working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

امن و امان کی ابتر صورتحال اور دہشت گردی کے خلاف لائحہ عمل

گزشتہ ماہ پشاور، ہنگو اور لاہو رمیں ہونے والے ہولناک خودکش دھماکوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور فیصل آباد میں عید میلاد النبیۖ کے پر امن جلوس پر حملوں اور کراچی میں ایک مکتبۂ فکر کے جید علماء کی ٹارگٹ کلنگ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اہلیت اور استعداد کی قلعی کھول دی ہے۔ امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث عوام کے اندر خوف و ہراس اور اضطرابی کیفیت پیدا ہو رہی ہے۔ ناامیدی اور مایوسی کی بنا پر لوگوں کے اندر عدم برداشت کا رویہ پروان چڑھ رہا ہے اور لوگ مسلسل شدت پسندی اور انتہا پسندی کی طرف جا رہے ہیں۔ مذہبی فرقہ واریت، لسانی، قومی، قبائلی اور صوبائی تعصبات کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی لوگ اپنے مدِمقابل کی بات سننا گوارا نہیں کر رہے جس کی وجہ سے روز بروز فسادات اور بدامنی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔اس کی بنیادی وجہ غور و فکر، شعور، مباحثے اور تحقیق کی کمی ہے، جو کسی بھی مسئلہ سے نمٹنے کا بنیادی ذریعہ ہیں اور جن کی بنیاد پر مسائل کے حل کے لیے مضبوط اور جامع حکمتِ عملی مرتب کی جا سکتی ہے۔

دہشت گردی جو اس وقت ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ ہے، کے انسداد کے لئے اس بات کی ضرورت تھی کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں اور تمام حکومتی اداروں بشمول افواجِ پاکستان کے نمائندوں پر مشتمل ایک مشاورتی کونسل تشکیل دی جاتی جو پاکستان کے تناظر میں دہشت گردی کی ایک جامع تعریف مرتب کرتی اور پھر اس کی روشنی میں اس کے تدارک کے لئے اقدامات تجویز کئے جاتے تاکہ پوری قوم یک جان ہو کر دہشت گردوں کے خلاف اٹھ کھڑی ہوتی۔ لیکن ہم مصلحتوں کا شکار رہے اور ابھی تک عوام کو یہ بات بھی نہیں سمجھا سکے کہ یہ پاکستان کی اپنی بقاء کی جنگ ہے۔ یہ نہیں کہ ہم امریکہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اب بھی اگر ایک طرف حکومتِ پاکستان اور سکیورٹی فورسز صوبہ سرحد اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہیں تو دوسری جانب پاکستان کے دیگر علاقوں میں کالعدم فرقہ ورانہ اور جہادی تنظیموں کا وجود اور ان کے دہشت گرد تنظیموں سے تعلقات قانون نافذ کرنے والے اداروںکے لئے لمحۂ فکریہ ہیں جو ان تنظیموں کو ریکروٹس اور لانچنگ بیس فراہم کرتے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ مستقبل میں دہشت گردی کے اس لاوے کو پھیلنے سے روکنے کے لئے مضبوط و مربوط اور جامع حکمتِ عملی ترتیب دی جائے، سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں اور جن تنظیموں کو جنگی اثاثہ قرار دیا جا رہا ہے ، ان پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ ان تنظیموں کے فرقہ ورانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے مستقبل قریب میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ ملک کے اندر فرقہ واریت کا سیلاب ، دہشت گردی کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ خفیہ سکیورٹی اداروں کے مابین رابطے کا فقدان اور پھر ان کی رپورٹس پر مؤثر کارروائی نہ کرنا، دہشت گردی کو مزید فروغ دے رہا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے ساتھ ساتھ دیگر امور، معاشی ترقی، روزگار کی فراہمی، عدل و انصاف کا فروغ اور صحت و تعلیم کی فراہمی کے لئے ٹھوس بنیادوں پر منصوبے بنائے جائیں۔ملک کے اندر مذہبی ہم آہنگی اور بھائی چارے کو فروغ دینے کے لئے مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو ایک میز پر بٹھا کر مثبت مذاکرے اور مباحثے کو فروغ دیا جائے۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی پر کام کرنے والے تحقیقی اور علمی ادارو ں کی سفارشات و تحقیق پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں امن وامان کا قیام ہر حال میںممکن بنایا جا سکے۔

پاک امریکہ سٹریٹیجک مذاکرات، دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز
پاکستان اور امریکہ کے درمیان جاری سٹریٹیجک مذاکرات دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کے تناظر میں ایک اہم پیش رفت ہیں۔قبل ازیں دونوں ممالک کے مابین اعتماد کا فقدان رہا ہے تاہم گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران پاک امریکہ دو طرفہ تعلقات میں بہتری آئی ہے اور امریکہ نے پاکستان کے تحفظات کو دور کرنے کی سعی کی ہے۔ حالیہ مذاکرات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان، امریکہ سے عملی اقدامات کی امید رکھتا ہے ۔دراصل حالیہ سٹریٹیجک مذاکرات دونوں ممالک کے مفاد میں ہیں، پاکستان خطے میں طاقت کے توازن کو یقینی بنانے کے لئے امریکی تعاون کا خواہاں ہے اور اس مقصد کے لئے پاکستان نے مذاکرات شروع ہونے سے قبل 56صفحات پر مشتمل ایک دستاویز امریکہ کے حوالے کی تھی جس میں سول جوہری معاہدے کے علاوہ ،ڈرون ٹیکنالوجی اور عسکری ساز و سامان فراہم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے امریکہ سے پاک بھارت مذاکرات کی بحالی میں کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار بھی کیا ہے جو ممبئی حملوں کے بعد تعطل کا شکار ہوگئے تھے جبکہ امریکہ کا یہ اولین ایجنڈا ہے کہ پاکستان، افغانستان کے حالات میں بہتری لانے کے لئے تعاون فراہم کرے تاکہ امریکہ کو واپسی کا محفوظ راستہ مل سکے جس کے لئے امریکہ، پاکستان کو معاشی اور دفاعی طور پر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔

امریکہ نے پاکستان کو توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لئے 125ملین ڈالرز امداد اور پاکستانی مصنوعات کو امریکی منڈیوں تک رسائی دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ زراعت کی ترقی اور تین تھرمل پاور پراجیکٹس کے لئے تعاون فراہم کرے گا۔یہ مذاکرات پاکستان کے لئے اس حوالے سے سود مند رہے کہ امریکہ نے کئی ایک برسوں سے زیرِالتوا پاکستان کی فوجی ساز و سامان دینے کی درخواست منظور کر لی ہے۔ امریکہ نے مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کا عندیہ بھی ظاہر کیا ہے جبکہ دونوں ملکوں میں بات چیت کو آگے بڑھانے کے لئے پالیسی سٹیئرنگ گروپ قائم کیا گیا ہے تاکہ معیشت تجارت، توانائی، دفاع، سکیورٹی، سٹریٹیجک سلامتی، ایٹمی عدم پھیلائو، انفورسمنٹ، انسدادِ دہشتگردی، سائنس و ٹیکنالوجی ، تعلیم، زراعت اور دیگر شعبوں میں مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا جائے۔

پاک امریکہ تعلقات کا آغاز50ء کی دہائی میں ہوا تھا اور گزشتہ ساٹھ برسوں کے دوران امریکہ نے پاکستان کی آمرانہ حکومتوں کو مضبوط کیا ہے جس کے باعث پاکستان میں غیر جمہوری رویے فروغ پذیر رہے تاہم ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کی جمہوری حکومت پر اس قدر اعتماد کا اظہار کیا ہے جو دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے مثبت تبدیلی ہے۔