working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پاکستان میں خود کش حملے اور اسلامی دلائل
خرم اقبال

سابق فرانسیسی صدر یاک شیراک نے کہا تھا:'' دہشت گردی جنگوں کا ایک منظم ہتھیار بن چکی ہے جس کی کوئی سرحد اور چہرہ نہیں ہے۔'' دنیا کا تقریباً ہر دوسرا ملک دہشت گردی کا شکار ہے۔ پاکستان دنیا کے اُن ممالک میں سے ایک ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کی بدترین کارروائیوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ ابتداء میں فرقہ واریت کو عروج حاصل ہوا اور بعدازاں یہ جنگ ریاست کے خلاف لڑی جانے لگی اور شدت پسندوں نے الگ ریاست 'امارات' کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے۔ دہشت گردوں نے مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے تاہم ملک بھر کے جید عالم دین اس یک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہیں کہ پاکستان میں خودکش حملے قطعی طور پر جائز نہیں ہیں۔زیرِ نظر مطالعہ اسی رجحان کے کھوج کی کاوش ہے۔ (مدیر)

پاکستان میں خودکش حملوں کے خلاف علماء کرام کے مسلسل اور واضح فتووں کے باوجود ، عسکریت پسندتنظیمیں اس تباہ کن ہتھیار کو نہ صر ف ترک کرنے سے انکاری ہیں بلکہ اسے اسلامی بنیادوں پر جائز بھی قرار دیتی ہیں ۔ سال 2009ء تک پاکستان میں 216کے لگ بھگ خود کش حملے ہوئے جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ لوگ لقمۂ اجل بنے۔ جاں بحق ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد نہتے شہریوں کی ہے۔ پاکستان میں تیزی سے بڑھتے ہوئے خودکش حملوں کے تناظر میں تمام مکاتب فکر بشمول بریلوی، دیو بندی ، شیعہ ، اہل حدیث سے تعلق رکھنے والے جید علماء پاکستان میں خود کش حملوں کو حرام قرار دے چکے ہیں ۔

اتحاد تنظیمات مدارس کے مطابق :
''خود کش حملوں میں مساجد اور امام بارگاہوں کی تباہی اور معصوم شہریوں کا قتل اسلا می تعلیمات کی سرا سر خلاف ورزی ہے۔''(روزنامہ جنگ، 04اگست 2009ئ)
متحدہ علماء کونسل جو کہ پاکستان میں علماء کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے، ان الفاظ میں خودکش حملوں کی مذمت کرتی ہے:
''خود کش حملے غیر اسلامی ہیں اور اعلان جہاد کا شرعی حق صرف حکومت وقت کے پاس ہے ۔اسلام انفرادی طور پر یا گروہوں کی صورت میں جہاد کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔''(ڈیلی ٹائمز ، 15اکتوبر 2008ئ)

پاکستان میں خود کش حملوں کوغیر شرعی قرار دینے والی اس کونسل میں جماعت اہلسنت (بریلوی مکتبہ فکر)، جماعت اہل تشیع (شیعہ مکتبہ فکر)، جماعت اسلامی، جمیعت علمائے اسلام (دیوبندی مکتبہ فکر) اور سپاہ صحا بہ (دیوبندی مکتبہ فکر) کی سرکردہ قیادت نے شرکت کی تھی ۔

پنجاب میں صوبائی سطح پرعلماء کی سب سے بڑی تنظیم متحدہ علماء بورڈجس میں دیوبندی اور بریلوی مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کی ایک بڑی تعداد شامل ہے، پاکستان میں خودکش حملوںکی پُرزورالفاظ میں مذمت کرتی ہے ۔ تنظیم کے مطا بق :
''ہم مذہب کے نام پر ملک میں دہشت گردی اور انارکی پھیلانے والوں کی پر زور مذمت کرتے ہیں ۔''(نوائے وقت 16اکتوبر 2008ئ)

اسی طرح نومبر 2008ء میں مشوری شریف لاڑکانہ کے مقام پر پاکستان کے 100سے زیادہ مزارات کے متولیوں کا ایک اجلاس ہوا جس میں خود کش حملوں کو غیر اسلامی قرار دیا گیا ۔

پاکستانی علماء اور مقامی مذہبی تنظیموں کے علاوہ اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم (Organization of Islamic Conference) نے بھی پاکستان میں خود کش حملوں کی مخالفت کی ہے ۔ او آئی سی کے خصوصی ایلچی کمال عزت مفتی کے مطابق :
''خود کش حملے اسلا م کی روح کے منافی ہیں ۔''(دی پوسٹ ، 17ستمبر 2008ئ)

علماء کرام کی کثیر تعداد کے علاوہ کالعدم تنظیم لشکرِ طیبہ اور جماعت الدعوة کے بانی حافظ سعید بھی پاکستان میں خودکش حملوں کو حرام قرار دے چکے ہیں ۔ جما عت الدعوةکے مطابق :
''خود کش حملے کرنے والوں کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ، معصوم مسلمانوں کے قاتل اللہ تعا لیٰ اور ملک و قوم کے مجرم ہیں۔''(حافظ عبد السلام ، مرکزی رہنما جماعت الدعوة )

علماء کرام کی کوششوں اور اس نوعیت کے واقعات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے جانی و مالی نقصان کے باعث ملک میں خود کش حملوں کے بارے میں رائے عامہ تیزی سے تبدیل ہوئی ۔ 2009ء میں ہی کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے 95فیصد سے زائد عوام نے خود کش حملوں کی مخا لفت کی ۔ یہ اَمر حیران کن ہے کہ2004ء میں پاکستان کی 41فیصد آبادی خود کش حملوں کی حامی تھی (ڈان 17اگست 2009ئ) ۔ دہشت گرد تنظیمیں خودکش حملوں کے ذریعے خوف کا ماحول پیدا کرنے میںکامیاب ہو جاتی ہیں لیکن خودکش حملے کے بعد عوامی سطح پر ان کے خلاف غم و غصے میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔غالباًپاکستانی طالبان اور ملک میں موجود دیگر دہشت گرد تنظیموں کے منصوبہ ساز اس تاریخی حقیقت سے نابلد ہیں کہ کسی بھی غیر ریاستی عسکری تنظیم کے لئے عوامی حمایت آکسیجن کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ خودکش حملوں کی بڑھتی ہوئی عوامی مخالفت کے باوجود یہ غیر انسانی اور غیر اسلامی فعل ترک کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے یا یہ ممکن ہے کہ پاکستانی طالبان کا مقصد ہی عوام میں خوف وہراس پھیلانا ہے ۔

پاکستان میں خود کش حملوں کی اسلامی بنیادوں پر مخا لفت کرنے والے علماء کو ایک بہت بڑی قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔ ما ضی قریب میں دہشت گردوں نے مولانا حسن جان اور مفتی سرفراز نعیمی کو نشانہ بنایا۔ یہ اَمر اس حقیقت کی غماز ی کرتاہے کہ تشدد پسند عناصر علمی و فکری سطح پر اپنے اقدامات کی مخالفت کرنے والوں کے لئے نرم گوشہ نہیں رکھتے، خواہ وہ علماء کرام ہی کیوں نہ ہوں۔ دسمبر 2009ء میں تحریک طالبان، پاکستان نے ملک بھر کے علماء کو دھمکی دی کہ وہ خود کش حملوں کے خلاف فتوے دینے سے باز رہیں ۔(ڈیلی ٹائمز 15دسمبر2009ئ)۔ اس خوف ہی کے پیش نظر ملک کے بعض مذہبی، سیاسی اور صحا فتی حلقے طالبان کی طرف سے کئے جانے والے ظالمانہ خود کش حملوں کے خلاف بات کرنے سے ہچکچاتے ہیں ۔

عوامی مقا مات ، مساجد ، اما م بارگاہوں اور یونیورسٹیوں پر خودکش حملے کرنے کا رجحان تیزی سے فروغ پا رہا ہے ۔ 2009ء کے دوران 3مساجد خودکش حملوں میں شہید ہوئیں۔مون مارکیٹ، لاہور؛ مینا بازار،پشاور اور کھوسہ مارکیٹ، ڈیرہ غازی خان جیسے عوامی مقامات پر ہونے والے خودکش دھماکوں میں سینکڑوںافراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ایک خود کش حملہ آور نے اسلام آباد میں واقع بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کو نشانہ بنایا جہاں دنیا بھر سے تعلق رکھنے والے مسلمان طالب علم حصول علم کے لئے آتے ہیں ۔ پاکستانی طالبان اور ملک میں سرگرم دیگر عسکریت پسند تنظیمیں اس قسم کے واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے سے بھی نہیں گھبراتیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مولانا حسن جان ، مولانا محمد احمد لدھیانوی ، مولانا سید عطا المہیمن شاہ بخاری ، مفتی سرفراز نعیمی ، مفتی منیب الرحما ن، مولانا طاہر القادری، علامہ شیر علی اور مولانا طارق جمیل جیسے جید علماء پاکستان میں خودکش حملوں کو نہ صرف غیر اسلامی بلکہ حرام قرار دے چکے ہیں، تو نام نہاد ''استاد فدائین'' قاری حسین اور مسلم خان جیسے دینی علوم سے نابلد لوگوں کو پاکستان میں خودکش حملوں کواسلامی بنیادوں پر جائز قرار دینے کا حق کون دیتا ہے؟ مرض کے علاج کے لئے ہمیشہ عطائی کے بجائے ماہر طبیب سے رجوع کیا جاتا ہے۔ عطائی مرض کو مزید بگاڑتا ہے ۔اسی طرح جہاد کے مقدس نام پرقاری حسین ، مسلم خان ، فضل اللہ اور حکیم اللہ محسود جیسے عطائیوں کے ہتھے چڑھ جانے والے معصوم نوجوان نا دانستہ طور پر پاکستانی معاشرے میں بگاڑ، انارکی اور فساد پھیلانے کا ایک بنیادی سبب بن رہے ہیں ۔