم دیا۔ مدارس پر الزامات کی بھرمار ہوئی۔ اور طرح طرح کی بولیاں بولی جانے لگی۔ دین سے بیزار طبقے کو موقعہ مل گیا۔ کہ وہ مدارس کے خلاف اپنے خبث باطن کا کھل کر اظہار کریں۔ ا ور تمام تر ذمہ داری مدارس پر ڈالی جانے لگی۔ کچھ لوگ جو مدارس کو اپنے لیے مستقبل میں خطرہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے بھی پیش بندی کے طور پر ان کے خلاف من گھڑت ،فرضی تجزیے اور رپورٹیں شائع کیں۔ تاکہ یہ تاثر عام ہو۔ کہ ملک میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت اور دہشت گردی کا سبب یہی مدارس ہیں۔ حالانکہ یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جہاد افغانستان ہو یا مسئلہ کشمیر اس کے لیے الگ گروپس موجود ہیں۔ جنہیں اعلٰی ترین سرپرستی حاصل ہے ۔ ان کی عوام تک رسائی کا مدارس سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کی تربیت اور مختلف مرحلے بالکل الگ تھلگ ہیں۔کسی بھی مدرسہ کے وسائل اس کی اجازت نہیں دیتے۔ کہ وہ یہ اخراجات اٹھا سکے ۔اور نہ ہی کوئی مدرسہ اس کا متحمل ہو سکتا ہے۔ مدرسے کے داخلی ماحول میں جدید اسلحہ اور گوریلا جنگ کی ٹریننگ کیسے ممکن ہے؟ اور اگر کوئی مدرسہ باہر کھلے عام یہ کام کرے۔ تو حکومت کی نظر سے کیسے بچ سکتا ہے؟ رہی بات کہ مدارس افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔’’ ھذا بھتان عظیم ‘‘ میں 36 سال سے ایک ادارے کا مہتمم ہوں ۔ ایک بھی طالب علم یا جوان میری وساطت سے نہیں گیا اور یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جن والدین نے اپنے جگر گوشوں کو ہمارے سپرد صرف اس لیے کیا ہو کہ ہم انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کریں۔ اسلامی تربیت دیں۔ ہم اٹھا کر ان لوگوں کے سپرد کردیں کہ وہ انہیں ذبح کر دیں ۔ ناممکن او رہرگز ایسا نہیں ہو سکتا۔ اور نہ ہی طالب علم کے والدین یا ان کے سرپرست ہمیں یہ اجازت دیتے ہیں۔ مدارس پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ طلبہ کی ذہن سازی اس انداز سے کرتے ہیں کہ طالب علم فرقہ پرستی کا داعی بن کر نکلتا ہے۔ یا خود کش بمبار بن جاتا ہے۔ یہ بات بھی حقیقت کے خلاف ہے ۔ بعض لوگ ناقص علم کی وجہ سے فقہی اختلافات پربات کرنے کو بھی فرقہ واریت تصور کرتے ہیں۔ حالانکہ فقہی اختلافات دلائل کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ فقہاء کا اختلاف فقہی اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔ کسی بھی مسئلے میں اگر کوئی رائے رکھے۔ اسے حق ہے۔ اس کے جواز کے لیے یقیناًوہ دلیل بھی رکھتا ہوگا۔ آج بھی دینی مدارس کے نصا ب میں جو فقہی کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ ان میں ان فقہاء کے اختلافات کا موقف اور دلائل زیر بحث آتے ہیں۔ اس میں سے اس بات کو از خود اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ جو کتاب وسنت کے قریب ہو۔ ہمارے ہاں وفاق المدارس السلفیہ میں فقہ کی معتبر کتاب بدایۃ المجتہد پڑھائی جاتی ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ فقہ مقارنہ کی اہم ترین کتاب ہے۔ جب ایک طالب علم تمام فقہاء کے خیالات سے آگاہ ہوگا۔ اور دلائل سے استنباط دیکھے گا۔ اس میں تو وسعت نظر پیدا ہوگی ناکہ تنگ نظری ۔۔۔ فرقہ واریت بالکل الگ بات ہے۔ اس میں دلیل کی بجائے دھونس دھاندلی ہوتی ہے اور زبر دستی اپنی بات منوائی جاتی ہے۔ فرقہ واریت میں نہ دلیل کا ر آمد ہو تی ہے اور نہ ہی منطق۔

اس ماحول میں کیسے تصور کر لیا گیا کہ مدارس فرقہ واریت کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ اور یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ پاکستان میں اس وقت تمام مسالک کے قریباً بیس ہزار سے زائد مدارس ہیں۔ جس میں پچیس لاکھ طلبہ وطالبات زیر تعلیم ہیں، اگر مدارس واقعی فرقہ واریت کو ہوا دیتے ہوں تو پھر گلی گلی میں آگ لگی ہوتی ۔ یہ محض مدارس کے خلاف خبث باطن ہے۔یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ خود کش بمبارکہاں بنتے ہیں اور ان کی پناہ گاہیں کہاں ہیں۔

رہی بات موجود حالات میں مدارس کے حقیقی مسائل کیا ہیں۔ اور ان کے حل کے لیے مدارس کے ذمہ داران کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ مدارس کے خلاف یکطرفہ طور پر پراپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔ دن رات مدار س کو بدنام کررہا ہے۔ اور میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ ان میں کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو مدرسہ کے بارے میں کچھ جانتا ہوکہ مدرسہ کیا ہے؟ یہ کیا کردار ادا کر رہا ہے؟ اس کا نظم ونسق اور نصاب کیا ہے۔ بس سنی سنائی اور من گھڑت بات دھرائی جاتی ہے۔ کہ یہ صدیوں پہلے کا نصاب پڑھا رہے ہیں۔ جبکہ جدید علوم نہیں پڑھاتے۔ مشکل یہ ہے کہ یہ لوگ تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر مدارس میں قرآن وحدیث پڑھایا جا رہا ہے۔ تو یہ بلاشبہ چودہ صدیا ں پہلے نازل ہوا۔ ہم تویہی دین پڑھائیں گے۔ جس کو یہ لوگ فرسودہ کہتے ہیں۔ قرآن وسنت میں ہی ہمارئے مسائل کاحل موجود ہے۔ان مسائل کے حل کے لیے اساتذہ اور مفتیاں کرام قرآن وسنت سے بہترین استنباط کرتے ہیں۔ جو کہ شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے۔نیز جدید مسائل پر بھی کتب شامل نصاب ہیں۔ جس میں اقتصادیات ، سیاسیات ، حالات حاضرہ وغیرہ۔

دوسرا مسئلہ حکومت ہماری آخری ڈگری کو ایم اے اسلامیات او رعربی کے برابر قراد دیتی ہے۔جبکہ نچلی اسناد کے بارے میں ابھی تک معاملہ الجھایا ہوا ہے۔ ہمارا درینہ او رجائز مطالبہ ہے کہ اگر ہم ایم اے کا امتحان لے سکتے ہیں اور حکومت قبول کر رہی ہے تو دوسری اسناد کا امتحان کیونکر نہیں لے سکتے۔ وہی اتھارٹی ، وہی بورڈ یہ کام باآسانی سرانجام دے سکتا ہے۔ رہا مسئلہ اس میں چند مضامین جس میں انگریزی ، ریاضی ، معاشرتی علوم یا اردو وہ بھی ہم نہ صرف پڑھا سکتے ہیں بلکہ بہتر طور پر امتحان لے سکتے ہیں۔ لیکن ہماری اس منطق کو تسلیم کرنے کی بجائے حکومت انتہائی دشوار گزار راستہ دکھاتی ہے کہ جناب اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ تو ٹھیک ہے حکومت اگرحامی ہے کہ مدارس قومی دھارے میں آئیں تو قانون سازی کر لیں۔

تیسرا مسئلہ رجسٹریشن کا ہے یہ بات حکومت کے ہاں زیر بحث آتی ہے اور اسے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ حالانکہ 2005 مشرف دور میں بالاتفاق ایک رجسٹریشن فارم بنا یاگیا۔ جس پر عمل ہوتا رہا اور ہزاروں مدارس رجسٹرڈ ہوئے۔ لیکن پھر خو د ہی حکومت نے اس کو بدل دیا ۔ اور مدارس کو اعتماد میں نہ لیا۔ بلکہ عملاً رجسٹریشن بند کردی گئی۔ لیکن الٹا یہ الزام مدارس پر لگایا گیا کہ مدارس رجسٹریشن نہیں کرواتے۔

اس ضمن میں اہم ترین اجلاس وزیر اعظم محمد نواز شریف کی صدارت میں منعقد ہوا۔ جس میںآرمی چیف جنرل راحیل شریف ، ڈی جی آئی ایس آئی ، وزیر داخلہ کے علاوہ تمام وفاقوں کے ذمہ داران شریک تھے۔ مختصر یہ کہ اس میں رجسٹریشن فارم اور ڈیٹا فارم بنانے پر اتفاق ہوا۔ یہ دونوں فارم چار ماہ قبل تیار کرکے وزارت کو دئیے جا چکے ہیں۔ لیکن ابھی تک ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ اور نہ ہی اس بارے میں حکومت نے کوئی واضح اعلان کیا ہے۔

اسی طرح موجودہ تناظر میں ملک میں جاری ضرب عضب اور دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان پر مدارس کا کیا موقف ہے۔ یہ جان کر قارئین حیران ہوں گے کہ ہمارے تحفظات کے باوجود ہم نے ایک قومی بیانیہ لکھ کر بھی حکومت کو دیا لیکن چار ماہ گزرنے کے باوجودحکومت اس کو جاری نہ کر سکی۔سچی بات یہ ہے کہ مدارس او راہل مدارس محب وطن پاکستا نی ہیں۔ انہیں اپنے مدارس سے زیادہ ملک کی سلامتی عزیز ہے۔ یہ ہر وہ قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں جس سے اس ملک کے وقار ، عزت ، ناموس میں اضافہ ہو۔ اور دشمنان پاکستان کے خلاف ہر وہ قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں جس کے لیے حکومت اجازت دے۔ پاکستان کی تاریخ میں مدارس کا تابناک کردار ہمیشہ یا د رکھا جائے گا وہ وقت سب کے سامنے ہے۔ جب پوری دنیا سے علم کے متلاشی پاکستان کا رخ کرتے تھے اور ہزاروں کی تعداد میں فارغ التحصیل ہو کر تبلیغ اسلام میں مصروف ہیں اور پاکستان کے لیے یہ بے لوث سفارت کاری کرتے ہیں۔

ہمیں افسوس ہے کہ بعض اداروں اور لوگوں نے بے بلاوجہ مدارس کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ حالانکہ یہ قومی ملی تعمیر میں بہت بڑا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ا للہ تعالیٰ ان مدارس کے حفاظت فرمائے۔