working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد دینی مدارس کا مسئلہ

خصوصی گوشہ ۔۔مدارس کا مسئلہ

مدارس رجسٹریشن چاہتے ہیں مگر حکومت نہیں چاہتی
ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ قاری حنیف جالندھری سے انٹرویو

وفاق المدارس العربیہ دیو بندی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہے جس کے رجسٹر ڈ مدارس کی تعداد 20650ہے جن میں 2510482طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔مدارس کے مسئلے پر ان کا مؤقف سوالاً جواباً ذیل میں رقم کیا جا رہا ہے :

تجزیات۔ حکومت مدارس کی رجسٹریشن کرانا چاہتی ہے تاکہ انھیں بھی اسی طرح ضابطوں میں لا یا جا سکے جس طرح دیگرتعلیمی ادارے ہیں۔اس حوالے سے آپ لوگ کیوں مخالفت کر رہے ہیں ؟

قاری حنیف جالندھری :حکومت مدارس کی رجسٹریشن نہیں چاہتی۔وہ صرف شور ڈال رہی ہے اس کے قول و فعل میں تضاد ہے۔مدارس چاہتے ہیں کہ ان کی رجسٹریشن ہو اور اس کے لئے قانون موجود ہے۔چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی اس قانون کو پاس کر چکی ہے مگر حکومت خود ہی اس پر عمل نہیں کر رہی۔جو حکومت اپنے بنائے ہوئے قانون پر عمل نہ کرتی ہو وہ عوام کو قانون کا پابند کیسے بنائے گی۔ہم موجود قانون کے تحت رجسٹریشن کرانے کو تیار ہیں

تجزیات۔ نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کے نصاب میں اصلاحات کی بات کی گئی ہے۔نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے آپ کی ملاقات وزیر اعظم ، وزیر داخلہ ،آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی ہو چکی ہے۔پھر بھی اس حوالے سے حکومت اور مدارس کسی نقطے پر متفق نہیں ہو سکے اس کی کیا وجہ ہے ؟

قاری حنیف جالندھری:نیشنل ایکش پلان میں مدارس کے نصاب میں اصلاحات کی بات نہیں کی گئی تاہم مدارس اپنے نظام کی اصلاح وقتاً فوقتاً خود کرتے رہتے ہیں۔تاہم اگر حکومت کے پیش نظر کچھ اچھی تجاویز ہیں تو وہ بھی ہم سننے کو تیار ہیں۔لیکن حکومت ہم سے بات کرنے کی بجائے اخباروں میں بیان دیتی رہتی ہے۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مخلص نہیں۔

تجزیات۔ کیا مدارس میں اصلاحات کے حوالے سے کوئی سفارشات حکومت نے آپ کو دی ہوں یا آپ لوگوں کی جانب سے حکومت کو کوئی تجویز دی گئی ہے ؟

قاری حنیف جالندھری: ہم نے پورے نظام تعلیم کی بات کی۔ہم نے حکومت سے کہا کہ وہ پورے نظام تعلیم پر نظر ثانی کرے اور اس کو اپنی قومی ، عصری ،، اسلامی ترجیحات کے تحت از سر نو تشکیل دے۔ مدارس اور عمومی تعلیم کو الگ الگ خانوں میں نہ دیکھا جائے۔ مسئلے ہر جگہ ہیں۔اور یہ مسئلے نظر ثانی کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔

تجزیات۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مدارس انتہا پسندی کے پھیلاؤ میں ملوث ہیں ؟

قاری حنیف جالندھری:مدارس میں دہشت گردی نہیں بلکہ دین نبوی کی تعلیم دی جاتی ہے ، مدارس کے خلاف سازشیں کرنے والے اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کر رہے ہیں۔نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کو جو ذکر ہے وہ خلاف واقعہ ہے۔اس لئے نیشنل ایکشن پلان سے مدارس کے ذکر کو نکالا جائے۔جہاں تک انتہا پسندی کا معاملہ ہے اس میں مدارس حکومت کے رفیق ہیں وہ اس میں فریق نہیں۔ہم دہشت گردی کا خاتمہ چاہتے ہیں اور اس کے لئے ہراول دستہ ثابت ہوں گے۔لیکن یہ بات بھی واضح کر دی جائے کہ دینی مدارس نظریہ پاکستان کے محافظ ہیں۔دہشت گردوں کا تعلق کسی مسجد سے ہو ، مدرسے یا کالج سے اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔مگر اس کی آڑ لے کر کچھ قوتوں کو مدارس کے خلاف کارروائی نہیں کرنے دیں گے۔

تجزیات۔کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مدارس کو الگ الگ مسلکی بورڈوں کی بجائے ایک ہی بورڈ کے ماتحت ہونا چاہئے جس کو حکومت نے قائم بھی کر رکھا ہے مگر آپ لوگ وہاں رجسٹریشن نہیں کروا رہے ؟

قاری حنیف جالندھری:مسالک ایک زمینی حقیقت ہیں۔ جب حکومت بھی تمام مکاتب فکر کی بات کرتی ہے تو پھر الگ الگ بورڈ ہونے میں کیا مضائقہ ہے ؟