working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

برطانیہ میں بیس روز : ملکی مخدوش حالات کے باعث تارکین وطن سخت پریشان ہیں
بشارت رٹوی
دنیابھر میں موجود میڈیا نے بین الاقوامی حالات و واقعات اور معاملات کو انسانوں کے سامنے یوں پیش کرنا شروع کیا ہے کہ دنیا کے ایک کونے میں کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے اور دوسرے کونے میں پل بھر میں اس کی خبر پہنچ جاتی ہے۔ یہی صورت حال پاکستان کے تارکین وطن کے ساتھ بھی رونما ہورہی ہے۔ ملک کی مخدوش صورت حال، داخلی انتشار، خارجی حوالے سے دہشت گردانہ کارروائیوں کے شکار ہونے والے ملک کے طور پر پاکستان کی شناخت، اور کسی کی بھی جان و مال محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے برطانیہ میں آباد پاکستانیوں کی پریشانیوں میں روز بہ روز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ برطانیہ میں اس وقت پاکستان کے داخلی حالات کے حوالے سے کیا احساسات پائے جاتے ہیں، مصنف حال ہی میں برطانیہ سے واپس لوٹے ہیں، وہ اس کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ (مدیر)

محرم جیسے ماہ مقدس میں نماز جمعہ کے دوران مساجد، اسکولوں، یونیورسٹیوں اور بھرے بازاروں میں بے گناہ انسانوں کو خود کش حملوں کے ذریعے لقمہ اجل بنانے والے وحشی درندوں کو نہ جانے یہ خیال کیوں نہیں آتاکہ ان کی ان مذموم کارروائیوں سے کئی خاندان بے سہارا ہو گئے، کئی بچوں کے سروں سے باپ کا سایہ اٹھ گیا۔ کتنی مائوں کی گودیں اجڑ گئیں، کتنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا ان سے چھین لیا گیا۔ پاک فوج کے بہادر جوان و آفیسر ان درندوں کی مذموم کارروائیوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر گئے۔ احساس جرم سے عاری ان درندوں کی ان کارروائیوں کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ آگ اور خون کا یہ کھیل اس شدت سے جاری ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ قبائلی علاقوں سے شروع ہونے والی اس آگ نے آہستہ آہستہ بندوبستی علاقوں اور بڑے شہروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اس نیٹ ورک کی کمر توڑنے کے لیے پاک فوج، پولیس اور سیکورٹی اداروں کے ہزاروں نوجوان و آفیسر اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں۔ ناموس وطن اور قوم کے تحفظ کے لیے وطن کی مٹی کی یہ نوجوان آفیسر جس طرح اپنے خون سے آبیاری کر رہے ہیں اس پر پوری قوم اپنی بہادر مسلح افواج، پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کو سلام پیش کرتی ہے۔ حکومت، فوج، پولیس اور پوری قوم ان شدت پسندوں کے خلاف پوری طرح متحد ہو چکی ہے۔ صوبہ سرحد میں بننے والی امن کمیٹیاں اور امن لشکر اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گرد دن بدن تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ پرنٹ ہو یا الیکٹرانک، یہاں کا میڈیا بھی وطن عزیز کے تحفظ کی بھرپور جنگ لڑ رہا ہے۔ وہ زبانیں بھی بند ہو چکی ہیں اور وہ ہونٹ بھی اب شاید سِل چکے ہیں جو شروع شروع میں اسے اپنی نہیں بلکہ کسی اور کی جنگ قرار دے رہے تھے۔ پوری قوم اب نئے عزم، ولولے اور مضبوط ارادوں کے ساتھ اس جنگ میں شامل ہے۔ انسانیت سوزی کا یہ مکروہ عمل اگرچہ پورے ملک میں شروع ہے لیکن اس کی سب سے زیادہ گونج صوبہ سرحد میں سنائی دے رہی ہے۔

چونکہ صوبہ سرحد کی حدود افغانستان سے جا ملتی ہیں اس لیے دہشت گردوں نے اسی صوبہ پر فوکس کر رکھا ہے۔ دوسرے نمبر پر اسلام آباد، راولپنڈی اور لاہور ان کے نشانے پر رہے۔ ابھی حال ہی میں ماہ محرم الحرام کے دوران عاشورہ کے جلوس میں بم دھماکوں کے ذریعے ان درندروں نے شیعہ سنی کو بھی لڑانے کی کوشش کی۔ کراچی کی بولٹن مارکیٹ کو خاکستر کر کے قوم کا اربوں روپے کا نقصان کر دیا گیا۔ دہشت گرد اپنی ان مذموم کارروائیوں سے قوم کے حوصلے پست کر کے ملک کے استحکام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کے کونے کونے کو خون میں نہلا دینے کے بعد بہادر مسلح افواج، پولیس اور سیکورٹی اداروں کے ہزاروں نوجوانوں کے جام شہادت نوش کر جانے کے باوجود بھی کچھ لوگ ان شدت پسندوں سے مذاکرات پر زور دے رہے ہیں۔ حالانکہ ماضی گواہ ہے کہ مذاکرات کی آڑ میں ان شیطانی قوتوں نے وقت حاصل کر کے اپنے آپ کو منظم کرتے ہوئے نئے انداز سے اپنے اس مذموم کھیل کو شروع کیا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ مذاکرات اور معاہدوں کے بعد پھر ان معاہدوں کو توڑ دیا گیا اور دہشت گردی کی یہ وارداتیں پھر سے شروع کی جاتی رہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب جبکہ آپریشن شروع ہو چکا ہے پوری قوم سول سوسائٹی اور پورا الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا حکومت اور فوج کے شانہ بشانہ یہ جنگ لڑ رہا ہے تو دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ شروع شروع میں اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ان دہشت گردوں نے قوم کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن قوم نے دین کے نام پر ان دین دشمنوں کی کارروائیوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے ان کے چہروں سے نقاب اتار پھینکے۔ اب یہ شدت پسند دن بدن تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ سوائے لاشیں گرانے اور خون بہانے کے ان کے تمام مذموم ارادے ناکام ہو چکے ہیں۔ قوم، سول سوسائٹی اور میڈیا کو اپنا ہمنوا بنانے میں یہ ملک دشمن بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔

طالبان اور ان جنگجوئوں کی حمایت میں سیاست کے بازار سے اٹھنے والی وہ بولیاں قوم پسند نہیں کرتی جو وحشت، درندگی، قتل و غارت کے بازار اور قتل گاہ میں لاشوں پر بیٹھ کر مذاکرات کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ایک طرف یہ سیاسی بذرجمہر جن کی پارٹیوں کا وجود صرف اخبارات اور ٹی وی تک محدود ہے وہ بالواسطہ طور پر طالبان اور ان جنگجوئوں کی حمایت بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف ان حملوں کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ سہاگ اجاڑنے، سکول تباہ کرنے، قتل و غارت کا رقص کرنے والوں سے مذاکرات کر کے اگر مقتدر قوتیں بلیک میل ہوتی رہیں تو یہ سلسلہ کبھی ختم ہونے میں نہیں آئے گا۔ دسمبر کے دوسرے ہفتے میں برطانیہ جانے کا اتفاق ہوا۔ جہاں یونیورسٹی آف برمنگھم سے کمپیوٹر انجینئرنگ میں ماسٹر کرنے والے میرے بیٹے کو ڈگری دی گئی۔ برطانیہ میں گزرے بیس دنوں میں بے شمار لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں، ہر کوئی اپنے وطن پاک کی مخدوش صورت حال پر پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ برطانیہ میں بسنے والے پاکستانیوں کی تعداد ڈیڑھ ملین کے قریب ہے۔ یہ لوگ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی نسبت یورپ اور بالخصوص برطانیہ میں میڈیا، بین الاقوامی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کو لمحہ بہ لمحہ نشر کرتا ہے۔ جس کسی سے بھی ملاقات ہوئی اسے ملکی حالات پر بہت دکھی پایا۔ ہزاروں میل دور جس طرح ہمارے یہ تارکین وطن خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے پریشان ہیں اس کا ملک میں بیٹھ کر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ان مٹھی بھر عناصر کی ان مذموم کارروائیوں سے پاکستان کا امیج بیرونی دنیا میں تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ سرمایہ کاری کے لیے بیرونی ممالک سے لوگوں کا آنا تو درکنار غیرملکوں میں بسنے والے پاکستانیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور آئے روز کے بم دھماکوں اور خود کش حملوں سے جہاں تارکین وطن کی ملکی سلامتی کے بارے میں پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ وہاں ان وارداتوں سے ملکی وقار اور امیج کو بیرونی دنیا میں جو دھچکا لگا ہے اس کو بحال کرنے میں نہ جانے کتنے برس درکار ہوں گے۔