working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 عدم تحفظ کی بنیاد پر بنے والی آبادیاں

قومی لائحہ عمل برائے انسداد دہشت گردی

نیشنل ایکشن پلان اور دینی مدارس کا قضیّہ:
خدشات، امکانات اور عملی تجاویز

قبلہ ایاز (پی ایچ. ڈی، ایڈنبرا)
سابق وائس چانسلر، پشاور یونیورسٹی

دینی مدارس اور دہشت گردی ، یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا گیا ہے ،نیشنل ایکشن پلان کے لئے بھی یہ بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہے ۔مسئلہ سادہ بھی ہے اور گھنجلک بھی ،تاہم ڈاکٹر قبلہ ایاز کے نزدیک اب مدارس کو مسئلے کو طور پر نہیں بلکہ مسئلے کے حل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔زیر نظر مضمون میں بڑی تفصیل کے ساتھ انھوں نے اس پر روشنی ڈالی ہے کہ مدارس میں کیسے اصلاحات ہو سکتی ہیں بلکہ انھوں نے اصلاحات کا ایک مجوزہ خاکہ بھی دے دیا ہے جس سے اس مضمون کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔(مدیر)

16 دسمبر 2014 کو پشاور میں آرمی پبلک سکول کے سانحے کے بعد بظاہر ایسا لگتا ہے کہ 1980 کے بعد کی ریاستی پالیسی میں بڑی حدتک تبدیلی آگئی ہے اور افغانستان میں جنرل حمیدگل اور جنرل اسلم بیگ کے تزویراتی عمق (strategic depth) کے تصّور کا نہ صرف کھوکھلا پن عیاں ہوگیا ہے بلکہ اعلانیہ اعتراف نہ کرنے کے باوجود عملاً یہ مانا جارہا ہے کہ وہ معکوس نتائج کا حامل نکلا۔ افغانستان میں بڑھتا ہوا پاکستان فوبیا پاکستانی پالیسی سازوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں ایسے موضوعات پر کھلے علمی ،تحقیقی مباحثے اور مکالمے کی روایت موجود نہیں۔
16 دسمبر کے سانحے کے نتیجے میں سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان مسلسل مشاورت کے بعد ایک نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کرلیا گیا، جس کے بارے میں سست روی کی شکایت تو ہے لیکن بہرحال عمل درآمد جاری ہے۔ کچھ مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں، جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ نیشنل ایکشن پلان میں طے شدہ نکات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ دینی مدارس کی باقاعدہ رجسٹریشن کو یقینی بنایا جائے گا اور ایسے اقدامات اُٹھائے جائیں گے کہ دینی مدارس’’ مسئلے‘‘ کا نہیں بلکہ ’’حل‘‘ کا حصّہ بن جائیں۔ قومی قیادت کی یہ خواہش حددرجہ قابل تحسین ہے کیونکہ نظریاتی اور فکری انتہاپسندی، فرقہ وارانہ عدم برداشت اور متشدّدانہ رویّوں کے فروغ یا ان کو کم کرنے میں اِن مدارس کے اساتذہ کرام اور طلبہ کے کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پاکستان کے عوام کا ایک بہت بڑا طبقہ اپنے مذہب کے حقیقی مفہوم اور تقاضوں سے عدم آگاہی اور اسلام میں مطلوب ظواہر کی پابندی کا اہتمام نہ کرنے کے باوجود ان کی اہمیت پر ایمان اور یقین رکھتا ہے۔ ان ظواہر کے حوالے سے وہ علماء کرام، خطباء اور آئمہّ مساجد پر انحصار کرتا ہے اور دینی معاملات میں ان کی آراء کو وقیع سمجھتا ہے۔ اس لئے دینی مدارس کے نظام، نصاب اور مالیات ان کے اندر جاری و ساری نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں اور ان کے اثرات کو عمیق تحقیق کا موضوع بنانا وقت کا تقاضا ہے۔
تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر اب تک جتنا بھی سوچا گیا ہے اور جتنی بھی تحقیق سامنے آئی ہے، وہ بڑی سطحی ہے اور مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش تاحال کامیاب نہیں ہوئی۔ دینی مدارس کا قضیہ اب تک ایک ’’مشکل پہیلی‘‘ ہے، جو مسلسل مکالمے کا متقاضی ہے۔ 7 ستمبر 2015ء کو دینی مدارس کے حوالے سے وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں دینی مدارس کے پانچ وفاقوں کے سربراہان، وزیراعظم نواز شریف اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے علاوہ پہلی مرتبہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان صاحب بھی شریک ہوئے۔ ڈی جی، آئی ایس آئی کی موجودگی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کچھ اہم ’’اسرار‘‘ بھی ضرور زیر بحث آگئے ہوں گے، جن کو ’’برسرعام‘‘ بحث کا موضوع بنانے سے اب تک احتراز کیا جاتا رہا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ مدارس کی رجسٹریشن کو آسان بنا دیا جائے گا۔ دینی مدارس کی آمدن اور اخراجات کی تفصیلات کو دستاویزی بنانے کے لئے بنکوں میں ان کے اکاؤنٹس کھولنے کے لئے مراحل آسان بنائے جائیں گے اور مدارس کے حسابات کا آڈٹ کیا جائے گا۔ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب کی تشکیل کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ ظاہر ہے، اس قسم کے فیصلے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن عملی نتیجہ اب تک سامنے نہیں آیا۔ تاہم اس اجلاس کی ’’خصوصی نوعیت‘‘ کی وجہ سے یہ امکان ہے کہ عملی پیش رفت کی طرف اقدامات شروع ہوجائیں گے۔ اگرچہ مختصر مدت میں اس مقصد کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے۔ تین مہینوں میں طریقہ کار (roadmap) بھی طے ہوجائے تو یہ بڑی بات ہوگی۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ رجسٹریشن کے ذریعے یا ریاضی، کمپیوٹر سائنس اور جنرل سائنس کے مضامین متعارف کراکر دینی مدارس کو عصری سرکاری اداروں کی طرح بنا دیا جائے گا۔ ایسا سوچنا خام خیالی ہے۔ کیا وہ ادارے جو باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں، ان سے مختلف ہیں جو رجسٹرڈ نہیں ہیں؟ علاوہ ازیں اب تو دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کی بہت بڑی تعداد عصری سرکاری اداروں میں میٹرک، ایف. اے یا بی. اے کی سند/ڈگری کے حامل ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر کے استعمال میں دینی مدارس کے طلبہ وطالبات کا ایک بڑا حلقہ عصری کالجوں اور جامعات کے طلباء سے زیادہ ماہر ہے۔ مدارس کے بہت سے فارغ التحصیل طلبہ وطالبات کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں اردو اور انگریزی سمجھتے اور بولتے ہیں۔
دینی مدارس کا اصل مسئلہ مذہبی موضوعات اور عالمی حالات کے بارے میں وہ بیانیہ ہے جو ان کے اندر ’’تقدس‘‘ کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔اس عمومی بیانیے کے مشتے نمونہء از خروارے،لیکن نمایاں خدوخال مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ مسلمانوں ہی کو دنیا میں غلبہ کا حق حاصل ہے۔ غلبہ سے ان کی مراد سیاسی اور فوجی غلبہ ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی اور فوجی بالادستی کو وہ غلبہءِ دین (اسلام) قرار دیتے ہیں۔
2۔ بیرونی قوتوں (خصوصاً امریکہ اور یہود کی سازشوں کی وجہ سے) مسلمان اپنے (غلبہ/بالادستی) سے محروم ہیں۔ نظریہءِ سازش (conspricay theory) دینی مدارس کے ماحول کا ’’جزو لاینفک‘‘ ہے۔ ان کے نزدیک یہ سازشیں 1400 سال سے جاری ہیں اور جاری رہیں گی۔ یہود و ہنود اور مسیحی مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں بن سکتے۔ ان کے ساتھ زندگی کے مختلف میدانوں میں تعامل بہت محدود ہونا چاہئے۔ ان پر کبھی اعتماد نہیں کیا جانا چاہئے۔ افغانوں اور روس کے درمیان جنگ میں پوری دُنیا کے مسلم مزاحمتی احزاب اور سی آئی اے کے درمیان بہترین تعلقات ، امریکی حکومت اور عوام کی فراخدلانہ مالی اور سیاسی تعاون کی فراہمی جیسی حقیقتیں اس تناظر میں ذہن کو ماؤف کرنے والے سوالات کوجنم دیتے ہیں۔ لیکن دینی مدارس میں دقت نظر سے ایسے معاملات کو نہیں دیکھا جاتا۔
3۔ دینی مدارس میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان دور وسطیٰ کی صلیبی جنگوں (الحروب الصلیبیہ) کا سرسری ذکر عام ہے۔ لیکن ان جنگوں کے اسباب اور تفصیلات سے پوری طرح آگاہی مفقود ہے۔ ان کا خیال ہے کہ مختلف انداز میں یہ جنگیں اب بھی جاری ہیں۔
4۔ یہ سوچ عام ہے کہ مسیحی مغرب کو خوف ہے کہ اسلام بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اور اس کو محدود رکھنے اور بدنام کرنے کی ضرورت ہے۔ رسول اﷲ ﷺ کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اسی ذہنیت کی غمّاز ہے۔
5۔ مسلمانوں کی تاریخ کے بارے میں بھی مدارس کا بیانیہ بڑا جذباتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ماضی میں اندلس، سسلی اور ہندوستان کو فتح کیا۔ مغرب اور ہنود اس کا بدلہ لینے کے لئے مستعد ہیں۔
جن بادشاہوں نے ان ممالک کو فتح کیا، ان کو دینی مدارس میں انتہائی عقیدت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ حتی کہ ہندوستان کے مغلیہ خاندان کے اُن بادشاہوں کو بھی اسلام کے نمائندہ حکمران سمجھا جاتا ہے، جن کے طرز حکومت کی اساس بالکل غیر مذہبی (سیکولر) رہی، مثلاً ظہیرالدین بابر۔ مغلیہ حکمران اورنگ زیب عالمگیر کا احترام تو اتنا زیادہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے بعد انہیں خلیفہ راشد ششم کے برابر درجہ دیا جاتا ہے۔
6۔ دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے خیال میں کوئی مسلمان 9/11 کے واقعے کا ذمّہ دار نہیں۔ یہ یہودیوں کا کیا دھرا ہے تاکہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے مضبوط بہانہ تلاش کیا جاسکے۔
7۔ دینی مدارس میں ملالہ یوسف زئی اور عافیہ صدیقی کا تقابل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کے رویئے کو سخت ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ دونوں خواتین کے ساتھ مغرب کے رویئے کے پس منظر کا تحقیقی مطالعہ نہیں کیا جاتا۔ دینی مدارس میں ان کے تقابل کو قیاس مع الفارق (inconsistent anology) نہیں سمجھا جاتا، نہ ہی ان دونوں کی صورت حال کے پس منظر کے درمیان فرق کا تحلیلی تجزیہ کیا جاتا ہے۔
8۔ دینی مدارس میں یہ خیال عام ہے کہ ان کا موجودہ نظام اور نصاب دشمنان اسلام کی آنکھوں میں بری طرح کٹھک رہا ہے اور ہر کوئی اس کو ناکام بنانے کے لئے قسم قسم کے منصوبے تشکیل و ترتیب دے رہا ہے۔
ان کے خیال میں دینی تعلیم کا مقصد مالی منفعت یا اجرت نہیں، بلکہ اجر کا حصول ہے۔ موجودہ نصاب تعلیم ان کے ہاں رسوخ فی العلم کے لئے اعلیٰ ترین کاوش ہے۔ اس کو تقدّس کا درجہ دیا جاتا ہے۔
9۔ مدارس کے ماحول میں حدیث شریف الجہاد ماض الی یوم القیامہ (جہاد قیامت تک جاری رہے گا)
زبان زدخاص و عام ہے۔ اس حدیث کے مالہ و ماعلیہ کے بارے میں عام طورپر جزوی تفصیلات زیربحث نہیں آتیں۔ امام محمد الشیبانی کی کتاب السیر چونکہ نصاب کا حصّہ نہیں، اس لئے اصول، و آداب الحرب (قوانین جنگ) کے مطالعے کا فقدان ہے۔ اس وجہ سے مدارس میں جہاد کے لئے ضروری ماحول، شرائط اور تقاضوں کے بارے میں شدید ابہامات موجود ہیں اور خلط مبحث عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں مسلّح جدوجہد کے بارے میں کھل کر عدم اتفاق کی روایت عام نہیں (اگرچہ گزشتہ سالوں میں متعدد بار دیوبندی علماء کے بین الاقوامی اجتماعات میں مسلح جدوجہد کے بجائے پرامن اور آئینی جدوجہد کو اسلام کے تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیا گیا)۔
10۔ دینی مدارس میں مسلمان ممالک کے غیرمسلم شہریوں کو ’’ذمیّ‘‘ قرار دیا جاتاہے۔ گزشتہ صدی کے دوران تشکیل شدہ قومی ریاستوں اور شہریت کے جدید تصّورات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر نئی جغرافیائی حقیقتوں نے جو منظرنامہ ترتیب دیا ہے، اس کی اسلامی اصولوں کے تناظر میں مطالعہ کی کوئی علمی سعی دکھائی نہیں دے رہی۔ ظاہر ہے کہ قومی ریاستوں کی تشکیل کے بعد دارالاسلام، دار الحرب، دار الامن اور دار العہد کی اصطلاحات کے ازسرنو فقہی انطباق کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد تمام ممالک کسی نہ کسی
طرح کے معاہدوں کے بندھنوں میں بندھ گئے ہیں اور دنیا کے بیشتر ممالک کسی نہ کسی طرح دار العہد کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان شملہ سمجھوتہ، اعلان لاہور اور اوفا مفاہمت موجود ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بھی متعدد معاہدوں پر دستخط ہوچکے ہیں۔ ان معاہدات کی موجودگی میں ان ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کیسے ہوں؟ یہ سوال دینی مدارس میں شاذو نادر ہی زیر بحث لایا جاتا ہے۔
11۔ کسی ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے فوری مظاہر کے حوالے سے جامعات دینیہ میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ حدود کا فوری نفاذ اور مرد و زن کے درمیان اختلاط کے مواقع پر پابندی ہی اولین ترجیحات ہونی چاہئیں۔ قومی دولت کو شہری سہولیات کے یقینی بنانے، اچھی حکومت (good governance) دینے اور فلاحی اقدامات کے تصورات ان کے ہاں بعد کی ترجیحات ہیں۔ بہتر نظام حکومت کے قیام کی جڑیں اسلامی روایات میں جس طرح پیوست ہیں، وہ مثالیں عام طورپر زیر بحث نہیں آتیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کی قائم کردہ فلاحی اور اچھی حکومت کے اصول اور ماضی قریب میں شاہ ولی اﷲ ؒ اور مولانا عبیداﷲ سندھی نے اس حوالے سے جتنا علمی سرمایہ فراہم کیا ہے، اس کے مطالعے کا رحجان کم دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس میں افغانستان میں طالبان کا عہد حکومت اور تصورر اسلام مثالی سمجھا جاتا ہے جب کہ ترکی میں طیب اردگان کی جدوجہد اور ایک سخت غیر مذہبی (سیکولر) ماحول میں اسلامی اقدامات کے لئے مواقع (space) پیدا کرنے میں ان کی کامیابیوں کا ادراک مفقود ہے۔
12۔ دینی مدارس میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے قصّے احساسِ تفاخر کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر سے مسلمانوں کی ہر لحاظ سے پس ماندگی کی وجوہات اور اسباب تلاش کرنے کے لئے ’’خود احتسابی‘‘ ان کے بیانئے کا پسندیدہ موضوع نہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ مبہم انداز میں یہ کہنے پر اکتفا کرلیتے ہیں کہ دین سے دوری ہی ان سب مسائل کا سبب ہے۔ ہزارہ کے لوگوں کا محاورہ مستعار لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ ’’اپنی منجی کے نیچے ڈھانگ پھیرنے‘‘ سے احتراز ان کے ہاں عمومی رویہّ ہے۔
دینی مدارس میں (اور مدارس سے باہر بھی) مقبول عام اس بیانئے کے فکری و نظریاتی اثرات سے قومی، علاقائی اور عالمی حالات کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت جامعات دینیہ کے معلمین اور متعلمین کے ساتھ جدید معاشرتی علوم، جدید سیاسیات، عالمی تاریخ، بین الاقوامی تعلقات کی نئی جہتوں اور عصرحاضر کے علمیّاتی موضوعات پر علمی تعامل کی راہیں تلاش کی جائیں تاکہ عالمی معاملات اور حقائق کے بارے میں ان کے نقطہءِ نظر (world view) کے علاوہ متبادل بیانیہ بھی ان کے سامنے پیش کیا جاسکے۔
اس سلسلے میں چند تجاویز پیش کی جاتی ہیں، جن میں بعض کو تو فوری طورپر نافذ العمل کیا جاسکتا ہے، جبکہ بعض کے لئے طویل مدّت درکار ہے۔ لیکن ان کے لئے جلد از جلد اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
فوری طورپر مطلوب اقدامات (short term steps)
1۔ شاید اس امر سے بہت کم لوگوں کو آگاہی حاصل ہو کہ دینی مدارس میں ہائیرایجوکیشن کمیشن (ایچ. ای. سی) کوانتہائی احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے دینی مدارس کی اعلیٰ ترین سند (شہادۃ العالمیہ) کو ایم. اے اسلامیات اور عربی کے معادل/مساوی تسلیم کیا ہے۔ اس معادلے کی بدولت شہادۃ العالمیہ کے حاملین کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بطور لیکچرار تعینات کئے جانے کی راہیں کھل گئی ہیں اور سرکاری جامعات میں ان کو ایم. فل/پی ایچ ڈی کی سطح پر داخلے بھی مل جاتے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ایچ. ای. سی میں دینی مدارس کے لئے ایک سیل قائم کرے تاکہ دینی مدارس اور ایچ. ای. سی کے درمیان مربوط علمی رشتہ استوار ہوجائے۔ ایچ. ای. سی اعلیٰ تعلیم کے معاملات کا ذمہّ دار ادارہ ہے اور دینی مدارس کی اعلیٰ ترین سند (شہادت العالمیہ) اعلیٰ تعلیم ہی کا حصّہ ہے۔ اس لئے حدود کار (jurisdiction) کا کوئی مسئلہ سامنے نہیں آسکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی مدارس کو وزارت مذہبی امور کی بجائے وزارت تعلیم کے دائرہ کار کا حصہ بنایا جائے۔ ایچ. ای. سی اس کے لئے موزوں ترین ادارہ ہے۔
2۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا قیام وفاقی حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے۔ مولانا عامر طاسین اس وقت اس بورڈ کے سربراہ ہیں۔ عامر طاسین صاحب کو علمی حلقوں میں بڑا احترام حاصل ہے۔ لیکن اس بورڈ کو گوناں گوں مسائل درپیش ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے لئے معقول فنڈز مختص کئے جائیں اور اس کو پوری طرح فعّال کیا جائے۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور ایچ. ای. سی کے درمیان یادداشت مفاہمت (MoU) کا اہتمام کیا جائے تاکہ دونوں ایک دوسرے کی استعداد اور صلاحیتوں سے استفادہ کریں اور جامعات دینیّہ کے ساتھ بہتر تعلقات کار قائم کریں۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے صوبائی مراکز قائم کئے جائیں، جو ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے صوبائی دفاتر کے ساتھ مل کر کام کریں۔
3۔ ایچ. ای. سی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے ساتھ مل کر ایچ. ای. سی کے ذیلی ادارے نیشنل اکیڈیمی فارہائیر ایجوکیشن (NAHE) کے زیر اہتمام علماء کرام اور طلبہ وطالبات کے لئے ایک مہینے یا اس سے زیادہ مدت کے خصوصی رہائشی تدریب پروگرام شروع کئے جائیں، جن میں متعلقہ موضوعات پر تحقیقی اور علمی مباحثے اور مکالموں کا انتظام کیا جائے۔ ہوسکتا ہے ایچ. ای. سی کے ذمہّ داراں اس سلسلے میں فوری طورپر تیار نہ ہوں کیونکہ عام طورپر دینی طبقے کو ’’گرم تھالی‘‘ (hot plate) سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمام وفاقوں اور دینی مدارس میں اس قسم کی تدریسی سرگرمیوں کو پسند کیا جاتا ہے اور وہ بخوشی اس کے لئے آمادہ ہوتے ہیں۔ NAHE کے زیر اہتمام سیمیناروں اور تدریب کے پروگراموں میں علماء کرام کے سامنے مندرجہ بالا موضوعات کے علاوہ مندرجہ ذیل سوالات بھی غوروخوض کے لئے پیش کئے جاسکتے ہیں اور ان پر علمی رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ سوالات ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ کے ایڈیٹر حضرت مولانا عمار ناصرصاحب نے انتہائی مشقّت سے ترتیب دیئے ہیں۔ ذیل میں ان سوالات کو من و عن درج کیا جاتا ہے:
’’(i) دنیا میں تہذیبی و سیاسی غلبے سے متعلق سنت الہٰی کیا ہے؟کیا یہ معاملہ سر تا سرانسانی تدبیر سے متعلق ہے یا اس میں تکوینی فیصلے کار فرما ہوتے ہیں؟ اس ضمن میں تکوینی مشیت الہٰی اور انسانی تدبیر میں سے اصل اور اساس کی حیثیت کس کو حاصل ہے؟
(ii) سنت الہٰی کی رو سے کسی قوم کو دنیا میں غلبہ و اقتدار حق و باطل کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے یا اس کی بنیاد کسی دوسرے اصول پر ہے؟ پوری انسانی تاریخ میں جن جن قوموں اور تہذیبوں کو دنیا میں عالمی اقتدار حاصل رہا ہے، کیا وہ سب کی سب حق کی پیروکار تھیں؟ نیز ان قوموں کو یہ سیادت و اقتدار کسی تکوینی سنت الہٰی کے تحت ملا تھا یا وہ مشیت الہٰی کے علی الرغم اس پر قابض ہوگئی تھیں؟
(iii) کسی قوم کو سنت الہٰی کے تحت غلبہ و اقتدار دیا جائے اور پھر وہ روبہ زوال ہوجائے توقانون الہٰی کے تحت اس کی بنیادی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس کے اسباب اصلاً داخلی ہوتے ہیں یا خارجی؟ کیا کوئی مخالف گروہ محض اپنی سازشوں کے ذریعے سے کسی سربلند قوم کو زوال سے ہمکنار کرسکتا ہے؟ (اس ضمن میں ذلک بان اﷲ لم یک مغیرا نعمۃ انعمھا علی قوم حتی یغیروا مابانفسھم کے اصول پر خاص توجہ کی ضرورت ہے)۔
(iv) اگر کسی قوم کی منصب سیادت سے معزولی کا فیصلہ اخلاقی اصولوں کے تحت تکوینی سطح پر ہوتا ہے تو کیا اس کو محض انسانی تدبیر سے بدلا جاسکتا ہے؟
(v) اگر کوئی قوم صدیوں کے عمل کے نتیجے میں زوال کا شکار ہوئی ہے تو کیا اس صورت حال کو سالوں کی جدوجہدسے بدلا جاسکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں انسانی تاریخ کی سطح پر رونما ہونے والے کسی ہمہ گیر اور جوہری تغیر کو short term strategy کے ذریعے سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟
(vi) اگر حق کی حامل کوئی قوم سنت الہٰی کے مطابق غلبہ و سیادت کے لئے مطلوبہ اوصاف سے محرومی کے بعد زوال سے ہمکنار کردی جائے تو کیا محض، جہاد شروع کردینے سے اسے دوبارہ غلبہ حاصل ہوجائے گا؟ دوسرے لفظوں میں، جہاد، غلبہ و سیادت کی ایک مکمل اسکیم کا جزو اور حصہ ہے یا محض یہ ایک نکاتی ایجنڈا ہی مطلوبہ نتیجے تک پہنچا دینے کا ضامن ہے؟
(vii) کیا کسی قوم کو اس کے تہذیبی و سیاسی غلبے کے دور عروج میں طاقت کے زورپر شکست دی جاسکتی ہے؟ اس ضمن میں انسانی تاریخ کے مسلسل واقعات ہماری کیا راہنمائی کرتے ہیں؟
(viii) مسلح تصادم کو بطور حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے نفع و نقصان کے تناسب اور طاقت کے توازن کے سوال کی اہمیت کتنی ہے؟ اس حوالے سے قرآن و سنت اور فقہ اسلامی ہماری کیا راہنمائی کرتے ہیں؟
(ix) روحانی سطح پر امت میں ایمان، یقین، اعلیٰ کردار اور بلند اخلاق کے اوصاف اجتماعی سطح پر پیدا کیے بغیر کیا محض عسکری جدوجہد سے مغرب کے غلبہ کو امت مسلمہ کے غلبے سے تبدیل کردینا ممکن ہے؟
(x) امت مسلمہ میں داخلی سطح پر مذہبی، سیاسی اور نسلی تفریقات کی موجودگی میں اور ٹھوس سیاسی و عمرانی بنیادوں پر ان کا کوئی حل نکالے بغیر کیا بطور امت، مسلمانوں میں وہ وحدت پیدا ہوسکتی ہے جو بطور ایک تہذیب کے، مغرب کی سیادت کو چیلنج کرنے کے لئے درکار ہے؟
(xi) کیا دنیا پر مغرب کا استیلا محض عسکری اور سیاسی و اقتصادی ہے یا اس کے پیچھے فکر و فلسفہ کی قوت بھی کار فرما ہے؟ حیات و کائنات اور انسانی معاشرت سے متعلق مغرب نے مذہب کی نفی پر مبنی جو افکار و نظریات پیش کیے اور متنوع انسانی علوم و فنون کی مدد سے انہیں ایک طاقتور متبادل فلسفہ حیات کے طورپر منوالیا ہے، ان کا سحر توڑے بغیر کیا محض عسکری میدان میں نبرد آزمائی سے مغرب کے استیلا کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے؟
(xii) انسانی تاریخ کی روشنی میں، کیا حق کے، باطل پر غالب آنے کی یہی ایک صورت ممکن ہے کہ حق کاحامل گروہ جو مغلوب ہوگیا ہو، اسے دوبارہ غلبہ حاصل ہوجائے یا اس سے مختلف صورتیں بھی ممکن ہیں؟ مثلاً یہ کہ باطل سے وابستہ کوئی غالب گروہ طاقت کے میدان میں اہل حق سے مغلوب ہوئے بغیر دعوتِ حق سے مغلوب ہوکر اس کی پیروی اختیار کرلے؟ (جیسے مسیحیت کی تاریخ میں رومۃ الکبریٰ کے مسیحی مذہب کو اختیار کرلینے سے اور اسلامی تاریخ میں تاتاریوں کے حلقہ بگوش اسلام ہوجانے کی صورت میں ہوا)۔
(xiii) دنیا میں اسلام کو دوبارہ غلبہ حاصل ہونے کے ضمن میں ظہور مہدی اور نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق جن پیشین گوئیوں کی بنیاد پر ایک تصور مستقبل قائم کیا جاتا ہے، کیا وہ علمی و شرعی طورپر کسی حکمت عملی کا ماخذ بن سکتی ہیں؟ یعنی کیا اس چیز کو حکمت عملی کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں ایسے حالات پیدا کرنے کی سعی کی جائے جس میں مذکورہ شخصیات کا ظہور ہونا ہے؟ ان شخصیات کے ساتھ بلکہ ان سے پہلے دجال کے ظہور کی بات بھی روایات میں بیان ہوئی ہے جس سے تمام انبیاء پناہ مانگتے آئے ہیں۔ ایسی صورت میں ظہور دجال کے لئے حالات کو ہموار کرنے کی شعوری کوششوں کی دین و شریعت کے نقطہ نظر سے کیا حیثیت ہوگی؟
(xiv) مذکورہ واقعات سے متعلق روایات کیا اتنی واضح، مربوط اور مفصل و منضبط ہیں کہ ان سے کسی مخصوص تاریخی دور کے ظہور اور واقعات کی ترتیب کا ایک واضح نقشہ اخذ کیا جاسکے؟ کیا تمام متعلقہ روایات علم حدیث کی روسے اس درجے کی ہیں اور ان میں بیان ہونے والے تمام تر اجزا اور ان کی زمانی و واقعاتی ترتیب اتنی قطعی اور واضح ہے کہ ان پر باقاعدہ ایک حکمت عملی کی بنیاد رکھی جاسکے؟
(xv) کسی بھی صورت حال میں دینی جدوجہد کی ذمہ داری کی نوعیت اور اہداف طے شدہ ہے یا اضافی؟ یعنی کیا اہل ایمان ہر طرح کی صورت حال میں پابند ہیں کہ ایک ہی طرح کے اہداف کے حصول کیلئے جدوجہد کو اپنی ذمہ داری تصور کریں یا یہ کہ اس کا تعلق حالات و ظروف سے ہے؟ اس ضمن میں انبیائے سابقین میں سے، مثال کے طورپر حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام نے جو طریقہ اختیار فرمایا، وہ اسی طرح کے حالات میں امت محمدیہ کے لئے بھی قابل استفادہ ہے یا نہیں؟ نیز کسی بھی صورت حال میں کسی ہدف کے حصول کے لئے جدوجہد کے لئے حکمت عملی کا مسئلہ منصوص، متعین اور بے لچک ہے یا اجتہادی؟
(xvi) کسی بھی صورت حال میں بحیثیت مجموعی پوری امت کیلئے یا کسی مخصوص خطے میں اس علاقے کے مسلمانوں کے لئے حکمت عملی متعین کرنے کا حق کس کو حاصل ہے؟ کیا یہ اہل ایمان کا اجتماعی حق ہے یا اس میں کسی مخصوص گروہ کو باقی امت کے مقابلے میں زیادہ فضیلت اور اختیار حاصل ہے؟ دوسرے لفظوں میں، کیا کسی گروہ کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے تئیں کسی ایسی حکمت عملی کا تعین کرکے اس پر عمل شروع کردے جس کے نتائج عمومی طورپر مسلمانوں کو بھگتنا پڑیں، حالانکہ اقدام کرنے والے گروہ کو عمومی طورپر مسلمانوں کا اعتماد یا ان کی طرف سے امت کے اجتماعی فیصلے کرنے کا اختیار نہ دیا گیا ہو؟‘‘
بجا طورپر یہ اُمید کی جاسکتی ہے کہ ان موضوعات اور سوالات پر بھرپور علمی تعامل تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا اور عصری اداروں اور جامعات دینیّہ کے درمیان بُعد اور سوء تفاہم میں بڑی حدتک کمی آنا شروع ہوجائے گی۔
4۔ دینی مدارس کی رجسٹریشن کا مسئلہ عرصہ دراز سے زیر التواء ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس پر بڑا کام ہوا، لیکن تاحال ایک متفقہ صورت سامنے نہیں آئی۔
پورے یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر دینی مدارس کو یہ اطمینان ہو کہ حکومت ’’نیک نیتی‘‘ کے ساتھ اس معاملے کو حل کرنا چاہتی ہے، تو وہ مکمل تعاون کریں گے۔ دینی مدارس کو تعلیمی حوالے سے دیکھا جائے، نہ کہ لاء اینڈ آرڈر (امن و امان) کے حوالے سے۔ 7 ستمبر 2015 ء کے اہم ترین اجلاس کے تناظر میں اُمید کی جاتی ہے کہ اس مسئلے کا بہتر حل نکال لیا جائے گا۔
5۔ نئے دینی مدارس کے قیام کے لئے یہ پابندی لگانے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے کہ متعلقہ وفاق اور مقامی انتظامیّہ کے سامنے اس کے قیام کی ضرورت (feasibility report) پیش کی جائے۔ اس طرح مدارس کے بارے میں یہ شکایت ختم ہوجائے گی کہ ہر فارغ التحصیل چندہ جمع کرنے کے لئے مدرسے کے قیام کا سہارا لیتا ہے اور بہت سے مدارس علمی کام کی بجائے کچھ افراد کے لئے وسائل رزق کے طورپر قائم ہیں۔ اس قسم کے متعدددینی مدارس کے ’’سفیر‘‘ کراچی اور بیرونی ممالک کے متمول افراد سے چندہ وصول کرنے کے لئے قسم قسم کے حربے استعمال کرتے ہیں جو دین دار طبقے کی بے توقیری کا باعث بنتے ہیں۔
6۔ ہر محلّے اور گاؤں میں مقامی رہائشیوں کے بچوں کیلئے مسجد میں ناظرہ اور حفظ القرآن کا انتظام کیا جا تا ہے۔
یہ آئمہ مساجد اور علماء کرام کی بہت بڑی معاشرتی اور دینی خدمت ہے۔ اس کا اعتراف کیا جانا چاہئے۔ مساجد کے اندر قائم ناظرہ اور حفظ القرآن کے اداروں کی بھی باقاعدہ رجسٹریشن ہونی چاہئے۔ اگر مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے علاقائی مراکز قائم ہوں تو یہ ذمہّ داری انہیں سونپی جاسکتی ہے۔ اس طرح ایک بہتر ادارتی نظم قائم ہوجائے گا۔
7۔ ایچ. ای. سی نے مدارس کی اعلیٰ ترین سند (شہادۃ العالمیہ) کو تو ایم۔ اے اسلامیات اور عربی کے مساوی/ معادل قرار دیا، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ مدارس کی شہادۃ العالیہ کو بی. اے کے برابر قرار دیا جائے۔ اس سلسلے میں ایچ. ای. سی، مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور جامعات دینیّہ کے وفاقوں کے درمیان اتفاق رائے سے فیصلہ کیاجاسکتا ہے کہ کن اضافی مضامین کو شامل کرکے یہ قدم اٹھایا جاسکتا ہے۔ اس طرح دینی مدارس کے طلبہ/ طالبات کو عصری جامعات کے معاشرتی اور بشری علوم (Social Sciences/ Humanities) کے اداروں میں داخلے کے مواقع حاصل ہوجائیں گے اور ان کے لئے نئے میادین علم کی طرف آنے کے امکانات وسیع ہوجائیں گے۔
8۔ دینی مدارس کی دو اور اسناد (شہادۃ الثانویہ العامہ اور شہادۃ الثانویہ الخاصہ) کو میٹرک اور ایف. اے کے مساوی/معادل قرار دینے کے مسئلے کو متعلقہ انٹرمیڈیٹ اور سیکنڈری بورڈز کے اتحاد انٹربورڈ (اسلام آباد) کے اشتراک سے حل کئے جانے کے لئے عملی اقدامات اُٹھائے جائیں۔ یہ مسئلہ بھی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ بورڈز اور جامعات دینیّہ کے وفاق مل کر یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ دینی مدارس کے نصاب میں کن اضافی مضامین کی شمولیت یقینی بنائی جائے تاکہ یہ مقصد حاصل کیا جاسکے۔ افغانستان میں اس قسم کا تجربہ کیا جاچکا ہے۔ اس سے استفادہ کیا جائے۔ بنگلہ دیش، انڈونیشیاء اور ملائیشیاء کے تجربات سے بھی مدد لی جاسکتی ہے۔
طویل المدت اقدامات (long term steps):
مدرسہ ایجوکیشن بورڈ یا کسی اور مناسب ادارے کو یہ ذمہّ داری سونپی جانی چاہئے کہ وہ دینی مدارس کے موجودہ نصاب پر پوری نیک نیتی کے ساتھ ایک کھلے مباحثے کی داغ بیل ڈالے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس مقصد کے لئے مناسب رقم مہیّا کرے، تاکہ ملک بھر میں علماء کرام کے ساتھ مشاورت ہو اور ایک بھرپور قومی مشاورت کے نتیجے میں جدید نصابی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ دستاویز تیار کی جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ درسِ نظامی کا موجودہ نصاب مختلف مراحل سے گزرا ہے اور علماء و اساتذہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مناسب تبدیلیاں کی ہیں۔ فقہی نصاب کے حوالے سے خلاصہ کیدانی، منیۃ المصلّی، المختصر القدوری، نور الایضاح، کنزالدقائق، مختصرالحقائق، مستخلص، شرح الیاس، شرح و قایہ اور کتاب الہدایہ کو خاصی شہرت حاصل رہی ہے۔ اس وقت ان میں سے اول الذکر دو کتابیں اور مستخلص و شرح الیاس کو ہٹا دیا گیا ہے، جب کہ باقی کتب کو التزام کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ اِن کتب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس نصاب سے گزر کر مدارس دینیّہ نے مختلف ادوار میں دینی و فقہی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے بڑے بڑے فقہاء پیدا کیے ہیں۔
موجودہ دور میں، تاہم اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ موجودہ قابل قدر فقہی ذخیرے کی زیادہ بہتر ترتیب کے ساتھ تشکیلِ جدید کی جائے۔ موجودہ دور علمی حوالے سے بہت سخت مقابلے کا دور ہے اور اب مختلف میادین علم کے پرانے نصابوں میں مناسب تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دیگرذرائع نے معلومات کے حصول کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ نئے حالات نے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ آج کے نئے ذہن کو مربوط اور محکم دلائل کے بغیر آسانی سے قائل نہیں کیا جاسکتا۔ آج کا نوجوان بالخصوص بہت متجسس بن گیا ہے اور اس کے ذہن میں بہت مشکل سوالات ابھر رہے ہیں۔ دینی مدارس کے منتظمین اور علماء کرام کے فہمیدہ اور حساس افراد کو اس حقیقت کا پوری طرح ادراک ہے۔ اس ادراک کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں کچھ ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ درس نظامی کے پورے نصاب پر جیّد علماء کرام کی نگرانی میں ازسرنو غور کیا جائے اور اس کے فقہی نصاب کو بالخصوص نئے تقاضوں کی روشنی میں از سر نو ترتیب دیا جائے۔ ہمارے اسلاف فقہاء کرام کی دینی خدمات کی ایک دنیا معترف ہے۔ انہوں نے اپنے اپنے دور میں وقت کے تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کی بہترین رہنمائی کی کوشش کی ہے۔ اُن کے ہاں توسُّع اور حالات و زمانہ کی حکمت کے فہم کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اس تسلسل کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ فقہی نصاب میں بہت زیادہ تکرار ہے۔ ان میں کچھ کتب کا انداز بیاناور ان کی زبان خاصی مغلق ہے۔ موجودہ دور میں نصاب میں ربط و ترتیب کے مسلّمہ اصولوں کی رعایت ضروری ہے۔ مرّوجہ نصاب اپنے وقت کے تو مطابق تھا، لیکن اب اس کو تشکیلِ جدید کے ذریعے اور زیادہ مفید بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں:
1۔ اس نصاب کو ایک باقاعدہ ترتیب کے ساتھ وضع کیا جائے۔ سب سے پہلے بنیادی فقہی اصطلاحات مثلاً فرض، واجب، سنت، مستحب، حرام، مکروہ اور مباح وغیرہ کی تعریف سمجھا دی جائے۔ اس کے بعد طہارت، عبادات اور معاملات کے احکام کو ایک مربوط طریقے سے ترتیب دیا جائے۔ ابتدائی مرحلے میں اِن امور کے بارے میں سادہ طریقے سے مختلف صورتیں اور اُن کے بارے میں فقہی حکم بیان کیا جائے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں مختلف مسائل میں اختلاف آئمہ اور ان کے دلائل کو تفصیل کے ساتھ درج کیا جائے۔ اس سے طلبہ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے آئمہ اور اسلاف کے درمیان علمی اختلاف کا طریقہ کار کیا تھا۔ تعبیری تنوع ہماری علمی بنیادوں کے استحکام کی علامت ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ اپنے شاگردوں امام محمدؒ ، امام ابویوسفؒ اور امام زفر ؒ نے اختلاف کیا ہے اور بعض مسائل میں امام صاحب نے اپنے شاگردوں کی رائے کی طرف رجوع فرمائی ہے۔ اختلاف رائے کے احترام کی یہ بہت بڑی مثال ہے۔
2۔ غلامی سے متعلق ابواب و مباحث (کتاب العتاق) میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مناسب ہوگا کہ غلامی کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات دی جائیں۔ ابتدائی دور کے احکام ، مسائل اور اصطلاحات کی ایک تعارفی تلخیص تیار کی جائے۔ رسول اﷲ ﷺنے غلامی کی بیخ کنی کے لئے جو مساعی فرمائیں، ان کا ذکر مفید ہوگا۔ صلوۃ الخوف کے باب کے بارے میں ازسرنو ترتیب کی ضرورت ہے، کیونکہ اب جنگوں میں صف بندی کا پرانا طریقہ برقرار نہیں رہا۔
3۔ جنابت اور غسل کے حوالے سے بعض باریک اور جزوی مباحث کے لئے طالب علم کی عمر کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ کم عمری میں بعض غیرمناسب تفصیلات اور غیرضروری مباحث میں ان کو اُلجھانا نہیں چاہئے۔
4۔ مناسب مرحلے پر طلبہ کو جیّد فقہاء کرام کی حیات و سوانح اور ان کی فقہی خدمات سے روشناس کراناضروری ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ دینی مدارس میں طلبہ کو اس طرف متوجہ نہیں کیا جاتا۔ اکثر طلبہ کو تو نصابی کتب کے مصنفین/ مؤلفین کے نام تک معلوم نہیں ہوتے۔ یہ معلومات ان کے فقہی فہم اور استعداد بڑھانے کے لئے بہت مفید ہوسکتی ہیں۔
5۔ بڑے درجے کے طلبہ کو فقہ حنفی کے علاوہ دیگر فقہی مسالک کی مہم مراجع سے واقف کرانا بہت مفیدرہے گا۔ ان کے جستہ جستہ مقامات انہیں پڑھائے جاسکتے ہیں یا کم از کم انہیں ترغیب دی جاسکتی ہے کہ وہ اُن کا ازخود مطالعہ کرنے کی کوشش کریں۔ دینی مدارس کے کتب خانوں کے لئے ان مراجع کا حصول یقینی بنایا جائے۔
6۔ فقہ میں تخصّص کے درجے کے طلبہ کے لئے کچھ کتابوں کا دقیق مطالعہ بہت مفید رہے گا۔ تخصّص کے طلبہ کے لئے کمپیوٹر سے علمی استفادہ کرنے کے طریقوں کا سیکھنا ضروری ہے۔ اکثر دینی طلبہ زیادہ آسانی کے ساتھ کمپیوٹر سیکھنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ اس وقت مدارس میں تخصص کے لئے جن موضوعات پر کام کرایا جاتا ہے، ان میں بہت زیادہ تکرار ہے۔ کوئی ندرت نہیں، نہ ہی عصر حاضر سے متعلقہ موضوعات پر کوئی اہم کام سامنے آرہا ہے۔
7۔ اس وقت جن جدید مسائل نے جنم لیا ہے، ان کے بارے میں یا تو الگ جامع کتب ترتیب دے کر نصاب میں شامل کیا جائے یا ان کو موزوں متعلقہ ابواب کے ساتھ لاحق کردیا جائے، مثلاً کلوننگ کے مسائل کو جنین کی بحث کے ساتھ لاحق کیا جاسکتا ہے۔
8۔ علماء کرام/ماہرین فقہ کی ایک مجلس (بورڈ) ان تجاویز کا جائزہ لے سکتی ہے۔ فقہ کی کچھ قدیم کتابوں کو برقرار رکھا جاسکتا ہے لیکن فقہی نصاب کی ترتیب نو کی ضرورت محسوس کی جانی چاہئے۔ اس مجلس میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب (کراچی)، مفتی عبدالقیوم حقانی صاحب (نوشہرہ) اور مفتی غلام الرحمن صاحب (پشاور) کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
9۔ فقہ کے ساتھ ساتھ اصولِ فقہ کے نصاب کی بھی ترتیب نو کی ضرورت ہے۔ اساسی ماخذ فقہ سے استخراج اور استنباط کے طرق کو زیادہ پختہ طریقے سے سمجھانا وقت کی شدید ضرورت ہے۔ صبحی مخمصانی کی کتاب فلسفۃ التشریع الاسلامی کو ابتدائی مرحلے پر شامل نصاب کرنا مفید رہے گا۔ جدید دور کے مسائل میں اجتماعی اجتہاد کے تصور کی زیادہ بہتر انداز میں تفہیم ضروری ہے۔ مثلاً طبی میدان میں پیش آمدہ مسائل کے بارے میں ماہرین طب اور ماہرین فقہ اسلامی کی مشترکہ مجلس کے بغیر صحیح نتیجے/حکم تک پہنچنا ممکن نہیں۔ جدید بینکاری نظام سے متعلق مسائل میں ماہرین جدید اقتصادیات کی رائے لینا ضروری بن گیا ہے۔ استحسان اور مصالح مرسلہ کی مباحث ہمارے لئے ماہرین اصول فقہ کا ایک عظیم اور قابلِ فخر علمی ورثہ ہے۔ عصر جدید کے بیشتر مسائل کو ان کی حدود میں حل کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان مباحث کو زیادہ مدلّل اور تفصیل کے ساتھ ترتیب دیا جائے تو شاید بہت سارے امور کو بدعت حسنہ قرار دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
10۔ فقہ اور اصولِ فقہ کے نصاب کی تشکیلِ جدید کی افادیت، اس وقت تک محدود رہے گی جب تک دیگر علوم و فنون اسلامیہ کے نصابات میں مناسب تبدیلیاں نہ کی جائیں۔ مثلاً عربی زبان ہمارے دینی علمی ذخیرے کی فہم کے لئے بنیادی اساس ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زبان فہمی اور زبان شناسی کے قواعد و ضوابط کو دینی مدارس میں متعارف کرایا جائے۔ اجنبی زبانوں کی تدریس کے لئے آج کل بہت مفید کتابیں سامنے آئی ہیں۔ ان کو شامل نصاب کیا جائے۔ مولانا عبدالرزاق سکندر کی کتاب، کیف تعلم اللغۃ العربیہ لغیر الناطقین بھا اس سلسلے میں بہت اچھی کاوش ہے، جس کو ابتدائی کتاب کے طورپر پڑھایا جاسکتا ہے۔ عرب ممالک میں صرف و نحو کے قواعد کو بھی بہت آسانی اور مربوط طریقے سے ترتیب دیکر جمع کیا گیا ہے۔ یہ نئی کتابیں طلبہ کو غیرضروری مباحث میں اُلجھانے سے بچاکر مثالوں کے ذریعے پیچیدہ اور مغلق صرفی اور نحوی عقدوں کو حل کرنے کے طریقے سکھاتی ہیں۔ علم منطق کی اہمیت عصرحاضر میں بہت بڑھ گئی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس حقیقت کا ادراک کیا جائے اور قدیم قواعد منطق کے ساتھ ساتھ جدید اصول منطق کی طرف بھی توجہ دی جائے۔
11۔ مغربی تہذیب کے زیر اثر ہمارے ہاں کا عائلی اور معاشرتی نظام بری طرح شکست وریخت کا شکارہے۔ عائلی اور معاشرتی نظام میں عورت کا کردار اساسی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبات/خواتین کے لئے ایک مربوط اور آسانی کے ساتھ قابل فہم نصاب ترتیب دیا جائے۔ اگر اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت یافتہ خواتین گھروں کا نظام سنبھالیں تو ہمارا عائلی اور معاشرتی نظام بچ سکتا ہے۔
مندرجہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ دینی نصاب کے موجودہ ذخیرے میں تخفیف (کچھ مضامین، موضوعات اور کتب کو نکالنا)، ترمیم (کچھ پرانی کتابوں کی جگہ نئی کتابیں شامل نصاب کرنا) اور تزیید (نئے مسائل، ضروریات اور عصر حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ نظر رکھ کر کچھ نئی کتابیں اور موضوعات شامل نصاب کرنا) ضروری ہوگیا ہے۔
تخفیف اور ترمیم کے حوالے سے کچھ تجاویز اوپر آگئی ہیں۔ تزیید کے حوالے سے کچھ مزید تجاویز ذیل میں پیش کی جاتی ہے:
1۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور طب کے حوالے سے سامنے آنے والے نئے مسائل کی تفہیم کا انتظام ہو۔
2۔ مغرب کی مادی اور صنعتی ترقی کے اسباب اور مغربی افکار کا ناقدانہ جائزہ شامل نصاب ہو یعنی مطالعہء غرب (Occidentalism)۔ ظاہر ہے تفہیم مغرب کے بغیر ناقدانہ جائزہ کیسے ممکن ہے؟
مغربی جامعات میں مشرق کے مطالعے کے لئے بڑے بڑے ادارے قائم ہیں۔ اس علمی میدان کو استشراق (Orientalism)کہا جاتا تھا۔ اس کا نیا نام علاقائی مطالعات (Area Studies) ہے۔ استغراب کی روایت مسلمانوں میں بہت قدیم ہے۔ (یونانی علوم کا مطالعہ اور ان کے تراجم۔ عباسی دور میں بیت الحکمۃ استغراب کا مرکز تھا)۔
3۔ عصرحاضر کے عالمی اداروں کی تاریخ اور طریقہ کار کے بارے میں مدارس دینیّہ کے علماء اور طلباء کو آگاہ کرنا چاہیے۔
4۔ 20 ویں صدی میں سامراجیت اور اشتراکیت کی جنگیں، نیوکلیئر، کیمیائی، ایٹمی اور حیاتیاتی ہتھیاروں، خلائی مہمات، حیاتیاتی انجینئرنگ اور توانائی کے ذرائع کے حوالے سے انہیں معلومات فراہم کی جانی چاہئیں۔
5۔ اسلامی اور مسلمانوں کی تاریخ کا ایک عمومی لیکن غیر جذباتی جائزہ ان کے سامنے رکھا جانا چاہیے۔
6۔ پرانے فرقے اور افکار میں سے بعض اب معدوم ہیں اور ان کی جگہ نئے فرقے اور افکار نے جنم لیا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ عقائد اور کلام کی کتب میں اضافہ کیا جائے اور نئے فرق اور افکار کے بارے میں بھی طلباء کو معلومات فراہم کی جائیں۔
7۔ آج کی دُنیا ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے۔ دُنیا کے لوگوں کے مذاہب سے آگاہی اب پہلے کی نسبت بہت ضروری ہوگئی ہے۔ مذاہب عالم کا مطالعہ اور تفہیم مدارس دینیّہ کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیئے۔ اس میدان علم میں دور وسطیٰ کے مسلمان علماء کو ارہاص کا درجہ حاصل ہے مثلاً علامہ ابن حزم۔
8۔ معلمین اور منتظمین مدارس کی تربیت کے لئے تدریب المعلمین والمنتظمین کا ادارہ قائم کیاجانا بہت ضروری ہے۔ مدارس کے وفاقوں نے اس کی ضرورت کا ادراک کرلیا ہے جوکہ بہت مستحسن بات ہے۔

تزیید کے حوالے سے یہ دیکھنا چاہئے کہ ان کتب اور موضوعات کو اس طریقے سے شامل نصاب کیا جائے کہ یہ متعلمین پر اضافی بوجھ نہ ہو اور نہ ان کی توجہ اصل علوم دینیّہ سے ہٹ جائے بلکہ ریفریشر کورسسز یا سیمیناروں کے ذریعے ان کو ان کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔
نئے تشکیل شدہ نصاب کی تکمیل کے مراحل سے گزرکر فارغ التحصیل علماء کے بارے میں اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ زیادہ بہتر انداز میں قوم کی رہنمائی کرسکیں گے۔ وہ نوجوان طبقے کو مسجد کی طرف راغب کرنے میں بہتر صلاحیّت اور استعداد کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ ان کے انداز میں غیرضروری معذرت خواہانہ پہلو ختم ہوگا اور ان کے اندر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ اسلاف کی سنت کے مطابق ان کے اندر تعبیری تنوع اور نقطہء نظر کے اختلاف میں وسعت نظری کی روایت مستحکم ہوگی، جو علمی ترقی کا باعث بنے گی۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دینی مدارس کے منتظمین اور علماء نصاب میں کسی قسم کی تبدیلی کے لئے آمادہ نہیں۔ یہ بات صحیح نہیں۔ اس سلسلے میں ماھنامہ ’’العصر‘‘ پشاور کے دو اداریوں کے اقتباسات پیش کرنا مفید رہے گا تاکہ معلوم ہو کہ وہاں بھی اس ضرورت کا احساس ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ ان کو یقین ہو کہ یہ تجاویز بدنیتی پر مبنی نہیں۔ ماھنامہ ’’العصر‘‘ جامعہ عثمانیہ کا ترجمان جریدہ ہے۔ اس ادارے کے سربراہ مفتی غلام الرحمن صاحب ہیں، جن کو تمام مکاتب فکر کے علماء میں حد درجہ احترام حاصل ہے۔ ان کے ادارے کا نظم مثالی ہے اور ان کے ہاں انگریزی پڑھانے اور جدید علوم سے آگاہی کے خصوصی انتظامات ہیں۔
ماھنامہ العصر کے مدیر جناب احسان الرحمن عثمانی صاحب اپنے جنوری 2014/ربیع الاول 1435 کے شمارے میں یوں رقم طراز ہیں:
’’بدقسمتی سے ہمارے ہاں عموماً نئی گروہ یا نئی آواز بلند کرنے والوں پر سب و شتم تو پہلے کیا جاتا ہے اور ان کے منظور نظر عقائد و افکار کا مطالعہ بعد میں کیا جاتا ہے جوکہ یقیناًہماری غیر ذمہ دارانہ رویہ کی عکاسی ہے۔
فقہ اور اصول فقہ کی تدریس کے دوران قدیم طرز تعبیر کے ساتھ آج دونوں میں جدید اسالیب سامنے آچکی ہیں۔ طلبہ کو اگر قدیم ذخیرہ پڑھاتے ہوئے اس معاصرانہ تطبیق سے روشناس کرایا جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ تعلیمی سلسلے کے دوران معاشرے کے اُتار چڑھاؤ اور باہر دنیا کے حالات کو درست زاویہ پر پرکھنے اور اس کے لئے مناسب زادِ راہ تیار کریں۔ کوئی شک نہیں کہ ان دونوں علوم میں وسعت اور اضافے کا بنیادی محرک معاشرے کے رواں سفر میں نت نئے حالات و واقعات کا بھی گہرا اثر ہے۔ آج تمام بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹیوں میں قرآن و حدیث، فقہ اور اصول فقہ اور دیگر علوم کی تدریس کے حوالے سے تدوین نو مختلف زاویوں پر عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ہم اپنے دینی مدارس کے ظروف اور اندرونی ماحول کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتے ہیں‘‘۔
’’یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کا بیشتر حصہ شریعت اور مذہب سے آگاہی کاخواہاں ہے مگر جب ان کو ہمارے عمومی اجتماعات اور خاص کر جمعہ کی نشست میں کوئی واضح اور ٹھوس پیغام نہیں مل رہا ہوتا تو یہ بے چارے جمعۃ المبارک کے اہم موقع پر بھی صرف وقتی فریضہ کی ادائیگی کو اپنے لیے غنیمت سمجھتے ہیں۔ آج کے دور میں معاشرے کے پاس مسجد کے امام و خطیب سے ہٹ کر بھی علم و تحقیق کے دیگر ذرائع موجود ہیں جو غلط ہوں یا صحیح مگر طبعی طور سے ان کے گہرے اثرات نمایاں ہیں ہمیں ان چیزوں سے آگاہی حاصل کرکے معاشرے کو درست تطبیق کی نشان دہی کرکے بہتر راہ پر گامزن کرنا ہے‘‘۔
’’اس کے علاوہ عمومی فضا میں مروّجہ نصاب کے ساتھ ساتھ درج ذیل عنوانات پر عمومی ورکشاپ اور مختصر دورانیہ پر حامل کورسسز کے ذریعے ہم اپنے طلبہ کو قومی، ملکی اور بین الاقوامی حالات و واقعات اور اس کے اثرات سے بخوبی آگاہ رکھنے کا احساس دلا سکتے ہیں:
* قرآن و حدیث کے تخاطب کے عمومی انداز کا تعارف، حکمتیں اور تطبیق کی ممکنہ صورتیں
* سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے مناہج سیرت اور معالعہ سیرت کی ضرورت و اہمیت
* تاریخ فقہ اور اصول فقہ کے حوالے سے روزمرہ واقعات اور نت نئے مسائل کا عمومی تجزیہ
* تاریخ کے مضامین پر خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ فلسفہ تاریخ اور معاشرے پر اس کے اثرات
* جدید علوم کا اجمالی خاکہ اور خاص کر فتویٰ سے وابستہ موجودہ دور کے طبی، معاشی اور سیاسی
مسائل کے ساتھ قانون کی موشگافیوں سے مانوس رہنا
* علم الکلام کے قدیم مباحث کے ساتھ ساتھ جدید علم الکلام اور معاصر افکار کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان پر گرفت حاصل کرنے کا سنجیدہ طریقہ کار
* طرقِ تدریس کے جدید اسالیب کا بطور فن تعارف
* دعوۃ و الارشاد کے طریقہ کار، ذمہ داریاں اور جدید اسالیب کی درجہ بندی
* عصر حاضر کی رائج زبانوں پر تحریر و تقریر کے ذریعے گرفت بالخصوص عربی، اردو، انگریزی
* ذرائع ابلاغ کا تعارف اور اس کے ذریعے اپنے پیغام کو مؤثر انداز میں پہنچانے کی حکمت عملی‘‘۔
ماھنامہ العصر کے حالیہ شمارہ (اگست 2015/شوال 1436) میں محترم مدیر یوں رقم طراز ہیں:
’’معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی جانب سے نبی قوم کی رہبری اور رہنمائی کے لئے ان کے اسلوب کو سامنے رکھ کر بھیجا جاتا ہے، تو پھر آج کیوں اس بات میں دقت محسوس کی جارہی ہے، جب انہی انبیاء کرام کے وارثین سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ معاشرے کا رواں اسلوب پہچان کر ان کو دین اسلام کی تعلیمات واضح طورپر پہنچائیں۔ ہمارے متقدمین علماء نے اس ضرورت کا احساس کرکے قرآن و حدیث کے مسلمہ حقائق سمجھانے کے لئے معاشرتی اسلوب کا نہ صرف احساس کیا بلکہ جس وقت معاشرے پر عقل پرستی کا غلبہ رہا اس وقت ان عقلی علوم میں انہوں نے مستقل کتابیں تصنیف کرکے مدمقابل کا خوب مقابلہ کیا اور آج دورِ قدیم سے وہی ہمارے نصاب کا مستقل حصہ ہے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ معاشرے کا اسلوب افراد اور قوموں کی طرز زندگی، بودوباش اور زمانے کے حوادثات سے تغیر کا شکار ہوتا ہے اس لئے ایک زمانے کا انداز فکر یا سوچ و نظر کے زاویوں کا مدتوں یکساں ہونا بھی ایک مشکل امر ہے۔ اس لئے جب اُس زمانے میں ایسے نئے اقدامات کو ہم نے بلاچون و چرا قبول کیا، تو پھر آج اگر زمانے کی نفسیات، مدمقابل کا انداز تخاطب اور سائنس و ٹیکنالوجی کے نتیجہ میں فاصلے سمٹنے کے حوالے سے خبر رسانی کے جدید ذرائع دریافت ہوئے ہیں، تو ایسے حالات میں ہمارا پرانے رویے پر اصرار شاید ہمیں بہت پیچھے کی طرف دھکیل دے اور لوگ ہمیں بجا طورپر دقیانوسیت کا علم بردار سمجھیں‘‘۔
’’نظام تعلیم کا آغاز مدرسہ کی چار دیواری سے ہوتا ہے، آپ مدرسہ کی تعمیر کا آغاز ہی ایسے انداز میں کریں جہاں طلبہ داخل ہونے کے ساتھ ایک علمی درس گاہ کا تصور کرلیں۔ اس میں علم و دانش سے وابستہ ایسی دلچسپی کا مواد ضرور ہو کہ جن سے ان کے علم کے ارادے کو مزید تقویت ملے۔ درس گاہ میں اٹھنے بیٹھنے، رہائش، کھانے پینے اور ضروریات زندگی کے حوالے سے ایک ایسا نظم ان کو فراہم ہو کہ جس سے خود ان کو بہتر تہذیب کی شناسائی کے مواقع میسر ہوں۔ بدقسمتی سے ہم نے دینی مدارس کے عمومی ماحول کو دنیا و مافیھا سے ایسا الگ رکھا ہے کہ جہاں صرف تعلیم ہو باقی کچھ نہ ہو۔ طلبہ سبق پڑھنے کے لئے استادکے سامنے آئیں اور استاد ان کو پڑھا کر چلا جائے اور بس۔ اس سے آگے نہ تو معلم کی کچھ ذمہ داری ہے اور نہ ہی متعلم کا کچھ مزید احتیاج ہے۔گویا ہم نے تعلیم و تعلم کے بنیادی مقاصد کو بے معنی چھوڑ دیا ہے۔ بطور مثال ہمارے نصاب تعلیم میں فقہ کی کتابیں کا آغاز کتاب الطھارۃ سے ہوتا ہے، طہارت کی حقیقت اور اس کی لغوی و صرفی تحقیق پر تو ہم گھنٹوں بحث کرتے ہیں مگر کیا ہم نے اپنے ارد گرد کے ماحول میں طلبہ کو اس کا پابند بھی بنایا ہے یا نہیں۔ آخر یہ کون سا دین ہے جو ہمیں اس قسم کا صاف ستھرا ماحول اپنانے سے منع کرتا ہے اور یہ کون سی زاہدانہ زندگی ہے کہ جس پر ہم فخر کرکے بیٹھے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق مدارس کے خلاف موجودہ پروپیگنڈے میں اگرچہ سو فیصد حقیقت نہیں لیکن صفائی و ستھرائی اور عمومی نظم و ضبط کے حوالے سے یہ حقیقت بہرحال موجود ہے کہ بیشتر اہل مدارس مسجد و مدرسے کے اس مقدس ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے ناکام نظر آتے ہیں تب ہی تو پھر خبر رساں اداروں کو یہ کہنے کی جرات ملتی ہے کہ یہ دقیانوسیت اور دنیا سے بے خبر لوگ ہیں، ہم مدارس والوں کو اس پہلو پر شدت کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ یہی نظم و ضبط تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہی نظم اسباق کی درجہ بندیوں کے ساتھ امتحانات، نتائج، چھٹی اور تفریح کے اوقات کے لئے بھی قائم ہونا چاہئے۔ اگر ہم اپنے ان طلبہ کو دوران طالب علمی زندگی کے جملہ معمولات میں نظم و ضبط کا عادی بنائیں تو کل کو یہ معاشرے کا متقدیٰ اور پیشوا بن کر وہی مزاج اپنائے گا جو ان کو مدارس کے ماحول اور چاردیواری میں ملا ہو۔ کیا ہمارا دین اور ہماری شریعت ایک نظم اور ڈسپلن کی حامی نہیں؟‘‘۔
یہ اداریے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ جامعات دینیّہ میں بھی اس وقت بڑی شدّت کے ساتھ یہ خواہش موجود ہے کہ ان کا نظام اور نصاب عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
کچھ اضافی نکات اور تجاویز :
1۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مدارس دینیّہ کا ادارتی حوالے سے دہشت گردی یا مسلح مزاحمت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ان میں بعض مدارس کے اندر اس ذہن کے لوگ ضرور موجود ہیں۔ لیکن ایسے لوگ توسرکاری اور نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی موجود ہیں اور ان میں بعض تو کئی سانحوں میں عملاً ملّوث پائے گئے۔
2۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مدارس میں مسلکی شدّت اور فکری ضیق کی روایت نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔ مدارس کے وفاق بھی مسلکی نسبت کی اساس پر بنے ہیں، لیکن اس کا سبب نصاب نہیں بلکہ مدارس کا عمومی ماحول ہے۔
3۔ ہمارے ہاں عام طورپر مدارس کے نصاب کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے، جو صبح سویرے سے لیکر نماز ظہر تک کی علمی سرگرمی ہے۔ نماز ظہر کے بعد مدارس سے منسلک معلمین اور متعلّمین کی ہم نصابی مصروفیات کا عمیق مطالعہ اب تک اہل علم کی توجہ کا طلب گار ہے۔ یہی وہ دورانیہ ہے، جس میں ان کے ہاں مروج بیانیہ کا بیشتر حصہ تشکیل پاتا ہے۔ معلّمین اور متعلّمین کے درمیان مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا) کے استعمال سے دینی مدارس میں مسلکی حوالے سے مناظروں کی تربیّت بھی حاصل کی جاتی ہے۔ مناظرانہ تقریروں کے کیسٹ سنے جاتے ہیں یا موبائیل پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر آڈیو اور ویڈیو پیغامات اور تقریروں سے استفادہ کیا جاتا ہے (یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کا بیانیہ بھی دینی مدارس کے ہاں مقبول بیانئے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ لیکن وہاں کا بیانیہ زیادہ تر نصاب سے بنتا ہے، جب کہ دینی مدارس میں ہم نصابی دورانئے کے درمیان)۔
4۔ 7 ستمبر 2015 کو اعلیٰ پائے کے اجلاس میں جو فیصلے ہوئے ہیں، ان میں کوئی ’’انکشاف‘‘ سامنے نہیں آیا۔ جو فیصلے ہوئے ہیں وہ 2005 اور 2010 کی یاد دلاتے ہیں۔ اس قسم کے فیصلے پہلے بھی ہوئے تھے، بلکہ اس سے زیادہ جامع اعلامیّے سامنے آئے۔ اصل مسئلہ ’’پہلا قدم‘‘ اُٹھانے کا ہے جو ’’سرخ فیتہ‘‘ کی وجہ سے ہمیشہ خواب بن کر رہ جاتا ہے۔
تجویز یہ ہے کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو فوری طورپر فعّال کیا جائے۔ اس کی صوبائی شاخیں قائم کی جائیں اور اسی کو یہ کام سونپ دیا جائے، جن کے اعلانات کئے گئے ہیں۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا قیام 1969 ہی سے ہر مکتب فکر کے علماء کا مطالبہ رہا ہے۔ بدقسمتی سے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی حکمت عملی اور 9/11 کے واقعات کی وجہ سے سرکاری اقدامات میں ’’بدنیتی‘‘ کا عنصر زیادہ نمایاں ہونے لگا اور خارجی دباؤ کا تأثر اُبھرا، جس کی وجہ سے دینی مدارس مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے بدکنے لگے۔ نئی صورت میں کافی اعتماد سازی ہوگئی ہے اور اب یہ امکان پہلے سے زیادہ ہے کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے پلیٹ فارم سے ’’پہلا قدم‘‘ اور اس کے بعد ’’ہزار میل کا سفر‘‘ طے ہونے کا عمل شروع ہوجائے گا (مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے درمیان یادداشت مفاہمت ہوجائے، تو بجٹ اور دفاتر کے حوالے سے بڑی آسانیاں پیدا ہوجائیں گی)۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی تاریخ اور ان کے اہداف کے لئے شیخ زاید اسلامک سنٹر، پشاور یونیورسٹی کے سہ ماہی مجلہ ’’الایضاح‘‘ شمارہ 26، جون 2013 میں ڈاکٹر نیاز محمد اور ڈاکٹر دوست محمد کی علمی کاوش ’’پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور علماء کے تحفظات: واقعاتی پس منظر میں، صفحات 1 تا 18 دیکھنے کے لائق ہے۔
5۔ دینی مدارس کے نصاب کی تربیّت نو اور تشکیل آسان مہم نہیں۔ اس کی جزوی تفصیلات پر اتفاق رائے حاصل کرنا وقت طلب اور محنت طلب کام ہے۔ لیکن اس مہم کو شروع کرنا ضروری ہے اور اس کے لئے مناسب بجٹ مختص کرنا چاہئے۔ ابتدائی قدم کے طورپر ہر وفاق سے ایک ایک نمائندہ لیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں کچھ مزید ماہرین اور دانش ور حضرات کو مجوزہ نصاب کمیٹی میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ ان میں مولانا اعجاز صمدانی(درالعلوم، کراچی)، مفتی غلام الرحمن (دارالعلوم عثمانیہ، پشاور)، مولانا مفتی محمد زاہد(دارالعلوم امدادیہ، فیصل آباد)، ڈاکٹر محمد امین (مدیر البرہان، لاہور)، ڈاکٹر خالد رحمان یا ان کا نمائندہ (انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد)، ڈاکٹر فخرالاسلام (ڈائریکٹر، پاکستان سٹڈی سنٹر، پشاور یونیورسٹی)، ڈاکٹر نیاز محمد (ڈین، فیکلٹی علوم اسلامیہ، عبدالولی خان یونیورسٹی، مردان) قابل ذکر ہیں۔ اسلام آباد میں مدنی معاشرے کی دو تنظیمیں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز (PIPS)، اور پیس ایجوکیشن فاؤنڈیشن (PEF) مدارس کے ساتھ علمی تعامل میں ارہاص کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان سے بڑے مفید مشورے مل سکتے ہیں اور کافی مدد لی جاسکتی ہے۔