working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 عدم تحفظ کی بنیاد پر بنے والی آبادیاں

رپورتاج

پاکستان میں سماجی ہم آہنگی کا قیام کیسے ممکن ہو ؟
پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام ورکشاپس کی رپورٹ

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز گزشتہ کئی برسوں سے مختلف مسالک کے درمیان مذہبی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کوشاں ہے۔ اسکے لیے اب تک ملک بھر میں متعدد سیمینارز اور ورکشاپس کا اہتمام کر چکا ہے۔ اس سلسلے میں مختلف مذاہب اور مسالک کے نوجوان سکالروں کیلیے ایک تربیتی ورکشاپ کا اہتمام25 مئی2015 کو اسلام آباد میں کیا گیا جس میں مسلمان،ہندو،سکھ اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے40 سے زائد نوجوان سکالروں نے شرکت کی۔ اس ورکشاپ کا عنوان تھا کہ پاکستان میں سماجی ہم آہنگی کیسے ممکن ہے؟۔ورکشاپ سے ڈاکٹر قبلہ ایاز،رومانہ بشیر، خورشید ندیم، صاحبزادہ امانت رسول،مفتی محمد زاہد اور پروفیسر ثاقب اکبر نے خطاب کیا۔ ورکشاپ کی مختصر رپورٹ ذیل میں رقم کی جاتی ہے۔(مدیر)

اس سلسلے کی پہلی ورکشاپ30 اپریل2015 کو اسلام آباد میں ہوئی جس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر قبلہ ایازنے کہا کہ پرویز مشرف کے دور میں اقلیتوں کو قومی انتخابات میں برابر کی شراکت کے لیے آئین میں جو ترمیم کی گئی، مذہبی جماعتوں پر مشتمل اتحاد ایم ایم اے نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔

تمام مذاہب کے ماننے والوں کا ایک عمومی رجحان یہ بھی ہے کہ وہ دوسرے کسی بھی مذہب کے عام ماننے والے کے غلط رویے اور سلوک کو ان کے مذہب کی تعلیمات سمجھتے ہیں حالانکہ مذہب ایسی تلقین نہیں کرتا۔مثلاً بش کا افغانستان پر حملہ ،مسیحیت کا اسلام پر حملہ تصور کیا گیا لیکن مسیحیوں نے اس سے کہا کہ آپ کا افغانستان پر حملہ بائبل کی تعلیمات کے خلاف ہے کیونکہ بائبل کی تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو بدلہ نہ لو بلکہ دوسرا گال بھی اس کو پیش کرو۔ چرچ مسیحی تنظیموں نے اس کے خلاف جلوس نکالے۔ ہمیں بین الاقوامی سطح پر تحریک اور لوگوں کے مؤقف سے چونکہ آگاہی نہیں ہوتی اس لیے بڑے پیمانے پر غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ لہٰذا یہ سیاسی جنگ ہوسکتی ہے مذہبی نہیں۔ اسی طرح برما میں بدھ مسلمانوں پر حملے کررہے ہیں یہ بدھوں کے حملے ہیں لیکن بدھ ازم انہیں ایسا نہیں کہتا وہ تو مچھر کو بھی مارنے سے منع کرتا ہے۔ چنانچہ کوئی بھی مسلمان چرچ پر حملہ کرے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام انہیں ایسا کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ ایسے گروہ ہیں تو غلط تاویل سے ایسا کرتے ہیں۔ یہاں مذہب کے مؤقف اور مذہب کے پیروکاروں کے مؤقف میں فرق پیدا ہوتا ہے۔عیسائی مذہب کا آغاز بنی اسرائیل سے ہوا اور اس میں مختلف اقوام کے لوگوں کی شمولیت کے دروازے کھلے رکھے گئے جس کی پیروی میں آج بھی مسیحی اکثریت کے ترقی یافتہ ممالک جیسے برطانیہ،آسٹریلیا یا دیگر اقوام کے لوگوں کو باآسانی شہریت دے دی جاتی ہے۔اب دہشتگردی اور معاشی حالات کی وجہ سے انہوں نے قوانین میں کچھ سختی لانی شروع کردی ہے لیکن پھر بھی یہ ممالک اپنے تاریخی مذہبی رویوں کے باعث نئے آنے والے لوگوں کو قبول کرلیتے ہیں۔

 

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام ورکشاپ میں مفتی محمد زاہد، امانت رسول، ثاقب اکبر اور محمد عامر رانا شریک ہیں

اسی طرح اقلیتوں کے حقوق کی بات کی جائے تو خلافت راشدہ کے اندر ہمیں بہترین نمونے ملتے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے بیت المقدس میں گرجے کے اندر نماز ادا نہیں فرمائی کہ لوگ اسے مسجد نہ بنالیں۔ عثمانیوں نے استنبول کو فتح کیا تو وہاں ایک قدیم چرچ آیاجس کو گرانے کا حکم دیا تو علمائے اسلام نے بادشاہ کو وہ تاریخی چرچ گرانے سے منع کردیا۔ آج ہمارے معاشرتی رویے اس کے برعکس ہیں لیکن ہمارے غلط رویوں کے لیے مذہب کی طرف سے کوئی سند نہیں دی گئی۔ مثلاً اگر یہاں کوئی گورا مسیحی آجائے تو سب اس کے آگے بچھ جاتے ہیں لیکن مقامی مسیحی کو اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔ یہ رویہ ماحول اور معاشرت کا پیدا کردہ ہے، مذہب کی وجہ سے نہیں ہے۔ہماری معاشرت تفریق کی بنیاد ہے۔

میثاق مدینہ میں پہلے اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا شہری بلکہ ایک امت کا حصہ قرار دیا گیا۔ اگر ہم ان اصولوں کو مدنظر رکھیں تو بڑی سطح پر مذہبی و سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔ یہ آواز دینی طبقے سے بلند ہونی چاہیے تاکہ عوام میں یہ شعور اجاگر ہو اور پاکستانی معاشرہ رواداری کا نمونہ پیش کرے اور دنیا میں ہمارے وقار میں اضافہ ہو۔

رومانہ بشیرنے کہا کہ واضح طور پر میثاق مدینہ اور قائداعظم کی11اگست1947ء کی تقریر ہماری رہنمائی کرتی ہے، میثاق مدینہ کے تحت جس طرح سارے مذاہب کے افراد کو برابری کی سطح پر امت کا حصہ قرار دیتے ہوئے نظام مملکت کا حصہ قرار دیا گیا، یہ ایک روشن مثال ہے۔ 11اگست1947ء کو قائداعظم نے جو تقریر کی جس میں یہ کہا گیا کہ وہ بطور ہندو،مسلم ،عیسائی مذہبی طور پر سب آزاد ہیں اور وقت آئے گا کہ وہ مملکت کے شہری کے طور پر ہندو یا مسلمان کے طور پر شناخت نہیں ہوں گے بلکہ بغیر مذہبی تعصب کے وہ برابر کے شہری ہونے پر فخر کریں گے۔

مولانا یوسف بنوری نے کہا کہ حق متعددنہیں ایک ہوتا ہے۔ایک مذہبی آدمی یہ گوارا نہیں کرسکتا ہے، حق کے متحارب خیال اس کے ذہن میں موجود ہوں۔ مسئلہ یہاں سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس کو محض چھوڑتے نہیں ہیں بلکہ اس کے سانس لینے پر بھی پابندی لگا دیتے ہیں، یہ بات ہمارے نوجوانوں کو سمجھنی چاہیے۔ہمارے اندر سے داعیانہ مزاج ختم ہو جاتا ہے جو موجود رہے تو بہت سارے مسئلے ختم ہو جاتے ہیں۔ ہم اختلافات کو ابھارتے ہیں اور مشترکات کی طرف توجہ نہیں دیتے اور اسی میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ خدا نے اپنے کلام میں حضور نبی کریمﷺ سے یہ فرمایا کہ مخلوق کے درمیان جو اختلاف ہے اس پر افسردہ نہ ہوں ،رب چاہتا تو ان سب کو ایک ہدایت پر جمع فرما دیتا۔ گویا کہ یہ اختلاف خدائی سکیم کا ایک حصہ ہے۔ ہم خدا سے زیادہ خدا کے ہمدرد بننے کی کوشش کرتے ہیں،ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان معاملات میں ہم خدا کی بات کو زیادہ بہتر انداز سے پہنچا رہے ہیں،ہم اپنی ذہنی ساخت میں تصورات قائم کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں جو بچے پیدا ہورہے ہیں وہ خدا پیدا کررہا ہے اور دوسری جگہ کسی اور کی مرضی سے پیدا ہورہے ہیں جن کے ساتھ نیا رشتہ ہمیشہ ہمیشہ نفرت پر مبنی ہوگا۔ قرآن اس بارے میں اتنا حساس ہے کہ وہ یہ کہتا ہے اگر مشرک بھی تم سے مہلت طلب کریں تو انہیں مہلت دو۔

لوگ پارکوںیا ہوٹلوں میں بات کرنے کے لیے اکٹھے ہوسکتے ہیں مگر ہمارے ذہن اتنے محدود ہیں کہ مسجد اور مدرسے میں جگہ تنگ ہوگئی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک نیا عہد عطا کیا ہے جس میں اگرچہ ہمارے ہاں اپنی غلطیوں کی وجہ سے مادی وسائل زیادہ میسر نہیں لیکن اس عہد میں خود غیر مسلموں نے ایسے قوانین بنائے ہیں جن کے مطابق مذہبی قید اور پابندیاں منع کردی گئی ہیں، وہاں آپ کھل کر داعیانہ سرگرمیاں کرسکتے ہیں پورے اعتماد کے ساتھ اپنا پیغام ان تک پہنچا سکتے ہیں، مگر ہم نے اپنے ہاں ایسے قوانین بنا لیے جس سے قید اور پابندیوں کا دروازہ کھول دیا اور دوسرے لوگوں کو اعتراض کا موقع فراہم کیا۔ یہ وہ باتیں ہیں جن پر ہمیں علمی کاوشوں کی ضرورت ہے خاص طور پر نوجوان فکر ان تبدیلیوں کو محسوس کررہی ہے کہ ایک طرف جذباتیت سے اختلاف و تضاد کو فروغ دیا جاتا ہے، دوسری طرف وہی لوگ باہر آکر اتحاد و اتفاق کی بات کررہے ہوتے ہیں۔ نوجوان ان باتوں کو سمجھتے ہوئے سماجی آہنگی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں۔

عمار خان ناصر نے کہا کہ انتشار پسندی اور تشدد پسندی کی جو لہر چلی ہے اس میں ہر گروہ نشانہ بناہے۔اس میں مسلمانوں کے گروہ بھی شامل ہیں اور غیر مسلم بھی۔ اگر میرا گروپ یا مسلک اس کا نشانہ بنتا ہے تو اس کے لیے میں جس دکھ اور کرب کا اظہار کرتا ہوں وہ کسی دوسرے گروہ یا مسلک کے لیے جو اس تشدد کا نشانہ بنا ہو نہیں کرتا۔ جتنی جدوجہد میں اپنے گروہ کو انصاف دلانے کے لیے کرتا ہوں اس کا عشر عشیر بھی شاید بڑا لفظ ہے، میں دوسرے کے لیے نہیں کرتا۔ اس کی وجہ یہ ہے میں یہ سمجھتا ہوں کہ میری ذمہ داری اپنے گروہ کے تحفظ کی حد تک ہے، کوئی شیعہ،عیسائی یا کوئی اور مررہا ہے تو یہ ان کا مسئلہ ہے میرا مسئلہ نہیں ہے۔ ہاں کسی سیاسی ضرورت یا انسانی ہمدردی کے تحت مجھے کوئی بیان دینا ہے تو وہ میں دے دوں گا لیکن بنیادی طور پر میں وہ درد یا ذمہ داری محسوس نہیں کرتا۔یہ بات ہمارے جذبات پر اثر انداز ہوتی ہے اگر ہم میں ایک صحیح پاکستانی کا تشخص پیدا ہو تو ہمیں یہ نمونے دیکھنے کو نہیں ملیں گے۔ دوسری بات جو اس سے منسلک ہے وہ یہ ہے کہ سماج اور معاشرت کے جو تصورات ہمارے یہاں ہیں وہ ایک تو تاریخ کے ساتھ جڑے ہیں دوسرے وہ دور جدید میں سامنے آئے ہیں۔ یہ ہم سے تقاضا کرتے ہیں کہ پرانے تصورات کو بدلیں۔ انسانی حقوق، مساوات اور اجتماعیت کے جدید تصورات سے عدم آگاہی بھی ہمارے لیے ایک بڑا مسئلہ ہے۔جدید تصورات کو ہم ابھی تک نہیں اپنا سکے اور بڑی حد تک ان سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں۔

عملی چیلنجز کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمارا ملک دنیا کا کوئی الگ تھلگ جزیرہ نہیں ہے بلکہ محل وقوع کے حوالے سے دیگر دنیا کے درمیان واقع ہے۔ لہٰذا سیاسی ،سماجی اور معاشی حوالے سے بیرونی عوامل کا اثر انداز ہونا ایک فطری امر ہے۔ ہمارے ملک میں رہنے والے مختلف مذہب اور ذہنی وابستگیاں رکھنے والوں کو ہم آہنگی اور مل جل کر رہنے اور سماجی میل جول کے حوالے سے ہی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہمارے اردگرد کے مختلف معاشروں کے اثرات اور دنیا کی مختلف طاقتوں کے اثرات بھی ہیں جو ہمیں اپنی طرف کھینچنے کی کوشش میں ہیں۔پچھلے تیس سالوں میں ایسے بڑے بڑے واقعات ہمارے سامنے ہیں کہ جو ہماری معاشرتی و مذہبی ہم آہنگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور یہ ہماری سادگی یا تغافل ہے کہ ہم ان اثرات کو قبول کررہے ہیں۔ ہم اس ملک کے اندر رہنے والے بیرونی اثرات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ آپ جہاد افغانستان کو دیکھیں ،تقسیم ہند کے واقعہ نے ہماری نفسیات اور شعور میں ایسی گرہیں باندھ دی ہیں کہ ہم ابھی تک اس سے نکل نہیں پائے۔ یہ70 سال قبل کا واقعہ آج بھی ہمارے ذہنوں اور سوچنے کے انداز کو متاثر کرتا ہے۔ جہاد افغانستان کے اثرات سے نئی وابستگیاں اور وفاداریاں پیدا ہوئیں، نظریاتی اور فکری تقسیم بھی ہوئی، وہ بھی ہمیں متاثر کررہی ہیں۔ ہم اپنی پاکستانیت کو تو قربان کردیں گے مگر اس واقعے کے نتیجے میں جو مطالبات اور وابستگیاں پیدا ہوئی ہیں ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ انقلاب ایران سے بھی نئے جذبات اور وابستگیاں پیدا ہوئیں، اب حال ہی میں مشرق وسطیٰ میں جو کشمکش ہے وہ عروج پر ہے۔پاکستانیوں کے احساس اور تشخص کے بجائے بیرونی واقعات کی بنیاد پر اپنے جذبات، وابستگی اور کشمکش کو ترجیح دیتے ہیں، ہمیں اس سے نکلنے کے لیے کوئی لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔ صبر،حوصلے اور ضبط و تحمل کو اپنانا ہوگا۔ ہمیں اپنے اندر وہ قوت پیدا کرنی ہے کہ جب یہ بیرونی کشش آپ کو اپنی طرف کھینچے تو آپ یہ خیال کریں کہ ہمیں پہلے اپنے ملک کے اندر مختلف مسالک، گروہوں اور جماعتوں کے درمیان ہم آہنگی کو بہتر بنانا ہے اور قومی تشخص کو ترجیح دینی ہے اور سب سے پہلے اپنے قومی مفاد کا خیال رکھنا ہے۔ اپنے اندر اس کشش کے خلاف قوت مدافعت کی ضرورت ہے ورنہ اس چیلنج سے نبرد آزما ہونا مشکل ہوگا۔

خورشیداحمد ندیم نے اپنے خطاب میں کہاکہ میں چیلنج کو موانع کے ساتھ دیکھتا ہوں کہ جب ہم پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ روابط کی بات کرتے ہیں تو وہ کیا موانعات ہیں جو درپیش آتے ہیں، جو بنیادی تعلق جو انسانیت کے ناطے سے مختلف مذاہب کے درمیان قائم ہونا چاہیے وہ نہیں ہو پاتا۔ جب ان موانعات کو دیکھتا ہوں تو میری ترتیب بھی وہی ہے جن کی طرف عمار ناصر صاحب نے توجہ دلائی۔ میں اس کو مزید واضح کرکے متعین سوالات یا چیلنجزکی صورت میں آپ کے سامنے رکھوں گا تاکہ جب مکالمے کو آگے بڑھایا جائے تو بات کی تفہیم واضح ہو جائے۔آپ کا نتیجہ فکر بھی سامنے آئے اور ہمارے خیالات بھی آپ کے پیش نظر ہوں۔

قرآن مجید کے حوالے سے بعض آیات کے تناظر میں ہماری جو تفہیم ہے وہ ایک ایسے تعلق کو وجود میں لانے سے قاصر ہے جسے ہم وحدت کہتے ہیں۔مثال کے طور پر قرآن مجید میں یہ کہا گیا ہے کہ یہود و نصاریٰ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے اور تم انہیں دوست نہیں بنا سکتے۔ بطور مسلمان جب قرآن کو بطور نص ہم دیکھتے ہیں تو ہمارے لیے کسی اور زاویہ نگاہ سے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔اگر قرآن اس دوستی سے منع کررہا ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ وہ تمہاری نسبت ایک دوسرے کے زیادہ دوست ہیں ۔تو سوال یہ ہے کہ اگر ان آیات کایہی مفہوم ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے تو ان کی موجودگی میں کیسے ممکن ہے کہ میں یہودیوں کے ساتھ یا عیسائیوں کے ساتھ یا باقی لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کرسکوں گا۔ اس طرح نص قطعی کی صورت میں دوستی یا تعلق کی بات ختم ہو جاتی ہے۔ اگر اس قطعی مطلب اور مفہوم کے علاوہ واقعات، سیاق و سباق اور دیگر امور پر غور و فکر نہ کیا جائے تو تعلق کی صورت نہیں بنتی۔ دوسری بات اس سے ملتی جلتی ہے اور وہ ارتداد کی سزا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ کوئی غیر مسلم اگر مسلمان ہو جاتا ہے تو ہم خوشی مناتے ہیں لیکن اگر کوئی مسلمان اسلام کو چھوڑ دیتا ہے دوسرا مذہب اختیار کرلیتا ہے تو اس کو زندہ رہنے کا حق نہیں ہے، جیسا کہ روایت کیا گیا کہ’’ جو دین بدل لے اس کو قتل کردو‘‘۔ سوال یہ ہے کہ جب ایسا نقطہ نظر رکھتے ہوں تو کہاں کی وحدت اور کہاں کا اتفاق، تو ایسا ممکن نہیں۔ ہمارے علماء نے اس آئین میں یہ بھی شامل کروایا کہ آپ غیر مسلموں کو کلیدی عہدوں پر فائز نہیں کرسکتے کیونکہ ریاست کے خفیہ راز اس کے علم میں آسکتے ہیں، جن میں دفاع سرفہرست ہے۔ یہ معاملات غیر مسلموں کے حوالے نہیں کیے جاسکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ چونکہ ریاست کے بنیادی نظریے کو نہیں مانتے تو اس فرق کے باعث علماء نے لکھا کہ کلیدی مناصب غیر مسلموں کو نہیں دیے جائیں۔ اس کے تحت غیر مسلموں کے انتخاب کا مسئلہ ہے جس کے لیے جداگانہ طرز انتخاب طے کیا گیا۔ پہلے غیر مسلموں کی طرف سے بھی یہ مطالبہ تھا۔ اب بعد میں اس پر شور ہوا تو دوبارہ مخلوط انتخاب کا سسٹم رائج کیا گیا۔ اس طرح غیر مسلم اب عمومی نشستوں پر انتخاب لڑ سکتے ہیں لیکن ابھی ہمارے ملک میں وہ وقت نہیں آیا کہ کوئی سیاسی جماعت یا غیر مسلم امیدوار انتخاب لڑے اور مسلمان اسے ووٹ دیں، ایسا امکان ابھی نہیں، ایک نظریاتی بنیادوں پر قائم مسلم ریاست میں اقلیتوں کے حقوق کی کوئی ضمانت دی جاسکتی ہے، میرے نزدیک یہ تقسیم، آئین کی یہ شقیں اور سیاسی رویے اقلیتوں کے حق میں برابری کے حقوق دیے جانے میں مانع ہیں۔تیسرا پہلو سماجی رویوں کا ہے یعنی فکری و سیاسی رویوں کے بعد سماجی رویے آتے ہیں۔ ہم معاشرتی طور پر جس سوچ کے ساتھ زندہ رہ رہے ہیں اس میں بھی برابری کا امکان فی الحال نہ ہونے کے برابر ہے۔ ابھی تک ہم غیر مسلموں کے ساتھ ایک برتن میں کھانا نہیں کھاتے۔ اگر کوئی غیر مسلم ملازم گھر میں ہے تو اس کے لیے الگ برتن ہوگا۔ اسے ساتھ بٹھا کر کھانے میں شریک کرنا گوارا نہیں کرسکتے۔ ان کی عبادت گاہوں میں جانا یا انہیں اپنی عبادت گاہوں میں آنے کی اجازت دینے کا کوئی تصور نہیں تھا، اب کچھ جگہوں پر آنا جانا شروع ہوا ہے۔ سماجی رویوں میں اس سطح تک تبدیلی لانا کافی مشکل ہے۔ پڑوس میں ایک مسلم اور ایک غیر مسلم پڑوسی ہے تو دونوں کے ساتھ ہمارے رویے ایک جیسے نہیں ہوتے۔ غیر مسلم کے ہاں کوئی مذہبی تقریب ہوتی ہے تو ان تقریبات کی بنیاد مذہب پر ہے۔ لہٰذا ایسی تقریبات میں شرکت ان کے مذہب میں شامل ہونے کے مترادف ہے۔اس مثال سے ہم دیکھ سکتے ہیں کس طرح کے سماجی رویے ہمارے یہاں آجاتے ہیں۔ جہاں تک فرقہ واریت کو غیرمسلموں کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کے تمام فرقے سیاسی و سماجی رویوں اور دینی تفہیم کے حوالے سے یکساں مؤقف رکھتے ہیں یعنی مسلمانوں کے اندر تمام فرقوں میں اقلیتوں کے ساتھ رویوں کے حوالے سے ایک ہی انداز فکر پایا جاتا ہے۔اس بات پر اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے کہ کوئی بات تو ہے جس پر مسلمانوں کے تمام فرقے ایک رائے کے حامل ہیں۔

اس سلسلے کی دوسری ورکشاپ28مئی 2015 کو اسلام آباد میں ہوئی جس سے خطاب کرتے ہوئے ممتاز سماجی کارکن رومانہ بشیرنے کہاکہ آئین کی رو ہم سب بطور پاکستانی ایک ہیں۔ مدینہ کے مختلف مذاہب کے تمام شہریوں کیلئے امہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جبکہ قائداعظم نے بھی11 اگست کی تقریر میں تمام مذاہب کے افراد کو برابر کا شہری اور پاکستانی کہا ہے۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ میثاق مدینہ کے متن کو دہرایا گیا ہے اور قائداعظم نے ایک واضح سمت دی ہے کہ پاکستان اس نہج پر چلے گا۔اس میں بسنے والے ہر رنگ،نسل،مذہب اور قوم کے لوگ برابر کے شہری اور برابر کے حقوق کے حقدار ہوں گے۔

3

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام ورکشاپ میں رومانہ بشیر ، ڈاکٹر قبلہ ایاز، سبوخ سید اور محمد عامر رانا شریک ہیں

اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سماجی ہم آہنگی ہمیشہ ہی سے اہم رہی ہے۔ جتنے بھی اچھے لوگ ہیں یا تاریخ میں رہے ہیں انہوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ معاشرے کے جتنے بھی لوگ ہیں وہ انسانیت کی بنیاد پر سماجی و مذہبی ہم آہنگی اور باہمی احترام سے رہیں۔ اب مابعد عالمگیریت کے دور میں جب مختلف عالمگیر مذاہب جیسے اسلام اور عیسائیت و دیگر کئی اپنا وجود رکھتے ہیں لیکن اب اس دور کی تحقیق،ذرائع مواصلات،ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی جملہ اقسام کے ذ ریعے انفارمیشن اور معلومات کا وسیع پھیلاؤ ہے کہ دنیا کے ایک حصے میں ہونے والی بات دوسرے حصے کے افراد تک فوراً پہنچ جاتی ہے۔لوگوں کا ایک دوسرے پر انحصار بہت ہے۔یہGloblization کے بعد کے حالات ہیں لیکن یہ یکطرفہ ٹریفک نہیں۔ اگر آپ خلیج کے عرب ممالک کو دیکھیں تو یہ کسی زمانے میں خالص عرب اور مسلمان ممالک تھے، اب یہاں عرب صرف بعد از مغرب دکھائی دیں گے،دن کے وقت وہاں اکثریت غیر مسلم اور غیر عرب لوگ زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ سماجی ہم آہنگی کے لیے اس سے بڑی آیت اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ نے فرمایا کہ آپ ان لوگوں کو برا بھلا نہ کہیں جو خدا کے سوا کسی اور کی پرستش کرتے ہیں اگر آپ ان کو برا کہیں گے کہ تو عین ممکن ہے کہ وہ ہمارے خدا کو بھی برا کہیں۔ پھر میثاق مدینہ آپﷺ کا واضح عمل ہے جس میں مدینہ کے یہودیوں کو برابر کے شہری قرار دیتے ہوئے ان کی مذہبی آزادی کو مکمل بحال رکھا۔دیت اور قصاص کے وہی اصول جاری رکھے جو وہاں پہلے سے مروج تھے۔اس سے بالکل واضح ہوتا کہ آپﷺنے سماجی آہنگی کا ماحول پیدا کیا اور امت کو اس کی تعلیم دی۔

موجودہ دور عالمگیریت میں اگر ہم یہاں اقلیتوں کے ساتھ سماجی ہم آہنگی کا مظاہرہ نہیں کریں گے توجہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہوگا، رد عمل ہوگا۔عامر رانا صاحب اور میں ایک پروگرام میں شرکت کے لیے اکٹھے برما گئے ،وہاں کے بدھ راہبوں سے ہماری تفصیل سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں ایک بڑا سکالر تھا جو آکسفورڈ کا پڑھا ہوا تھا،میری اس سے خاص گفتگو ہوئی،میں نے ان سے کہا کہ آپ کیوں مسلمانوں سے اتنی دشمنی رکھتے ہیں اور ان سے برا سلوک کرتے ہیں تو اس نے ایک لمبی کہانی بتائی، اس نے کہا کہ ہمارا مذہب تو کیڑے مکوڑوں کو بھی مارنے کا روادار نہیں ہے۔اس کے دعویٰ کے مطابق پاکستان افغانستان سے لیکر ازبکستان اور ٹیکسلا تک ہمارے علاقے تھے جن پر مسلمانوں نے زبردستی اپنا قبضہ کیا ہے، لیکن اس سے بڑھ کر ہمیں تکلیف ہوئی اور ہماری نفسیات میں راسخ ہوگئی ہے وہ طالبان کی طرف سے ہما رے پیشوا بدھا کے مجسموں کی تباہی ہے۔ گوتم بدھ اور ہمارے مذہب کی شدید ترین توہین تھی جو ہم کبھی بھی بھول نہیں سکتے۔ آپ کے نبیﷺ کے کارٹون کی اشاعت پر مسلمان سیخ پا ہیں تو کیا ہمیں اپنے بدھا کے مجسموں کی تباہی پر دکھ و افسوس نہیں ہوگا۔جن سے ہم شدید عقیدت و محبت رکھتے ہیں،ہمارے گھر میں ان کا مجسمہ ہے تو آپ جان سکتے ہیں کہ ہمارے لوگ اس توہین کو کس نظر سے دیکھتے ہیں لہٰذا اس کا رد عمل یہاں مسلمان کے ساتھ ویسا ہوگا، جیسا آپ دیکھ رہے ہیں۔

دوسرے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے معروف سکالر اور کالم نگارخورشید ندیم نے کہا کہ پاکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے۔ کم و بیش97 فیصد آبادی مسلمان ہے جو کہ غیر معمولی اکثریت ہے اس کا مطلب ہے کہ مسلمان جس انداز میں سوچتے ہیں وہ انداز بین المذاہب ہم آہنگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ایک دوسرا مسئلہ سیاست کے دائرے میں ہے، وہ فکری بھی ہے اور عملی بھی ہے۔وہ یہ ہے کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے اور اس ریاست کا ایک مذہب ہے اور وہ اسلام ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ جو لوگ اس نظریے پر یقین نہیں رکھتے وہ شہریت کا حق نہیں رکھ سکتے جو اس نظریے کو قبول کرنے والے رکھتے ہیں۔دونوں میں لازماً ایک فرق اور تفاوت نظر آئے گا اور اس فرق کو آپ نے اپنے آئین میں مخاطب بھی کردیا ہے۔مثلاً آپ کا آئین کہتا ہے کہ ملک کے صدر اور وزیراعظم مسلمان ہوں گے کیونکہ آپ کا آئین یہ کہتا ہے کہ آپ کی ریاست ایک اسلامی ریاست ہے ،قرآن و سنت سے ہٹ کر کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی چنانچہ جو شخص اس اسلامی نظریے کو نہیں مانتا اس کو کوئی اہم اور کلیدی عہدہ نہیں دیا جاسکتا۔

اقلیتوں کو آپ ذمی کہتے ہیں۔ذمی کامطلب بیان کرتے ہوئے خود بخود آپ اس کو ایک الگ دائرے میں رکھتے ہیں۔گویا آپ دینے والے ہیں اور ذمی لینے والا ہے۔ایک امتیاز خود بخود پیدا ہو جاتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے اسلام انہیں حق دے رہا ہے، لہٰذا وہ آئینی یا سیاسی یا رویے کے اعتبار سے امتیاز ازخود پیدا ہو جاتا ہے۔لہٰذا ایسی صورت میں سماجی ہم آہنگی نہیں پیدا ہوسکتی۔

تھوڑا مزید آگے بڑھتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان اپنادین چھوڑ کر غیر مسلم ہو تو اس کی گردن کاٹ دی جائے گی لیکن دوسروں کو اسلام کے دائرے میں لانے کے لیے آپ تبلیغ کرتے ہیں اور انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ اس اصول کے ہوتے ہوئے بھی سماجی آہنگی کیسے ممکن ہوگی؟

جدید ریاست کے اصول میں مذہب کے معاملے میں تمیز نہیں لہٰذا اس معاملے میں وہاں مساوات ہے۔ سماجی رویے میں البتہ فرق ضرور ہوتا ہے۔ایسا خود بخود ہوتا ہے کوئی مسیحی اقتدار میں ہے تو وہ ان کے لیے زیادہ خوشی کا باعث ہے، مسلمان اپنے مذہبی تہواروں پر جوش و خروش کا اظہار کریں گے۔ تعلقات کی ایک اور تعبیر بھی سامنے آئی کہ ایک سماجی تعلق ہے اور ایک قلبی تعلق ہے۔جو ممانعت آتی ہے وہ شاید قلبی تعلق کے حوالے سے ہے سماجی تعلق کی نہیں ہے۔سماجی تعلق قلبی تعلق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ورنہ وہ سارا منافقت پر مبنی ہوگا، محض رکھ رکھاؤ ہوگا۔ قرآن پاک میں اہل کتاب عورتوں سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے تو کیا یہ تعلق قلبی تعلق کے بغیر ممکن ہے۔ ایسا ناممکن ہے۔قلبی تعلق ہوگا تو سماجی تعلق ہوگا۔

صاحبزادہ امانت رسول نے کہا کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مذہب کا بنیادی کردار دھندلا گیا ہے۔اہل مذہب یا مسلمان، اپنے مذہب کی روح سے دور ہونے کی وجہ سے صرف آج ہی نہیں بلکہ تاریخ میں بھی، تشدد، عدم برداشت اور عداوت و انتشار رہا ہے۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا ہے جو افتادِ طبع یا معاشرتی و سماجی حالات ہیں ان کی وجہ سے جو سوچ اور رویہ تخلیق پایا، اس رویے اور مزاج نے مذہب کو استعمال کیا ہے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو اختلاف کے باوجود بھی مختلف مذاہب اور معاشروں کے لوگ مل جل کر رہتے۔میں امریکہ و یورپ کی بات نہیں کروں گا، وہاں جمہوریت، سیکولر ازم ہے اور لادینیت کا ایک تصور بھی موجود ہے۔ ہمارے کئی مسلمان بھی ایسے ہیں کہ جن کے ہاں وہ مسائل نہیں ہیں جو مسائل ہمارے خطے میں موجود ہیں۔ حالانکہ وہاں پر بھی مختلف مذاہب کے لوگ موجود ہیں، یہ مسائل آج نئے نہیں بلکہ اختلافات و مسائل پہلے بھی موجود رہے ہیں لیکن دور جدید کے تناظر میں ہمیں دو تین حوالوں سے ان کا جائزہ لینا ہے۔ سب سے پہلے تو ریاست کا کردار ہے۔کوئی بھی سوسائٹی ہو وہ ارتقائی عمل سے گزرتی ہے لیکن آج بھی ایسے مسلم ممالک موجود ہیں جہاں ریاست نے اپنا کردار اداکیا ہے اور وہاں بین المذاہب ہم آہنگی موجود ہے ،فرقہ واریت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر پاکستانی ریاست و حکومت آج جو اپنا کردار ادا کررہی ہے، یہی کردار آج سے دس پندرہ سال پہلے ادا کرتی تو یہ حالات نہ ہوتے۔ معاشرے کے ارتقاء کا عمل تو الگ حیثیت رکھتا ہے لیکن اگر محض ریاست ہی صحیح کردار ادا کرے تو یہ خرابیاں پیدا نہیں ہوتیں۔ آپ یو اے ای،سعودی عرب کی مثال بھی سامنے رکھ سکتے ہیں جہاں ریاستی کردار ایساہے کہ انتشار پیدا نہیں ہوتا۔ دوسری طرف میں نے جو توجہ دلائی ہے، وہ علماء کا کردار ہے۔ ان کا کردار ایک داعی کا،مبلغ کا اور ٹیچر کا ہونا چاہیے۔تکفیری اور مناظرے کے انداز کے بجائے راغب کرنے کا رویہ اختیار کیا جائے تو فرقہ وارانہ اور مذہبی ہم آہنگی ممکن ہوسکتی ہے۔

ڈاکٹر راغب نعیمی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اسلام سے زیادہ کوئی سیکولر مذہب نہیں ہے۔ جب اسلام ہمیں یہ کہتا ہے کہ تم نے دوسرے مذاہب کے باطل خداؤں کو گالی نہیں دینی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام آپ کو محدود کررہا ہے کہ آپ نے مذہب کے دائرے میں رہنا ہے، دوسرے کو آپ نے برا بھلا نہیں کہنا۔ ہمارے ہاں بین المسالک ہو یا بین المذاہب سماجی ہم آہنگی ہو سب میں بنیادی طور پر عدم برداشت کے باعث اور ایک دوسرے پر ناجائز تنقید سے ہی زیادہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اب تو ہم آہنگی ایک مسلک کے اندر بھی نہیں ہے، ہم نے قرآن کی اس بنیادی تعلیم کو نظر انداز کردیا۔ارتداد کی سزا کے حوالے سے کوئی خوف سے اسلام قبول کرتا ہے تو آپﷺ کی حدیث پاک و احکامات کے مطابق اس کے اسلام کو ماننا پڑے گا۔ تیسری بات یہ کہ بحیثیت مسلمان قرآن کو اپنا آئین سمجھتے ہیں،آئین پاکستان میں بھی قرآن و سنت کو آئین سازی کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔ بہت سے ممالک میں آئین شکنی کی سزا موت ہے۔ جو اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام سے پلٹ رہا ہے تو وہ گویا آئین اسلام سے بغاوت کررہا ہے تو اسلام اسے موت کی سزا دیتا ہے۔

تیسرا سیشن: فرقہ وارانہ اور مذہبی ہم آہنگی کے فروغ میں نوجوانوں کا کردار تھا جس سے مفتی محمد زاہد صاحب،وائس پرنسپل جامعہ امدادیہ فیصل آباد اورپروفیسر ثاقب اکبر صاحب،چیئرمین اخوت اکیڈمی اسلام آباد نے خطاب کیا۔ مفتی محمد زاہد نے کہا کہ پچھلے تیس سالوں میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کا جو تعارف سامنے آیا ہے، اس میں مختلف فرقوں نے اپنا تعارف کروانے کے بجائے ایک دوسرے پر مبنی لٹریچر پرتعارف پر کتابیں لکھی ہیں۔اگر تمام فرقوں کے رہنما میریٹ ہوٹل یا بڑی جگہوں پر سب ایک چھت کے نیچے اکٹھے ہوسکتے ہیں تو ایک قصبے کی مسجد میں شیعہ،سنی،دیو بندی،بریلوی کیوں اکٹھے نہیں ہوسکتے۔ اگر میں شہر کی کسی پرانی مسجد میں ان لوگوں کو اکٹھا کروں تو کفر کا فتویٰ لگ جائے گا۔ اگر سماجی سرگرمیاں نچلی سطح پر شروع کی جائیں، ایک دوسرے کو مل بیٹھنے کا موقع دیا جائے تاکہ سماجی ہم آہنگی کی طرف عملی طور پر پیش رفت کریں۔خاص طور پر میل جول نفرتوں کے خاتمے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

پروفیسر ثاقب اکبر نے اپنے خطاب میں کہا کہ زمانہ جنگ کے اور زمانہ امن کے قوانین میں فرق ہوتا ہے۔کیا کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم زمانہ جنگ کے قوانین کو زمانہ امن پر منطبق کررہے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ایک قانون ایک خاص پس منظر میں بنتا ہے۔ پس منظر کے بدلنے سے قانون بدل جاتا ہے۔ اس کی گنجائش موجود ہے۔قرآن حکیم میں ہے کہ دشمن کے مقابلے میں طاقت کو مجتمع رکھو اور گھوڑے تیار رکھو لیکن آج کے پس منظر میں آپ گھوڑوں کے بجائے ٹینک یا میزائل کہہ سکتے ہیں۔گھوڑے بطور مثال وہاں ہیں توکیا اسی طرح وقت کے بدلنے سے بعض باتوں کے مفہوم کے بدلنے کی گنجائش موجود ہے۔اجتہاد پر نظر رکھنے والے لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ زمان و مکان کی تبدیلی سے قانون بدلنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا علمائے کرام کو بھی خارجی و معروضی حالات کے پیش نظر اجتہاد اور فکر و نظر کے میدان میں دَورِ جدید کے رجحانات اور تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نئے موضوعات اور سوالات پر ایک قابل عمل رائے ضرور قائم کرنی چاہیے ورنہ وہ خارجی دنیا سے الگ ہو کر رہ جائیں گے اور ان کا کردار کم سے کم تر ہو جائے گا

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر محمد عامر رانا نے کہا کہ مکالمہ دور حاضر کی بہت بڑی قوت ہے اور اس وقتSocial Sciences میں جتنے بھی نئے ڈسپلن آرہے ہیں وہ سب کے سب مکالمے کے گرد گھومتے ہیں خواہ وہConflict Resolution یعنی تنازعات کا حل ہے یا مذاکرات کا فن ہے، سب میں مکالمہ کو بنیادی اور اہم مقام حاصل ہے۔ جو بھی اہل مذہب ہیں وہ اس آرٹ یا مکالمے کے سارے طریقوں سے واقف ہیں یہ باتیں ان کے لیے نئی نہیں ہیں۔