working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

مغربی تہذیب کا چیلنج اور مسلم سماج
قاضی جاوید
نیٹو مغربی ممالک کی ایک بڑی جنگی تنظیم ہے جس کا بجٹ اربوں ڈالر میں ہے۔ سرد جنگ کے دنوں میں نیٹو نے مغربی مفادات کا تحفظ کیا تاہم جب دشمن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اُس وقت نیٹو کی بقاء خطرے میں پڑگئی کیونکہ جنگ لڑنے کے لئے ایک نئے دشمن کی تخلیق ناگزیر تھی۔ اُس وقت نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے اسلام کو مغربی تہذیب کے لئے سب سے بڑاخطرہ قرار دیا اور اُن کے اس مؤقف کی تائید سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے 'تہذیبوں کا تصادم' کے عنوان سے کتاب لکھ کر کی۔ طاقت ور امریکی میڈیا نے اس کی کتاب کو عالمگیر سطح پر متعارف کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ہنٹنگٹن نے اپنی اس کتاب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ تصادم کا سب سے زیادہ حقیقی اور شدید خدشہ اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان ہے۔تاریخ کا طالب علم اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ دنیا کی تمام تہذیبوں کے درمیان تضادات موجود ہیں اور انہیں کسی ایک تہذیب سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ مضمون نگار قاضی جاوید اردو اور پنجابی کے نامور ادیب، نقّاد اور دانشور ہیں۔ آج کل ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور کے سربراہ کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ زیرِنظر مضمون میں انھوں نے اسلامی اور مغربی تہذیب کے چنیدہ پہلوؤں کا جائزہ لیاہے۔ (مدیر)

ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی صاحب چند صفحے لکھیں اور ان کو عالمی اہمیت رکھنے والے دانش وروں کی فہرست میں شامل کر لیا جائے۔ اس قسم کا ایک واقعہ بیسویں صدی کے وسط میں مغربی دنیا کے سب سے زیادہ سنجیدہ حلقے یعنی فلسفے کی برطانوی دنیا میں اس وقت پیش آیا تھا جب لڈوگ وٹگنسٹائن نے Tractatus Logico-Philosophicus کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی تھی۔ یہ عنوان جرمن زبان میں ہے ا ور صاحبِ کتاب کا مطالبہ تھا کہ یہ کتاب خواہ کسی زبان میں ترجمہ ہو، اس کا جرمن عنوان قائم رکھا جائے۔ خیر، اس جرمن عنوان کا مطلب ہے ''منطقی فلسفہ کی مختصر کتاب'' یا پھر آپ یوں ترجمہ کر لیجیے کہ ''منطقی فلسفہ کا رسالہ''۔ یہ واقعی مختصر کتاب تھی۔ اس کے 65 یا 70 صفحات تھے۔ لیکن انہوں نے مغرب کے نصابی فلسفے کی دنیا بالکل بدل دی تھی۔

گزشتہ صدی کے آخری برسوں میں مختصر تحریروں کے غیر معمولی طور پر مؤثر ثابت ہونے کے دو اور واقعات بھی پیش آئے جو وٹگنسٹائن کے مقابلے میں زیادہ حیرت انگیز ہیں۔ ان دو واقعات کا تعلق دو مضامین کی اشاعت سے ہے جنہوں نے دنیا بھر میں بے شمار لوگوں کی سوچ پر اثر ڈالا۔

پہلے مضمون کا عنوان ''تاریخ کا خاتمہ'' یا "End of History" ہے اور یہ امریکی جریدے 'نیشنل انٹریسٹ' کے 1979ء کے ایک شمارے میں شائع ہوا تھا۔ مضمون نگار فوکویاما تھے جو ان دنوں واشنگٹن کے محکمہ خارجہ کے پالیسی پلاننگ ڈویژن میں کام کرتے تھے۔ مذکورہ مضمون کی اشاعت سے پہلے اس محکمہ سے باہر شاید ہی کسی نے فوکویاما کا نام سنا ہو گا، لیکن مضمون کیا شائع ہوا، ساری دنیا میں دھوم مچ گئی۔ یونیورسٹیوں اور مقامی زبانوں میں شائع ہونے والے روز ناموں تک میں تاریخ کے خاتمے کا چرچا ہونے لگا۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں جتنے منہ اتنی باتیں ہونے لگیں۔

فوکویامانے جو کہنا چاہا تھا، خوش قسمتی سے اس کو چند ا لفاظ میں پیش کرنا دشوار نہیں ہے۔ 'تاریخ' کی اصطلاح انہوں نے عمومی مفہوم کے بجائے کلاسیکی جرمن فلسفے کے مفہوم میں استعمال کی تھی جہاں اس کامطلب ہے دو متصادم آئیڈیالوجیز کے درمیان کشمکش کا زمانہ۔ جب انہوں نے اپنا مذکورہ مضمون رقم کیا تھا تو اس زمانے میں … یعنی 1989ء میں کمیونسٹ نظام مسمار ہو رہا تھا۔ اس کے مقابلے میں مغربی نظام کا غلبہ واضح ہو رہا تھا۔ اس نظام کو انہوں نے لبرل ڈیماکریسی کا نام دیا تھا۔ فوکویاما کا دعویٰ یہ تھا کہ لبرل ڈیماکریسی نے محض کمیونزم پر فتح حاصل نہیں کی، بلکہ اس کے ساتھ ہی ان گنت صدیوں سے جاری مختلف آئیڈیالوجیز کے درمیان کشمکش بھی ختم ہو گئی ہے۔ گویا لبرل ڈیماکریسی کی فتح مطلق فتح ہے۔ اب چونکہ مختلف آئیڈیالوجیز کے درمیان کشمکش بھی ختم ہو گئی ہے، لہٰذا تاریخ بھی اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے۔

فوکویاما ہم کو یہ جتلا رہے تھے کہ موجودہ مغربی تہذیب کو عالمی بالادستی حاصل ہو گئی ہے۔ اب اس کو کوئی قابلِ ذکر خطرہ لاحق نہیں رہا۔ 1989ء کے موسمِ سرما کی کسی ٹھنڈی صبح یا شام کو آپ کسی پارک میں ٹہلتے ہوئے کرۂ ارض کی صورتِ حال پر سوچ بچار کرتے تو شاید آپ خود بھی اس نتیجے تک پہنچتے کہ اشتراکیت کی موت سے مغربی تہذیب کو مکمل بالادستی مل گئی ہے اوراس کو کوئی قابلِ ذکر خطرہ لاحق نہیں ہے۔

اہلِ مغرب کے لیے یہ خوشی کی بات تھی اور انہوں نے اس کا جشن منایا۔ لیکن ان کے درمیان کئی ایسی قوتیں موجود تھیں جن کے لیے یہ خوش خبری موت کا پیغام ثابت ہو سکتی تھی۔ بات یہ ہے کہ سرد جنگ کے زمانے میں کمیونزم کے پھیلائو کو روکنے، اس کو قابو میں رکھنے اور بالآخر اس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے لیے مغربی دنیا نے درجنوں ادارے اور انجمنیں بنائی تھیں۔ ان میں ادیبوں اور صحافیوں کی تنظیمیں شامل تھیں۔ اہلِ علم کی مجلسیں تھیں۔ اخبارات و جرائد جاری کیے گئے تھے۔ مزدور یونینیں بنائی گئی تھیں اور بیسیوں قسم کے دیگر ادارے تھے۔ ان میں سے بعض بہت عظیم الشان ادارے تھے … مثلاً نیٹو کو لے لیجیے۔ یہ مغربی ملکوں کی جنگی تیاریوں کی تنظیم ہے۔ اس کا بجٹ اربوں ڈالرز سالانہ ہے۔ اس کی اپنی شان و شوکت ہے، درجنوں ذیلی ادارے ہیں، بیوروکریسی ہے اور ہیڈکوارٹر کے نام پر گویا اس کا اپنا ایک دارالحکومت بھی ہے۔ ٹھاٹھ باٹھ اس کے اس لیے تھے کہ مغربی دنیا کا ایک دشمن موجود تھا اور نٹیو کا کام اس پر نگاہ رکھنا تھا۔ جب دشمن نے خود ہی اپنے خنجر سے خودکشی کر لی تو نیٹو کا جواز بھی ختم ہو گیا۔

آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ اشتراکیت کی وفات نے نیٹو اور اس جیسے کئی دوسرے اداروں کے لیے کس قدر تکلیف دہ صورتحال پیدا کر دی تھی۔ ان کے وجود کا جواز ہی ختم ہو گیا تھا۔ افراد کی طرح ادارے بھی اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لیے ہاتھ پائوں مارتے ہیں۔ نیٹو اور اس جیسے دوسرے ادارے بچ سکتے تھے بشرطیکہ وہ مغربی ملکوں، مغربی نظام اور مغربی تہذیب کے لیے کوئی نیا خطرہ تلاش کر لیتے۔ اگر کوئی دشمن حقیقی دنیا میں موجود نہ تھا تو نیا دشمن تخلیق کیا جا سکتا تھا۔

نیٹو نے اس مشن میں کامیابی حاصل کر لی۔ اس کے سیانوں نے ایک دشمن تخلیق کر لیا جس سے اہلِ مغرب کو ڈرایا جا سکتا تھا۔

یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ یہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل تھے، جنہوں نے سوویت یونین اور مشرقی یورپ کی اشتراکی حکومتوں کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد صاف صاف لفظوں میں پہلی بار اعلان کیا کہ مغرب کے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کمیونزم کی موت سے ان کے ملکوں، نظام اور تہذیب کو لاحق خطرات ختم ہو گئے ہیں، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ دشمن نہ صرف موجود ہے بلکہ وہ کمیونزم سے بھی زیادہ خوفناک ہے اور وہ ہے … اسلام!

یہ سیدھی سی بات ہے کہ نیٹو کا باوسیلہ اور انتہائی طاقتور سربراہ اگر دشمن کے طور پر اسلام کا نام لے سکتا تھا تو وہ چند ایسے واقعات کو بھی وجود میں لا سکتا تھا جو اس کے دعویٰ کو سچا ثابت کر دیتے اور نکتہ چینی کرنے والوں کا منہ بھی بند کر دیتے۔

گزشتہ صدی کے آخری برسوں میں دو مضامین نے دنیا بھر میں بے شمار لوگوں کے ذہن متاثر کیے تھے۔ پہلا مضمون فوکویاما کا تھا ،دوسرا مضمون اصل میں پہلے مضمون کے خیالات کو آگے بڑھاتا ہے اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے جس خطرے کا ذکر کیا تھا، اس کو نظریاتی صورت میں پیش کرتا ہے۔ گویا اس خطرے کو اس مضمون کے ذریعے باقاعدہ نظریے کی صورت دے دی گئی۔

یہ دوسرا مضمون سیموئیل پی ہنٹنگٹن نے لکھا تھا اور وہ The Clash of Civilizations کے عنوان سے ، فوکویاما کے مذکورہ مضمون کی اشاعت کے چار سال بعد امریکی جریدہ 'فارن افیئرز' کے ستمبر 1993ء کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ پروفیسر ہنٹنگٹن کا تعلق ہارورڈ یونیورسٹی سے تھا، جہاں وہ سائنس آف گورنمنٹ کے استاد تھے اور اسی یونیورسٹی کے جان ایم اولن انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے ڈائریکٹر بھی تھے۔ ان کا زیر بحث مضمون اس انسٹی ٹیوٹ کے ایک پراجیکٹ ''سکیورٹی کا تغیر پذیر ماحول اور امریکی مفادات'' کے حوالے سے تحریر کیا گیا تھا۔ طاقتور امریکی میڈیا کے بل بوتے پر دیکھتے ہی دیکھتے یہ مضمون بھی ساری دنیا میں مشہور ہو گیا اور ہر جگہ اس کا چرچا ہونے لگا۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے نقطۂ نظر کو آگے بڑھاتے ہوئے پروفیسر ہنٹنگٹن نے لکھا کہ کمیونزم کے بعد کی دنیا میں مغربی دنیا کو مکمل بالادستی حاصل نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی اس کو لاحق خطرات ختم ہوئے ہیں۔ تضادات بھی ختم نہیںہوئے بلکہ درحقیقت ایک نیا طاقتور تضاد شروع ہو گیا ہے۔ اور یہ تضاد تہذیبوں کے درمیان ہے۔

ٹائن بی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ''اے سٹڈی آف ہسٹری'' میں اکیس عالمی تہذیبوں کا ذکر کیا تھا۔ ہنٹنگٹن کہتے ہیں کہ آج کی دنیا میں صرف چھ تہذیبیں ہیں … یعنی ہندی، چینی، افریقی، لاطینی، امریکی، مغربی اور اسلامی تہذیبیں۔ ان کے درمیان امتیازات اور اختلافات موجود ہیں اور وہ حقیقی اور اہم ہیں۔ تاریخ، زبان، ثقافت، روایات اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مذاہب ان کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں۔ مختلف تہذیبیں انسان، خدا، نظام حکومت، معیشت، اخلاقی و جمالیاتی اقدار، خاندانی نظام اور ایسے ہی کئی دیگر امور میں ایک دوسرے سے مختلف خیالات اور رویے رکھتی ہیں۔ ان کے باہمی تضاد باہمی تصادم کا سبب بن سکتے ہیں۔ تاہم، ہنٹنگٹن کے بقول، تصادم کا سب سے زیادہ حقیقی اور شدید خدشہ اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے درمیان ہے۔

خیر، یہ خیالات اچھوتے نہیں ہیں۔ تہذیب و تمدن کا کوئی معمولی طالب علم بھی اس امر سے بے خبر نہیں کہ دنیا میں مختلف تہذیبیں موجود ہیں اور ان کے درمیان بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اسلامی اور مغربی تہذیبوں کے باہمی تضادات پر اصرار کرنے والے لوگ بھی ہمیشہ موجود رہے ہیں۔یہ اَمر قابلِ ذکر ہے کہ 1993ء کے عالمی ماحول میں ان تضادات کو اجاگر کرنے کا مقصد صرف وہی تھا جو نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے بھی پیش نظر تھا … یعنی یہ کہ مغربی حکمرانوں کے لیے ایک دشمن تخلیق کرنا۔

یہ مقصد حاصل ہو چکا ہے۔ آج کی دنیا میں ہر جگہ یہ مان لیا گیا ہے کہ تہذیبوں کے درمیان مخاصمت بڑھ رہی ہے اور اسلامی اورمغربی تہذیبوں میں تصادم کا آغاز ہو چکا ہے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ اسلامی اور مغربی تہذیب میں کوئی تضاد موجود نہیں ہے اور جن تضادات کا آج کل چرچا ہو رہا ہے، وہ سب مصنوعی ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ ان دونوں تہذیبوں میں بہت سے اختلافات ہیں اور وہ صدیوں سے موجود چلے آتے ہیں۔ لیکن یہ معمول کی بات ہے کیونکہ یہ اختلافات محض ان تہذیبوں کے مابین نہیں ہیں، بلکہ دوسری تہذیبوں کے درمیان بھی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اب ان فاصلوں کو فساد انگیز مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔ حقیقی صورتِ حال یہ ہے کہ ڈیڑھ ہزار سال کی تاریخ کے دوران ان دونوں تہذیبوں کے درمیان معرکہ آرائیاں ہوتی رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کے زمانے بھی آتے رہے ہیں۔ ان دونوں نے ایک دوسرے سے سیکھا بھی بہت زیادہ ہے … یعنی ا س قدر زیادہ کہ علامہ اقبال جیسا محتاط فلسفی بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جدید مغربی تہذیب اصل میں اسلامی تہذیب کی ہی توسیع ہے۔

میرا خیال ہے کہ اس پس منظر کے بعد اب ہم مناسب طور پر سوال اٹھانے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں کہ وہ کون سے چیلنجز ہیں جو اس زمانے میں مغربی تہذیب نے مسلم تہذیب کے لیے پیدا کیے ہیں؟

ایک چیلنج تو بہت ہی بنیادی نوعیت کا ہے اور وہ صرف مسلم تہذیب کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام تہذیبوں کے لیے ہے … اس کا تعلق ایک نئے انسان اور ایک نئی دنیا کی تخلیق سے ہے۔ بات یہ ہے کہ مغربی تہذیب نے بلاشبہ لگ بھگ پورے کرئہ ارض پر غلبہ پا لیا ہے اور اس کی بالادستی کو تسلیم بھی کر لیا گیا ہے۔ اس کی اقدار، اس کے نصب العین، اس کی سائنس، فلسفہ اور ٹیکنالوجی ، اس کے علوم و فنون، اس کے طرزِ فکر اور اسلوبِ حیات کو ہمارے زمانے میں عالمی تسلط حاصل ہے۔ اس کے قائم کردہ معیارات تمام بّرِاعظموں میں کسی سنجیدہ مزاحمت سے دوچار ہوئے بغیر لاگو ہو چکے ہیں اور یہ سب کچھ انسانی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ اس سے پہلے کبھی کسی ایک تہذیب کو ایسا عالمگیر پھیلائو حاصل نہ ہوا تھا۔

یہ ایک قابلِ تعریف بات ہو سکتی تھی، اگر مغرب نے ایسی دنیا کو جنم دیا ہوتا جو پرامن بقائے باہمی، انسان دوستی، خوش حالی اور ترقی کے مستقل وسائل پر مبنی ہوتی اور اگر اس نے مطمئن اور تخلیقی انسان پیدا کیے ہوتے۔ مگر ایسا نہیں ہے … اور اس حقیقت کا اقرار دو چار یا دس پندرہ نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں خود مغربی دانش وروں نے کیا ہے۔ جو دنیا مغرب نے پیدا کی ہے، وہ ہلچل، مسابقت، تصادم اور لایعنی تبدیلی کی دنیا ہے اور اس کو قائم رکھنے کے لیے انتہائی خوفناک رفتار سے قدرتی وسائل خرچ ہو رہے ہیں۔ زندگی کو قائم رکھنے کے لیے ناگزیر طور پر درکار ان وسائل کا تیزی سے زیاں ہی یہ ظاہر کر دیتا ہے کہ یہ پائیدار دنیا نہیں ہے۔ دوسری طرف مغربی نمونے پر تیار ہونے والا انسان اپنی جبلتوں کا اسیر ہے اور بے رحم صارف ہے۔ وہ سب کچھ استعمال کر نا چاہتا ہے اور استعمال کے جنون میں اس نے خود زندگی کے وجود کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ سادہ سا کلیہ ہے کہ جو تہذیب سمیٹنے کی جنونی خواہش رکھنے والے انسان تیار کرے گی، وہ اعلیٰ معیار تک نہ پہنچ پائے گی۔

انسان اور اس کی دنیا کی بہتر تشکیل کے لیے زندگی اور ترقی کا ایک نیا ماڈل تیار کرنا ضروری ہے۔ اور یہ وہ چیلنج ہے جو مغربی تہذیب نے دوسری تہذیبوں کو دیا ہے، اہلِ اسلام کے لیے یہ چیلنج خاص طور پر اہم یوں ہے کہ وہ ایک متبادل دنیا کی تشکیل کے لوازمات اور عزم رکھنے کے مدعی ہیں۔ لیکن آج کی مسلم دنیا کی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے یہ یقین کرنا ممکن نہیں ہے کہ مسلمان دوسروں کی مدد لیے بغیر، محض اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے بل بوتے پر، متبادل دنیا تعمیر کر سکتے ہیں۔ سرمایہ داری جمہوریت کا نظام اس قدر مستحکم ہے اور دنیا بھر میں اپنی اس قدر زیادہ ساکھ بنا چکا ہے کہ اس سے انحراف کرنے اور نیا جہاں آباد کرنے کے لیے دنیا بھر کی ان تمام قوتوں کو مل کر کام کرنا ہو گا جو موجودہ نظام سے مطمئن نہیں ہیں۔

ابھی یہ محض ایک خواب ہے۔ یا یوں کہہ لیجیے کہ ایک طویل المیعاد منصوبہ ہے جو نہ تو ابھی اس قدر مؤثر اور واضح انداز میں پیش ہوا ہے کہ عالمی سطح پر لوگوں کی اکثریت کی توجہ حاصل کر سکے اور نہ ہی اس کو عملی جامہ پہنانے کے عزم کے ساتھ کوئی مؤثر جماعت وجود میں آئی ہے۔چنانچہ ہم مغربی تہذیب کی طرف پیش کیے جانے والے ان چند چیلنجوں پر توجہ دیتے ہیں جو زمانہ حال میں توجہ چاہتے ہیں ا ور جن سے عہدہ برا ہو کر بالآخر مذکورہ خواب کی تکمیل کی راہ ہموار ہو گی۔

ان میں سے اولین چیلنج جمہوریت کے فروغ کا ہے۔ جمہوری فلسفے اور نظام میں خامیاں تلاش کرنا، اس قدر سہل ہے کہ ابتدائی سیاسیات کا کوئی طالب علم بھی یہ کام کر سکتا ہے۔ زیادہ نہ سہی، یہ بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ جمہوریت میں افراد کو گنا جاتا ہے، 'تولا' نہیں جاتا (یہاں میں اس بحث میں دلچسپی کا اظہار نہ کروں گا کہ 'تولنا' ایک رومانوی شاعرانہ تصّور ہے۔ یہ ہرگز معروضی اور غیر جانب دار عمل نہیںہو سکتا) ۔یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ اپنی بہت سی خامیوں کے باوجود جمہوریت ان تمام تجربات سے بہتر ہے جو انسان نے اپنے سیاسی اور اجتماعی نظام کی تشکیل کے لیے اب تک کیے ہیں۔

جمہوریت اب محض مغربی نظام نہیں رہا۔ ساری غیر مسلم دنیا نے اس کو قبول کر لیا ہے۔ صرف مسلم معاشرے ہی ہیں جو اس کو قبول نہیں کر سکے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت کرۂ ارض پر پچاس سے زیادہ مسلم ممالک موجود ہیں اور ان میں سے کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں ہے جہاں کامیاب جمہوری نظام رائج ہو۔ ان میں قرونِ وسطیٰ کی یادگار بادشاہتیں ہیں۔ آمریتیں ہیں یا پھر فوجی یا نیم فوجی حکومتیں ہیں۔ حکمرانی کے یہ سب انداز ہمیں بتاتے ہیں کہ مسلم اقوام دوسروں سے کم از کم پانچ صدیاں پیچھے رہ گئی ہیں۔ ان کا سیاسی، تمدنی اور سماجی ارتقاء رک گیا ہے۔

اس کا سبب کہیں یہ تو نہیں کہ جمہوریت مسلم تقاضوں اور مزاج کے خلاف ہے؟ جدید مسلم دانش وروں کی واضح اکثریت جمہوری نظام کی حمایت کرتی ہے۔ بلکہ دانش ور یہ دعویٰ بھی کیا کرتے ہیں کہ سب سے پہلے اسلام نے ہی جمہوریت کی داغ بیل ڈالی تھی۔ اس خیال کی تائید کرنے والوں میں علامہ اقبال، سید ابوالاعلیٰ مودودی اور علامہ جاوید الغامدی جیسی بیسیوں معروف شخصیات شامل ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ جمہوری نظام کو اسلامی تائید حاصل ہو چکی ہے۔ دوسری طرف جمہوریت ہی وہ سب سے بڑا چیلنج ہے جو مغربی تہذیب کی طرف سے مسلم سماج کو درپیش ہے۔ مغرب والے پہلا طعنہ ہی یہ دیتے ہیں کہ مسلم اقوام اس نظام کو اپنا نہیں سکی ہیں۔ وہ اس کو قبول کرنے پر زور بھی دیتے رہتے ہیں اور ان کے دانشور یہ سبق دیتے ہیں کہ جمہوریت کے رواج سے مسلم اور مغربی دنیائوں میں فاصلے بہت کم ہو جائیں گے اور مسلمان بھی جدید دنیا کا حصہ بن جائیں گے۔

البتہ اس معاملے میں مغرب کا رویہ مخلصانہ نہیں بلکہ اس قسم کا ہے جس کو نہ چاہتے ہوئے بھی منافقانہ ہی کہا جائے گا۔ وہ مسلمانوں کو جمہوریت کی تلقین کرتے ہیں، اس کے ثمرات اور فوائد گنواتے ہیں، اس کی برکات سے آگاہ کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ اپنے معاشی اور سیاسی مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے ایسے لوگوں کو مسلم ملکوں میں برسرِاقتدار رکھنا چاہتے ہیں جو اپنے عوام سے زیادہ ان کے مفادات کے نگران ہوں اور ان کے ایجنڈے پر بلا چون و چرا عمل کرنے پر تیار ہوں۔ اس ناگوار صورتِ حال میں بس یہی کہا جا سکتا ہے کہ مسلم عوام مغرب کی طرف سے آنے والے جمہوری نظام کو قبول کرنے پر تیار ہیں اور ان کے علمائے کرام اور دانش وروں نے اس نظام کے ساتھ اپنے عقیدے کے پائے جانے والے تضادات یا تو حل کر لیے ہیں یا فراموش کر دیئے ہیں۔ اب اگر مغرب اپنا روّیہ بدلے اور حقیقی معنوں میں جمہوری نظام کو یہاں رائج کرنے میں بھرپور دلچسپی لے تو اس میں کوئی قابلِ ذکرمزاحمت درپیش نہیں ہو گی۔

مغربی تہذیب کی طرف سے آنے والے دوسرے بڑے چیلنج کا تعلق مسلم سماج میں عورتوں کی صورتِ حال سے ہے۔ مغربی کی طرف سے طعنہ دیا جاتا ہے اور اب اس میں دنیا کی دیگر اقوام بھی اس کی ہمنوا ہو گئی ہیں اور کہتی ہیں کہ مسلم سماج میں عورتوں کی مجموعی طور پر حیثیت غلاموں سے کچھ ہی بہتر ہے۔ اس سماج میں ایسے طبقات پیدا ہو چکے ہیں جن کی عورتوں کو لگ بھگ وہی سہولتیں حاصل ہیں جو دنیا کے دوسرے ملکوں میں موجود خواتین کو ہیں۔ ان طبقوں کی عورتیں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتی ہیں۔ معاشی مواقع حاصل کر رہی ہیں اور اپنی زندگی کے بارے میں خود فیصلے کرنے کا اختیار رکھتی ہیں۔ لیکن سماج میں ان کی تعداد کا معاملہ وہی ہے جس کو آٹے میں نمک کے محاورے سے بیان کیا جاتا ہے۔

حقیقتِ احوال یہ ہے کہ مجموعی اعتبار سے، مسلم سماج میں عورتوں کی صورتِ حال خوش گوار نہیں ہے۔ وہ انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ ان کو اپنی زندگی کے بارے میں فیصلے کرنے کا اختیار حاصل نہیںہے۔ لہٰذاوہ دوسروں کے رحم و کرم پر رہتی ہے اور وہ عموماً بے رحمی کے ساتھ ان کے معاملات طے کرتے ہیں۔ اس سماج میں عورتیں تعلیم اور جدید شعور سے جان بوجھ کر محروم رکھی جاتی ہیں۔ اس لیے وہ معاشی مواقع سے بھی محروم ہیں جو کہ دراصل آزادی اور مساوات کی بنیاد بنتے ہیں۔ حال ہی میں ایک اور تکلیف دہ عامل کا اضافہ ہو گیا ہے۔ وہ عامل یہ ہے کہ جہاں کہیں مسلم شدت پسندوں کو غلبہ حاصل ہوتا ہے، وہاں عورتوں کو اور بھی پیچھے دھکیل دیا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ شدت پسندی کا سب سے بڑا محرک ہی عورت دشمنی ہے۔ حالیہ مہینوں میں صوبہ سرحد کے علاقوں میں طالبان کے غلبے کو دیکھ لیجیے۔ انہوں نے چند ہی ہفتوں میں لڑکیوں کے تین سو سے زیادہ سکول نذرِ آتش کر ڈالے۔ اگر یہ لوگ حقیقی مذہبی جذبے سے معمور ہوتے تو تین سو سکول جلانے کے بجائے لڑکیوں کے پانچ سو مزید سکول قائم کرتے۔

حقائق یہی ہیں کہ مسلم خواتین کی بدحالی کا تعلق اسلامی تعلیمات سے نہیں ہے۔ یعنی اسلام ان کی موجودہ صورتِ حال کا ذمہ دار نہیں ہے۔ اس صورتِ حال کے کئی ایک اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک سبب لوگوں کی مقامی عادات اور رسوم و رواج ہیں۔ قبل اسلام کے اثرات بھی ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتے چلے آئے ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ ابتدائی صدیوں میں جن بزرگوں نے مذہبی قانون کی تدوین کی، ان کے اپنے رویے بھی عورتوں کے ساتھ مسلمانوں کے عمومی سلوک کا باعث بنتے رہے ہیں۔

ہمیں یہ اَمر بھی یاد رکھنا ہوگاکہ کسی سماج میں عورتوں کی صورتِ حال کا تعین بنیادی طور پر اس سماج کی معاشی صورتِ حال سے ہوتا ہے۔ عورتوں کی آزادی اور جنسی مساوات کا تصور جدید سرمایہ داری نظام نے دیا ہے اور جہاں جہاں یہ نظام پہنچ رہا ہے، وہاں وہاں عورتوں کے حالات تیزی سے بدلتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا ناگزیر تعلق ہے، جس کو روکا نہیں جا سکتا۔ بھارت کی مثال لے لیجیے۔ ساٹھ سال پہلے متحدہ ہندوستان میں مسلمان عورتوں کی صورتِ حال ہندو عورتوں سے مختلف نہ تھی۔ کئی لحاظ سے وہ ہندو عورتوں سے آگے تھیں۔ ان پر مذہبی اور سماجی پابندیاں کم تھیں۔ لیکن اب معاملہ مختلف ہے۔ سرمایہ داری نمونے پر خاصی تیزی سے ترقی کرنے کی وجہ سے بھارتی عورتیں آگے نکل گئی ہیں۔ وہ زیادہ پُراعتماد ہیں، باشعور ہیں اور زندگی کے تمام شعبوں میں آگے بڑھ رہی ہیں۔

مسلم ملکوں کی معیشتیں فی الحال عورتوں کو آگے بڑھنے کے مواقع دینے کے لیے سازگار نہیں ہیں تاہم وہاں بھی یہ عمل شروع ہو چکا ہے۔ ہمیں اس امر کا احساس کر لینا چاہیے کہ عورتوں کی حالت کو بہتر بنائے بغیر جدید دنیا میں ہم خود کودوسروں سے الگ تھلگ محسوس کرتے رہیں گے۔ دوسروں کے ساتھ نہ صرف فاصلوں کو کم کرنے بلکہ خود اپنے سماج کو بہتر بنانے کے لیے بھی عورتوں کی موجودہ صورتِ حال کو تیزی سے بدلنا ہو گا۔

مغرب سے آنے والا تیسرا بڑا چیلنج سرمایہ داری نظام کو مسلط کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ بہت سے دانشور اس چیلنج کو اہمیت دیتے ہیں اور ہمیں آگاہ کرتے ہیںکہ جدید سرمایہ داری نظام کو قبول کرنے سے مسلم سماج میں وہ تمام تبدیلیاں خود بخود پیدا ہوتی چلی جائیں گی جن کا تقاضا مغرب کی طرف سے کیا جاتا ہے۔ دراصل موجودہ مغربی تہذیب کی اساس اس کے معاشرتی نظام پر ہے اور وہ سب سے زیادہ اس کا دفاع کرنے پر مستعد رہتا ہے۔

مسلم دانش ور سرمایہ داری نظام کو جوں کا توں قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں تو اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں۔ حقیقت میں یہ ایک ایسا نظام ہے جس کو دنیا بھر میں سوچنے اور سمجھنے والے لوگوں کی بہت کم تعداد کی تائید حاصل ہے۔ اس کے بنیادی اصولوں کو عہدِ وحشت کی یادگار قرار دینے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ وہ جتلاتے ہیں کہ سرمایہ داریت جبلّتوں کی تسکین، لالچ، حسد، بے رحم مقابلہ بازی اور طاقتور کی بالادستی کے ان اصولوں پر مبنی ہے جس کو تہذیب و تمدن کے تقاضوں نے صدیوں پہلے مسترد کر دیا تھا۔

مسلم دانش وروں کا معاشی نقطۂ نظر اس طرزِ استدلال سے زیادہ مختلف نہیں۔ وہ معاشی عمل اور سرگرمیوں کو اخلاقی ضابطوں کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کا تقاضا یہ ہے کہ معیشت کو انسانوں کی فلاح و بہبود کا وسیلہ ہونا چاہیے۔ وہ معیشت کی بنیادی تنظیم کاری منڈی کے سپرد کرنے پر آمادہ ہو سکتے ہیں اور اس حد تک سرمایہ داریت کے ساتھ چلنا ان کے لیے دشوار اس لیے بھی نہ ہو گا کہ اسلام جائز حد تک منافع کی گنجائش مہیا کرتا ہے۔ لیکن وہ معاشی امور میں ریاست کو غیرجانب دار نہیں دیکھنا چاہتے۔ ریاست کو دخل اندازی کرنا ہو گی، ضروری شرائط نافذ کرنا ہوں گی اور معاشی عمل کو اخلاقی، تہذیبی اور انسانی اقدار کا پابند رکھنا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام کے مغربی اور غیر مغربی نقادوں سے مسلم دانش وروں کا معاشی نقطۂ نظر زیادہ مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی منڈی کو معیشت کی لازمی قوتِ محرکہ خیال کرتے ہیں، لیکن اس کو اخلاقی قواعد و ضوابط کا پابند رکھنا چاہتے ہیں تاکہ زندگی کی دوڑ میں ناتواں اور پیچھے رہ جانے والے کچلے نہ جائیں۔

چیلنج ہمیشہ منفی نہیں ہوتے اور نہ ہی ہمیشہ ان کا مقصد ایک دوسرے کو مغلوب کرنا ہوتا ہے۔ انسانی تہذیب و تمدن کے معاملے میں یہ بات اور بھی زیادہ درست ہے۔ آپ انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ پر نگاہ ڈالیے تو جو باتیں سب سے پہلے نمایاں ہو کر سامنے آئیں گی ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ تہذیبیں ہمیشہ ایک دوسرے سے سیکھتی ہیں۔ ان کے درمیان لین دین ہی ان کی زندگی کی ضمانت ہوتا ہے۔ جو تہذیبیں نہ کسی سے کچھ سیکھتی ہیں، نہ دوسروں کو کچھ سکھاتی ہیں، وہ مردہ ہوتی ہیں یا پھر جان کنی کی کیفیت میں مبتلا ہوتی ہیں۔

تہذیبی لین دین کا عمل اکثر تہذیبوں میں لاشعوری ہوتا ہے۔ وہ خاموشی سے جاری رہتا ہے اور جو تبدیلیاں اس کے سبب سے آتی ہیں، وہ ہلچل پیدا کیے بغیر سماج کا حصہ بن جاتی ہیں۔ لیکن مسلم تہذیب میں یہ عمل لاشعوری نہیں، شعوری ہے۔ کیونکہ اس تہذیب کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ اچھی شئے، حکمت، علم اور حسن، جہاں سے دستیاب ہو، اس کو حاصل کیا جائے گا اور اپنی میراث مانا جائے گا۔ اس اصول کے تحت مسلمانوں نے اچھے دنوں میں دوسروں سے سیکھنے کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھے تھے۔ یہ قرونِ وسطیٰ کے کھلے معاشرے تھے اور فعال بھی۔ وہ جہاں دوسروں سے سیکھ رہے تھے، وہاں ان کو سکھا بھی رہے تھے۔ منگول حملوں اور داخلی ٹوٹ پھوٹ نے اس عمل کو ختم کر دیا اور اس کے ساتھ ہی تہذیبی زوال کا عمل بھی تیز ہو گیا۔

ایک اور نکتہ جو زیرِ بحث موضوعات کے پس منظر میں اہم ہے، وہ یہ ہے کہ ایک صدی سے زیادہ عرصہ سے مغرب کے زوال کا چرچا ہو رہا ہے۔ اور کم و بیش ہم سب تسلیم کرتے ہیں کہ مغرب تیزی سے اپنی بالادستی کے خاتمے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ یہ چرچا مشرق سے شروع نہیں ہوا تھا بلکہ انیسویں صدی کے اواخر میں خود مغرب کے بعض فلسفیوں اور مدبّروں نے اس کا ذکر شروع کیا تھا۔ ان میں سووین کر کیگارڈ اورنطشے زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کے چند ہی سال بعد آسولڈ سپینگلر نے ''زوالِ مغرب'' کے عنوان سے ایک ضخیم کتاب لکھ ڈالی تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ یہ تصور دنیا بھر میں پھیل گیا۔ اس زمانے کی محکوم قوموں کے دانش وروں میں فطری طور پر اس کو بہت پذیرائی بھی ملی۔ ہمارے ہاں علامہ اقبال نے اس کو موضوعِ سخن بنایا۔ بعد ازاں جب نوآبادیاتی نظام ٹوٹنے لگا تو مغرب کی بالادستی یقینی دکھائی دینے لگی۔

دراصل مغرب بدل تو رہا ہے، لیکن ان معنوں میں زوال پذیر نہیں جیسا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس نے نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کا صدمہ سہہ لیا ہے اور اب اکیسویں صدی کے اوائل میں جب چین، بھارت اور کئی دوسری چھوٹی اقوام تیزی سے آگے بڑھتی نظر آ رہی ہیں، مغرب کی بالادستی کمزور نہیں پڑ رہی۔ وہ نہ صرف معاشی اور جنگی اعتبار سے دوسروں سے بہت آگے ہے بلکہ نیا علم بھی تخلیق کر رہا ہے اور تہذیبی امور میں بھی دیگر اقوام کا قائد ہے۔ وہ زوال کی زد میں آئے گا تو ماضی کی اقوام کی طرح بے خبری کی حالت میں اس کا شکار نہ ہو گا۔ یہ ہے وہ صورتِ حال جو اس کو توانائی عطا کرتی ہے اور اپنی پوزیشن کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔

ظاہر ہے کہ مغربی تہذیب ابدی نہیں، وہ ہمیشہ قائم نہیں رہے گی۔ تاریخ کا سبق یہی بتاتا ہے کہ ایک دن وہ پیچھے دھکیل دی جائے گی اور انسان اس سے آگے نکل جائے گا۔ تاہم موجودہ مغرب کو سمجھنے کے لیے اس کی حقیقی صورتِ حال کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔

(لاہور میں منعقدہ ایک سیمینار میں پڑھا گیا)