working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پاکستان میں سول ملٹری تعلقات
محمد وسیم
پاکستان میں سویلین حکمرانوں اور فوج کے باہمی تعلقات کی نوعیت حساس اور پیچیدہ ہے۔ فوج کے سیاسی اثر و رسوخ کا آغاز قیام پاکستان سے قبل ہی شروع ہوچکا تھا۔ آنے والے برسوں کے دوران فوج کو سیاسی طور پر مضبوط ہونے کا موقع ملا اور یوں 1958ء میں ملک میں پہلا مارشل لا نافذ ہوا۔فوجی مداخلت کے باعث جمہوری کلچر کو پنپنے کا موقع نہیں مل سکا۔ زیرِ نظر تحقیق میں مقالہ نگار محمد وسیم نے پاکستان کے تناظر میں سول ملٹری تعلقات کا جائزہ لیا ہے اور اُن عوامل کی کھوج لگائی ہے جن کے باعث ملک میں فوجی حکمرانوں کو برسرِاقتدار آنے کے مواقع ملتے رہے ہیں۔ مضمون نگار محمد وسیم کا شمار اُن معدودے چند محققین میں ہوتا ہے جنہوں نے تاریخ کا درست تناظر پیش کرنے کی سعی کی ہے۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) کے شعبہ سوشل سائنسز میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔ قبل ازیں محمد وسیم ،قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے سربراہ کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ (مدیر)
تعارف
پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کی نیرنگ تاریخ پاکستان سے وابستہ روایتی تصورات کا اہم جزو بن چکی ہے۔ یہ تاریخ اقتدار پر فوجی قبضوں، آئینی بحرانوں، منتخب اسمبلیوں کی برطرفیوں اور ریاست کی تشکیل نو کے لیے کی گئی اصلاحی کوششوں پر مشتمل ہے۔ فوجی حکمرانی کا یہ مظہر پاکستان کے علاوہ لاطینی امریکا، ایشیا اور افریقہ کے ایسے ممالک میں بھی موجود رہا جو تیسری دنیا کا حصہ ہیں اور جن میں ارجنٹائن، برازیل، چلی، برما، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، گھانا، نائیجیریا اور یوگنڈا شامل ہیں۔ فنر، جانووٹز ،ہنٹنگٹن اور دیگر سکالرز کی ایک نسل نے اس مظہر کی مختلف صورتوں کا تفصیلی مطالعہ کیا تاکہ ان ممالک میں سول ملٹری تعلقات کی پریشان کن نوعیت کی تفہیم کے لیے کوئی نظری ضابطے وضع کیے جا سکیں۔(1) دانشورانہ تحقیق کا یہ عمل بالآخر فوجی اقتدار سے سول اقتدار میں تبدیلی کے دائرے میں داخل ہوا۔ اقتدار کی نوعیت میں تبدیلیوں کے دو اور دھاروں، جن میں کمیونسٹ اقتدار سے جمہوری اقتدار جیسا کہ مشرقی یورپ ،ویت نام اور کمپوچیا ، اور دوسرا شہنشاہیت سے پارلیمانی طرز حکومت جیسا کہ نیپال میں ، کے ساتھ مل کر جمہوری تبدیلی کا یہ عمل تقابلی سیاست کے فریم ورک میں بڑی تعداد میں تحقیقی کاوشوں کا باعث بنا۔ ریاستی نظام کے یہ دو طریقے یعنی فوجی اور سول طرزِ حکومت ، خاص کر پاکستان میں جہاں یہ دونوں نظام یکے بعد دیگرے آتے رہے اور ان دونوں نے مل کر سیاسی تناظر کی تشکیل کی ہے، زیرنظر تحقیق کا موضوع ہے۔

سول اور ملٹری کے درمیان 'تفاوت' ایسا مظہر نہیں ہے جو صرف پاکستان جیسے ممالک تک محدود ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں اس 'تفاوت' کا اندازہ لگانے کے لیے کیے گئے عوامی رائے کے حصول کے سروے (2)اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ معاشرے کے عام افراد اور مسلح افواج سے تعلق رکھنے والے اہلکاروںکے درمیان سماجی زندگی کے بارے میں نقطۂ نظر کا اختلاف موجود ہے۔(3) آزاد خیال جمہوریتیں اس تقسیم کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔(4) ایک ایسی تقابلی صورت حال فرانس کی ہے جہاں ملٹری کو روایتی طور پر ''ہتھیار بند قوم'' کا عملی اظہار سمجھا جاتا تھا جو وینیسن کے مطابق ایک طاقتور دیومالاہے جس کی جڑیں قوم پرستی کے تحت افراد کی جبری بھرتی کے تصور میں ہیں۔(5) جبکہ مغربی معاشروں میں اس 'تفاوت' سے متعلق مسائل پر رائے عامہ کے جو سروے کیے گئے ہیں، ان میں پاکستان جیسے ممالک کے بارے میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ تاہم جنوبی ایشیا میں جمہوریت کے بارے میں ہونے والے ایک حالیہ سروے میں پاکستان کے بارے میں دلچسپ مشاہدات سامنے آئے ہیں۔ ایک طرف تو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ فوج سیاسی نظام کو درست کرے۔ دوسری طرف وہ عوامی نمائندگان کی حکومت کی پُرزور حمایت کرتے ہیں۔(6) یہ تو ظاہر ہے کہ سیاسی رویوں اور عوامی پالیسی کی الگ الگ شناخت نہیں ہے جو پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کی واضح تصویر پیش کر سکے۔

جہاں فوجی اقتدار کی جڑوں کو پہچاننے کی کوشش ایک دلچسپ عمل ہے، وہاں یہ سمجھنا اس سے بھی زیادہ اہم ہے کہ فوج کو کسی کھلے سیاسی کردار سے الگ رکھنے کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے۔ فوجی اقتدار کے خاتمے کے بعد کے منظرنامے میں، فوج سول اداروں سے روابط استوار کرنے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کرتی ہے اس سے ان امکانات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ریاست کے اقتداری ڈھانچے میں حصے دار ہونے کی حیثیت سے اپنے مفادات کا کس حد تک تحفظ کر سکتی ہے۔ طویل المدتی تناظر میں دیکھا جائے تو اس عبوری دور سے حکومتی ڈھانچے کی سیاسی و آئینی بصیرت تشکیل پاتی ہے۔ حالیہ دہائیوںمیں مصر، سیاسی عمل سے فوج کی کامیاب علیحدگی کی ایک روشن مثال پیش کرتا ہے۔ فوج یکلخت ایک ایسا مفید گروہ بن گئی ، جس کے معاشرے کے ساتھ باہمی روابط مناسب پابندی کے ساتھ استوار ہیں۔ تاہم سیاسی طور پر طاقت ور فوج کا سامنا کرنے والے دوسرے کئی ایک ممالک(7) کی طرح مصری فوج بھی سیاست سے علیحدگی کے باوجود 'سیاسی پن' سے مبرا نہیں ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ تصوراتی سطح پر فوج کی اقتدار سے علیحدگی کا جمہوریت کی طرف بڑھتے ہوئے سفر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ رائے اُسی صورت میں درست قرار پا سکتی ہے جہاں افواج رسمی طور پر سول کنٹرول میں ہیں جیسے شام اور عراق میں بعث پارٹی یا مصر میں سادات اور حسنی مبارک کے تحت۔(8) فوج کی علیحدگی کا یہ عمل ' حاکمانہ حصار' ، 'حلقہ اثر' اور بعض دیگر ایسے طریقے اپنے اندر رکھتا ہے جس سے مکمل علیحدگی واقع نہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ خاص حالات میں فوجی دخل اندازی کی شرط بھی موجودہے جیسا کہ نائجیریا، سوڈان ، ایلسلواڈور اور پاکستان میں۔(9) ایسی ریاستوں میں جہاں فوجی اقتدار کے خاتمے کے بعد 'جمہوری' حکومتیں قائم ہوئی ہیں، سول ملٹری تعلقات کا مطالعہ بہت اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سے ملٹری کے سول اداروں کے ساتھ عمومی تعلقاتِ کاراستوار کرنے کی صلاحیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

لاطینی امریکا میں جمہوری تبدیلی کے عمل کی بعض صورتوں کے مطالعے سے دو وسیع تناظر سامنے آتے ہیں۔ اوّل یہ کہ اقتدار کی منتقلی کے بعد بھی فوج عوامی پالیسی پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کی صلاحیت کا مؤثر استعمال برقرار رکھتی ہے اور اپنے اداراتی مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ برازیل اور چلی اس کی نمائندہ مثالیں ہیں۔ یہاں جمہوری تبدیلی کا طریقہ کار تبدیلی کی بجائے تسلسل کا عمل نظر آتا ہے جہاںفیصلہ سازی میں فوج کے کردار کی بالادستی تھی۔ دوسرا تناظر انتخابی حرکیات اور شراکتی سیاست میں عوامی رویے پر ان کے اثرات ، اداراتی احتساب اور patron-client relation کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں یہ کہا گیا ہے کہ انتخابات، نمائندگان کے ذریعے حکومتی ڈھانچے کی تشکیل اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جاری کوششوں کے ذریعے کیے جانے والے عوامی حکومت کے اس سارے عمل کی نوعیت وقت کے ساتھ ساتھ متبدل ہے اور اس پر ضرورت سے زیادہ دبائو نہیں ڈالا جا سکتا۔ اس عمل میں فوجی طاقت ان معنوں میں کم ہوتی ہے کہ پالیسی سازی اور عوامی مباحثوں پر اس کا کنٹرول محدود ہوتا چلا جاتا ہے۔(10) دوسرے لفظوں میں اقتدار کی محض نام نہاد منتقلی کی نسبت زیادہ بہتر جمہوری تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ بعض دیگر مثالوں میں جیسا کہ ایلسلوڈور میں، جبر کے خاتمے اور داخلی طور پر آزادیٔ اظہار کی اجازت کی بیرونی کوششوں کے خلاف فوجی حکومت کے ایک دہائی تک مزاحمت کرنے کے بعد، یہ امریکی دبائو تھا جس کے تحت 90ء کی دہائی کے اوائل میں پولیس، عدلیہ اور انتخابات کے نظام میں اصلاحات کی گئیں اور انسانی حقوق کی صورتحال بہتر ہوئی۔(11)

افریقہ میں عبوری دور میں سول ملٹری تعلقات کی تصورسازی کی کوشش کے دوران ، جینڈائے فریزر کو یہ بات بہت مضحکہ خیز معلوم ہوئی کہ جمہوری تبدیلی میں انتخابی اور آئینی اصلاحات پر توجہ دی جاتی ہے بجائے اس کے کہ فوج کو کنٹرول کرنے کے لیے ادارہ جاتی سطح پر نئے انتظامات کیے جائیں۔(12) اس کے خیال میں اس ادارہ جاتی حکمت عملی میں انتظامیہ، عدلیہ اور دفاعی اداروں کے تعلقاتِ کار کی تشکیلِ نو کے ذریعے حکومتی ڈھانچے میں طاقت کا توازن بہتر کیا جائے۔ تبدیلی کا یہ عمل پالیسی میں امکانات کی تشکیل کرتا ہے۔(13)زیرنظر تحقیق کے تناظر میں ، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سول ملٹری تعلقات کے ادارہ جاتی عدم توازن نے فوجی اقتدار اور عوامی حکومت دونوں کو نقصان پہنچایا ہے۔ دونوں صورتوں میں فوج کی دفاعی صلاحیت بین الاقوامی سیاست میں منحصر متغیر اور ملکی سیاست میں غیرمنحصر متغیر کے طور پر لی جا سکتی ہے۔ فوج اپنے دفاعی نظام کی ضرورت کے تحت ملکی سرحدوں سے باہر واقع دنیا کی طرف بھی اسی طرح جھکائو رکھتی ہے جیسا کہ ان سرحدوں سے اندرکی طرف۔ اس سے فوج کے ادارے کی حیثیت اور نوعیت ریاست کے دیگر اداروں سے مختلف ہو جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تیسری دنیا کا کوئی بھی ملک ریاست کی تشکیل کے عمل میں داخلی طور پر شدید نوعیت کے ادارہ جاتی دبائو کے زیرِ اثر ہونے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی صورتحال پر بھی کنٹرول نہیں رکھتا جس کا نتیجہ بالآخر شدید قسم کے دفاعی خطرات کی صورت میں نکلتا ہے۔(14) یہ صورت حال آگے چل کر قومی بصیرت کے گرد دفاعی حصار کھڑا کرنے تک پہنچ سکتی ہے، اگر عالمی طاقتیں پراکسی وار یا فوجوں کی تعیناتی کے ذریعے خطے کی دفاعی حرکیات کو اپنے ذاتی سٹریٹجک فریم ورک کے تابع کر لیں۔(15) اپنے سے بڑے اور مضبوط انڈیا کا ہمسایہ ہونے کے تناظر میںپاکستان میں قومی تحفظ کا شعور حکمران طبقے کے عالمی نقطۂ نظر کی تشکیل کرنے والے سب سے اہم عنصر کی صورت میں اجاگر ہوا۔

اس مظہرکا تقابل، سول ملٹری تعلقات کی ایسی ہی صورت حال میں مبتلا ترکی میں اختیار کیے جانے والے national security syndrome سے کرنا معنی خیز ہو گا ۔ ترک فوج نے کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی پالیسی کو نظرانداز کیا، دفاعی اور سیاسی مسائل کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا اور ایک ایسے ادارے کا کردار ادا کیا جو سویلین اختیار کو محدود کر کے خود دفاعی حکمت عملی مرتب کرنے لگا۔(16) انڈیا کے ساتھ طاقت کا توازن برابر نہ ہونے کے تناظر میں پاکستان میں قومی بصیرت کے تحفظ سے کسی قدر مماثل صورت حال ترکی میں بھی تھی جہاں خطے میں طاقت کے عدم توازن کے باعث جمہوریت کے خسارے کی قیمت پر قومی دفاع کو مقدم گردانا گیا۔(17)

ادارہ جاتی عوامل ، زیربحث صورت حال میں فوج کے ادارے کا ایک کمزور سیاسی معاشرے پر تسلط حاصل کر لینا، افرادی وسائل کی کسی مدد کے بغیر کتنی دیر تک چل سکتے ہیں؟ کیا عبوری دور میں پیدا ہونے والے سیاسی رہنما ایسی حکمت عملی وضع کر سکتے ہیں جو مسلح افواج پر عوام کی بالادستی قائم کر سکے؟ جنوبی کوریا اور انڈونیشیا کے تقابلی مطالعے میں Kim، Liddle اور Said کی رائے اس حق میں ہے کہ سیاسی رہنمائوں کے اقدامات ہی جمہوری عمل کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔(18) ان کے خیال میںساختیاتی عوامل سیاسی رہنما ؤں کو عوامی بالادستی قائم کرنے کے لیے آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل بھی بنا سکتے ہیں اور ایسا کرنے سے روک بھی سکتے ہیں۔ اسی لیے جنوبی کوریا کے صدر Chun Hwan (1980-88 ئ)نے حزبِ اختلاف کے رہنمائوں Sam اور Jung کے درمیان اختلافات پیدا کر دیے، ابھرتی ہوئی مڈل کلاس کو اس کے دقیانوسی ڈھانچے سے باہر نکالا، افسروں کا کردار غیرسیاسی بنایا، فوجی اہل کاروں کی سول ملازمین کے طور پر بھرتی روک دی اور دفاعی اخراجات کو پارلیمنٹ میں جانچ پڑتال کے لیے پیش کر دیا۔ اس کے برعکس یکے بعد دیگرے آنے والے انڈونیشیا کے صدور حبیبی، عبدالرحمن واحد اور میگاوتی کے ادوار میں افسروں نے دفاعی بجٹ پر سول کنٹرول اور مشرقی تیمور میں جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والوںکے خلاف قانونی کارروائی کا راستہ روک دیا۔

(19)پاکستان: تجزیاتی تناظر کا تعین
پاکستان فوجی اقتدار کی حامل ریاست کی نمایاں مثال ہے۔ فوج یہاں ریاست کے سرپرست، قومی ایجنڈے کا تعین کرنے والے ادارے اور سماجی اور سیاسی قوتوں کے درمیان ہونے والے تنازعات میں ثالث اعلیٰ کی حیثیت سے ابھری ہے۔ کاروبارِ سلطنت میں فوج کے کردار کی طوالت اور تواتر کی ایک عارضی جہت ہے جس کا تعلق براہ راست فوجی اقتدار ، بالواسطہ فوجی اقتدار، حکومت میں فوج کے غیررسمی مگر مؤثر کردار، اور فوج کی عوامی بالادستی کے تحت ہونے کے عرصے سے ہے۔ سیاست میں فوج کی شمولیت کی نوعیت اور خصوصیات کے تجزیے کا کوئی بھی منصوبہ اس امر کا متقاضی ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے مختلف ادوار میں فوج کے کردارکا تعین اور تقسیم بندی کی جائے۔ ٹیبل 1 میں پاکستان میں فوج کے کردار کی تفصیل دی گئی ہے۔
1

آزادی کے بعد کل 60برس کے عرصے میں سے براہِ راست فوجی اقتدار کا عرصہ 17برس ہے۔ مزید 15 برس کے عرصے کی تقسیم فوجی صدر کے تحت منتخب حکومت کے طور پر کی گئی ہے۔ اس دور میں تین صدر ہیں جن میں سے ایک بغیروردی یعنی ایوب اور دو باوردی یعنی ضیاء اور مشرف شامل ہیں۔ حکمران جرنیل اس بات پر مصر رہے کہ ان کے دورِ صدرات میں ہی 'اصل' جمہوریت رہی ہے جو سیاست دانوں کے ادوار کی 'نام نہاد'جمہوریت کی تمام آلائشوں سے پاک ہے۔(20) 11برس کا عرصہ'سہ فریقی حکمرانی' یعنی صدر، وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف کا رہا اور11 ہی برس آزادی کے فوراً بعد سول بیوروکریسی کی قیادت میں غیرپارلیمانی طاقتوں کی حکمرانی میں گزرے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں حقیقی عوامی بالادستی کا عرصہ محض 6 برس کا ہے۔

آئندہ سطور میں ہم پاکستان میں سول ملٹری تعلقات کے تین اہم پہلوئوں پر بحث کریں گے۔ اوّل، ہم فوج کے طے شدہ ادارہ جاتی مفادات سے تجاوز کرنے کی حمایت کرتے ہیں تاکہ پاکستان میں مابعدنوآبادتی صورتحال کا تجزیہ کیا جا سکے جو کسی نہ کسی طرح ماورائے پارلیمان طاقتوں کو مضبوط کرنے کا باعث بنتی ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ تاریخ کے اس دوراہے پر نظر ڈالی جائے جس نے آزادی کے بعد کے عرصے میں ریاست کے انتظامی، مالی اور فکری وسائل کو لچکدار اور پُراثر "Policy Martingale" کی سمت دھکیل دیا۔ حمزہ علوی کے مطابق برطانوی ہندوستان کی تقسیم کے باعث معرضِ وجودمیں آنے والی نئی ریاست کے اربابِ اقتدار نے دو اداروں فوج اور بیوروکریسی پر بھروسا کیا۔(21) حمزہ کے خیال میں ایجنسی کا انڈیا کی تقسیم کے سخت ایجنڈے کے ذریعے طاقت کے نئے ڈھانچے کی تشکیل میں کردار رہا،جسے مسلمان محنت کش طبقے نے پایۂ تکمیل تک پہنچایا جنہیں متوسط طبقے نے سختی سے دبا رکھا تھا۔(22) تقسیم نے ایک نسبتاً نئی مقامی درجہ بندی کو جنم دیا جس کی قیادت مہاجرین کی اشرافیہ کے پاس تھی اور اس نئی ریاست کی طاقت کا مرکز پنجاب تھا۔ طبقہ اور علاقائی وابستگی دو ایسے عوامل تھے جن سے مجموعی طور پر سیاسی واقعات کی صورت گری ہوئی۔ ہم اس طریقہ کار پر تفصیلی غور کریں گے جس سے ریاستی اشرافیہ نے تعلیم یافتہ، ہنرمند اور معاشی اعتبار سے درمیانے طبقے میں موجود اپنے حلقے کی معاونت سے قبائلی اور جاگیردارانہ پس منظر رکھنے والے طبقۂ اشرافیہ سے ریاستی وسائل کی تقسیم کے معاملات طے کیے۔ یہی وہ نکتہ ہے جہاں سے ہم فوج کے طاقت میں آنے کی وجوہات کا سراغ ڈھونڈ سکتے ہیں۔

ہماری زیرنظر تحقیق کا دوسرا پہلو فوج کی معاشی اور سیاسی طاقت کے تاریخی و ساختی تجزیے سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ اکیسویں صدی کے وسط میں بھی فوج کی اکثریت کا تعلق سماجی طور پر پنجاب کے دیہی اور شہری علاقوں سے ہی ہو گا۔ مزیدبرآں پالیسی سازی کے عمل میں بالائی طبقے کا کردار وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی اپنی طاقت اور اہمیت بھی رکھتا ہے۔ ہم پاکستان میں مقتدر قوتوں کی کہکشاں میں فوج کے بڑھتے ہوئے مرتبے کے تناظر میں path dependence کے ایک نمونے کے مطابق چلیں گے۔ ریاستی تشکیل کے اس پیچیدہ عمل میں ملک کے سماجی اور سیاسی نظام کو روبہ عمل لانے اور برقرار رکھنے کی ذمہ داری افسرشاہی پر عائد ہوئی۔ فوج جس قدر کاروبارِ سلطنت میں دخیل ہوتی گئی اسی قدر سیاسی اداروں کی ترقی منفی طور پر متاثر ہوتی گئی۔ سیاسی اداروں کو کمزور کرنے کا ایجنڈا فوجی اقتدار کے بعد آنے والے حکمرانوں کی ایک طرح سے انتظامی ضرورت بن چکا ہے۔ ہماری تجویز ہے کہ اس طریقۂ کار پر غور کیا جائے جس سے فوج نے قومی تعمیر کے اپنے منصوبے کی پیروی کی اوراپنا یہ عالمی نقطۂ نظر دیگر اداروں اور گروہوں کو منتقل کیا۔ براہ راست فوجی حکومتوں نے اپنے دور میں، جو تقریباً دو دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے ، منحرف بالائی طبقات کے ساتھ معاملات طے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ دیگر وقتوں میں انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے ارکان فوج کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس کے ساتھ تعاون کرتے رہے۔ اس کے علاوہ فوجی قیادت نے اپنے اقتدار کی وسیع عوامی مقبولیت کے حصول کے لیے اس کو آئینی حیثیت دینے کی ضرورت محسوس کی۔ اس کا نتیجہ 'ڈویلپمنٹلزم' سے لے کر 'اسلامائزیشن' تک کے نظریات اپنانے کی صورت میں نکلا۔

آخر میں ہم جمہوری تبدیلی کے عمل کے ایک حصے کے طور پر سول ملٹری تعلقات کے سانچوں پر غور کریں گے۔ اس حصے کے آخر میں فوج کی ترجیحات پر بحث کی جائے گی جو حکومتی تشکیل کا آئینی فارمولا پیش کرنے کی شکل میں سامنے آئی ہیں۔ پاکستانی فوج ملک کے روزمرہ انتظام میں اپنے ادارہ جاتی وسائل کا ذمہ اٹھانے میں مسلسل ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔(23) اس کی بجائے اس ذمہ داری کے لیے یہ موجود ریاستی اداروں پر انحصار کرتی ہے۔ یہ درست ہے کہ فوجی دورِ حکومت میں ریاستی نظام کے مختلف شعبوں میں ریٹائرڈ اور حاضرسروس فوجی افسران کی تعیناتیاں ہوئیں۔ تاہم اس سے انتظامی ڈھانچے کی نوعیت اور خصوصیت میں معیار کے لحاظ سے کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور جو ابھی تک سول بیوروکریسی کے ہاتھوں میں ہے۔ اسی طرح چاروں مرتبہ فوجی اقتدار کے خاتمے پر انتخابات کے ذریعے عوامی حکومت قائم کرنے کا عمل دہرایا گیا۔ دراصل پاکستان میں سیاست جمہوریت کی جانب مسلسل محوِ سفر ہے جس میں جابجا فوجی اور غیرفوجی طرزحکمرانی کے نشانات ہیں۔ اس سے سول ملٹری تعلقات کا تقریباً ایک مستحکم سانچا وجود میں آ گیا ہے جس میں تمام سول حکومتیں فوجی حکومتوں کی وضع کی ہوئی پالیسیوں کے بارے میں بہت محتاط رہتی ہیں۔ فوجی اقتدار کے بعد جمہوری دور کے گذشتہ مرحلے (1988-1999) میں 'سہ فریقی حکمرانی' کا طریقہ سامنے آیا جس میں چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت مرکزی تھی جو پس پردہ رہ کر تمام اختیارات کا مالک تھا۔ بینظیر بھٹو کے دونوں حکومتی ادوار اور نواز شریف کا ایک حکومتی دور فوج کی ہدایت پر صدر کے ہاتھوں حکومت کی برطرفی کے باعث مختصر ہوا جبکہ نوازشریف کی حکومت کے دوسرے دور کا خاتمہ 1999ء میں اقتدار پر مشرف کے قبضے سے ہوا۔ اس تناظر میں سول حکومتوں کے اپنے اختیارات استعمال کرنے کے عرصے نمایاں طو رپر سکڑ کر رہ گئے۔

اس سے اس آئینی اور ادارہ جاتی فریم ورک کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے جو فوج نے تواتر کے ساتھ قائم کیا۔ پاکستان میں قانون پر عمل درآمد اس مخصوص طریقے سے کیا جاتا رہا ہے جس میں طاقت کے حصول کی جدوجہد کا مرکز فوج اور سیاسی اشرافیہ کے درمیان رہا ہے۔ ہم کہیں گے کہ پاکستان میں فوج کا کردار نہ ختم ہونے والا ہے جو اس کے پیشہ ورانہ مفادات اور دفاعی ذمہ داریوں سے کہیںبڑھ کر ہے۔ یہ کردار فنِ حکمرانی میں طاق ہے لیکن اسے ضروری آئینی فریم ورک حاصل نہیں ہے۔ پاکستانی جرنیل آئین کے تحت حلف اٹھاتے ہیں۔ اس سے ان کا زمرہ لاطینی امریکا کی افسرشاہی سے مختلف ہو جاتا ہے۔ خصوصاً اس بنیاد پر کہ پاکستان میں ادارہ جاتی آئینی فریم ورک میں قانونی اختیارات کے تعین اور ان کے استعمال کے امکانات مؤخرالذکر کے مقابلے میں کہیں زیادہ سمجھے جاتے ہیں۔ اس مسئلے میں اصل حقیقت یہ ہے کہ برطانوی ، فرانسیسی اور ڈچ شہنشاہیت اور اس سے زیادہ ہسپانوی اور پرتگیزی سلطنتوں کی نسبت قانون کی حکمرانی، داخلی طور پر مختلف انتظامی ڈھانچو ں اور قانون سازی کے غیرآمرانہ ذرائع کے حوالے سے زیادہ تجربہ کاراور مستحکم تھی۔ ہندوستانی نوآبادی میں برطانوی قانون کے نفاذ اور اداروں کے قیام سے اختیارات کے سانچے تشکیل پا گئے جس میں بیوروکریسی، عدلیہ اور بعد میں قانون ساز اداروں کو خودمختارکردار مل گیا۔(24) عوامی نمائندگان کی حکومت کی شکل میں آئینی حکمرانی کا اصول پاکستانی ریاست کا grundnorm ہے۔ فوج، آئینی حد میں رہ کر اپنے اعمال سرانجام دینے کی پابند ہے جس میں انتخابی اصول اور ریاست کے مختلف عناصر کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے معاملے میں عارضی طور پر قانون کو معطل کرنا بھی شامل ہے۔ اس نے ان اصولوںپر نظرثانی کی اور اسے آئین کا حصہ بنا دیا۔ پاکستانی فوج کا کاروبارِ سلطنت کا یہ 'آئینی' انداز ہی اسے لاطینی امریکا کی فوج سے ممتاز کرتاہے۔ پاکستانی سیاست کی خصوصیت بنیادی انسانی حقوق ہیں جنھیں اعلیٰ عدالتوں کے اختیارات، عوامی رائے کے انتخابی اظہار اور غیرجمہوری حکومتی اقدامات کے آئینی جوازکی تلاش کے ذریعے تحفظ حاصل ہے ۔ ریاست کے مختلف اداروں کے درمیان پالیسی اور طاقت کی تقسیم کے مسائل پر قانونی بحث و تکرارعبوری دور کی خصوصیت ہے جب رخصت ہوتی ہوئی فوجی حکومت آنے والی 'سول' حکومت کے لیے ممکن حد تک قانونی اور ادارہ جاتی گنجائشیں تلاش کرتی ہے۔(25)

تقسیم ہندوستان نے بڑی تشویش ناک صورت حال کو جنم دیا۔ تحریک پاکستان کے قائدین جنوبی اور مغربی ہندوستان ، خاص طور پر یوپی اور بمبئی کی مسلم اشرافیہ میں سے تعلق رکھتے تھے۔ مسلم اقلیتی صوبوں سے تعلق رکھنے والی یہ مسلم اشرافیہ مسلمانوں کی سب سے بڑی پارٹی مسلم لیگ میں نمایاں تھی جس نے ہندوستان کے شمال مغرب اور جنوب مشرق کے مسلم اکثریت کے صوبوں میں پاکستان قائم کیا۔ پاکستان کی حکومت میں اسی اشرافیہ کی اکثریت تھی جو تقسیم کے بعد ہجرت کر کے نئے ملک میں آئے۔ پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان دونوں ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے تھے۔ اسی طرح بیوروکریسی کابالائی طبقہ، عدلیہ اور اس کے ساتھ ساتھ صنعتی اشرافیہ میں بھی اکثریت (26) اردو اور گجراتی بولنے والی آبادی کی تھی۔ 1951 تک 7.2 ملین مسلمانوں نے ہجرت کی جو مغربی پاکستان کی آبادی کا 20 فیصد تھا، اس کے برعکس ہندوستان میں مہاجرین کی تعداد ایک فیصد تھی۔(27) مہاجرین نے نئی ریاست کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ پاکستانی سیاست ،منتشر اداروں کو سنوارنے اور بالکل نئے ادارہ جاتی نظام کے قیام کی شکل میں ساختی عدم تسلسل سے متاثر ہوئی۔ ان مہاجرین نے نئی قوم کی نفسیات مرتب کیں جس میںبھارت کی طرف سے عدم تحفظ کا احساس، اسلامی نظریے سے وابستگی اور ہر قسم کی تفریق کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت شامل تھی۔ مہاجر آبادی کا سیاسی تخیل عوامی زندگی میں کُل پاکستان کے طور پر متشکل ہواجس میں ذیلی قومیتی شناخت گوارا نہیں تھی۔

نئی مملکت ادارہ جاتی عدم توازن کا شکار تھی۔ جبکہ مملکت کے حکومتی طبقے میں مہاجرین کی اکثریت تھی اور قانون ساز اسمبلی 'مقامی' لوگوں پر مشتمل تھی۔ اس اسمبلی کا انتخاب تقسیم سے پہلے صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے ہوا تھا جن کا تعلق مسلم اکثریت کے علاقوں سے تھا جو اب پاکستان کا حصہ تھے۔ حکومت کی کوشش ہوتی تھی کہ پارلیمنٹ سے جہاں تک ممکن ہو، الگ رہتے ہوئے اعلیٰ بیوروکریسی جو بجائے خود مہاجرین کی اکثریت پر مشتمل تھی، کے ذریعے حکمرانی کی جائے۔ انتظامیہ اور مجلس قانون ساز کے درمیان طاقت کی غیرمتوازن تقسیم کے اس سانچے کا اظہار پارلیمنٹ کی بالادستی کھو دینے کی شکل میں ہوا۔ چھ دہائیوں تک پاکستان کی سیاست میں پارلیمنٹ کمزور ہی رہی ہے۔ ملک نے پارلیمنٹ کی بالادستی، محض قانونی حد تک ہی سہی، صرف 1972-77 اور 1997-99 ہی دیکھی۔ مہاجر اشرافیہ اور بعد میں آنے والی غیرنمائندہ اشرافیہ نے انتخابات کی صورت میں خود کو طاقت سے محروم ہوتے ہوئے دیکھا۔ مقتدر طبقوں کے لیے الیکشن کا خوف ہمیشہ ملکی سیاست کا اہم پہلو رہا۔ مسئلہ کشمیر کے باعث انڈیا کی طرف سے عدم تحفظ کے احساس نے پاکستان میں اتحاد کے جذبے کو جنم دیا اور ظاہر ہے یہ اتحاد صوبائی خودمختاری کی قیمت پر ہوا۔ بیوروکریسی نے جس کی تشکیلِ نو کُل پاکستان بنیاد پرہوئی تھی، صوبوں کے مالی اور ادارہ جاتی وسائل کا انتظام ،مقامی قیادت کی خفگی کے باوجود اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ پانچ میں سے چار صوبوں مشرقی بنگال، سندھ، سرحد اور بلوچستان نے پنجاب کی برتری، خاص طور پر بیوروکریسی کے ڈھانچے میںاس کے نمایاں حصے کو دیکھتے ہوئے خودمختاری کا مطالبہ کر دیا۔(28)

مہاجر ین کی زیرقیادت بیوروکریسی کے سیاسی اور ادارہ جاتی تناظر نے قومی ایجنڈا تشکیل دیا جسے فوج نے اپنایا۔ یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنے ابتدائی تشکیلی برسوں میں پاکستانی مملکت اختیارات کے ڈھانچے میں فوج کو نمایاں مقام دینے پر تقریباً مجبور تھی۔ 1958 تک مملکت کی تشکیل کے ایک عشرے پر پھیلے ہوئے عمل میں ایسی اسٹیبلشمنٹ ابھر کر سامنے آئی جس نے فیصلوں کا اختیار سیاست دانوں سے چھین کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ پہلا 'سول' قبضہ اس وقت ہوا جب گورنرجنرل غلام محمد نے مجلس قانون ساز توڑ دی۔ عدلیہ جس نے 1954 میں پارلیمنٹ توڑے جانے کو درست قرار دیا تھا، بالآخر 1958 کے حکومت پر قبضے کے اقدام کو بھی قانونی قرار دے دیا۔

Kathrine Adeney اور Andrew Wyatt جنوبی ایشیا میں ایجنسی اور حکومتی ڈھانچے کی حرکیات کے درمیان کشمکش کے مطالعے کے بعد آئینی فریم ورک اور اقتدار پر قابض اشرافیہ کو سب سے نمایاں وجہ سمجھتے ہیں۔(29) مقامی اصطلاح میں ایجنسی کا کردار مہاجرقیادت اور پنجاب کی اشرافیہ نے ادا کیا۔ 1950 کی دہائی میں ریاست کو 'پنجابی' بنانے کا عمل شروع ہوا۔(30) طبقاتی حرکیات کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ نے پنجابی اور مہاجر آبادی میں سے درمیانے طبقے کو اپنے ساتھ ملا لیا جس میں بعد ازاں پختون بھی شامل ہو گئے۔ اس طبقے نے ایک 'ریاستی' تناظر پیش کیا جس کے تحت طاقت کا مرکز وفاقی حکومت کے ہاتھوں میں تھا، اسلامی نظریہ قانون سازی کا سب سے بڑا منبع تھا اور مقامی شناختوں کا اظہار ناگوار قرار پایا۔ حکومتی ڈھانچا اور ایجنسی دونوں کا جھکائو پنجابی اور مہاجر درمیانے طبقے سے ابھرنے والی اشرافیہ کی طرف تھا۔انتخابات 1956 میں آئین پیش ہونے تک مسلسل ملتوی ہوتے رہے۔ منتخب عوامی نمائندگان کو سیاسی فیصلوں کے اختیار کی منتقلی اور پالیسی سازی میں اس کے مضمرات کے پیشِ نظر کاروبارِ مملکت میں فوج کا عمل دخل بڑھتا چلا گیا۔

سیاست میں فوج کے عمل دخل کا آغاز
پاکستان میں فوج کی بالادستی سے متعلق تحقیق کرتے ہوئے خاص طور پر اس سیاسی خلا پر غور کرنا ہو گا جو تقسیم کے بعد مسلم لیگ کے مختلف دھڑوں میں تقسیم ہونے اور عمومی طور پر سیاسی اداروں کے انحطاط کی صورت میں ظہورپذیر ہوا۔(31) بعض کے نزدیک جرنیلوں کی یہ خواہش اس کا محرک تھی کہ عوامی نمائندوں کو قبل ازوقت اقتدار منتقل کردیا جائے جیسا کہ 1958ء میں ہوا۔ دیگر کا خیال ہے کہ انڈیا کے ساتھ مصالحت پر فوج کے شدید تحفظات تھے اور تاریخ میںکئی مرتبہ مصالحتی عمل میں مزاحمت بھی دیکھنے میں آئی۔(32) سول اور ملٹری کے شعبوں میں افتراق 1948ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے سیزفائر سے شروع ہوتا ہے جس سے راولپنڈی سازش کیس نے جنم لیا اور یہ 1999 میں انڈین وزیر اعظم واجپائی کے دورۂ لاہور تک آتا ہے جس کے بعد کارگل کے تنازعے نے جنم لیا۔ اس کے باوجود بعض لوگوں کا خیال ہے کہ فوج کو امریکی روابط نے مضبوط کیا اور مجموعی طور پر تین بار آمرانہ حکومتوں کے ادوار1950 سے 1960ء ، 1980ء اور 2000 کی دہائی میں دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات سے فوج نے فائدہ اٹھایا۔(33) یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ پاکستان کی دفاعی طاقت میں انڈیا سے برابری کی خواہش نے بھی اقتدار کے ایوانوں میں فوج کو بلند ترین مقام پر لاکھڑا کیا۔(34) یہ مظہر جسے India Syndrome بھی کہا جاتا ہے تقسیم کے بعد تقریباً نصف صدی تک جاری رہا۔(35) یہ کہا جا چکا ہے کہ انڈیا کے خطرے کے نتیجے میں اشرافیہ میں دو مکتب فکر وجود میں آئے : ایک دقیانوسی گروہ تھا جس کے خیال میں انڈیا خطے کی سب سے بڑی طاقت بننے جا رہا تھا اور دوسرا حد سے زیادہ دقیانوسی جس کے خیال میں انڈیا موقع پاتے ہی پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے تھا۔(36)

فوج کو بیشتر قوت پنجاب سے مہیا ہوئی جو ملک کی طاقت کا مرکز تھا۔ شمال مغربی صوبوں کے لیے ہندوستانی فوج کا جنرل ہیڈکوارٹر راولپنڈی میں واقع تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران انڈین فوج میں پیادہ فوج میں دوتہائی ، آرٹلری میں 87 فیصد اور انفنٹری میں نصف سے کچھ کم تناسب صرف پنجاب سے تھا۔(37) پنجاب میں بعض 'جنگجو قومیتیں' فوجی بھرتی کے لیے موزوںتصور کی گئیں۔ مسلمانوں میں سے یہ قومیں گکھڑ، جنجوعہ، اعوان اور شمالی خطے سے کچھ راجپوت قبائل شامل ہیں۔ یونینسٹ پارٹی کی حکومت کے دوران پنجاب حکومت نے اپنی فوج اور بھرتی کے علاقوں میں کسانوں کی بہبود پر خاص توجہ دی۔ جب بیسویں صدی کی ابتدائی دو دہائیوں میں نہری زمینیں تقسیم ہوئیںتو حاضرسروس ، پنشن یافتہ اور سابقہ فوجیوں کو تقریباً 5لاکھ ایکڑزمین تقسیم کی گئی۔(38) حکومت نے فوجی خدمات کے عوض ریاستی وسائل مثلاً اراضی انعام کے طور پردینے کی روایت ڈالی جو اکیسویں صدی میں بھی جاری ہے۔ پہلی جنگ عظیم میں فوجی بھرتی کی مہم میںبیوروکریسی اور فوج نے جاگیردار اشرافیہ کو فوج کے لیے سپاہی فراہم کرنے والے گروہ کی حیثیت سے تسلیم کر لیا۔ا س عمل میں پنجاب ایک quasi-militaryریاست کے طور پر سامنے آیا۔(39) بعد ازاں جب 1920ء میں منتخب اسمبلیاںوجود میں آئیں تو حکومت نے ایک ایسی وفادار اور دقیانوسی سوچ رکھنے والی اسمبلی قائم کرنے کی کوشش کی جو جاگیرداروںکے مفادات کا تحفظ کر سکے جنہوںنے فوج کو سپاہی فراہم کیے تھے۔ سپاہیوں کے ووٹ دینے کے لیے خاص مراعات دی گئیں۔ فوجیوںکے ووٹوں کا تناسب پورے صوبے میں 31.6 فیصد تھا۔ فوجی بھرتی کے صوبوں میں کسی نہ کسی حوالے سے فوج سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کا تناسب کل ووٹروں کے 70 فیصد سے زیادہ تھا۔(40) پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کے بھرتی کیے ہوئے لوگوں سے دیہی فوجی اشرافیہ کی تشکیل ہوئی۔

چونکہ مغربی پنجاب میں تقسیم سے فسادات پھوٹ پڑے تھے، اس لیے کچھ فوجی یونٹوں کو ملا کر پاکستان ملٹری اویکیوایشن آرگنائزیشن (PMEO) بنادی گئی تاکہ مسلمان مہاجرین کو بحفاظت مشرقی پنجاب لایا جا سکے۔ اس عمل میں فوج کے افسر اور سپاہی سیاست زدہ ہو گئے۔(41) پنجاب میں جہاں مہاجرین کے خاندانوں نے سرحد پار کرتے ہوئے جانیں گنوائی تھیں، انڈیا مخالف خیالات نے گہری جڑیں پکڑ لیں۔ انڈیا کی طرف سے عدم تحفظ کا احساس ہر فوجی تصادم اور جنگی کارروائی کے بعد بڑھتا چلا گیا۔ کشمیر کی جنگ 1947-1949، 1965 اور 1971 کی پاک بھارت جنگیںجن میں سے دوسری میں پاکستان کو شدید ہزیمت اٹھانا پڑی، 1984 میں سیاچن گلیشئر پر انڈیا کا قبضہ، انڈیا کی فوجی مشقیں براس ٹیکس، 1987، 1990 میں انڈیا اور پاکستان کا جوہری معاہدے سے کترانا، 1999 میں کارگل کی جنگ اور 2000 میں سرحدوں پر فوج کی تعیناتی، ان میں سے ہر ایک واقعہ کے بعد فوج اور حکمران اشرافیہ کا احساس عدم تحفظ بڑھتا گیا۔ جس طرح فوج سیاست زدہ ہو گئی تھی ، سیاست بھی فوج زدہ ہو گئی، اس لحاظ سے کہ قومی پالیسیاں اور ترجیحات زیادہ تر فوج طے کرنے لگی۔رفتہ رفتہ یہ تاثر راسخ ہوگیا کہ عوام سادہ، ایماندار، معصوم اور محنتی ہیں اورسیاست دان اُن کا استحصال کر رہے ہیں۔پاسبانی کی یہ وہی پدرانہ روایت تھی جسے نوآبادیاتی دور میں بڑی احتیاط سے پروان چڑھایا گیا۔(42) اس نظریے کے مطابق سیاست دان لوگوں کو ذاتی، فرقہ وارانہ، قبائلی اور گروہی ایجنڈوں کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس نظریے نے قوم کے مفاد کو بہت نقصان پہنچایا۔فوج ریاستی عمل میں ایک نمایاں عامل کی حیثیت سے سامنے آئی۔ درحقیقت پاکستان میں فوج کے اقتدار پر قبضے سے پہلے ہی سیاست میں فوج کی اہم خصوصیات نے راہ پا لی تھی۔ خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کے لحاظ سے جرنیلوں کی ترجیحات جانی پہچانی تھیں۔ اسی طرح ملک کے اندر بائیں بازو اور گروہی جماعتوں کو مختلف طریقوں سے قابو میں رکھنے کے بارے میں بھی ان کی ترجیحات واضح تھیں۔ کمانڈران چیف جنرل ایوب نے اپنے سیاسی آقائوں کو نظرانداز کر کے واشنگٹن ڈی سی میں اپنے ہم منصب سے سٹریٹجک گفتگو کی تھی۔ فوج کو ایک طرح کی خودمختاری حاصل تھی جو دوسرے اداروں کو نہیں دی گئی۔ فوج نے ریاست کے اداراتی اور آئینی تناظر کو ازسرِنو بنایا اور اسے برقرار رکھا۔ اور آخر کار وہ اپنی سرزمین کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے پاسبان بن کر ابھرے۔

ایوب کے دورِ حکومت (1958-1969)میں طبقہ اشرافیہ میں فوج کا کردار مستحکم ہو چکا تھا۔ حتیٰ کہ بیوروکریسی عوامی زندگی کے اہم میدانوں میں انتظامی امور کی نگرانی کرتی رہی۔ ایوب کا نظام معاشی سرگرمیوں میں حرکیاتی نوعیت کا تھا جس میں علاقوں کو شہری بنانا، آمدنی کے تفاوت کا حل نکالنا اور روزگارکا تحفظ شامل تھا۔ اس عرصہ میں نظام برقرار رکھنے کا رجحان بہت غالب تھا۔ 1962 کے آئین کے تحت یہ نظام ایک غیرلچکدار اداراتی نمونہ پیش کرتا ہے جس نے پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کی طاقت مکمل طور پر چھین لی۔کسی پُرعزم فردِ واحد، گروہ یا برادری کے لیے سیاست میں داخلے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ 1969 میں ایوب کی ناکامی کے بعد انتخابات کے لیے ایک سالہ شدید تحریک چلی جس کے نتیجے میں 7 دسمبر 1970 کو انتخابات ہوئے۔ اس صورت حال نے فوج کو دفاعی پوزیشن لینے پر مجبور کر دیا۔ اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ ایوب کے دور سے پہلے اوراس کے بعد فوج کا کردار قوم کے پاسبان کے منصب سے کم ہو کر مختلف مراحل سے گزرتا ہوا کم تر سطح تک آ گیا۔(43) ایوب کے جانشین جنرل یحییٰ اس بارے میں فکر مند تھے کہ قوم کے ایمان اور اعتماد کے محافظ کی وہ اعلیٰ حیثیت جو فوج کو اس سے پہلے حاصل تھی، اسے کسی طرح بچا لیا جائے۔ انہوں نے جلد ہی سول کابینہ تشکیل دی۔ اگرچہ اس وقت بھی اہم فیصلے مارشل لاء سیکرٹریٹ یا براہ راست راولپنڈی میں واقع GHQ میں ہوتے تھے۔ عوام میں فوج کے بارے میں پائے جانے والے تاثر کی حساسیت نے اس لحاظ سے فوج کے فیصلوں پر منفی اثر ڈالا کہ وہ روزمرہ انتظامی امور میں اپنے کردار کی وسعت پر غور کرنے لگی۔ اقتدار پر قبضے سے پہلے فوج، نگران ٹیموں اور فوجی عدالتوں کے مدد سے انتظامی امور چلاتی تھی۔ اس کے بعد جلد ہی فوج بیرکوں میں واپس چلی گئی اور سول بیوروکریسی پہلے کی طرح امور کے نگران کی حیثیت سے کام کرتی رہی۔

سٹیفن کوہن نے برطانوی، امریکی اور پاکستانی تین فوجی قیادتوں کا ذکر کیا ہے جو ایوب، یحییٰ اور ضیاء کے ادوار سے مماثلت رکھتی ہیں۔(44) ایوب تربیت یافتہ جرنیلوں کے دور کی نمائندگی کرتا ہے جن میں سماجی اور سیاسی حالات کو جوں کا توں رکھنے کا رجحان اور نگہبانی کا خیال اندر تک اترا ہوا تھا۔ یحییٰ اور اس کے ساتھی 'امریکی پود' سے مماثلت رکھتے تھے جنھیں ملٹری اسسٹنٹ پروگرام کے تحت تربیت دی گئی تھی۔ یہ لوگ نگہبانی کا رجحان تو کم ہی رکھتے تھے البتہ اصلاح پسند ایجنڈے کے لیے زیادہ آزاد خیال تھے۔ جبکہ دوسری طرف ضیاء اپنے نظریے اور انداز میں مقامیت رکھتا تھا، اس لیے وہ 'پاکستانی پود' کا نمائندہ تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ بعد میں آنے والے جرنیل اسی تیسرے زمرے سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کے انداز واطوار ان کی غیرملکی تربیت کی وجہ سے مختلف تھے۔فوج کا اندازحکمرانی ایوب کی اشرافیت اور جدیدیت، ضیاء کی عوامیت سے مشرف کی آزادخیالی اور اصلاح پسندی تک بدلتا چلا گیا ہے۔تاہم اس تمام عرصے میں فوجی حکمرانی امتیاز، مفاد اور استبداد کی نمائندگی کرتی رہی جس میں سیاست کو دبانا بھی شامل تھا۔ فوج کی تربیت کے طریق کار میں 1960 اور 1970 میں طبقے اور علاقے کے لحاظ سے تبدیلی آئی(45) جس سے فوج میں ایک عقابی عنصر شامل ہو گیا جو یہ چاہتا تھا کہ عوامی سرگرمیوں کے تمام شعبوں میں ہر چیز کو راہِ راست پر لایا جائے۔ نیب زدہ سیاست دانوں کو ٹھیک کر دے اور دائیں بازو کی اصلاح پسندی کا ایجنڈا لے کر اٹھے۔ اس کے علاوہ اسلامی نظریے کو بھی اپنائے جو ریاست کے لیے حتمی قومیت کا مثالی نظریہ ہے۔ بھٹو حکومت (1971-1977) نے تھوڑے وقت کے لیے ہی سہی فوج کے علانیہ یا پوشیدہ بڑھتے ہوئے سیاسی کردار کو بڑی حد تک روک دیا۔ بھٹو کے دورِ حکومت میں فوج کے بہت سے افسر ریٹائر ہوئے جن میں برّی فوج اور فضائیہ کے سربراہ بھی شامل تھے۔اس سے فوج میں مہم جوئی کا جذبہ پیدا ہوا ور جس نے اس کی قیادت کی ازسرِنو تعمیر کی۔ اس نے کمانڈر ان چیف کو چیف آف آرمی سٹاف سے بدل دیا اور چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کو تینوں افواج کا سربراہ بنا دیا۔(46) اسی طرح کی صورت حال کوریا میں بھی دیکھی جا سکتی ہے جہاں Chun کے ماتحت افواج پر سویلین برتری پر زور دیا جاتا ہے۔ ارجنٹائن کی مثال اس سے بھی نمایاں ہے جسے 1982 میں فالک لینڈز جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔(47) اپریل 1972 میں عاصمہ جیلانی کیس میں عدالتِ عظمیٰ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ یحییٰ کا حکومت پر قبضہ غاصبانہ، غیرقانونی اور غیرآئینی تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ غاصب پر سخت غداری اور مناسب سزا کے لیے مقدمہ چلایا جائے۔ یہ واحد مثال ہے جو آئندہ طالع آزمائوں کے لیے ایک رکاوٹ کا کام دیتی ہے۔(48) بھٹو حکومت سویلین حکومتی نظام کی وہ واحد مثال ہے جس نے افواج پر مؤثر انداز میں برتری قائم کی۔

پاکستان میں فوج کے کردار کے بارے میں ہماری بحث کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ پنجابی اور مہاجر حلقوں کی آبادی کے اندر انہیں مختلف طرح کی اشرافیہ کی حمایت حاصل رہی۔ یہ حقیقت فوج اورعوام کے درمیان ایک خلیج کے تصور کا اظہار کرتی ہے۔ اس کا سراغ پاکستانی اشرافیہ کی مخصوص تشکیل میں پایا جاتا ہے جو پاسبانِ حکومت کے لیے ایک حتمی اور مستحکم حلقے کا کام دیتی ہے۔ 1968-69 کی ایوب مخالف تحریک سے لے کر 1970 کے انتخابات تک، 1977کی بھٹو مخالف تحریک سے لے کر ضیاء کے مارشل لا (1977-1985)تک صورت حال یہ رہی کہ عوامی طاقتیں جن میں صنعتی مزدور، طلبہ، وکلا، دانشور، بائیں بازو کے جماعتی کارکن ،گروہی جماعتیں اور عوام الناس خود کو فوج، بیوروکریسی، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مخالف کیمپ میں پاتے رہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک کرشماتی رہنما کے طور پر ان عوامی طاقتوں کی علامت بن کر ابھرا اور 1970 کے انتخابات میں اور بعد میں صدر اور وزیراعظم کی حیثیت سے بھرپور عوامی حمایت حاصل کی۔ 1977 کے انتخابات کے دوران مختلف مقاصد رکھنے والی اشرافیہ بھٹو مخالف تحریک میں یکجا ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں ضیاء کی مارشل لا حکومت (1977-1985) کے لیے راہ ہموار ہو گئی۔ سیاست کا مرکز پنجاب تھا جو ربع صدی تک بھٹو کی طرفداری اور بھٹو مخالف گروہوں میں تقسیم رہا۔ بھٹو مخالف گروہ کی مرکز فکر کا دھارا بالعموم فوج تھی اور بالخصوص ضیائ۔ اس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اسلام پسندوں نے 1970 کے بعد کی تین دہائیوں میں فوجی اور غیرفوجی حکومتوں سے کیوں ملی بھگت کی۔ مسجد اور فوج کے درمیان حقیقی یا پوشیدہ اتحاد بڑی سیاسی جماعتوں اور گروہی جماعتوں کے لیے ایک مہیب چیلنج کے طور پر سامنے آتا رہا۔اور 9/11 کے بعد اس نے نیا روپ دھارا اور مشرف حکومت کے آزاد خیال منصوبے کے لیے چیلنج بن گیا۔(49) 1980 کے بعد ISI نے مختلف اسلامی گروہوں کے ساتھ تعلقات بنا لیے۔ ان گروہوں میں افغان مجاہدین اور طالبان بالترتیب 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں شامل تھے۔ ان کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی بھی شامل تھے جو دو دہائیوں سے ان کے ساتھ تھے۔(50) 9/11 کے بعد کی صورت حال میں امریکی اہلِ علم، سیاست دان اور میڈیا کے مبصر اکثر مشرف حکومت پر ان تعلقات کو برقرار رکھنے کا الزام عائد کرتے رہے۔(51) دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں مشرف کو آخری حد تک تسلی بخش سمجھا جاتا تھا جو مذہبی سیاسی گروہوں سے اپنی مرضی کے مطابق کام لے سکتا تھا۔(52) پاکستان کو یہ ہدایت کی گئی کہ نہ ہی وہ اپنی قومی شناخت بنیاد پرست اسلام پر رکھے اور نہ انڈیامخالف خیالات پر۔(53)

سول بیوروکریسی سیاست دانوں کی مخالفت کی وجہ سے افواج کی حلیف تصور کی جاتی تھی۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا علوی کی پاکستان میں ریاست سے متعلق نظریہ سازی فوج اور بیوروکریسی کے اداروں کو زیربحث لاتی ہے۔ریاست کے ان اداروں کے تعلقات یکساں خطوط پر پروان نہیں چڑھے۔ سول بیوروکریسی اپنی طاقت اور عزت اس وقت کھوتی چلی گئی جب فوج نے اس کی دفتری پالیسی اور انتظامی عملے کے معاملے میں دخل اندازی شروع کر دی۔ اس کے باوجود یہ ایک ایسا ذریعہ بنی رہی جس کے ذریعے فوج اپنا اقتدار چلاتی رہی۔(54) مشرف حکومت کے نچلے طبقوں کو اختیار کی منتقلی کے منصوبے نے بیوروکریسی کے متعدد عہدوں سے اختیار اور شان چھین لی، خاص طور پر ضلعی سطح پر۔ تاہم اعلیٰ بیوروکریسی نے احتساب اور کارکردگی کے میدانوں میں بڑی اصلاحات کا مظاہرہ کیا۔(55)دوسری طرف بمبئی سے آنے والی کاروباری برادری نے کلکتہ اور دہلی کے تاجروں کی طرح مہاجر کمرشل ایلیٹ قائم کر لی جیسا کہ انھوں نے شروع کے برسوں میں ایسی برادریاں تشکیل دے دی تھیں۔ 20 ویں صدی کے ربع آخر کے دورا ناس میں پنجاب کے درمیانے طبقے کے مہاجر بھی شامل ہو گئے۔ ان کی قیادت بھی مشرقی پنجاب سے آئے ہوئے مہاجر ہی کر رہے تھے۔ تاجر برادری ایوب کے دور سے لے کر مشرف کے دور تک آنے والی فوجی حکومتوں کے لیے ایک مضبوط حلقہ ثابت ہوتی رہی۔ پاکستان کا درمیانی آمدنی رکھنے والا طبقہ آزادی کے بعد سے 2000 کے درمیانی سالوں تک ترقیاتی منصوبوں پر اپنے مکمل انحصار کا اظہار کرتا رہا۔ یہ طبقہ صنعت کاری کے حصول کے لیے دفتری سرپرستی حاصل کرتا رہا۔ 1970 میں ذوالفقار علی بھٹو کی قومیانے کی پالیسی سے درحقیقت بڑے بڑے صنعتی اداروں کو نقصان پہنچا۔ ان لوگوں نے 1977 میں بھٹو مخالف تحریک کی بھرپور مالی امداد کی اور تحریک کے دوران اسلامی حزب مخالف کے ساتھ بھی مشترکہ مقصد کے لیے یکجا ہو گئے۔ تاجر برادری پاکستان پیپلز پارٹی کی گذشتہ چار دہائیوں سے مخالف تھی۔ اس نے سیاست مکمل طور پر چھوڑ دی، خصوصاً عوام کی سیاست جس کی شناخت پیپلز پارٹی بن چکی تھی۔ انہوں نے فوجی اقتدار کو ایک استحکام بخش عامل کے طور پر پایا۔ حالیہ دہائیوں میں برّی، بحری اور فضائی افواج کی بہبود کے اداروں یعنی فوجی فائونڈیشن، آرمی ویلفیئر ٹرسٹ، شاہین فائونڈیشن اور بحریہ فائونڈیشن نے معیشت کے میدان میں فوج کو ایک بڑا حصہ دار بنا دیا ہے۔ حتیٰ کہ تعمیر اور ذرائع نقل و حمل میں تو یہ ادارے اجارہ داری کی منزل پر ہیں۔(56)

فوج: آئین سازی کا پراجیکٹ
پاسبانِ قوم کے مظہر کی موجود ہ صورت آئینی سیاست اور فوجی سیاست پر مشتمل ہے۔(57) رسماً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فوج جب تختہ الٹ دیتی ہے تو ماورائے آئین طریقوں سے ایک آئینی حکومت کو بے دخل کر دیتی ہے۔ چنانچہ جنرل ایوب، یحییٰ، ضیاء اور مشرف نے بالترتیب 1958، 1969، 1977،اور 1999 میں پارلیمنٹ کو تحلیل اور قانونی حکومتوں کا خاتمہ کر کے سیاست میں مداخلت کی۔ تاہم کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ آئین کی پیروی پاکستان میں سیاسی اور انتظامی سرگرمیوں کے لیے مضبوط ترین نظریاتی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ ہر فوجی قبضے کے بعد آئین پھر ابھرتا ہے۔ فوجی حکومتوں کو انتخابات منعقد کروانے پڑتے ہیں اور اقتدار چھوڑ کر رخصت ہونا پڑتا ہے۔ ایسے ہی نائجیریا، ترکی، بنگلہ دیش اور گھانا میں بھی ہوا۔ آئینی روایت فوجی رہنمائوں کو مسلسل پریشان کیے رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ انھیں اقتدار سول حکومت کو سونپنا پڑتا ہے سوائے برما جیسی مستثنیات کے۔

پاکستان میں اقتدار میں آنے والی چاروں فوجی حکومتوں نے پہلے سے موجود آئینی نظام کو برقرار رکھا سوائے ان شقوں اور دفعات کے جن کا تعلق کسی نہ کسی لحاظ سے اصولِ انتخاب سے تھا۔ جب سکندرمرزا نے 7 اکتوبر 1958 کو اقتدار پر قبضہ کیا تو اس نے یہ اعلان کیا کہ ملک کو جہاں تک ممکن ہو سکا گذشتہ آئین کے مطابق چلایا جائے گا۔(58) عدالتیں پہلے کی طرح اپنا کام کرتی رہیں گی۔ فوجی حکومت نے ایک نیا جمہوری نظام قائم کرنے اور موجود قوانین کو سخت بنانے کا فیصلہ کیا۔(59) 1957-58 میں جب انتخابات افق پر منڈلانے لگے اور برسرِاقتدارحکومتی ڈھانچے کے لیے خطرہ بن گئے تو فوج نے حکومت سنبھال لی۔اس نے بظاہر ایک منتخب حکومت کو اقتدار میں لانے کا مظاہرہ کیا اور اس طرح طاقت کا توازن ان سیاسی رہنمائوں کے حق میں نہ جانے دیا جو انتخابی مینڈیٹ کی صورت میں کسی نئے قانونی ماخذ سے فائدہ اٹھاتے۔ جدید ریاست کے بارے میں ویبر کا خیال ہے کہ اس میں مطلق العنان اربابِ اختیار ہوتے ہیں جو قانونی اقدار کے خالق ہوتے ہیں اور جہاں الیکشن حکمرانوں کو قانونی جواز مہیا کرتے ہیں لیکن لازم نہیں کہ وہ عوام کے لیے ریاستی نظام میںداخلے کا کوئی در وا کریں۔(60)مسابقتی طاقتیں پارلیمانی انتخابات کے ذریعے ریاست میں اپنی اپنی متعلقہ مستحکم جگہیں تلاش کرنے لگتی ہیں۔(61) لیکن تیسری دنیا کے مخصوص معاشرے میںانتخابی تحریک سیاسی قوتوں کی ادارہ جاتی سطح تک نہیں پہنچ پاتی اور ایک تحریکی کردار بننے لگتی ہے۔(62) 1958 میں ناگزیر انتخابات کے دوران پاکستانی فوج نے اپنا کردار ادا کیا اور حکمران اشرافیہ کے لیے صورت حال کو سنبھالا دیا۔ 1970 میں حالات نے یحییٰ کی فوجی حکومت کو انتخابات کرانے پر مجبور کر دیا کیونکہ سماجی اور سیاسی گروہ ایوب مخالف تحریک کے دوران بہت زیادہ متحرک ہو گئے تھے۔ 1970 کے انتخابات کے ایسے نتائج سامنے آئے جن کا فوج کو 23 برس سے خدشہ تھا، یہاں تک کہ اس نے سیاست کے ساتھ ساتھ مذہبی، لسانی، طبقاتی اور فرقہ وارانہ تفاوت کو شدت پسندی کی حد تک پہنچا دیا۔ 1977 میں ضیاء نے عسکری ردِعمل کے جذبے کے ساتھ جس میں دیگر مختلف گروہوں کے مفاد میں ، جن میں فوج، بیوروکریسی، صنعت کار اور علماء شامل تھے، حکومت کا تختہ الٹ دیا۔(63) 1977 کی فوجی حکومت نے ،بعد میں 1999کی فوجی حکومت کی طرح،1973 کے آئین کو معطل نہیں کیا۔ روایتی طور پر صرف وہ خاص شقیں جن کا تعلق انتخابات اور منتخب اسمبلیوں سے تھا، غیرفعال قرار دی گئیں۔

چارلس کینیڈی نے ایسے اعدادوشمار کی ایک دلچسپ فہرست دی ہے جن کو پاکستان میں حکومت پر قبضہ کرنے والوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سرانجام دینا ضروری سمجھا۔ وہ خاص طور پر 'قانونی افراتفری سے بچتے ہیں'، 'کم وقت میں چیزوں کو قانونی حیثیت دیتے ہیں'، 'مقامی حکومتوں کو نئے سرے سے تشکیل دیتے ہیں'، 'سول بیوروکریسی اور اعلیٰ عدلیہ کو ڈراتے دھمکاتے ہیں' اور 'آئین پر نظرثانی کرتے ہیں'۔(64) ہر بار جب ایک نیا بوناپارٹ اقتدار پر قبضہ کرتا ہے تو اسے مختلف مراحل میں اپنے کاموں کو آئینی حیثیت دینے کا مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔ اس میں محض قانون کی تشریح کو کھینچ تان کر اپنے حق میں کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ قانون بدلنے کے لیے اختیار کو اپنے ہاتھ میں لینا بھی شامل ہے۔ اس کے نتیجے میں اعلیٰ عدالتوں سے فوجی حکومت کو قانونی جواز حاصل کرنے کی ضرورت پڑتی ہے جو مختلف مقدمات کے ذریعے حاصل کیا جاتا رہا ہے جن میں 1958 کے دو سو مقدمات سے 2000 کے ظفر علی شاہ کے مقدمے تک شامل ہیں سوائے 1972 کے عاصمہ جیلانی کے مقدمے کے۔ 1978 میں بیگم نصرت بھٹو کے مقدمے اور 2000 میں ظفرعلی شاکے مقدمے میں عدالتِ عظمیٰ نے فوجی حکومت کو آئین میں ترمیم کی اجازت دے دی۔1977 اور 1999 میں 1973 کے آئین کی ان شقوں کے تناظر میں جو سیاسی قوتوں سے متعلق ہیں، عدلیہ کو نئے سرے سے حلف اٹھانا پڑا۔ ضیاء اور مشرف دونوں کے ادوار میں ان کے اپنے اپنے پی سی او کے تحت1980 اور 2000 میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ آئین کی بجائے اس نئی آئینی حقیقت کے ساتھ اپنی وفاداری کا اظہار کریں۔ ضیاء کے دور کی طرح مشرف کے دور میں بھی ججوں کی تقرری میں انتہائی جانبداری سے کام لیا گیا۔ اس سے نچلی سطح پر ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کی تقرری میں بھی اسی طرح کی جانچ پڑتال سے کام لیا گیا تاکہ الیکشن میں دھاندلی کی جا سکے جس میں یہ جج ریٹرننگ افسران کے طور پر کام کریں گے۔(65)

فوج کی سیاسی بصیرت نے اپنی توجہ ووٹر کی بجائے قیادت پر مرکوز رکھی۔اس کا خیال تھا کہ ایک بااختیار صدر مثالی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے جو اپنے اختیار اور بصیرت کی بنا پر قوم کو اس کے خوابوں کی تعبیر دلا سکتا ہے۔نصف صدی تک فوج نے پاکستان کے لیے صدارتی نظام کی حمایت کی۔ فوج کے خیال میں پارلیمانی نظام کا مطلب اختیار کا انتشار اور افتراق ہے کیونکہ قائد ایوان ، ایوان میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے میں لگا رہتا ہے۔ اس عمل میں وہ ان اقلیتی برادریوں، چھوٹی جماعتوں اور دیگر بہت سے لوگوں کو ساتھ ملانے کا خواہش مند ہوتا ہے جو ریاست کی نظر میں کسی نہ کسی وجہ سے مشکوک ہوتے ہیں۔ ایوب کی فوجی حکومت (1958-62) نے پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام میں تبدیلی کی راہ ہموار کی۔بعد میں جب یحییٰ حکومت 1971 میں مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن کے دوران پھنس گئی تو اس نے ایک مسودہ ٔ آئین تیار کیا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صدارتی نظام پر مبنی تھا، باوجود اس حقیقت کہ 1968-69 میں ایوب مخالف تحریک میں قوم نے صدارتی نظام کو مکمل طور پر رد کر دیا تھا۔ اسی طرح 1973 کے آئین کے تحت پارلیمانی نظام کے بارے میں بھی فوج کے اپنے تحفظات تھے۔ ضیاء کی فوجی حکومت (1977-1985) نے ایک بار پھر پارلیمانی نظام کو بدل کر نیم صدارتی نظام لانے کا کام آئین کی آٹھویں ترمیم 1985 کے ذریعے اندرونی طور پر کر لیا۔ یکے بعد دیگرے آنے والے صدور 1988، 1990، 1993اور 1996 میں آٹھویں ترمیم کی دفعہ 58(2)(b) کے تحت اسمبلیاں تحلیل کر کے حکومتوں کا خاتمہ کرتے رہے اور ان پر یہ الزام رہا کہ یہ سب فوج کے کہنے پر ہوتا رہا ہے۔ نوازشریف کی حکومت نے اپریل 1997 میں 13 ویں ترمیم منظور کروا کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا صدارتی اختیار واپس لے لیا۔ تاہم 1999 میں فوج کے اقتدار پر قبضے کے نتیجے میں صورت حال بدل گئی۔2002 کے انتخابات کے نتیجے میں مشرف حکومت نے پہلے LFO کے ذریعے اور پھر نئی منتخب کردہ پارلیمنٹ کے ذریعے سترھویں ترمیم منظور کروا کے شق 58(2)(b) کو پھر بحال کروا لیا۔

اگرچہ آئین واضح طور پر مسلح افواج پر سویلین کی برتری جتلاتا ہے ، لیکن فوج نے ہمیشہ کاروبارِ مملکت میں دخیل ہونے کی کوشش کی۔(66) جنرل ضیاء الحق نے قومی سلامتی کونسل (NSC) کے قیام کا اعلان کیا جو کہ کابینہ سے برتر مشاورتی مجلس کی حیثیت رکھتی تھی اور اس میں فوج کی مستحکم موجودگی شامل تھی۔ یہ کونسل ضیاء کے 1985 کے RCO کا حصہ تھی۔ تاہم 1985 میں مارشل لا اٹھائے جانے سے قبل نئی منتخب شدہ پارلیمنٹ کے اراکین کی مخالفت کی وجہ سے ضیاء اسے آٹھویں ترمیم کے مسودے سے خارج کرنے پر رضا مند ہو گئے تھے۔ اس کے برعکس مشرف نے NSC کو اپنے 2003 کے LFO کے ایک حصے کے طور پرقائم رکھا جس پر بعد میں پارلیمنٹ کے ایک قانون کے ذریعے رسمی منظوری ہوئی اور یہ سب کچھ مذہبی حزب اختلاف متحدہ مجلس عمل (MMA) کے ساتھ ایک ڈیل کا حصہ تھا۔ خیال یہ تھا کہ اگر فوج براہِ راست حکمرانی نہ بھی کرے تو اسے غیررسمی حیثیت سے سیاسی منظرنامے میں ایک اہم حیثیت کے ساتھ موجود رہنا چاہیے۔NSC کے بغیر بھی 1990ء کے پورے عشرے میں آرمی چیف کی پس پردہ موجودگی تسلیم شدہ حقیقت رہی۔ اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ دو وزرائے اعظم کی حکومت یعنی بے نظیر بھٹو (1988-1990) اور (1993-1996)؛ اور نواز شریف (1990-1993) اور (1997-1999) ، ضیاء کے بعد پہلے اسحق (1988-1993)اور پھر لغاری(1993-1997) کے زمانے کو 'سہ فریقی حکمرانی' کے نام سے یاد کیا جاتا رہا جس میں صدر، وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف شامل تھے۔فوج کو امید تھی کہ NSC سے نہ صرف دفاعی اور خارجہ پالیسی مرتب کرنے میں بلکہ ریاست کا انتظام چلانے میں بھی فوج کے خیالات کی گہری چھاپ نظر آئے گی۔

اب ہم جرنیلوں کے ایک نئے طرزِ حکمرانی پر بات کر سکتے ہیں جس میں کاروبارِ سلطنت میں ان کا کوئی کردار رکھے بغیر وہ عوام کی شراکت کی بات کرتے ہیں۔اس طرزِ حکمرانی میں مقامی حکومتوں کے الیکشن میں توجہ سیٹ کی بجائے ووٹ پر ہوتی ہے۔ اس میں ضلعی حکومت اور اس سے نچلی سطح پر عوامی شرکت تو ووٹ کے ذریعے شامل کی جاتی ہے لیکن حقیقی معنوں میں طاقت و اختیار کی کوئی منتقلی دیکھنے میں نہیں آتی۔ فوج کے ذہن میں مقامی خود مختار حکومتوں کا خیال بہت گہراہے۔ اس کا جواز فوج کی اس کوشش میں تلاش کیا جا سکتا ہے کہ وہ سماجی اور سیاسی حالات کو اعلیٰ سطح پر کام کرنے والے سیاست دانوں سے بچا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ یکے بعد دیگرے آنے والے فوجی حکمرانوں کو مقامی خودمختار حکومت کا نظریہ اس لیے بھی بھاتا ہے کہ وہ مضبوط قسم کے پدری نظام پر عمل پیرا ہوتے ہیں جو فوج کے افسر اور جوانوں کے درمیان پائے جانے والے طبقاتی فرق سے مماثل ہوتا ہے۔ایوب نے بنیادی جمہوریوں (BD) کا نظام متعارف کروایا جو 1962ء کے آئین کا حصہ بن گیا۔ عوام مقامی حکومتوں کے اراکین منتخب کرتے تھے جو صدر، قومی اورصوبائی اسمبلیوں کے لیے الیکٹورل کالج کا کام کرتے تھے۔ایوب کا BD کا نظام ضلعی انتظامیہ کے ماتحت ادارے کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ یہ نظام معاشرے کو غیرسیاسی بنانے کے لیے وضع کیا گیا تھا جس کے ذریعے برطانوی نوآبادیاتی نظام کا احیا کیا گیا جس میں ملک گیر سیاسی سرگرمیوں سے الگ رہ کر اوپر سے نیچے کی طرف ایک سرپرستانہ نظام چلے۔خیال یہ تھا کہ اس طریقے سے عوام سے ریاست کے کاروبار میں براہِ راست اثراندازی کا اختیار لے لیا جائے۔ سیاست کو اضلاع تک محدود کر دیا گیا اور اسے مقامی بنا دیا گیا جس سے سیاسی جماعتوں کو نقصان پہنچا۔(67) اس کے ساتھ ہی BD کا نظام انتہائی نچلی سطح تک عوام کو قانون سازی کا منبع بنانے کی شرط بھی پوری کر رہا تھا کیونکہ کیونکہ لوگ کسی نہ کسی شکل میں ووٹ کی طاقت کا استعمال ضرور کر رہے تھے۔(68) مقامی حکومتوں کا یہ نمونہ ایوب کے خلاف ملک گیر تحریک کے ذریعے غیرمقبول ہو گیا۔ تاہم بعد میں ضیاء نے اس نمونے کو اس لحاظ سے مفید خیال کیا کہ اس کے ذریعے نچلی سطح کی قیادت اور ریاست کے اربابِ اقتدار کے درمیان سیاسی جماعتوں کے عمل دخل کے بغیر ضلعی انتظامیہ کے ذریعے رابطہ رکھا جا سکتا ہے۔ غیرجماعتی مقامی حکومتوں کی حرکیات کو 1985 کے الیکشن میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں تک پھیلا دیا گیا۔

مقامی حکومتوں کے عہدیداران ریاستی حکومت کے مؤکلوں کی طرح کام کرتے رہے جہاں سے مالی وسائل بھی مہیا ہوتے اور متعلقہ محکموں سے تعلقات بھی استوار ہوتے جو علاقے میں ان کا اثرورسوخ قائم کرنے میں مدد دیتے۔ رفتہ رفتہ مقامی حکومتیں فوجی حکومتوں کے فطری حلقے کے طور پر ابھر کر سامنے آئیں جو مقامی قیادت ،صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران کے طرزِ سیاست کو خاطر میں نہ لاتیں۔اس میںتعجب نہیں کہ سیاسی قیادت اور جماعتیں اختیار کی نچلی سطح تک تقسیم میں سرکاری فیصلوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ پرویز مشرف کی حکومت بھی عوام کے عام انتخابات کے مطالبے پر انہی خطوط پر عمل پیرا ہوئی۔مشرف نے 2001میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا۔ اقتدار کو نچلی سطح تک پہنچانے کا منصوبہ بنایا گیا اور اس کے لیے حکومت کے تیسرے درجے کی تشکیل کی گئی اور اس کی قیادت ایک بالواسطہ طور پر منتخب نمائندہ کے سپرد کی گئی جسے ناظم کا نام دیا گیا۔ مقامی حکومتوں کے عہدیدار ملک گیر سطح پر 2002 کے صدارتی ریفرنڈم میں اس کے حمایتی بن کر ابھرے۔ مشرف نے 12 مئی کو ایک بار پھر ناظمین کو متحرک کیا تاکہ وہ اس کے حق میں ایک عوامی ریلی نکالیں جو اس ریلی کے جواب میں تھی جو چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس کی مخالفت میں مارچ میں وکلا کی تحریک نے نکالی۔ یہ خیال کیا جانے لگا کہ 2007 کے آخر میں ہونے والے انتخابات میں ناظمین اہم کردار ادا کریں گے۔

فوجی حکمران مقامی حکومتوں کو متحرک کرنے میں متعدد فوائد پیش نظر رکھتے تھے۔ اول یہ کہ انتخابات کی عدم موجودگی میں ان کے ذریعے وہ عوامی مینڈیٹ حاصل کر لیتے ہیں کیونکہ صوبائی اور قومی اسمبلیاں اقتدار کی عوام کو منتقلی میں شامل ہو سکتی ہیں۔ دوم یہ کہ سیاست کو مقامی بنا دیا گیا جس سے مقامیت سے برتر عناصر مثلاً سیاسی جماعتوں کے کردار کو محدود کر دیا گیا۔ سوم یہ کہ عوامی سرگرمیوں کو مقامی مسائل میں الجھا دیا گیا جن کا تعلق مختلف ترقیاتی کاموں اور مختلف منصوبوں کے لیے پیسوں کا حصول تھا۔ اہم مسائل جن کا تعلق وسائل اور اختیارات کی ملک گیر تقسیم سے تھا، نظرانداز ہو گئے۔ بالفاظِ دیگر انتخابی سرگرمیوں سے قومی ایجنڈا غائب ہی ہو گیا۔ چہارم یہ کہ چونکہ انتخابی امیدوار سیاسی جماعتوں کے نمائندے نہیں تھے، اس لیے ایک بار منتخب ہونے کے بعد نمائندہ اداروں کی پالیسی میں تبدیلی کے بارے میں کوئی وعدہ کر سکتے تھے نہ اس کے جواب میں کچھ دے سکتے تھے۔ ان حالات کے تحت پالیسی بڑی مضبوطی سے ریاست کے بالائی مقتدر طبقے کے ہاتھوں میں رہتی تھی۔ اور آخری بات یہ کہ فوجی حکومتیں جماعتوں اور سیاست دانوں کو ان کے حلقوں کی سطح پر خراب کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ ایک متوازی قیادت جسے لوگوں نے براہ راست منتخب کیا ہوتا دیہی کونسل سے لے کر یونین کونسل اور ضلع کونسل تک اختیارات کے مزے اڑاتی جو حلقے میں سیاسی جماعتوں کے کارکنان کے اخلاقی اثرورسوخ سے کہیں زیادہ تھے۔

حاصلِ بحث
ہمارے مشاہدات اس حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات ریاست کی اندرونی اداراتی صلاحیت کی کمی کی وجہ سے بنے۔اس ریاست کا وعدہ تھا وہ جمہوریت کو فروغ دے گی جیسا کہ آئین ہند 1935 اور ترمیم شدہ انڈیا انڈیپنڈنس ایکٹ 1947 میں درج ہے۔خطے میں عدم تحفظ کی پیچیدہ صورت حال نے سیاسی فیصلوں کی لگامیں فوج کے ہاتھوں سے نکلنے نہ دیں، حتیٰ کہ اس وقت بھی جب وہ حکومت میں نہ تھی۔لاطینی امریکا، افریقا اور ایشیا سے تقابل کے پس منظریہ واضح صورت سامنے لاتا ہے کہ فوج اور معاشرے کے درمیان محض 'تفاوت' نہیں بلکہ وسیع خلا حائل ہے۔ پاکستان کی حکمران طاقتوں کا ایک واضح مشترکی ایجنڈا اور نظریاتی رخ ہے۔ فوج کو ان طاقتوں میں مرکزیت حاصل ہے۔ ہمارا مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں سماجی، معاشی اور سیاسی حالات کے تحفظ کا عمل جسے تقسیم کے وقت پیدا ہونے والے ادراتی عدم تسلسل کی وجہ سے فوج نے بزعمِ خود اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ فوج کا کردار، برطانوی ہند میں اس کی تاریخی اہمیت ور فیصلہ ساز اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر موجودگی کے تناظر میں path dependentرہا ہے۔ بالآخر ہم دیکھتے ہیں کہ فوج نے کس طرح طرز حکومت، ریاست کے مختلف اداروں کے مابین طاقت کے ارتکاز کی تقسیم اور پارلیمانی خودمختاری کے لئے آئینی ترجیحات تشکیل دی ہیں۔ ہم یہ کہیں گے کہ برسرِاقتدار اشرافیہ کا دنیا کے حوالے سے مطمع نظر، فوج کی پالیسیوں، نظریاتی تشکیلات اور اداراتی انتظام تشکیل دینے کی کاوشوںمیں شامل رہا۔ مشرف نے ان تمام حوالوں سے 2007ء میں مشکلات کا سامنا کیا، جیسا کہ اُن کے بااعتماد مذہبی اتحادی اُن کے خلا ف ہوگئے، اور بار اور بنچ دونوں نے اُن کے چیف جسٹس کو غیرفعال دینے کے فیصلے کے خلاف بغاوت کر دی۔ یہ سارا منظر نامہ 1968-69ء اور 1983ء میں بالترتیب ایوب اور ضیا ء کے خلاف چلنے والی تحریکوں کے مماثل تھا اور یہ مکمل طور پر مشرف مخالف تحریک تھی۔ اگرچہ امریکہ کی حمایت مشرف کو برسرِاقتدار رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی تھی، لیکن سیاسی قوتوں نے فعال انداز میںعوام کو اپنے ساتھ شامل کرکے مشرف حکومت کے لئے سنجیدہ نوعیت کی مشکلات پیدا کر دی تھیں۔
_______________

حوالہ جات
1 S. E. Finer, The Man on Horseback, London, 1969, Morris Janowitz, The Professional Soldier: A Social and Political Portrait, The Free Press, New York, 1965; Samuel Huntington, 'Patterns of Violence in World Politics,', in ed, Changing patterns of Military Politics , New York, 1962
2 See Ole R. Holsti, 'A Widening Gap between the U.S. Military and Civilian Society?', International Security, Vol 23, no 3, Winter 1998-99
3 Hew Stratchan, 'The Civil-Military 'Gap' in Britain'' The Journal of Strategic Studies, Vol. 26, No 2,June 2003, 43-45
4 Ibid, 44
5 Pascal Vennesson, 'Civil-Military Relations in France: Is there a Gap?' The Journal of Strategic Studies, Vol 26, No2, June 2003, 39-31
6 Harsh Sethi ed, Democracy in South Asia, Centre for Study of Developing Sicieties (CSDS), New Delhi, 2006
7 Imad Harb, 'The Egyptian Military in Politics: Disengagement or Accommodaiton', Middle East Journal, Vol 57, no 2, Spring 2003, 271-272
8 Ibid, 272-274
9 Ibid, 272-276
10 Wendy Hunter, 'Continuity or Change? Civil-Military Relations in Democratic Argentina, Chile and Peru', Political Science Quarterly, Vol 112, no 3, Autumn 1997, 453-454
11 William Deane Stanley, 'El Salvador: State-Building before and after Democratisation: 1980-95', Third World Quarterly Vol 27, no 1, 102,112
12 Jendayi Frazer, 'Conceptualizing Civil-Military Relations during Democratic Transition', Africa today, Vol 42, no ½, 1995, internet: 20 March 2007, 1-3
13 Ibid, 3
14 Mohammad Ayoob, 'The Security Predicament of the Third World State: Reflections on State Making in a Comparative Perspective', in Brian L. Job ed, The Insecurity Dilemma: National Security of Third World States, Lynne Rienner publishers, Boulder and London, 1992, 65
15 Barry Buzan, 'Third World Regional Security in Structural and Historical Perspective', in ibid, 174
16 Umit Cizre, 'Demythologizing the National Security Concept: The Case of Turkey, Middle East Journal, Vol. 57, no 2, Spring 2003 214-217
17 Ibid, 217
18 Yong Cheol Kim, R. William Liddle and Salim Said, 'Political Leadership and Civilian Supremacy in Third Wave Democracies: Comparing South Korea and Indonesia', Pacific Affairs, Vol. 79, no 2, Summer 2006, 247-254
19 Ibid, 258-267
20 Pervez Musharraf, In the Line of Fire, Simon and Schuster, 2006, 154 - 163
21 See Hamza Alavi, 'The Army and the Bureaucracy in Pakistan Politics', in A Abdel malek ed, Armee et Nations dans les Trios Continints, Alger 1975 (Original paper in English, mimeographed)
22 Hamza Alavi, 'Authoritarianism and Legitimation of State Power in Pakistan' in Subrata K. Mitra ed, The PostcolonialState in South Asia, Harvestor-Wheatsheaf, London and new York, 1990, 32-33
23 Stephen Cohen, The Idea of Pakistan, Vanguard Books, Lahore, 2005
24 Mohammad Waseem, Politics and the State in Pakistan, National Institute of Historical and Cultural Research, Islamabad, 1994, 42- 59
25 Mohammad Waseem, Politics and the State, 400 - 401
26 Mohammad Waseem, 'Muhajirs in Pakistan: A Case of Nativisation of Migrants', in Crispin Batesed, Community, Empire and Migation, Palgrave, New York, 2001, 248-249
27 Calculated from Government of Pakistan, Census of Pakistan 1951, Report and Tables, Karachi, n.d., Vol. 1, 19-23 and Vol. 6, 65
28 See Ayesha Jalal, The State of Martial Rule, Cambridge, 1990, 110-111
29 Katherine Adeney and Andrew Wyatt, 'Democracy in South Asia: Getting beyond the Structure-Agency Dicotomy', Poliical Studies, Vol.52, 2004, 4 - 7
30 Yunas Samad, A Nation in Turmoil: Nationalism and Ethnicity in Pakistan 1937-1958, Sage Publications, New Dehli, 1995, 124-130
31 See Ian Talbot, Pakistan: A Modern History, Hurst and Company, London, 1998, 125-134
32 See for discussion, Hasan-Askari Rizvi, 'The Pakistan Military: A Bibliographical Study', in Charles .Kennedy, Kathlen Mcneil, Carl Erst and David Gilmartin eds, Pakistan at the Millenium, Oxford University Press, Karachi, 2003, 106 - 109
33 Mushahid Hussain and Akmal Hussain, Pakistan: Problems of Governance, Vanguard, Lahore, 1993, 29-47
34 Veena Kukreja, 'Pakistan's Political Economy, Misplaced Priorities and Economic Uncertainties', in Veena Kukreja and M. P. Singh eds, Pakistan: Democracy, Development and Security Issues, Sage Publications, New Delhi, 2005, 13
35 Jean-Luc Racine, 'Pakistan and the India Sydrome: Between Kashmir and Nuclear Predicament', in Christophe Jaffrelot ed, Pakistan: Nationalism Without a Nation, Manohar, New Delhi, 197
36 Ayesha Siddiqa, 'Pakistan's Political Economy of National Security', in Veena Kukreja and M. P. Singh eds, Pakistan, 124
37 Tan Tai Yong, 'Punjab and the Making of Pakistan', South Asia, vol. xviii, 1995, 178
38 Ibid, 180
39 Ibid, 182
40 Ibid, 187
41 The Government of Pakistan, The Journey to Pakistan: A Documentation on Refugees of 1947 (Islamabad: National Documentation Centre, 1993), p. 16
42 For a historical study of British paternalism, see Philip Woodruff, The Men who Rule India: The Guardians, London 1954, 76
43 Brig (retd) A R Siddiqi, The Military in Pakistan: Image and Reality, Vanguard, Lahore, 1996, Chs 3, 7 and 8
44 Stepehen Cohen, The Pakistan Army, Berkley and Los Angeles, 1984, 55 - 74
45 Vali Nasr, Jamat Islami: Vangard of Islamic Revolution, I.B Tauris & Co Ltd, London, 1994, 171
46 Hasan Askari Rizvi, The Military of Politics in Pakistan 1947 - 86, Progressive Publishers, Lahore 1986, 195 - 201
47 Edward Viola and Scot Mainwaring, 'Tranisitions to Democracy: Brazil and Argentina in the 1980s', Journal of Inernational Affairs, Vol. 38, no. 2, 1985, 193 - 197
48 Asma Jilani vs Government of Punjab, Criminal Appeal no.19 of 1972, PLD (Pakistan Legal Decisions) 1972 Supreme Court 139, Vol. XXIV, Lahore, n.d, 243
49 Hussain Haqqani, Pakistan: Between Mosque and Military, Vanguard, Lahore, 2005, 311 - 319
50 Mushahid Hussain and Akmal Hussain, Pakistan: Problems of Governance, Vanguard, Lahore, 1993, 73 - 74
51 Se Robert Wirsing, 'Pakistan's Transformation: The Limits of 'Extreme Makeover', in US Counter Terrorism Strategy', Paper for Conference on Ethics, Values and Society: Social Transformation, LUMS, 31 March - 3 April, 2005, 3
52 Marvin Weinbaum, 'Musharraf as Catalyst: Balancing Counterterrorism and Reforms', Testimony before the Senate Foreign Relations Committee, 14 July 204, Quoted in Ibid, 5
53 Ashley Trellis, 'US Strategy: Assisting Pakistan's Transformation', The Washington Quarterly, Vol. 28, no. 1, Winter 2004 - 5, 101
54 See Maya Chadda, Building Democracy in South Asia, Lynne Rienner, London, 2000, 68
55 Charles H. Kennedy, 'Analysis of Pakistan's Devolution Plan', Mimeographed paper, Islamabad 2001, 7 - 10
56 Ayesha Siddiqa, Political Economy, 134
57 Examples of this dichotomy abound in the literature on civil-military relations. In Pakistan's context, see Hasan - Askari Rizvi, Military, State and Society in Pakistan, Macmillan, 2000, Prologue xiv - xix
58 The Pakistan Times, 11 October 1958
59 The Pakistan Times, 9 October 1958
60 Max Weber, 'Bureaucracy', in H.H. Gerth and C. Wright Mills (eds) From Max Weber, New York, 1958, 239
61 Robert Dahl, A Preface to Democratic Theory, Chicago, 1961, 137-8
62 Samuel Huntington, Political Order in Changing Societies, New Haven, 1968, 459 - 60
63 Shirin Tahirkheli, 'The Military in Contemporary Pakistan', Armed Forces and Society, Summner 1980, 647
64 Charles Kennedy, 'A User's Guide to Guided Democracy: Musharraf and the Pakistani Military Governance Paradigm', in Charles Kennedy and Cynthia Botteron eds, Pakistan 2005, Oxford University Press, 2006, 122 - 138
65 Hamid Khan, 'Military and Judiciary in Pakistan October 1999 Onwards', Journal of South Asian and Middle Eastern Studies, Vol. xxvi, no.4, Summer 2003, 42 - 47
66 See for discussion, PILDAT (Pakistan Institution of Legislative Development and Transparency) National Security Council: A Comparative Study of Pakistan and other Selected Countries, Background Paper, August 2005, 12 - 16
67 See Mohammad Waseem, Democratization in Pakistan: A Study of the 2002 Elections, Oxford University Press, 2006, 67 - 68
68 Ibid 69 - 74