working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 پاکستان کے نام ایک خط

پاکستان کے نام ایک خط

کیرن آرم اسٹرونگ

کیرم آرم سٹرانگ ،تقابلِ ادیان کے حوالے سے دنیا کی ایک معتبر مفکر ہیں ۔ اس موضوع پر ان کی درجنوں کتب مقبول عام ہو چکی ہیں ،زیر نظر خط در اصل کیرم کے اسلام اور مسلمانوں کے بارے ان تصورات کی ایک جھلک ہے جو انھوں نے اپنے عمیق مطالعے سے اخذ کئے ہیں ،وہ شاندار روایات جو اب مسلمان ترک کرتے جارہے ہیں ان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ پاکستانی عوام کو اس کے حالیہ پر تشدد منظر نامے سے نکلنے کا راستہ فراہم کرتی ہیں ،انھوں نے بارہ درجوں پر مشتمل ایک دستاویز فراہم کی ہے جس کے لئے وہ قرآنِ حکیم اور سیرتِ طیبہؐ کے حوالے دیتی ہیں ۔اس کا مقصد رحم دلی اور برداشت کا عنصر پروان چڑھانا ہے ۔ان کا یہ بصیرت افروز خط مسلمانوں کی ایک مخلص دوست کی جانب سے ایک بروقت یاد دہانی ہے کہ مسلمانوں کا عقیدہ ان میں سے کچھ کے موجودہ رویئے سے بہت مختلف رویئے کا متقاضی ہے ۔ہماری تاریخ اور روایات پر پڑی وقت اور حالات کہ تہہ اتنی دبیز ہو چکی ہے کہ اصل شکل ہی مفقود ہو کر رہ گئی ہے ۔ یہ خط در اصل آئینے میں خود کو دیکھنے اور پہچاننے کا عمل ہے ۔(مدیر)

جس دم میں یہ لکھ رہی ہوں، پاکستان کے عوام اذیت سے گزررہے ہیں۔ برسوں سے آپ روزانہ دہشت گردوں کی بمباری سے دو چار ہیں جس سے زبردست جانی نقصان ہوتا ہے۔ عین اسی لمحے،جب آپ سمجھ رہے تھے کہ حالات مزید بدتر ہونے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رہی ہے،تب دو کروڑ افراد تباہ کن سیلاب سے دوچار ہوگئے، انہوں نے اپنا روزگار ،اپنے افراد خاندان اور اپنے گھر تک گنوا دیئے۔ اس المیے کے بارے میں ایک شرمناک بات یہ ہے کہ65 سال میں رونما ہونیوالی سب سے تباہ کن فطری آفت پر بین الاقوامی معاشرے میں اتنی بے حسی پائی جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ ایسے کرب ناک لمحے میں،خصوصی طور پر میں کیوں آپ سے درخواست کررہی ہوں کہ آپ میثاق رحم کی توثیق کریں؟

لیکن میں ایسا کرسکتی ہوں،صرف اس لیے نہیں کہ آپ نے ہمیشہ فراخدلی سے میرا استقبال کیا ہے بلکہ اس لیے کہ ہم سب اس حالت میں مبتلا ہیں جس سے پاکستان دو چار ہے اور اس کا اثر اس سیارے پر آباد سبھی لوگوں پرپڑے گا۔ یہ خطرناک عہد ہے۔ ہماری دنیا خطرناک حد تک دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ طاقت اور دولت میں ایک عدم توازن ہے جو طیش،غیظ و غضب،اضطراب اور توہین کے سبب، دہشت گردوں کی وحشیانہ کارروائی کی صورت میں پھٹ پڑا ہے اورہم سب کو خطرے میں لے آیا ہے۔بین الاقوامی معاشرہ ان جنگوں میں مبتلا ہے جنہیں نہ تو جیتا جاسکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ وہ تنازعا ت جو پہلے دنیاوی تھے،اب وسعت پا کر مذہبی جنگ کی صورت اختیار کرچکے ہیں اور یہ’’تقدس‘‘ حاصل کرنے کے بعد ان تنازعات کا عملی حل ناممکن ہوگیا ہے۔ نتیجتاً چند لوگوں نے تہذیبوں کے تصادم کی بات ہے۔ اس جدوجہد میں پاکستان صف اول میں ہے، اور صرف طالبان کے خلاف جنگ میں ہی نہیں۔عرب،اسرائیل تصادم کی طرح اور بھی ایسے تنازعات ہیں جو انسانیت کو چیرتے ہوئے آپ کے علاقے میں جمع ہوگئے ہیں اور کسی بھی دن اس طرح پھٹ پڑیں گے کہ تمام لوگوں کیلئے سنجیدہ نتائج برآمد ہوں گے۔ یہ صرف پاکستانی عوام ہی کا مسئلہ نہیں، چنانچہ مغربی ممالک کو بھی حالات کی کچھ ذمہ داری لینی ہوگی۔

عالمی مذاہب کی مورخ کی حیثیت سے میں طویل مدت سے میں یہ سوچ رہی تھی کہ جو مسالک، امن عالم قائم کرنے کا سبب ہو سکتے تھے انہیں،بہت ہی معقول اسباب کی بناء پر،حل کا نہیں بلکہ مسئلہ کا حصہ سمجھا جارہا ہے۔ ہر مذہبی روایت اپنے قلب بصیرت میں رحم رکھتی ہے،یہ سچی روحانیت کی کسوٹی ہے اور یہ بھی کہ ایسا رویہ ہمیں خالق سے قریب ترلے آتا ہے،چاہے ہم اسے کسی بھی نام سے پکاریں۔داؤ،نروان،برہماں یا خدا۔ ان سب نے ہی اس سنہری اصول کی اپنی اپنی تشریح کی ہے کہ:

دوسروں کے ساتھ وہ سلوک نہ کرو جو تم اپنے لیے پسند نہ کرو۔(Analects 15.23)

کبھی یہ مثبت طور پر بھی پیش ہوا ہے:

ترجمہ:پس جوکچھ تم چاہتے ہو کہ لوگ تمہارے ساتھ کریں وہی تم بھی ان کے ساتھ کرو۔(متّی۔۷:۱۲)

پس حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ:

ترجمہ:تم میں سے کوئی بھی صاحب ایمان نہیں ہوسکتا، جب تک وہ اپنے ہمسائے کیلئے بھی وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لیے چاہتا ہے۔

مگر ہمارا ہمسایہ کون ہے؟ہماری باہم جڑی ہوئی دنیا میں،ہر کوئی ہمارا ہمسایہ ہے،چاہے ہم جتنا بھی ان رسوم و رواج کو خارج کرنا چاہیں جو ہمیں نامانوس لگتے ہیں، ہم ایک دوسرے کے بنا نہیں جی سکتے۔ مذہبی روایات اپنے عروج میں ہمیشہ سے اس کا ادراک رکھتی رہی ہیں، کہ اپنی سخاوت کا دائرہ اپنے گروہ تک ہی محدود رکھنا کافی نہیں بلکہ تمہیں سب کیلئے فکر مند ہونا چاہیے۔ اجنبی کو عزت دو،اپنے دشمنوں سے بھی محبت کرو اور تمام قبائل و اقوام سے شناسائی حاصل کرو۔ آج تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جب تک ہم یہ سنہری اصول عالمی سیاست پر لاگو نہ کریں، اس بات کی ضمانت نہ لیں کہ تمام لوگ بلا استثنا،وہی سلوک پائیں جو ہم اپنے لیے پسند کرتے ہیں، تب تک ہم ناانصافی، مایوسی اور ہلاکت کے ان مسائل سے نبردآزما نہ ہوسکیں گے جو دنیا کو تقسیم کر رہے ہیں ۔ ہمیں ایک عالمی جمہوریت کی ضرورت ہے، جس میں سب کی آوازیں سنی جائیں اور تمام کی امنگوں کا خیال رکھا جائے نہ کہ صرف رئیس اور طاقتور لوگوں کی آوازوں اور امنگوں کو۔

لیکن افسوس کی بات ہے کہ ان دنوں ہم رحم کے بارے میں بہت کم سنتے ہیں۔ اب تو مجھے یادبھی نہیں کہ نہ جانے کتنی ہی بارایسا ہواکہ میں لندن کی کسی ٹیکسی میں جلدی سے بیٹھ گئی اور ڈرائیور نے مجھ سے سوال کیا کہ میرا ذریعہ معاش کیا ہے تو جواباً مجھے قطعی طور پر بتایا گیا ہے کہ تاریخ میں ہونے والی تمام جنگوں کا سبب مذہب ہے ۔ درحقیقت یہ حرص،حسد اور ہوس ہی ہیں جو تصادم کا باعث بنتے ہیں،مگر ان ذاتی جذبات کو مذہب کا جواز دے دیا جاتا ہے۔ آج دہشت گردوں نے مذہب کو اپنے تشدد کا جواز بنا رکھا ہے،مقدس آیات کو سیاق و سباق سے نکال کر پیش کیا جاتاہے،اور یوں وہ ان مقدس روایات کو پامال کررہے ہیں جن کے تحفظ کا وہ دعویٰ کرتے ہیں۔کئی ایک مذہبی رہنما،دنیاوی سیاست دانوں جیسا طرز عمل رکھتے ہیں،اپنے ایک مسلک کا راگ الاپتے ہیں اور دوسروں کے مسلک کو رد کرتے ہیں ۔ ایک ایسے وقت میں جب یہ فرض کرلیا گیا ہے کہ تمام مذاہب ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں، یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ اپنے عمومی اختلافات کے باوجود امن و انصاف کیلئے کام کریں۔ اس میثاق کا ہرگز یہ مفہوم نہیں کہ تمام مذاہب یکساں ہیں۔ تمام مذاہب و روایات یکساں نہیں ہیں۔ اگر یہ سب یکساں ہوتے تو ایک مورخ کی حیثیت سے میرا کام کافی آسان ہو جاتا۔ ہر ایک کی اپنی خصوصی روح ہے، بصیرت ہے اور اظہار سے بالا حقیقت سے تعلق کی نوعیت ہے۔ مگر ان تمام کااصرار یہ ہے کہ آپ کی روحانیت اس وقت تک ناقص ہے جب تک آپ کا مسلک غیروں کیلئے رحم اور عزت کا رویہ نہیں رکھتا ۔

منشور برائے رحم دلی

رحم دلی کا اصول تمام مذہبی،اخلاقی اور روحانی روایات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ جو ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک سے پیش آئیں، جیسا کہ ہم دوسروں سے اپنے لئے توقع رکھتے ہیں۔

رحم دلی ہمیں یہ بھی سبق دیتی ہے کہ ہم انسانیت کے دکھوں کو دور کرنے کیلئے انتھک محنت کریں۔ خود غرضی سے پرہیز کریں اور بلاامتیاز ہر فرد کے تقدس کا احترام،مکمل انصاف،مساوات اور وقار کے ساتھ کریں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ نجی اور پیشہ وارانہ زندگی میں دوسروں کو تکلیف دینے سے مکمل پرہیز کریں۔ غریبوں کے ساتھ نفرت،کینہ،بغض،تعصب اور ذاتی مفاد کے لئے زور اور دھونس کے ساتھ بات کرنا ، ان کا استحصال یا ان کے بنیادی حقوق کو سلب کرنا اور کسی کو( خواہ مخالف ہی کیوں نہ ہو) حقارت کی نظر سے دیکھنا انسانیت کی نفی ہے۔

ہم تسلیم کرتے ہیں ہم رحم دلی کے ساتھ زندگی گزارنے میں ناکام رہے ہیں اور ہم میں سے کچھ افراد نے اپنے خود غرض عزائم کی خاطر انسانیت کی بربادی میں اضافہ کیا ہے۔

اس لیے ہم تمام خواتین و حضرات سے درخواست کرتے ہیں کہ مذہب اور اخلاق کے دائرے میں رحم دلی کو فروغ دیں۔کسی بھی نظریہ کی ایسی تشریح جو احسن نہ ہو ،تشدد،نفرت اور حقارت کو فروغ دے۔ یہ مذہبی ارتقاء کے منافی عمل ہو گا۔ یہ یقینی بنایا جائے کہ نوجوان نسل کو دوسروں کی روایات، حقیقی مذہبی اور ثقافتی اقدارکے بارے میں درست اور مستند معلومات دی جائیں تاکہ ایک دوسرے کے ثقافتی اور مذہبی پہلوؤں کا مثبت طریقے سے احترام کیا جائے۔

تمام انسانیت(چاہے مخالف ہی کیوں نہ ہو) کی تکلیف کے ازالے کیلئے درست معلومات پر مبنی احساسِ انسانیت کے جذبے کو بیدار کیا جائے۔یہ اشد ضروری ہے کہ اس منقسم دنیا میں ہم رحم دلی کو ایک واضح، روشن اور متحرک قوت بنا دیں۔ ہم سیاسی،مذہبی اور ثقافتی تعصب کے رویوں کو رحم دلی کی مدد سے ہی رد کرسکتے ہیں۔

رحم دلی جو ہماری باہمی وابستگی سے پیدا ہوتی ہے۔ انسانی رشتوں اور تکمیلِ انسانیت کیلئے لازمی ہے۔ یہ روشن خیالی کا راستہ ہے جو ایک منصفانہ اور پرامن عالمی برادری کی تشکیل کیلئے ناگزیر ہے۔

اس میثاق کو نومبر2009ء میں دنیا بھر میں 60مختلف مقامات سے بیک وقت جاری کیا گیا۔ اسے کلیساؤں ،مساجد،گرجاؤں اور مندروں میں اور سڈنی اوپرا ہاؤس جیسے دنیاوی مراکز میں بھی محفوظ کرلیا گیا۔ اب ہمارے پاس150 ساتھی ہیں جو ددنیا بھر میں ایک ساتھ کوشش کررہے ہیں کہ اس میثاق کو موثر اور عملی جامہ پہنائیں۔

میں نے دیکھا ہے کہ لوگ رحم کے مفہوم کے بارے میں الجھن کا شکار ہیں۔ انگریزی بولنے والی دنیا میں یہ لفظ’’ترس کھانے یا کسی کیلئے رنجیدہ ہو جانے‘‘ کے مفہوم میں لیا جاتا ہے مگر یہ انگریزی لفظcompassion، لاطینی لفظpatiri اور یونانی لفظ pathein سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے کہ’’اذیت اٹھانے کا تجربہ یا عمل‘‘ چنانچہ رحم کا مطلب ہمدردی ہے یعنی کسی تجربے میں کسی کا شریک ہونا۔ ایک رحم دل شخص خود کو دوسرے شخص کی جگہ رکھ کر سوچتا ہے، اس کے درد کو اپنے درد کی طرح محسوس کرتا ہے، اور کشادہ دلی سے دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھتا ہے۔ سنہرا اصول اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے دل میں جھانکیں، یہ دریافت کریں کہ ہمیں کس بات سے دکھ پہنچتا ہے اور پھر ایسے درد کو کسی دوسرے پر کسی بھی حالت میں،مسلط کرنے سے انکار کردیں۔

رحم،کمزور دل والے افراد کیلئے نہیں۔ہمیں خود غرضی اور اناو لاغیری والی خودی سے ماورا جانا ہوگا جو دن رات ہم پر چھائی رہتی ہے۔بقول کنفیوشس (Analects 15.23) صرف اس وقت نہیں جب ہمارا جی چاہے۔ عربی میں رحمن، عبرانی لفظ رحامنت کی طرح’’ر حم‘‘ کے مصدر سے ماخوذ ہے جس کا مطلب’’رحم مادر‘‘ کی ترتیب سے ادا ہوتا ہے۔ اعصاب کے معالجین ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک بے بس بچے کو محفوظ رکھنے،بہلانے اورپرورش کرنے کا تجربہ بلاشبہ دردمندی کی انسانی صلاحیت کوجنم دینے کیلئے کافی ہے۔شفقت مادری، جذباتی دردمندی سے بھرپور ہے لیکن بے لوث عمل اور گہرے انہماک کی متقاضی ہے۔’’ ہر دن اور دن بھر۔‘‘ ایک ماں کو اپنے روتے ہوئے بچے کیلئے بیچ رات میں اٹھنا پڑتا ہے، خود اپنی تھکن کے باوجود وہ لمحہ لمحہ اس کی نگہداشت کرتی رہتی ہے اور اس دوران اسے اپنی ضروریات اور خواہشات کو ایک طرف رکھنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے بچے سے اس کے بڑے ہونے کے بہت بعد تک اسی طرح وابستہ رہتی ہے،اور ماں کی محبت کو مایوسی اور دل ٹوٹنے کے تجربے سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔پھر بھی ایک ماں، ہر صورتحال میں اپنے بچے سے محبت کرتی رہتی ہے۔ رحم کے لئے سنسکرت کا لفظ ہے’’کرونا‘‘ ، اس کی بنیاد بھی عمل پر ہے۔ اس کا مطلب ہے اس بات کا ایک مضبوط عزم ہے کہ تمام ہستیوں کو ان کے درد سے آزاد کریں۔

بدھ مت کی ایک قدیم دعا ہمیں تلقین کرتی ہے کہ:’’ تمام مخلوقات کو اسی طرح عزیز رکھو جیسے ایک ماں اپنی اکلوتی اولاد کو عزیز رکھتی ہے‘‘ ،چنانچہ رحم کا جذبہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم تمام مخلوقات کیلئے وہی ذمہ داری محسوس کریں جو ایک ماں اپنے بچے کیلئے محسوس کرتی ہے اور اسے کبھی بھی فراموش نہیں کرتی،اگرچہ اس میں مایوسی اور فریب شکنی ہی کیوں نہ ہو۔

لوگ کبھی کبھار مجھ سے کہتے ہیں کہ آپ ان کو تلقین کرتی ہیں جو پہلے ہی ایمان لا چکے ہیں۔ یا جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں کہ Choir کو تلقین کررہی ہیں، اور یہ کہ میں ان دہشت گردوں تک نہیں پہنچ پا رہی ہوں جنہیں درحقیقت یہ پیغام سنانے کی ضرورت ہے۔ مگر میں خوش ہوں کہ میں گرجا کے طائفے کے سامنے تلقین کروں، اس لیے کہ وہ اپنا فرض پورا نہیں کررہے ۔ اگر خاموش اکثریت، جو صدق دل سے رحم کے مثالیہ پر یقین رکھتی ہے، ایک اجتماعی کوشش کرکے اس مثالیے کو عملی جامہ پہنانے کا عزم کرے تو وہ دنیا کو اس کھائی سے واپس کھینچ کر لاسکتی ہے۔ مگر دنیا کو بچانے سے پہلے ہمیں اپنی اصلاح کرنی چاہیے، جیسا کہ قرآن حکیم نے ہمیں یاد کروایا ہے:

ترجمہ:خدا اس (نعمت) کو جو کسی قوم کو(حاصل) ہے نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت کو نہ بدلے۔(ق:الرعذ:۱۱)

پہلا قدم:رحم کے بارے میں سیکھیں

جیسا کہ مسلمان ہمیشہ سے جانتے ہیں کہ مذہبی تعلیم اس وقت تک بے معنی ہے جب تک کہ اس پر عمل پیرا نہ ہوا جائے۔ دورِ جدید میں جب علم کے بارے میں ہمارا تصور، مغرب میں بہت تجریدی ہوگیا تو کئی عیسائی،ایمان کے بارے میں یہ سمجھنے لگے ہیں کہ یہ محض مخصوص عقائد کو ماننے کا نام ہے۔ تاہم جب حضرت عیسیٰ تبلیغ کررہے تھے، تب ہی انہوں نے منہمک اور جرأت مندانہ عمل پر زور دیا تھا۔

عیسائیوں پر لازم ہے کہ وہ بھوکوں کو کھانا کھلائیں، بیماروں کی عیادت کرں، قیدیوں سے ملاقات کریں اور رحم کے جذبے سے سرشار ہو کر تمام لوگوں تک پہنچیں، ان تک بھی جو گنہگار یا غدار سمجھے جاتے ہیں۔ سینٹ پال نے کہا تھا:

ترجمہ:میرا ایمان یہاں تک کامل ہو کہ پہاڑوں کو ہٹادوں اور محبت نہ رکھوں تو میں کچھ بھی نہیں۔(۱ کرنتھیوں:۱۳:۲)

قرآن حکیم بھی عمل کی جانب پکارتا ہے۔ سب سے زیادہ رحم کے عمل کی طرف۔

مجھے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی کہ پاکستانی جامعات،کالجوں اور اسکولوں میں ر حم کے نصاب کے متعارف ہونے کا امکان ہے، اس لیے کہ بعینہ اسی قسم کا آغاز میرے ذہن میں بھی تھا۔ اکثر مذہب کی رحم انگیز آواز انتہا پسندی، تعصب اور صرف اپنی سچائی پر مصر ہونے کے شور میں ڈوب جاتی ہے۔ چنانچہ ہمیں اس آواز کو بلند کرنا ہے ، اور اس کے ذریعے عالم اسلام اور اس سے ماورالوگوں کو متوجہ کرنا ہے۔ اس کا اور بہتر کیا طریقہ ہوسکتا ہے کہ رحم کے موضوع کا جائزہ لیں، جو قرآن حکیم میں اور اہم مسلمان فلسفیوں، صوفیوں اور عالموں کی حیات میں پایا جاتا ہے؟ مگر یہ محض کوئی ذہنی مشق نہ ہو۔ آپ محض گاڑی کے ہدایت نامے اور سڑکوں پر چلنے کے اصولوں کو پڑھ کر گاڑی چلانے کے اہل نہیں ہوسکتے ۔ آپ تالاب کے کنارے بیٹھ کر، دوسرے لوگوں کو تیرتا دیکھ کر تیرنا نہیں سیکھ سکتے۔ ان رحم دلانہ تعلیمات کا پورا مفہوم تب ہی واضح ہوگا، جب ہم اپنی ذاتی زندگی میں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انگریزی لفظ education لاطینی لفظ educere سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے، ’’رہنمائی کرو‘‘۔ اس مطالعہ کا مقصد یہ ہے کہ اس رحم دلانہ شخصیت کی رہنمائی کریں جو ہر شخص کے باطن میں بالقوۃ موجود ہے،تاکہ یہ نیکی کیلئے ایک قوت بن جائے۔

میثاق رحم ایک اجتماعی دستاویز تھی، اس لیے یہ کسی ایک روایت کی مخصوص تعلیمات کی عکاس نہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ ہم دریافت کریں کہ ہماری اپنی روایت میں رحم کا مثالیہ کس طرح پیش ہوا ہے؟ اس کی مخصوص بصیرت کیا ہے؟ اسلام باقی ماندہ دنیا کو رحم کے بارے میں کیا سکھا سکتا ہے؟ کوئی تعلیم جو محض احکام کی ایک فہرست ہو، آپ کو متحرک نہیں کرسکتی۔

آپ کو نہایت عمیق طور پر ان رسوم، قصص،اشعار،احادیث و آیاتِ قرآنی پر دھیان دینا ہوگا جو مانوس انداز میں آپ سے مخاطب ہوں اور آپ کی گہری امنگوں، امیدوں اور خدشات کے عکاس ہوں۔مگر دوسری روایات کی تعلیمات کا مطالعہ بھی اہم ہے۔ اس لیے کہ رحم کا جذبہ اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم اپنے دل و دماغ کو اس عالمی بستی میں اپنے ہمسایوں کیلئے کشادہ کرلیں۔یہ تقابلی مطالعہ، اسلام کیلئے آپ کی توقیر کو کم کرنے والا نہ ہو۔ بہترین صورت یہ ہے کہ یہ مطالعہ آپ کو اس قابل بنائے کہ آپ اسلام کو زیادہ تیز روشنی میں دیکھ سکیں۔ ایک رحم دل شخص کیلئے ضروری ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں بہترین مفہوم میں،متجسس ہو۔ اس طور سے آپ اپنے افق کو وسیع اور ہمدردی کو پھیلا سکیں گے۔ دوسری مقدت روایات کی زیادہ گہری تفہیم ان غلط فہمیوں یا غیر شعوری تعصبات کو للکار سکے گی، جو آپ کے اندر دوسرے ادویان کے متعلق پائے جاتے ہیں۔ میں نے (اس کتاب) Twelve Steps to a Compassionate Life میں ان پر بہت مختصر طائرانہ نگاہ ڈالی ہے اور ان کتابوں کی فہرست بھی دی ہے جو شاید آپ کو مفید نظر آئیں۔

اسلام کی رحم دلانہ روایات کے مطالعہ کا آغاز کرنے کی بہترین جگہ قرآن حکیم اور سیرۃ النبیﷺ ہیں۔آنحضرتﷺ کی تبلیغ کے بالکل آغاز میں نئے دین کو اسلام نہیں بلکہ تذکیہ کہا جاتا تھا، جو ایک مبہم لفظ ہے جس کا تعلق زکوۃ سے تھا۔ اس کا مطلب تھا نفاست،سخاوت اور پشت پناہی۔ مسلمانوں کو ان آیاتِ الٰہی پر غور کرنا چاہیے جو تمام عجائب عالم میں رحمت خدا کی مظہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی سخاوت کی بدولت انتشار یا بنجر پن کی جگہ وہاں نظم و افزودگی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی ہمہ گیر رحمت کا ادراک کرکے مسلمان اس کے اخلاق کی پیروی کرنے پر مائل ہو جائیں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات کو اپنی سخاوت میں شریک کرنا چاہیں گے اور رحم دلی کا لبادہ اوڑھ کر اپنے اندر ایک ہمدرد اور ذمہ دار روح پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، خصوصاً معاشرے کے ان افراد کیلئے جوکمزور اور غیر محفوظ ہیں۔

قرآن حکیم کی ہر تلاوت اللہ تعالیٰ کے نام مناجات سے شروع ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جو رحمن اور رحیم ہے۔ قرآن حکیم کا بنیادی پیغام عملی رحم اور سماجی انصاف کی جانب پکارنا ہے۔ خود غرضی کے ساتھ اپنا ذاتی خزانہ بھرنا برا ہے، جبکہ اپنی دولت کو منصفانہ طور پر تقسیم کرنا اور ایک منصفانہ اور شریف معاشرہ قائم کرنے کیلئے جدوجہد کرنا، جس میں ہر فرد کو عزت کا برتاؤ ملے، بہترین عمل ہے۔آنحضرتﷺ کی ابتدائی تبلیغ ہی سے زکوٰۃ اور غریبوں کو مدد مسلمان کی زندگی کا ایک اساسی حصہ بن گیا۔ ایمان صرف یہ نہیں تھا کہ خدا کے بارے میں ذہنی اعتبار سے قابل قبول اعتقاد کو اپنا لیا جائے۔ ابتدائی سورتیں بار بار یہ زور دیتی ہیں کہ صاحب ایمان مرد یا صاحب ایمان عورت وہ ہے جو عمل صالح کرے:

ترجمہ: کسی(کی) گردن کا چھڑانا، یا بھوک کے دن کھانا کھلانا، یتیم رشتہ دار کو، یا فقیر خاکسار کو، پھر ان لوگوں میں بھی(داخل) ہوا جو ایمان لائے اور صبر کی نصیحت اور(لوگوں پر) شفقت کرنے کی وصیت کرتے رہے یہی لوگ صاحب سعادت ہیں۔(ق:البلد:۱۳تا۱۸)

ہر مسلمان یہ سب جانتا ہے۔ مگر ہمیں شعوری طور پر کوشش کرنی ہوگی کہ بنیادی صداقتوں کو یاد کرتے رہیں۔ قرآ ن حکیم کی نظر میں یہ ایک روحانی اور ذہنی دونوں ہی طرح کا عمل ہے۔ یہ مقدس کتاب کئی بار یہ تاکید کرتی ہے کہ نبیﷺ کسی نئی چیز کی تبلیغ نہیں کررہے، بلکہ وہ ایک اہم قدر کی بازیافت کررہے ہیں جسے ان کی قوم نے فراموش کردیا ہے یا بھلا دیا ہے۔ انہیں یاد دلاؤ۔اللہ تعالیٰ حضرت محمدﷺ سے تاکیداً کہہ رہا ہے:

ترجمہ:تو تم نصیحت کرتے رہو کہ تم نصیحت کرنے والے ہی ہو، تم ان پر داروغہ نہیں ہو۔(ق:الغاشیۃ:۲۱تا۲۲)

قرآن حکیم خود ایک ایسا ذکر ہے۔ وہ بار بار کہتا ہے کہ انسان اساسی طور پر برے نہیں ہیں،وہ صرف بے دھیان ہیں۔ ایک بار جب رحم مذہبی،اخلاقی اور سماجی زندگی کے قلب میں جاگزیں ہو جائے گا تو باقی تمام متنازع مسائل، جو اہل ایمان میں تفریق پیدا کرتے ہیں، اپنے صحیح تناظر میں نظر آسکیں گے۔

کسی کالج میں رحم کے نصاب میں یہ ایک بہترین تجویز ہوگی کہ طلباء کو قرآن حکیم کی کلیدی اصطلاحوں کا مطالعہ کرنے کو کہا جائے۔ میں خاص طور پر توشی ہی کو ازوتسوکی ابتدائی نوعیت کی کتاب Ethico-Religious Concepts of the Quran (مانٹریال اور کنگسٹن،اونٹاریو،2002ء) کے مطالعے کا مشورہ دوں گی، جو ہمیں بتاتی ہے کہ رحم دلی، صبر اور تحمل قرن اولیٰ کے مسلمانوں کے مرکز نگاہ میں ہوتے تھے۔ ایک اہم اصطلاح ہے،’’حلم‘‘ جس پر عمل کرنا دیگر نیکیوں پر عمل کرنے سے زیادہ بہتر عمل ہے۔ حلم والے خواتین و حضرات اپنے غصے کو ضبط کرتے ہیں اور پرسکون رہتے ہیں۔ چاہے حالات کتنے ہی مشکل کیوں نہ ہوں۔وہ بدلہ لینے میں سست ہوتے ہیں، اور بدلہ لینے کے بجائے وہ انتقام کو اللہ تعالیٰ پر چھوڑنے پر راضی رہتے ہیں(ق:ابراہیم:۴۷،الذمر:۳۷، الحجر:۷۹، الروم:۴۷، الدخان:۱۶)۔ وہ معاشرے کے کمزور اراکین کی نگہداشت کرتے تھے، اپنے غلاموں کو آزاد کرتے تھے، فقیروں کو کھانا کھلاتے تھے، جب کہ وہ خود بھوکے تھے(ق:البلد: 13تا17)۔ اگر انہیں اپنے دین کے دشمنوں کی جانب سے توہین کا برتاؤ ملے تو مسلمانوں کو جواب میں صرف سلام کہنا چاہیے، اور اپنے طرز عمل کو ہمیشہ حد درجہ نرم اور مودبانہ رکھنا چاہیے(ق: الفقران63:)۔

اگر ہم ان سیاق و سباق کا مطالعہ کریں جن کے درمیان قرآن حکیم کے اہم تصورات سامنے آئے ہیں تو انکشاف ہوگا کہ انہیں بھی رحم سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔’’بر‘‘ کا ترجمہ اکثر تقویٰ یا حق کیا جاتا ہے مگر اس کے معنوں میں نرمی، انصاف،عدل اور زکوٰۃ(ق:اٰل عمران92:، البقرۃ177:) بھی شامل ہیں۔ یہی بات’’ احسانا‘‘( اچھائی کرنا) کیلئے سچ ہے جس کا اطلاق قرآن حکیم دو طرح کی نیکیوں پر کرتا ہے ،تقویٰ جو اللہ کی طرح مائل ہو اور وہ اعمال جو حلم سے ابھرتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک پر دوسرے کے بغیر عمل نہیں کیا جاسکتا(ق:الذریت15: تا19)۔ بلکہ احسانا تقریباً صالحات کا مترادف ہے(ق:لقمٰن2: تا4، النسآء 40: تا41)۔ ان اعمال کو بے دلی سے بجا لانا کافی نہیں بلکہ بطور فرض انہیں رغبت کے ساتھ اداکرنا ضروری ہے۔

ترجمہ اور تمہارے پرورگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا اور عجز و نیاز سے ان کے آگے جھکے رہو اور ان کے حق میں دعا کرو کہ اے پروردگار جیسا انہوں نے مجھے بچپن میں(شفقت سے) پرورش کیا ہے تو بھی ان( کے حال) پررحمت فرما۔(ق:بآی اسرآء یل23:تا24)

دوسرا قدم :خود اپنے عالم پر نظر کریں

جب زمانہ قدیم کے حکماء۔کنفیوشس،لاؤزو،بدھ اوراولیٰ العزم رسل ؑ نے سنہری اصول وضع کیا تو وہ بہترین حالات میں نہیں رہ رہے تھے۔رحم کے مثالیے ان معاشروں میں جنم لیتے رہے جو ہمارے دور کی طرح، بحران کا شکار تھے۔ کچھ تو دیہی سے شہری زندگی کا عبوری مرحلہ طے کررہے تھے، جو درد ناک تھا۔ ایسا دور قدیمی معیشت سے تجارتی معیشت کی طرف سفرکے عبوری دور میں آیا۔ کچھ تو غیر ملکی تسلط یا منظم ناانصافی کو جھیل رہے تھے اور کچھ اقوام کے سامنے بے رحم دشمنوں کے ہاتھوں مکمل تباہی کے خوفناک خدشات تھے۔ہر صورتحال میں تشدد جس سطح پر پہنچ چکا تھا،اس کی مثال پہلے نہیں ملتی۔ اس سے ہمیں حوصلہ لینا چاہیے۔اس بات کا انتظارکرنا فضول ہے کہ حالات کو بہتر ہونے دو تاکہ ہم امن و چین سے اپنی مذہبی روایات کو دریافت کرسکیں۔ عظیم حکماء نے رحم اور ہمدردی کا سبق اس لیے دیا کہ وہ اپنے عہد کے ظلم اور دہشت کا مقابلہ کرسکیں۔ انہوں نے کبھی بددلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے اپنے معاشرے پر تنقیدی اور تجزیاتی نظر ڈالی تاکہ خرابی کے اسباب دریافت کرسکیں۔

انہوں نے اپنی پرانتشار دنیا کے لئے اسی انتھک محنت کے ساتھ ایک روحانی اور اخلاقی حل تلاش کرنے کی جدوجہد کی جس طرح انتھک محنت سے ہم سرطان کا علاج تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

ان سب باتوں کا اطلاق رسول مقبولﷺ پر ہوتا ہے جو آپ کیلئے نمونہ اور مثال ہیں۔ وحی کے نزول سے کئی سال پیشتر بھی، وہ ہر سال ماہ رمضان میں مکہ کے باہر غار حرا میں فروکش ہو جاتے۔ اپنے پہاڑی غار میں وہ دوران عبادت سجدے کیا کرتے،قدیم عرب کی روحانی مشقیں کیا کرتے اور غریبوں میں مال تقسیم کیا کرتے۔ تقریباً یقین ہے کہ وہ اپنے معاشرے کے مسائل پر گہری فکر بھی کیا کرتے تھے۔

صدیوں سے،عربوں نے عرب ریگستان کی سختیوں کے درمیان اور مسلسل بھوک کی سرحد پر ایک خانہ بدوش زندگی گزاری تھی۔ ان کا قبائلی قانون جسے وہ مروت کہتے تھے،انہیں سختیاں جھیلنے اور جاں بر ہونے کی جرأت عطا کرتا۔ مروت کا تقاضا یہ تھا کہ ہر شخص قبیلہ کی غیر مشروط اطاعت کرے۔ قبیلے کے ہر فرد کو تیار رہنا پڑتا کہ کسی زیادتی کا بدلہ لیں، کسی بھی خطرے کا فوری مقابلہ کریں، بلاچون و چرا اپنے شیخ کی اطاعت کریں،چاہے وہ صحیح ہو یا غلط۔ یہ بات کافی نہ تھی کہ حملہ ہونے کا انتظار کیا جائے۔ اصل جرأت تو اس میں تھی کہ پیش قدمی کرکے دشمن پر پہلے ہی ضرب لگا دی جائے۔ قبیلہ کی بقا اسی وقت تک تھی جب تک وہ اپنے کمزور افراد کی نگہداشت کرتے ہوں۔ہاں البتہ باہر والوں کی کوئی وقعت نہ تھی۔ اگر اپنی حفاظت کیلئے انہیں قتل کرنا ہو تو تاسف محسوس نہ کرنا۔ ان تمام خصوصیات کا اظہار ایک لفظ’’جاہلیہ‘‘ میں کہا جاسکتا ہے۔روایتی طور پر اسے ماقبل اسلام زمانہ عرب کہا جاتا ہے اور اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے،’’جہل کا عہد‘‘ تاہم حالیہ مطالعے یہ بتاتے ہیں کہ عہد رسالت میں جاہلیہ کا مطلب تھا،’’بدمزاج اورہمہ وقت غصہ اور ناراضگی کی طرف مائل ہونا۔‘‘ ابتدائی مسلم عبارتوں میں جاہلیہ سے مراد ہے،جارحیت کا رویہ۔رعونت، اعزاز و اکرام کے سوالات پر حد سے بڑھتی ہوئی حسیاسیت، نیز تشدد اور انتقام کی جانب ایک پیہم رجحان۔ جب حضرت محمدﷺ جبل حرا پر اپنا سالانہ اعتکاف فرمارہے تھے، اس وقت قبائلی جنگوں نے ایک نئی سطح چھولی تھی اور ایسا لگتا تھا کہ عرب ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔

مگر بڑی ہنر مندی اور صلاحیتوں کے ساتھ حضرت محمدﷺ کا قبیلہ قریش، خانہ بدوش زندگی کو پیچھے چھوڑ آیا تھا اور اس نے مکہ میں ایک تجارتی حکومت قائم کرلی تھی۔ اب وہ ریگستان کے خوفناک عدم تحفظ کے ستائے ہوئے نہیں تھے اور اپنے خوابوں سے بھی زیادہ دولت مند ہوگئے تھے۔ مگر اب تک ان میں بڑی حد تک قبائلی عصبیت باقی تھی۔ انہوں نے قبائلی جنگ ترک کردی تھی اور مکہ میں ایک حرم بنایا تھا جہاں ہر قسم کے تشدد کی ممانعت تھی، تاکہ عرب وہاں آکر انتقام سے بے خوف ہو کر تجارت کرسکیں۔ مگر مکہ میں روحانی بے چینی پائی جاتی تھی، کیونکہ ریگستان کا معاشرتی نظام،ان کے نئے حالات کے مطابق نہیں رہا تھا۔ اور قریش نے بھی مروت کے چند مفید پہلوؤں کو ترک کردیا تھا۔اب وہ قبیلہ کے غریب افراد کی نگہداشت نہیں کررہے تھے، چند قبائل مفلس ہورہے تھے اور کنارے لگا دیئے گئے تھے۔ یہ وہ صورت حال تھی جس کی اصلاح پیغام قرآن حکیم نے کرنا چاہی۔

مگر قریش کے کئی متمول اور رئیس افراد نے اسے یکلخت مسترد کردیا اور اس لیے قرآن حکیم نے انہیں کافر’’ یعنی شکر نہ کرنے والے‘‘ قرار دے کر سرزنش کی۔ قرآن حکیم کے انگریزی تراجم میں کافر کا ترجمہ کیا جاتا ہے،’’ایمان نہ لانے والا‘‘۔اصل مسئلہ کافروں کا عقیدہ نہیں تھا،اصل مسئلہ ان کی خودسری تھی۔ مثلاً وہ بلاچون وچرا یہ تسلیم کرتے تھے کہ مثلاً اللہ خالق عالم ہے،اور یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ وہ رب کعبہ ہے(ق:العنکبوت،61تا63 ، البقرۃ: 89 ، النمل : 4)۔ مگر وہ اپنے عقیدہ پر عمل پیرا نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کے نشانات کو صلہ رحمی کی دعوت سمجھنے کے بجائے، وہ دوسروں سے ناانصافی اور بدسلوکی کرتے۔ ان کا سب سے نمایاں عیب جاہلیہ تھا۔ وہ خود سر اور خود پسند تھے۔ کمتر خاندانوں میں پیدا ہونے والوں کو حقارت سے دیکھتے، اور یہ دیکھ کر کہ مسلمان غلاموں کی طرح سجدہ ریز ہوتے ہیں،کفار کو حیرت ہوتی۔ وہ اللہ تعالیٰ یا کسی اور کے سامنے جھکنے پر تیار نہیں تھے۔ اپنی خودی میں جامہ سے باہر ہو جاتے۔ وہ شہر بھر میں اتراتے پھرتے،دوسروں سے سختی سے مخاطب ہوتے اور اگر انہیں شبہ ہوتا کہ کسی بھی پیرائے میں ان کی توہین ہوئی ہے تو وہ مشتعل ہو جاتے۔ اگر کوئی ان کے روایتی قبائلی اثاثے پر تنقید کرتا تو وہ بھڑک اٹھتے، اس واسطے کہ وہ یقین راسخ رکھتے تھے کہ ان کے آباؤ اجداد کی’’سنت‘‘ کسی اور کے آباؤ اجداد کی’’سنت‘‘ سے برتر تھی(ق:الاعراف: 75 تا76، الزمر: 59، لقمٰن: 17 تا18، المومنون: 45تا47، ص: 71تا75)۔اس لیے انہوں نے اللہ کے نازل کردہ پیغام کا مضحکہ اڑایا۔ عمداً قرآن کی تحریف کی تاکہ ان کی اچھی فراست ظاہر ہو( ق: الحجر۔94تا96، الانبیآء۔36، الکھف۔106، المؤمن۔4تا5، القلم۔51، الحج۔8تا9)۔ اپنی فخریہ قدامت کے اسیر، وہ نئے خیالات کو قبول نہیں کرسکتے تھے، ان کے قلوب پر پردہ تھا۔ وہ زنگ آلود، مہر زدہ اور قفل زدہ تھے(ق:حٰم ٓ السجدۃ۔3تا5، المطففین۔14، البقرۃ۔6تا7)۔

حلم کے رحمانہ اخلاق کو پیش کرتے ہوئے،قرآن حکیم نے نہ صرف مکہ کے مسائل کو بے نقاب کیا تھا بلکہ اس دائمی خود پرستی پر سے بھی پردہ اٹھا دیا تھا، جو ہمیں خود غرضی کے زندان میں مقید رکھتی ہے۔ رحم کی جانب اس سفر کے دوسرے قدم پر ہمیں اپنی دنیا کا اور اپنی معاشرت کا ناقدانہ جائزہ لینا ہوگا۔ ہمیں ذہنی طور پر اپنے آپ کو ایک پہاڑی کی چوٹی پر لے جانا اور حضرت محمدﷺ کے انداز میں اپنی صورتحال پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا ہوگا۔ کیا آپ جاہلیہ کی علامات دیکھتے ہیں؟ مجھے اعتراف ہے کہ یہاں،برطانیہ میں،مجھے جاہلیہ کے بہت سے اثرات نظر آتے ہیں۔ مکہ کے کافروں کی طرح، مغرب میں کئی لوگ اپنی’’سنت‘‘ کو داخلی طور پر برتر سمجھتے ہیں اور آسانی سے اعتراف نہیں کرتے کہ غیر کی روایات میں بھی عمدہ صفات ہیں۔ وہ دوسروں کی سبکی کی پروا کیے بغیر اپنی ہوشیاری کا مظاہرہ کرنا بہت پسند کرتے ہیں اور انہوں نے ہمارے عالمی ابتلا میں بہت کچھ اضافہ کیا ہے۔مگر جاہلی رویے صرف مغرب تک ہی محدود نہیں۔ کیا آپ اپنے خاندان، دفتر یا ملک میں جاہلیہ کے آثار دیکھتے ہیں؟ نگاہِ حضرت محمدﷺ نے مکہ میں روحانی مرض کی تشخیص کرلی تھی۔ کیا آپ وسیع تر اسلامی دنیا میں مرض اور جاہلیہ کے آثار دیکھتے ہیں؟ اگر دیکھتے ہیں تو اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے اور اس کا بہترین علاج کیا ہے؟ رحم کے کسی نصاب میں سماج کی موجودہ صورتحال پر غور و فکر کو لازمی طور پر شامل کرنا پڑے گا۔ ہم رحم کا مطالعہ محض علمی لحاظ سے نہیں کررہے۔ ہمیں ان اخلاقیات کو عملاً اپنے عہد پر لاگو کرناہوگا،اور اس کامطلب ہے کہ خود رسالت مآبﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں اپنے مسائل کا تجزیہ کرنا ہوگا اور ان سے نبرد آزما ہونا پڑے گا۔ اپنے آپ سے چبھتے ہوئے سوالات کرنے ہوں گے اور آسان اورخود غرضانہ جوابات کو رد کرنا ہوگا۔

اسلام میں ایسی تخلیقی خود احتسابی کی شاندارتاریخ موجود ہے۔پیغمبر اسلامﷺ کے وصال اور خانہ جنگی کے ہولناک عہد کے بعد۔ زیادہ متقی مسلمان آپس میں گروہوں کی شکل میں ملے تاکہ نئی صورت حال کا جائزہ لے سکیں۔ کچھ مایوس ہو چکے ہوں گے کہ کیا اسلام کی مہم ناکام ہوگئی۔مگر انہوں نے وراثت میں پائی ہوئی روایات پر انحصار کیا تاکہ وہ تازہ حل تلاش کرسکیں۔ ان سیاسی تباہیوں کا سامنا کرکے،جو انہوں نے دیکھی تھیں، وہ اس کے فوری دینی مضمرات پر غور کرنے لگے۔ پہلے فتنے میں حق پر کون تھا؟ علی یا معاویہ؟ کیا مسلمانوں پر فرض تھا کہ ان کے اعتقاد کے باوجود خلفائے بنو امیہ کو تسلیم کرلیں تاکہ امن و اتحاد حاصل ہوسکے؟ کیا اموی ریاست، حقیقتاً اسلامی ہوسکتی ہے؟ کیا وہ حکمران جو عیش و عشرت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور جو عوام الناس کے افلاس کی پروانہیں کرتے، سچے مسلمان ہو سکتے ہیں؟ ان منہمک سیاسی گفتگوؤں اور دردمندانہ اور ایماندارانہ مباحث سے وہ مخصوص تقویٰ اور رسوم اسلام،جیسا کہ ہم انہیں جانتے ہیں،ابھر آئیں۔ مختلف گروہوں نے مختلف حل دریافت کیے،فقہہ،زہد اور ترکِ دنیا،تصوف،تشیع،کلام اور اسلامی تاریخ کی تحریر۔ موجودہ زمانہ بھی مسلمانوں کیلئے فتنہ کا زمانہ ہے اور تخلیقی جہت سے ان مباحث میں شمولیت کی مرکزی مسلم روایات کے عین مطابق ہے۔

تیسرا قدم:اپنے آپ پر رحم

اگرہم اپنی ذات کیلئے رحم کا جذبہ محسوس نہیں کرتے تو دوسروں کے دکھ درد کو نظر انداز کرنا آسان ہوتا ہے۔اذیت جھیلنا ایک طرح سے صلہ رحمی کے بارے میں تعلیم حاصل کرنا ہے، اور ہمیں اسے ایک روحانی موقع سمجھ کر اپنانا ہوگا۔ سنہری اصول کہتا ہے ہم اپنے دکھ درد کو یاد کریں اور مصمم ارادہ کرلیں کہ ایسا دکھ کسی اور پر مسلط نہیں کریں گے۔ اگر ہم اپنی تکلیف کے احساس کو دبا دیں تو یہ مشکل ہے کہ ہم دوسروں کے دکھ کو کم کرنے پر آمادہ ہوں۔یہ دور پاکستان کے لیے نہایت اذیت ناک ہے اور ہوسکتا ہے کہ آپ سوچ رہے ہوں کہ لندن میں بیٹھ کر یہ سب لکھنا میرے لیے آسان ہے، جہاں اس وقت ہمیں فکر مندی قدرے کم ہے۔ مگر درد و غم سے کوئی محفوظ نہیں۔ مجھے اپنی ذاتی زندگی میں بھی دکھ جھیلنے پڑے ہیں(اس کا احوال آپ میری سوانح The Spiral Staircase میں پڑھ سکتے ہیں) اور مجھے یاد ہے کہ لندن ہر رات کو آئرلینڈ کی تحریک آزادی(IRA) کی بمباری کا نشانہ بنتا تھا۔ میں اپنے والدین سے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والی بمباری کا ذکر سنتے سنتے بڑی ہوئی، اور یہ ذکر تقریباً ایک علاج تھا۔ برمنگھم،وہ شہر جہاں میں نے پرورش پائی،میرے بچپن کے دوران(9/11 والے) گراؤنڈ زیرو کا نقشہ پیش کرتا تھا۔مگر میرے والدین یہ بھی بتاتے تھے کہ بمباری کے دوران لوگ ایک دوسرے پر کس قدر مہربان تھے، اور بھائی چارگی و سخاوت کا ایک جذبہ پایا جاتا تھا، اور میں نے سنا ہے کہ پاکستانی تاجر ہر چیز کو ایک طرف رکھ کر سیلاب زدہ علاقوں میں زندگی گزارنے پہنچ گئے ہیں تاکہ ان سے سیلاب زدگان کیلئے جو کچھ بھی ہوسکے، کردیں۔ چنانچہ اس جرمن، بمباری کا پیدا کردہ جذبہ، پاکستان میں واضح طور پر زندہ ہے۔

رومی نے کہا تھا:

جو درد سے عاری ہے، وہ ڈاکو ہے۔ کیونکہ درد سے عاری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ میں کہوں کہ’’میں خدا ہوں۔‘‘(مثنوی،جلد2،ص: 2521)

رومی،جنگ کی دہشتوں سے واقف تھے۔ وہ بلخ،وسط ایشیا میں پیدا ہوئے اور جب منگول فوج نے پیش قدمی شروع کی تو وہ جدید ترکی میں واقع کو نیا نامی مقام کی طرف فرار ہوگئے۔ جب ان کے عزاز استاد شمس الدین قتل کردیئے گئے، تو ان کو کسی چیز سے تسلی نہ ہوتی تھی،مگر وہ اپنے غم کو تخیلی طور پر حب الٰہی کی علامت بنا گئے، یعنی انسانیت کیلئے خدا کا منصوبہ اور انسانیت کی خدا طلبی۔ انہوں نے سکھایا کہ ہمارا غم، غیب میں رہنے والے خدا کی تلاش کی علامت اور ایک غیر تسلیم شدہ آگہی ہے کہ ہم وجود کے سرچشمے سے جدا ہوگئے ہیں:

ترجمہ: -1 اس کو سنو یہ کیسے شکوہ کرتا ہے

یہ فراق کا ایک قصہ کہتا ہے

-2 کہتا ہے، جب سے میں اپنے مقام سے جدا ہوا ہوں

میری فغاں سے مرد و زن نالہ کناں ہیں

-3 میں ایسا سینہ چاہتا ہوں جو فراق سے پھٹ گیا ہو

تاکہ ایسے کو میں اپنی د استان طلب سنا سکوں

-4 جو بھی اپنے مرکز سے دور جا چکا ہے

چاہتا ہے کہ وقت پلٹ جائے اور وہ لمحۂ وصالت کو دوبارہ پالے (مثنوی،جلد1،ص: 1)

خود رحمی یا اشتعال کا شکار ہونے کے بجائے،رومی نے اپنے ان تجربات سے کام لیاجو محرومی، جلا وطنی اور فراق کے دوران انہیں حاصل ہوئے تھے تاکہ انسانیت ابتلا کی فہم میں گہرائی آسکے، اور ان کو جو ان کی شاعری سے وجدان حاصل کرتے ہیں، انہیں روحانی حکمت عطا کریں۔ انہوں نے سکھایا کہ وہ دکھ جو ہم سب جھیلتے ہیں، ہماری مدد کرسکتا ہے،تقویت دے سکتا ہے اور ہمیں زندگی کی عمیق اور ماورائی حقیقتوں سے آگاہ کرسکتا ہے۔ یہ ناممکن ہوتا اگر ہم یہ سمجھتے رہیں کہ ہمارا دکھ ہمیں ایک علیحدہ اور خاص زمرے میں رکھتا ہے،اور یہ تسلیم کرنے سے بری کردیتا ہے کہ دوسرے بھی دکھ سے گزرتے ہیں۔ یہ ہمیں سکھا سکتا ہے، جیسا کہ اس نے رومی کو سکھایا، کہ غم انسانی زندگی کا ایک ناگزیر پہلو ہے اور کسی نہ کسی مرحلے پر ہر شخص دکھ درد جھیلتا ہے۔ حتی کہ ہمارا دشمن بھی۔

جب افراد یا معاشرہ دوسروں کے ہوس، تشدد اور ظلم کی مذمت بہت دھواں دار طریقے سے کریں تو یہ ایک علامت ہے کہ وہ خود اپنے نقائص سے سمجھوتہ نہیں کرسکے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ صرف دوسرے لوگ ہی بد اور مکروہ ہیں۔

ہم اکثر دوسرے لوگوں پر یلغار کرتے ہیں،ان مخصوص صفات کے لیے جو ہم اپنے آپ میں سب سے زیادہ ناپسند کرتے ہیں۔یہ نظام ہمیں مائل کرتا ہے کہ ہم اپنے عیوب کو دوسرے اشخاص میں دیکھیں۔ ایک ایسا طرز عمل جو ماضی میں اس بندھے ٹکے رویہ کا ذمہ دار رہا ہے جس نے ظلم کو جنم دیا ہے۔اس خو نے اسلام کے بارے میں اس مغربی تصور کی تشکیل کی جو عہد وسطیٰ میں پروان چڑھا۔ جب صلیبیوں نے مسلمانوں کو ذبح کیا تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ اسلام تلوار اٹھانے والا، پر تشدد مذہب ہے۔ایک تخیل جس کی حقیقت میں کوئی بنیاد نہ تھی بلکہ یہ اس گہرے دبے ہوئے خدشے کو ظاہر کرتا تھا جو عیسائیت کے منافی، ان کے افعال کا مظہر تھا۔

یہ ایک ایسا طریقہ تھا کہ جس کی مدد سے وہ اسلامی دنیا کے مقابل اپنے احساس کمتری، کشیدگی اور حسد کا مداوا کرسکیں، جو اس زمانے میں مغربی یورپ سے زیادہ طاقتور اور مہذب تھی۔ اسلام عالم عیسائیت کا سایہ شناخت تھا، ہر چیز کا ایک منتشر تصور جو صلیبیوں کے تصور کے عین مقابل، مگر ان کے خدشے کے عین مطابق تھا۔ آج بھی تہذیبوں کے نام نہاد تصادم کی جو وجہ بتائی جاتی ہے وہ بھی ایسے ہی غلط طریقہ عمل اور غلط معلومات کی تبلیغ پر مبنی ہے۔ میں ان قوتوں کو واضح طور پر اس نفرت کے پیچھے کار فرما دیکھ رہی ہوں، جو بعض مغربیوں کے دل میں، اسلام کے خلاف ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے جو مغرب کے خلاف کچھ نعرے ہیں، کیا ان میں بھی آپ ایسا ہی ابلاغ نہیں دیکھتے؟

رومی نے یہ سمجھ لیا تھا۔ دوسرے صوفیا کی طرح، کائنات کو اللہ تعالیٰ کے اسما و صفات کا مظہر جان لیا تھا۔ ان میں سے بعض نے اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کا انکشاف کیا اور بعض نے رحمانیت کا جو ذات باری میں زیادہ نمایاں ہے۔ وہ انسان جن پر ذاتِ الٰہی کی تجلی تھی ان میں بھی یہ دونوں پہلو پائے جاتے تھے مگر انبیا میں رحم کاعنصر حاوی ہے،جب کہ کافروں کی نمایاں خصلت غضب ہے۔ ہم سب اس جہد میں مبتلا ہیں، مگر، جیسا کہ رومی نے اصرار کیا ہے، کہ ہم ذمہ دارمخلوق ہیں اور انجام کار کا انتخاب کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے محدودات سے ماوراء جانے کیلئے مذہب کے نظم و ضبط و رسم و رواج سے کام لے سکتے ہیں۔ یوں ہم قربِ الٰہی حاصل کرسکتے ہیں۔ شونزی،تیسری صدی قبل مسیح کے ایک کنفیوشن دانا، کا یقین تھا کہ کوئی بھی رحم کا مثالیہ بن سکتا تھا،بشرطیکہ وہ اس کے لئے ریاض کرے۔

ہم صرف اپنے آپ سے ایک نرم رویے کے ہی سیاق و سباق، میں اپنی انانیت سے ماورا جانے کا سوچ سکتے ہیں، وہ انانیت جو ہمیں اپنے بہترین ہستی ہونے سے روکتی ہے۔ تمام مذہبی روایتیں زور دیتی ہیں کہ ہم خود غرضی کے منشور سے بالا چلے جائیں۔ تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اپنی فطرت سے بیزار ہو کر پھر جائیں، مگر یہ کہ ہم لالچ و خود غرضی کی جبلتوں سے پرے ہو جائیں، جس کے تابع ہو کر ہم اپنی حیثیت کو بڑھانے کیلئے دوسروں کی تباہی کو پسند کرتے ہیں۔ کفار مکہ خود پسندی میں ڈوبے ہوئے تھے اور اپنی ذات کو ہی تمام اشیا کی پیمائش کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ اس رجحان کی مخالفت کرنے کیلئے مذہب اسلام خودی کی تسلیم پرمرکوز ہوگیا۔ شروع ہی سے مسلمان صلوٰۃ میں کئی بار سجدہ ریز ہوتے تھے۔ یہ رکن کسی عقلی دلیل سے زیادہ یہ باور کرواتا کہ اسلام نفس سے آزادی کا نام ہے اور ارکان عبادت اس جانب مسلسل توجہ مبذول کرواتے ہیں۔

بعد میں صوفیا ایک روحانی طریق وضع کرنے والے تھے جو انہیں ایک نفس کے بعد دوسرے نفس، ایک خودی کے بعد دوسری خودی کا خول اتارنے میں معاون تھا۔ اپنی ذات سے یہ کم رغبتی،فنا کے راستے پر لے گئی، یعنی یہ احساس کہ نفس کچھ نہیں، اور ذات باری واحد حقیقت ہے۔

مگر تمام مذاہب کہتے ہیں کہ خود کی یہ ظاہری موت انسان کی رہنمائی ایک زیادہ پرثروت اور اعلیٰ تر وجود کی جانب کرتی ہے۔ اس حالت کا بیان محال ہے، کیونکہ جن لوگوں کے اندر نفس کی گرفت جاری ہے، وہ اس کا ادراک نہیں کرسکتے۔ بلکہ یہ نیستی ہے جو ہماری غیر نورانی حالت کے متوازی ہے۔ صوفیا نے اس حالت کو بقا کہا ہے۔ اپنی نظم’’منطق الطیر‘‘ میں، جو سرچشمہ ہستی کی جانب رجوع کا ایک علامتی اظہار ہے، بارھویں صدی کے فارسی شاعر فرید الدین عطار نے سمجھایا ہے:

پہلے بے وجود ہو جاؤ تب تم وجود پاؤ گے جب تک حیات و ذات باقی ہیں تم جی نہیں سکتے

جب تک فنا تک نہیں پہنچتے تم دیکھ نہیں سکتے اس حیاتِ ابدی کو جس کی تمہیں طلب ہے

چوتھا قدم:ذہنی ہمدردی

سنہری اصول ایک تخیلی محنت چاہتا ہے، جس کے سبب ہم اپنی ذات کو ایک طرف رکھ کر کسی دوسرے کی جگہ خود کو رکھ کر دیکھیں۔یہی وجہ تھی کہ گزشتہ قدم میں یہ اہم بات تھی کہ ہم اپنے دکھ کو یاد کریں، کیونکہ اسی طرح ہم دوسروں کے دکھوں کا ادراک کرسکیں گے۔’’گھائل کا دکھ گھائل جانے۔‘‘ آنحضرتﷺ کے اولین سیرت نگار بتاتے ہیں کہ شروع میں رسول اللہﷺ نے نزول وحی کے بارے میں قریبی رشتہ داروں کے علاوہ کسی کو نہیں بتایا۔ وہ اچھی طرح سے واقف تھے کہ پیام قرآن حکیم کے بارے میں انہیں شدید مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا اور کوئی بھی ان پر یقین نہیں کرے گا۔ ان کی بیوی کے عزیز،ورقہ نے انہیں یاد دہانی کروائی کہ ہر پیغمبر کو ہمیشہ اپنے لوگوں نے مسترد کیا تھا۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ چند ابتدائی سورتوں کے نزول کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاموشی چھا گئی اور تقریباً دو سال تک کوئی وحی نہیں آئی۔ یہ ایک مشکل ترین وقت تھا اور آنحضرتﷺ کی وہ کیفیت تھی جو سورۃ الضٰحے کی تیسری آیت سے منعکس ہے۔ کیا انہیں دھوکا ہوا تھا؟ کیا خدا نے انہیں فراموش کردیا تھا؟

پھر یکبارگی خاموشی ٹوٹ گئی اور اندھیرا ایک پرنور تائید سے چھٹ گیا جب سورۃ الضٰحے نازل ہوئی، اور اس نے رسول اللہﷺ کی اپنے آپ سے سوال کرنے والی فکر کو، رحم کی جانب ایک پکار سے بدل دیا:

ترجمہ:آفتاب کی روشنی کی قسم۔ اور رات(کی تاریکی) کی جب چھا جائے۔ کہ(اے محمدﷺ) تمہارے پروردگار نے نہ تو تم کو چھوڑا اور نہ تم سے ناراض ہوا اور آخرت تمہارے لیے پہلی حالت (یعنی دنیا) سے کہیں بہتر ہے۔اورتمہیں پروردگار عنقریب وہ کچھ عطا فرمائے گا کہ تم خوش ہو جاؤ گے۔ بھلا اس نے تمہیں یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟(بے شک دی)۔ اور راستے سے ناواقف دیکھا تو سیدھا راستہ دکھایا۔ اور تنگدست پایا تو غنی کردیا۔ تو تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا۔ اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا۔ اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا۔(ق:الضٰحے)

اس سورۃ میں نہایت خوبصورتی سے سنہری اصول کی حرکیات کو سمجھایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ، حضرت محمدﷺ سے کہتا ہے کہ وہ اپنی ابتدائی زندگی کے دکھ بھرے تجربے کو یاد کریں اور پھر اس بات کی ضمانت لیں کہ ان کے لوگوں میں سے کوئی ایسی تنہائی و محرومی سے دوچار نہ ہو۔

مگر یہ سورۃ رحم کے مخصوص اسلامی تصور کو بھی پیش کرتی ہے۔ پہلے ہمیں اس کی قوت اور اس کی توانائی پر غور کرنا ہوگا۔ یہ سورۃ رسولﷺ پر یکلخت ایک چمک کے ساتھ اتری جو ایسی زبردست اور معنی کی ہیئت تبدیل کرنے والی تھی جس دن نکلنے پر دنیا تبدیل ہو جاتی ہے، اور سورج یک لخت تاریکی کو چھانٹ دیتا ہے۔ اسلام میں رحم کا نظام ایک امر ہے۔ ایک ایسا عمل ہے جو اگر متواتر اور خلوص کے ساتھ انجام دیا جائے، جیسا کہ قرآن حکیم کا حکم ہے، تو یہ صرف ایک فرد کی زندگی کو ہی تبدیل نہیں کرے گا بلکہ پوری دنیا کو تبدیل کردے گا۔ دوسری بات یہ کہ رحم کا عمل محض اپنے آپ کو دوسرے کی جگہ رکھ کر دیکھنے کے اصول ہی پر منحصر نہیں۔ اگرچہ یہ بھی ایک مقصد ہے۔ یہ بنیادی طور پر ایک طاقت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارد ہوتی ہے، ایک رحم دلانہ رجحان، جسے مسلمان کو پہچاننا ہوگا اپنے حالات زندگی کے مطابق،یعنی ان ادوار میں بھی جب وہ اذیت سے گزر رہا/رہی ہو۔

تیسری اور سب سے اہم بات۔ یہ سورۃ آنحضرتﷺ کو تبلیغ عامہ کیلئے کہتی ہے۔ اپنے آخری حکم’’فحدث‘‘ کے مطابق۔ اب نبیﷺ محض خانگی زندگی نہیں گزار سکتے بلکہ انہیں عوام الناس کے سامنے تبلیغ بھی کرنی ہے، اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ اس میں مشکل بھی ہے اور خطرہ بھی، ان کی زندگی اب پہلے جیسی کبھی نہیں ہوسکے گی۔اب انہیں پرخطر اور اذیت دہ راہِ رسالت پر گامزن ہونا ہے۔ وہ مسلمان جو حضرت محمدﷺ کے اسوۂ حسنہ ہونے پر ایمان رکھتے ہیں، انہیں بھی جاننا ہوگا کہ ان کے فرائض محض ذاتی نہیں معاشرتی بھی ہیں۔

اور پیغمبرﷺ کو کس بات کا اعلان کرنا ہے؟ اپنی ذاتی اذیتوں کی دکھ بھری کہانی نہیں سنانی بلکہ اپنے رب کی نعمتوں کو دہراتا ہے۔ انہیںﷺ دوسروں کو نعمت کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دینی ہے،تاکہ وہ جان سکیں کہ الوہی سخاوت کے اسی جذبے کو دوسروں سے معاملہ کرنے کے دوران بروئے کار لانا بھی ضروری ہے۔ یہ شعور ان کے رحم دلانہ طرز عمل اور اس کی وسعت پر اثر انداز ہوگا۔مگر جب زندگی سخت ہو تو رحمت خداوندی کے آثار کو دیکھنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بات قابل لحاظ ہے کہ اسلام قبول کرنے والے اولین اشخاص دولت مند قریش گھرانوں کے افراد نہیں تھے، جو پہلے ہی بے شمار نعمتوں سے مالا مال تھے۔ اولین مسلمانوں کی اکثریت نے سخت زمانہ دیکھا تھا۔ان کو اپنی زندگی میں الوہی حرکیات کو پہچاننے کیلئے لازمی طور پر خصوصی تگ و دو کرنا پڑی تھی۔

شروع سے ہی قرآن حکیم نے مسلمانوں کو آیات الٰہی کی رحمانیت کو تلاش کرنے کا حکم دیا ہے:

ترجمہ :کیا یہ لوگ اونٹوں کی طرح نہیں دیکھتے کہ کیسے(عجیب) پیدا کیے گئے ہیں اور آسمان کی طرف کہ کیسا بلند کیا گیا ہے۔ اور پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کیے گئے ہیں اور زمین کی طرف کہ کس طرح بچھائی گئی۔ تو تم نصیحت کرتے رہو کہ تم نصیحت کرنے والے ہی ہو۔(ق:الغاشیۃ،17تا21)

مناظر فطرت انہی لوگوں کیلئے مظہر ذات باری ہیں جو قوم’’یعلمون‘‘ ہیں جو قوم’’یفقہون‘‘ ہیں( ق:الانعام۔97تا98)۔مسلمانوں کو اس آگہی کی آبیاری مسلسل،تامل کے ذریعے کرنی ہوگی، ظاہری حقیقت سے آگے ماورائی حقیقت کی دید کا طریقہ سیکھنا ہوگا۔ اگر وہ اپنی نعمتوں کا ادراک کریں گے، تو وہ اردگرد کے تمام لوگوں کے ساتھ سخاوت کا برتاؤ کرنا سیکھ لیں گے۔

جو لوگ اس رویے کو پروان چڑھانے سے انکار کریں گے، وہ کفر کے مرتکب ہوں گے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی چیز جو بہت رحم دلی سے پیش کی گئی ہے اس کا غیر مودبانہ طریقے سے انکار۔ کافرین ایک پرتکبر استغنا کی عادت پروان چڑھاتے ہیں، یہ سمجھتے ہوئے کہ حاصل ہونے والی تمام نعمتوں کے وہ خود ذمہ دار ہیں اور کسی کے بھی احسان مند نہیں۔ چنانچہ وہ تذکہ، یعنی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی جانب ایک ذمہدارانہ اور پروا کے رویہ، کو پروان چڑھانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ ہمیں آج اپنے سیارے کو درپیش ماحولیاتی خطرے کو سنجیدگی سے لینا ارتکاب کفر ہے، گویا ہم اللہ تعالیٰ کے منہ پر اس کی تخلیق کردہ اس انتہائی حسین دنیا کو لوٹا دینے کا عمل کررہے ہیں۔

بعدکی مسلمان نسلوں نے قرآنی تعلیمات کے بارے میں اپنی بصیرت کو مزید تربیت اور گہرائی دی۔ دیگر مسلمان صوفیاء کی طرح محی الدین ابن العربی(1165ء تا1240ء) نے تخلیق کائنات کو اللہ تعالیٰ کی درد مندی کا ایک انکشاف سمجھا۔ اسماعیلیہ یقین رکھتے تھے کہ اسم’’الہ‘‘ عربی مصدر’’ ول ہ‘‘ سے ماخود ہے، جس کے معنی ہیں غمگین ہونا،افسوس کرنا۔ وہ اس حدیث قدسی کو دہراتے ہیں:

میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا اور میں نے چاہا کہ میں جانا جاؤں۔پھر میں نے بندے تخلیق کیے کہ وہ مجھے جان سکیں۔

ہم عقلی طور پر اللہ تعالیٰ کے دکھ کو کسی طرح ثابت نہیں کرسکتے۔اس کا ادراک ہم صرف اس طرح سے کرسکتے ہیں کہ کسی چیز کیلئے اپنی آرزو، کہ ہم اپنی گہری خواہشوں کو پورا کرسکیں، اور زندگی کے دکھ اور المیہ کو بیان کرسکیں۔ اس آرزو کو خالق کے دکھ کا عکس ہونا چاہیے۔ ابن العربی نے فرض کیا کہ تنہا خدا آہیں بھر رہا ہے اور مخلوقات کے لئے رحم رکھتا ہے، یعنی کہ جب تک انہیں تخلیق نہ کرے، وہ صحیح حقیت کو نہ جان سکیں گے۔ اس گہری آہ، اس نفس رحمانی نے ہماری پوری کائنات کو تخلیق کیا۔ چنانچہ موجود ہونے کا مطلب مرحوم ہونے کا بھی ہے(مرحوم بہ معنی:وہ جس پر رحم کیا جائے)۔ یہاں پھر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ رحم محض ترس اور عفو سے عظیم تر ہے۔ یہ ایک عملی، تخلیقی اور آزادی دلانے والی قوت ہے۔ یہ ہر فرد بشر کی اساس میں تحریر ہے۔ ایک رحم دل انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ فرد اللہ تعالیٰ کے اخلاق پر عمل کرے اوراس نادریافت شدہ قوت پر افسوس کرے، جو ہمارے چاروں طرف موجود ہے۔یہی ہماری فطرت کی تسکین ہے۔

پانچواں قدم:مستعدی

مستعدی(ستی)بدھ مت کا ایک عمل ہے،مگر اکثر روایات نے اس سے ملتے جلتے ضابطے کو اپنایا ہے،جو ہمیں ہستی کی گہری لہروں سے آگاہ رکھتے ہیں۔ ہم سب انسان، جیسا کہ قرآن حکیم کا اصرار ہے،بھولنے والی مخلوق ہیں۔ ہم بار بار بہہ کر زندگی کی سطح پر آجاتے ہیں، اس لیے ہمیں مسلسل یاد دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ صلوٰۃ کی پابندی، ایک مسلمان کے معمولات زندگی اور کارکردگی میں،دن کے مختلف اوقات میں مداخلت کرتی ہے۔ جیسے وہ کعبہ کی سمت تلاش کرتے ہیں،مسلمانوں کو اپنی صحیح فطری صلاحیت کی یاد دہانی بھی ہو جاتی ہے اور انہیں یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس طرف جارہے ہیں۔ آخر ان کا منشا کیا ہے؟ یہ مستعدی کا ایک عمل ہے،جس کے ذریعہ وہ اپنے آپ کو حقائق سے مکمل طور پر آگاہ اور باشعور بنالیتے ہیں۔

قرآن حکیم میں دو اصطلاحات ہیں جو بدھ مت کی مستعدی سے مشابہ ہیں۔قرآن حکیم میں ان دو الفاظ کا مطالعہ اور ان کے سیاق و سباق کے بارے میں جاننا ایک نتیجہ خیز عمل ہوگا،خصوصاً رحم پر ایک کالج نصاب کے حوالے سے۔ پہلا ہے’’ذکر‘‘، یادگار،یاد دلانے والا۔ ان حقیقتوں کا جو حتمی ہیں۔ وہ حقائق جو بے چین کردیتے ہیں اور جنہیں بھلانے کو جی چاہتا ہے۔ دوسری اصطلاح ہے’’تقویٰ‘‘ جس کا ترجمہ اکثر’’خدا کا خوف‘‘ کیا جاتا ہے۔ مگر خصوصاً ابتدائی سورتوں میں قرآن حکیم خوف سے زیادہ نگہداری سے واسطہ رکھتا ہے۔تقویٰ، عربی لفظ’’تقو‘‘ کے مصدر سے پیدا ہوا ہے،جس کا مفہوم ہے اپنا بچاؤ کرنا۔ زندگی کی کئی مشکل حقیقتیں ہیں جن کے بارے میں ہم نہیں سوچنا چاہتے،سیاسی،معاشی اور ذاتی زندگی کی ناانصافیاں،ہمہ جا اذیت جو دنیا چہار سمت سے ہم پر مسلط کرتی ہے،دوسروں کے دکھ سے ہماری بے پروائی، وہ افعال جو بے لحاظ اور ظالمانہ ہوں اور جو دوسروں کے قلوب کو سکیڑ کر رکھ دیں اور انہیں بے چارگی کی حد تک لے جائیں۔ہماری پیہم خود غرضی، جو ہمیں دوسروں کی حاجات کے حوالے سے سخت دل کردیتی ہے۔ قرآن حکیم ہمارے اس رجحان کے بارے میں ہمیں ان مقامات پر یاد دہانی کرواتا ہے جہاں یوم الحساب کا،جو ابتدائی سورتوں کا نمایاں ترین موضوع ہے، ذکر ہے۔عربی عبارت’’یوم الدین‘‘ کا مطلب ہے’’یوم الحساب‘‘ مگر’’یوم‘‘ ایک غیر معین مدت کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ پس اگرچہ قرآن حکیم مطالبہ کرتا ہے کہ ہم’’یوم الآخرت‘‘ پر غور کریں تو اس فقرہ کا یہ ترجمہ بھی ممکن ہے یعنی’’ صداقت کا لمحہ۔‘‘ ان عبارات کی احتیاط سے تفتیش کرنا ضروری ہے کیونکہ ان کی نیت یہ نہیں کہ ہمیں ڈرائیں اور ہمارے دل میں خوف خدا بھر دیں بلکہ یہ کہ ہمیں یاد دلائیں کہ ہم موجودہ لمحہ میں کیا کررہے ہیں۔

قریش میں سے کئی افراد بہت بڑے بڑے خزانے جمع کررہے تھے اور اپنے قبیلے کے کمزور افرادکی جانب ایک نگاہ بھی نہیں ڈالتے تھے۔ ان کو اس کا شعور نہیں تھا کہ ان کے ان افعال کے اثرات کتنے دیرپا ہوں گے۔ تب قرآن حکیم نے انہیں باور کروایا کہ اپنے طرز عمل کے لیے افراد کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا۔

اپنی مدت حیات کے تمام ہونے پر انسانوں کو ان بے چین کردینے والے حقائق کا سامنا کرنا ہوگا، جنہیں انہوں نے بھلاناپسند کیا تھا۔ لمحہ موت میں ہر وہ چیز جو ٹھوس، اہم اور دوامی معلوم ہوتی تھی، عارضی ثابت ہوگی۔ اپنی ابتدائی سورتوں میں ایک ایک لفظ کو واضح کرنے والی آیات کے ذریعہ فریب کا یہ پردہ چاک کردیا گیا ہے:

ترجمہ:جب سورج لپیٹ لیا جائے گا ۔اور جب تارے بے نور ہو جائیں گے۔ اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔ اور جب بیانے والی اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی۔ اور جب وحشی جانور اکٹھے ہو جائیں گے۔ اور جب دریا آگ ہو جائیں گے۔ اور جب روحیں( بدنوں سے) ملا دی جائیں گی اور جب اس لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہو پوچھا جائے گاکہ وہ کس گناہ پر ماری گئی۔ تب ہر شخص معلوم کر لے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔(ق:التکویر۔1یا9،14)

اس لمحہ ہم جان جائیں گے کہ دراصل اہم کیا تھے۔ تب یہ مال و دولت نہ رہ جائے گا۔ ایک حاملہ اونٹنی بھی نہیں جو ریگستانی عرب باشندوں کی سب سے عزیز ملکیت تھی، اس کی بھی کوئی دائمی قدر نہیں تھی۔ اس’’لمحہ صداقت‘‘ میں،

ترجمہ:تب ہر شخص معلوم کرلے گا کہ اس نے آگے کیا بھیجا تھا اور پیچھے کیا چھوڑا تھا(ق:الانفطار۔5)

اس لمحہ میں ہمیں پتہ چلے گا کہ اصل قدر کہاں موجود ہے:

ترجمہ:اس دن لوگ گروہ در گروہ ہو کر آئیں گے۔ تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھا دیئے جائیں توجس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔(ق:الزلزال۔6تا8)

وہ اعمال جنہیں بجا لاتے ہم نے اہمیت سے عاری سمجھا تھا وہی اہم ترین ہو جائیں گے۔ خود غرضی یا سختی کا ایک چھوٹا سا عمل یا غیر شعوری سخاوت کا ایک فعل انسانی زندگی کی پیمائش کا ذریعہ بن جائیں گے۔

ترجمہ:کسی (کی) گردن کا چھڑانا۔ یا بھوک کے دن کھانا کھلانا۔ یتیم رشتہ دار کو۔ یا فقیر خاکسار کو۔(ق:البلد۔13تا16)

یک بارگی انگریز شاعر ورڈ زورتھ نے جنہیں’’ چھوٹے چھوٹے، بے شمار ،فراموش کردہ افعال ہمدردی و محبت‘‘ کہا ہے، ان پر ایک دم نئی روشنی پڑنے لگے گی۔

یقیناً قرآن حکیم جنت کے بارے میں بیان کرتا ہے،جو ان لوگوں کا انعام ہوگا جنہوں نے’’صالحات‘‘ کو انجام دیا، اور اس’’دہکتی ہوئی آگ‘‘ جہنم کا بھی جو ان لوگوں کا انتظار کررہی ہوگی جنہوں نے مادی دولت سمیٹنے پرتوجہ مرکوز رکھی۔ مگر قرآن حکیم نے مستقبل کے ان حالات کے بارے میں احتیاط سے منظر کشی کی ہے۔ اس کے برخلاف وہ سننے والوں سے تاکید کرتا ہے کہ اس’’لمحہ صدق‘‘ کا سامنا ابھی اور یہیں کریں۔ اور یہ بات فی الفور اچھی طرح سمجھ لیں کہ’’ اہم کیا ہے اور کیا نہیں‘‘ اور کون سی چیز مستحکم ہے اور کون سی مستحکم نہیں ہے۔ قرآن حکیم سوال کرتا ہے کہ زندگی کی سمت کیا ہے۔ قرآن حکیم کی تاکید ہے۔

ترجمہ: یہ تو جہان کے لوگوں کیلئے نصیحت ہے۔ یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے۔(ق:التکویر۔27تا28)

لوگوں کو تقویٰ اختیارکرنا چاہئے، خود آگاہ ہو جائیں، جو کچھ کررہے ہیں اس کا شعور رکھیں اور کرم الٰہی کی آیات پر غور کریں۔ اس طرح ان کے اندر وہ منکسر شکر گزاری آجائے گی، جس سے انسانی ہستی کو مشخص ہونا چاہیے۔

مگر معاشرہ کو سدھارنے کا منصوبہ بنانا بے کار ہے، جب تک ہم خود اپنی اصلاح نہ کریں۔ذکر اور تقویٰ کی پابندی، ہر دن کے ہر لمحے میں ہمارے ہر طرز عمل کی نگراں ہونی چاہیے۔ ہمیں زمانہ حال میں پوری طرح شعوری طور پر اور فہم کے ساتھ جینا ہوگا۔ تاکہ ہم یہ شعور حاصل کرلیں ہم صرف اپنی لاپرواہی سے کس طرح دوسروں کو دکھ پہنچاتے ہیں۔ اور اس پر غور کریں کہ جب کوئی آپ کو زچ کرتا ہے تو آپ کا رد عمل کتنا غیر متناسب ہو جاتا ہے۔ ہمیں اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ اگر کوئی راہ چلتے، غیر متوقع طور پر،آپ کو مسکرا کر دیکھتا ہے یا آپ کی مدد کرنے کیلئے اپنے معمول سے ہٹ کر کام کرتا ہے تو یہ دنیا ہمارے لیے کتنی روشن ہو جاتی ہے۔ مگر صرف آگہی کافی نہیں۔ اس کو روزانہ کے عمل میں شامل کرنا ہوگا۔

چھٹا قدم:عمل

اب وقت آگیا ہے، کہ ابھی تک جو کچھ ہم نے سیکھا ہے،اس پر عمل کریں۔قرآن حکیم میں تسلیم کا مطلب محض یہ نہیں کہ ہم عقائد کے ایک نظام کو عقلی طور پر تسلیم کریں۔ ایمان کا رشتہ ہمیشہ رحم دلانہ اقدام سے قائم رہا ہے۔

ترجمہ: کہ انسان نقصان میں ہے۔مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق(بات) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔( ق:العصر۔2تا3)

ایمان کا تعلق رحم دلانہ برتاؤ کے ساتھ ادائے صلوٰۃسے ہے۔ اپنے مال میں سے دوسروں کو حصہ دینا(ق:البینۃ۔5)۔ایسی سخاوت کے ساتھ کہ کسی کی طرف بدلے کیلئے نہیں دیکھنا(ق:الیل۔19)۔اس عملی اور رحم دلانہ انداز کے بغیر،صرف احکام قرآن حکیم کو تسلیم کرنا اور پابندی سے نماز پڑھنا ایک بناوٹ ہے۔

ترجمہ:بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو(روز)جزا کو جھٹلاتا ہے۔یہ وہی(بدبخت) ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور فقیر کو کھانا کھلانے کیلئے(لوگوں کو) ترغیب نہیں دیتا۔ تو ایسے نمازیوں کی خرابی ہے۔ جو نماز کی طرف سے غافل رہتے ہیں۔ ریا کاری کرتے ہیں۔ اور برتنے کی چیزیں رعایتاً نہیں دیتے۔(ق:الماعون)

اپنے تقوے کی نمائش صلوٰۃ کی نفی ہے، یہ انانیت کا ایک مظاہرہ بن جاتا ہے، ایک احساس خود غرضی پیدا کرتا ہے جو کسی بھی شخص کو رحم اور کرم کے قابل ہی نہیں چھوڑتا۔ مگر جب نماز خشوع و خضوع سے پڑھی جائے، ایک مسلمان سوائے اس کے کچھ اور کر ہی نہیں سکتا کہ سماجی تشویش میں اس کے ان مضمرات کو بھی بجا لائے، یعنی صالحات کی ادائیگی،یتیموں کی سرپرستی کرے، اور کمزوروں،ضرورت مندوں اور بدنصیبوں کی مدد کرے۔

مکہ میں حضرت محمدﷺ کی ابتدائی تبلیغ کے برسوں میں،مسلمانوں کا مذاق بھی اڑایا جاتا تھا اور ان کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا تھا۔ قرآن حکیم نے ان کو مسلسل صبر کی تلقین کی، انہیں تشدد کے جواب میں انتقام نہیں لینا تھا بلکہ ایک دوسرے کو استقامت کی تلقین کرنی تھی۔ ایمان پر قائم رہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ایک متحرک گواہ بن جائیں یعنی ہم جارحیت اور بدسلوکی کا باہمت طریقے سے سامنا کریں۔

مگر لفظ’’ایمان‘‘ کے مفاہیم میں امان اور تحفظ بھی شامل ہے۔ یہ ایک متضاد عمل ہے کہ،فعال زندگی جو رحم اور بے نیازی سے عبارت ہو وہ پر خطر ہوتی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ امن اور تحفظ کا ایک احساس بھی دلاتی ہے۔

مگر اس طرح کی تبدیلی وقت ہوتی ہے۔ ترقی کی رفتار سست، اور درجہ بدرجہ ہوتی ہے۔ پہلے ارادہ کرلیں کہ روزانہ ایک رحم دلانہ فعل کریں گے۔ اسے بالشان یا نمایاں کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ زیادہ بہتر ہوگا کہ نیکی بہت معمولی ہو، جو واضح طور پر نظر نہ آئے اور اس ہمہ گیر توصیف کو دعوت نہ دے جس سے نفس مغرور ہو جاتا ہے۔ روزانہ سنہری اصول کی منفی صورت کو برتنا بھی مددگار ثابت ہوتا ہے،’’ دوسروں کے ساتھ وہ نہ کرو جو تم نہیں چاہتے کہ وہ تمہارے ساتھ کریں۔‘‘روزانہ دیکھنے میں آتا ہے کہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو انتھک محنت کرتے ہیں اور دنیا کو بچانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں، مگر کسی کے خلاف کینہ سے پر جملہ بازی کرنے کو کوئی عیب نہیں سمجھتے،غیبت کرنے یا دوسروں کے عقائد یا رسوم کا مذاق اڑانے میں کوئی تامل نہیں کرتے۔ اس لیے اس بات سے چوکس رہیں کہ قبل اس کے کہ آپ کوئی دل آزاری کی بات کریں، یا بے رحمانہ لطیفہ سنائیں، اپنے آپ کو روک لیں۔ اپنے آپ سے سوال کریں کہ اپنے بارے میں ایسے جملے سن کر آپ کیا محسوس کریں گے۔

جب یہ دو حرکات۔ رحم دلی کا مثبت عمل اور سفاکی سے بچنے کامنفی عمل، آپ کے روزانہ کے معمولات کا حصہ بن جائیں، تب وہ وقت آجاتا ہے کہ آپ اپنے ہدف کو بڑھا کر دن میں وہ رحم دلانہ حرکات کریں، اور دو مواقع ایسے پیدا کریں جب آپ دوسروں پر غیر ضروری دکھ لادنے سے گریز کریں۔ پھر ایسے تین اقدامات تک بڑھ جائیں اور یونہی بڑھتے رہیں۔ یہ آسان نہیں ہوگا۔ ہدف یہ ہے کہ ہم دن رات اسی طرز عمل کو اختیار کیے رہیں، بقول کنفیوشس۔ لیکن اگر ہم اس منزل تک پہنچ جاتے ہیں تب ہم اس جائے پناہ،امن اورتحفظ کو سمجھ سکیں گے جو ایمان کے ذریعے مل سکتے ہیں۔

ساتواں قدم:ہم کیا جانتے ہیں؟

آج کے دور میں اقوام و مملکتوں میں پایا جانے والا بیشتر اختلاف جہالت کا نتیجہ ہے۔ ہم ایک دوسروں کو نہیں جانتے، شام کی خبروں پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ یا دوسروں کی آرا پر زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ مغربی معاشرہ حد درجہ اپنی رائے پر انحصار کرتا ہے۔ ہماری نشریات ٹاک شوز سے بھری ہوئی ہیں، جس میں لوگوں کو ہر طرح کے موضوع پر اظہار رائے کی آزادی دی جاتی ہے۔ مگرکیا وہ ہمیشہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ جب ان سے تفصیلی سوالات کیے جاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کی قابل بھروسہ معلومات اتنی ہی ہیں جو ایک پوسٹ کارڈپر آجائیں۔ یہ تسلیم کرنا کہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں بہت کم علم رکھتے ہیں، بلکہ یہ کہ ہر فرد ایک اسرار ہے،اس لیے ضروری ہے تاکہ ہم دوسروں کے بارے میں جو رائے قائم کریں وہ متوازن ہو، نیز انسانی فطرت کی گہرائیوں اور انسانی وقارکا ادراک رکھتی ہو۔ لیکن ہم اپنی رائے اور محدود معلومات کو اس قدر مانتے ہیں کہ لوگوں کیلئے’’صحیح‘‘ ہونا رحم دل ہونے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔

جدید سائنس کی فتوحات ہمیں یہ یقین دلانے لگی ہیں کہ ہم رفتہ رفتہ جہالت کی سرحدوں کو پرے دھکیل رہے ہیں اور بہت جلد کائنات کے اسرار کو دریافت کرلیں گے۔ علم کا تعاقب ہمیں پرجوش کردیتا ہے۔ نیز سائنس،ٹیکنالوجی اور معالجے نے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کو ڈرامائی حد تک بہتر بنا دیا ہے۔ مگر اب تک ناواقفیت، انسانی حالت کا ایک اساسی حصہ ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر سائنسدان مطمئن تھے کہ صرف چند ہی غیر حل شدہ مسائل باقی رہ گئے ہیں کہ جن کو حل کرنے کے بعد کائنات میں ہماری سمجھ بوجھ اور معلومات مکمل ہو جائیں گی۔ مگر صرف بیس سال بعد قدریہ میکانیات نے گزشتہ اور پرانے امکان کو مسترد کردیا، اور ایک ایسی کائنات کی رونمائی کی جس کا نہ تو تعین ممکن تھا اور نہ ادراک۔

’’فطرت کا ڈھانچہ آخر کار ایسا نکل سکتا ہے کہ ہماری ترکیب فکر اس سے مطابقت نہ رکھے، اس درجہ کہ ہم اس کے بارے میں سوچنے کی صلاحیت ہی نہ رکھ پائیں۔‘‘ امریکی ماہر طبیعات پرسی برج مین(پ: 1882ء) نے سمجھایا۔’’عالم ماند پڑتا اور ہماری دسترس سے نکلتا جارہا ہے۔۔۔ہم سائنس کے عظیم موجدوں کی حد تک پہنچ گئے ہیں اور ابھی تک ایک ایسی ہمدرد دنیا میں رہ رہے ہیں جو ہمارے ذہنوں کیلئے قابل فہم ہے۔‘‘

مسلم فکر، قدیم یونان کی فلسفیانہ معقولیت سے بہت متاثر ہوئی تھی، یہ وہی فلسفہ ہے جو مغربی روایات میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ اس فلسفہ کے بانی روشن ذہنوں میں سقراط(469تا399ق م) بھی شامل تھے، جو مرتے دم تک اس بات پر مصر رہے کہ انہیں صرف اس بنا پر عقل مند سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے۔جو لوگ ان سے ملنے آتے تھے، یہ سمجھتے تھے کہ جو بات وہ کہہ رہے ہیں مناسب علم کی بنا پر کہہ رہے ہیں مگر سقراط کے سفاک سوالوں کے تیس منٹ بعد ہی انہیں احساس ہو جاتا تھا کہ وہ انصاف یا جرات جیسے بنیادی معاملات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ وہ جتنی بھی احتیاط سے دلیل دیتے، کوئی نہ کوئی بات ان سے رہ جاتی تھی۔ انہوں نے انسانی جہل کی گہرائی دریافت کرلی تھی، وہ چکرا جاتے، الجھن میں مبتلا بچوں کی طرح،اور اسی لمحے سقراط کو اصرار تھا کہ وہ فلسفی بن گئے۔ یعنی حکمت کے عاشق۔ اس لیے کہ وہ علم کے پیاسے ہوگئے تھے، وہ جانتے تھے کہ ان کے پاس علم نہیں ہے۔

اب ہم یہ ذہنی انکسار کھو چکے ہیں اور یہ بات اس وقت سنجیدگی اختیار کرلیتی ہے جب ہم ایک دوسرے سے معاملہ کرتے ہیں۔ تمام عالمی مذاہب اصرار کرتے ہیں کہ ہر مرد اور عورت کی عمیق ترین حقیقت، ماورائی ہے، اور یہ ہمارے روز مرہ کے ادراک سے پرے ہے۔ یہ ہمارا سب سے اندرونی شعور ہے جہاں ہمیں نروان کی دریافت نصیب ہوتی ہے یا برہماں، خدا، یا داؤ کی۔ یہ وہ تجربہ تھا جسے عظیم صوفیا فنا کہتے تھے۔ ابو یزید بسطامی(و: 874ء) نے ایک داخلی مشق تیار کی جو انسانیت کی تمام پرتوں کو یکے بعد دیگرے اتار دیتی تھی، بالکل اسی طرح جیسے پیاز کے چھلکے اتارے جاتے ہیں جو کسی کی نظر کو ترچھا کرکے اپنی ذات کے بارے میں غلط عکس فراہم کرتے تھے۔ جیسے وہ اپنی شناخت کے مرکز تک پہنچتا ہے، وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کی ذات اور خدا کے درمیان کوئی شے حائل نہیں، بلکہ ہر وہ حقیقت جسے وہ’’خود‘‘ کے معنی میں سمجھتا تھا، پگھل کر الگ ہو جاتی ہے۔ یہ بصیرت اپنی اساس توحید میں رکھتی ہے۔ جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو واحد صداقت جانتی ہے۔

ترجمہ:کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) اللہ(ایک) ہے۔(وہ) معبود برحق جو بے نیاز ہے۔ نہ کسی کا باپ ہے۔اور نہ کسی کا بیٹا۔ اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔(ق:الاخلاص)

کسی بھی دوسرے اسلامی نظریہ کی طرح، اس پر بھی عمل پیرا ہونا ضروری ہے۔ ایک ایسے انسان جس نے اسلام،یعنی انانیت سے دستبرداری حاصل کرلی ہے، اسے خدا کے سوا کوئی منزل یا مقصد نہیں رکھنا چاہیے۔

کوئی بھی شے جو خود اپنا مقصد آپ ہو۔ یا جس کو خدا سے الگ کرکے دیکھا جاتا ہے۔ ایک بتی ہے، ایک جھوٹا خدا ہے۔بسطامی جیسے صوفی کیلئے توحید کا مطلب یہ تھا کہ انہوں نے مشق کرلی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کی حقیقت کو تسلیم نہ کرے۔ یہاں تک کہ وہ اس حد تک آگئے کہ ان کا اپنا وجود بھی واحد حقیقت میں گم ہوگیا۔

قرآن حکیم کا ارشاد ہے کہ:اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنا خلیفہ قرار دیا(ق:البقرۃ۔30)۔یہی وجہ ہے کہ اس نے ملائکہ کو حکم دیا کہ پہلے انسان کے سامنے سجدہ ریز ہوں اور اس کی عبادت کریں۔ ہر انسان کے اندر یہ پوشیدہ صلاحیت ہے کہ وہ مشیت ایزدی کا ایک زندہ سانس لیتا ہوا آئینہ بن جائے، اس لیے ہمیں ہر انسان کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔

توحید نے مسلمانوں کے تصور علم کو بہت متاثر کیا ہے۔ ابو حامد غزالی(1058ء تا1111ء) کے لئے، جو شریعت و طریقت دونوں کے ماہر تھے، مدرسہ اور خانقاہ دونوں ہی ان کے گھر تھے۔ علم کا مقام قلب تھا۔ یعنی وہ روح جو اللہ تعالیٰ نے آدم کے ہیولے میں پھونکی(ق:الحجر۔29)۔

اس نے ہی انسانوں کو اس قابل بنایا کہ اصل حقیقت کو تمام مخلوقات میں دیکھ سکیں، اللہ تعالیٰ کی آیات میں۔ فطرت میں اور دوسرے مردوں اور عورتوں میں۔ مگر جدید سائنسی علوم کے برخلاف، یہ صرف معلومات حاصل کرنے کا ہی کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ یہ روحانی مشقوں کا متقاضی ہے جو قلب کو تعلیم دے سکیں، اور اسے اس انانیت سے آزاد کروائیں جو ہماری بصیرت کو منحرف کرتی ہو۔ اس طرح سے’’جاننے‘‘ کا مفہوم جو ابن العربی نے بتایا ہے وہ ہے’’ذکر‘‘۔ یاد کرنا۔ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ کر اسے یاد کرنا۔قرآن حکیم کا ارشاد ہے:

ترجمہ:تو جدھر تم رخ کرو ادھر خدا کی ذات ہے۔(ق:البقرۃ۔115)

وجہُ اللہ تعالیٰ کو دیکھنے سے معذور ہونا عالم جہالت ہے، اللہ تعالیٰ کے عرفان کا غیاب، سب سے بنیادی گناہ ہے۔

انیسویں صدی تک، جب مسلمان بھی مغرب کے جدید سائنسی طریقوں سے متاثر ہونا شروع ہوگئے تھے، یہ تصور علم اسلامی دنیا پر حاوی تھا۔ یہ بات مذہبی،ذہنی اور سیاسی فکر کے مرکز میں تھے۔ ہم سبھی کو سائنسی معلومات کی ضرورت ہے مگر اس کے ذریعے ہم اس صداقت تک نہیں پہنچ سکتے جسے ہم اللہ تعالیٰ کہہ کر پکارتے ہیں، اور جو ان روحانی مشقوں کا متقاضی ہے جن کا ہم نے تذکرہ کیا ہے۔ سب سے زیادہ یہ انسانوں میں الوہی جہت کی یاد دہانی چاہتا ہے۔ ایک ایسی نظر پیدا کرنا چاہتا ہے جس کے بعد دوسروں پر طنز و استہزا ناممکن ہو جائے۔ یہ بھی ناممکن ہو جائے کہ ایسے علم کا استحصال مادی مقاصد کیلئے ہوسکے، یا کسی کے رسم و رواج و عقائد کا مذاق اڑایا جاسکے۔ یہ ہمیں ان کی فلاح کی نسبت خصوصی سرعت کے ساتھ بتاتا ہے، اور یہ ایک ایسا علم ہے جو اس بات کو بالکل ناممکن بناتا ہے کہ ہم مخلوق کو قتل کریں، انہیں دہشت میں رکھیں یا کسی طور بھی زخمی کریں۔

آٹھواں قدم:ہم ایک دوسرے سے کس انداز میں گفتگو کریں؟

مکالمہ ہمارے یہاں ایک لفظ ہے جو سکہ کی طرح رائج ہے۔ یہ وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا تصور ہے، کہ اگر لوگ مکالمے پر راضی ہو جائیں تو امن قائم ہو جائے۔ مگر ہمارے اردگرد حقیقی مکالمہ بہت کم ہے۔ ہمارا کلام جارحیت سے بھرپور ہے۔ یہ ایک روایت ہے جو ہم مغربیوں کو یونانیوں سے ورثہ میں ملی ہے۔قدیم ایتھنز کی جمہوری مجالس میں، شہریوں نے مباحثہ میں شرکت کا گُر سیکھ لیا تھا، وہ اپنے مخالفین کے خلاف اپنے مقدمات کو منطقی طور پر پیش کرتے تھے، اس اثر کے ساتھ کہ وہ بحث جیت جائیں، اور مخالفین کو جھٹلائیں، ان کے اعتبار کو نقصان پہنچائیں اور ان مخالفین کی حکمت عملی کو کنارے لگا دیں۔ مگر سقراط نے مکالمہ کی جو طرز ایجاد کی تھی وہ بالکل مختلف تھی۔ کیونکہ ایک سقراطی مکالمے کا نتیجہ یہ ہوتا تھا، کہ ہر شریک مکالمہ اپنے جہل کا قائل ہو جاتا تھا، اور کوئی بھی ایسا طریقہ نہیں تھا کہ کوئی جیت سکتا۔ اس مکالمے کی غایت یہ تھی کہ شرکاء میں ایک عمیق تغیر۔ نفسیاتی تغیر آئے، اور سقراط کے مطابق، یہ ممکن نہ ہوتا، جب تک یہ ایک’’نرم خو لہجے میں ہوتا‘‘ جو’’بحث کے آداب‘‘ کے مطابق ہوتا۔ سقراط کے سب سے ذہین شاگرد افلاطون نے نشاندہی کی کہ جب تک گفتگو ایمان دارانہ اور عناد سے پاک نہ ہو، تب تک مباحثہ کارآمد نہیں ہوسکتا۔ کسی کو بھی ایسی جگہ دھنسانا درست نہیں جب وہ بے آرامی محسوس کرے۔ ہر شریک گفتگو کو دوسرے کی رائے ہمدردی سے سننی چاہیے، اور سامنے والے کو موقع دینا چاہیے کہ وہ خود اپنے مسلمات کو زیر و زبر کرسکیں، اور اسے اجازت دیں کہ وہ اپنے طور پر اپنے ذہن کو تبدیل کرسکے۔

آج کل ہمارے یہاں ایسے مکالمات نہیں ہوتے ہیں۔ ہمارے پارلیمانی اداروں میں، ذرائع ابلاغ میں، میدان سیاست میں، کچہریوں میں ہونے والے مکالمے اسیاسی طور پر مسابقت کیلئے ہوتے ہیں۔ صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہم سچ کو تلاش کریں، بلکہ ہمیں اپنے مخالفین کو شکست دے کر ان کی توہین بھی کرنی چاہیے۔ ایسا مکالمہ انانیت کی نمائش ہے۔ کوئی بھی یہ قبول نہیں کرنا چاہتا کہ وہ جواب نہیں جانتا/جانتی یا اپنے موقف کی صداقت کے بارے میں اسے شکوک ہیں، اور یہ رویہ ایسے سوالات کے پیش نظر بھی برقرار رہتا ہے کہ جن کے جوابات آسان نہیں ہیں۔ ہم انتہائی باتونی ہیں۔ مگر ہمارے سننے کی صلاحیت کم ہے۔ ایک پینل مباحثہ کے دوران یہ بات اکثر واضح ہو جاتی ہے کہ شرکاء اپنے مخالفین کی باتیں توجہ کے ساتھ نہیں سن رہے ہیں بلکہ صرف اپنے مخالفین کے جملوں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا طریقہ سوچ رہے ہیں، تاکہ ایک شاندار اگلا جملہ ذہن میں تیار کرسکیں۔ یہ رویہ بحث کی سوچ آگے بڑھانے کے بجائے اس میں رخنہ ڈال سکتا ہے،بالخصوص جب ایسا موضوع زیر بحث ہو جو پہلے ہی بہت تلخی رکھتا ہے، اور جس کے متعلق لوگوں کے موقف سختی سے جمے ہوئے ہیں۔ یہ مکالمہ اس وقت تلخ ہوسکتا ہے، جب لوگ قولِ خالق کی ترجمانی کے دعویدار ہوں۔

حضرت محمدﷺ کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ کلام اللہ کو اپنی اس پرتشدد اور پریشان حال دنیا میں ادا کرنا کتنا مشکل اور کسی کو توجہ سے سننا کتنا اہم ہے۔ ان کا ارشاد ہے:

ایک بار بھی میں نے نزول کو قبول نہیں کیا سوائے اس کے، کہ میں نے محسوس کیا کہ میری روح مجھ سے چھین لی گئی ہے۔

کبھی کبھی زبانی کلام بہت واضح ہوتا تھا، رسول پاکﷺ جبریل ؑ کو انسانی صورت میں دیکھتے ہیں اور ان کے الفاظ سنتے تھے۔مگر دوسرے مواقع پر پیغام زیادہ مبہم ہوتا تھا۔

کبھی کبھی وحی مجھ پر سلسلۃ الجرس کی طرح نازل ہوتی ہے اور اس کی گونج اس وقت کم ہو تی ہے جب میں پیغام سے اچھی طرح آگاہ ہو جاتا ہوں۔

ان کے ابتدائی سیرت نگار بتاتے ہیں کہ وہ اندرونی نظر کرتے، کسی مسئلہ کا حل اپنی روح میں تلاش کرتے تھے۔ ان کا روئے مبارک مدھم پڑ جاتا اور وہ ایک سرد دن میں بھی پسینہ پسینہ ہو جاتے۔ قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو ہدایت کی کہ وہ آنے والے پیغام کو بہت احتیاط سے ملاحظہ کریں، اور اسے الفاظ میں بیان کرنے میں تعجیل نہ کریں، جب تک اس کا پورا مطلب ان پر واضح نہ ہو جائے:

ترجمہ:اور(اے محمدﷺ) وحی کے پڑھنے کیلئے اپنی زبان نہ چلایاکرو اس کو جلد یاد کرلو۔اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمے ہے۔ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم(اس کو سنا کرو اور)پھر اسی طرح پڑھا کرو۔ پھر اس(کے معانی) کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔(ق:القیٰمۃ۔16تا19)

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ سے یہ بھی کہا:

ترجمہ:اور قرآن کی وحی جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے قرآن کے(پڑھنے کے) لیے جلدی نہ کیا کرو۔(ق:طہٰ۔114)

اس آیت کی بنیاد پر روایتی مفسرین نے مسلمانوں کو جلدی جلدی قرأت کرنے سے روکا ہے، جو الگ الگ آیات سے جلدی میں پورے سیاق و سباق کو دھیان میں لائے بغیر نتائج اخذ کرلیتے ہیں۔ یہ ایک تنبیہ ہے جسے آج ہمارے لیے یاد رکھنا ضروری ہے۔ اپنی رائے کے قیام میں جلدی کرنے سے روکنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان توجہ سے سننے کی تربیت حاصل کرگئے۔قرآن حکیم کی آواز،اس کے مفہوم کا اہم حصہ ہے۔موضوعات،فقرے اور صوتی سانچے متن میں بار بار دہرائے جاتے ہیں، جیسے ایک آہنگ کے مختلف اوزان، جو مقدس کتاب کے علیٰحدہ حصوں کو یک جا کرتے ہیں تاکہ سالہا سال تک قاری کے ذہن میں ایک وحدت قائم رہ جائے۔

ہم نے دیکھا ہے کہ قرن اولیٰ کے مسلمانوں کیلئے حلم کی صفت کتنی اہم تھی۔ تشدد آمیز کلام کافروں کی خاصیت تھی۔ ابتدائی سیرت نگار یہ بات محفوظ رکھتے ہیں کہ کس دھماکا خیز اشتعال کے ساتھ کفار ختمی مرتبتﷺ پر حملہ آور ہوتے تھے، یہ اشتعال جاہلیہ کے دبے ہوئے تشدد سے پھوٹا تھا۔ ایک دن ابو جہل جو قریشی مخالفین اسلام کا قائد تھا، رسول اللہﷺ کے پاس اس وقت آیا جب وہ باب صفا پر بیٹھے ہوئے تھے، جو حج کا ایک اہم مقام ہے، اور بدکلامی کرنے لگا۔ مگرحضرت محمدﷺ نے جواب دینے سے انکار کیا اور اطمینان سے اس کی ہرزہ سرائی سنتے رہے، جب تک کہ وہ خاموش نہیں ہوگیا۔ پھر وہ افسردہ حالت میں خاموشی سے گھر چلے گئے۔ ایک دوسرے موقع پر انہوں نے کافروں کو اجازت دی کہ انہیں دھکا دیں، اور اپنے دفاع میں انہوں نے ایک انگلی بھی نہیں اٹھائی، جب تک کہ حضرت ابو بکرؓ نے مداخلت نہیں کی۔

قرآن حکیم میں واضح طور پر بتایا گیاکہ کافر کس طرح سے تنازع اور تصادم کو ابھارا کرتے تھے(ق:الانبیآ۔2تا3، الکھف۔57، الجمعۃ۔5)۔ وہ پیہم بحث اور مجادلہ کرتے ہیں(ق:الانعام۔68) اور قرآنی احکامات پر استہزا کرنے میں لطف حاصل کرتے ہیں(ق:الانشقاق۔19تا25، الصفت۔35تا36)۔ مسلمانوں کو جداگانہ طرز عمل اختیار کرنا ہوگا۔

ترجمہ:اور(ازراہِ غرو) لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا۔ کہ خدا کسی اِترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا۔ اور اپنی چال میں اعتدال کیے رہنا اور (بولتے وقت) آواز نیچی رکھنا کیونکہ(اونچی آواز گدھوں کی ہے اور کچھ شک نہیں کہ) سب آوازوں سے بری آواز گدھوں کی ہے۔(ق:لقمٰن۔18تا19)

صدیوں سے پالی ہوئی عربوں کی جاہلی خصلت کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلمانوں کو اس انانیت سے مقابلہ کرنا ہوگااور اس کیلئے صلوٰۃ کا ضابطہ اختیار کرنا ہوگا اور توہین کا جواب غصے سے دینے سے انکار کرنا ہوگا۔

ترجمہ:بیٹا نماز کی پابندی رکھنا اور(لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا امر اور بری باتوں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تجھ پر واقع ہو اس پر صبر کرنا۔(ق: لقمٰن۔17)

یہ نفی خودی امت مسلمہ کے ابتدائی دور میں ایک قیمتی قدر ہوتی ہوگی۔

ترجمہ:اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے(جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں۔ اور جو اپنے پروردگار کے آگے سجدہ کرکے اور(عجز و ادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں۔اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بے ہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں۔(ق:الفرقان۔63تا67،72)

یہ منکسر اور صابرانہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان اپنے نفس کے اسیر نہیں رہے تھے۔انانیت سے دست بردار ہونے سے،وہ ہلکے سے اکسانے پر مشتعل ہونے میں آزاد ہوگئے تھے۔

یقیناًبعض اوقات ہمیں گناہ،ناانصافی یا تعصب کے خلاف جم جانے اور گواہی دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیسے جیسے ہم اپنے رحم پرور ذہن کی تربیت کریں گے ہمیں دوسروں کی تکلیف کیلئے احساس ذمہ داری کو زیادہ محسوس کرنا ہوگا، اور تہیہ کرنا ہوگا کہ ان کی امداد کیلئے جو بھی ہمارے بس میں ہے، کر گزریں۔

مگر ناانصافی کا مقابلہ نفرت اور اہانت سے کرنا مفید نہ ہوگا، کہ اس سے مخالفت مزید بڑھے گی اور حالات مزیدبدتر ہو جائیں گے۔ قرآن حکیم میں یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں اور دوسرے اہل کتاب میں وقت طلب امور حائل ہو جائیں گے، مگر قرآن حکیم اس بات پر اصرار کرتا ہے کہ ایسی گفت و شنید کو ہمیشہ دائرہ ادب میں ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کو ان امور پر زور دینا چاہیے جو ان کے اور دیگر مذہبی روایات کے درمیان مشترک ہیں۔

ترجمہ:اور اہل کتاب سے جھگڑا نہ کرو مگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہو۔ہاں جو ان میں سے بے انصافی کریں(ان کے ساتھ اسی طرح مجادلہ کرو) اور کہہ دو کہ جو(کتاب) ہم پر اتری اور جو(کتابیں)تم پر اتریں ہم سب پر ایمان رکھتے ہیں اور ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہی ہے اور ہم اسی کے فرمانبردار ہیں۔(ق: العنکبوت۔46)

اس قدم کے دوران، ہمیں یہ دھیان رکھنا ہوگا کہ ہم دوسروں سے کس طرح بات کرتے ہیں۔ جب تم بحث کرتے ہو، تو کیا اپنی ذہانت کی رو میں بہہ جاتے ہو اور اپنے مخالف کی توہین کرتے ہو؟کیا تم ذاتی امور پر اتر آتے ہو؟جو نکات تم اٹھاتے ہو، وہ تفہیم میں معاون ہوتے ہیں،یا ایک خراب صورتحال کو بدتر بنا دیتے ہیں؟ کیا تم واقعی کشادہ قلبی سے سن رہے ہو؟ کسی بحث کے بعد اپناPost-mortem کریں۔ بحث کی شدت میں تم جو کہتے گئے تھے کیا تم اس کی سند فراہم کرسکتے ہو؟ کیا تم واقعی جانتے تھے کہ تم کیا کہہ رہے تھے؟ اور کسی گفتگو یا بحث کا آغاز کرنے سے پہلے ایمانداری کے ساتھ اپنے آپ سے سوال کرو، کہ کیا تم اپنی رائے بدلنے کیلئے تیار ہو؟ اپنے سیاسی اور مذہبی قائدین کی تقریر کو دھیان سے سنیں اور توجہ دیں کہ کہیں وہ جاہلیہ کا ارتکاب تو نہیں کررہے؟ کیا نرم اندازِ گفتگو امن عالم کیلئے زیادہ مفید نہ ہوگا؟

نواں قدم:سب کے لئے فکر مندی

تمام مذہبی روایات اصرار کرتی ہیں کہ ہم اپنے گروہ سے باہر ایک غیر ملکی یا اجنبی تک سے درد مندی کا برتاؤ کریں۔مسلمان اپنی کتاب مقدس کے اعتبار سے خوش قسمت ہیں، کیونکہ قرآن حکیم اس اعتبار سے منفرد ہے کہ وہ دوسری اقوام اور دوسری روایات کو بھی مثبت انداز سے دیکھتا ہے۔تورات و انجیل میں قرآن حکیم جیسی وسعت نہیں ملتی۔ اس اعتبار سے قرآن حکیم ہمارے عالمی معاشرے سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے، جہاں،ہم پسند کریں یا نہ کریں، ہمیں اس سیارے پر آباد دوسروں کو بھی برتری کی بنیاد نہیں بلکہ مساوات کی بنیاد پر شریک کرنا ہوگا۔ قرآن حکیم قراردیتا ہے کہ روئے زمیں پر آباد ہر قوم نے الوہی ہدایت پائی ہے(ق:الخل۔36)۔ اور اس کا اظہاراپنے ثقافتی محاورے میں کیا ہے۔ ہم نے ابھی دیکھا ہے کہ مسلمانوں کو حکم ہے کہ وہ یہودیوں، عیسائیوں اور دوسرے اہل کتاب سے مشفقانہ انداز میں گفتگو کریں، کیوں کہ وہ ایک ہی خدا کی پرستش کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ یہ واضح کرتا ہے کہ مسلمانوں کو ہر تحفظ سے مبرا ہو کر اللہ تعالیٰ کے ہر رسول کو ماننا ہے۔

ترجمہ:کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے اور جو کتاب ہم پر نازل ہوئی اور جو صحیفے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر اترے۔ اور جو کتابیں موسیٰ اور عیسیٰ اور دوسرے انبیاء کو پروردگار کی طرف سے ملیں سب پر ایمان لائے۔ ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی(خدائے واحد) کے فرمانبردار ہیں۔(ق:اٰل عمران۔84)

یہ قرآنی عبارات میں سے پہلی عبارت ہے جو لفظ’’اسلام‘‘ اور’’مسلم‘‘ پر زور دیتی ہے جو ظاہر ہے کہ’’اسلمہ‘‘ کے مصدر سے مشتق ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اپنے آپ کو کسی دوسرے کی مرضی کے آگے جھکا دینا۔ آیت آگے جاتی ہے۔

ترجمہ:اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔ (ق:اٰل عمران۔85)

اللہ تعالیٰ نے رسول پاکﷺ سے کہا:

ترجمہ:اور اگر خدا چاہتا تو سب کو ایک ہی شریعت پر کردیتا مگر جو حکم اس نے تم کو دیے ہیں ان میں وہ تمہاری آزمائش کرنا چاہتا ہے سو نیک کاموں میں جلدی کرو، تم سب کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔پھر جن باتوں میں تم کو اختلاف تھا وہ تم کو بتا دے۔(ق:المآئدۃ۔48)

ہم سب یہ محسوس کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری ثقافتی،سیاسی اور مذہبی روایات سب سے بہتر ہیں، مگر یہ اجتماعی انانیت کی ایک صورت ہے۔ اگر ہمارے اندر مسابقت کا احساس ہے،تو یہ بہتر ہوگا کہ ہم دنیا میں نیک اعمال اداکرنے میں سب سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ پھر قرآن حکیم بھی عمل کی اہمیت پر اصرار کرتا ہے، نہ کہ عقائد کی پابندی پر، یعنی رحمت کے دامن میں دوسروں کو سمیٹنا نہ کہ نکال پھینکنا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حکیم،اللہ تعالیٰ کو کسی ایک مذہب روایت سے مخصوص نہیں کرتا، بلکہ اللہ تعالیٰ کو تمام علوم انسانی کا سرچشمہ قرار دیتا ہے۔ یہ روشنی کسی خاص فرد یا معاشرہ تک محدود نہیں ہے بلکہ تمام کائنات کو منور کرتی ہے۔

ترجمہ:خدا آسمانوں اور زمین کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ ہے،اور چراغ ایک قندیل میں ہے۔ اور قندیل(ایسی صاف شفاف ہے کہ) گویا موتی کا سا چمکتا ہوا تارا ہے،اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے(یعنی) زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف،(ایسا معلوم ہوتا ہے کہ) کہ اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے(پڑی) روشنی پر روشنی(ہورہی ہے)۔(ق:النور۔35)

اگر ہم ایک عالمی معاشرہ تخلیق کرنے جارہے ہیں تو ہمیں دوسروں کی مقدس روایات کی تخفیف سے گریز کرنا ہوگا۔ ہمیں دوسرے ادیان کو نہ صرف برداشت کرنا ہوگا بلکہ ان کو سمجھنا بھی ہوگا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ مسلمان اپنے دین کو تحلیل کردیں بلکہ انہیں اسلام سے اپنی وابستگی کو شدید ترکرنا ہوگا،یہ تسلیم کرتے ہوئے، جیسا کہ قرآن حکیم بہت تاکیداً کہتا ہے کہ:مذہبی تنوع اللہ تعالیٰ کی منشا ہے۔ یہ بذات خود اسلام کا ایک عمل ہے، اس انانیت سے دستبردار ہونا جو ہر نعمت کو اپنے تک محدود رکھنا چاہتی ہے اور اپنے آپ ہی کو چنندہ سمجھنا۔قرآن حکیم کے مطابق یہ تو کافرین ہیں جو اپنی’’سنت‘‘ کو داخلی طور پر کسی اور’’سنت‘‘ سے برتر جانتے تھے، اور کسی نئی چیز کو گوارا نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ مختلف رویہ اپنائیں۔

اس کا اطلاق،سیاسی طور پر بھی ہوتا ہے۔ حضرت محمدﷺ میں اعلیٰ درجے کی سیاسی ذہانت تھی اور ان کی ایک کامیابی یہ تھی کہ وہ عربوں کو جاہلیہ کی اس جارحیت سے ماورا لے گئے تھے جو ملک عرب کو تقسیم کررہی تھی۔قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ انسانیت سے مخاطب ہے:

ترجمہ:لوگو!ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے۔ تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو۔(ق:الحجر ٰت۔13)

پیغمبر اسلام ﷺ نے عصبیت،قبائلی اور قومی غرور کو سخت ترین لہجہ میں مسترد کیا ہے۔

جو عصبیت کا پرچار کرے،وہ ہم میں سے نہیں، وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی جنگ لڑے، اور وہ ہم میں سے نہیں ہے جو عصبیت کی خاطر جان دے دے۔

اس قسم کی قبائلیت،قبل اسلام عرب میں ایک پرتشدد اور مشتعل جذبہ تھا، اس کا مطلب تھا کہ اپنے لیے اپنے لوگوں کیلئے ایک سلگتی ہوئی محبت اور اس کی اطاعت جبکہ غیر کیلئے توہین کی تلخی۔ صحرائی عرب’’ظالم‘‘ سے نفرت کرتے تھے یعنی’’ بیرونی‘‘وہی لفظ جس کے معنی’’پست،بدخصلت اور بد‘‘ کے ہیں۔ یہ ایک اشرافی رویہ تھا قریش کے بزرگوں کی مانند، جو کمتر اور معاشی طور پر پست لوگوں کیلئے صرف حقارت اور نفرت محسوس کرتے تھے۔ اسلام نے نہ صرف اس غرور اور خود سری کا مقابلہ کشادہ قلبی سے کیا بلکہ احساس مساوات پر بھی بہت زور دیا۔

یقیناًعصبیت،ایام جاہلیہ کے عرب تک محدود ہی نہیں۔آج کل بھی یہ ہمارے اردگرد،مشرق و مغرب،شمال و جنوب میں پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے قومی مفاد کو ایک مستقل قدر جان لیں، اپنے طرز حیات کو سب سے برتر مان لیں اور غیر ملکیوں اور اجنبیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھیں، اور ان کے بہتر مفاد سے غفلت برتیں تو وہ عالمی معاشرت جو ہم نے بنائی ہے،باقی نہیں رہے گی۔ عالمی جنگوں،نسل کشی اور گزشتہ سو برسوں میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد، اب قبیلے یا ملک کا مقصد جنگ کرنا، تسلط قائم کرنا، استحصال کرنا، فتح کرنا، نو آبادیاتی نظام قائم کرنا، قبضہ کرنا، جبراً رقیبوں کو عقیدہ تبدیل کرنے پر مجبور کرنا یا انہیں دہشت زدہ کرنا نہیں ہو سکتا۔ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کو جانیں، اور اس عالمی بستی میں اپنے تمام ہمسایوں کی پروا کرنا سیکھیں۔

اپنی قبائلی عصبیت کو پیچھے چھوڑ دینا بھی اسلام کا ایک عمل ہے۔ اس کا حسین ترین اظہار واقعہ معراج میں ہے، جو بیت المقدس سے سدرۃ المنتہیٰ تک کے سفر پر مشتمل ہے۔ یہ مسلم روحانیت کا نمونہ ہے، یہ اس جذبہ تسلیم کی مثال ہے جو ہمیں خدا کی طرف لوٹتے وقت اپنانا ہوگا۔اولین سیرت نگاروں نے اس واقعہ کو ہجرت سے قبل کا واقعہ قرار دیا اور اس طرح واقعہ کی گہری تر اہمیت پر روشنی ڈالی ہے۔ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کوئی معمولی نقل مکانی نہیں تھی۔ اپنے قبیلے کو چھوڑ کر ان لوگوں کے درمیان مستقل سکونت اختیار کرنا جو رشتہ دار نہ ہوں، جاہلی عرب کے نقطہ نظر سے بے حرمتی تھی۔ خونی رشتہ اس زمانے کا سب سے مقدس رشتہ سمجھا جاتا تھا۔ لفظ’’ہجرہ‘‘ بذات خود جدائی کے اس دکھ کو پیش کرتا ہے۔ اس کی جڑ’’ہجر‘‘ کا مطلب ہے کہ’’اس نے اپنے آپ کو دوستانہ یا مشفقانہ مواصلات سے کاٹ لیا ہے۔ اس نے ان سے میل جول ختم کردیا ہے۔‘‘

حضرت محمدﷺ کی معراج اس طریق کو بالکل بدل دینے والا عمل ہے۔ قبیلے تک واپس لوٹنے کے بجائے یہ سفر دور دراز بیت المقدس تک لے جایا جاتا ہے، جو یہودیوں اور عیسائیوں کا شہر ہے۔ جنگ اور نفرت کی توصیف کے بجائے یہ ایک ایسی ہم آہنگی کی کہانی ہے جو قبیلے کی محبت سے ماورا ہے۔جب حضرت محمدﷺ اور حضرت جبریل ؑ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی پر پہنچتے ہیں تو گزشتہ ادوار کے تمام انبیاء ان کا استقبال کرتے ہیں، وہ انہیں خانوادہ حضرت ابراہیم ؑ میں آنے کی دعوت دیتے ہیں اور انہیں دعوت دیتے ہیں کہ انہیں ہدایت کریں۔ اس خطبے کے بعد حضرت محمدﷺسات آسمانوں سے گزرتے اور انبیائے اولیٰ العزم ؑ سے ملاقات و گفتگو کرتے ہیں۔ حضرت آدم ؑ ، حضرت عیسیٰ ؑ ، حضرت زکریا ؑ ، حضرت یوسف ؑ ، حضرت ادریس ؑ ، حضرت موسیٰ ؑ ، حضرت ہارون ؑ اور حضرت ابراہیم ؑ ، آپﷺ کا بھائیوں کی طرح استقبال کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ تو انہیں مسلم طرز عبادت کے بارے میں مشورہ بھی دیتے ہیں۔انبیاء ایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں، اجتماعی عبادت کرتے ہیں اور اپنی اپنی بصیرت میں ایک دوسرے کو شریک کرتے ہیں۔ یہ اجتماعیت کا ایک قصہ ہے جو قبائلی عصبیت سے دستبردار ہونے کی بہترین مثال ہے۔ جب حضرت محمدﷺ قاب قوسین تک پہنچتے ہیں، تو اس کے آگے ہم کچھ سن نہیں پاتے۔

ایک بار جب ایک مسلمان نے اپنے قلب کو،جو سچے اسلامی علم کا مخزن ہے، تعلیم دے دی تووہ محبت اور رحم سے ہدایت پاتا ہے کہ اپنے مذہبی مناسک میں دوسروں کیلئے بھی جگہ بنائے۔

دسواں قدم:علم

یہی وہ وقت ہے کہ ہم اس قرآنی حکم کی تعمیل کریں کہ،’’ہم ایک دوسرے سے واقف ہو جائیں۔‘‘ کچھ وجوہات کی بناء پر یہ آج سے پہلے اتنا زیادہ آسان نہیں تھا۔ ابلاغ عامہ کا شکریہ کہ آج ہم کمپیوٹر ماؤس کی ایک’’کلک‘‘ پر دنیا کے کسی بھی خطے کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ مگر، یہ کس قسم کا علم ہے؟ اس کا بیشتر حصہ، جیسا کہ ہم جانتے ہیں، غیر معتبر ہے۔ٹیلی وژن کی خبروں میں ہمیں دنیا کے دور دراز علاقوں کے بارے میں چند ریکارڈ شدہ بیانات کے پھڑکتے ہوئے ٹکڑے دکھائے جاتے ہیں، جو ٹیلی کاسٹر کے منتخب کردہ ہوتے ہیں۔ اس کا بیشتر حصہ تعصب پر مبنی اور غلط ہوتا ہے۔ ایسی کوریج میں گہرائی کا فقدان ہوتا ہے، معلومات اور آرا کے اس جم غفیر سے نکلنے کیلئے ہمارے پاس رہنمائی کیلئے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انٹرنیٹ سے ہی ،ہم اپنے عالمی ہمسائیوں کے بارے میں،ناقص معلومات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

مغرب میں رہنے والے لوگ حیران ہوجاتے ہیں، جب میں انہیں بتاتی ہوں کہ پاکستان کے لوگ کتنے معقول،کشادہ دل اور مہذب ہیں۔ کیونکہ وہ صرف باریش طالبان،بندوقوں،بموں اور پہاڑی غاروں کی ہی تصاویردیکھتے ہیں۔لیکن ہم سب ایک دوسرے کے بارے میں ایسی ہی خاص طور سے من گھڑت معلومات دیکھتے ہیں۔

ساتویں قدم کے دوران ہم نے حقائق و شماریات کے بارے میں ایسی معلومات اور اسلامی معلومات کا فرق دیکھا تھا۔ ہمیں ذہن کے ساتھ ساتھ دل کو بھی تعلیم دینا ضروری ہے اور اپنی ہمدردی کے حلقوں میں ان لوگوں کو بھی شامل کرنا ہے جو شروع میں ہمیں بیگانہ نظر آتے ہیں۔ ہمیں سرخیوں سے پرے جا کر، میڈیا میں دکھائی گئی ان مخالفتوں میں درپیش اذیت اور دکھ کو جاننا ہوگا۔ ہمیں اپنے آپ کو دوسروں کی جگہ رکھ کر سوچنا ہوگا اور یہ عمل اسلام کی تعلیم کردہ مشق ہے۔ یعنی اپنی انانیت سے، جو یہ کہتی ہے کہ دوسروں کے مسائل اور تکالیف کا ہم سے واسطہ نہیں، خود کو دور کرلیں۔ ہمیں اپنی ودیعت کردہ ثقافت سے آگے جاکر دیکھنا ہوگا، ان تصورات سے پرے جنہیں ہم نے بچپن میں سیکھا اور بلاچون و چرا تسلیم کرتے گئے۔ جیسا کہ سید حسین نصرIslam and the Plight of Modern Man میں سمجھاتے ہیں:

دنیا کی حقیقی اصلاح اپنی اصلاح سے شروع ہوتی ہے۔جس نے اپنے آپ کو فتح کیا اس نے عالم کو فتح کیا۔ اور وہ شخص جس کے اندر اصول اسلام نے اپنے پورے مفہوم میں تجدید پائی ہے، وہ اسلام کی نشاۃ الثانیہ کی طرف پہلاقدم اٹھا چکا ہے۔ صرف وہ، جس کی حق میں نمودنو ہوئی ہو، وہ اردگرد کے عالم میں نمود نو اور بہار لاسکتا ہے۔

ایک دوسرے کے بارے میں جاننا ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم اپنے تعصبات، غیر مصدقہ تصورات اور دوسری ثقافتوں،مذاہب اور اقوام کے بارے میں اپنے تصورات کی اصلاح کریں اور یہ مشکل ہوسکتا ہے، کیونکہ دوسروں کے بارے میں ہماری آرا ہمارے اپنے تشخص سے منسلک ہیں۔

مگر یہ روحانی طور پر فائدہ مند عمل ہوسکتا ہے۔ اپنے دوران کار کے آغاز میں، میں عظیم عالم اسلام لوئی ماسنیوں کے’’علم رحمانیت‘‘ کے زیر اثر تھی، اور جس سے مذہب کے بارے میں میری تفہیم یکسر بدل گئی۔ ماسنیوں نے’’سائنس‘‘ کا لفط طبیعات،کیمیا یا حیاتیات کے مفہوم میں استعمال نہیں کیا تھا۔ اس نے یہ لفظ اپنے ابتدائی معنی میں استعمال کیا تھا یعنی’’علم‘‘(لاطینی لفظscientiaسے)۔ یہ اس نوع کا علم تھا جو اس طرح حاصل کیا جاتا تھا کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ ہم احساس ہو جائیں جو بظاہر بے گانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذہب کے ایک مورخ کو عالمانہ، مگر تصورانہ طور پر ماضی کے مذہبی اعمال میں داخل ہونا ہوگا۔ ان میں سے کچھ آج کل کے لوگوں کو بہت عجیب معلوم ہوں گے، اس لیے مورخ کو اپنے جدید مفروضوں سے خود کو خالی کرنا ہوگا، اور تند ہی کے ساتھ ایک ایسے نقطہ نگاہ میں داخل ہونا ہوگا، جو اس کی دنیا سے بالکل مختلف ہے۔ اگر وہ کسی مشکل چیز تک پہنچ کرٹھوکر کھاتا ہے، تو پھر بھی اسے یہ سوال’’مگر کیوں‘‘ جاری رکھنا ہوگا، یہاں تک کہ وہ اپنی فہم کو اس حد تک لے جائے جہاں وہ انسانی طور پر گرفت کرسکے کہ ایک پائے گئے موقف کا کیا مطلب ہے، اور پھرسیاق و سباق کی اس نئی تفہیم کے بعد اپنے آپ کو بھی وہی کام کرتاہوا محسوس کرکے۔ وہ اپنی چشم تنگ کو اس طرح وا کرے اس میں دوسروں کیلئے بھی جگہ پیدا ہوسکے۔یہ ہمدردانہ طریقے سے خود کو دوسروں کی جگہ رکھ کر سوچنے کا عمل ہے۔

ہم اس قدم میں یہی کرنا چاہتے ہیں کہ،اپنے ذہن میں دیگر قبائل و اقوام کیلئے جگہ بنائیں۔ پہلی بات یہ کہ،ہمیں خود سے ابتدا کرنا ہوگی۔ہم اکثراپنی قومی یا مذہبی روایت کے بارے میں ناقص علم رکھتے ہیں۔ جب ہم دوسروں کے اعتقاد یا عمل پر تنقید کرتے ہیں، تو ہمیں یہ عادت بھی اپنانی چاہیے کہ اپنے آپ سے پوچھیں کہ، کیا ہماری قوم یا ہمارے ہم مذہب، حال یا ماضی میں ایسے ہی افعال کے مرتکب ہوئے ہیں؟ ایک جبلّی قبائلی رد عمل جو اپنی قوم یا ملت کے دفاع کیلئے اٹھ کھڑا ہو۔ چاہے حالات کے حق و ناحق معلوم ہوں یا نہیں۔ ہماری اس منقسم دنیا کیلئے بہت خطرناک ہے۔ ہمیں ایک زیادہ غیر جانبدار اور متوازن رویہ اپنانا چاہیے تاکہ ہم عصبیت کی اندھی اطاعت سے آزاد ہوسکیں۔

ہم یکبارگی، عالمی، مذہبی یا ثقافتی تاریخ کے ماہر نہیں بن سکتے، لیکن یہاں ایک مشق ہے، جس کے ذریعے آپ اپنی ہمدردی کا دائرہ وسیع کرسکتے ہیں۔ کسی ایسے ملک یا روایت کا انتخاب کریں جسے آپ پرکشش پائیں یا جس میں آپ کو ہمیشہ دلچسپی رہی ہو، اور اس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ مہینہ میں ایک یا دو بار تاکیداً اس کے بارے میں کوئی مضمون یا کتاب پڑھیں، یا اس کے بارے میں فلم دیکھیں تاکہ وہ آپ کی زندگی میں ہمہ وقت موجود رہے۔

کیا اس میں کوئی ایسی چیز ہے جو آپ کے علم میں اضافہ کرسکتی ہو؟ کیا بعض شعبوں میں یہ لوگ آپ سے بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں؟ آپ کے خیال میں کوئی ایسی چیز ہے جو آپ انہیں بتا سکتے ہیں؟ یہ تفتیش کوئی بیزار کن فرض نہ بنے بلکہ اس کو ایک پرلطف تجربہ ہونا چاہیے۔ جس ملک کا آپ نے انتخاب کیا ہے، اس کی موسیقی سنیں، ان کے پکون آزمائیں یا اس کی قومی ہاکی یا کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کو دیکھتے جائیں۔ اگر آپ نے مطالعے کیلئے کسی دوسری مذہبی روایت کا انتخاب کیا ہے، تو آپ ان کی عبادات میں بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ اگر یہ ممکن ہو تو ان کی مذہبی موسیقی سنیے، ان کی تعطیلات منائیے اور ان کی مذہبی رسومات اور تہواروں کا گہرائی سے مطالعہ کیجیے۔ جب ولفریڈ کینٹویل اسمتھ،تقابلی مذہبیات کے موقر عالم، کینیڈا کے طلبا کو اسلام کے بارے میں پڑھا رہے تھے تو وہ ان طلبا سے رمضان میں روزے رکھواتے، عید منواتے اور پنج وقتہ نماز بھی پابندی سے پڑھواتے تھے حتیٰ کہ نماز فجر بھی۔ یہ سب اس لیے کرواتے تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ کسی اور مذہب کے بارے میں صرف کتابیں پڑھ کر علم حاصل نہیں ہوسکتا۔

جس ملک یا مذہبی روایت کو آپ نے چنا ہے، اس کی تاریخ پر نگاہ ڈالیے۔ خبروں میں دیکھیں کہ اس کا کوئی ذکر ہے؟ اور اپنی نئی معلومات کے مطابق دیکھیں کہ نامہ نگار کس قدر معتبر ہے۔ آپ کو کسی ویب سائٹ سے مدد مل سکتی، مثلاً Search for Common Ground (sfcgupdate@sfcg.com) جو دنیا میں پھیلے مختلف ممالک کے بارے میں مستقل، غیر جانبدار اور تازہ ترین صورتحال مہیا کرتی ہے، یا پھر کسی ایسے رسالے کے خریدار بن جائیں جو بین الاقوامی معاملات سے متعلق ہو ۔اگر آپ اپنی تحقیق کے درمیان کوئی دقت محسوس کریں،تو’’علم رحمانیت‘‘ کو یاد رکھیں اور مسلسل سوال کرتے رہیں’’مگر کیوں؟‘‘ جب آپ سیاق و سباق کو قریب سے دیکھیں گے،تو آپ خود محسوس کریں گے کہ اسے ایک مختلف نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم کبھی کبھی اپنے عزیز ترین دوستوں کے طرز عمل کو سمجھنے سے بھی قاصر ہو جاتے ہیں، مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہم اب ان سے انسیت محسوس نہیں کرتے۔

جیسے جیسے آپ آگے بڑھیں گے، آپ آگاہ ہونے لگیں گے کہ ہر چیز جیسی نظر آتی تھی، اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس مذہبی روایت یا ملک کی کچھ کامیابیاں، قریب سے دیکھنے پر آپ کو اس درجے کی تعریف و توصیف کی حقدار نظر نہ آئیں گی، جتنا کہ پہلے نظر آتی تھیں۔

دوسری جانب اس کی ناکامیوں کے کچھ ایسے اسباب نظر آئیں گے جو پہلے آپ کو نہیں سوجھے تھے، اور آپ کو مائل کریں گے کہ آپ حالات کو مختلف انداز سے دیکھیں۔ جتنا زیادہ آپ اپنے منتخب کردہ مذہب یا ملک کو بہتر طریقے سے جانیں گے، آپ کو احساس ہوگا کہ آپ کے دوستوں کو اس کے بارے میں ایک محدود اور بندھا ٹکا علم ہے۔ جیسا کہ میرے برطانوی دوستوں کا پاکستان کے بارے میں ہے۔ اور آپ چاہیں گے کہ انہیں صحیح صورتحال سے آگاہ کریں۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ اپنی رائے بدلنے میں بہت زیادہ پس و پیش کریں گے، اس لیے کہ ان کی رائے ان کے ذاتی جغرافیہ کا حصہ ہے اور اس رائے کا اثر ان کی خود بینی پر پڑتا ہے۔

ہم نے ساتویں قدم میں جو سیکھا ہے، اسے یاد کریں۔ ہم کیا جانتے ہیں؟ اگر ایک فرد واحد ایک مقدس اسرار ہے، جو ہماری مکمل فہم سے ماورا ہے، تو جانیے کہ ایک پورا ملک یا مذہب کتنے اسرار رکھتا ہوگا! ان کروڑوں لوگوں کے بارے میں سوچیے جو آپ کے منتخب کردہ ملک کے باشندے رہے ہیں یا وہ جو آپ کے چنیدہ مذہب کے پیروکار ہیں۔ ہر ایک کے پاس ذاتی دکھ کی اپنی ایک تاریخ ہے۔ ہر ایک کے پاس بصیرت کا کوئی نہ کوئی لمحہ ہے۔ ان کی سخاوت، رحم دلی اور بہادری کے اقدامات ملاحظہ کریں جو ان اجنبیوں نے انجام دیے ہیں، اور جن اقدامات کے بارے میں بیرونی دنیا کچھ نہیں جانتی۔آخر میں اس صدمے پر نظر ڈالیے جو وہ اپنی پوری تاریخ میں سہتے آئے ہیں۔ آزاد، قدرتی آفات، قتل عام، خانہ جنگی اور ناانصافی۔ اور پھر احساس کریں کہ کوئی بھی انسانی وجود میں مضمر دکھ سے محفوظ نہیں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ وجود اور درد کے اس ربط کو تسلیم کریں، بجائے اس کے، کہ یہ ہمیں تقسیم کرسکے۔

گیارھواں قدم:پہچان

ایک بار جب ہم دوسروں کے دکھ درد کیلئے اپنے دل کے دروازے کھول دیتے ہیں،وہ دوسرے جو کبھی دور اور غیر مانسوس محسوس ہوتے تھے، ہم اپنے ذہن میں ان کیلئے جگہ پیدا کرلیتے ہیں، تو پھر ہماری سمجھ میں یہ بات آتی ہے ہم اپنے آپ کو ایک خصوصی اور الگ زمرے میں نہیں رکھ سکتے۔ سنہری اصول تقاضا کرتا ہے ہم دوسروں سے اپنی مماثلت کو عادتاً یاد رکھیں۔ عادت اتنی پکی ہو کہ یہ فطرت ثانیہ بن جائے۔ بے شک اس میں وقت لگے گا۔ ہم تباہ کاریوں کے ان مناظر کو جو ہر شام یا رات کی خبروں میں ہمارے کمروں میں دکھائی دیتے ہیں، رحم دلی کی تربیت بنا سکتے ہیں۔ کبھی ایک روتی ہوئی بچی یا حیران و پریشان بوڑھے شخص کی تصویر ٹیلی وژن سے لپک کے باہر آجاتی ہے اور ہمارے ذہن سے چپک جاتی ہے۔ اگر کبھی ایسا ہوتا ہے، تو اس چپکی ہوئی تصویر کو پرے نہ کریں، اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ اس کا تعلق آپ کی اپنی زندگی میں کسی گہری دفن شدہ بات سے ہو۔ آپ کسی صورت اسے پہچان رہے ہیں۔ اس تصور کو ذہن میں بار بار دہرائیں۔ اسے موقع دیجیے کہ یہ آپ کے دل میں اپنی ایک جگہ بنا سکے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے دوسروں کو اپنے شعور میں مداخلت کی اجازت دینا شروع کردی ہے، اور آپ اس سے بھی انسیت محسوس کرنے لگے ہیں چاہے وہ دنیا کی دوسری طرف ہی کیوں نہ رہتا ہو۔

’’علم رحمانیت‘‘۔ یا دوسروں کیلئے جگہ پیدا کرنا۔ قدیم طرز مہمان نوازی کی یاد دلاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ ہم دوسروں کے دکھ کو ایک مداخلت سمجھ کر، اسے پرے دھکیل دیں صرف اس بنا پر کہ ہم خود ہی کافی اذیت اٹھا چکے ہیں، ہمیں ایسے دکھوں کا اپنے دل و دماغ میں استقبال کرنا چاہیے۔ توریت(پیدائش: 18)، جو تخلیق کائنات سے متعلق ہے، میں ایک بہت ہی قدیم قصہ ہے جو اس صورتحال کو مکمل طور پر پیش کرتا ہے۔ اس میں حضرت ابراہیم ؑ کو اپنے خیمے کے باہر فروکش دکھایا گیا ہے اور وہ افق پر تین اجنبیوں کو دیکھ رہے ہیں۔ قدیم دنیا میں اجنبی خطرناک ہوتے تھے کیوں کہ وہ مقامی قانون انتقام کے تابع نہیں ہوتے تھے۔ بلکہ آج بھی، ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو سڑک سے تین مکمل اجنبیوں کو اپنے گھر میں لے آئیں گے؟ مگر حضرت ابراہیم ؑ ان کے خیر مقدم کیلئے آگے بڑھ جاتے ہیں، ان کے سامنے اس طرح جھکتے ہیں جیسے وہ بادشاہ یا دیوتا ہوں، اور انہیں اپنی خیمہ گاہ میں لے آتے ہیں۔ اس کے بعد وہ ان کی ایک پرتکلف ضیافت کرتے ہیں اور ان مکمل اجنبیوں کو ہر طرح کی غذا اور آرام پہنچاتے ہیں، جو ان کے بس میں ہے۔ اب جو گفتگو ہوتی ہے، اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے، کہ اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح، حاضر و ناظر ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی رحم دلی نے انہیں قرب الٰہی یاد دلا دیا ہے۔

اس قصے میں بت پرستی کا کوئی شائبہ تک نہیں، کسی بھونڈی نوٹنکی جیسا تاثر نہیں، اور نہ ہی کوئی ذخیرہ کرنے والی بجلی ہے، کہ جب خدا کی تجلی بے نقاب ہوتی ہے۔ یہ شرک نہیں ہے۔ متن بہت محتاط اور حقیقی انداز کا ہے، اس ملاقات میں خدا کسی نہ کسی طرح موجود ہے، اوران اجنبیوں کے ذریعے جنہیں انہوں نے ہمت اور سخاوت کے ساتھ گھر بلایا ہے، حضرت ابراہیم ؑ سے کلام کررہا ہے۔ یہmythos کا ایک نمونہ ہے۔ کچھ، ابن العربی کے اس قصہ کے مانند جس میں اللہ تعالیٰ کی ایک آہ سے پوری کائنات وجود میں آگئی۔ انگریزی بولنے والی دنیا میں لفظmyth بہت پست کردیا گیا ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بات جو درست نہ ہو۔ اگر کوئی سیاست دان کسی رسوا کن عمل میں ملوث پایا جاتا ہے، تو وہ عام طور سے الزام کو ایکmyth کہتا ہے۔ یعنی ایسی کوئی بات ہوئی ہی نہیں۔ مگر دور جدید سے قبل بھیmyth کا مطلب بالکل درست تاریخی بیان نہیں ہوتا تھا۔ اس کے برعکس یہ کسی واقعے کے کسی زیادہ گہرے پہلو کو بیان کرتا ہے اور ایک حقیقی واقعہ کے بجائے ایک آفاقی صداقت کی جانب اشارہ کرتا تھا۔ حضرت ابراہیم کی یہ کہانی ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم ان لوگوں کیلئے بھی اپنے ذہن کو کشادہ کرلیں جو شروع میں ہمیں خوفناک یا اجنبی معلوم ہوتے ہیں، تو ہم اپنی ذات کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں، جس میں ہمارے سارے خوف، تعصبات اور اندھے مقامات ہیں۔ تب ہی ہم زندگی کے الو ہی پہلو کو محسوس کرسکتے ہیں۔ یعنی بالکل غیر متوقع اشخاص کے درمیان خدا کے وجود کو محسوس کرتے ہیں۔myth ایک منصوبہ عمل بھی ہے۔ آپ ایک فرضی قصے کی صداقت تک اسی وقت پہنچتے ہیں،جب آپ اس سے حاصل کردہ سبق پر عملدرآمد کرتے ہیں۔ پس اس قصے کے اصل معنی ہم اسی وقت سمجھ سکتے ہیں، جب ہم حضرت ابراہیم ؑ کے عمل کی پیروی کریں۔

اسی فرضی قصے کے پیچھے جو روح ہے اس کا وجود اسلامی روایت میں بھی ہے۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ابن العربی کا اصرار تھا کہ ہم ایک الوہی۔اکیلی صادق حقیقت۔ کو تمام مخلوقات میں دیکھیں۔ وحدت الوجود کی بنا پر ہم انسانوں کے بیچ تفریق کا جو تجربہ کرتے ہیں، وہ ایک فریب ہے۔ تمام مخلوقات کی تخلیق خدا نے کی ہے۔ یہ بھی تاول کی جاتی ہے کہ،اللہ تعالیٰ نے آدم میں اپنی روح اس لیے پھونکی تاکہ وہ اپنی مخلوق میں اپنے آپ کو دیکھ سکے( ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں)۔ ہم سب میں۔ اس لیے جو ظاہری حقیقت ہم دیکھتے ہیں، وہ ہمارے وجود کا ایک پہلو ہے۔ ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم اپنے تخیل کو بروئے کار لا کر اس باطنی صداقت کو بھی دیکھیں جو ہم میں موجود ہے۔

ابن العربی کے مطابق ہر یرد ایک نامکرر تنزیل ہے جس میں پوشیدہ اسمائے الٰہی کا عکس ہے۔ خدا ہم سے اور ہم میں باقی ماندہ انسانیت سے اپنی صفات بیان کررہا ہے۔ اگر ہم اس خصوصی اسم یا’’حضرۃ‘‘ کو مٹا دیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دنیا سے مظہر الٰہی کے ایک منفرد وجود کو مٹا رہے ہیں۔ ہمیں دوسروں میں قدرت الٰہی کو پہچاننا ہوگا، ان لوگوں میں بھی جو اسے ظاہر کرتے ہیں یا ان لوگوں میں جو اسے چھپاتے ہیں۔ ذکر الٰہی کا مطلب ہے کہ ہر جگہ اس کا جلوہ دیکھا جائے:

ترجمہ:تو جدھر تم رخ کرو ادھر خدا کی ذات ہے۔(ق:البقرۃ۔115)

ہمارا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ تمام مخلوق میں اچھائی کو دیکھیں، حتیٰ کہ اپنے دشمنوں میں بھی، اور اس کے بعد اسی کے مطابق عمل بھی کریں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ظاہری صورت کے پار دیکھیں، چاہے وہ کتنی ہی حوصلہ شکن کیوں نہ ہو، تاکہ ہم اس روح کو دیکھ سکیں، جو ہم سب کے درمیان ایک کڑی ہے۔

ہمیں یہی قدرت الٰہی دوسری مذہبی روایات میں بھی دیکھنی ہوگی۔ چاہے وہ کتنے ہی ناقص نظر کیوں نہ آئیں۔ غزالی نے یہی نکتہ اٹھایا تھا،

ہمیں مستعد ہونا ہوگا کہ ان لوگوں کے دعوؤں سے صدق کشید کرلیں، جو گمراہ ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ سونے کی کان،خاک اور دھول ہے۔

ہمیں مٹی چھان کر سونا نکالنا ہوگا۔ ابن العربی کے مطابق دوسروں میں اس الوہیت کو نہ پہچاننا،دراصل جہل ہے،اس قبائلی انانیت کا سرچشمہ ہے جو دنیا میں اتنی آفت پھیلاتی ہے۔

اپنے آپ کو کسی خاص عقیدے سے اس شدت سے وابستہ نہ کرلو کہ تم تمام دوسرے عقائد کی نفی کردو۔ ورنہ تم بہت ساری بھلائی کھو دو گے، بلکہ اصل حقیقت کو جاننے سے بھی معذور ہو جاؤ گے۔ خدا جو حاضر و ناظر ہے قادر مطلق ہے کہتا ہے:’’ جدھر بھی تم مڑو گے، وجہہ اللہ کو پاؤ گے۔‘‘ ہر کوئی اس کی مدح کرتا ہے، جو اس کی اپنی تخلیق ہے۔(پھر) ایسا خدا خود اس کی مخلوق ہوتا ہے اور اس کی مدح سرائی کے پردے میں اپنی مدح سرائی کرتا ہے۔ چنانچہ وہ دوسروں کے عقائد پر الزام دھرتا ہے، جو وہ کبھی نہ کرتا اگر وہ منصف المزاج ہوتا، اس لئے کہ اس کی ناپسندیدگی، لاعلمی پر مبنی ہے۔

بارھواں قدم:دشمنوں سے محبت کرنا

حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنے حواریوں سے کہا کہ وہ اپنے دشمنوں سے محبت کریں:

ترجمہ:تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھاکہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کیلئے دعا کرو۔ تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راست بازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ کیونکہ اگر تم اپنے محبت رکھنے والوں ہی سے محبت رکھو تو تمہارے لیے کیا اجرہے؟ کیا محصول لینے والے بھی ایسا نہیں کرتے؟ اور اگر تم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو کیا زیادہ کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہیں کرتے؟ پس چاہیے کہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے(متّی: :5 43تا48)

مگر دشمنوں سے محبت کرنے کے کیا معنی ہیں؟ ہم حقیقت میں ان لوگوں سے کیسے محبت کرسکتے ہیں جو ہمارے بدخواہ ہیں، یا جو ہماری تباہی کے درپے ہوسکتے ہیں؟ حضرت عیسیٰ ؑ کے اس بیان کو سیاق و سباق میں دیکھنا ضروری ہے۔ وہ تورات پر تبصرہ کررہے تھے۔ تورات نے کہا،’’تم قتل نہ کرو‘‘، مگر حضرت عیسیٰ ؑ نے اسے ایک قدم آگے بڑھایا، کسی حقیقی بندہِ خدا یا خاتونِ خدا کو غصہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔ تورات میں زخم کیلئے بدلے کی اجازت ہے،’’آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت۔‘‘ مگر حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنے حواریوں سے کہا کہ سرے سے انتقام ہی نہ لیں، اگر کوئی انہیں ایک گال پر تھپڑ مارے تو مارنے والے کو اپنا دوسرا گال بھی پیش کردیں۔ یہاں بھی حضرت عیسیٰ ؑ پرانے قانون کو ایک قدم آگے لے کر آرہے ہیں۔ وہ اعتاب احبار(Leviticus) میں ایک قانون پر تبصرہ کررہے ہیں۔

ترجمہ:اپنے ہمسایہ سے اپنی مانند محبت کرنا۔(احبار: 18،19)

یہاں بھی وہ حکم کو ایک قدم آگے لے جاتے ہیں کہ،اہل خدا کو صرف اپنے ہمسایوں سے ہی نہیں، بلکہ اپنے دشمنوں سے بھی محبت کرنی چاہیے۔

مگر حضرت عیسیٰ ؑ لفظ’’محبت‘‘ کو ان معنوں میں استعمال نہیں کررہے تھے جن معنوں میں یہ لفظ آج استعمال ہوتا ہے۔احبار(Leviticus) ایک قانونی کتاب ہے اور اس میں جذبات کا ذکر اتنا ہی غیر متعلق ہے، جتنا کہ سپریم کورٹ کے کسی فیصلے میں ہوتا ہے۔’’محبت‘‘ ایک قانونی اصطلاح تھی، جو بین الاقوامی معاہدوں میں استعمال ہوتی تھی۔ جب بادشاہ کسی سے اتحاد کرتا تو وہ وعدہ کرتا کہ وہ اپنے نئے حلیف سے محبت کرے گا۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اس کیلئے دل میں نرم جذبات رکھے گا،بلکہ اس کا مطیع و وفادار رہے گا، اسے عملی امداد بہم پہنچائے گا، اس کی مدد کو پہنچے گا، اس کے بہترین مفادات کا خیال رکھے گا اور اس کا نگراں ہوگا، خواہ اس سے خود اپنے قلیل المدتی مقاصد متصادم ہی کیوں نہ ہوں۔

اس قسم کی’’محبت‘‘ایسا جذبہ ہے جو ہم سب کے اختیار میں ہے اور خصوصاً اس عالمی بستی میں یہ ہمارے امن و بقا کیلئے لازمی ہے۔ مثال کے طور پر اگر مغرب کی استعماری طاقتوں نے ان لوگوں سے’’محبت‘‘ کی ہوتی جو آج ان کے دشمن ہیں، تو آج ہمیں اتنے مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

خطبہ حضرت عیسیٰ ؑ کے ایک دوسرے متن میں سنہری اصول کا حوالہ ہے:

ترجمہ:اور جیسا تم چاہتے ہوکہ لوگ تمہارے ساتھ کریں تم بھی ان کے ساتھ ویسا ہی کرو۔ مگر تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرو اور بغیر ناامید ہوئے قرض دو تو تمہارا اجر بڑا ہوگا اور تم خدا تعالیٰ کے بیٹے ٹھہرو گے کیونکہ وہ ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے۔ جیسا تمہارا باپ رحیم ہے تم بھی رحم دل ہو۔(لو قا: 6،31۔35،36)

ان عبارتوں میں حضرت عیسیٰ ؑ عدم تشدد کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں، مگر عیسائیت ایک امن پسند مذہب نہیں رہا ہے۔ عیسائی پادریوں نے جنگ کی صرف اس صورت میں اجازت دی جب یہ ثقہ اقدار کی حمایت میں ہوں۔ اگرچہ، جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ عیسائی ہمیشہ اس آدرش کے پابند نہیں رہے ہیں۔ حضرت محمدﷺ مجبور تھے کہ مسلم جمعیت کو ان قریشیوں سے بچائیں جو امت کو نیست و نابود کرنے کے درپے تھے، اور قرآن حکیم اپنے دفاع کیلئے ایک برحق جنگ کی اجازت بھی دیتا ہے۔ مگر یہ بھی عرب قواعد سے سخت ترین انحراف تھا۔انتقام اور فوری بدلہ صحرائی عرب کیلئے مقدس فرض تھا،ان پر لازم تھا کہ وہ کسی بھی ہتک یا خطرہ کا جواب فوری تشدد سے دے دیں، اور وہ صرف بغرض دفاع نہیں لڑتے تھے، بلکہ سچی جرأت کا تقاضا یہ تھا کہ وہ کارروائی سے قبل ہی حملہ کردیں۔’’یہ کافی نہیں‘‘ ایک قدیم عربی شاعر نے کہا ہے،’’ایک سورما جو شیر جیسا خون خوار ہو، کہ جب اس پر کمان سے ضرب لگائی جائے، تب ہی حملہ کرے۔ اسے تو سبقت لے کر اس وقت حملہ کرنا چاہیے جب کسی نے اس پر حملہ نہیں کیا ہے۔‘‘ آداب جاہلیہ نے تشدد آمیز انتقام کو ایسا جذبہ قرار دیا جو ایک ایسی ہتک ہے جس پر لگام دینا ممکن بھی نہیں اور ضروری بھی نہیں ہے۔

قرآن حکیم نے ایک بالکل مختلف رویہ پروان چڑھایا۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی منتقم ہے اور مسلمانوں کیلئے بہتر ہے کہ بدلے اور انتقام کو اس پر چھوڑ دیں(ق: ابراہیم،47)۔ یہ جذبہ اس وقت کارفرما ہوا جب مسلمانوں نے غزوۂ احذ میں سخت نقصان اٹھایا، خود رسول مقبولﷺ بھی زخمی ہوئے تھے، اور قریش نے لاشوں تک کی بے حرمتی کی تھی، مگر انتقام کا کوئی تذکرہ نہ تھا اور مسلمان بھی، جنہوں نے پسپائی اختیار کی( جو ایک جاہلی عرب کیلئے ناقابل تصور تھا)، ان سے بھی نرمی کا برتاؤ کیا گیا(ق: اٰل عمران۔152تا155)۔

مگر جیسا کہ ہم نے اپنے زمانے میں دیکھ لیا ہے کہ جنگ اپنی ہی دہشت ناکی رکھتی ہے، اور یہ سپاہیوں کو ان اصولوں کو پامال کرنے پر اکساتی ہے جن کی خاطر وہ میدان جنگ میں اولاً اترے تھے۔ مکہ کے خلاف جنگ میں دونوں جانب سے تشدد کیا مگر۔ مگر جیسے ہی میزان ان کی جانب جھکا حضرت محمدﷺ نے عدم تشدد کو راہ دی۔ مارچ628ء میں ماہ ذی الحجہ، میں انہوں نے اعلان کردیا کہ وہ حج کا ارادہ رکھتے ہیں اور اپنے اصحابؓ کو دعوت دی کہ ان کے ہم رکاب ہوں۔ اس اعلان پر ایک ہزار صحابہؓ نے لبیک کہا۔ انہوں نے واضح کردیا تھا کہ یہ کوئی جنگی مہم نہیں ہوگی، اس لیے کہ حاجیوں کو اسلحہ لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور مکہ میں تشدد بھی جائز نہ تھا۔ حتیٰ کہ حضرت عمرؓ کے اعتراض کے باوجود رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ حاجی دشمن کے علاقے میں نہتے جائیں گے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ قریش کو ایک مشکل میں ڈال رہے ہیں۔ہر عرب کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ حج کرے اور مقدس سرزمین میں داخل ہو اور اگر قریش نے اس پر پابندی لگائی تو پاسبان حرم کی حیثیت سے اپنے فرائض سے عہدہ برا نہ ہوسکیں گے۔

بہرحال یہ ایک انتہائی پرخطر مہم تھی۔قریش نے مکی سواروں کو بھیجا کہ انہیں قتل کردیں مگر کچھ دوست دار بدوؤں کی مدد سے حجاج دوسرے راستے سے مقدس مقام تک پہنچ گئے۔

جب وہ حدیبیہ کے کنوئیں تک پہنچے تو حضرت محمدﷺ نے حاجیوں کو اونٹوں سے اتر کر ان کے پاس بیٹھ جانے کو کہا۔ رسول اللہﷺ کی اطاعت میں، وہ خاموشی سے شہر میں داخلے کی اجازت کا انتظار کرتے رہے، تشدد سے پرہیز کرتے رہے اور تمام مناسک حج کی پابندی کرتے رہے۔ حضرت محمدﷺ چاہتے تھے کہ دکھا دیں کہ رسم عرب سے وہ قریش کی نسبت زیادہ قریب تھے، وہ قریش جو ان کے طواف کرنے کے دوران انہیں نعوذ باللہ قتل کرنے پر تیار تھے، یہ انتہائی کشیدہ لمحہ تھا۔ مسلمانوں نے مکہ میں سفیر بھیجے تاکہ وہ گفت و شنید کریں، لیکن خبر آگئی کہ انہیں بھی قتل کردیا گیا ہے۔ آخر کار اپنے بدو حلیفوں کے کہنے پر، جو مقدس قانون کی خلاف ورزی پر دنگ تھے، قریش نے سہیل ابن عمرو کو حضرت محمدﷺ کے ساتھ ایک معاہدہ طے کرنے کیلئے بھیجا۔

یہ دو افراد کافی دیر تک ساتھ بیٹھے رہے مگر جو شرائط طے ہوئیں، انہوں نے کئی مسلمانوں بالخصوص حضرت عمرؓ کو مضطرب کردیا۔ مکہ اور مدینہ میں صلح کی شرائط نہ صرف سبک کرنے والی تھیں بلکہ ان تمام مسابقتوں کو گنوانے کے مترادف تھیں جن کیلئے مسلمان لڑے اور مرے تھے۔ اس کے باوجود قرآن حکیم کا اصرار تھا کہ اگر دشمن امن کا خواہاں ہے، تو حضرت محمدﷺ کو ہر شرط تسلیم کرنی چاہیے۔چاہے وہ نقصان دہ ہی کیوں نہ معلوم ہوں(ق:البقرۃ۔193)۔اس واسطے حضرت محمدﷺ مصر تھے کہ وہ دستخط کریں گے۔ وہ عرب کیلئے ایک بے نظیر سیاسی اور مذہبی حل کی طرف بڑھ رہے تھے، اور کبھی متوقع اقدام نہیں کرتے، اس لیے کہ ایسا کرنے سے وہ اس افسوناک صورتحال کے اسیر رہ جاتے۔

بغاوت تو نہیں ہوئی مگر مسلمانوں نے مدینہ واپسی کا سفر ناراض خاموشی میں طے کیا، اور خود پیغمبرﷺ بھی خاموش اور محویت کے عالم میں دکھائی دیے۔ مگر پھر انہیں اللہ کی نازل کردہ وحی ملی جس میں اس ظاہری شکست کو’’فتح مبین‘‘ کہا گیا(ق:الفتح۔1)۔للہ تعالیٰ نے اپنا سکینہ یعنی امن کی روح کو نازل کیا تھا، جو قلوب مسلمین میں داخل ہوئی، جب وہ حضرت محمدﷺ کے ساتھ اس پرخطر مہم پر جانے کو تیار ہوئے تھے۔ یہ معاہدہ ایک نشانی تھی جس نے اللہ تعالیٰ کی موجودگی کو ثابت کیا۔ جاہلیہ کی بے محابہ جنگ جوئی سے وابستہ قریش تیار تھے کہ نہتے حاجیوں کو قتل کردیں، بجائے اس کے کہ مسلمانوں کے حرم میں داخل ہونے کی تذلیل برداشت کریں:

ترجمہ:جب کافروں نے اپنے دلوں میں ضد کی اور ضد بھی جاہلیت کی۔ تو خدا نے اپنے پیغمبر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور ان کو پرہیز گاری کی بات پر قائم رکھا اور وہ اسی کے مستحق اور اہل تھے اور خدا ہر چیز سے خبردار ہے۔(ق:الفتح۔26)

مسلمانوں کو خصلتاً جنگ جو نہ ہونا تھا۔ ان کی خصوصیت خاصہ، امن اور برداشت کی وہ روح تھی جو دو برسوں کے بعد دوبارہ نمایاں ہوئی جب مکہ نے از خود مسلمان فوجوں کیلئے دروازے کھول دیے، اور بہت ہی کم خون بہا۔حضرت محمدﷺ کے سب سے منہمک اور شدید دشمنوں کو معاف کردیا گیا، ان پر تحفے برسائے گئے اور بعد میں امت میں اعلیٰ اعزاز کی جگہیں عطا ہوئیں۔ ان کے بعد پیغمبر اسلامﷺ اپنے قول کے مطابق مدینہ لوٹ گئے۔ انہوں نے مکہ پر حکومت کرنے کی کوشش نہیں کی۔انہوں نے قریشی افسروں کی جگہ اپنے اصحاب کو تعینات نہیں کیا۔ حرم کے تمام عہدہ دار اپنی جگہوں پر قائم رہے۔

آج انتہا پسند اکثر مکہ کے خلاف جنگ کو آنحضرتﷺ کی زندگی اور سعی کا نقطہ عروج سمجھتے ہیں، وہ صلح حدیبیہ کا ذکر نہیں کرتے۔ مگر حدیبیہ کے واقعات نے مسلمانوں کو قریش کی جنگ جو یا نہ وحشت سے علیٰحدہ کردیا تھا۔ اس کے عوض انانیت سے دستبرداری اختیاری کی گئی، جس کی علامت صلوٰۃ ہے، اور روح امن نے ان کو نشان زدہ کردیا، انہیں اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوق سے منسلک کردیا اور انہیں عالم میں رحمت کا موجب بنا دیا:

ترجمہ:محمدﷺ خدا کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے حق میں تو سخت ہیں اور آپس میں رحم دل(اے دیکھنے والے) تو ان کو دیکھتا ہے کہ(خدا کے آگے) جھکے ہوئے سربسجود ہیں اور خدا کا فضل اور اس کی خوشنودی طلب کررہے ہیں(کثرت) سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے یہی اوصاف تورات میں(مرقوم) ہیں۔ اور یہی اوصاف انجیل میں ہیں۔(وہ) گویا ایک کھیتی ہیں جس نے(پہلے زمین سے) اپنی سوئی نکالی پھر اس کو مضبوط کیا پھر موٹی ہوئی اور پھر اپنی نال پر سیدھی کھڑی ہوگئی اور لگی کھیتی والوں کو خوش کرنے تاکہ کافروں کا جی جلائے۔جو لوگ ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمال کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔(ق:الفتح۔29)

کتنی پرثروت روایت ہے! میں تو یہاں صرف سطح کو کھرچ سکی ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کئی ایک یہ کہیں گے۔’’انہوں نے اس کا ذکر شامل کیوں نہ کیا؟‘‘’’ انہوں نے اس کا تذکرہ کیا اور اس کا تذکرہ چھوڑ دیا۔‘‘ میں اس قسم کی کئی مثالیں پیش کرسکتی ہوں، جس سے یہ بات زیادہ واضح ہوگئی ہوتی، مگر یہ مختصر خاکہ صرف اس لیے ہے کہ آپ آغاز کریں۔ طلبا اور اساتذہ اسلامی روایت میں رحم کی اہمیت پر تحقیق کریں۔ وہ کئی اور بصیرتیں حاصل کریں گے جو تمام دنیا کے مسلمانوں کیلئے ایک تحفہ ہوں گے۔انشاء اللہ۔