working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 عدم تحفظ کی بنیاد پر بنے والی آبادیاں

قومی لائحہ عمل برائے انسداد دہشت گردی

سزائے موت ،مسئلے کا حل نہیں

نجم الدین

 

نجم الدین پیشے کے لحاظ سے وکیل اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان سے منسلک ہیں انھوں نے سویڈن کی لُنڈ یونیورسٹی سے ایل ایل ایم کر رکھا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت پھانسیوں کی سزا کی بحالی کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے نجم الدین نے یہ واضح کیا ہے کہ گزشتہ چھ ماہ میں دی جانے والی پھانسیوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر نو میں سے آٹھ افراد کا جرم دہشت گردی نہیں تھا۔(مدیر)ِ

16دسمبر2014ء کو طالبان کی جانب سے آرمی پبلک سکول پشاور پر ہونے والے حملے کے فوراً بعد پاکستان نے چھ سال سے پھانسیوں پر عائد غیر رسمی پابندی کو ختم کردیا اور دہشت گردی سے متعلقہ کیسوں میں ملوث افراد کو پھانسیاں دینے کی منظوری دے دی ۔پھانسیوں پر عمل درآمد دسمبر2008ء میں روک دیا گیا تھا۔ایک ہفتے کے اندر ہی حکومت نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے 24دسمبر کو نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کر دیا۔ وزیر اعظم نواز شریف کے قوم سے خطاب کی تقریر جن افراد نے دیکھی تھی انھیں یاد ہو گا کہ وزیر اعظم نے نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کرتے ہوئے پہلا نقطہ ہی یہ بیان کیا تھا کہ جن دہشت گردوں نے اپنے جرم کو قبول کیا تھا انھیں پھانسیاں دے دی جائیں گی ۔جس سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ حکومت سزائے موت کی بحالی کو انسدادِ دہشت گردی کے لئے ناگزیر سمجھتی ہے ۔دسمبر کے آخری دو ہفتوں میں سات افراد کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا ۔ان میں سے زیادہ تر 2009ء میں جی ایچ کیو اور 2004ء میں فوجی حکمران پرویز مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملوں میں ملوث تھے ۔تین ماہ بعد مارچ میں سزائے موت پر پابندی کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیا گیا ۔حالانکہ شروع میں یہ وضاحت کی گئی تھی کہ پھانسی کی سزا پر عمل در آمد صرف دہشت گردوں تک ہی محدود رہے گا ۔

حق اور مخالفت میں دلائل

پھانسی کی سزاؤں پر عمل در آمد کے آغاز سے یہ کہا جانے لگا تھا کہ کیا اس سے پاکستان میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکے گا ؟ اقوام متحدہ، یورپی یو نین سمیت انسانی حقوق کے کئی کارکنوں، ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ پھانسیوں پر عمل در آمد روک دے اور اس معاملے کو التوا میں رکھے ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی سزائے موت کی بحالی کی مخالفت کی تھی کیونکہ اس کا مؤقف ہے کہ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کے نظام میں کئی خامیاں ہیں نہ ہی تفتیش کا نظام ٹھیک ہے اور نہ دستاویزی ثبوتوں کے معیار کو جانچنے کا کوئی مربوط نظام رائج ہے جس کی وجہ سے اکثر بے گناہ افراد تختہ دار پر چڑھ جاتے ہیں ۔موجودہ حالات میں یہ امکان زیاد ہ ہے کہ بے گناہ افراد کے پھانسی چڑھنے سے انصاف کا خون ہو سکتا ہے جس کی کسی مہذب معاشرے میں اجازت نہیں ہو سکتی ۔کیونکہ خون ناحق کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی ۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا مؤقف ہے کہ دنیا بھر کے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ سزائے موت جرائم میں کمی کی ضمانت نہیں ہے ۔اگر ایسا ہوتا تو چین اور ایران جیسے ممالک میں جہاں بہت زیادہ تعداد میں پھانسیاں دی جاتی ہیں وہ جرائم سے پاک ہو چکے ہوتے ۔چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ سزائے موت، جرائم کے خاتمے کا حل نہیں ہے ۔دوسری جانب پاکستان میں سزائے موت کے حامی افراد کی بھی ایک منطق ہے وہ اس کے لئے مذہب کا سہارا لیتے ہیں جس میں سزاؤں کا اپنا ایک نظام ہے ۔وہ لوگ کہتے ہیں کہ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کا خاتمہ ہو سکتا ہے ۔ان کے بقول خطر ناک اور سخت گیر مجرموں سے کوئی رو رعایت روارکھی نہیں جانی چاہئے ۔ان کی بحالی کی کوششیں بھی بے سود ہیں۔ انھیں جیلوں میں کوئی سہولت بھی نہ دی جائے کیونکہ پاکستان میں عسکریت پسند جیلیں توڑ کر فرار بھی ہو چکے ہیں۔

دہشت گرد اور مجرم

یہ تصور کرتے ہوئے کہ سزائے موت پر عمل در آمد سے انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کو جلا ملی ہے۔ اس کی حمایت میں لوگ یہ کہتے ہیں کہ کم از کم اس سے یہ تو ہوا کہ قوم دہشت گردوں کی پہچان کرسکے اور ان کے خلاف عائد کئے جانے والے الزامات سے لوگوں کو آگاہی ہو ۔

پاکستان کے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین جن جرائم کو دہشت گردی کے زمرے میں لاتے ہیں اور جو مجرم ان کا رتکاب کرتا ہے اسے دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کے خلاف الزامات کو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے ۔ان میں سے اکثر قوانین دہشت گردی ایکٹ کے تحت آتے ہیں جن میں سے بہت سے قوانین دہشت گردی کے ساتھ ساتھ عمومی نوعیت کے جرائم کا بھی احاطہ کرتے ہیں جس کی وجہ سے انسانی حقوق پر کام کرنے والوں نے ان قوانین پر اپنے تحفظات کو اظہار کیا ہے ۔جسٹس پراجیکٹ پاکستان نامی تنظیم نے سزائے کے منتظر قیدیوں پر ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کے قوانین مبہم ہیں اور ان کا احاطہ بہت وسیع ہے ۔بعض معاملوں میں وہ جرائم بھی جن کا دہشت گردی سے تعلق نہیں بنتا انھیں بھی ان قوانین کی زد میں لاکر سزائیں دلوائی جاتی ہیں ۔

اب تک کی کارگزاری

دسمبر 2014ء سے 31جولائی 2015ء تک پھانسی کی سزا پانے والوں سے متعلق ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے کہا ہے کہ

* مندرجہ بالا دورانیہ میں 195افراد کو لٹکایا گیا ۔اس عرصے میں ہونے والی پھانسیوں کی تعداد گذشتہ ایک دہائی میں ہونے والی پھانسیوں سے زیادہ ہے ۔گزشتہ پانچ ماہ میں 134افراد کو پھانسی دی گئی ۔یہ تعداد 2007ء میں ہونے والی پھانسیوں کی کل تعداد سے بھی زیادہ ہے اور گزشتہ دس سال میں کسی بھی ایک سال میں دی جانے والی پھانسیوں سے زیادہ ہے ۔

* جن 195افراد کو اس عرصے میں پھانسیاں دی گئیں ان میں سے صرف 42افراد کے بارے میں کہا گیا کہ یہ دہشت گرد تھے ۔ہو سکتا ہے کہ ان کے جرائم عمومی نوعیت کے ہوں جن کا مذہب، سیاست یا نظریاتی مقاصد سے تعلق نہ بنتا ہو ۔

* 195افراد میں سے صرف 22افراد پر فرقہ وارانہ یا عسکریت پسندی کے الزامات تھے جن پر فرقہ وارانہ قتل، اقدامِ قتل، سیکورٹی حکام کے قتل یا اغواء کی وارداتوں کے الزامات تھے ۔

* تقریباً باقی تمام 173افراد جنھیں تختہ دار پر لٹکایا گیا وہ عام مجرم تھے جس کا مطلب ہے کہ گزشتہ دسمبر سے اب تک جن افراد کو لٹکایا گیا ان میں شامل ہر نو میں سے آٹھ افراد ایسے تھے جن کا دہشت گردی سے تعلق نہیں تھا ۔زیادہ تر لوگ وہ تھے جوقتل، ڈکیتیاں، منشیات فروشی یا جائیداد کے تنازعات وغیرہ میں ملوث تھے ۔چنانچہ ان افراد کو جلدی جلدی پھانسیاں دے دی گئیں۔ ان میں صرف قلیل تعداد دہشت گردوں کی تھی ۔

* تقریباً وہ تمام 22افراد جنھیں قانون کی رو سے دہشت گرد قرار دے کر پھانسیوں پر لٹکایا گیاان کی سزاؤں پر عمل در آمددسمبر2014ء سے فروری 2015ء کے دوران ہوا جو کہ نیشنل ایکشن پلان کے ابتدائی ایام تھے ۔جبکہ باقی 173افراد پر غیر دہشت گردی کے الزامات تھے جن کو پاکستان پینل کوڈ کے تحت دیگر جرائم یا منشیات فروشی ایکٹ وغیرہ پر سزائیں دی گئی تھیں اور ان مجرموں کو زیادہ تر سزائیں مارچ 2015ء کے بعد دی گئیں ۔جون اور جولائی میں ان پھانسیوں کی تعداد میں اس لئے کمی واقع ہو گئی کہ حکومت نے رمضان کے تقدس کے پیش نظر پھانسیوں پر عمل در آمد روک دیا تھا یہ دورانیہ جون کے وسط میں شروع ہوا اور جولائی کے وسط تک گیا۔

پھانسیاں

3

اثرات

سزائے موت صرف اسی صورت دہشت گردی کے خلاف مؤثر ہتھیار ہو سکتی ہے جب یہ ان افراد کو روک سکے جو عسکریت پسندی اور دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ بظاہر ایسے دکھائی دیتا ہے کہ پھانسیوں کے لاگو ہونے کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں جو شدت تھی اس میں 2015ء کے بعد کمی آئی ہے اور یہ کہا جانے لگا ہے کہ ملک میں سیکورٹی کی صورتحال بہتر ہو گئی ہے ۔لیکن جیسا کہ پہلے کہا گیا ہے کہ جن لوگوں کو لٹکایا گیا ہے ان میں دہشت گردوں کی تعداد بہت قلیل ہے ۔حتٰی کہ پاکستان میں ہونے والی 195پھانسیوں نے اسے پہلے ہی دنیا میں دی جانے والی پھانسیوں کی تعداد میں پہلے نمبر پر لا کھڑا کیا ہے لیکن جن لوگوں کو پھانسیاں دی گئی ہیں ان میں بڑی تعداد دہشت گردوں کی نہیں ۔دعوے کچھ اور کئے گئے تھے مگر عملاً کچھ اور کیا جا رہا ہے ۔جیسا کہ ایک حالیہ تحقیق میں اس بات کی حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ سزائے موت ،جرائم کو روکنے میں مدد کرتی ہے ۔پاکستان میں پھانسیوں کی تعداد میں تو تیزی آئی ہے مگر انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو رہی ۔شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو لوگ دہشت گردی میں ملوث ہیں ان کانظریہ اتنا پختہ ہے کہ کوئی بھی سزا انھیں اس سے ہٹا نہیں سکتی ۔اور جن لوگوں کو سزا دی بھی گئی ہے وہ ان کے اعترافِ جرم کی صورت میں دی گئی ہے مگر وہ اپنے کئے پر پشیمان ہر گز نہیں ہیں ۔چنانچہ ایک لمحے پر آکر یہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کہ شاید سزائے موت ،دہشت گردی روکنے کا کوئی موئثر حل نہیں ہے ۔تاہم شاید ریاست اس اقدام کے ذریعے عوام کے زخموں پر صرف مرہم رکھنا چاہتی ہے جو دہشت گردوں نے بے رحمی سے معاشرے کو لگائے ہیں ۔آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد ریاست نے جس شدت کے ساتھ ردعمل دیا ہے اس سے یہ پیغام دینا بھی مقصود تھا کہ ابھی ریاست کے ترکش میں کئی تیر باقی ہیں جو بوقتِ ضرورت چلائے جا سکتے ہیں اور وہ دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔

پھانسیوں کی بحالی ایک آسان راستہ تھا اور لوگوں کو مطمئن کرنے کا بھی ،جو اس موقع پرحکومت سے کسی سخت اقدام کے متمنی تھے بجائے اس کے بجائے کہ حکومت طالبان کے بیانئے کو چیلنج کر کے اپنے لئے ایک مشکل راستے کا انتخاب کرتی جو لوگوں کو مرنے مارنے پر اکساتا ہے ۔یا پھر یہ کہ ریاست کو سزائے موت کی بحالی کے لئے کسی بہانے کا انتظار تھا ۔کیونکہ حکومت نے پہلے بھی عوام کو کوئی دلیل بھی نہیں دی کہ اس نے چھ سال سے سزائے موت پر کیوں پابندی عائد کر رکھی تھی ۔اس سارے وقت کے دوران ریاست نے آئین میں درج ان 27جرائم کی تعداد بھی کم نہیں کی جن پر کسی بھی مجرم کو پھانسی دی جا سکتی ہے اس پر اسے انسانی حقوق پر کام کرنے والوں کارکنوں کی جانب سے کافی دباؤ کا سامنا بھی رہا ۔جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت سزائے موت پر پابندی کی بحث کو ثمر آور نہیں کرنا چاہتی ۔

سزائے موت سے دہشت گردی کا حل ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی بیماری کی وجوہات جانے بغیر اسے ختم کرنے کی کوشش، دہشت گردی کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک اس انتہا پسند بیانئے کا خاتمہ نہیں ہو جاتا جو نفرت اور عدم برداشت سے عبارت ہے ۔جو انتہا پسند گروہوں کو زرخیز زمین فراہم کرتا ہے جس میں وہ اپنے مزموم عزائم کی تکمیل کر سکیں ۔

دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لئے ماضی کی غلطیوں سے سیکھا جائے ۔مجرموں کی سرکوبی اور انھیں سزائیں دلانے کے عمل کو موئثر بنانے کے ساتھ ساتھ ان کی بحالی اور اصلاح کے عمل کو بھی شروع کیا جائے ۔جہاں آہنی ہاتھ دکھانا ہو وہاں دکھایا جائے لیکن جہاں اس کی ضرورت نہ ہو وہاں ریاست اپنی توانائیاں ضائع نہ کرے۔