working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

خصوصی گوشہ ۔۔مدارس کا مسئلہ

حکومت رجسٹریشن کی آڑ میں مدارس کاکنٹرول چاہتی ہے
مولانا عبد المالک ، صدر رابطتہ المدارس الاسلامیہ پاکستان سے انٹرویو

رابطتہ المدارس الاسلامیہ پاکستان کا تعلق جماعت اسلامی پاکستان سے ہے اور اس کے ملک بھر میں ایک ہزار سے زیادہ مدارس ہیں جن میں پانچ لاکھ طلباء زیر تعلیم ہیں ان سے ہونے والی گفتگو سوالاً جواباً ذیل میں رقم کی جاتی ہے۔

تجزیات : حکومت مدارس کی رجسٹریشن کرانا چاہتی ہے تاکہ انھیں بھی اسی طرح ضابطوں میں لا یا جا سکے جس طرح دیگرتعلیمی ادارے ہیں۔اس حوالے سے آپ لوگ کیوں مخالفت کر رہے ہیں ؟

مولانا عبد المالک :حکومت مدارس کی رجسٹریشن نہیں چاہتی اس نے خود رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔یہ سراسر منافقت ہے۔در اصل رجسٹریشن کی آڑ میں حکومت مدارس پر کنٹرول چاہتی ہے۔مدارس کو کہا جاتا ہے کہ وہ یہ بتلائیں انھیں کون کون چندہ دیتا ہے ؟ پھر مدرسہ منتظمین کے رشتہ داروں کے کوائف مانگے گئے ہیں ان کے ذرائع آمدن پو چھے گئے ہیں۔اگر ہم نے یہ معلومات دے دیں تو ا س کے بعد یہ ان کے پاس ٹیکس والوں کو بھیجیں گے کہ ٹیکس دیتے نہیں ہو مدارس کو چندہ دیتے ہو۔اس لئے ہم یہ معلومات کیوں دیں۔ ہم سے پو چھا جاتا ہے کہ اساتذہ کے بیوی بچوں کے بارے میں بتاؤ۔یہ ذاتی قسم کی معلومات لینے کا کیا مقصد ہے۔ یہ سب کچھ مدرسہ رجسٹریشن فارم میں درج ہے۔حالانکہ طے یہ ہوا تھا کہ رجسٹریشن فارم مشاورت سے بنایا جائے گا مگر اب انھوں نے خود ہی ایک فارم بنا کر بھیج دیا ہے۔ان حالات میں کون رجسٹریشن کرائے گا۔

تجزیات: نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کے نصاب میں اصلاحات کی بات کی گئی ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے آپ کی ملاقات وزیر اعظم ، وزیر داخلہ ،آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی ہو چکی ہے۔پھر بھی اس حوالے سے حکومت اور مدارس کسی نقطے پر متفق نہیں ہو سکے اس کی کیا وجہ ہے ؟

مولانا عبد المالک:وہاں جب یہ بات ہوئی اور جب ہم نے انھیں نصاب کے بارے میں بتایا تو انھوں نے کہا کہ ہمیں تو معلوم ہی نہیں تھا کہ مدارس میں عربی ، سائنس ، ریاضی سب کچھ پڑھایا جا رہا ہے اور تعلیمی بورڈوں میں مدارس کے بچے ٹاپ کرتے ہیں۔جس پر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر نے کہا کہ مدارس کی بجائے سکولوں کا نصاب ٹھیک کرنا چاہئے ،وہاں جنسیت اور بے حیائی کی تعلیم دی جا رہی ہے۔سکولوں کو مدارس کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے۔اس لئے آئندہ جب بھی اصلاحات کی بات کی جائے تو مدارس کا نام لینے کی بجائے تعلیم میں اصلاحات کی بات کی جائے۔وہاں یہ تسلیم کیا گیا کہ انتہا پسندی میں مدارس کا کوئی کردار نہیں۔مگر اب لاہور والے سانحے کو ہی دیکھ لیں۔کچھ قوتیں مسلسل مدارس کو بدنام کر رہی ہیں۔تاکہ عوام میں ان کا کردار مجروح ہو جائے۔

تجزیات: کیا مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے کوئی سفارشات حکومت نے آپ کو دی ہوں یا آپ لوگوں کی جانب سے حکومت کو کوئی تجویز دی گئی ہے ؟

مولانا عبد المالک :حکومت نے ہمیں کوئی سفارشارت نہیں دیں۔لیکن یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جس طرح انھوں نے سرکاری سکولوں کے نصاب سے علامہ اقبال کو نکال دیا،سورۃ انفال ، سورۃتوبہ کو نکال دیا اور وہ تمام آیات نکال دیں جن میں یہود و نصاریٰ سے دوستی نہ رکھنے کی ہدایت کی گئی تھی۔اب کیا اس طرح مدارس کا نصاب تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ہم تو نواز شریف کے کہنے پرقرآن و حدیث کو تبدیل نہیں کر سکتے۔البتہ اپنے طور پر ہم مدارس کے نصاب کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ،دیگر عالمی زبانیں سکھا رہے ہیں تاکہ دعوت و تنلیغ کا کام ہو سکے۔اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تعلیم کو رواج دے رہے ہیں۔

تجزیات: مدارس کی بیرونی ممالک سے فنڈنگ اور آڈٹ کے حوالے سے بھی حکومت تحفظات کا شکار ہے؟ اس مسئلے کو کیسے سلجھایا جا سکتا ہے ؟

مولانا عبد المالک:جب سٹیٹ بنک کے رولز کے تحت ہمارا بنک اکاؤنٹ ہی نہیں کھل سکتا تو پھر فنڈنگ کہاں سے آئے گی۔ ہم تو کہتے ہیں کہ پہلے ہمارے اکاؤنٹ کھولو آپ کو خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ ہماری فنڈنگ کہا ں سے آرہی ہے۔ یہ رفاعی ادارے ہیں جو لوگوں کے عطیات سے چل رہے ہیں۔یہ چاہتے کہ ہم چندہ دینے والوں کے نام بتائیں تا کہ ٹیکس والے انھیں جا کر تنگ کریں۔

تجزیات:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مدارس کو الگ الگ مسلکی بورڈوں کی بجائے ایک ہی بورڈ کے ماتحت ہونا چاہئے جس کو حکومت نے قائم بھی کر رکھا ہے مگر آپ لوگ وہاں رجسٹریشن نہیں کروا رہے ؟

مولانا عبد المالک:مسلک ایک حقیقت ہے۔بنیاد تو ایک ہے مگرقرآن و حدیث کی فہم کے اندر کچھ فروعی مسائل ہیں۔حدیثوں کے اندر بھی اختلافات ہیں۔ہم شیعوں کی تاویلات کیسے اپنے طلبا ء کو پڑھا سکتے ہیں۔ اس لئے جب حکومت کے بھی اپنے اپنے تعلیمی بورڈ ہیں تو پھر ہمارے بورڈوں پر اعتراض کیوں ؟

تجزیات:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مدارس انتہا پسندی کے فروغ میں کوئی کردار رکھتے ہیں ؟

مولانا عبد المالک:انتہا پسندی مدارس سے نہیں ایجنسیوں کی پالیسیوں سے پھیلی جنہوں نے پرائیویٹ جہاد کو رواج دیا تاکہ ان کی اپنی فوج محفوظ رہے۔اس کے لئے مدارس کو استعمال کیا گیا تاکہ یہ شہید بھی ہو جائیں اور کسی کو کوئی غم بھی نہ ہو۔ بغیر خرچے کے کام چلتا رہے۔کیا مدارس نے طلباء کو اسلحہ چلانے اور بم بنانے کی تربیت دی ؟ ہم تو طلبہ کو موبائیل فون بھی رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔

تجزیات:مدارس کے موجودہ مسئلے کے حل کے لئے آپ کے ذہن میں کیا سفارشات ہیں؟

مولانا عبد المالک:یہ حکومت کچھ کرنے کے قابل ہی نہیں ہے۔بس اپنے دن پورے کر کے رخصت ہونے والی ہے۔یہ اسلام کے نام پر آئے اور اب لبرل ازم کی بات کرتے ہیں۔ان کو اسلام کی الف ب بھی نہیں معلوم۔