working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

2010ء میں پاک امریکہ تعلقات اور ہمارا تخیلاتی منظر نامہ
خالد احمد
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ اور پاکستان کے اتحادی ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی پر اتفاق نہیں پایا جاتا۔ پاکستان طالبان کے بارے میں اچھے اور برے طالبان کے نظریے پر عمل پیرا ہے جبکہ امریکہ سرحد کے دونوں طرف طالبان کو نشانہ بنانا چاہتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں افغان اور پاکستانی طالبان موجود ہیں جو نہ تو پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں میں رخنہ ڈالتے ہیں اور نہ ہی سیکورٹی فورسز ان کے خلاف واضح طور پر کارروائیاں کرتی ہیں۔زیر نظر مضمون میں معروف تجزیہ نگار خالد احمد نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں امریکہ اور پاکستان کے مفاداتی تضادات کا مفصل جائزہ لیا ہے۔(مدیر)

امریکہ سے تعلقات کے معاملے میں پاکستان ایک چوراہے پر کھڑا ہے۔ عوام اورسیاسی پارٹیاں امریکہ کی مخالف ہیں جبکہ مغرب میں پاکستان کو بھی مسلم عرب کا کوئی قدامت پرست ملک سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ سے دوستی کے پیمانے کی بنا پر کئی مسائل نے بھی جنم لیا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان اس خطے میں بالعموم اور پوری دنیا میں بالخصوص تنہائی کا شکار ہوا۔

دونوں ممالک میں باہمی عدم توازن کی ایک اہم وجہ دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملے پر ''حکمت عملی میں نااتفاقی'' ہے۔ امریکہ، القاعدہ اور اس کے اتحادی طالبان کو نشانہ بنانا چاہتا ہے جبکہ پاکستان اس معاملے میں القاعدہ کے اتحادی طالبان سے تعلقات کی بنیاد پر انہیں دو اقسام میں تقسیم کرتا ہے اور ان کے لیے اچھے اور بُرے طالبان یعنی Good Taliban اور Bad Talibanکی اصطلاح ایجاد کی گئی ہے۔ برُے طالبان کو اس لیے نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہ پاکستان میں دہشت گردی پھیلا کر لوگوں کے قتلِ عام کے مرتکب ہوتے ہیں اور اچھے طالبان کا لقب ان عسکریت پسندوں کو حاصل ہے جو پاکستانی مفادات کو تو زک نہیں پہنچاتے مگر افغانستان میں امریکی فوجیوں کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس طرح کے روّیے سے خطے میں موجود طالبان کو حمایت حاصل ہو جاتی ہے جبکہ ان سے مناسب فاصلے کی خواہش بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔
پاک امریکن حکمت عملی
پاکستانی مفادات کے جھکائو کا ارتکاز داخلی نوعیت کا ہے۔ ''بُرے طالبان'' کے گرد تو گھیرا تنگ کیا جاتا رہا ہے، جبکہ ''اچھے طالبان'' سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جاتی، کیونکہ ان طالبان کو ملاعمر کی رہنمائی حاصل ہے اور پاکستان ان کے لیے محفوظ پناہ گاہ تصور ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض طالبان ڈیورنڈ لائن کے پار بھی کارروائیاں کرنے میں آزاد ہیں۔ شمالی وزیرستان میں افغان اور پاکستانی طالبان پر مشتمل ''اچھے طالبان'' موجود ہیں۔ حقانی نے اپنے بیٹوں کے ساتھ شمالی وزیرستان میں حکومت قائم کر رکھی ہے، جہاں ان کا عدالتی اور ٹیکسوں کی وصولی کا باقاعدہ نظام موجود ہے۔ حقانی نے اپنے دائرہ کار کو خوست تک وسعت دے رکھی ہے، جسے القاعدہ کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ وہاں سے پکتیا، پکتیکا، غزنی، وردک اور کابل میں موجود نٹیو اور امریکن فوجوں پر حملے کئے جاتے ہیں اور کُنڑ، ننگر ہار، ہلمند اور قندھار صوبوں میں سرگرم عمل دیگر طالبان کو مدد فراہم کی جاتی ہے۔

امریکن پریس نے ایک نامعلوم امریکی افسر کے حوالے سے بتایا کہ پاکستانی عسکری ایجنسی کے حقانی سے روابط قائم ہیں۔ حقانی القاعدہ کی شوریٰ کا رکن ہے اور امریکہ نے اس کے بیٹوں سمیت ان کے سروں کی قیمت 5 ملین امریکن ڈالر مقرر کر رکھی ہے۔ پاکستانی حکام حقانی سے اس لیے بھی مطمئن ہیںکہ وہ مقامی کمانڈر حافظ گل محمد کا اتحادی ہے اور کبھی تحریکِ طالبان پاکستان (TTP) کے خلاف حکومت کے فوجی آپریشن میں رخنہ اندازی نہیں کرتا۔ 2009ء میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ TTP نے ''بُرے طالبان'' کا روپ دھار لیا۔ پاکستان، القاعدہ اور طالبان کے خلاف اتحادیوں کا عمومی حصہ تصور ہوتا تھا جب کہ القاعدہ کے خلاف تو پاکستان بار بار یقین دہانیاں بھی کرواتا رہا مگر موجودہ حکمت عملی یکطرفہ دکھائی دینے لگی ہے اورامریکی مفادات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

ڈرون حملوں پر متضاد حکمت عملی
اب تک ڈرون حملوں کے معاملے پر جو حکمت عملی اختیار کی گئی ہے اس سے امریکہ کو یہ پیغام پہنچانا مقصود تھا کہ افغانستان کے معاملات سے عہدہ برآ ہو کر اسے پاکستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے۔ مشکل یہ ہے کہ پاکستان القاعدہ سے نمٹنے کے لیے امریکی پالیسی کے تحت 1.5 بلین ڈالر یا کچھ زائد ہر سال وصول کرتا ہے۔ پاکستان کے عدم تعاون کی وجہ سے حقانی اور اس کے اتحادیوں سے سختی سے نمٹنے کے لیے ڈرون حملے کیے جاتے تھے اور اکثر اوقات ایسا بھی ہوا کہ عرب دہشت گرد اِن کی زد سے بچ نکلتے۔ پاکستان یہ مطالبہ بھی کرتا آیا ہے کہ اسے ڈرون طیارے دیے جائیں کیونکہ وہ اپنے علاقے میں زیادہ بہتر طریقے سے دہشت گردوں کا صفایا کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکن فوج ڈرون کا استعمال ترک کر دے یا کم از کم شمالی وزیر ستان اور اس کے اطراف کو نشانہ نہ بنائے۔

امریکی ڈرون کا استعمال اس لیے کرتے ہیںکہ ان کے خیال میں پاکستان ''اچھے طالبان'' کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتا اور نہ ہی حقانی کے خلاف کوئی سنجیدہ قدم اٹھائے گا جو وزیرستان کے مرکز میرانشاہ میں سرگرم عمل ہے۔

پاکستان کا موقف ہے کہ وہ TTP سے نمٹنے کے بعد حقانی کے خلاف محاذ کھولنے کی بہتر پوزیشن میں ہو گا، لیکن اس بات پر کوئی یقین نہیں رکھتا کہ ایسا کبھی ممکن ہو گا۔ ادھر TTP امریکہ کے خلاف القاعدہ کی سرکردگی میں شروع کی گئی جنگ کا باقاعدہ حصہ ہے۔ پاکستانی فوج بھی اطراف میں پھیلی ہوئی ہے لیکن اس کی بھاری تعداد مشرقی سرحدوں پر تعینات ہے کیونکہ 2008ء میں ممبئی حملوں کے بعد سے انڈین حملوں کے خدشات لاحق رہے ہیں۔

امریکہ اور نٹیو کو کمزور کرنے کی پالیسی
پاکستان کی رائے میں اگر صدر اوبامہ مزید 30,000 فوجی دستے افغانستان بھیجے تو وہ باآسانی طالبان سے نمٹنے کا اہل ہو سکے گا۔ مگر یہ بیان پاکستان کی سابقہ حکمتِ عملی سے پسپائی کا غماز ہے کیونکہ یہ فیصلہ پاکستان میں ایک ملین رجسٹرڈ اور 2 ملین غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کی تعداد میں مزید اضافے کا موجب بن سکتا ہے۔ اس طرح پاکستان کی TTP کے خلاف شروع کی ہوئی اپنی جنگ بھی متاثر ہو گی، کیونکہ متعدد شہر پناہ گزینوں کی زد میں آئیں گے۔ نتیجتاً اقتصادی صورت حال مزید خراب ہو گی۔ پاکستانی نقطۂ نظر یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس طرح مزید امریکی فوج القاعدہ کے مقابل ہو گی اور اسے جانی ومالی نقصانات سے دو چار ہونا پڑے گا۔ اس طرح پاکستانی فوج انڈیا کے ساتھ سرحدوں پر موجود رہ کر بھی TTP کے خلاف جنگ جیت سکتی ہے۔ یقینا یہ تجویز بعید از قیاس ہے اس سے محض یہی مطلب اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ''افغانستان سے نکل جائو اور ملک کو پاکستان کے رحم و کرم پر چھوڑ دو۔''

امریکیوں نے پاکستانی افسران کے سامنے تو زبان نہیں کھولی مگر انہوں نے ملکی پریس کے سامنے اظہارِ خیال کرتے ہوئے برملا کہا کہ طالبان کے تعاقب میں مطلوبہ نتائج کا بروقت حصول ممکن نہیں جیسا کہ ماضی میں کئی مرتبہ فوجی طاقت میں اضافے کے باوجود دیکھا جا چکا ہے اور ہلمند کی مثال بھی اسی نتیجے کی ایک کڑی ہے۔ کچھ ملکی اہلکار تو برملا طور پر یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں کہ طالبان سے نہ لڑنے کی وجہ مختلف ابہام کا شکار ہونا ہے، کیونکہ اس سے نہ صرف قومی تشخص مجروح ہو گا بلکہ خانہ جنگی کی نوبت بھی آ سکتی ہے۔ سابقہ فوجی افسران اس قیاس کی سرکاری طور پر تو تردید کرتے ہیں مگر'' نرم گوشے'' سے انکار نہیں کرتے۔ شمالی وزیرستان کی مثال بھی اس رویے کی شاہد ہے۔

اصل دشمن طالبان نہیں بلکہ انڈیا
پاکستان اپنی مشرقی سرحدوں پر انڈیا کے خلاف مضبوطی سے ڈٹے رہنے اور برے طالبان کو جنوبی وزیرستان میں شکست دینے کی کوششوں پر عمل پیرا ہے اس کے پیچھے امریکہ سے عوام کی نفرت کا عنصر بھی کارفرما ہے۔ اس صورتِ حال کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ بہادر افغانستان سے واپس چلا جائے۔ اس کے بعد قدامت پرست طبقہ فوج میں غالب آ کر افغانستان میں نئی عسکری شیرازہ بندی کرے ۔ظاہر ہے کہ وہ لوگ تعمیری حکمت عملی سے عاری ہوں گے، جس کا لازمی نتیجہ القاعدہ اور ان کے اتحادی طالبان کی جانب سے پاکستان کے اندر مزید دہشت گردی کی صورت میں رونما ہو گا۔ایسی حکمت عملی کے تحت ہی انڈیا کو افغانستان سے دور رکھا جا سکتا ہے جس میں القاعدہ ''خورستان'' نامی نئی ریاست کی باگ ڈور سنبھالے گی جس کا اعلان القاعدہ کے مرحوم کمانڈر عبداللہ سید الیبی نے کیا تھا جبکہ خورستان میں ایران، افغانستان، ازبکستان، پاکستان اور تاجکستان کے کچھ علاقے شامل ہوں گے۔ پاکستان امید کرتا ہے کہ جب امریکہ کو بے دخل کر دیا جائے گا تو پاکستان بھی آسودہ حال ہو گا۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ القاعدہ اقتصادی حوالے سے پاکستان کے مستقبل کی ضمانت نہیں دے سکتی (درحقیقت خورستان کے وجود میں آنے کے بعد پاکستان کا حجم بھی سکڑ جائے گا)۔ اس وقت پاکستان امریکہ پر بھروسہ کرتے ہوئے گومگو کے عالم میں ہے۔ زیادہ تر پاکستانی افسران کا خیال ہے کہ امریکہ کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ نیٹو کی 70 فی صد ترسیل پاکستان سے ہی ممکن ہے اور وہ نہیں چاہے گا کہ اس میںکوئی رکاوٹ پیش آئے۔ 2009ء میں جب جنوبی وزیرستان پر ڈرون حملے ہوئے تھے تو اس وقت پاکستان نے امریکہ کو جانے والے مال کی ترسیل روک دی۔ اس ضمن میں شاید امریکہ کے پاس کوئی دوسرا منصوبہ تیار ہو، مگر پاکستان کے پاس کوئی اور حل موجود نہیں کیونکہ اس کی روایتی قومی سوچ کا انحصار ہندوستان سے مزاحمت پر مبنی ہے اور اس کی بُنت میں اسلام پسندوں کے نظریات کا عمل دخل بھی شامل ہے۔

(بشکریہ ''فرائیڈے ٹائمز'')
ترجمہ: انجینئر مالک اشتر