working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

وسطی پنجاب میں عسکریت پسندی کا پھیلائو
موسیٰ کلیم

انگریزی ماہنامہ ''ہیرالڈ'' نے اپنی اشاعت فروری2010ء میں وسطی پنجاب میں عسکریت پسندی کے پھیلاؤ کا جائزہ لیا ہے۔ قبل ازیں جنوبی پنجاب اس حوالے سے خبروں میں نمایاں رہا ہے، لیکن یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ عسکریت پسندی کا پھیلاؤ مساوی طور پر پورے پنجاب میں ہو رہا ہے۔ زیر نظر رپورٹ میں لشکر طیبہ کا نوجوانوں کوجہادی ٹریننگ کے لیے منتخب کرنے اور انہیں مقبوضہ کشمیر بھیجنے کے طریقہ کار کا بھی تفصیلاً ذکر کیا گیا ہے۔ (مدیر)
اگر آپ وسطی پنجاب میں رہتے ہیں اور آپ انڈیا کے خلاف ''جہاد'' کے لیے جانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو تین آسان امور سرانجام دینا ہوں گے۔ سب سے پہلے بھرتی مرکز میں اندراج کروانا ہو گا۔ بھرتی کے یہ مراکز ہر علاقے بشمول لاہور، مریدکے، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور شیخوپورہ کے ہر قصبے میں آسانی سے مل جاتے ہیں۔ دوسرے مرحلہ پر آپ تین ہفتے کا تربیتی کورس جسے دورۂ عامہ کہا جاتا ہے یا اس سے بہتر جو تین ماہ پر مشتمل ہے جسے دورۂ خاصہ کا نام دیا گیا ہے، اس کے لیے مظفر آباد یا مانسہرہ کے کیمپوں میں جائیں گے۔ جبکہ تیسرے اور آخری مرحلہ پر آپ کو انڈین مقبوضہ کشمیر میں اسلحہ اور ہدایات کے ساتھ سرحد پار کروا دیا جائے گا۔

شہید ہونے والے مجاہدین اور زیرتربیت مجاہدین کے دوستوں اور رشتہ داروں سے گفتگو کے دوران ''ہیرالڈ '' کے مشاہدہ میں یہ بات آئی کہ ان علاقوں میں مجاہد بھرتی کا طریقہ کار بہت آسان ہے۔ حالانکہ عسکریت پسندی کی سرگرمیوں کا مرکز جنوبی پنجاب اس کے لیے بہت مشہور ہے۔ ان علاقوں میں جو تنظیم کام کر رہی ہے، وہ ''لشکرِ طیبہ'' ہے، جو بھرتی اور تربیت کے مراکز چلا رہی ہے۔ حالانکہ حکومت کے بقول ''لشکرطیبہ'' اور ''جماعة الدعوة'' دونوں کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ نومبر 2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد اور بین الاقوامی دبائو کے نتیجے میں اس تنظیم پر پابندی عائد کی گئی تھی۔لیکن حکومتی دعوے کے متضاد، ایک خفیہ رپورٹ میں،جسے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی پولیس نے حکومت پاکستان کے لیے 2009ء میں تیار کیا تھا (جس کی ایک کاپی ''ہیرالڈ '' نے بھی حاصل کی ہے)، یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ''جماعة الدعوة'' اور ''جیش محمد'' نے ''حزب المجاہدین'' کے تعاون سے جہادی گروہوں کی لانچنگ آزاد کشمیر کے ضلع نیلم سے بدستور جاری رکھی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق چار مقامی گائیڈزخالد، قاری عبداللہ، افضل شیخ اور مشرف ایک کارروائی کے دوران انڈین فورسز کی فائرنگ سے مارے گئے۔ ''ہیرالڈ'' نے اس رپورٹ کی تصدیق کے لیے جنوری میں وسطی پنجاب کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ ان علاقوں میں بھرتی مراکز اور مانسہرہ اور آزاد کشمیر میں تربیتی کیمپ ابھی تک کام کر رہے ہیں۔ مثلاً 4 جنوری کو، ''راہوالی''، گوجرانوالہ کا ایک 18 سالہ نوجوان فرقان اپنی والدہ کے ساتھ جھگڑ کر گھر سے بھاگ گیا۔ اس کے پڑوسی کے بقول جھگڑے کی وجہ اس کے ماں باپ کے درمیان تنازعہ تھا۔ اس چھوٹے سے واقعہ نے اس کے اندر موجود نفرت کو مزید ہوا دی۔

فرقان اپنے دوست کے ہمراہ ''راہوالی'' لشکر طیبہ کے دفتر چلا گیا اور وہاں اپنے آپ کو جہادی تربیت کے لیے رجسٹرڈ کروایا۔ اس کے بعد اسے مظفر آباد کے ایک کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ تین دن کی تلاش کے بعد اس کے والدین کو اس کے ایک دوست سے اس کے بارے میں معلوم ہوا کہ جس دن وہ گھر سے گیا تھا ، ایک لمبے بالوں اور داڑھی والے آدمی کے ساتھ موٹر سائیکل پر دیکھا گیا تھا۔ علاقے میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کے والدین اوراساتذہ نے لشکر طیبہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بہرحال انھوں نے ''راہوالی'' دفتر سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ اسے تین ہفتے کے ابتدائی کورس کے لیے بھیجا جا چکا ہے۔ فرقان کے والد اس کی تلاش میں مظفر آباد پہنچ گئے اور بالآخر اسے وہاں سے بازیاب کروا لیا۔ جب والد نے ان سے پوچھا کہ آپ نے میری اجازت کے بغیر میرے بیٹے کو تربیت کے لیے کیوں بھیجا، تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ اپنے ماموں کو ساتھ لے کر آیا تھا۔ فرقان نے ان سے جھوٹ بولا تھا اور ایک دوست کو اپنا ماموں ظاہر کیا، جو اس کے ساتھ ٹریننگ کے لیے گیا ہوا تھا۔

عثمان کی عمر 17 سال تھی اور وہ ایف اے کا طالب علم تھا۔ اس کے بڑے بھائی رمیض نے ''ہیرالڈ'' کو بتایا کہ وہ نظریۂ جہاد سے بہت متاثر تھا۔ اس کے والدین نے اس کے کپڑے اور دیگر سامان اس سے چھین لیا۔ کیونکہ وہ ان کے مسلسل انکار کے باوجود انڈیا سے جنگ کے لیے کشمیر جانے پر بضد تھا۔ عثمان نے سیکنڈری سکول کا امتحان ''جماعة الدعوة'' کے راہوالی میں واقع انگلش میڈیم سکول سے پاس کیاتھا۔ اس کے بھائی کے بقول وہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں لشکر طیبہ کے ساتھ جذباتی طور پر وابستہ ہو گیا۔ اس نے بتایا کہ اسے سکول میں اس طرح ذہنی طور پر تیار کیا گیا کہ وہ ہماری بات سننے کے لیے بالکل تیار نہیں تھا اور ہمیشہ یہی کہتا رہا کہ اسے جہاد کے لیے ضرور جانا ہے اور کشمیری مسلمان بھائیوں کو ہندوستان کے قبضہ سے چھڑوانا ہے۔ اگرچہ عثمان جہادی تربیت لے کر گھر واپس آ گیا تھا مگر جولائی 2009ء کو ایک رات اس نے گھر سے بھاگنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے جانے کے چند ہفتوں بعد لشکر طیبہ کے ایک آدمی نے فون پر ہمیں اس کی شہادت کی اطلاع دی۔ عثمان کے ایک دوست نے ''ہیرالڈ'' کو بتایا کہ لاہور اور فیصل آباد کے دونوجوان بھی اسی دن اس کے ساتھ انڈین مقبوضہ کشمیر میں شہید ہوئے۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ زیادہ تر نوجوان عثمان کی طرح جہاد کے نظریے سے واقف نہیں ہوتے، بلکہ ان میں سے کچھ فرقان کی طرح جہاد کو اپنی ناکام گھریلو زندگی سے فرار کا آسان راستہ سمجھتے ہیں۔ علی، جو پنجاب یونیورسٹی میں زیرتعلیم ہے اور لاہور کا رہائشی ہے، نے بتایا کہ اس نے مانسہرہ میں لشکر طیبہ کے کیمپ میں تربیت حاصل کی۔ اس وقت وہ محبت میں ناکامی سے دوچار ہوا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح اپنے ذہن کو مصروف رکھے لیکن کیمپ میں گوریلا تربیت کے تجربے نے اسے واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ وہ پہلے ہی ہفتے وہاں سے واپس آنا چاہ رہا تھا لیکن اسے وہاں جا کر معلوم ہوا کہ کیمپ میں شامل ہونا آسان ہے، اتنا ہی مشکل اسے چھوڑنا ہے۔ اس نے بتایا کہ اگر آپ وہاں مر بھی جائیں، تو بھی آپ کی نعش وہاں سے باہر نہیں جانے دیتے یہاں تک کہ آپ کی تربیت کا عرصہ مکمل ہوجائے۔

حسین نقی، انسانی حقوق کے معروف علمبردار ہیں۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ فرقان، عثمان اور علی جیسے نوجوان وسطی پنجاب میں ابھرنے والے رجحان کا حصہ ہیں۔ مذہبی شدت پسندی یہاں اپنے عروج پر ہے اور وسطی پنجاب عسکریت پسندوں کی ریکروٹنگ کے لیے ایک زرخیز علاقہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ لشکرِ طیبہ اور جماعة الدعوة پر پابندی کے باوجود ان کے تربیتی کیمپ کبھی بھی بند نہیں کیے گئے۔ راہوالی ہی کے ایک رہائشی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ''ہیرالڈ'' کو بھرتی کے طریقہ کار کے بارے میں تفصیل سے بتایا کہ میرے ایک دوست نے جنوری میں تربیت کے لیے جانے کا فیصلہ کیا، اس نے اپنی خواہش کا اظہار مجھ سے کیا، کیونکہ میں لشکرطیبہ کے ارکان سے اچھے تعلقات رکھتا تھا۔ ٹریننگ پرجانے کے لیے نوجوانوں کو وہاں کے مقامی لشکر طیبہ کے عہدیدار سے سفارشی لیٹر حاصل کرنا ہوتا ہے۔ جس کی بنیاد پر تنظیم اسے ایک ہفتہ کے اندر تربیت کے لیے بھیج دیتی ہے۔ گوجرانوالہ سے نئے بھرتی ہونے والے نوجوان ہر ہفتہ کو جمعرات کے دن ایک گروپ کی صورت میں یہاں سے کیمپوں میں منتقل ہوتے ہیں۔ ''ہیرالڈ'' کے ذرائع کے مطابق لشکرطیبہ کا مانسہرہ میں بھی کیمپ ہے۔ لیکن مظفر آباد کے کیمپ اسلحہ اور تربیت کے لحاظ سے بہت بہتر ہیں، خصوصاً سردی کے موسم میں یہاں بہتر سہولیات میسر ہوئی ہیں۔
علی نے اگرچہ 5 سال پہلے تربیت حاصل کی تھی، لیکن اس کے تربیتی مرکز کے تجربے نے اس کو زندگی میں اہم موڑ پر لا کھڑا کیا۔ اس نے تین ہفتے کا کورس 150 افراد کی جماعت کے ساتھ شروع کیا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو 250 کے قریب لڑکے پہلے سے زیر تربیت تھے۔ وہاں پر انھوں نے جہاد اور اسلام کے متعلق لیکچرز سنے اور پھر انہیں جسمانی تربیت کے لیے بھیج دیا گیا۔ انھیں وہاں پر 24 مختلف ہتھیاروں کے چلانے اور جوڑنے کا طریقہ سکھایا گیا۔ اس کے ساتھ ہینڈ گرینیڈ کے استعمال اینٹی ائیرکرافٹ گن اور بارودی سرنگوں کے ساتھ ساتھ بم بنانے کے مختلف طریقوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔ وہاں پر ان سے دن میں پانچ فرض نمازوں کے علاوہ تہجد اور اشراق بھی پڑھائی جاتی تھیں۔ علی نے کہا کہ اس نے تربیت کے دوران اپنا 6 کلو وزن کم کیا۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد ان میں سے کچھ نوجوان انڈین آرمی پر حملے کی غرض سے سرحد پار کرتے ہوئے انڈین فورسز کے ساتھ جھڑپ میں جاں بحق ہو گئے۔ گوجرانوالہ ہی سے تعلق رکھنے والے انٹرمیڈیٹ کے ایک طالب علم نے ''ہیرالڈ'' کو بتایا کہ اس نے ایک سال پہلے مانسہرہ میں دورہ عامہ کی تربیت حاصل کی ہے اور مزید تربیت کے لیے دورہ خاصہ کرنا چاہتا ہے، اس کے بعد وہ کشمیر میں جہاد پر جانے کے لیے تیار ہے۔ اس کے بقول جہاد تمام مسلمانوں پر فرض ہے اور ان سب کو ہندوستان سے کشمیر کی آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس کے الفاظ سے یہ بات عیاں تھی کہ عسکریت پسندی اور نظریاتی جہاد کی جڑیں وسطی پنجاب میں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ انتہائی سرعت کے ساتھ پھیل رہی ہیں۔

شدت پسندی کی تعلیم
وسطی پنجاب کے بعض سکولوں میں نصاب نوجوان نسل میں جہاد کی محبت کو پروان چڑھا رہا ہے۔

عثمان جو راہوالی، گوجرانوالہ میں ''جماعة الدعوة'' کے الدعوة ماڈل سکول گرین ٹائون میں طالب علم تھا۔ اس نے شہادت سے پہلے یہاں سے میٹرک کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ جماعة الدعوة کے یہ سکول دسمبر 2008ء میں ممبئی حملہ کے بعد حکومتی کریک ڈائون کے بعد ختم کر دیے گئے تھے، لیکن انھوں نے ینگ سکالرز سکول کے نام سے دوبارہ اپنا کام شروع کر دیا۔

عثمان شدت پسند نظریات رکھنے والے ان نوجوانوں میں سے تھا، جو مدرسہ کی بجائے پرائیویٹ سکول سے تعلق رکھتے ہیں۔ صبیحہ شاہین جو گوجرانوالہ کی ایک تنظیم ''برگد'' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں، انھوں نے جماعة الدعوة کی زیرنگرانی چلنے والے 4 سکولوں کے دورے کے بعد اسی طرح کے نظریات کا مشاہدہ کیا۔ اس نے اپنے آپ کو تین بچوں کی ماں کے روپ میں ظاہر کر کے جسے اپنے بچوں کے داخلے کے لیے کسی اسلامی تعلیم دینے والے سکول کی تلاش تھی، ان اداروں کا دورہ کیا۔ اس تکنیک کو استعمال کر کے اس نے سکول انتظامیہ سے سکول کیمپس اور کلاس ایک سے چہارم کے نصاب کا مطالعہ کیا اور ایک دن گرلز سکول میں بھی گزارا۔ کلاس ون کی اردو بک کے حروف تہجی کچھ اس طرح ہیں۔ ب سے بندوق، ٹ سے ٹینک، خ سے خنجر۔ سکول میں استاد لڑکوں سے اس طرح کے سوالات پوچھتے ہیں۔

''مجاہدین جنگل میںگھر کیسے بناتے ہیں؟'' ، ''ہم مجاہدین کے بارے میں خبریں کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟''

اساتذہ بچوں کو کھلونا پستول اور واکی ٹاکی خریدنے پر زور دیتے ہیں۔ شاہین نے بتایا کہ کلاس ٹو کی ایک کتاب میں 10 سالہ افغانی لڑکے کی ایک فرضی کہانی بھی پڑھائی جاتی ہے۔ جس میں اس نے سیکڑوں روسیوں کو مارا ہے۔ اسی طرح کلاس تھری کی ٹیکسٹ بک میں عسکریت پسندوں کے دو خطوط شامل ہیں، جوانھوں نے جہاد پر جانے سے پہلے اپنے گھر والوں کو لکھے ہیں۔

شاہین نے بتایا کہ یہ تحقیق 2002ء میں کی گئی تھی، لیکن آج بھی وسطی پنجاب کے مدارس میں دیہی علاقوں کے غریب والدین اپنے بچوں کو ان مدارس میں بھیجتے ہیں، جہاں ان کی ذہن سازی کی جاتی ہے۔ مس شاہین نے دعویٰ کیا کہ بہت سے بچے ان مدارس اور سکولوں کا رخ اس لیے کرتے ہیں کہ یہاں فیس بہت کم اور کتابیں مفت ہوتی ہیں۔ ان سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جماعة الدعوة آسانی کے ساتھ نوجوان بچوں کو ورغلا کر انھیں فساد اور شدت پسند نظریات کا درس دیتے ہیں۔ 6 سے 12 سال تک کے بچے اگر بنیاد پرست نصاب پڑھ کر متاثر ہوتے ہیں تو نوجوانوں میں جہاد کا شوق ابھارنا اور انھیں جہاد کی ترغیب دینا بہت آسان ہوتا ہے۔

(ترجمہ: مجتبیٰ محمد راٹھور)