working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

دیوبند کا اسلامی مکتبۂ فکر: ماضی اور مستقبل کے آئینے میں
لوپوری
 
لو پوری ایک بھارتی صحافی ہیں اور آج کل امریکہ کی نیویارک یونیورسٹی میں محقق ہیں۔ انھوں نے جنوب ایشیائی مسلمانوں پر خاصا تحقیقی کام کیا ہے۔ ان کا زیرِنظر مضمون بھارتی تناظر میں لکھا گیا ہے، لیکن دیوبند طرزِفکر میں تبدیلی کو سمجھنے کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے۔ مضمون کے چند حصے حقائق کی عکاسی نہیں کرتے لیکن یہ مضمون کی افادیت پر اثرانداز بھی نہیں ہوتے۔(مدیر)
آج کل صدرِ امریکہ بارک حسین ا وبامہ افغانستان کے متعلق اپنی حکمت عملی میں چند تبدیلیاں متعارف کرانے کی جستجو میں ہیں اس لیے مناسب ہو گا کہ پشتون عوام کے سماجی، مذہبی اور تاریخی پس منظر کے حوالے سے ملک پر مرتب ہونے والے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔ پشتون، افغانستان کی سب سے بڑی قومیت ہے جو کہ کل ملکی آبادی کا 38 فی صد بنتا ہے۔(1) پاکستان میں بھی پشتون کثرت سے آباد ہیں۔ یہ لوگ شمال مغربی صوبہ سرحد میں بستے ہیں *اور یہ کل آبادی کا 78 فی صد ہیں جبکہ وفاقی حکومت کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں ان کی آبادی 99 فی صد ہے۔(2) تاہم پاکستان کی کل آبادی میں ان کا تناسب 15 فی صد بنتا ہے۔(3)

افغانستان اور پاکستان میں پشتون قومیت کے حوالے سے کسی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہونے سے پہلے اسلام سے متعلقہ دیو بندی مکتب کی اساس کو سمجھنا ضروری ہے۔ کیونکہ ڈیورنڈلائن کے دونوں جانب بسنے والی اکثریتی آبادی اسی فقہی نظام پر عمل پیرا ہے۔ مزید برآں دونوں ممالک کے چیدہ چیدہ طالبان رہنما دیوبندی مدارس سے ہی فارغ التحصیل ہیں۔ اس مضمون میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں دیوبندی مکتبہ فکر وہابی فکر سے کیسے متاثر ہوا اور موجودہ دیوبندی مکتب فکر پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
______________________________________________________
* صوبہ سرحد کے علاوہ صوبہ بلوچستان جہاں ان کی آبادی کاتناسب بلوچوں سے زیادہ ہے، کے علاوہ کراچی میں پشتونوں کی بڑی تعدادآبادہے۔ (مدیر)

دیوبند کے اسلام کا تاریخی پس منظر
دیوبند کا اسلامی مکتب 19 ویں صدی کے آخری نصف میں تشکیل پایا۔ اس وقت ہندوستان پر برطانوی اقتدار قائم تھا اورملک میں بدلتے ہوئے حالات کے تحت نئی نئی تحریکیں جنم لے رہی تھیں۔ برطانوی اقتدار کے خلاف 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ہندوستان کے مسلمان حکومت کی انتقامی کارروائیوں کی زد پر تھے، کیونکہ یہ جنگ مسلمان مغل شہنشاہ کی قیادت میں لڑی گئی تھی۔ جبر و استبداد کے اس دور میں برطانیہ نے مذہبی مقامات سمیت تمام دہلی پر قبضہ کر لیا جو کہ صدیوں سے مغل حکمرانوں کا دارالحکومت چلا آتا تھا۔ دہلی میں بسنے والے علماء و مشائخ کو مغلوں کی سرپرستی حاصل تھی لیکن انگریزوں کے قبضے سے حالات یکسر تبدیل ہو گئے۔مغل بادشاہ کو ملک بدرکرکے رنگون (برما) میں قید کر دیا گیا اوردہلی کی تمام مساجد سرکاری قبضے میں لے لی گئیں۔ ان حکومتی اقدامات کے ردعمل میں متعدد علماء مختلف علاقوں کی جانب ہجرت پر مجبور ہو گئے۔ خصوصاً شمالی ہندوستان کا قصبہ دیوبند ان کی مذہبی اور ثقافتی سرگرمیوں کے لیے نہایت موزوں ثابت ہوا، کیونکہ اس علاقے سے تعلق رکھنے والے اکثر لوگ مغل حکومت میں خدمات سرانجام دے چکے تھے۔ مزید براں یہ قصبہ سابقہ مغل دارالحکومت دہلی سے محض 90میل کی مسافت پر واقع تھا۔

1867ء میں سہارن پور کے قصبہ دیوبند میں دارالعلوم قائم ہوا (جو اپنے مقام کی نسبت سے معروف ہوا)۔ شمالی ہندوستان میں مسلمانوں کی ثقافتی سرگرمیوں کے مرکز کے طور پراس کے قیام کو مشیتِ ایزدی سے تعبیر کیا گیا۔ 1967ء تک اس دارالعلوم سے انڈیا سے تعلق رکھنے والے 3795، 3191 پاکستانی و بنگلہ دیشی طلبا اور دیگر ممالک مثلاً افغانستان، چین اور ملائیشیا کے 431 طلبا فارغ التحصیل ہوئے۔(4) اور یوں 1967ء تک دنیا بھر میں اس مکتب فکر کے مدارس کی 8934 شاخیں قائم ہوچکی تھیں۔(5) اس مدرسے کی تشکیل کے وقت دیوبندی مفکرین متنوع مزاج تھے اور انہوں نے ہندوستان کی غیر مسلم آبادی کے ساتھ بحث و مباحثے کی طرح ڈالی۔ مثلاً 1875 اور 1876ء میں دیوبندی مفکرین نے عیسائی اور ہندو مفکرین کے ساتھ مناظرے کیے۔(6) انہوں نے برطانوی دور میں غیر مسلموں کے ساتھ مل کر نو آبادیاتی نظام کے خلا ف جدوجہد بھی کی۔(7) دیوبند کا قصبہ اترپردیش کے ضلع سہارن پور میں واقع تھا جہاں ہندو آبادی تقریباً 452,000 نفوس یا کل آبادی کا 62.7 فی صد تھی۔(8) مزید برآں دارالعلوم کے قیام کے ابتدائی ایام میں ہندوئوں نے بھی اس کی تعمیروترقی کے اخراجات میں حصہ لیا۔

بالآخر دیوبند تحریک نے ڈیورنڈلائن کے دونوں طرف آباد پشتونوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ اہم پشتون رہنمائوں نے اپنے علاقوں میں دیوبندی مدارس کھولے۔ خدائی خدمت گار، پشتون رہنما خاں عبدالغفار خان نے اس خطے میں متعدد دیوبندی مکتب کھولنے میں اہم کردار ادا کیا۔(10) جبکہ برطانوی دور میں ملک کے باقی حصوں میں اسے دیگر فقہی مکاتبِ فکر خصوصاً حنفی/بریلوی مکتبہ فکر سے مقابلے کا سامنا رہا۔پنجاب، جس کا بڑا حصہ اب موجودہ پاکستان میں واقع ہے، وہاں بریلوی اسلام کا غلبہ پایا جاتا ہے۔ دیوبندی رہنما، بریلویوں کے پیروں، مزاروں اور مقبروں پر جانے کی روایت کے مخالف ہیں تاہم ان کی مخالفت اس درجے کی نہیں، جس قدراہلحدیث انہیں بدعات کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ اگرچہ اہلحدیث جنوبی ایشیاء سے تعلق رکھتے ہیں مگر اسلام کی یہ شاخ سعودی وہابی فکر کے زیرِاثر ہے۔

پاکستان اور افغانستان میں دیوبندی مکتب کا عروج
1947ء میں تاج برطانیہ نے ہندوستان کو پاکستان (بشمول بنگلہ دیش) اور انڈیا میں منقسم کر دیا۔ اس تقسیم کے نتیجے میں صفِ اول کے کئی دیو بندی رہنما بھی ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ ان رہنمائوں میں جمعیت العلمائے اسلام کے موجودہ صدر مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود بھی شامل تھے، جوکہ 1972ء میں صوبہ سرحد کے 9 ماہ تک وزیر اعلیٰ رہے۔

سوویت یونین کے خلاف لڑی جانے والی کہُر آلود جنگ کے دوران پاکستان کے پشتون علاقوں میں دیوبندی مدارس میں داخلوں میں اضافہ ہوا اور 1970ء کی دہائی سے ان مکتبوں کو سرکاری سرپرستی بھی حاصل ہوئی۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق 1979ء کے بعد روس کے خلاف جنگ کے آغاز کے موقع پر افغان جہاد شروع ہوتے ہی دیو بندی مدارس میں طلباء کا تانتا بندھ گیا۔(11) افغان جہاد میں پشتونوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان جنگجوئوں کی اکثریتی تعداد دیوبندی مدارس سے فارغ التحصیل تھی۔ مزید برآں امریکہ اور سعودی عرب نے بھی روس کے خلاف افغان جہاد میں مدد کے لیے پیسوں کے منہ کھول دیے تھے۔ سعودی عرب نے دیوبندی مدرسوں میں وہابی فکر کی برآمد شروع کر دی۔ اہلحدیث مکتبہ فکر کی پشتون علاقوں میں قلیل نمائندگی تھی۔ بریلوی مسلمانوں کے مزاروں پر جانے کو اہلحدیث مسلم غیر اسلامی روایت اور بدعت سے تعبیر کرتے تھے۔ چند پاکستانی سکالرز جن میں اکبر زیدی بھی شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں بذریعہ ہندوستان آنے والے دیوبندی اسلام پر وہابی فکر کا اثر بھی ہے۔(12)

انجامِ کار سوویت یونین کو افغانستان سے رخصت ہونا پڑا اور دیوبندی اسلام ہی ان طالبان کا اصل مذہب تھا، جنہوں نے 2001ء تک افغانستان پر حکومت کی۔ طالبان میں سے بہت سے وہابیت سے بھی متاثر تھے۔ مزید برآں ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف بسنے والے طالبان بھی دیوبندی مدرسوں کی ہی پیدوار ہیں حتیٰ کہ تحریکِ طالبان پاکستان کے نئے کمانڈر حکیم اللہ محسود بھی صوبہ سرحد میں واقع ضلع ہنگو کے دیوبندی اسکول میں پڑھتے رہے ،گو کہ انھیں اپنی تعلیم ادھوری چھوڑنی پڑی تاہم وہ سلفی نظریہ سے متاثر رہے۔(13)

آج کا دیوبند
1947ء میں برطانوی ہندوستان کے حصے بخرے ہونے کے بعد دیوبندی مدارس نے ہندوستان، افغانستان اور پاکستان کے درمیان رابطے کے اداروں کا کام کیا۔ پشتون خطے سے تعلق رکھنے والے دیوبندی رہنمائوں کو اپنے مماثل دیوبند میں بحث مباحثوں میں حصہ لینے کے لیے دشواری کا سامنا رہا۔ 1947ء کے بعد سے کبھی کبھار باہمی اجلاسوں کا انعقاد عمل میں آیا مگر اس کے لیے انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں سے اجازت نامہ حاصل کرنا ضروری تھا۔

ان حالات کے نتیجے میں دیوبند کا قصبہ جو کبھی جنوبی ایشیاء میں اسلامی تعلیم کا مرکز سمجھا جاتا تھا اب محض ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے محدود ہوکر رہ گیاہے۔اس وقت بیرون ممالک سے تعلیم کی غرض سے یہاں آنے والے تشنگان علم کی تعداد نہایت کم ہو چکی ہے۔ 1990ء کی دہائی سے ہندوستانی حکومت نے تعلیمی ویزے کے حصول کے لیے نہایت سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس کے پیچھے یہ خدشات کار فرما ہیں کہ بیرونی طلباء کہیں ہندوستانی مسلم نوجوانوں کو بھی انتہا پسند نہ بنا ڈالیں۔(14) ہندوستان کے مسلمانوں کی تعداد تقریباً 160 ملین نفوس پر مشتمل ہے جو کہ انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد دنیا کا تیسرا بڑا مسلم آبادی والا ملک ہے۔(15)

دارالعلوم دیوبند کے مفکرین نے دہشت گردی کے حوالے سے سخت موقف اپنایا ہے۔ 2008ء کے شروع میں دارالعلوم نے مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ 25 فروری 2008ء کو دارالعلوم دیوبند نے اسلامی علماء کی ایک کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں دہشت گردی کو زیر بحث لایا گیا۔ اجلاس کے اختتام پرایک اعلامیہ کی صورت میں متفقہ طور پر تمام فاضل علماء نے فتویٰ جاری کیا جس میں اسلام کے نام پر کی جانے والی ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کی گئی۔(16) اعلامیہ میں وضاحت کی گئی کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیتا ہے کہ وہ تمام انسانوں سے برابری کی بنیاد پر حسنِ سلوک، رحم دلی، انصاف اور برداشت کا رویہّ اختیار کریں۔ اسلامی تعلیمات میں ہر قسم کی زیادتی، تشدد اور دہشت گردی سختی سے ممنوع ہے۔(17) دارالعلوم کے عالم، مولانا عادل صادق کا کہنا ہے۔

''ہم نے سیکھا ہے کہ اب دارالعلوم کے لیے وقت آ گیا ہے جس میں دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات کرنا ہیں اور ہر اس شخص کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہے جو دہشت پسندی کی کارروائیوں کے لیے دیوبندی اسلام کو بدنام کرتا ہے۔''(18)

ابھی حال ہی میں 3 نومبر 2009ء کو جمعیت العلمائے ہند کے دیوبندی رہنمائوں کا ہندوستانی مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے دیوبند میں ایک غیر معمولی اجلاس ہوا۔ اس میں خودکش حملوں اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے کی کارروائیوں کی مذمت کی گئی اور دہشت گردی کو جہاد سے تعبیر کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا ''جہاد بنیادی طور پر ایک تعمیری تحریک کا نام ہے اور اس کی غلط توجیہہ بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔''(19)

پاکستان اور افغانستان کے پشتون طلباء کو ویزے جاری کرنے سے متعلق دیوبند کے اسکالرز دو حصّوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ مولانا عبداللطیف جو ''دارالعلوم وقف'' میں 26 سال تک پڑھاتے رہے ہیں، وہ پاکستان اور افغانستان کے طلباء کے داخلے کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ یہ طلباء ہندوستانی مسلمانوں کو بھی انتہا پسندی کی ترغیب دیں گے۔(20) مولانا عادل صدیقی اس نظریے کے مخالف ہیں۔ ان کے خیال میں افغانستان اور پاکستان کی آبادی کو پرامن بنانے کے لیے وہاں کے طلباء کی دیوبندمیں داخلے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ مولانا صدیقی کے مطابق تعلیم یافتہ دیوبندی پشتون مختلف مذہبی تبلیغ کے حوالے سے غیر مسلموں سے تحقیقی مباحثوں کے دوران اسلام کے سچے سفیر ثابت ہوتے ہیں۔(21) مزید برآں انہوں نے زور دے کر کہا کہ دیوبند ایسا مضبوط پلیٹ فارم بن سکتا ہے، جہاں سے پاکستان، افغانستان اورانڈیا کے مسلمان سیاسی، مذہبی اورسماجی مسائل سے نبردآزما ہونے کے لیے تعمیری بحث مباحثے کرسکتے ہیں اورساتھ ہی ساتھ غیر مسلموں سے بھی بحث و مکالمے کے اقدامات عمل میں لائے جا سکتے ہیں۔(22)

آج کل دارالعلوم دیوبند میں افغانستان کے سات طلباء زیر تعلیم ہیں، جبکہ پاکستانی پشتون علاقوں سے کسی طالب علم نے داخلہ نہیں لیا۔ دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم 24 سالہ افغان طالب علم مطیع اللہ کا کہنا ہے کہ وہ مذہبی تعلیم سے آراستہ ہونے کے بعدمسلم قومیت کی درست سمت میں رہنمائی کرے گا اوران عوامل سے نبردآزما ہو گا جواسلام کے دیوبندی مکتبِ فکر کی تصویر میں غلط رنگ بھرتے ہیں۔(23) مطیع اللہ کو یقین ہے کہ ہندوستان کی حکومت افغانستان سے آنے والے طلباء کے لیے ویزے کی مزید سہولیات فراہم کرے گی۔

تاہم اگر ہندوستانی حکومت دیوبند میں تعلیم کے لیے پاکستان اورافغانستان کے لیے مزید تعلیمی ویزے جاری بھی کر دے، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ مدرسے نئے آنے والے کثیر طلباء کو سہولیات بھی فراہم کر پائیں گے۔مثلاً دیوبند میں زیر تعلیم افغان طلباء کا چھوٹا سا جتھہ صرف ایک ہی کمرے میں رہائش پذیر ہے۔

یہ وہ چند خدشات ہیں جو مذہبی مدرسوں مثلاً دارالعلوم جیسے ادارے کے طلباء کو درپیش ہیں۔(24) فنڈ میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان اداروں کو مسلم قومیت کی امداد پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ دیوبند کے صفِ اول کے دو ادارے ''دارالعلوم'' اور ''دارالعلوم وقف'' انڈیا کی حکومت سے فنڈ حاصل نہیں کرتے، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ اس طرح ان کے کنٹرول اور خود مختاری پر حرف آئے گا۔ کچھ مفکرین ان اداروں میں انتظامی اصلاحات بھی لانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی خود مختاری اور جواب دہی کے نظام میں توازن پیدا کیا جا سکے۔ ان کے مشورے کے مطابق نصاب کو لچک دار بنا کر تکنیکی تعلیم اور انگریزی زبان کی تربیت بھی متعارف کرانی چاہیے۔(25)

دیوبند کے فاضل علماء اور اسلامی انتہا پسند قوتوں کے درمیان جاری نظریاتی کش مکش، جنوبی ایشیاء اور خصوصاً پشتون علاقوں پر مثبت اثرات مرتب کر سکتی ہے اور یہ نتیجہ دیوبندی اسلام کی میراث کا ہی حصہ ہو گا۔

(ترجمہ: انجینئر مالک اشتر)

حوالہ جات
1 See the UNHCR Assessment for Pashtuns in Afghanistan, located at
www.unhcr.org/refworld/country,,MARP
,AFG,4562d8cf2,469f3a5112,0.html.
2 "Population by Mother Tongue," 2006 Pakistan Census Report, Pakistan's Ministry of Economic Affairs and Statistics, available at
www.statpak.gov.pk/depts/pco/statistics/
other_tables/pop_by_mother_tongue.pdf.
3 Ibid. Other Pakistani provinces host sizeable Pashtun populations: Baluchistan Province (29.84% Pashtun), Sindh Province (4.19% Pashtun), Punjab Province (1.16% Pashtun), and Islamabad (9.52% Pashtun).
4 Barbara Metcalf, Islamic Revival in British India: Deoband, 1860-1900 (New York: Oxford University Press, 2004).
5 Ibid., p. 136.
6 Ibid., p. 221.
7 This information is drawn from the website of Darul Uloom, located at
www.darululoom-deoband.com/eng-lish/
aboutdarululoom/freedom_fight.htm.
8 "Profile of Saharanpur District," Planning Commission, Government of India, available at
www.planning-commission.gov.in/reports/
sereport/ser/stgpnt/stgpnt_ch2.pdf.
9 Personal interview, Maulana Adil Sidiqui, Darul Uloom, Deoband, India, July 2009.
10 Sayed Wiqar Ali Shah, "Abdul Gaffar Khan," Quaid-i-Azam University in Islamabad, undated, available at
www.baachakhantrust.org/AbdulGhaffarKhan.pdf.
11 Tahir Andrabi, Jishnu Das, Asim Ijaz Khwaja and Tristan Zajonc, Religious School Enrollment in Pakistan: A Look at the Data (Chicago: University of Chicago Press, 2006).
12 Akbar Zaidi, "The Ulema, Deoband and the (Many) Talibans - Historical Scholarship Ignores the Discontinuities and Breaks That Have Taken Place in the Traditions of Pakistani Islam," Economic and Political Weekly [Mumbai], May 9-15, 2009.
13 Ayaz Mir, "Chevalier Of The Undead," Outlook India, November 2, 2009. For a profile of Hakimullah Mehsud, see Mukhtar A. Khan, "A Profile of the TTP's New Leader: Hakimullah Mehsud," CTC Sentinel 2:10 (2009).
14 Personal interview, Maulana Abdul Latif, Darul Uloom Waqf, Deoband, India, July 2009.
15 According to the U.S.-based Pew Research Center in 2009, India is estimated to have the third largest Muslim population of more than 160 million people. Indonesia has more than 200 million Muslims and Pakistan has nearly 175 million.
16 To read the full declaration, visit
www.darululoom-deoband.com/english/news/shownews.php?id=5.
17 Ibid.
18 Personal interview, Maulana Adil Sidique, Darul Uloom, Deoband, India, July 2009.
19 "Jamiat Upholds Fatwa Against Vande Mataram," Times of India, November 4, 2009.
20 Personal interview, Maulana Abdul Latif, Darul Uloom Waqf, Deoband, India, July 2009.
21 Personal interview, Maulana Adil Sidiqui, Darul Uloom, Deoband, India, July 2009.
22 Ibid.
23 Personal interview, Matiullah, Darul Uloom, Deoband, India, July 2009.
24 Personal interviews, students at Darul Uloom and Darul Uloom Waqf, Deoband, India, July 2009.
25 Some of the Deobandi scholars who argued for institutional reforms did not want to be quoted.