working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پاکستان اور سنگاپور میں انتہا پسندی اور اس کے تدارک کا موازنہ
اشتیاق احمد

انتہا پسندی اس وقت دنیا بھر کا سلگتا ہوا مسئلہ بن چکا ہے اور تقریباً ہر ملک اس عفریت کا سامنا کر رہا ہے۔ کہیں اس کی شدت زیادہ ہے اور کہیں کم۔ تاہم بہت سے ممالک نے بروقت اقدامات کرکے انتہا پسندی کے خطرے سے اپنا بچاؤ ممکن بنایا۔ سنگا پور میں مختلف مذاہب اور قوموں کے مابین بہتر باہمی تعلقات کے فروغ کے لئے سنگا پور کی حکومت نے اپنی پالیسی میں واضح تبدیلیاں کی ہیں۔ سنگاپور کے وزیراعظم مختلف مذاہب اور قوموں کی تقاریب میں شریک ہوتے ہیں، ایسے رہائشی بلاک بنائے گئے ہیں جہاں مختلف قوموں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو رہائش فراہم کی جاتی ہیں تاکہ مختلف قومیتوں کے مابین باہمی روابط کو فروغ دیا جاسکے۔ درحقیقت سنگاپور میں ایک دو ایسے واقعات ہوئے ہیں جن کے باعث یہ خطرہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سنگاپور میں عسکریت پسند گروہ منظم ہو سکتے ہیں جس کا بروقت تدارک ازحد ناگزیر تھا۔ اسی طرح پاکستان میں گزشتہ کئی ایک برس سے عسکریت پسندوں نے ملک کے امن و امان کی صورتحال میں ابتری پیدا کر رکھی ہے۔ گزشتہ ادوارِ حکومت میں بھارت کے مقابل پاکستانی حکمرانوں نے پاکستان کا منفرد تاثر راسخ کرنے کی کوشش کی اور قائداعظم کی فکر کو یکسر فراموش کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں انتہا پسند رویوں کو فروغ حاصل ہوا۔ بہرحال اب حکمرانوں نے صورتحال کا ادراک کر لیا ہے اور عسکریت پسندوں کے خلاف نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مضمون نگار نے پاکستان اور سنگارپور میں انتہا پسندی اور اس کے تدارک کا موازنہ کیا ہے جو پیشِ خدمت ہے۔(مدیر)

مذاہب کے سیاسی تنوع اور اس سے وابستہ ہیجان انگیزی اور دہشت گردی دنیا بھر میں بے چینی کا سبب بنی ہے اور اس صورت حال کو ایک متفقہ اصطلاح سے پہچانا جاتا ہے جسے حرفِ عام میں Redicalization یا انتہا پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں قائم Foundation for Defense of Democracies مغرب میں رہائش پذیر مسلمانوں کے تناظر میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے منصوبے پر کام کر رہی ہے۔(1) اس کے علاوہ Swiss Centre میں بھی بین الاقوامی سیکورٹی کے نیٹ ورک پر کام کیا جا رہا ہے۔(2) ملکی سطح پر بھی کئی ایک اداروں میں بین الاقوامی تعاون سے پھیلنے والی انتہا پسندی پر نظر رکھی جا رہی ہے اور اس کے تدارک کے لیے کئی ایک اقدامات بھی زیرِ غور ہیں۔ اسی تناظر میں جنوب مشرقی ایشیاء کی چھوٹی سی ریاست سنگاپور اور جنوبی ایشیا کی دوسری طاقت ور ترین مملکت پاکستان، دونوں ہی مختلف نوعیت کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے سرگرداں ہیں اور یہ دونوں حکومتیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر اس عفریت پر قابو پانے کے لیے جامع حکمت عملی ترتیب دے رہی ہیںاور عوامی تعمیر و ترقی کے اقدامات کر رہی ہیں۔

اقوام عالم کے انتہا پسندی کے موضوع پر ارتکاز نے اس کی واضح تشریح اور دہشت گردی کے باہمی تعلق کی اہمیت کو بڑھا دیا ہے۔ لغت میں Redical سے ''جڑ تک کھوجنا'' مراد لیا گیا ہے۔ یہ ایک عمومی اصطلاح ہے۔ اگر سیاسی اور تخیلاتی پیرائے میں سادگی سے تعریف کی جائے تو یہ کچھ یوں ہو گی '' تاریخ کے جبر کے تحت تبدیل شدہ حالت کی اس کے اصل کی جانب رجوع کرنا'' چنانچہ انتہا پسندی ایک ایسا عمل ہے جس میں وقت کی حرکت ماقبل تہذیب کے زمانے کی طرف ہوتی ہے۔

انتہا پسندی کی تعلیم کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اس میں جہالت کا عنصر غالب ہوتا ہے چنانچہ جہالت کو دور کرنے کی خاطر مفت تعلیم کی سہولت مہیا کرنے یا بوڑھوں کے لیے مخصوص کلاسوں کے اجراء سے انتہا پسندی کی ایک شکل مراد لی جا سکتی ہے اور اسے لوگوں میں پذیرائی بھی حاصل ہوگی۔ اسی طرح سماجی انصاف کی فراہمی اور فلاحی معاشرے کے قیام کے لیے قانون کی حکمرانی کی تحریک بھی قابلِ فہم ہے۔ مزید مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ حقیقی مذہبی بنیاد پرستی بھی مذہبی اصولوں پر سختی سے عمل درآمد کے سوا کچھ نہ ہو۔ یوں اگر ممکن ہو تو انتہا پسندی کو امن و امان کی ضمانت اور دوسروں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے مذہبی انتہا پسندی کے تجربے کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر مذہبی انتہا پسندی کو سیاسی نوعیت سے مربوط کر کے طاقت بخش دی جائے اوراسے ایسے تصور سے تشکیل دیا جائے جو کہ بیرونی عناصر کے لیے غیر لچک دار اور اندرونی طور پر اختلافات کا شکار ہو تو پھر یقینا اس تحریک کا روحانی تشخص کا دعویٰ خام خیالی پر مبنی ہو گا اور اس کی بجائے یہ ایسے خیالات کا مجموعہ بن جائے گی جو ناکافی وسائل کی تقسیم، طاقت اور عہدوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اُخروی دنیا میں اچھے انعامات کے بلند بانگ دعوے کرتی نظر آئے گی۔ اس قسم کی انتہا پسندی اپنے نتائج اور انجام کی شائستہ تنقید کی متقاضی رہی ہے۔

سیاسی حوالے سے ''انتہا پسند'' اور ''انتہا پسندی'' کی اصطلاح ایسی تحریکوں اور تصورات سے وابستہ ہے جو کہ مسلسل بدعنوانی اور ایسے عناصر کے متبادل کی تلاش میں رہتی ہے اور اسے اصل شکل میں واپس لانے کے درپے ہے اور اس ضمن میں انتہا پسندی کے سیاسی تشخص میں تبدیلی لانے کے عمل کو خاص نظام کی موجودگی میں محدود کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ووٹر کی عمر 21 سال سے کم کر کے 18 سال کرنے کی اصلاحات کامطلب یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں نوجوانوں کو قوت دے دی گئی ہے لیکن ایسی شخصی اور اجتماعی آزادی، جمہوریت کے نفاذ سے ہی ممکن ہے تاہم یہ سیاسی منصوبہ بندی ایسی صورت میں ممکن ہو سکتی ہے جب انقلاب آئے یا حقیقی سماجی ماحول میسر آ جائے۔

عہدِ حاضر میں انتہا پسندی سے مراد ایسی بنیادی تبدیلی لی جاتی ہے جس سے معاشرے میں پرانی اقدار کا احیاء ہو جو یقینا ایک پر خطر راستہ ہے۔ یہ بنیادی تصوراتی تبدیلی کی نسبت حکومت سازی پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ دائیں اور بائیں بازو کی یہ تحریکیں ایک خیالی جنت کی جانب رہنمائی کرتی ہوئی نظر آتی ہیں اور یہ پیچھے کی سمت حرکت کرتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل کی خالص معاشرتی حکومت(پول پاٹ کی خیمر روج حکومت) یا ماضی کے تخیلات کی اصلی شکل میں طالبان کی افغان حکومت دونوں ہی حقیقی ماخذ کی سہل ترین اشکال ہیں۔ کسی چیز کو سہل ترین بنانا ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی تخیل حقیقی طور پر ایسے عمل کی جانب رہنمائی کرتا ہے جو کہ رنگا رنگ تخیلاتی جہتوں پر مشتمل ہو۔ چونکہ ماضی کے متعلق معلومات محدود ہوتی ہیں اور ان پر مکمل بھروسہ بھی نہیں کیا جا سکتا ، اسی طرح مستقبل سے متعلق تصورات بھی مبہم ہوتے ہیں۔ نتیجتاً سرگرم اور جوشیلے پیرو کار اکثر ڈرانے دھمکانے پر اتر آتے ہیں اور لوگوں سے اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ یوں متشدد رویے جنم لیتے ہیں اور خیالی جنت، جہنم میں تبدیل ہو جاتی ہے تاہم کچھ حالات میں انتہا پسند لاعلاج مسائل کے تسلسل کو چیلنج کرتے ہیں کیونکہ یہ تسلسل ناانصافی کی وجہ سے ہوتا ہے اور لوگ اس کا مکمل ادراک رکھتے ہیں۔

انتہا پسندی کے خلاف کام کرنے والے کسی بھی منصوبے کو مذہبی جذباتیت اور سیاسی منتظمین کی خرابیوں کی روک تھام کے لیے مشترکہ ایجنڈے پر کام کرنا ہو گا کیونکہ اب تک شہریوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے۔ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کی انفرادی یا اجتماعی آزادی کے حقوق کی ضمانت فراہم کرے۔

رائج الوقت کرنسی کے حوالے سے بھی سیاسی انتہا پسندی یا عام انتہا پسندی کی جانچ کا پہلو بھی قابلِ غور ہے۔ تقریباً 1945ء سے 1979ء تک، جب دنیا سرد جنگ کے دہانے پر تھی، اس وقت سوشلسٹ تحریکیں انتہا پسندی کا باعث بنیں اور یہ قسم حکومت دشمنوں، آزاد خیال مارکسیت اور کٹّر کمیونسٹ نظریات پر مشتمل تھی اور وہ بنیادی طور پر سرمایہ داری نظام اور بورژوائی قدروں کے مخالف اور عوامی طاقت کے خطرناک چیمپئن تصور کیے جاتے تھے۔ تقابلی حوالے سے رجعت پسندی (Reactionary) کی اصطلاح دائیں بازو کی تحریکوں اور نظریات کے لیے استعمال کی جاتی رہی تھی اور انتہائی قدامت پرستوں،قوم پرستوں، مذہبی اور نسلی انتہا پسندوں کا شمار بھی اسی رجعت پسند طبقے میں ہوتا تھا۔ رجعت پسند نظریات، خواص کی حکومت اور ملائوں کی حکمرانی سے وابستہ تھے اور عوام کی حمایت حاصل نہ ہونے کے باوجود بھی یہ تحریکیں تخریب یا طاقت کا مظاہرہ نہیں کرتی تھیں۔

Redicalism کی اصطلاح 1979ء کے ایرانی انقلاب کے بعد دائیں بازو کے نظریات اور تحریکوں کے لئے مستعمل ہونا شروع ہوئی کیونکہ یہ تحریک ایک مخصوص نمونے پر مبنی تھی جو کہ آمریت کے خلاف تو تھی مگر پرانے نظریات اور ملائیت کی حامی تھی۔ دوسرے الفاظ میں اسے مقبول عوامی سیلاب کی عجیب ترکیب بھی کہا جا سکتا تھا جو کہ متوازی جمہوریت کے لیے نادر قسم کے احتساب اور اسٹریٹ پاور کا امتزاج تھی۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انحطاط کے بعد بائیں بازو کی عالمی طاقت اور انتہا پسندی خاصی کمزور ہو گئی اور اس کے بعد اسلام پسند ایک مختلف تناظر کے ساتھ مترادف انتہا پسندی کے ساتھ ابھرے۔

اسلام اور اسلام پسندوں کے درمیان اخلاقی اور تجزیاتی وجوہات کی تفریق جاننا ضروری ہے۔ اسلام کا بطور مذہب، تہذیب اور ثقافتی قوت کے کردار ہمہ جہت، روایتی اور تاویلات کا حامل رہا ہے۔ اسلام ایسے اعتقادات اور عبادات کا مجموعہ ہے جو علم و حکمت، آزادی و حریت، جمہوریت اور انتخاب و چنائو کے مابین چلتا ہے۔ اس طرح سیاسی تشخص کے ساتھ ساتھ اسلام پسند، بنیاد پرستی، جہاد اور بنیاد پرستی سے بھی آگاہی رکھتے ہیں۔ اس قسم کے نظریات متشدد سیاسی کارروائیوں کی صورت میں نمودار ہو کر دہشت گردی کا باعث بن سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت اسلام کا قلعہ تصور ہونے والے پاکستان سمیت پوری دنیا، انتہا پسندی کی لپیٹ میں ہے اور عالمی برادری 1980ء کی دہائی سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اسی تصوراتی اور سیاسی تناظر میں سنگاپور اور جناح کے پاکستان کے درمیان انتہا پسندی اور اس کے تدارک کی کوششوں کے حوالے سے تقابلی نقطہ نظر کی وضاحت کی جا رہی ہے۔

اس تقابلی جائزے پر حیرت کا اظہار کیا جا سکتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کی ساخت اور بُنت میں خاصا اختلاف ہے۔ سنگاپور ایک چھوٹی سی ریاست ہے جبکہ پاکستان اپنے رقبے اور آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے۔ مزید براں سنگاپور میں مسلمان اقلیت میں ہیں جبکہ پاکستان میں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اس کے علاوہ بھی واضح تفریق موجود ہے۔ اگر یکساں عوامل کا موازنہ کیا جائے تو دونوں ممالک نے جنگِ عظیم دوم کے بعدبرطانیہ سے آزادی حاصل کی اور ان کا مروجہ آئینی طریقہ کار یکساں ہے۔ دونوں حکومتوں نے اپنی آزادی کا سفر ایک جیسے قومی نظریات سے شروع کیا۔ چنانچہ انتہا پسندی اور اس کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کی روشنی میں دونوں ممالک کے تجزیے سے حیران کن نتائج سامنے آتے ہیں۔

1-انتہا پسندی اور اس کے تدارک کے سلسلے میں سنگاپور کا نقطۂ نظر
48لاکھ کی آبادی والے ملک سنگاپور میں حالیہ اعداد و شمار کے مطابق آبادی کا تناسب کچھ اس طرح ہے۔ بدھ مت کے پیروکار 42.5 فی صد، مسلمان 14.9 فی صد جبکہ 14.6 فی صد کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہے۔ سنگارپور نے 1963ء میں برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور ملایا، صباہ اور ساراوک کے ساتھ مل کر ملائیشیا کی فیڈریشن بنائی مگر یہ انضمام ناکامی پر منتج ہوا اور بالآخر سنگاپور 9 اگست 1965ء کو ملائیشیا سے آزاد ہو کر ایک علیحدہ جمہوری ملک کے طور پر سامنے آیا اور یہ علیحدگی کسی حد تک ان نسلی فسادات کا نتیجہ تھی جو جولائی اور ستمبر 1964ء میں وقوع پذیر ہوئے۔ یہ ہنگامے ملایا کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان ہوئے تھے جس میں 36 افراد کا قتلِ عام ہوا ، 556 زخمی ہوئے جبکہ3ہزار کو گرفتار کیا گیا۔ اس سانحے نے سنگاپور کے سیاسی منظرنامے کو یکسر تبدیل کر دیا۔ نتیجتاً جب یہ ملک آزاد ہوا تو حکومت پرامید تھی کہ اس قسم کے واقعات دوبارہ وقوع پذیر نہیں ہوں گے ۔یہ اَمرِ واقعہ ہے کہ سنگارپور مسلم اکثریت والے دو ممالک انڈونیشیا اور ملائیشیا کے پڑوس میں واقع ہے، جس کا مطلب یہ تھا کہ بیرونی طور پر اسے مذہبی اور نسلی مزاحمت کے خدشات لاحق تھے۔(3)

سنگاپور پیپلز ایکشن پارٹی کے صدر اور آزادی کی تحریک کے اہم رہنما ''لی کو آن یو'' جو کہ 1965ء سے 1990ء تک، طویل مدت کے لئے ملک کے وزیر اعظم رہے ،وہ بھی اس حقیقت کا پورا ادراک رکھتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ سنگاپور کو مختلف نسلوں اور مختلف مذاہب کے درمیان اپنی راہ متعین کرنی ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت کو کثیر الجہتی معاشرے پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے ا ور اس نظریے کو مدتوں ایک مثالی پالیسی کے طور پر آزمایا جاتا رہا۔ 14 اگست 1965ء کو ''لی'' نے سنگاپور کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا:(4)

''یہ بات واضح ہے کہ ریپبلک آف سنگاپور کے آئین میں ہر رنگ و نسل زبان اور ثقافت کی آزادی کو ملحوظ خاطر رکھ کر حقوق کی ضمانت دی جائے گی اور اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔کسی فرد کو بھی نسلی، لسانی اور ثقافتی بنیادوں پر انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا اور اجتماعی فلاح و بہبود اور حکمت عملی ترتیب دیتے وقت ان کی رائے کا احترام کیا جائے گا۔''

نتیجتاً حکومت نے ایسی آئینی اصلاحات کیں جس کے تحت سنگاپور کے شہریوں کے مذہبی حقوق کو تسلیم کیا گیا اور ایسی پالیسیاں بنائی گئیں جس میں آئینی اقدامات کے ذریعے مختلف نسلوں اور مذاہب کے لوگوں کے حقوق کا احترام کیا گیا، اس کی عام فہم مثال یہ ہے کہ مذہبی تہواروں پر سرکاری چھٹیاں دی گئیں۔ یقینا یہ انداز جنوب مشرقی اور جنوبی ایشیاء کی روایات سے ہم آہنگ تھا جس میں ریاست اور حکومت ہر مذہب و ملت کے لوگوں کے مذہبی حقوق کی حفاظت کا کردار ادا کرتی ہے۔ ملک کو 20 ویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے سیکولر نظریات کو فروغ دیا گیا حالانکہ آئین میں کسی غیر دینی نظام کا تذکرہ نہیں ملتا اور اس کی واضح مثال یہ تھی کہ شروع سے ہی تمام مذہبی قومیتوں کی مرکزی کابینہ میں بھرپور نمائندگی موجود رہی۔ مذہبی ا ور ثقافتی معاملات میں حکومت شہریوں کے عقائد میں مداخلت نہیں کرتی البتہ حکومت نے ایسے اقدامات ضرور کیے ہیں جو سیاست میں مذہبی عناصر کی بطور قومیت کے حصہ لینے پر حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں۔(5)

مذہبی آزادیوں کے احترام کو باقاعدہ بنانے کی حکومتی حکمت عملی میں پیش بندی کے طور پر امن و امان اورمذہبی ہم آہنگی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا گیااور حکومت نے ناگزیر اقدامات کرکے اس اَمر کو یقینی بنانے کی سعی کی ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے عوامی ہم آہنگی کو دائو پر نہ لگایا جائے۔ 1980ء کی دہائی میں لاطینی امریکہ میں فروغ پانے والا شخصی آزادی کا نظریہ چند سرگرم عناصر کے ذریعے سنگاپور پہنچا، جس نے مسائل کو جنم دیا۔ اس سلسلے میں حکومت متنازعہ نظریات کے حامل مسیحی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مذکورہ افراد سے نہایت سختی سے پیش آئی۔ بعد ازاں حکومت نے جنوب مشرقی ایشیاء میں اٹھنے والی اسلامی تحریکوں کے تناظر میںسنگاپور میں انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے سیاسی اور سماجی تعامل سے وجود میں آنے والے تعلقات کے خلاف سخت اقدامات کئے۔(6)

1.1 آئینی اور قانونی اقدامات
سنگاپور کا آئین سختی سے مذہبی آزادی پر زور دیتا ہے جس کے تحت ہر شخص آزاد ہے، وہ آزادانہ طور پر مذہب کا چنائو کر سکتا ہے اور حکومت عقائد کے نجی معاملے پر اثر انداز ہونے سے احتراز برتتی ہے۔ تمام لوگ ریاست کی مداخلت کے بغیراپنے مذہب پر عمل پیرا ہیں مگر اس کے باوجود وہ ہرعمل پر حکومت کو جواب دہ ہیں، خواہ یہ عمل زبانی کلامی ہی کیوں نہ ہو ، قومی تشخص کو مجروح کرے یا شہریوں میں اختلافات کو ہوا دے، قطعی ممنوع ہے اور حکومت یہ سمجھتی ہے کہ قومی سا لمیت کو نقصان پہچانے والا ہر عمل قابلِ دست اندازی ہے۔ امن و امان اور مختلف گروہوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی سب سے اہم ہے۔ اسی سلسلے میں حکومت نے مسیحی فرقے "Jehovah's Witness Church" کی سرگرمیوں کو ممنوع قرار دیا کیونکہ یہ اپنے پیروکاروں کی فوج میں شمولیت کی مخالفت کرتا تھا، اس امتیاز کی وضاحت عدالت کو اپیل کے فیصلے میں کرنا پڑی ۔(7)

"Jehovah's Witness "کے عقائد کا انفرادی دعویٰ کرنے والاغیر قانونی اقدام نہیں کر رہا اور نہ یہ کوئی جرم ہے۔ یہ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ اپنے عقائد پر حقیقی روح کے مطابق عمل کرے، خواہ وہ ''شاہدین یہووا'' کا پیرو کار ہی کیوں نہ ہو اور یہ حق اس سے نہیں چھینا جا سکتا مگر وہ مرتب شدہ حکم نامے کے دائرے میں رہ کر ہی اپنی سرگرمیوں کو بطریقِ احسن جاری رکھنے کا مجاز ہے۔''

سادہ الفاظ میں حکومت کے ساتھ وفادار اور اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے آئینی حدود کے اندر رہ کر اپنے مذہبی عقائد پر عمل درآمد کو ممکن بنانا ضروری ہے۔ دوسری جانب ایسے کئی ایک اقدامات کئے گئے جن کے ذریعے مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ اس بات کو ممکن بنایا گیا کہ دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت یا تشدد جیسے واقعات رونما نہ ہوں۔ Sedition Act کے تحت سنگا پور کے شہریوں کے درمیان نسلی، مذہبی تفرقات کو ہوا دینے والے اقدامات کو جرم قرار دیا گیا۔ مذکورہ ایکٹ کے تحت ہی 2005ء میں تین اشخاص کو مجرم قرار دے کر گرفتار کیا گیا جو مسلمانوں کے خلاف جذبات ابھارنے میں ملوث پائے گئے تھے۔(8)

اظہار رائے کی آزادی کے ذریعے ہی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اگر اظہار رائے کی آزادی کو معاشرے کی تباہی کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ اپنے حق سے روگردانی کے مترادف ہو گا۔ اس طرح سلمان رشدی کی بدنامِ زمانہ کتاب "The Satanic Verses" پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ سنگا پور کی حکومت نے Martin Scorsese کی کتاب the Last Temptation of Christ پر بھی انہی وجوہات کی بنا پر پابندی لگائی۔

مذہبی اور اظہارِ رائے کی آزادی کے لئے اقدامات نے سنگاپور کی ریاست کو ایک ذمہ دار حکومت کی صورت میں پیش کیا ہے اور حکومت نے اپنے اقدامات کو یہ کہہ کر تحفظ فراہم کیا ہے کہ اس نے شہری آزادیوں سے نقصان کی نسبت زیادہ فوائدحاصل کیے ہیں اور شاید آزادی سلب کرنے سے یہ نتائج حاصل نہ ہوتے۔

1.2 قومی تعمیر اور سماجی یک جہتی
سنگاپور کی حکومت نے ملک کی یکجہتی کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ مختلف مذہبی قومیتوں کو روشن خیال بنانے کے لیے معیارِتعلیم کو فروغ دیا جائے ۔ ابتدائی طور پر چھ بڑے مذاہب کے طلباء کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ مسیحی، اسلامی، بدھ، تائو، ہندو، اور سکھ مت کے مذہبی علوم کا مطالعہ کریں لیکن جلد ہی یہ شواہد سامنے آئے کہ مذہبی تعلیمی پروگراموں سے نسلی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ حکومت اس نتیجے پر پہنچی کہ اساتذہ اور طلباء اپنے عقائدکی پیروکار قومیتوں سے بہتر طور پریک جہتی کا اظہار کرتے ہیںجبکہ دوسروں کے عقائد کو چھیڑتے ہیں۔ چنانچہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے اسکول مذہبی تعلیم نہیں دیں گے، یوں دینی تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کر لی گئی اور تہذیبی واخلاقی تعلیمی سلسلے نے اس کی جگہ لی۔(9)

1.3مخلوط معاشرتی اقدار
سنگاپور کی ریاست نے جو نئی اور روشن اختراع کی ہے وہ حکومتی سطح پر تعمیر کردہ اپارٹمنٹس ہیں جنہیں بہترین حکمت عملی سے مختلف مذاہب اور نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں الاٹ کر دیا جاتا ہے۔ملک کی 95 فی صد آبادی سنگا پور کی حکومت کی جانب سے ارزاں قیمت پر مہیا کی گئی مستقل رہائش گاہوں میں بستی ہے۔ ان رہائشی مکانات کی تقسیم مذکورہ خطوں میں مختلف قومیتوں کی آبادی کی نسبت کے مطابق انجام دی گئی ہے۔ ان مکانات کو مالکان فروخت بھی کر سکتے ہیں مگر مذہبی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے متعلقہ قومیت کے افراد کو ہی فروخت کیا جا سکتا ہے۔ سنگاپور میں ایک بڑی تعداد میں بیرونِ ملک سے آکر کارکن آباد ہوئے ہیں جبکہ مقامی قومیتوں کے افراد بھی کثیر تعداد میں بستے ہیں لیکن حکومتی پالیسی کی وجہ سے اقلیتی فرقوں کے ایک ہی علاقے میں ارتکاز کو بطریق احسن روک دیا گیا ہے۔

تمام نسلی گروہوں کو یکساں مواقع حاصل ہونے کی وجہ سے یہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں۔ اس بے مثال ماحول میں باہمی روابط مضبوط ہوتے ہیں اور لوگ اجتماعی دلچسپیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ بوقلموں ثقافت میں پلنے والے افراد صلح کل کے علمبردار ہوتے ہیں۔ حکومتی رہائشی علاقوں میں رہنے والے مذہبی اور نسلی قومیتوں کے افراد پر حکومتی حکمت عملی کا مثبت اثر پڑا ہے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے میں بھی آسانی پیدا ہوئی ہے۔ حکومت یہ چاہتی ہے کہ مختلف مذہبی گروہوں کی دیگر معاشرے سے تنہائی اور علیحدگی پر ہر صورت میں قدغن لگائی جائے۔

1.4 ملکی سا لمیت کے لئے دیگر اقدامات
مخلوط ثقافت کے ساتھ ساتھ حکومت کی یہ کوشش رہی ہے کہ کھیلوں اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کے لیے ہر مذہب سے افراد کا چنائو کیا جائے۔ مذہبی و سیاسی مشیر وزیر اعظم کے ساتھ مذہبی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے مختلف اقدامات کے لیے مشاورت کرتے ہیں۔ حال ہی میں بیساکھی کے تہوار (پنجاب میں گندم کی کٹائی کا میلہ) کے موقع پر خالصہ تنظیم کی دعوت پر سنگاپور کے وزیراعظم ایس آر نیتھان مہمانِ خصوصی تھے۔(10) اسی طرح کی ایک سرمائی تقریب کے بعد انہوں نے بتایا کہ ثقافتی پروگراموں میں وزیر اعظم کی شرکت ایک عام معمول ہے۔ اس قسم کے تہواروں پر دوسرے تمام مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ان تقاریب کے انعقاد کا اصل مقصد مختلف قومیتوں کا ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ بڑھانا ہے۔ اس طرح مختلف مذہبی تہواروں کو جانچنے اور بھائی چارے کو جلا ملتی ہے۔

1.5مذہبی قوانین کا محدود اطلاق
حالانکہ سنگاپور میں زندگی سیکولر قوانین یا شخصی قوانین کے طابع ہے۔ مسلمانوں کے لیے شریعہ وفقہ کی رُو سے شادی، طلاق اور جائیداد کے قوانین موجود ہیں۔ تاہم کثیر الازدواجی اور کم عمری کی شادی کی ممانعت ہے اور اس قسم کی قانون سازی میں حکومت مسلم قومیت کے روشن خیال مفکروں سے مشورہ حاصل کرتی ہے لیکن اجتماعی حکمت عملی کی رُو سے کسی بھی قومیت کے مذہبی قانون کو دوسرے مذاہب کے اصولوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

جہاں تک ملایا کے مسلمانوں کا تعلق ہے ،ان کی فلاح کے لئے حکومت نے مزید اقدامات بھی کئے ہیں۔ وہ مساجد کے لیے حکومت سے فنڈ حاصل کرتے ہیں اور انہیں حج کے موقع پر حکومت کی جانب سے مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے تاہم ملایا کے مسلمانوں کے متعلق کچھ تحفظات بھی پائے جاتے ہیں، پوری دنیا میں مذہبی احیاء سے مراد تنزلی لی جاتی ہے اور یہاں بھی حکومت نوجوانوں کے معاملے میں تذبذب کا شکار رہی ہے۔

1.6 انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے مخصوص اقدامات
سنگاپور کی حکومت نے اپنے کثیرالجہتی معاشرے میں انتہا پسندی کے تدارک کے لیے مذہبی قومیتوں کو مصروف عمل رکھنے میں کامیابی حاصل کی اور یوں لوگ اپنے تنظیمی روابط کے لیے ایک دوسرے سے وابستہ رہتے ہیں اور انہیں اس حد تک مذہبی آزادی حاصل ہے کہ حکومتی مفادات سے متصادم ہونے کی نوبت نہیں آتی۔ حکومت نے سیکولر اسکولوں میں چھوٹی عمر کی لڑکیوں کو سکارف پہننے کی اجازت نہیں دی اور ہم جنسوں سے گھل مل جانے کے لیے اسکول کی یونیفارم کو ہی ترجیح دی گئی ہے تاہم یونیورسٹی کی سطح پر مسلم خواتین کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی کا باپردہ لباس زیبِ تن کرسکتی ہیں۔ اس طرح ان روایات کو سنگاپور کی معاشرتی اقدار میں پروان چڑھنے والے افراد کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔

دوسری جانب تمام مذہبی قومیتوں کو اپنے دینی اسکول کھولنے کی مکمل آزادی حاصل ہے ا ور ان مدارس میں کم سن لڑکیاں بھی سکارف پہن سکتی ہیں مگر اس کے لیے ان کے والدین کی اجازت ضروری ہے۔

1.7 بیرونی مداخلت کے خلاف بند
سنگاپور کی حکومت بیرونی مشنریوں اور تنظیموں پر کڑی نگاہ رکھتی ہے۔ حکومت کی یہ واضح پالیسی ہے کہ اپنی سرزمین کسی بیرونی طاقت کو انتہا پسندانہ عزائم کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تاہم 1980ء کی دہائی سے، جنوب مشرقی ایشیا کے چند ممالک ،انڈونیشیا اور ملائیشیا سے کچھ افراد انفرادی طور پر افغان جہاد میں شامل ہوتے رہے ہیں۔(11) اس قسم کے واقعات نے سنگاپور پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں۔

مذہبی قومیتوں سے برابری کے سلوک کے باوجود اسلامی انتہا پسندوں نے اپنے نظریات کو سنگاپور میں بھی پھیلایاہے۔ 2001ء میں ریاست اور عوام اس وقت سکتے کے عالم میں رہ گئے جب سکیورٹی اداروں نے ''جمیعہ اسلامی'' کے بارود سے بھرے سات ٹرک شہر کی مختلف سڑکوں سے پکڑے۔ حکومت نے منصوبہ بندی کرنے والے سنگاپورین باشندے (متولد انڈونیشیا) ''ماس سلامت'' کو گرفتار کر لیا۔وہ 27 فروری 2008ء کو پولیس کی حراست سے فرار ہو گیا مگر بعد ازاں سنگاپور کی حکومت کی خفیہ اطلاع پر یکم اپریل 2009ء کو جوہر بہرو( ملائیشیا) سے اسے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

حکومت ان بیرونی عناصر پر گہری نظر رکھتی ہے جن کے متعلق اسے شک ہو کہ وہ انتہا پسندانہ عزائم پھیلا رہے ہیں اور اس کے علاوہ خفیہ اور باخبر رکھنے کا بہترین سائنسی نظام بھی موجود ہے تاکہ تخریبی عناصر معاشرتی حدود میں شامل نہ ہونے پائیں۔
 
انتہا پسندی کے تناظر میں پاکستانی نقطۂ نظر
پاکستان بطور مسلم اکثریتی ریاست، اس وقت برصغیر کے نقشے پر نمودار ہوا جب تاج برطانیہ نے حکومتی قلمدان جدید نظریات کی حامل جماعت ''آل انڈیا مسلم لیگ'' کے حوالے کیا۔ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 132 ملین تھی۔ جس میں سنی اور شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی تعداد 96.28 فی صد، قادیانی یا احمدی 0.22 فی صد اور دیگر 0.07 فی صد تھے۔ جبکہ شیعہ اور سنی مسلمانوں کے تناسب کا شمار مفقود تھا جو کہ گذشتہ حکمتِ عملی کا تسلسل بتایا جاتا ہے تاہم کراچی یونیورسٹی کے "Demographic Research Institute" کے مطابق شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد آبادی کے 12سے15فیصد پر مشتمل ہیں،(12) "CIA, World Factbook" کے تجزیے کے مطابق موجودہ پاکستانی آبادی 172 ملین نفوس پر مشتمل ہے، اہلِ سنت 77 فی صد جبکہ شیعہ آبادی 20 فی صد تک ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک کا تصور اس لیے پیش کیا گیا تھا تاکہ وہ مسلم قومیت کا تشخص قائم کرسکیں اور اقلیت تصور نہ کیے جائیں۔ قوم پرستی کی یہ مثال علاقائی بنیاد پر استوار نہیں تھی بلکہ اس کی ثقافتی اور مذہبی وجوہات تھیں جبکہ قدامت پرست مسلمانوں کے نزدیک پاکستان اسلام کی مثالی ریاست کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ حالانکہ شروع میں اس ماڈل میں سماجی انصاف، برابری اور قانون کی عملداری پر زور دیا گیا تھا۔ آخر میں اس نظریے کو نام نہاد اسلام پرستوں نے یرغمال بنا لیا۔ ان کے خیال میں ازمنہ وسطیٰ کے معیاروں پر قائم یہ جزا و سزا کا مذہب ہے جبکہ کرہِ ارض پر کسی انصاف پسند یا متوازن معاشرے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب کہ بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جس روشن خیال ریاست اور معاشرے کا تصور پیش کیا تھا ،وہ انہی اقدار پر استوار تھا جس سے ''لی کو آن یو'' بھی متاثر تھے۔ 11 اگست 1947ء کو جناح نے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔(13)
''آپ آزاد قوم ہیں۔ ہر ایک کو اپنے مذہب کے مطابق عبادت کی آزادی حاصل ہے۔ چاہے وہ مسجد میں جائے یا مندر میں۔ آپ کا تعلق جس مذہب و ملت یا قوم سے ہو، اس کا حکومت کے کاروبار سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول سے اپنی شروعات کر رہے ہیں کہ ہم سب لوگ اس ملک کے برابر کے شہری ہیں۔ ہمیں اپنے پاکیزہ خیالات کو ہمیشہ مدِنظر رکھنا ہو گا اور پھر آپ دیکھیں گے کہ مذہبی حوالے سے پہچان نہیں ہو گی کیونکہ مذہب ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے لیکن سیاسی طور پر ہم سب اس ملک کے شہری ہیں۔''

محمد علی جناح نے واضح طور پر مذہبی اعتقادات اور شہریوں کے حقوق کو الگ الگ بیان کیا تھا۔ انہوں نے مذہبی آزادی کا پورا یقین دلایا۔ قومی تعمیر کے حوالے سے اگر ان کی تقریر کا تجزیہ کیا جائے تو غیر مبہم طور پر انہوں نے یہ وضاحت کی تھی کہ مسلم قوم پرستی کی بجائے پاکستانی قومیت کا پرچار کیا جائے گا۔ ان کے پاکستان کے تصور میں قوم، ملت، نسل یا تذکیر و تانیث کی تفریق کے بغیر کثیرالمذہبی اور برابری کی بنیاد پر حقوق کی ضمانت موجود تھی۔ یقینا جناح نے پاکستان کے لیے سیکولر ریاست کا ذکر نہیں کیا لیکن ان کے نظریات سے یہ بات واضح تھی کہ وہ ایک سیکولر جمہوری ریاست چاہتے تھے۔ بدقسمتی سے وہ 11 ستمبر 1948ء کو انتقال فرما گئے اور کوئی بھی شخص محض یہی سوچ سکتا ہے کہ پاکستانی سیاست کے حوالے سے وہ کیا کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ لیکن ایک بات قطعی طور پر واضح ہے کہ وہ ملائوں کی مذہبی حکومت کے حق میں ہرگز نہیں تھے۔

ان کے بعد آنے والے حکمران سیکولر نظریات پر برقرار نہ رہے حالانکہ وہ ایک کٹّر اسلامی نظریاتی ریاست کے حق میں بھی نہیں تھے۔ 1948ء سے1977ء تک آنے والے پاکستانی جدت پسند حکمرانوں نے اپنی موقع شناسی کی بنیاد پر پاکستان کو ہندوستان سے منفرد بنانے کے لیے ایسی حکمت عملی وضع کی جس کے تحت اسلام کو ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ اسی طرح وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے 7 مارچ 1949ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں ''قرار داد مقاصد'' منظور کرائی جس کے تحت تمام کائنات پر خدا کے اقتدارِ اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا۔ جمہوریت کو اسلامی سانچے میں ڈھال دیا گیا۔ اقلیتوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی گئی اور انہیں اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دی گئی۔(14) یہ اعلانات نہایت جامع تھے جس میں ملائیت کا کہیں تذکرہ نہیں تھا کیونکہ حکومت کا جدت پسند طبقہ اسلام اور جمہوریت کے تقاضوں کو متصادم نہیں سمجھتا تھا۔

اس طرح 1956ء کے پہلے آئین کے مطابق پاکستان کو ایک آئینی جمہوریہ کا درجہ دے دیا گیا اور تمام قوانین کی اسلامی تقاضوں کے مطابق تصدیق کی راہ ہموار کی گئی اور پاکستان کو اسلامی جمہوریہ کا تاج پہنایا گیا۔ اس آئین پر عمل درآمد کی اس لیے نوبت نہ آ سکی کہ 1958ء میں فوجی انقلاب نے حکومت کو برطرف کر دیا۔ 1962ء میں جنرل محمد ایوب خان نے دوسرا آئین پیش کیا جس کے تحت صدارتی نظام رائج کر کے جمہوریت کو پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔ اس آئین میں بھی یہ اعادہ کیا گیا کہ تمام قوانین کی اسلام کی روشنی میں اصلاح کی جائے گی۔

پاکستان کی قومی اسمبلی نے ملک کا تیسرا آئین 1973ء میں منظور کیا جس کے تحت پارلیمانی نظام حکومت متعارف کرایا گیا اورآئین میں اسلام کے حوالے سے مزید شقیں شامل کی گئیں۔اس میں ملک کے اولین آئین کے برعکس جس میں صرف صدر کا مسلمان ہونا ضروری تھا، اب وزیر اعظم کا بھی اس کسوٹی سے گزرنا لازم قرار دے دیا گیا اور دونوں اعلیٰ شخصیات پر ختم نبوتۖپر ایمان کی شرط بھی عائد کی گئی اور تمام قوانین کی اسلام اور سنت کی روشنی میں تبدیلی کی تجدید کی گئی۔ 1974ء میں اسی اسمبلی نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا۔ اس طرح پاکستانی سیاست میں نمایاں اتارچڑھائو دیکھنے میں آیا۔

2.1 انتہا پسندی کا عفریت
ان آئینی اقدامات نے اسلامی خیالات کے پنپنے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم اس وقت حالات نے ایک نیا رخ اختیار کر لیا جب جنرل ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977ء کو ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ضیا الحق بھی انہی روایتی اقدار کا امین تھے جو کہ اسلامی تشخص اور شہریوں کے حقوق کے حوالے سے مروّج چلی آ رہی تھیں۔ ضیاالحق کے حکومت میں آنے کا یہی مطلب اخذ کیا گیا کہ اب اسلام کے رجعت پسند نظریات کا پھیلائو ہو گا۔ وہ زندگی کے تمام شعبوں بشمول انتظامیہ، عدلیہ، بینکنگ، تجارت، تعلیم، زراعت، صنعت اور خارجی معاملات کو اسلامی نظریات کے ڈھانچے میں ڈھالنے کے لیے نیا سماجی حکم نامہ منظر عام پر لے کر آئے۔ یوں پاکستان میں اسلامائزیشن کے نام پر بنیاد پرستی کی داغ بیل ڈال دی گئی۔ 1979ء میں ضیاالحق نے حدود آرڈیننس جاری کیا جس میں زنا بالجبر کی سزا پر سنگسار کرنے کا حکم اور زنا کی جھوٹی تہمت لگانے پر 80 کوڑے، شراب پینے پر 80 کوڑے، چوری کے مرتکب ہونے پر ہاتھ کاٹنے اور ڈاکے کی صورت میں ہاتھ ا ور پیر دونوں کے کاٹنے جبکہ قاتل کے لیے موت کی سزا تجویز کی گئی۔

1980ء میں مسلمان شہریوں سے زکوٰة وصول کرنے کا قانون منظور ہوا مگر شیعہ مکتبہ فکر نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا۔ ابتداء میں حکومت نے شیعہ مکتبہ فکر کے احتجاج کو نظراندازکر دیا مگر یہ مسئلہ رفتہ رفتہ شدت اختیار کرگیا۔ بالآخر انہیں زکوٰة سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا۔ 1984ء میں نیا ''قانون شہادت آرڈر'' آیا جس میں دو خواتین کی شہادت کو ایک مرد کے برابر تصور کیا گیا تھا۔ اسی سال احمدیوں کے خلاف مزید سخت قوانین بنائے گئے، انہیں مذہبی اور سماجی سرگرمیوں میں اسلام کا نام لینے سے روک دیا گیا۔(17) 1985ء میں اقلیتی رائے دہی کی بنیاد پر غیر مسلموں کے لیے جداگانہ انتخابات کا قانون متعارف کرایا گیا جس میں لوگ صرف اپنی قومیت کے افرادکو منتخب کرنے کے مجاز تھے۔ 1982ء میں ایک آرڈیننس کے ذریعے توہین رسالت کا قانون نافذ العمل ہوا جس کے تحت جرم ثابت ہونے پر سخت ترین سزا تجویز کی گئی۔ 1986ء میں اس کی زیادہ سے زیادہ حد سزائے موت میں تبدیل کر دی گئی۔ ان اقدامات کے علاوہ تعلیمی نظام میں بھی اسلامی بنیاد پرستی کے حوالے سے تبدیلیاں لائی گئیں اور فوج کو پاکستان کے محافظ کے طور پر پیش کیا گیا۔

خواتین کے حوالے سے کچھ نئے قوانین متعارف کرائے گئے۔ 1980ء میں ایک حکم نامے کے ذریعے تمام سرکاری دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کے لیے باپردہ ہونا لازمی قرار دے دیا گیا۔ ٹیلی وژن پر بھی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے مخصوص علماء کی حوصلہ افزائی کی گئی۔(18)

2.2خواتین اور اقلیتوں پر دبائو
کمیشن برائے انسانی حقوق پاکستان(HRCP) کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملکی قوانین کو بنیاد پرست نظریات کے قالب میں ڈھالنے کے بعد خواتین کے حوالے سے ناانصافی کے واقعات میں اضافہ ہوا کیونکہ یہ تمام قوانین ایسے مذہبی ملائوں نے تیار کیے تھے جنہیں شعور اور ادراک نہیں تھا۔(19) متعدد واقعات ایسی خواتین سے متعلق تھے جنہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ خصوصاً زنا کے واقعات کو ثابت کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ قانون کی رو سے چار عینی شاہدین کی ضرورت تھی۔ مزید برآں بدچلنی کے شبہ میں خواتین کے قتل کے واقعات بھی سامنے آئے جو کٹّر نظریات کی ملمع کاری کی نذر ہو گئے۔(20)

ضیاالحق کی جانب سے متعارف کرائے گئے توہین رسالت کے قانون کی وجہ سے کئی ایک غیرمسلموں کے خلاف مقدمات قائم کیے گئے۔ حالانکہ اس جرم کی پاداش میں کسی ایک کوبھی سزائے موت نہیں دی گئی تاہم عدالتوں کی جانب سے سزائیں سنانے سے ملزمان کو انتہائی اذیت سے ضرور گزرنا پڑا۔ بعدا زاں اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے سزائے موت کو قید میں تبدیل کرنے یا انہیں رہا کر دینے کے احکامات سے ان کے روحانی زخموں کو مندمل نہ کیا جاسکااور اکثر اوقات ایسا ہوا کہ ان افراد نے مغربی ملکوں میں سیاسی پناہ حاصل کر لی۔ چند ایک کیس ایسے تھے کہ عدالتی کارروائی کا آغاز بھی نہیں ہو پاتا تھا کہ مذہبی انتہا پسند ملزموں کو قتل کر ڈالتے۔ مزید برآں HRCP نے ایسے واقعات کا ذکر بھی کیاجن میں ہندو اور مسیحی مردوں اور خصوصاً خواتین کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے علاوہ گرجا گھروںاور مندروں پر حملوں کے کئی ایک واقعات ہوئے۔(21)

جنوبی ایشیاء کے معاشروں میں صدیوں سے سنی اور شیعہ مسلمانوں میں جھگڑے اور تنازعات سر اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن یہ ضیاالحق کا دور ہی تھا جب اس نے اسلامائزیشن کا نعرہ بلند کیا اور شیعہ قومیت نے کھل کر اسے للکارا۔ خصوصاً تمام مسلمانوں سے جبراً زکوٰة وصول کرنے پر اختلافات سامنے آئے۔ دونوں مکاتبِ فکر میں یہ اختلاف اس وقت اور بھی گہرے ہونا شروع ہوئے جب بیرونی عناصر نے مداخلت شروع کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب اور ایران نے اپنے اپنے نظریات کے پرچار کے لیے پاکستان میں پیسہ، لٹریچر، کتابیں، پمفلٹ اور آڈیو، وڈیو کیسٹس بھیجنا شروع کر دیں اور اس پروپیگنڈے کی آڑ میں اسلحہ بھی دھڑا دھڑ آنے لگا۔ شیعہ اور سنی عسکریت پسند ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو گئے۔ نتیجتاً کئی ایک خونیں جھڑپیں ہوئی، بم پھٹے اور اب تک کئی ایک علماء ان فرقہ وارانہ فسادات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔(22)

2.3 جہاد
پاکستان میں انتہا پسندی اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی جب امریکہ اور سعودی عرب نے مشترکہ طور پر افغانستان میں روسی افواج کے خلاف اعلانِ جہاد کیا۔ سوویت یونین نے 1979ء میں کمیونسٹ حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے افغانستان میں اپنی فوجیں داخل کر دی تھیں۔ دنیا بھر سے مسلمان جنگجوؤں کو اکٹھا کر کے پاکستان کے شمالی علاقوںمیں جمع کیا گیا اور انہیں خطرناک حد تک جہاد کے نظریات سے بہرہ مند کیا گیا۔ نبراسکا کی یونیورسٹی میں ایسی درسی کتب تیار کی گئیں جنہوں نے جہاد کے نام پرمعصوم مسلمان نوجوانوں کو ورغلا کر تشدد پسند روےّوں پر اکسایا۔ 1989ء میں روسی فوجوں کے انخلا کے بعد پاکستانی عسکریت پسندوں نے ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں جہادی کارروائیوں کو تقویت دی اور افغانستان میں سرگرم عمل طالبان کے ساتھ پاکستانی افواج نے اپنے روابط استوار رکھے کیونکہ طالبان جہاد کے لیے کمربستہ ہو چکے تھے۔(23)

11 ستمبر 2001ء کو القاعدہ کے امریکہ پر حملوں کے نتیجے میں بش انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کودھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل پرویز مشرف نے امریکی فوج کے خلاف نبردآزما ہونے کی بجائے ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' میں امریکہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ جس کا واضح مطلب یہی تھا کہ القاعدہ کی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے خفیہ اطلاعات کی فراہمی کے علاوہ پاکستان میں طالبان کی سرگرمیوں کو محدود کیا جائے۔ اس پالیسی نے پاکستان میں موجود اسلام پسندوں کو غم و غصے میں مبتلا کر دیا۔ خصوصاً وہ انتہا پسند جو کہ پاکستانی طالبان کہلاتے تھے اور ان کے افغان طالبان سے قریبی روابط بھی تھے، انہوں نے مجتمع ہو کرا علانیہ طور پرپاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کر دیا جن میں بم دھماکے، خود کش حملے اور جنرل مشرف سمیت دوسرے سینئر جرنیلوں پر قاتلانہ حملے شامل تھے۔

2007ء میں دہشت گردی کے حملوں میں اس قدر تیزی آ گئی کہ بسا اوقات ہفتے میں اور اکثر اوقات ایک ہفتے کے دوران کئی کئی بار خودکش حملوں کی ہولناک آوازوں سے درو دیوار گونج اٹھتے۔ عمومی طور پر دہشت گرد حکومت، خصوصاً افواج کے جوانوں اور تنصیبات کو نشانہ بناتے رہے ہیں جن میں عام شہری بھی مارے جاتے ہیں۔صرف2008ء میں دہشت گردی کے 2148 حملے ریکارڈ کیے گئے جن میں 2267 افراد ہلاک اور 4558 زخمی ہوئے اور یہ رجحان 2005ء کی نسبت 746 فی صد زائد تھا۔ اگر مختلف اقسام کی تمام متشدد کارروائیوں کا حساب لگایا جائے تو مرنے والوں کی کل تعداد 7997 تک پہنچ جاتی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 9670 بنتی ہے۔(24) پاکستان کی سا لمیت کو اس وقت شدید نوعیت کے خطرات درپیش ہیں۔ فروری 2008ء کے انتخابات کے بعد منتخب ہو کر آنے والی حکومت بھی دہشت گردوں کے ان حملوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ ادھر پاکستان کو امریکہ، یورپی یونین اور پڑوسی ممالک خصوصاً افغانستان اور بھارت کی جانب سے دہشت گردوں سے آ ہنی ہاتھوں سے نہ نمٹنے پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ ا ہے۔ اس اَمر میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اسلامی انتہا پسندوں نے پاکستان کے سماجی اور سیاسی نظام پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ بالآخر ان تمام عوامل اور طالبان کی سوات سے باہر پھیلتی ہوئی عملداری نے حکومت کو انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ جامع اور مضبوط حکمت عملی کے ساتھ 2009ء کے موسمِ بہار کے شروع میں سوات میں فوجی آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے اسے جنوبی وزیرستان تک بڑھا دیا گیاہے۔ خدشہ ہے کہ وہاں طالبان اور القاعدہ کے ا رکان چھپے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں انتہا پسندی کے خلاف بالآخر حکمت عملی نے جامع شکل اختیار کرنی شروع کر دی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ عسکریت پسندوں کو کچلنا نہایت ضروری ہے لیکن عسکریت پسندی کے تدارک کی اہمیت بھی اپنی جگہ صائب ہے اور اس کے لیے حکومت کو اپنے شہریوں اوربیرون ملک سے آنے والوں کی حفاظت کو یقینی بنانا ہو گا۔ جب ہر شخص ملک کی سالمیت کے لیے کام کرے گا تو پھرایسے بحرانوں کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ قدیم مبہم اسلامی قوانین بھی انتہا پسندی کا موجب بنتے ہیں۔ ان میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ اسکول کی درسی کتب میں بھی روشن خیال مضامین کو متعارف کرانا ہو گا اور ایسے مواد کو ختم کرنا چاہئے جس سے اشتعال انگیزی کو ہوا ملتی ہے۔ یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب قائد اعظم محمد علی جناح کے 11 اگست 1947ء کے خطاب کی روشنی میں پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کے ذریعے آئینی، قانونی، تعلیمی اور ثقافتی تبدیلیوں کو متعارف کرایا جائے۔

اختتامیہ
برطانوی نو آبادیاتی قانون سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد جنوب مشرق اور جنوبی ایشیاء کی پاکستان اور سنگاپور کی آزاد اور خودمختار ریاستیں آگے کی سمت پیش رفت کر رہی ہیں۔ دونوں ممالک کے رہنمائوں میں ریاستی اور معاشرتی بالغ نظری پائی جاتی ہے۔ سنگاپور میں شہریوں کے برابری کے حقوق کے حوالے سے مکمل یک جہتی موجود ہے جبکہ پاکستان کی حکومتیں جناح کے نظریات سے پہلو تہی برتتی رہی ہیں جس کی وجہ سے انتہا پسند پاکستان میں زور اور طاقت پکڑ گئے تھے جس نے بعدازاں تشدد پسندی کی صورت اختیار کر لی تھی۔

پاکستان نے انتہا پسند اسلامی تصور سے نجات کی راہ ڈھونڈ نکالی ہے لیکن اس ضمن میںتاحال طالبان کو شکست دینے کے علاوہ بنیاد پرست عوامل سے نجات حاصل کرنے کے لیے آئینی اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ قانون کی عملداری، مساوات اور شہریت کے جدید تقاضوں کو ممکن بنایا جا سکے۔ دہشت گردوں کے خلاف جنگ جاری رکھنا ہو گی تاکہ عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور پاکستان عالمی برادری میں اپنا مقام حاصل کر سکے۔ اس سلسلے میں پاکستان کو سنگاپور کی مثال کو سامنے رکھنا ہو گا کہ مذہبی جذبات کے غلط استعمال کو کیونکر روکا جائے اور مذہبی آزادی میں توازن کیسے حاصل کیا جائے؟ دین میں تشدد اور جبرجیسے نظریات کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور یقینا 21 ویں صدی ان واقعات کی متحمل نہیں ہو سکتی جو تیسری دنیا کی فسطائی ثقافت کی تصویر کشی کرتے ہوں۔

(ترجمہ: انجینئر مالک اشتر)
____________

حوالہ جات
 
1. http://www.defenddemocracy.org/index.php?option=com_content&
view=article&id=515778&Itemid=343, accessed on 30 July 2009.
2. http://www.isn.ethz.ch/isn/Digital-Library/Publications/Detail/? ots591=4888CAA0-B3DB-1461-98B9-E20E7B9C13D4&lng=en&id=90477, accessed on 30 July 2009.
3. Azhar Ibrahim, "Discourses on Islam in Southeast Asia and Their Impact on the Singapore Muslim Public" in Lai Ah Eng (ed.), Religious Diversity in Singapore, (Singapore: Institute of Southeast Asian Studies, 2008), pp. 92-102.
4. Speech made by the Prime Minister, Mr. Lee Kuan Yew, when he moved the motion of Thanks to the Yang Di-Pertuan Negara, for his Policy Speech on the opening of Parliament on 14th December 1965, http://stars.nhb.gov.sg/stars/public/ starsDetail.jsp?&chkDVD_id=20059&keyword=, pp. 41-2, accessed on 30 June 2009.
5. Seong Chee Tham, "Religious Influences and Impulses impacting Singapore" in Lai Ah Eng (ed.), Religious Diversity in Singapore, p.17.
6. Eugene K. B Tan, "Keeping God in Place: The Management of Religion" in Lai Ah Eng (ed.), Religious Diversity in Singapore, p.58.
7. Ibid., p. 63.
8. Ibid., p. 64.
9. Ibid., pp. 71-2.
10. Khalsa refers to the collective body of all baptized Sikhs.
11. Azhar Ibrahim, "Discourses on Islam in Southeast Asia and Their Impact on the Singapore Muslim Public" in Lai Ah Eng (ed.), Religious Diversity in Singapore, pp. 83-102
12. Ishtiaq Ahmed, State, Nation and Ethnicity in Contemporary South Asia, (London and New York: Pinter Publishers, 1998), p. 170.
13. Speeches and Writings of Mr. Jinnah, Vol. II, (Lahore, Sh. Muhammad Ashraf, 1976), pp. 403-4.
14. Ishtiaq Ahmed, The Concept of an Islamic State: An Analysis of the Ideological Controversy in Pakistan, (London: Frances Pinter, 1987). pp. 218-9.
15. Ishtiaq Ahmed, "South Asia" in David Westerlund and Ingvar Svanberg (eds.), Islam Outside the Arab World, (Richmond: Curzon, 1999), p. 231.
16. Ibid.
17. Ibid., p. 235.
18. Mumtaz, K. and F. Shaheed, Women of Pakistan: Two Steps Forward, One Step Back? (Lahore: Vanguard, 1987), pp. 77-96.
19. Human Rights Commission of Pakistan, State of Human Rights in 1997 through 2008, (Lahore: Human Rights Commission of Pakistan, 1997 to 2009).
20. Asma Jahangir and Hina Jilani, The Hudood Ordinances: A Divine Sanction? (Lahore: Sang-e-Meel Publications, 2003). 21. Ishtiaq Ahmed, 'Globalisation and Human Rights in Pakistan' in International Journal of Punjab Studies, Vol. 9, No. 1, January-June, 2002), pp. 57-89; State of Human Rights 1997-2007.
22. Ishtiaq Ahmed, 'South Asia' in David Westerlund and Ingvar Svanberg (eds.), Islam Outside the Arab World, ( Richmond: Curzon Press, 1999), pp. 232-33.
23. Ahmed Rashid, Taliban, Militant Islam, Oil and Fundamentalism in Central Asia, (New Haven: Yale University Press, 2000).
24. Pakistan Institute for Peace Studies, Pakistan Security Report 2008, (Islamabad: Pakistan Institute for Peace Studies, 2009), p. 3.
25. Ishtiaq Ahmed, 'The Spectre of Islamic Fundamentalism over Pakistan (1947-2007)' in Rajshree Jetly (ed.), Pakistan in Regional and Global Politics, (London, New York, New Delhi: Routedge, 2009), pp. 150-180.