working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

فاٹاـ بزنس سٹی وقت کی اہم ضرورت
آصف میاں
فاٹا میں برسوں سے جاری عسکریت پسندی نے جہاں لوگوں کی زندگیاں غیرمحفوظ بنادی ہیں، وہاں معیشت کو بھی تباہی کی طرف دھکیل دیا ہے ۔لوگوں کی کثیر تعداد جنگی معیشت سے روزی روٹی کما رہی ہے۔ فاٹا میں عسکریت پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے یہاں کی تباہ حال انڈسٹری کو بحال کرنے سمیت یہاں کی معاشی ترقی کے لیے متعدد نئے اور موثر اقدامات کرنا ہوں گے ۔زیر نظر مضمون میں مصنف نے اس حقیقت کا جائزہ لینے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ فاٹا میں معاشی ترقی اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے ذریعے لوگوں کا رجحان عسکریت پسندی کی بجائے معاشی خوشحالی کی طرف موڑا جا سکتا ہے ۔(مدیر)
فاٹا میں روزگار کے بے شمار ذرائع ہونے کے باوجود زیادہ تر غیر قانونی وسائل و ذرائع کا سہارا لیا جاتا ہے۔فاٹا کا نام آتے ہی ذہن میں مذہبی انتہاپسندی، اغوا برائے تاوان، منشیات، اسلحہ سمگلنگ اور عسکریت پسندی سمیت کئی قسم کی بے قاعدگیوں کا خیال آنے لگتا ہے۔گزشتہ چند برسوں کے دوران بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور اس کے خلاف سیکورٹی فورسز کی وقتاً فوقتاً کارروائیوں سے قبائلی علاقوں میں جہاں لوگوں کی زندگیوں کو نقصان پہنچا ہے، وہاں اس سے روزگار کے جائز اور محدود ذرائع بھی تباہ ہوگئے ہیں۔

فاٹا میں جاری فوجی آپریشن سے بظاہر عسکریت پسندوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ ساتھ ہی یہ امید بھی پروان چڑھ رہی ہے کہ جلد یا بدیر فاٹا میں عسکریت پسندی کا خاتمہ ہوجائے گا، جس کے بعد یہاں معمول کی زندگی بحال ہوجائے گی۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ فاٹا میں سیکورٹی حالات کے ساتھ ساتھ روزگار کے جائز ذرائع بحال کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیںتاکہ عسکریت پسندی اور فوجی کارروائیوں سے تباہ حال علاقوں میں معیشت کو بحال کرکے انتہا پسندی کے فروغ کو روکا جاسکے۔اگر اس معاملے پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا اور اس کے لیے عملی اقدامات نہیں کیے گئے تو مستقبل میں فاٹا میں روزگار کے جائز ذرائع مکمل طور پر تباہ ہوجائیں گے اور اس کی جگہ لوگ ناجائز ذرائع اختیار کرنا شروع کردیں گے جن میں ان کے لیے زیادہ کشش بھی موجود ہوگی۔

فاٹا میں کئی طرح کے ناجائز کاروبار ہوتے آرہے ہیں جن میں مذکورہ بالا عوامل سمیت پوست کی کاشت اور منی ٹرانسفرنگ بھی شامل ہیں۔منشیات کے حوالے سے حقائق کچھ یوں ہیںکہ خیبر ایجنسی کے علاقے ''تیراہ'' میں پوست کی کاشت کی جاتی ہے جس سے بڑے پیمانے پر منشیات تیار کی جاتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق جتنی زمین سے گندم کی کاشت کے ذریعے کم و بیش بارہ ہزار روپے حاصل کیے جاتے ہیں، اتنی ہی زمین سے پوست کی کاشت کے ذریعے کم و بیش دو لاکھ روپے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کا رجحان پوست کی کاشت کی طرف زیادہ ہے۔قبائلیوںکی بڑی تعداد ملک سے باہر بھی رہتی ہے جو منی ٹرانسفر کے لیے غیر قانونی اور خود ساختہ طریقے استعمال کرتی ہے۔ یہ لوگ خاصی تعداد میں ٹرانسپورٹ سے بھی وابستہ ہیںجس کے ذریعے ممکنہ طور پر سمگلنگ میںآسانی ہوسکتی ہے۔ فاٹا میں کام کے حوالے سے پائی جانے والی سوچ ملک کے باقی حصوں میں پائی جانے والی سوچ سے مکمل طور پر مختلف ہے۔ ملک کے دیگر حصوں میں ناجائز تصور کیے جانے والے کام فاٹا میں جائز قرار دیے جاتے ہیں ۔

فاٹا میں جائز روزگار کے حوالے سے اگر مہمند اور خیبر ایجنسی کا جائزہ لیا جائے تو حقائق کچھ یوں سامنے آتے ہیں۔ مذکورہ دونوں ایجنسیوں میں ماربل وافر مقدار میں دستیاب ہے ۔ ماربل یہاں ایک اہم انڈسٹری کی حیثیت رکھتا ہے جس سے ہزاروں لوگوں کا روزگار جڑا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برسوں میں عسکریت پسندی اور فوجی کارروائیوں سے اس انڈسٹری کو نا قابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے، جس کی وجہ سے یہاں کی معاشی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ فاٹا کی ترقی کے لیے عملی کا م کیا جائے جس کے کم وقت میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

فاٹا میں معاشی ترقی کے حوالے سے یہاں ایک ماڈل بزنس سٹی کے قیام کے ساتھ ساتھ لوگوں کو دیگر سہولیات بھی مہیا کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ امریکہ کی طرف سے فاٹا میں ساڑھے سات سو ملین ڈالر خرچ کرنے اور ریجنل اپرچیونٹی زون کے قیام کا بھی اعلان کیا جا چکا ہے ۔ امریکہ کے علاوہ برطانیہ اور یورپی یونین بھی ان ترقیاتی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔ فاٹا میں ترقی کے لیے پشاور میں موجود کئی این جی اوز بھی کام کر رہی ہیں۔امریکہ اور یورپی یونین کو فاٹا میں عملی طور پر بحالی اور ترقی کے لیے کام کرنا ہو گا تاکہ لوگوں کو معاشی طور پر مستحکم کیا جا سکے۔ یہ عمل عسکریت پسندی کے مکمل خاتمے کے لیے نہایت ضروری ہے۔فاٹا میں ترقی کے لیے یہاں درج ذیل اقدامات کی ضرورت ہے ۔فاٹا میں ایک نیا اور جدید سہولیات سے آراستہ شہر قائم کیا جائے جہاںایک انٹرنیشنل ائیر پورٹ ، ایجوکیشن سٹی، سڑکوں کا وسیع نیٹ ورک اور ایک بڑا بزنس سینٹر موجود ہو ، جس کے ذریعے ٹرانزٹ کا کام کرنے والے تاجروں کے لیے آسانی پیدا ہوگی اور قبائلیوں کی بڑی تعداد اس طرف توجہ دے گی جس سے عسکریت پسندی کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ وہ لوگ جو فاٹا میں جنگی معیشت سے روزی کما رہے ہیں وہ بھی اس طرف رجوع کریں گے۔باجوڑ ایجنسی، افغانستان سے ٹرانزٹ کا موثر ترین ذریعہ ہے جہاں ٹرانزٹ ہونے والی اشیاء پشاور کی کارخانومارکیٹ سمیت ملک کے دیگر شہروں میں بھی بھیجی جاتی ہیں۔ باجوڑ کے تاجروں کے مطابق حکومت کو ایجنسی کی بحالی کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ تباہ حال باجوڑ ایجنسی میںمعاشی سرگرمیوں کا آغاز کیا جا سکے۔ ان تاجروں میں بیشتر کے پاس مختلف انٹرنیشنل برانڈ کی ڈیلر شپ اور ایجنسیاں بھی موجود ہیں جن کا دائرہ اختیار پاکستان سمیت افغانستان کے متعدد علاقوں تک پھیلا ہوا ہے۔ فاٹا کے تاجروں کے مطابق سرمایہ کاری کے لیے پیسے کا انتظام قبائل خود ہی کرلیں گے لیکن بنیادی سہولیات فراہم کرنا حکومت کا کام ہے ۔