working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
 
Bookmark and Share
10 April 2015
تاریخ اشاعت

 عدم تحفظ کی بنیاد پر بنے والی آبادیاں

پاکستان میں اقلیتوں کی حالت زار ۔۔ریاست کی عدم توجہی یا تاریخی چشم پوشی

رازشتہ ستھنا

اقلیت اور اکثیریت کا تصور آج کی جدید ریاست کے لئے زیر قاتل سمجھا جاتا ہے تاہم قدامت پسند ریاستوں میں یہ تقسیم آج بھی موجود ہے ۔پاکستان ان ریاستوں میں ہے جہاں مذہبی تحریکیں زیادہ توانا آواز کے ساتھ سامنے آرہی ہیں اور وہ ہر مسئلے کی توجیح اپنے انداز سے کرتی ہیں ۔اس پس منظر نے پاکستان میں اقلیتوں کی حالت کو قابل رحم بنا دیا ہے ۔زیر نظر تحقیقی مضمون جہاں اس سارے منظر نامے اور اس کے مختلف پہلوؤں کو واضح کرتا ہے وہاں ہمیں یہ سوچنے کی ترغیب بھی دیتا ہے کہ ہم مذہبی تفریق کی بنا ء پر اپنے جیسے انسانوں کے ساتھ کیسا مساویانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہیں ۔اس مضمون میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے 2014میں اقلیتوں کی حالت کا جائزہ لینے کے لئے کئے گئے ایک شماریئے کا حوالہ بھی ہے جو اس موضوع کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی بحث نئی نہیں ہے مگر ملک بھر میں جاری شدت پسندی کی لہر میں اب یہ مسئلہ ایک نئی صورت میں سامنے آیا ہے ۔اقلیتوں کے لئے جگہ روز بروز سکڑ رہی ہے ۔بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 11اگست 1947کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’مذہب ذاتی معاملہ ہے اور ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ‘‘مگر آج ایسے لگتا ہے کہ ہم خود تو مسلمان نہیں ہو سکے مگر ریاست کو کلمہ پڑھانے کی جستجو میں ضرور رہتے ہیں ۔جس کی بنا پر رازشتہ ستھنا یہ لکھنے پر مجبور ہیں کہ اقلیتوں کے خلاف ریاست بھی شریک کار ہے ۔رازشتہ سیتھنا پاکستان کی ایک معتبر صحافی ہیں ۔ان کے مضامین انگریزی میڈیا میں تواتر کے ساتھ آتے رہتے ہیں ۔(مدیر)

مذہبی آزادی ،انسان کا بنیادی حق ہے ۔کسی قوم کی معیشت اور اس کی سالمیت کے لئے جزوِلاینفک،جس سے اس قوم کی مجموعی حیثیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔تمام مذہبی گروہوں کے لئے مذہبی آزادی کا مطلب ہے کہ مذہبی اقلیتیں ،ایسی تنظیموں اور افراد سے بلا خوف و خطر اپنے عقیدے کی پاسداری کر سکیں جو ان کے عقیدے سے متفق نہیں ہیں ۔مذہبی آزادیوں کا تصور ان ممالک میں اور زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے جہاں مختلف عقائد اور فرقوں سے منسلک افراد ایک جگہ رہتے تو ہوں مگر وہاں پر عدم برداشت عام ہو اور شدت پسندی یک بڑے تنازعہ کی صورت اختیار کر چکی ہو۔پاکستان میں مذہبی آزادیوں کا فقدان اور معاشرے میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی ساتھ ساتھ چل رہی ہیں ۔جب حکومت عوام کی جان و مال کی حفاظت سے بری الذمہ ہو جاتی ہے تو مذہبی آزادیوں پر بھی قدغن لگ جاتی ہے۔قانون کے غلط استعمال(وہ قوانین جن کا تعلق توہینِ رسالت سے ہے )کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔اقلیتیں نہ صرف اس کا براہ راست ہدف بنتی ہیں بلکہ معاشرے کے کئی اور گروہ بھی خطرے سے دوچار ہو جاتے ہیں ۔نتیجے کے طور پر شدت پسندی پھلتی پھولتی ہے اورتشدد پھیلانے والوں کو اور زیادہ شہ مل جاتی ہے۔

2013میں پاکستان میں دو منتخب حکومتوں کے مابین انتقال اقتدار کا بے مثال مظاہرہ دیکھا گیاجسے پاکستان کی سیاسی روایت میں ایک اہم سنگِ میل قرار دیا گیا۔جس سے اس بات کا امکان پیدا ہو گیا کہ اب نہ صرف استحکام پیدا ہو گا بلکہ قومی مسائل پرسیاسی قوتوں کے مابین یکجہتی پیدا ہو گی بالخصوص وہ اندرونی قضیئے جن کا تعلق فرقہ واریت اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملوں سے ہے وہ فوری توجہ حاصل کر سکیں گے ۔مذہبی کشیدگی کے خاتمے کے لئے ریاست کی جانب سے کوئی جامع حکمت عملی لائی جائے گی جس سے مذہبی رہنماؤں کے درمیان بین المذاہب مکالمے کو فروغ دیا جائے گا کیونکہ دیکھا گیا ہے کہ مقامی سطح پر ایک دوسرے پرعدم اعتماد اور عدم برداشت کی وجہ سے ایک معمولی سے چنگاریای ایک بڑے فساد کا باعث بن جاتی ہے ۔اگر ہم فرقہ واریت کا تہہ در تہہ مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی اورفرقہ وارانہ عدم برداشت نے انسانی حقوق اور جمہوری اقدار کو تہہ و بالا کر دیا ہے جس کے بعد اس جانب حکومتی توجہ کی ضرورت تھی تاکہ وہ اس مسئلے کے ازالے کے لئے نہ صرف وسائل مہیا کرے بلکہ سرکار ی مشنری اور موئثر انٹیلی جنس کے ذریعے دائیں بازو کے شدت پسندوں کو جودہشت گرد ی میں ملوث ہیں ان کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے لیکن افسوس ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا۔اقلیتی کمیونٹی پر یا ان کی عبادت گاہوں پرکسی بھی حملے کے بعد حکومتی یقین دہانیاں اب صرف اس حد تک ہیں کہ حکومت سے وابستہ کوئی شخصیت جائے وقوعہ کا دورہ کرے ،حملے کی مذمت کرے اور تحقیقات کا وعدہ کرے ۔پاکستان میں سماجی کارکنوں اور عالمی نگرانوں کو اب اس بات کا یقین ہو چلا ہے کہ اقلیتوں کو پولیس تحفظ اور قانونی مدد فراہم نہیں کرسکتی۔نفرت کے سوداگروں سے نہ کبھی با ز پرس ہوئی نہ ہی سزا ملی ۔2013کے دوران پیو کے ایک تحقیقاتی سروے میں 57فیصد پاکستانیوں نے مذہبی تنازعہ کو قومی مسئلہ قرار دیا ۔

ولی نصر کہتے ہیں’’ فرقہ واریت مسلم دنیا کا بشمول مشرق وسطیٰ سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔یہ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ میں شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان سب سے قدیم تنازعہ ہے جو اسلامی تاریخ اور شرعی فکرو فلسفہ کی اپنی اپنی توجیح پیش کرتے ہیں ۔شایدجداگانہ رائے کی مذہب میں کوئی گنجائش ہی نہیں بنتی ۔مذہب کے تناظر میں شیعہ سنی تفرقے کو سمجھنا آسان نہیں لیکن اگر آپ اس کو سیاسی طرز سے دیکھیں تو اس کی سیاسی و سماجی وجوہات بھی ہیں‘‘ ۔ولی نصر دعویٰ کرتا ہے کہ 2003کی عراق جنگ نے ایرانی اور سعودی دشمنی آشکار کر دی ہے ۔جس کا خیال ہے کہ مشرق وسطیٰ میں عرب شیعہ طاقت جس کے پاس تیل کی دولت بھی ہے وہ ایک آزاد نجف(جو شیعوں کے نزدیک تیسرا سب سے متبرک مقام ہے اور عراق کی شیعہ آبادی کا مرکز بھی ہے ) سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتی ہے ۔ولی نصر کے تجزیئے کے مطابق پاکستان میں شیعوں کی آبادی30فیصد ہے جو کہ دنیا بھر میں شیعوں کی دوسری بڑی آبادی ہے ۔نصر کا کہنا کہ پاکستان میں لچک کی روایت ایسے ہی ہے جیسے کہ کسی کوئلے کی کان میں پھولوں کی بیل کا تصور کیا جائے ۔

1977کے بعد پاکستان نے ریاستی سطح پر سنی اسلام کا پرچار کیا جس سے مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ پیدا ہوا کیونکہ انھیں ان کے فرقے اور نسل کی بنیاد پر نشانہ بنایا جانے لگا۔جب ایک کثیر نسلی اور مذہبی معاشرے میں مذہب کا غلط استعمال ہوتا ہے تو معاشرے کے طبقات میں ایک طرح کا زہر پھیل جاتا ہے ۔اس زہر افشانی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں سیاسی قوتوں کا وہ کھیل بھی شامل ہے جو اس پردے میں اپنے لئے نظریاتی اور جغرافیائی سطح پرجگہ بنانا چاہتی ہیں تاکہ وہ اپنے سیاسی اہداف حاصل کر سکیں ۔سنی مسلمان جو کہ اکثریت میں ہیں ان میں انتہا پسندی ایک خطرناک ہتھیار کی صورت میں سامنے آئی جومعاشرے ،ثقافت ، سماجی اداروں حتی ٰ کہ ریاست کی حیثیت کو بھی اپنے ڈاکٹرائن کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔

Peoples Under Threat 2013نامی رپورٹ میں ایک مستند شماریئے کے مطابق جسے Minority Rights Group International نے مرتب کیا ہے ،پاکستان، شام ،یمن اور مصر ان ممالک میں سرفہرست ہیں جہاں پر مذہبی اقلیتیں خطرے سے دوچار ہیں ۔دس میں سے آٹھ ریاستیں اس فہرست میں ایسی ہیں جو اس حوالے سے سب سے زیادہ خطرناک ہو چکی ہیں جہاں موجودہ یا گذشتہ ایک دہائی سے جاری بیرونی فوجی مداخلت ہو رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق جن ریاستوں میں لوگوں کی زندگیاں داؤ پر ہیں وہاں بیرونی فوجی مداخلت معمول بن چکی ہے لیکن عام افراد پر اس کے اثرات کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے ۔پاکستان کی ہی مثال لے لیں جہاں ایک طرف 2013کے عام انتخابات میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے اقتدار ایک دوسری جمہوری حکومت کے سپرد کیا جسے پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل قرار دیا گیاتو دوسری جانب ایسی سیاسی قوتیں اور مذہبی گروہ بھی تھے جو کہ پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کردار ،امریکہ کے ساتھ اس کے تعلقات اور ڈرون حملوں کے بارے اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کرتے چلے آرہے تھے ۔عدم تحفظ اور دہشت گردی کے اس پس منظر میں پاکستان نے جان بوجھ کر اپنے گھر میں پروان چڑھنے والے مذہبی انتہا پسندوں کے بارے میں آنکھیں بند کئے رکھیں جو کہ اس داخلی سلامتی اور معاشی ترقی کی راہ میں مسلسل خطرہ بنتے جا رہے تھے ۔پاکستان نے افغان سرحد کے ساتھ ایسے گروہوں کو منظم ہونے اور انھیں ڈیورنڈ لائن کے اس پار بیرونی افواج پرحملوں کی اجازت دی۔اندرونی عسکری گروہ جن میں لشکر جھنگوی اور دوسرے فرقہ وارانہ انتہا پسند گروہ شامل تھے انھوں نے شیعوں اور دوسرے مذہبی گروہوں کے خلاف بلا خوف و خطر مہم جاری رکھی۔

نوازشریف جب 2013میں تیسری بار برسر ا قتدار آئے تو انھوں نے 11اگست کو اقلیتوں کا قومی دن منانے کی روایت کا آغاز کیا ۔اگر اس کا مطلب برداشت اور مساوات کا درس دیتی جمہوری اقدار کا فروغ لیا جائے جہاں اقلیتوں کو بھی دیگر شہریوں کی طرح کے مساوی حقوق دستیاب ہوں تو اس بات کا سختی سے اعادہ کرنا ہو گا کہ غیر مسلموں کو درپیش دھمکیوں اور حملوں کا ہر صورت خاتمہ کیا جائے ۔کیا ان کی حالت اس کے مطابق ہے جس کا تقاضا انسانیت کرتی ہے ۔ایک تلخ حقیقت کا ادراک کہ جس کی وجہ سے معاشرے میں ان کے خلاف نفرت ،تشدد اور عدم برداشت بڑھتا جا رہا ہے اور وہ اس وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔نا مساعد معاشی حالات،سیاسی تفریق،کمزور قوانین اور حکومتی عدم توجہی یہ سب عوامل ان کے مصائب میں اضافہ کر رہے ہیں ۔اس امتیازی سلوک اور پسماندگی کو اس وقت ہوا دی گئی جب معاشرے میں شدت پسندی غالب آنے لگی اور ایک جبر کے تحت ان کو نشانہ بنایا جانے لگا۔یہ نہ صرف انفرادی بلکہ اجتماعی سطح پر غیر مسلموں کے لئے ایک واضح پیغام تھا۔مذہب کے کرادر کو اس حد تک سیاسی بنا دیا گیا کہ غیر مسلموں کی حالت اور ان کا تحفظ سوالیہ نشان بن کر رہ گیا۔یہ ساری صورتحال شدید اندرونی خلفشار اور فرقہ وارانہ تشد د پر منتج ہوئی ۔

پاکستان کی اٹھارہ کروڑ تیس لاکھ کی آبادی میں سے 90لاکھ اقلیتوں پر مشتمل ہے ۔عیسائی اور ہندو کل آبادی کا دو فیصد اور اقلیتوں میں سب سے بڑا گروہ ہیں۔جبکہ باقی میں سکھ، زرتشت،بہائی،بدھ مت،یہودی اور احمدی شامل ہیں۔یہ بات اب بہت واضح ہے کہ سیکورٹی کی مجموعی صورتحال میں ایک عام شہری کے تحفظ کا تصور خطرے سے دوچار ہے کیونکہ نواز حکومت سیاسی معاملات میں الجھ کر رہ گئی ہے اور عسکری گروہوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع مل گیا جہاں پہلے ہی شدت پسندی اپنی مظبوط جڑوں کے ساتھ موجود تھی۔پاکستانی اقلیتوں پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔غیر مسلموں اور ان کی نئی نسلوں کو درپیش خطرات ماضی کی نسبت کہیں زیادہ ہیں ایک خوف انھیں مسلسل گھیرے ہوئے ہے ۔

پاکستان میں اقلیتی برادری سے ہونے کا در اصل مطلب کیا ہے ؟ ایک رپورٹ در اصل ان سیاسی اور سماجی عوامل کا جائزہ لیتی ہے جو چیلنج بن کر پاکستان کی اقلیتوں کے بڑے گروہوں جن میں عیسائی،ہندو اور سکھ شامل ہیں کو درپیش ہیں۔یہ رپورٹ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے 2014میں مرتب کی ۔جو ملک بھر سے سروے رپورٹوں کی روشنی میں سامنے آنے والے حقائق پر مبنی ہے ۔یہ رپورٹ چاروں صوبوں پنجاب، خیبر پی کے ،سندھ اور بلوچستان سے 327انٹرویوز پر مشتمل ہے ۔سروے میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے گروہوں کو ان کی تعلیمی اور مذہبی وابستگی کی بنیاد پر تقسیم کیا گیا ہے ۔سروے میں یہ نتائج سامنے آئے کہ حکومت کی عدم توجہی اور غیر مساویانہ رویئے بھی ان مسائل کو شدید ترکر رہے ہیں ۔پاکستان کے سماجی اور ثقافتی دھارے میں سے الگ تھلگ کر کے در اصل معاشی ترقی اور سیاسی نظام میں ان کے متحرک کردارکے امکانات کو محدود کر دیا گیاہے ۔

قومی دھارے میں جب سے انتہا پسندانہ خیالات کو رواج ملا ہے تب سے اقلیتوں کو توہینِ رسالت کے قانون سے مسلسل خطرہ محسوس ہونے لگا ہے ۔گزشتہ برس تو توہین رسالت کے الزامات پر مبنی مقدمے ریکارڈ سطح پر سامنے آئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً پانچ سو خاندان ملک چھوڑ کر جانے پر مجبور ہو گئے ۔نوجوان بچے حتیٰ کہ معذور افراد کو بھی اپنے الفاظ اور ایک خاص مذہب سے وابستگی کی سزا ملتی ہے ۔جبکہ ان کے مخالفین کو سیاسی مدد بھی حاصل ہوتی ہے جو ان مظلوم اور بے آسرا لوگوں پرظلم ڈھاتے ہیں۔

پاکستان میں اقلیت سے ہونے کا مطلب کیا ہے ؟

تاریخ دان جیمز ملر جب 1818میںitish India The History of Brنامی کتاب لکھ رہا تھا تو اس نے تاریخ کو تین الگ الگ مرحلوں ہندو،مسلمان اور انگریز میں رقم کیا ۔حالانکہ تب بین المذاہب تفرقے کی بات مسلمانوں ، ہندؤں یا عیسائیوں کی جانب سے روایت میں شامل نہیں تھی۔تاریخی طور پر مسلم معاشروں میں اقلیت کا تصورمسلمانوں سے ان کی جداگانہ شناخت مثلاً ثقافت ، زبان ، مذہب ،ادب،استعارے یا فرقے کی وجہ سے تھا نہ کہ اس کی وجہ سیاسی تھی۔لیکن حالیہ ادوار میں آنے والی جغرافیائی اور سماجی تبدیلیوں کی وجہ سے اقلیتوں کی مذہبی شناخت کو بھی سیاست کی نذر کر دیا گیا ہے ۔پیچیدہ تاریخی تناظر اور سماجی عناصر نے مل کر پاکستان میں مذہب اور سیاست کاایک یکست مختلف گٹھ جو ڑ بنا لیا ہے ۔1947میں مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے حصول کی جدوجہد میں مذہب کو مرکزیت حاصل تھی اور تقسیم سے لے کر اب تک یہ حیثیت برقرار ہے ۔مذہبی شناخت اور اس کی حیثیت پہلے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی مگر پھر دنیاوی ،علاقے، زبان ،معاشی اور فرقوں کے تناظر میں یہ شناخت اہمیت اختیار کرتی چلی گئی ۔ریاست اور مذہب کا آپس میں تعلق پیچیدہ بھی ہے اور مبہم بھی ۔قومی سیاسی جماعتیں،مذہبی رہنما،فوجی اور دوسرے سٹیک ہولڈر اس کی اپنی اپنی توجیہات پیش کرتے ہیں جو ان کے سیاسی مفادات سے جڑی ہوئی ہیں ۔اب پاکستان نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک آزاد اور سیکولر جمہوریت چاہتا ہے یا پھرایک قدامت پرست اسلامی ریاست ،جواپنی اصل شناخت کو شخصی آزادیوں اور معاشی ترقی کو بالائے طاق رکھنے کی قیمت پر چھپانا چاہتی ہے ۔

اکثریت کی جانب سے کچھ اقلیتی گروہوں کو غربت اور کم تر سماجی حیثیت میں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ انھیں مساوی شہری حقوق سے محروم رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ قومی سیاسی دھارے میں بھی اپنا کردار ادا نہ کر سکیں اور اس مقصد کے لئے ایسے امتیازی قوانین پہلے سے ہی موجود ہیں جو ان کے لئے خطرات میں مسلسل اضافہ کئے ہوئے ہیں۔پاکستانیت کے پیرائے میں مذہب سب سے اہم ہے اور یہاں پر ہنٹنگٹن کے مقالے کا تجزیہ پوری طرح صادق آتا ہے اس کے بقول’’ جدید دنیا میں مذہب ایسی مرکزیت ہے جو شاید لوگوں کو اکساتا ہے ،کوئی بھی تہذیب جو مذہبی روایات سے زیادہ اپنے اثرات مرتب کرتی ہے وہ عوام میں زیادہ مقبول ہوتی ہے ۔تہذیبیوں کے تصادم کی وجہ مذہب ہے جس نے اس تنازعہ کو گھنجلک بنا دیا ورنہ عام لوگ ایسا نہیں چاہتے ۔ وہ آگے چل کر کہتا ہے کہ مغرب کے نزدیک جو عالمگیریت کا نظریہ ہے وہ باقیوں کے نزدیک سرا سر سامراجیت ہے۔اگرچہ اس کا کچھ مثبت پہلو بھی ہے کہ جہاں مغرب نے عالمی امن اور ترقی کے لئے بھی کام کیا یا پھر مذہبی قدامت پرستی کو محدود کرنے کی کوشش کی مگر اس کی وجہ سے ان کے خلاف پر تشدد رد عمل سامنے آیا ۔

پاکستان کے تاریخی تناظر میں غیر سنی گروہوں کے لئے جو منافرت چلی آرہی تھی اس کی وجہ سے فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا ملی بالخصوص ضیاء الحق کی اسلامائزیشن کے بعد غیر سنیوں کے لئے زندگی مشکل بنا دی گئی اور انھیں الگ تھلگ کیا گیا ۔اگرچہ مردم شماری کے اعداد و شمار نسلوں اور مذاہب کی بوقلمی کو ظاہر کرتے ہیں تاہم یہ اب ہر کوئی جانتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے لئے فضا تیزی سے سکڑ رہی ہے ۔

کیاپاکستان کا قیام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں دونوں کے لئے تھا یاپھرخالصتاًایک اسلامی ریاست کا قیام تھا، یہ بات ضیاء دور میں زیادہ ابھر کر سامنے آئی جب ایسی مذہبی تنظیموں کو ریاستی آشیر بادملی جو تشدد کا درس دیتی تھیں ۔1980میں دیو بندی مکتب فکر نے ایک طرف حرکت لانصار بنائی جو روس کے خلاف لڑ رہی تھی تو دوسری طرف سپاہ صحابہ پاکستان جس کا خیال ہے کہ تمام شیعہ غیر مسلم ہیں ۔1980میں ایسی تنظیمیں یہ مطالبہ کرنے لگیں کہ پاکستان کو نہ صرف ایک اسلامی ریاست بنایا جائے بلکہ معاشرے میں وہابی اسلام کو بھی فروغ دیا جائے۔اب ایسے میں اقلیتوں کی جانب سے ریاست یا حکومت میں کسی مقام کی تلاش یا پھر اپنے لئے قومی سطح پر کسی کردار کی آرزو کیسے کی جا سکتی تھی۔یہ ایک مثال ہے کہ پاکستان میں سنی اسلام اور سنی بنیاد پرستی کو کیسے فروغ دیا گیا اور اسلام کی ایسی توجیح پیش کی گئی جس میں لچک نہیں تھی ۔یہ وہ وقت تھا جب شیعہ اپنے جائز مطالبوں سے بھی دست بردار ہونے لگے۔

اس رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اقلیتیں کیسے سیاسی اور سماجی سطح پر محدود ہو کر رہ گئیں اور انھیں تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا ۔ایمان کی بنیاد پر تشدد،ٹارگٹ کلنگ ،اغواء برائے تاوان،نفرت انگیز اشتعال اب صرف غیر مسلموں تک محدود نہیں تھا بلکہ اقلیتی مسلمان فرقے جن میں شیعہ،بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کو ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر مسلسل نشانہ بنایا جا رہا تھا ۔ریاست کی ملی بھگت کی وجہ سے اقلیتوں پر ظلم و ستم میں اضافہ ہوتا رہا اور ایسا کرنے والوں کو کبھی سزا نہیں ملی ۔اقلیتوں کے خلاف امتیازی قوانین ،ان کا سماجی اور معاشی استحصال اور سیاسی تنہائی کی اپنی ایک تاریخ تھی جس کو برسر اقتدار آنے والی جمہوری اور فوجی حکومتوں نے جاری رکھا۔توہین مذہب کے قانون کی دہشت نے اقلیتوں کو چپ سادھنے پر مجبور کئے رکھا کیونکہ مسلمانوں سمیت ان کا کوئی بھی دشمن محض ذاتی مخاصمت کی وجہ سے انھیں اس قانون کی زد میں لا سکتا تھا۔یہ ناموافق قوانین کا اثر تھا جس نے معاشرے کا مجموعی تاثر ، تصور ، فکر ی و نظریاتی تصورات اور اس کی روایت کو بالکل بدل کر رکھ دیا ۔

بلوچستان میں شیعہ ہزارہ کی نسل کشی سے متعلق ہیومن رائٹس واچ رپورٹ 2014یہ بات زور دے کر کہتی ہے کہ حکومت پاکستان بلوچستان میں سنی بنیاد پرست گروہوں کو روکنے اور انھیں ہزارہ اور دوسرے شیعہ گروہوں کی مزید قتل و غارت سے باز رکھنے کیلئے ضروری اقدامات کرے ۔2008سے شیعہ ہزارہ کے کئی سو افراد کو ٹارگٹ کر کے مارا جا رہا ہے سب سے خطرناک حملہ جنوری اور فروری 2013میں کئے گئے جن کے نتیجے میں 180افراد جانوں سے گئے ۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان حملوں کی تفتیش کے لئے سول اور ملٹری فورسز نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی جس سے مجرموں کو اور زیادہ شہ ملی اور وہ شیعوں کی مجلسوں ، ان کے مذہبی قافلوں اور ان کے گھروں کو اور زیادہ نشانہ بنانے لگے۔

جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں نسلی اور فرقہ وارانہ اموات کا سلسلہ پھیل گیا جن میں سندھ میں نسلی فسادات،بریلوی اور دیوبندیوں کے عسکری گروہوں کے درمیان فرقہ وارارنہ جھڑپیں،سرگرم بلوچوں کے خلاف جبر و تشدد، عیسائیوں اور احمدیوں کے خلاف مہم،لشکر جھنگوی ،سپاہ صحابہ اور طالبان کی جانب سے ہزارہ اور شیعوں کے خلاف زبردست مہم جس کے نتیجے میں گزشتہ سال سینکڑوں لوگ مارے گئے ۔اکتوبر 2014میں ایک مسلح شخص نے کوئٹہ میں ایک بس پر فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں شیعہ ہزاری کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے آٹھ افراد ہلاک ہو گئے جس کے بعد تشدد کی ایسی لہر ابھری جس کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ مارے گئے کئی بچے یتیم ہو گئے،خاندان کے خاندان اجڑ گئے ۔ پولیس مجرموں کو پکڑنے اور انھیں سزا دینے اور ہزارہ کمیونٹی کو تحفظ دینے میں نا کام ثابت ہوئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کئی ہزارہ خاندان ترک وطن کر کے دوسرے ممالک میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ۔

پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی جانب سے فراہم کردہ اعداد وشمار کے مطابق2013میں فرقہ وارانہ فسادات کے 220واقعات رپورٹ کئے گئے جن میں سے 208فرقہ وارانہ نوعیت کے دہشت گرد حملے،فرقہ وارانہ گروہوں کے درمیان 12جھڑپیں بھی شامل تھیں۔جن کے نتیجے میں687افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ان حملوں میں1319افراد زخمی ہوئے جو کہ پچھلے سال سے 46فیصد زائد تھے۔

ملک کے بڑے اقلیتی گروہوں کی صورتحال بھی دگر گوں رہی ۔عیسائیوں ،ہندؤں اور سکھوں پر حملوں کے ملزمان کی گرفتاری یا انھیں سزائیں دینایا پھر ملک میں برداشت کی فضاء کے قیام میں حکومت بری طرح ناکام رہی۔اقلیتیں ،مذہبی شدت پسندوں سے دھمکیوں کے سائے میں جیتی اور مرتی رہیں کیونکہ وہ انھیں کھلے عام نشانہ بناتے اور خوفزدہ کرتے رہے۔حالیہ جاری تشدد کا ایک بڑا ثبوت لاہور میں ایک عیسائی جوڑے کا لرزہ خیز قتل اور انھیں اینٹوں کے اس بھٹے میں جلا کر راکھ کرنا بھی ہے جہاں وہ کام کیا کرتے تھے ۔ایک روز پہلے یہ افواہ پھیلائی گئی کہ مذکورہ جوڑے نے قرآن کی بے حرمتی کی ہے اگرچہ اس کے کوئی شواہد موجود نہیں تھے لیکن پھر بھی جو افسوسناک سانحہ ہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔اگرچہ پنجاب حکومت نے اس واقعے کی تحقیقات کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی اور اس بات کا اعادہ بھی کیا کہ عیسائی کمیونٹی کی جان و مال کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گاجن کو مسلسل دھمکیوں کا سامنا ہے ۔اس موقع پر ہونے والے مظاہروں میں مطالبہ کیا گیا کہ اس اندوہناک سانحہ کے شکار جوڑے کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ وہ علاقے جہاں پر عیسائیوں کو بہت زیادہ خطرات لا حق ہیں وہاں پر انھیں غالب آبادی کے ظلم سے بچایا جائے ۔مگر ان یقین دہانیوں اور وعدوں کو عرصہ بیت گیا اور ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ۔یہ ما حول جس میں ظالم کو ہمیشہ شہ ملتی ہے اور بہت کم ہوتا ہے کہ کسی کو اس کے کئے کی سزا ملے ۔جس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ کوئی بھی مذہبی شعائر کی توہین کے قانون کا غلط استعمال کر کے ظلم و ستم کر سکتا ہے اور معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے سکتا ہے ۔

ہندو جو کہ پاکستان کے سماجی ،معاشی اور سیاسی معاملات میں جدوجہد کرتے آئے ہیں انھیں دوسرے درجے کا شہری سمجھا جاتا ہے ۔ہندو عورتیں جنسی تشدد کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں انھیں اغواء کیا جاتا ہے اور زبردستی ان کا مذہب تبدیل کیا جاتا ہے اور ان کی جبری شادیاں کی جاتی ہیں کیونکہ موجودہ قانونی ڈھانچے میں ان کے تحفظ کے لئے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں ۔ہندو اور عیسائی خواتین کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اس وقت تک نہیں سمجھا جاتا جب تک وہ جنسی زیادتی ،ظلم و جبر ،جبری شادی یا پھر اسے اغواء کرکے کسی اور کو فروخت نہ کر دیا جائے۔تقریباً 20لاکھ ہندو پاکستان میں رہتے ہیں جن کی اکثریت سندھ میں رہتی ہے ۔بہت سے خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹیوں کو پہلے جبری طور پر اغواء کیا جاتا ہے اور پھر ان کی کسی مسلمان کے ساتھ شادی کر دی جاتی ہے مگر وہ اپنی تقدیر کو بدلنے کے لئے کچھ نہیں کر سکتے ۔اس میں گذشتہ چند سالوں سے شدت آچکی ہے اور ہر سال 300سے زائد ہندو عورتوں کو پاکستان میں جبری مسلمان بنایا جاتا ہے ۔حدود آرڈیننس کے تحت اگر نشانہ بننے والی عورت شادی شدہ ہے تو زنا با لجبر بھی بدکاری کے ہی زمرے میں آئے گا ۔خراب تحقیقاتی عمل، گواہوں کی عدم موجودگی اور حملہ کرنے والوں کے ڈر اور خوف کی وجہ سے متاثرہ خواتین اپنے خلاف ہونے والے واقعے کی شکایت بھی درج نہیں کرواتیں ۔حدود آرڈیننس اگرچہ عمومی طور پر تمام خواتین کے خلاف ہی امتیازی ہے مگر اقلیتی خواتین کے خلاف حالیہ واقعات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس کا خاص نشانہ ہیں ۔ جبری طور پر مسلمان بنانے کے واقعات نے ہندو کمیونٹی کے اشتعال میں اضافہ کر دیا ہے وہ با اثر وڈیروں کے خلاف اپنی عورتوں کے اغواء ، خرید و فروخت ،جبری تبدیلی مذہب اور ان سے شادیوں کے خلاف مسلسل آواز بلند کرتے چلے آرہے ہیں ۔مزید یہ کہ جبری مزدوری کے زیادہ تر شکار بھی اقلیتوں سے ہی تعلق رکھتے ہیں ۔

جبری شادیوں اورزبردستی مسلمان کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی اداروں میں اقلیتوں کی نا مناسب نمائندگی اور ان کے خلاف امتیازی قوانین ان پر مزید ظلم ڈھانے کا سبب بن رہے ہیں ۔تعلیمی سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے بھی وہ ان مواقع سے بھی محروم رہ جاتے ہیں جن کی وجہ سے وہ معاشرے کے دیگر طبقات کے مساوی ہونے کے قابل ہوسکتے ۔یہ بات پاک انسٹ ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے سروے میں بھی سامنے آئی جہاں تمام صوبوں کے شرکاء نے کہا کہ وہ معاشی مواقع نہ ملنے کی وجہ سے اس حیثیت سے محروم ہو چکے ہیں جو انھیں پاکستان کے قومی دھارے کا حصہ بنا سکتی ۔پنجاب کے 81فیصد ،سندھ کے 98فیصدنے یہی رائے دی اس کے باوجودسندھ کے 95فیصد کا کہنا تھا کہ وہ اپنی مذہبی اور ثقافتی سرگرمیوں میں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی طرح آزادانہ شرکت کر سکتے ہیں ۔سندھ کے ہی 93.3فیصد ہندؤں کا کہنا تھا کہ وہ قومی دھارے کا حصہ نہیں ہیں جبکہ سندھ کے صرف پانچ فیصد عیسائی سمجھتے ہیں کہ وہ قومی دھارے کا حصہ نہیں ہیں ۔ج بلوچستان کی 96.7فیصد کی رائے تھی کہ انھیں دوسرے درجے کے شہری کی حیثیت حاصل ہے ۔خیبر پختونخواہ کے 77.4فیصد کی بھی رائے ہے کہ وہ قومی دھارے کا حصہ نہیں تاہم انھیں مذہبی آزادی حاصل ہے۔دوسرے صوبوں کے شرکاء کے سامنے بھی اسی طرح کے سوالات رکھے گئے جن سے یہ بات سامنے آئی کہ 90فیصد سے زیادہ کا خیال ہے کہ انھیں اپنی مذہبی اور ثقافتی تقریبات میں شرکت کی آزادی حاصل ہے ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے مذہبی تہواروں کے بارے میں دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا رویہ کیسا ہوتا ہے تو 66فیصد نے اس سوال کا جواب نہیں دیا جب کہ صرف21فیصد نے کہا کہ ان کا رد عمل مثبت ہوتا ہے ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ لین دین یا کاروبار میں کسی مشکل کا سامنا ہوتا ہے تو 82فیصد نے جواب دیا کہ نہیں لیکن دوسری طرف جب ان سے بین المذاہب تعلقات کے بارے میں پوچھا گیا تو 54فیصد نے غیر جانبداری کا اظہار کیا ۔صرف 37فیصد نے کہا کہ وہ اپنے قرب و جوار کے رہنے والوں سے گرم جوش تعلقات رکھتے ہیں ۔ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ قبائلی علاقہ جات اور کے پی کے کچھ شہری علاقوں میں اسلامی تحریکوں کی وجہ سے معاشرے میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ہے بالخصوص اقلیتوں، ان کی عبادات اور ان کے حوالے سے برداشت کی صورت حال ابتر ہوئی ہے ۔

بردباری اور تحمل کے رویوں کا فروغ ریاست کی توجیحات میں کہیں نہیں اگر رفتہ رفتہ ہی کسی ایسے منصوبے پر عمل کیا جائے تو حملوں میں کمی لائی جا سکتی ہے ۔اعتدال پسندی سے انتہا پسندی کے سفر نے پاکستان کو ایک ایسی ریاست میں بدل دیا ہے جو اقلیتوں کا تحفظ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے ۔چرچوں میں دھماکے ہوتے ہیں ،مندروں کو تباہ کیا جاتا ہے ،عبادت گزاروں پر حملہ کر کے انھیں مار دیا جاتا ہے ،بسوں پر حملے ہوتے ہیں ،گھر تباہ کئے جاتے ہیں اور سماجی محفلوں پر حملے ہوتے ہیں ۔ستمبر2013میں پشاور میں عیسائی کمیونٹی پر ایک ہلاکت خیز حملہ ہوا جب آل سینٹ چرچ پر حملے کے نتیجے میں 127افراد مارے گئے اور متعدد زخمی ہوئے ۔جب سروے میں لوگوں سے دریافت کیا گیا کہ کیا وہ اپنی مذہبی عبادات آزادی کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں تو تعلیم یافتہ افراد نے کہا کہ وہ اتنی آزادی کے ساتھ نہیں کر سکتے جتنی انھیں حاصل ہونی چاہئے مگر کم پڑھے لکھے افراد یا جن کی مالی حالت بھی تسلی بخش نہیں تھی انھوں نے کہا کہ وہ اتنی ہی آزادی کے ساتھ اپنی عبادات انجام دے سکتے ہیں جتنی آزادی کے ساتھ دوسرے لوگ انجام دیتے ہیں ۔یا شاید اس کی وجہ ان کاادراک ہو یا وہ خوف ہو جس کی لپیٹ میں اقلیتیں مجموعی طور پر آچکی ہیں ۔

خیبر پی کے میں سروے میں حصہ لینے والوں میں 27.4فیصد عیسائی اور 72.6فیصدسکھ اور دوسرے صوبوں کے تقریباً40فیصد کے پاس انٹر میڈیت کی تعلیم تھی ۔98.4فیصد کی عمر 25سال سے زائد تھی ۔90فیصد نے کہا کہ انھیں اپنی مذہبی تقریبات اور تہواروں میں شرکت کی اتنی ہی آزادی ہے جتنی دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو ہے ۔جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی مذہبی تقاریب اور تہواروں پر دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا کیا رد عمل ہو تا ہے تو 66فیصد نے کہا کہ کوئی خاص نہیں جبکہ صرف 21فیصد نے کہا کہ ان کا رد عمل مثبت ہوتا ہے ۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خیبر پی کے میں نسلی گروہ ابھی تک روایت سے منسلک ہیں ان کی سوچ میں ابھی تک مذہبی برداشت کا سلسلہ پوری طرح ختم نہیں ہوا کیونکہ سروے کے شرکاء کا کہنا تھا کہ انھیں دوسرے مذہبی گروہوں کے ساتھ رہتے ہوئے کسی سماجی ،سیاسی یا معاشی مسئلے کا سامنا نہیں ہوتا ۔80فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ سیکورٹی اور دہشت گردی کا خطرہ سب مذاہب کے ماننے والوں کے لئے یکساں ہے،اغواء برائے تاوان اور لوٹ مار ہر طرف جاری ہے ۔ صرف 25فیصد نے کہا کہ انھیں ان کے مذہب کی وجہ سے ٹارگٹ کیا جاتا ہے ۔72فیصد شرکاء کا کہنا تھا کہ حکومت انھیں وہ سہولیات مہیا کرے جو پنجاب میں انھیں دی جا رہی ہیں ۔

قومی اور ریاستی سطح پر بڑھتی ہوئی خوفناک اور لرزہ خیز وارداتیں ، اس بات کا اظہار ہیں کہ اقلیتوں کے لئے سماجی اور سیاسی معاملات میں گنجائش کم سے کم ہو رہی ہے ۔مسلمانوں اور غیر مسلموں کے مابین کوئی با معنی مکالمہ یا ایک دوسرے کا ادراک نہیں ہو رہا ۔قومی سطح کے مسلمان مذہبی رہنما، ان کی سیاسی جماعتوںیا فرقوں نے آج تک بین المذاہب ہم آہنگی ،برداشت اوربقائے باہمی کے فروغ میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا جس سے شیعہ ،احمدی ،عیسائی ،ہندو اور سکھ کمیونٹی کے خلاف حملے رو کے جا سکتے ۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب بہت سے شرکاء سے سوال کیا گیا کہ انھیں روز مرہ معاملات کی انجام دہی میں ان کی مذہب کی وجہ سے کسی امتیازی رویئے کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو زیادہ تر نے اس کا جواب نفی میں دیا ۔اس کی سبب ایک کثیر نسلی اور مذہبی معاشرے کا باہم گہرا تعلق بھی ہو سکتا ہے کیونکہ وہ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہتے آئے ہیں اور ان کی الگ الگ مذہبی شناخت نے انھیں علیحدہ نہیں کیا ۔تاہم بیرونی مداخلتیں ،یہاں پُرتشددحملوں کے اضافے کاسبب ہیں ۔مثال کے طور پر بلوچستان میں 33فیصد بالغ اور تعلیم یافتہ شرکاء نے کہا کہ انھیں روزانہ امتیازی روئیوں کا سامنا رہتا ہے لیکن63.3فیصد ان سے متفق نہیں تھے۔جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں بطور خاص دہشت گردوں کی جانب سے خطرہ ہے یا پھر یہ خطرہ سب اقلیتوں کے لئے یکساں ہے تو66.7فیصد نے کہا کہ نہیں یہ خطرہ تمام کے لئے ایک جیسا ہی ہے ۔لیکن 23.3فیصد نے کہا کہ ان کے لئے خطرات اس لئے زیادہ ہیں کیونکہ ان کا تعلق عیسائی مذہب سے ہے جس کی مثال چرچوں اوربلوؤں کی صورت ان کی کمیونٹی پر حملے ہیں ۔

سندھ میں 92.4فیصد رائے دہندگان ہندواور ان کے مقابلے پر صرف5.8فیصد عیسائی تھے جس کی وجہ صوبے میں ہندؤوں کی بڑی آبادیاں ہیں ۔ہندؤوں کی زیادہ تر شکایات جبری شادیاں اور ان کی لڑکیوں اور عورتوں کا اغواء،بے روزگاری اور وہ امتیازی قوانین جن کا شکار ہندو اور عیسائی دونوں ہی ہیں ۔سندھ میں ہندو اور عیسائی رائے دہندگان کی آراء سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام طبقات کسی مذہبی ،سماجی اور سیاسی تفریق کے مسائل کے بغیر اکھٹے رہتے ہیں ۔61فیصد نے کہا کہ جہاں وہ رہتے ہیں وہاں پر انھیں کسی خاص مذہب کا پیرو کار ہونے کی وجہ سے انھیں کسی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جبکہ31فیصد نے اس رائے سے اختلاف کیا ۔

پنجاب میں تین بڑے اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے 58فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ انھیں مذہبی ، معاشی اور سیاسی سطح پر ایسے مسائل کا سامنا رہتا ہے جن کا سامنا دوسرے طبقات کو نہیں ہوتا ۔60فیصد کا کہنا تھا کہ سیکورٹی اور دہشت گردی سے متعلق خطرات سب طبقات کے لئے یکساں نوعیت کے ہیں ۔اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ مختلف نسلی گروہوں کے مابین خاص مواقعوں مثلاً شادی بیاہ پر باہمی میل جول قابل اطمینان ہے ۔تاہم 41فیصد روزمرہ معاملات میں امتیازی سلوک کا شکوہ کرتے ہیں اور 51فیصد ایسا نہیں سمجھتے۔پنجاب میں عیسائیوں کے خلاف حملوں کی وجہ سے یہ اعداد و شمار نسبتاً زیادہ ہیں۔

توہینِ رسالت کا قانون ۔۔۔خطرے کی تلوار

غیر مسلموں کو پھنسانے کا سب سے معروف طریقہ ،توہینِ رسالت کا الزام ہے ۔تعزیرات پاکستان کے تحت مقدس کتابوں،ہستیوں کی توہین ، ان سے غلط باتیں منسوب کرنا یا پھر کسی آیت کی غلط تو جیح پیش کرنا ،قابل تعزیرجرم ہے ۔اس کی جڑیں 1860کے برطانوی نوآبادیاتی قانون میں ملتی ہیں ۔جسے پہلے لاء کمیشن نے بنایا تھا جس میں کہا گیا کہ کسی مذہبی عبادت گاہ کو نقصان پہنچانا یا اس کی بے حرمتی کرنا یا کسی بھی مقدس چیز کی توہین کرنا 295کے تحت مجرمانہ فعل ہے ۔1947کے بعد جب پاکستان نے 1860کے قانون کو ہی نافذ کیا تواس میں 295Aکا اضافہ کر دیا گیا اور اس میں مذہبی شعائر کی توہین کو بھی شامل کر دیا گیا ،اس میں ترامیم کا عمل کئی دہائیوں پر مشتمل ہے ۔ضیاء کی اسلامائزیشن کے دوران PPCآرڈیننس کے ذریعے 1982میں اس میں 295-Bکااضافہ کیا گیا جس کے تحت کوئی بھی شخص ارادتاً قرآن کی توہین کرے گا یا اس کی غلط توجیح کرے گا اسے عمر قید تک کی سزا دی جا سکتی ہے۔توہینِ مذہب کے قانون کاشکار اکثر اقلیتیں بنتی ہیں جن کے خلاف پر تشدد حملے کئے جاتے ہیں ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان الزامات اور سزاؤں کا تعین پولیس نہیں بلکہ لوگ کرتے ہیں ۔اور جن پر الزام ہوتا ہے وہ پولیس یا کسی ساتھی قیدی کی طرف سے جیلوں کے اندر ہی مار دیئے جاتے ہیں ۔جج اور وکلاء ایسے کیسوں سے دوربھاگتے ہیں جس کی وجہ سے متعد د کیس زیر التوا ہیں ۔کسی قانونی عمل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے مجرم جیلوں میں مزے کر رہے ہیں ۔

توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کی وجہ سے عدم برداشت اور پُر تشدد انصاف کا چلن عام ہوا ہے ۔کیونکہ حکومت نے ابھی تک اس قانون میں کسی تبدیلی کا اشارہ نہیں دیا ۔ہیومن رائٹس آف پاکستان کے مطابق2013میں 34ٖٖٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓافراد پر توہین مذہب کا الزام لگا ۔اگرچہ پاکستان میں کسی کی سزاپر ابھی تک عمل در آمد نہیں ہوا 16افراد کو پھانسی کی سزا ہو چکی ہے اور 20لوگ عمر قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔اقلیتی احمدی کمیونٹی پنجاب میں انتہا پسند سنیوں کی جانب سے اکثر نشانے پر رہتی ہے کیونکہ پنجاب کے بعض صوبائی حکام ،احمدیوں ،ان کی مساجد اور قبرستانوں کی حفاظت کی بجائے انتہا پسندوں کی حمایت کرتے ہیں ۔

جب پروفیسر محمد شکیل اوج اسلام کے حوالے سے اپنے جدت پسند خیلات کو پھیلا رہے تھے ،انھوں نے کچھ دوسری باتوں کے علاوہ یہ بھی کہا کہ نماز ادا کرنے کے لئے یہ ضروری نہیں کہ میک اپ اتارا جائے تو انھیں دھمکیاں ملنی شروع ہو گئیں جو کئی سالوں تک جاری رہیں ۔کراچی یونیورسٹی کے اسلامک سٹڈیز کے ڈین کی حیثیت سے انھوں نے شانِ نے نیازی کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھیں ۔ستمبر2014میں انھیں کراچی میں اس وقت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جب وہ اپنی ایک خاتون شاگرد کے ساتھ ایران کلچرل سینٹر جا رہے تھے جہاں ان کے ساتھ شام منائی جا رہی تھی ۔

گذشتہ دہائی اور حالیہ سالوں میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم اس وجہ سے نہیں ہو سکی کیونکہ مذہبی کارکنوں کی جانب سے رد عمل کا خطرہ ہے ۔اپریل2011میں مشرف دور حکومت میں توہین رسالت کے الزام کے تحت ایف آئی آر کے اندراج کا طریقہ تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی کہ کسی بھی ایسے الزام کی ایف آئی آر کے اندراج کا اختیار ڈپٹی کمشنروں کو سونپا جائے گا جو عدالت میں کیس بھیجنے سے قبل خود تحقیقات کرے گا ۔جس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب کوئی بے گناہ اس کی بھینٹ نہیں چڑھے گا اور اس قانون کے غلط استعمال کا رستہ بھی رک جائے گا ۔اور وہ لوگ جو ذاتی عناد مٹانے کے لئے اقلیتی کمیونٹی کے خلاف اس قانون کا سہارا لیتے ہیں اس کی نفی ہو گی ۔یہ مجوزہ ترمیم جس کی سفارش ہومن رائٹس اور کئی کانفرنسوں نے کی تھی اس کااجلاس جو اسی سال مئی میں ہو رہا تھا مذہبی طبقات کی جانب سے خوف کی وجہ سے منسوخ کر دیا گیا ۔ریاست اقلیتوں اور اس قانون کا نشانہ بننے والوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہوگئی ۔حالانکہ ان لوگوں کو سزا نہیں دی جاتی جو اس قانون کا غلط استعمال کرتے ہیں ،اقلیتوں پراور ان کی عبادت گاہوں پرحملے کرتے ہیں۔ریاست اس وقت کہیں نظرنہیں آئی جب 2009میں پنجاب میں گوجرہ کے فسادات اورمارچ2013میں جوزف کالونی میں بلوائیوں نے سینکڑوں عیسائیوں کو مار دیا جس کے بعد پوری عیسائی کمیونٹی مشتعل ہو گئی ۔30جولائی اور یکم اگست2009کو جب توہین مذہب کے معاملے پر فسادات بھڑک اٹھے جس کے نتیجے میں سات عیسائیوں کو زندہ جلا دیا گیا ،درجنوں زخمی ہوئے اور ان کے گھر تباہ کر دیئے گئے ۔نومبر2010 کے دوران ایک دوسرے واقعے میں توہین رسالت کے ملزم کو جو ضمانت پر تھا اسے اس کے گھر کے باہر گولی مار دی گئی ۔

2013میں وزارت قانون انصاف و انسانی حقوق نے پارلیمنٹ کو آگاہ کیا کہ ملک بھر میں انسانی حقوق کی 8648خلاف ورزیاں ہوئی ہیں جن میں خواتین کے خلاف تشدد،فرقہ وارانہ تشدد،ٹارگٹ کلنگ ،جنسی طور پر حراساں کرنا اور دوسری خلاف ورزیاں شامل تھیں جو پولیس کے علم میں آئیں۔ان اعداد و شمار میں مسنگ پرسنز کے 141کیس جن میں سے 47کا تعلق بلوچستان سے تھا بھی شامل تھے ۔تاہم توہین مذہب کے حوالے سے قابل ذکر شکایات تو شامل نہ تھیں لیکن یہ کہا گیا کہ اقلیتوں کے بیس ایسے مسئلے ہیں جہاں انھیں قانونی مدد اور تحفظ کی ضرورت ہے ۔پاکستان طویل افغان جنگ کی وجہ سے جنگوؤں کی جنت بن گیا۔مستقبل سے مایوس نوجوان انتہا پسندوں کے لئے آسان نشانہ تھے تاکہ وہ ان کے ذہنوں کومذہبی اقلیتوں کے خلاف کر سکیں۔اقلیتوں کے خلاف تشدد اس لئے بڑھا کیونکہ وہ افراد جو انتہا پسند تھے یا جودنیا کو اپنے مخصوص زاویئے سے دیکھتے تھے انھوں نے تو ہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال کیا ۔توہین مذہب کے قانون کی وجہ سے اقلیتیں خوفزدہ ہو چکی ہیں کیونکہ پولیس انھیں غیر حقیقی الزامات سے تحفظ دینے میں ناکام ثابت ہوئی ہے ۔اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ذہنی اور جسمانی معذور افراد ،بچے اور نوجوان بچیاں حتیٰ کہ چھ سال کی ایک بچی بھی اس الزام کے تحت جیل جا چکی ہیں ۔اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے الزامات کے تحت جیلوں میں قید ملزمان کو اگر سزا نہ بھی ملے تو وہ جیلوں کے اندر ہی مار دیئے جاتے ہیں جو ریاست اور اس کی حیثیت پر ایک سوالیہ نشان ہے ۔انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس میں ایشیا پیسیفک کے ریجینل ڈائریکٹر سام ظریفی کا کہنا ہے کہ ریاست نے انتہا پسندوں کے مقام کو تسلیم کر لیا ہے ۔جو حکومت اپنے شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو جائے وہ نہ صرف ناکام ہو جاتی ہے بلکہ اسے کسی طرح ایک خود مختار ریاست نہیں کہا جا سکتا ۔جہاں یہ صورت حال ہو وہاں پر لوگوں کو قانونی مدد فراہم کرنے کے لئے وکلاء کو آگے آنا چاہئے مگر ایک ایسا ماحول جس میں انتہا پسند لوگوں کو انتہائی بے رحمانہ طریقے سے مار رہے ہوں وہاں یہ کہنا تو آسان ہے مگر کرنا بہت مشکل ہے ۔

موت ۔۔انسانی حقوق کے محافظوں کا مقدر

اقلیتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والے افراد ،جج،وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو جو توہین مذہب کے الزامات کے شکار افراد کو قانونی مدد فراہم کرتے ہیں کو اپنے ساتھیوں اور مذہبی گروپوں کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاوقتیکہ ان پر حملے نہیں ہوتے اور انھیں مار نہیں دیا جاتا ۔یکم مئی 2014کو 55سالہ راشد رحمٰن کو ملتان میں ان کے دفتر میں گولی مار دی گئی کیونکہ وہ توہین مذہب کے ایک ملزم کے کیس کی پیروی کر رہے تھے ۔ وہ گزشتہ بیس سال سے انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے ساتھ وابستہ تھے جہاں وہ عورتوں ، مزارعوں ،اقلیتوں اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کی جنگ لڑ رہے تھے ۔جب یونیورسٹی کے ایک لیکچرر جنید حفیظ کا کیس کسی بھی وکیل نے لینے سے انکار کر دیا تو ایسے میں راشد رحمٰن آگے آئے ۔ راشد رحمٰن کو عدالت میں ہی مخالفین کی جانب سے دھمکی دی گئی ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ توہین مذہب کا قانون مذہبی تشدد کو ہوا دیتا ہے اور لوگ ان کو بھی مارنے سے نہیں ہچکچاتے جو ایسے افراد کا کیس لڑتے ہیں چاہے وہ انسانی حقوق کے کارکن ہی کیوں نہ ہوں ۔اکثر وکلاء کا کہنا ہے کہ ایسے ہائی پروفائل کیسوں میں اپیلیں سننے کے لئے ججز بھی دستیاب نہیں ہوتے کیونکہ وہ ردعمل سے خوف زدہ ہوتے ہیں ۔

اے رحمٰن اپنے بھتیجے جو کہ مظلوموں اور بے کسوں کے لئے لڑتے ہیں کے بارے میں ڈان میں لکھتے ہیں ۔’’جب اس سے مدد مانگی جاتی تو پھر کسی کو انتظار نہیں کرنا پڑتا تھا ،وہ پہلا آدمی تھا جس نے مختاراں مائی کا کیس اٹھایا اور یہ وہی تھا جس نے شیری رحمٰن کے وکیل استغاثہ کا سامنا ہائی کورٹ تک کیا ۔ہم نے ایچ آر سی پی میں مظلوموں اورمحکوموں کے لئے ان کی پرجوش اور بے باکانہ کوششوں کے بارے میں بارہا اپنے خدشات کا ظہار کیا۔۔کیونکہ ہم ایک بے مہار معاشرے میں رہ رہے ہیں اور کسی میں یہ ہمت نہیں کہ وہ دیوار پر لگے آئینہ میں اپنی شکل تک دیکھے ‘‘۔

اسلام آباد کے ایک تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز کے 2012کے ایک مطالعے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ توہین مذہب کے الزامات کے کیسوں میں اضافہ ہوا ہے اور 2011کے دوران 80کیس سامنے آئے جب کے اس کے مقابلے پر 2001میں صرف ایک کیس سامنے آیا تھا ۔انتہا پسند گروہ نسلی اور مذہبی اقلیتوں اور وہ تمام لوگ جواپنادفاع نہیں کر سکتے ,نیچے سے اوپر تک اور حکومتی ایوانوں میں بیٹھے وزیروں تک کو کامیابی سے نشانہ بنا تے ہیں ۔جس کا مقصد اقلیتوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ وہ اور ان کے ساتھ جو بھی ہو گا اس کو نہیں چھوڑا جائے گا ۔ایچ آر سی پی کی چیئر پرسن زہرا یوسف کا کہنا ہے کہ بہت سوں کا ایمان ہے کہ توہین مذہب کے ملزموں کا وکلاء کو دفاع نہیں کرنا چاہئے ۔اس کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 1995میں جسٹس عارف اقبال بھٹی نے دو عیسائی بھائیوں کو توہینِ مذہب کے الزام سے بری کر دیا جس پر انھیں دھمکیاں دی گئیں اور 1997میں انھیں قتل کر دیا گیا ۔امریکہ کے کمیشن آن انٹرنیشنل رلیجس فریڈم نے 2014کی عالمی رپورٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان کا توہین مذہب کا قانون اقلیتوں کے لئے بہت تشویشناک ہے کیونکہ اس کے ذریعے انھیں عمر قید یا سزائے موت کی سزا دے دی جاتی ہے اور عموماً جس الزام میں انھیں یہ سزا دی جاتی ہے وہ انھوں نے کیا بھی نہیں ہوتا ۔مذید برآں یہ کہا کہ اس قانون کے سائے تلے بلوائیوں نے ازخود قانون کا نفاذ بھی اپنے ذمے لے لیا ہے اور جن پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے ان کے خلاف وحشیانہ انصاف کیا جانے لگا ہے ۔

حتی ٰ کہ حکومت کا وفاقی وزیر جو کہ اقلیتوں کی آواز تھا اس کو بھی اس کے اس عمل کی وجہ سے دھمکیا ں دی جانی لگیں ۔جب نومبر2010میں ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے سلسلے میں سزائے موت ہوئی تو اس وقت کے صدر آصف زرداری اپنے صوابدیدی اختیارات کے تحت اس کی سزا معاف کرنا چاہتے تھے ۔مگر ان کی اتحادی جماعت جے یو آئی ف نے اس معاملے کو چیلنج کر دیا جس کی وجہ سے وزیر قانون کی وہ کوششیں بھی بار آور ثابت نہ ہو سکیں جو اس قانون میں ترمیم کے بارے میں تھیں ۔2011میں اس وقت کے گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے آسیہ بی بی سے جیل میں ملاقات کی اور توہین رسالت کے قانون کی ترمیم پر زوردیا جس پر انھیں اسلام آباد میں ان کے محافظ نے ہی قتل کر دیا ۔سلمان تاثیر کی حمایت سے شیری رحمٰن اسمبلی میں توہین رسالت کے قانون میں ترمیم کا بل پیش کرنا چاہتی تھیں مگر سلمان تاثیر کی موت کے بعد ایسا نہ ہو سکا ۔سلمان تاثیر کے قاتل کو مذہبی انتہا پسندوں کی جانب سے ہیروکا درجہ ملا اس کے عمل کو جائز ثابت کیا گیا اور اسے مکمل عدالتی مدد فراہم کی گئی ۔جب عدالت نے اسے سزائے موت سنائی تو اسلام آباد کی ایک مسجد کا نام تبدیل کر کے اس کے نام پر رکھ دیا گیا ۔سلمان تاثیر کے قتل کے بعد وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی کا بھی قتل ہوا جو کہ گورنر پنجاب کی طرح اقلیتوں کے حقوق کے لئے اور توہین مذہب کے قانون میں ترمیم کی ایک مظبوط آواز تھا۔

پانچ بچوں کی ماں آسیہ بی بی نے پانچ سال جیل کی سلاخوں کے نیچے سزائے موت کے قیدی کی حیثیت سے گذار دیئے ۔اس پر الزام تھا کہ اس نے کھیتوں میں کام کے دوران اپنی ایک مسلم ساتھی خاتون سے گفتگو میں نبی کریم ؐ کی شان میں گستاخانہ الفاط کہے تھے اور ایک کنویں سے ایک گھونٹ پانی پی کر اسے ناپاک کر دیا تھا ۔اسے اکتوبر 2014میں سزائے موت سنائی گئی ۔جس کے خلاف اس کے وکلاء نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے ۔عالمی برادری آسیہ بی بی کی سزا ختم کرنے اور قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کررہی ہے مگر ابھی تک اس سلسلے میں نہ تو آسیہ بی بی کی سزا ختم ہوئی ہے اور نہ ہی ان لوگوں کے حق میں کچھ ہو سکا ہے جو اس قانون کی وجہ سے الزامات کی زد میں ہیں ۔

انسانی حقوق کی جنگ لڑنے والے کہتے ہیں کہ اس قانون کو ذاتی مخاصمت مٹانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور عدالتوں میں کوئی ثبوت بھی نہیں دیا جاتا ۔ جج بھی کیس سننے سے گھبراتے ہیں ۔غلط الزام لگانے والے کے لئے کسی سزا کا تعین بھی نہیں ہے ۔اس قانون کا دائرہ کتنا وسیع ہے اس کی ایک حالیہ مثال یہ ہے کہ پنجاب پولیس نے ان 68وکلاء کے خلاف بھی توہین رسالت کا مقدمہ درج کر لیا جو کہ پولیس کی جانب سے اپنے ایک ساتھی کے قید کے خلاف احتجاج کر رہے تھے ۔

ایک وکیل جو کہ توہین رسالت کیس میں ایک ملزم کا دفاع کر رہا تھا اس کا کہنا تھا کہ جب اس کے ساتھیوں کو معلوم ہوا کہ میں ایک ایسا کیس لڑرہا ہوں تو ان کا کہنا تھا کہ تم نے اپنی جان کو خطرات میں ڈال دیا ہے اور تم پر حملہ ہو جائے گا ۔مجھے مشورہ دیا گیا کہ تم غائب ہو جاؤ۔انھوں نے کہا کہ میرے ساتھی وکلاء نے سپریم کورٹ کے احاطے میں میرے ساتھ بدتمیزی کی اور مجھے خبر دار کیا ۔نچلی عدالتوں میں اگر ثبوت نہ بھی ہوں تو ملزم کو سزا ہو جاتی ہے کیونکہ سزا نہ ہونے کی صورت میں بلوائیوں کی جانب سے خطرہ ہوتا ہے۔


’’سینئر وکیل سلمان راجہ کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے کیسوں کی اپنی الگ فطرت ہوتی ہے کیونکہ مذہبی جنون کی وجہ سے لوگوں کے جذبات انتہا کو ہوتے ہیں اور وہ کسی بھی وقت پر تشدد ہو سکتے ہیں ۔ان حالات میں کسی مظلوم کا دفاع کرنا اپنی جان کو خطرات میں ڈالنا ہوتا ہے ‘‘۔

سلمان راجہ کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے ملزموں کے ساتھ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہمیں اٹلی میں مافیا کے کیسوں کی طرز پر سماعت کو ماڈل بنانا ہو گا اور ایسے کیسوں کو وکلاء اور ججز سمیت عام سے خفیہ جگہوں پر منتقل کرنا ہو گا تاکہ وکلاء اور ججوں کی شناخت ظاہر نہ ہو ۔اگرچہ یہ قدامت پسندی ہو گی مگر انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ایسا کرنا ناگزیر ہے کیونکہ ان حقوق کا دفاع کرنے والوں کو تحفظ اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہچانے کے عہد کو حکومتیں نظر انداز کرتی آئی ہیں جس کی وجہ سے ظالم کے خلاف مظلوم کا ساتھ دینے والوں کی اپنی جان خطرات میں گھر جاتی ہے ۔

پاکستانی اقلیتوں کے خلاف پر خطر ہجوم ، منافرت ،قتل و غارت ،مذہبی عبادت گاہوں کی توڑ پھوڑ ،گالم گلوچ اور دھمکیاں اب روز مرہ کا معمول ہیں ۔وہ اب انتہا پسندوں کی وجہ سے سماجی اور سیاسی طور پر قومی دھارے سے الگ ہو کر رہ گئی ہیں۔سندھ کے دہی علاقوں میں ہندو اور نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ان کی نوجوان عورتوں کو اغواء کر لیا جاتا ہے انھیں جبری طور پر مذہب چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ شادی پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان غیر مسلموں کو برابر کے شہری حقوق اور انھیں تحفظ دینے کے لئے تعزیرات پاکستان کی شق 295BاورCکو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتا آرہا ہے ۔کیونکہ اس میں ابہام اور قانونی پیچیدگیاں ہیں ۔کیونکہ بہت سے کیسوں میں تین گھناؤنے حقائق دیکھے گئے ہیں۔ایک یہ کہ اکثر ایسے کیسوں کے پیچھے کاروباری رقابت ہوتی ہے ،یا کسی کی جائیداد پر قبضہ کرنا ہوتا ہے جس کے لئے چند مولویوں کو ساتھ ملا کر پہلے ایف آئی آر درج کرنی ہوتی ہے اور پھر انتہا پسندوں کے ساتھ عدالتوں کا محاصرہ کرنا ہوتا ہے تاکہ دباؤ میں فیصلہ کروا لیا جائے ۔

حکام کی جانب سے عدم توجہی ،عدالتوں ، انتظامی یا قانونی سطح پر اقلیتوں کو عدم تحفظ در حقیقت ریاست کو بھی شریک جرم بنا دیتا ہے ۔عدالتیں خوف میں سماعت کرتی ہیں ۔ ملزم تھانوں ،جیلوں کے اندر اور عدالتوں کے باہر غیر محفوط ہوتے ہیں ۔اور جو ہائی کورٹ سے بری ہوئے وہ پاکستان چھوڑنے پر مجبور کر دیئے گئے اور وہ جج جس نے ایک بچے کو رہا کیا تھا ریٹائرمنٹ کے بعد ہلاک کر دیا گیا ۔

اسلامی ریاست میں اقلیتوں کے تحفظ کا ذمہ دار کون ؟

اقلیتوں کے حقوق کے حوالے سے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے سروے سے دو سوال ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔حکومت اقلیتوں کے کچھ گروہوں کے خلاف وحشیانہ تشدد کو روکنے میں کیوں ناکام ثابت ہوئی ہے ،انھیں ایسے قانون میں پھنسایا جاتا ہے جو اکثر و بیشتر غلط استعمال ہوتا ہے ،اس تاریخی سچائی کے باوجود کہ یہ لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے آئے ہیں ۔اکثریتی طبقہ کی جانب سے انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر غیرمسلموں کے خلاف ظلم مسلسل کیوں جاری ہے ؟اور سماجی اور معاشی دھارے سے اقلیتوں کو کیوں بے دخل کر دیا گیا ہے ۔قومی ریاست یہ ذمہ داری کیوں نہیں ادا کر سکی کہ وہ تکثیریت کو فروغ دیتی ، انتہا پسندی اور عالمی تنگ نظری کا تدارک کرتی۔جب سروے کے نتائج کا جائزہ لیا گیا تو پنجاب سے تعلق رکھنے والے 42فیصد شرکاء نے کہا کہ ریاست کا قانون امتیازی نہیں ہے جبکہ 50فیصد نے کہا کہ امتیازی سلوک کا سامناکچھ گروہوں کی جانب سے ہے ۔ 49.5فیصد نے کہا کہ کام کرنے والی جگہوں پر امتیازی سلوک مروجہ ہے اور43فیصد نے کہا کہ انھیں اپنی عبادت گاہوں میں خطرہ ہے ۔اگرچہ65.7فیصد کا موئقف تھا کہ وہ اپنے مذہبی تہوار آزادانہ طور پر منا سکتے ہیں ۔جب سندھ میں یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا ریاست کا قانون سب کے لئے یکساں ہے تو 49فیصد نے ہاں میں جواب دیا اور 45فیصد نے کہا کہ نہیں یہ کچھ کے لئے امتیازی ہے ۔62.2فیصد نے کہا کہ ملازمت کے مواقع بھی سب کے لئے یکساں ہیں ۔جب بلوچستان میں یہ سوال کیا گیا کہ قانون مساوی ہے تو 60فیصد نے کہا کہ ہاں جبکہ اس کے ساتھ ہی 73.3فیصد نے کہا کہ جب ہم روزگار مانگتے ہیں تو پھر یہ امتیازی ہو جاتا ہے ۔43.3فیصد عیسائیوں کا کہنا تھا کہ انھیں امتیازی سلوک کا سامنا ہے ۔

ملک بھر کے چاروں صوبوں میں کئے جانے والے سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ شرکاء کی آراء ان کی تعلیم اور مذہب کی بنیاد پر مختلف ہیں ۔میٹرک والے کی رائے ایم اے والے سے مختلف ہے ، ہندو اور سوچتا ہے ، سکھ ، عیسائی مختلف۔یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ شرکاء کے شعور کی سطحیں اپنے حقوق ،امتیازی سلوک اور قانون کے حوالے سے مختلف ہیں ۔سندھ جہاں پر اکثر شرکاء ان پڑھ ،غریب اور لاچار کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں وہاں ان کے خلاف ایذا رسانی اور حاشیہ آرائی عام ہے اور یہ عمل گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری و ساری ہے ۔ اور جب ان کے خلاف کوئی ظلم و جبر ہوتا ہے تو وہ رد عمل کے خوف کی وجہ سے اس کا تزکرہ بھی نہیں کرتے ۔ان کا خیال ہے کہ مقامی سیاسی رہنما جن کو طاقت کے ایوانوں کی آشیر باد حاصل ہے وہ ان کے تنقید سے ناراض ہو سکتے ہیں ۔بہت سے ہندو مسلمان جاگیرداروں کے پاس جبری مشقت کررہے ہیں اس لئے وہ اپنے مصائب سے پردہ نہیں اٹھا سکتے۔مزید برآں وہ یہ بھی سوچتے ہیں کہ پولیس اور انصاف کے موجودہ نظام کے تحت ان کی آواز کی حیثیت ہی کیا ہے ۔سندھ کے ہندؤں اور نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والوں اور پنجاب کے عیسائیوں کوروز مری زندگی میں دیگر شہریوں کے مساوی حقو ق،تعلیم اور غیر امتیازی رویہ اور روزگار یہ سب مہیا نہیں ہے ۔

پنجاب کے تین اقلیتی گروہوں عیسائی ، ہندو اور بہائی اپنی ضروریات کے حوالے سے حکومتی روش سے مطمئن نہیں ہیں با لخصوص جب وہ اپنا تقابل دیگر مذہبی گروہوں سے کرتے ہیں لیکن جب ان سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ ریاست کا قانون امتیازی ہے تو 42فیصد کہتے ہیں کہ ایسا بھی نہیں ہے ۔

سروے سے یہ بات بھی واضح ہوئی ہے کہ شرکاء اپنے اعتقاد پر قائم ہونے کے باوجود دوسرے مذہبی گروہوں کے ساتھ مل جل کر رہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے لیکن ملک کی مجموعی صورتحال اور شدت پسندی کی لہر سے خطرہ محسوس کرتے ہیں ۔شرکاء کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کے لئے مذہبی ہم آہنگی کی جڑیں یہاں تاریخی طور پر مظبوط ہیں ۔پر امن تعلقات کے لئے مذہبی طور پر مخلوط ہمسائگی میں جو ہم آہنگی موجود ہے وہ ایک مثبت اشارہ ہے۔جس کو ان گروہوں کی بھی حمایت حاصل ہے جو اپنے علاقوں میں امن اور بقائے باہمی کی داعی ہیں ۔اگرچہ چاروں صوبوں کے شرکاء اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ کسی بڑے سماجی اور معاشی دھارے کا حصہ نہیں ہیں اور انھیں قومی سطح پر اقلیت ہی کے طور پر سمجھا جاتا ہے ۔یہ تفریق اس لئے بھی ہے کہ اقیتوں کو طویل عرصے سے سیاسی طور پر فیصلہ سازی کے امور سے الگ رکھا گیا ہے اور انتہا پسندی کے پھیلنے کی وجہ سے دائیں بازو کی مذہبی قوتوں نے انھیں نشانہ بنایا ہے ۔

نتائج:اقلیتوں کیلئے کوئی جگہ نہیں

تکثیریت کی حامل جمہوریتوں میں اقلیتوں کا مسئلہ مشکلات اور چیلنجز سے دوچار ہے ۔لیکن سب کو ان کے حقوق ،اقدار اور مذہبی شناخت کے تحفظ کی اہمیت کا ادراک ہے تاکہ ان کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے جس میں آزادی کے ساتھ نہ صرف وہ اپنی عبادات بجا لاسکیں بلکہ وہ سیاسی اور معاشی عمل میں بھی آگے بڑھ سکیں ۔قیام پاکستان کے وقت اس کے بانیوں کے پیش نظر مذہبی ریاست نہیں تھی ،جناح ، اقبال اور لیاقت علی خان سب کا مقصود ایک ہی تھا ۔23مارچ 1940کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں منظور ہونے والی قراد دادِ پاکستان میں کہا گیا کہ ’’اقلیتوں کو آئین میں مناسب ، پر اثراور ضروری تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ وہ مذہب ، ثقافت ،معیشت سیاست اور انتظامی معاملات میں آزادہوں نہ صرف پورے انڈیا میں بلکہ ان علاقوں میں بھی جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں ‘‘۔تاہم یہاں پر قومی اور مذہبی شناخت کا ایک اتصال ہے جو مستقبل میں آنے والے واقعات اور قوم کی سمت کا تعین کریں گے ۔1973کے دستور میں کہا گیا ہے کہ ’’اقلیتوں کو مناسب ماحول فراہم کیا جائے جس میں وہ اپنے مذہب اور اقدار کی آزادانہ پاسداری کر سکیں ‘‘۔ضیاء دور میں قرار دادِ مقاصد کو جب آئین کا جزو لاینفک مانا گیا تو اس میں لفظ آزادانہ کو نکال دیا گیا ۔اگرچہ یہ سب یقین دہانیاں انھیں آزادانہ طور پر اپنی عبادات کی انجام دہی اور کسی بھی ظلم و زیادتی سے تحفظ فراہم کرنے کے لئے ہیں مگر پھر بھی عملاً جو صورتحال ہے وہ اس سے یکسر مختلف ہے جس کا وعدہ ایک اسلامی ریاست نے اقلیتوں کے ساتھ کیا ہے ۔Minority Rights Group Internationalنے اپنی رپورٹ برائے 2014میں پاکستان کو ان دس ممالک میں ساتویں نمبر پر رکھا ہے جہاں پر اقلیتوں کو سب سے زیادہ خطرات ہیں ۔یہ رپورٹ کہتی ہے کہ اقلیتوں کو لاحق خطرے کی ایک وجہ حکومت اور معاشروں کی جانب سے اقلیتوں کے ساتھ امتیازی عمل کو نظر انداز کرنا بھی ہے ۔یہ خطرہ صرف فرقہ وارانہ نہیں بلکہ سندھ میں سیاسی و نسلی تشدد بھی ہے ۔سندھ میں دیوبندی اور بریلوی عسکری تنظیموں کے درمیان جھڑپیں ،بلوچستان میں بلوچی کارکنوں پر ظلم و جبر ،عیسائیوں اور احمدیوں کے خلاف جاری تشدد،لشکر جھنگوی ،سپاہ صحابہ اور طالبان کی جانب سے ہزارہ اور شیعہ کمیونٹی کی نسل کشی جس کی نتیجے میں صرف گذشتہ سال کے دوران سینکڑوں افراد مارے گئے ۔یہ صورتحال حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے کہ وہ اس مسئلے کے تدارک کے لئے کچھ کرے ۔State of the World's Minorities and Indigenous People 2014کی سالانہ رپورٹ میں ’’نفرت سے آزادی ‘‘کے نام سے گروپ نے کہا کہ مقامی افراد کی طرف سے اقلیتوں کو ہراساں کرنے سے لے کر ان پر بلا امتیاز حملے اور قتل و غارت کا خطرہ ہے ۔اقلیتوں کے خلاف مسلسل دھمکیوں ، وحشیانہ حملوں ، منافرت اور قتل و غارت کے کھلے ثبوتوں کے ہوتے ہوئے ملک میں جاری انتہاپسندی کے ماحول میں مذہبی ، سماجی ،معاشی اور سیاسی امتیاز جاری ہے ۔حکومت کی عمل داری اور اس کے کمزور سیاسی عزم کی وجہ سے یہ چنگاریاں بھڑک اٹھی ہیں اور لوگ اندرون اور بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہو گئے ہیں ۔

پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین ۔۔۔۔ایک تاریخی جائزہ

( برطانیہ کی نو آبادیاتی انتظامیہ نے مسلمانوں اور ہندؤں کے درمیان مذہبی کشیدگی کو دیکھتے ہوئے تقسیم سے پہلے مختلف سیاسی گروہوں کی حمایت سے توہین مذہب کے حوالے سے کچھ قوانین لاگو کئے ۔برطانوی حکمرانوں نے اس مقصد کے لئے 1860میں مقبروں کی حفاظت کے لئے بھی قوانین نافذ کئے ۔

( ان قوانین میں 1927میں ترمیم کرتے ہوئے یہ اضافہ کیا گیا کہ کوئی بھی طرز عمل جس سے کسی بھی مذہب یا اس کے ماننے والوں کی دانستہ یا نادانستہ دل آزاری ہو یا ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے اس جرم پر جیل یا جرمانے کی سزا ہو سکتی ہے ۔اس قانون کو پاکستان نے 1947کے بعد بھی اپنا یا ۔مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان جاری کھچاؤ کی وجہ سے دائیں بازو کی مذ ہبی طاقتوں کو بھی شہ ملی کہ وہ منافرت اور عدم برداشت کو ہوا دیں ۔یہ صورتحال مغربی پاکستان میں مجلس احرار کی جانب سے احمدیوں کے خلاف تحریک کی وجہ بن گئی جو آخر کا ر انھیں غیر مسلم قرار دینے پر منتج ہوئی جس سے اسلام پسندی کے عمل نے جڑیں پکڑنا شروع کر دیں ۔

( 1980کی دہائی میں ضیاء دور میں توہینِ مذہب کے قوانین کو اسلام کا لبادہ اوڑھایا گیا ۔اسلام آباد میں کام کرنے والے ایک ادارے سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی سٹڈیز کی تحقیق کے مطابق 1977اور1988کے درمیان 80زائد کیس اس ضمن میں درج کئے گئے ۔

1980اور1984کے درمیان توہین مذہب کے قانون میں مذید ترامیم کی گئیں ۔295-Bالہامی کتابوں سے متعلق اور 295-Cنبی کریم ؐ کی اہانت سے متعلق تھی ۔295-Bپاک ہستیوں اور پاک جگہوں کا احاطہ کرتی ہے اور295-Cقادیانیوں کو جانب سے خود کو مسلمان کہلانے پر قدغن لگاتی ہے ۔

( ضیاء دور میں 1982میں کی جانے والی ترامیم کے بعد قرآن کی بے حرمتی پر عمر قید کی سزا متعارف کروائی گئی ۔

( 1984میں احمدیوں کی جانب سے خود کو مسلمان ظاہر کرنا ممنوع قرار دے دیا گیا ۔

( 1986میں نبی کریم ؐ کی شان میں گستاخی کرنے والے کے لئے سزائے موت کا تعین کیا گیا ۔

( بہت زیادہ تعداد میں ایسے کیس سامنے آنے پر نچلی عدالتوں نے انھیں ہائی کورٹس میں بھیجنا شروع کر دیا ۔

( ابھی تک ایسے کیسوں میں کسی بھی مجرم کو پھانسی نہیں ہوئی مگر بہت سے مجرم جیلوں میں مار دیئے گئے یا اس وقت ہلاک کر دیئے گئے جب انھیں ضمانت پر رہا کیا گیا تھا ۔



(تلخیص و ترجمہ :سجاد اظہر )