working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

خصوصی گوشہ ۔۔مدارس کا مسئلہ

مدارس کا مسئلہ، حل کے لئے سیاسی عزم ناپید ہے

ڈاکٹر راغب حسین نعیمی

ڈاکٹر راغب نعیمی جامعہ نعیمیہ لاہور کے پرنسپل ہیں ۔1980ء میں اس مدرسے کوڈاکٹر سرفراز نعیمی کے والد اور جید عالمِ دین ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے قائم کیا تھاجنھیں 12جون 2009ء کو ایک خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا ۔ ڈاکٹر راغب نعیمی نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامی معیشت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے اور ایک کتاب ’’امن میرا حق‘‘ کے مصنف ہیں ۔ ان کا یہ مضمون اس حوالے سے اہم ہے کہ انھوں نے مدارس کے نظام میں خامیوں اور کوتاہیوں کا جائزہ لیتے ہوئے اس کے حل کی تجاویز بھی دی ہیں۔



عالم اسلام میں دینی مدارس کی تاریخ بہت پرانی ہے اس کا آغاز مسجد نبوی ﷺ میں اصحاب صفہ کے لیے چبوترے کی تعمیر سے ہوا۔ انیسویں صدی کے آغاز تک عالم اسلام میں مدارس بڑی طم طراق سے دین اسلام کی آبیاری میں مشغول رہے۔ دنیا کے مختلف اسلامی ممالک جب یورپ کی نو آبادیاتی بنے تو یہ مدارس بھی کسمپرسی کا شکار ہوگئے۔ حتی کہ ان مدارس کے منتظمین نے روکھی سوکھی کھائی لیکن ان مدارس کو بند نہ ہونے دیا۔ جنگ عظیم اول کے بعد سلطنت عثمانیہ کے حصہ بخرے کردئے اور پورے مشرق وسطیٰ کو بیسیوں ممالک میں تقسیم کردیا گیا۔ جس کی وجہ سے ایک طرف مسلم وحدت پارہ پارہ ہوگئی اور دوسری طرف دین اسلام کو پھیلانے کے بنیادی ادارے مدارس کو نہایت زق پہنچی۔ عرب ممالک میں جامعات کو سرکاری تحویل میں لے لیا گیا اور آہستہ آہستہ انہیں کالجز اور یونیورسٹیز میں تبدیل کردیا گیا۔ دینی تعلیم کے فروغ کے لیے کالجز اور یونیورسٹیز میں شعبہ اسلامیات بنا دیئے گئے۔ جس کی وجہ سے وہ نصاب جو طلبا میں تنقیدی اور تحقیقی صلاحیت پیدا کرتا تھا تبدیل ہوگیا۔ ان کالجز اور یونیورسٹیز کے سیکولر عصری نظام تعلیم نے دینی نظام کو بے اثر کرنے کی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے تعلیم یافتہ اچھی نوکریاں پانے میں کامیاب ہوگئے جبکہ دینی تعلیم کے حاملین اور زیادہ پسماندگی کا شکار بن گئے۔


برصغیر پاک وہند میں موجود ممالک افغانستان، پاکستان، انڈیاا ور بنگلہ دیش میں موجود مدارس کسی نہ کسی طریقہ سے اپنی بقا کی جنگ 1857 ؁ء کی جنگ آزادی سے لڑتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اور کافی حد تک اس میں کامیاب بھی رہے۔ انگریز دور میں برصغیر میں حاملین قرآن وسنت نے اپنے آپ کو مدارس میں مقید کرلیا۔ ان کا ایسا عمل حقیقتاً دین کی حفاظت کے لیے تھا۔ انہی کی بدولت آج برصغیر میں اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہے اور دین اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہے۔ اس کا تقابل ہم ان ممالک سے کرسکتے ہیں جہاں یہ مدارس ختم کردیئے گئے۔ وہاں بے دینی کا ایسا سیلاب آیا ہوا ہے کہ اس کے آگے کوئی بھی بند باندھنے والا نہیں ہے۔ مشائخ کا طریقہ کار اور دینی نصاب کو ختم کرنے سے ان ممالک میں دینی جذبہ رکھنے والے لوگوں کا کال ہوگیا۔


قیام پاکستان کے بعد دینی مدارس اسی طرز پر روبہ عمل رہے۔ ریاست نے ان دینی مدارس کو کبھی نہ چھیڑا۔ صدر ضیاء الحق کے آنے تک ان کی مدارس کی بڑھوتری قدرتی طور پر متوازن انداز میں ہوتی رہی۔ لیکن جب دینی مدارس کو زکوۃ دینے کا معاملہ درپیش ہوا تو ایک خاص مسلک کے مدارس بڑی تیزی سے پروان چڑھ گئے۔ دوسری طرف بیرون ملک سے آنے والی فنڈنگ سے مخصوص عناصر کو اپنے مدارس، مساجد بنانے کے لیے وافر مقدار میں سرمایہ مہیا ہوگیا۔ اس آنے والی فنڈنگ کا کہیں پر کوئی باقاعدہ ریکارڈ حکومتی لیول پر موجود نہ تھا۔


اگرچہ دینی مدارس کو کنٹرول کرنے کے لیے 1990 ؁ء سے حکومت نے مختلف طریقے استعمال کرنے شروع کیے لیکن 9/11کے بعد معاملات بالکل ہی الٹ ہوگئے۔ یہ تاثر پوری دنیا میں پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ دنیا میں ہونے والی ہر دہشت گردی کی کاروائی کے پیچھے دینی مدارس کا ہاتھ ہے۔ اگر حقیقت دیکھی جائے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ دنیا میں مختلف اسلامی دہشت گرد تنظیمیں مدارس کے بطن سے نہیں نکلی ہیں۔القاعدہ ، النصرہ اور اب آئی ایس (داعش) کے سربراہان اور بنیادی ممبرز دینی مدارس کے فارغ التحصیل نہیں ہیں۔ حزب التحریر کی بنیاد رکھنے اور چلانے والے کالجز اور یونیورسٹیز کے پڑھے ہوئے جدید تعلیم یافتہ افراد ہیں۔


گزشتہ دو سال سے افواج پاکستان بہت بڑی کامیابی کے ساتھ آپریشن ’’ضرب عضب ‘‘کے ذریعے دہشت گردوں اور پھر ان کی کمین گاہوں کو صاف کرنے میں 80%سے زائد کامیاب نظر آرہی ہے۔ اسی اثناء میں پشاور میں سکول پر حملے کے نتیجے میں 150سے زائد شہادتیں سامنے آئیں۔ جس کے نتیجے میں حکومت اور فوج نے مل کر نیشنل ایکشن پلان مرتب کیا۔ ہر صوبے کی اپیکس کمیٹی کے ذریعے اس پلان پر عمل درآمد کا آغاز ہوگیا۔ 20نکاتی NAPمیں ایک شق دہشت گردی اور مدارس کے آپس کے تعلقات اور مدارس کے کنٹرول کے حوالے سے بھی تھی۔ باقی شقوں پر کتنا عمل درآمد ہوا اس سے قطع نظر، مذہب کے حوالے سے معاملات اور مدارس کے اوپر حکومتی پابندیوں کی اطلاعات سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ اسی دوران وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان نے دہشت گردی میں ملوث مدارس کی تعداد کے حوالے سے مختلف بیانات دیئے۔ کبھی تو کہا گیا کہ دس یا پانچ فیصد مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں اور کبھی بتایا گیا کہ 200سے زائد مدارس دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ حکومت کے لیے جو بھی مدرسہ دہشت گردی میں ملوث ہے اس کا نام ظاہر کرنے، اس پر چھاپہ مارنے اوراس مدرسہ کو بند کرنے کے حوالے سے کیا امر مانع ہے؟


مدارس کوئی مقدس گائے نہیں ہیں۔ غلط کام کرنے والوں کے خلاف لازماًکارروائی ہو نی چاہئے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت پاکستان اور افواج پاکستان کی تمام کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ماضی میں این جی اوز اور مدارس پر مناسب چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوا۔جس کی وجہ سے سبھی مدار س کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ مدارس مقدس گائے نہیں لہٰذا نیشنل ایکشن پلان کے تحت جامعہ نعیمیہ سمیت تمام مسالک کی چیکنگ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حق اور فرض ہے۔ اس عمل سے وہ مدارس جو غیر قانونی اقدامات میں ملوث ہیں ان کے خلاف کارروائی یقینی ہو گی اور باقی شک کے دائرے سے نکل جائیں گے۔اگر حکومت کو دہشت گردی میں ملوث مدارس کے بارے علم ہے تو وہ اپنی رٹ قائم کرنے کے لیے ان مدارس کو بند کیوں نہیں کرتی ۔ تاکہ مدارس کی کمیونٹی کے دیگر افراد اس بلیم گیم سے بچ جائیں۔ مگر حکومت لگتا ہے کہ ۔۔۔ ’’گونگلوں سے مٹی جھاڑتے ہوئے‘‘ ۔۔۔ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان سے دوستانہ میچ کھیلتی رہی ہے۔


اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان دینی مدارس کی وہ اجتماعی آواز ہے جو مدارس کے نام پر مدارس کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے مشرف دور میں معرض وجود میں آئی۔ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان نے مشرف دور کے پہلے تین سال حکومت کے ساتھ اس طرح چابک دستی سے مذاکرات قائم رکھے کہ 2003میں الیکشن سے قبل وفاقی وزیر مذہبی امور، ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید (سابق سیکرٹری اتحادتنظیمات مدارس پاکستان) سے کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آپ اہل مدرسہ نے مدارس کا کیس اتنی خوبصورتی سے لڑا کہ حکومت مدارس کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتی تھی، کرنے میں ناکام رہی۔ اسی دور میں حکومت کو مدارس ریفارمز کے نام پر امریکہ سے 6ارب روپے ملے مگر وہ کہاں گئے؟کوئی اس کی تحقیق تو کرے؟


وزیر اعظم، آرمی چیف اوروفاقی وزیر داخلہ کے ساتھ اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان میں شامل پانچ دینی مدارس کے بورڈز کے صدور اور ناظم اعلیٰ کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کا نتیجہ تو وقت گزرنے کے ساتھ معلوم ہوگا۔ لیکن مذاکرات کے حوالے سے دونوں فریق اپنے آپ کو فاتح سمجھ رہے ہیں۔ وزیر اعظم مدارس سے اس امر کے خواہاں ہیں کہ امن قائم کرنے کے لیے دہشت گردی اور فرقہ واریت کو ختم کیا جائے۔ مدارس حکومت سے تعاون کریں۔اگرچہ مدارس مثبت کردار ادا کررہے ہیں مگر امن قائم کرنے اور دہشت گردی کے خاتمہ میں اپنابھر پور کردار ادا کریں۔ اس موقع پر وزیر داخلہ نے بتایا کہ 177مدارس کو غیر ملکی فنڈنگ ملتی ہے۔ 3درجن سے زائد مدارس بند کردیئے گئے جو غیر قانونی بنے ہوئے تھے۔وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ فرقہ واریت پھیلانے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ ایک دوسرے کو کافر اور واجب القتل، قتل پر اکسانے، نفرت انگیز تقاریر کرنے پرریاست کارروائی کرے گی (یقیناًحقائق کی روشنی میں ریاست کو کارروائی کرنی چاہیے) اسی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ مدارس کی بیرونی فنڈنگ کا طریقہ حکومت طے کرے گی۔ مالیاتی امور، بینکوں کے ذریعے طے ہوں گے۔ مدارس آڈٹ رپورٹ دیں گے۔


مدارس کی رجسٹریشن کے معاملات آسان تر بنائے جائیں گے۔ جبکہ دینی مدارس کی قیادت نے وزیر اعظم کو نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کی غیر مشروط حمایت کرنے کی یقین دہانی کرائی ۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دینی مدارس کی قیادت کیا دہشت گردی میں ملوث مدارس کو خود سے جداکرے گی؟


جن مدارس نے سپاہ وافواج پاکستان پر حملوں کو جائز اور شہید فوجیوں کے جنازے پڑھنے کو منع کیا تھا ان مدارس کے حوالے سے کیا کیا جائے گا۔۔۔ ؟


حکومت مدارس میں موجود سہولت کاروں کو بخوبی جانتی ہے ان کے حوالے سے کیا کارروائی کی جائے گی۔۔۔؟


جو مدارس بیرونی فنڈنگ پر پراکسی وار میں مصروف عمل ہیں ان کی بیخ کنی کیسے ہوگی۔۔۔؟


یہ وہ بنیادی سوالات ہیں جن کے بارے میں اب تک کے ہونے والے مذاکرات خاموش ہیں اور اگر ان سوالات کو حکومت کی طرف سے نہیں اٹھایا گیا تو یقیناً یہ دینی قیادت کی فتح ہے۔


دہشت گردی روکنے کے لیے حکومت کالجز اور یونیورسٹی سطح پر کیا اقدامات کررہی ہے؟ جس کا جواب ابھی تو حکومت کے پاس نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف لاؤڈ اسپیکر پر پابندی صرف چھوٹی مساجد اور کمزور طبقہ فکر پر لاگو ہے لاہور میں اب بھی ایسی سرکاری وغیر سرکاری مساجد موجود ہیں جن پر ایک سے زائد لاؤڈ اسپیکرلگے ہوئے ہیں اور وہ چلتے بھی ہیں۔انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہے ،نہ پولیس اور نہ کوئی اور ادارہ ۔شاید وہ حکومتی رٹ سے باہر ہیں۔یہ امر یقیناًحکومت کی دورخی کا مظہر ہے۔ایسے ہی معاشرے میں شادی ، میوزک کنسرٹ، انتخابی جلسہ اور دیگر پروگرام کے لیے ایک چھوڑیں بیسیوں لاوڈ اسپیکر استعمال کیے جاتے ہیں۔ کیا لاوڈ اسپیکر ایکٹ ان کے لیے نہیں ہے؟


دیگر مسلم ممالک کی مثال پاکستان پر چسپاں نہیں کی جاسکتی کہ وہاں مسلکی امتیازات نظر نہیں آتے ہیں۔ پاکستان میں مذہب ، مذہب کی تشریح، مسلک، مسلک کی تشریح اور بین المذاہب ومسالک معاملات انتہائی گنجلک ہیں۔ اسی لیے مذہبی ادارے پاکستان میں ریاستی کنٹرول میں نہیں ہے اور ریاست کا اس کو چھیڑنا ایسے ہی ہے جیسے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے۔ جبکہ دیگر مسلم ممالک میں سے ہر ایک نے اپنے لیے ایک مسلک اختیار کررکھا ہے۔ اسی ہی کو ملک میں کام کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ مزید یہ کہ ان کے میزانیہ کا ایک بڑا حصہ بیرونی دنیا میں اپنے اپنے مسلک کے نظریات کو پھیلانے کے لیے استعمال ہورہا ہے۔ گزشتہ ایام میں قومی اسمبلی اور سینٹ کو الگ الگ بتایا گیا کہ پورے ملک میں 190سے زائد دینی مدارس بیرونی امداد حاصل کررہے ہیں۔ ان مدارس میں 147پنجاب، 6سندھ، 7خیبر پختونخواہ اور 30بلوچستان میں ہیں۔


حکومت اگر واقعتا دینی مدارس کی اصلاح کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو مندرجہ ذیل اقدامات کرنے ہوں گے۔


۱۔ مدارس اور وقف کی رجسٹریشن کے لیے کئی قوانین موجود ہیں ۔ان میں 1984کا کمپنی آرڈیننس ،ٹرسٹ ایکٹ 1982، سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ1860، رضاکارانہ سماجی بہبود کی ایجنسی آرڈیننس (رجسٹریشن اینڈ کنٹرول آرڈیننس1961) ، خیراتی اور مذہبی ٹرسٹ1920 اور مسلم وقف ایکٹ 1913موجود ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ مدرسے کی رجسٹریشن ان میں سے کس ایکٹ یا آرڈیننس کے تحت کس محکمے کو کروائی جائے۔اس کا حل یہ ہے کہ نئے سرے سے ایکٹ تیار کیا جائے اور رجسٹریشن کے لیے کوئی سا ایک محکمہ منتخب کرلیا جائے۔ محکمہ داخلہ، محکمہ تعلیم، محکمہ اوقاف، محکمہ صنعت وتجارت یا محکمہ سماجی بہبود میں سے کسی ایک کو مدارس کے معاملات کے لیے بااختیار بنایا جائے۔ ان میں سے ہر محکمہ اس کام کو کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری محسوس کرتا ہے۔ جبکہ محکمہ تعلیم یا محکمہ اوقاف کو اس کا اختیار دیا جانا چاہیے ناکہ محکمہ داخلہ یا کسی اور محکمہ کو۔ محکمہ داخلہ دینی مدارس کے معاملے میں دخل در معقولات کارویہ ترک کرے اور معاملات کو حل کرنے کی طرف سب مل کر سوچیں۔


۲۔ مدارس کے نصاب کے تعین کے لیے وفاقی سطح پر اعلیٰ دینی تعلیمی کمیٹی تشکیل دی جائے جو مدراس کے نصاب میں لازمی مضامین (قرآن، حدیث، فقہ، انگلش، مطالعہ پاکستان) اور اختیاری مضامین( فارسی، اردو، حساب، سائنس، جغرافیہ، سیاسیات اور معاشیات) کا تعین کرے اور تمام تنظیمات /وفاق کے لیے مشترکہ نصاب تیار کرے۔


۳۔ حکومت ایسے ادارے تشکیل دے جہاں کسی بھی مدرسے کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلبہ کو کم از کم ایک سالہ نصاب سے گزارا جائے اور اس نصاب سے فارغ التحصیل علماء کو امام وخطیب مقرر کیا جائے۔نیز انہیں تربیت دینے والے غیر متشدد،فرقہ واریت سے پاک اور اکثریتی طبقہ کی بنیاد پر چنے جائیں۔


۴۔ وفاقی سطح پر بھی متحدہ علماء بورڈ پنجاب کی طرز کا ادارہ تشکیل دیا جائے جوبے جا تکفیراور فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے ضابطہ اخلاق برائے تحریر وتقریر تیار کرے یا اسلامی نظریاتی کونسل اس عمل میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔


۵۔ مسلمان ممالک اگر جذبہ دینی کے تحت مدارس کو فنڈنگ کرنا چاہتے ہیں تو وہ فنڈ حکومت کے پاس آئے اور حکومت اس کو محکمہ زکوۃ /اوقاف کے ذریعے مدارس میں تقسیم کروائے اور اگر فنڈ دینے والا ملک اپنے ہی مسلک کے مدارس کو فنڈدینے پر اصرار کرے ،تو اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ اپنے مسلک کی ترویج و اشاعت کرنا چاہتا ہے۔جو یقیناً ملک کے لیے آگے چل کر وبال جان بن جائے گا کیونکہ مسالک کے درمیان قدرتی توازن جب تک برقرار رہے گا ناشناختی مسائل پیدا ہوں گے اور نہ ہی عصبیت آئے گی۔


۶۔ اب تک آنے والی غیر ملکی فنڈنگ کاآڈٹ کیا جائے اور تفصیلاً تحقیق کی جائے کہ آنے والا فنڈ آیا کہ جس مقصد کے لیے دیا گیا وہیں استعمال ہوا یا کسی اور مقصد کے لیے اسے استعمال کیا گیا۔


مدارس کے معاملات کو حکومتی لیول پر حل کرتے دو دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن معاملہ اب بھی وہیں کھڑا ہے جہاں سے اس کا آغاز ہوا تھا۔ مدارس کے معاملے کو حل کرنے کے لیے سیاسی عزم کی اشد ضرورت ہے جو مسلسل مذاکرات کو انجام تک پہنچانے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ مگر معاملہ تو یہ ہے کہ جب بھی معاملات کسی حل کی طرف جانے والے ہوتے ہیں تو نا دیدہ طاقتیں بیوروکریسی کے ذریعے سبوتاژ کردیتی ہیں۔ حکومت منظم کا کام دے جس طرح پرائیوٹ سیکٹر میں ادارے حکومتی بورڈزکے ساتھ ملحق ہیں ایسے ہی دینی مدارس کا بورڈ بنایا جائے جو پرائیوٹ سیکٹر کی طرح مدارس کو رجسٹر کرے۔ جس میں نصاب دینی مدارس کے تنظیمات ،وفاق اور حکومت کا مشترکہ طے کردہ ہو۔ جبکہ دوسری طرف اہل مدارس کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اپنی قدامت کے تحفظ کے لیے بقدر ضرورت جدید تقاضوں کو اپنانا ہو گا ۔ناصر ف قرآن وحدیث کے ساتھ اپنے تعلق کو مقدم رکھ کر چلنا ہوگا بلکہ انہیں پورے تعمق کے ساتھ پڑھانا ہوگا۔ اس سے یقینی طور پہ وسعت نظری پیدا ہوگی۔


اگر دیکھا جائے توحقیقت یہ ہے کہ دینی مدارس مسلمانوں کی علمی روایات کے امین اور اسلام کے قلعہ ہیں۔یہاں سے ہمیشہ علم،محبت،اخوت،انسان دوستی اور محبت رسول ﷺ کا پیغام عام ہواہے۔دینی مدارس علوم کامنبع ،اخلاق و تہذیب کا مصدراور ہماری اسلامی تاریخ کادرخشاں اور روشن باب ہیں۔دینی مدارس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے مدارس کے ذمہ داران اور حکومت یکساں انداز میں کوشش کریں۔آج دہشت اور وحشت کے جو سائے محراب و منبر کے گرد منڈلا رہے ہیں ۔ اس کے خاتمہ ضروری ہے کہ صوفیاء کے اسلوب محبت اور طرز تبلیغ کو عام کیا جائے تا کہ اسلام کی محبت آمیز تصویر دنیا کے سامنے پیش ہو سکے۔ جبکہ دینی مدارس کے فاضلین جدید عصری چیلنجز اور در پیش مسائل سے عہدہ برآ ہونے کے لیے جدید علوم سے بھی استفادہ کریں۔مسلم امہ کا غلبہ فروغ اسلام سے وابستہ ہے۔ جب تک مسلمان علمی طور پر مضبوط رہے۔وہ دنیا پر حاکم رہے۔علمی پستی نے مسلمانوں کو زوال کا شکار کیا۔ اقوام عالم میں باوقار زندگی گزارنے کے لیے مسلمانوں کا علم و تحقیق کے میدان میں ترقی کرنا انتہائی ضروری ہے۔ دہشت گرد ،ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو ں گے ،دہشت گردوں کے خلاف لڑائی میں جیت عوام کی ہو گی۔ جب ہم قرآن پاک اور آپ ﷺ کے احکامات پر عمل کریں گے تو اللہ تعالی ان شاء اللہ اپنی رحمتیں اور برکتیں ضرور نازل کریں گے۔ امت کی فلاح کا واحد راستہ اسوۃ رسول ﷺ کی پاسداری میں ہے۔ اللہ تعالی نے اپنے محبوب کی وساطت سے قرآن پاک ہم تک پہنچایا ہے جو کہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔آپ ﷺ کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے اور بنیادی جزو ہے۔ حضورﷺ کو دنیا میں نفرتیں ختم کرنے اور دلوں کو جوڑنے کے لیے بھیجا گیا اور آپ ﷺ کی سیرت مبارکہ امن کا پیغام ہے ۔بد قسمتی سے آج ہم عظیم پیغام کو بھلا بیٹھے ہیں۔ دہشت گردی اور بد امنی نبی کریم ﷺ کی سیرت اور قرآن پاک سے دوری کا نتیجہ ہے ،اسوہ حسنہ کی کامل پیروی سے کامیابی ممکن ہے ۔اسلام ہمیں انسانیت کی خدمت کرنے کا درس دیتا ہے ،اذیت دینے کا نہیں۔پاکستان کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے اسلام کے سنہری ا صولوں پر عمل پیرا ہونا ہو گا۔