working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

امن پسند صوفیوں کی سرزمین: حسن ابدال
انجینئر مالک اشتر
 
حسن ابدال کی شہرت بابا قندھاری سے منسوب ہے جو 1408ء میں قندھار، افغانستان سے تشریف لائے تھے۔ بابا قندھاری جن کا اصل نام حسن ابدال تھا 1408 ء سے 1470ء تک یہاںقیام پذیر رہے۔ بابا قندھاری کے یہاں قیام کے دوران لوگ دور دور سے ان سے فیض حاصل کرنے آتے ۔حسن ابدال میں قیام کے بعد آپ واپس قندھار چلے گئے جہاں آپ کا وصال ہوا۔ سکھ مذہب کے بانی بابا گورو نانک نے بھی حسن ابدال میں قیام کیا جن کے عقیدت مندوں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ اس مضمون میں مصنف نے حسن ابدال کے تاریخی، تہذیبی اور تمدنی خدوخال اجاگر کیے ہیں۔(مدیر)
حسن ابدال کے جنت نظیر خطے کو پھولوں، پھلوں، قدرتی چشموںاور امن و محبت کے آفاقی درس دینے والے صوفیوں، سادھوئوں اور بھگتوں کی سرزمین سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ ضلع اٹک کی ایک پر فضا سیر گاہ ہے۔ شمالی علاقہ جات سے آنے والی قدیم شاہراہِ ریشم، لاہور سے پشاور جانے والی جرنیلی سڑک کو حسن ابدال کے مقام پر ہی آن ملاتی ہے۔

حسن ابدال کا شہر قدیم زمانے سے ہی بین الاقوامی شاہراہوں کے اتصال پر واقع ہونے کی وجہ سے عروس البلاد کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ کاروباری سرگرمیاں نقطہ عروج پر تھیں کیونکہ اطراف کے قصبوں اور بیرونی ممالک سے آنے والے قافلے یہاں ٹھہرتے اور درآمدو برآمد کیا جانے والا تمام مال مقامی منڈی سے ہو کر گزرتا۔ ہر وقت خریداروں کے ٹھٹھ لگے رہتے اور سوداگروں کی خوب چاندی ہوتی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ گردشِ ایام ہررنگ و نسل کے لوگوں کو کھینچ کر یہاں لے آئی۔ آج اس پر امن شہر کی آبادی مختلف الجہتی قوموں، نسلوں اورمذاہب کے رنگا رنگ خوشنما گلدستے کا نمونہ پیش کرتی ہے۔

حسن ابدال کی وجہ شہرت بابا ولی قندھاری ہیں۔ ان کا اصل نام حسن ابدال تھا۔ وہ مرزا شاہ رخ ابن تیمور کے ہمراہ تقریباً 1408ء میں قندھار، افغانستان سے تشریف لائے تھے۔ اس شہر کی تاریخی اور سیاسی حیثیت کے پیش نظر انہوں نے یہیں رشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے قیام کے لیے قریبی پہاڑی چوٹی کا انتخاب کیا۔ آپ کے حسنِ اخلاق نے ایک جہاں کو آپ کا گرویدہ بنا دیا۔ لوگ دور دور سے آ کر کسبِ فیض کرتے اور علم و حکمت کے گراں بہا موتی سمیٹتے۔ باباجی سے عقیدت و احترام کا یہ عالم تھا کہ جب وہ حق و صداقت کی شمع روشن کرنے کے بعد واپس قندھار تشریف لے گئے تو یہ مقام ان کے نام کی مناسبت سے حسن ابدال مشہور ہو گیا۔ آپ کا وصال پُرملال قندھار میں ہی ہوا جہاں آج بھی آپ کا مزار مرجع خاص و عام ہے۔(1)

الفنسٹن، ولیم مور کرافٹ (Willson, H.H: Travels etc p.318) ہیوگل، ولیم بیل (Beale, T. W: Oriental Biographical Dictionary p.155)، بلاخمن، گیانی گیان سنگھ ا ور سردار بہادر کا ہن سنگھ (مہان کوش ص 764) نے بھی حسن ابدال کی وجہ تسمیہ حضرت بابا حسن ابدال المعروف بابا ولی قندھاری کے قیام کو ہی قرار دیا ہے۔(2)

حسن ابدال کو سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک نے بھی اپنی آمد سے رونق بخشی۔ روایت ہے کہ انھوں نے پہاڑی پر بیٹھے بابا ولی قندھاری سے پانی طلب کیا اور پس و پیش کرنے پر چوٹی پر واقع پانی کا چشمہ سوکھ گیا۔ بعد ازاں یہی چشمہ پہاڑی کے دامن سے بہہ نکلا۔ بابا قندھاری نے طیش میں آ کر ایک وزنی چٹان نیچے لڑھکا دی جسے بابا گورونانک نے روکنے کی کوشش کی اور ان کے ہاتھ کا نشان اسی پتھر پر ثبت ہو گیا۔ یہ وزنی پتھر آج بھی گور دوارہ کے صحن میں موجود ہے۔

تاریخی شو اہد سے پتا چلتا ہے کہ بابا ولی قندھاری کا زمانہ 1408ء تا 1447ء ہے جبکہ گورو نانک کا عہد 1469ء تا 1539ء پر محیط ہے اور ان کا آپس میں ٹکرائو کچھ عجیب معنویت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ مشہور چینی سیاح ہیون تشانگ جو بابا ولی قندھاری سے صدیوں قبل یعنی 645ء میں یہاں آیا تھا، اس نے پہاڑی کی چوٹی پر کسی چشمے کی نشاندہی نہیں کی تاہم اس نے حسن ابدال کے اطراف میں بہنے والے متعدد قدرتی چشموں کا ذکر ضرور کیا ہے جو کہ آج بھی وہاں موجود ہیں۔(3) ہیون تشانگ سے بھی پہلے آنے والے چینی سیاح فاہین (تقریبا 400ئ) کے سفرنامے میں بھی ایسا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔(4)

سرالیگذینڈر کنگھم نے 1864ء میں ان علاقوں کی تفصیلی سیاحت کی۔ اس نے حسن ابدال کے تذکرے میں لکھا کہ بابا گورونانک کا پنجہ پتھر پرابھری ہوئی شکل میں موجود ہے حالانکہ اگر کسی متحرک چیز کوہاتھ کے زور سے روکا جائے تو نقش کو پتھر کے اندر پیوست ہونا چاہیے تھا۔(5)

بدھ ادب میں بھی ایسا ہی ملتا جلتا واقعہ مہاتما گوتم بدھ کے ساتھ منسوب ہے۔ جب ان کے چچا زاد بھائی دیودت نے انہیں قتل کرنے کی سازش کی اور مہاتما بدھ نے پہاڑی کی چوٹی سے لڑھکائی جانے والی چٹان ہاتھ سے روک لی۔ اس جاتک کہانی کی حجری تختی آج بھی ٹیکسلا کے عجائب گھر میں محفوظ ہے، ہو سکتا ہے کہ اس تاریخی قصے کے کرداروں کے نام بابا گرونانک اور ولی قندھاری کے رنگ میں رنگ دیئے گئے ہوں یا پھر دونوں مختلف روایات بھی ہو سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ حسن ابدال کا پرانا گوردوارہ انیسویں صدی کے شروع میں پنجاب میں سکھوں کی حکومت کے دوران ہری سنگھ نلوہ (تاریخ وفات 1837ئ)نے تعمیر کرایا تھا جس میں بعد ازاں گوردوارہ پر بندھک کمیٹی نے توسیعی کام انجام دیا۔ تحصیل حسن ابدال سے متصل ہری پور قصبے کی بنیاد بھی ہری سنگھ نلوہ نے ہی رکھی تھی اور آج بھی یہ شہر ان کے نام سے مشہور ہے۔(6)

سکھ مذہب کے بانی اور پہلے گرو بابا گورنانک دیو، شیخوپورہ کے گائوں بھوئے دی تلونڈی (موجودہ ننکانہ شریف) میں 1469ء میں پیدا ہوئے۔ اس وقت ہندوستان پر سلطان لودھی کی حکومت تھی۔ بابا گورو نانک بت پرستی کے خلاف تھے اور فلسفہ وحدانیت کے قائل تھے۔ انہوں نے بلا تفریقِ قوم و مذہب، امن و محبت اوربھائی چارے کے پیغام کو عام کیا۔ وہ اپنے دو چیلوں مردانہ مطرب اور بالا کے ہمراہ دنیا کی سیرکونکلے اور مکہ مکرمہ کی زیارت سے بھی مستفید ہوئے۔(7) بابا گورونانک اسلامی تصوف اورہندو یوگ سے متاثر تھے۔ آپ کے عقیدت مندوں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو ہندوئوں اور مسلمانوں میں تنازعے نے سر اٹھایا۔ ہندو ان کی ارتھی جلانا چاہتے تھے اور مسلمان دفن کرنے پر مصر تھے۔ چنانچہ بابا کی وصیت کے مطابق ان کی آخری رسومات کو اگلے دن تک مؤخر کر دیا گیا۔ دوسرے روز جب ہندو اور مسلمان موقع پر پہنچے تو دیکھا کہ پھول تو بدستور تازہ تھے مگر جسد خاکی غائب تھا، یوں امن پسند اور محبت کے داعی نانک نے مرنے کے بعد بھی لوگوں کو کشت و خون سے بچا لیا۔(8)

بابا کے جانشین گورو انگدنے ان کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے قدیم کلاسیکی پنجابی زبان میں گرمکھی رسم الخط کو متعارف کرایا۔ 1551ء میں امرداس تیسرے گورو منتخب ہوئے ان کی وفات (1574ئ) کے بعد چوتھے گورو رام داس نے امرتسر کی بستی آباد کی، جس کے لیے شہنشاہ اکبر نے اخراجات ادا کرنے کے لیے 500 بیگھے زمین وقف کی۔ رام داس کی وفات کے بعد 1581ء میں اس کا بیٹا گوروارجن جانشین منتخب ہوا۔ اس نے امرتسر کا مشہور گوردوارہ دربار صاحب بنوایا، جس کا سنگِ بنیاد لاہور کے بزرگ صوفی میاں میر صاحب نے اپنے دستِ مبارک سے رکھا۔ گوروارجن دیو نے ہی سکھوں کی مقدس کتاب ''گوروگرنتھ'' مرتب کی۔(9) یہ 3381 اشعار پر مشتمل ہے جو کہ ہندوئوں کی مقدس کتاب ''رگ وید'' سے تقریباً تین گنا بڑی ہے۔(10) اس میں بابا گورونانک، بھگت کبیر اور بابافرید کے اشعار شامل ہیں۔(11)

اس موقع پر بنارس کے باسی بھگت کبیر (1518ئ۔1440ھ) کا مختصر سا تعارف بھی برمحل لگتا ہے۔ تذکرہ اولیائے ہند میں انہیں شیخ کبیر جولاہا قدسرہ لکھا گیا ہے اورکہا گیا ہے کہ:
''یہ حضرت تقی سہروردی کے خلیفہ تھے اور مشاہیر زمانہ سے ہوئے ہیں۔ اپنی ولایت کو طریقۂ ملامتیہ میں چھپایا تھا اور تمام موحدانِ وقت سے ممتاز تھے۔ چند روز راما نندبیراگی کی خدمت میں رہ کر فن شاعری ہندی زبان میں حاصل کیا۔ ہندی زبان میں پہلی معرفت انہوں نے بیان کی۔ ان کی تقلید بابا گورونانک نے کی'' (بابا نانک کی تعلیمات کئی معاملات میں کبیر کی فلاسفی سے مماثل ہیں) اس تذکرے میں مزید لکھا ہے کہ ''کبیر صاحب نے بعد اس کے حضرت بھیکا چشتی کی خدمت میں رہ کر خرقۂ خلافت حاصل کیا اور ہندو مسلمان دونوں گروہ آپ کے معتقد تھے۔ ہر ایک آپ کو اپنے میں شمار کرتا تھا اور جو اہلِ ہنود آپ کے سلسلے کے ہیں وہ کبیر پنتھی کہلاتے ہیں۔ طریق ان کا افکار و اشکال میں بالکل اہلِ اسلام کے مطابق ہے مگر الفاظ کا فرق ہے۔''(12)

کبیر کی شاعری آج بھی شمالی ہندوستان میں مقبول ہے اور روحانی طور پر فارسی شعراء جلال الدین رومی اور حافظ وغیرہ سے قریب ہے۔ اس نے بُتوں کی پرستش سے منع کیا ہے۔ اس کے پیروکاروں میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں۔ وہ انہیں خدا کی وحدانیت پر متحد کرنا چاہتا تھا۔ تعلیمات کے حوالے سے اسے بابا گورو نانک کا مورثِ اعلیٰ سمجھا جاتا ہے۔(13)

پہاڑی کی چوٹی سے جنوب مشرقی جانب نگاہ دوڑائیں تو واہ گارڈن کی جنت نظیر وادی قدموں تلے بکھری نظر آتی ہے۔ اس تفریح گاہ کی تعمیر اور وجہ شہرت مغل حکمرانوں کی مرہونِ منت ہے۔ روایت ہے کہ جب ہندوستان کا فرمانروا جہانگیر، کشمیر یا کابل کی یاترا کے بعد وطن واپس لوٹتا تو اس کی آمد کی خوشی میں حسین ملکہ نور محل پھولوں کے اردگرد سلیقے سے منجمد کی ہوئی برف علیحدہ کرتی۔ یوں بادشاہ سلامت کے بارہ دری میں قدم رنجہ کرتے ہی دو رویہ جھومتی ہوئی گلاب کی کلیاں دیکھتے ہی دیکھتے چٹخنا شروع کر دیتیں اور شاہی استقبال کا مزا دو بالا ہو جاتا۔ ایسے ہی کسی موقع پر ان قدرتی مناظر، گنگناتے چشموں اور رنگ برنگے پھولوں کو دیکھ کر شہنشاہ جہانگیر کے منہ سے بے ساختہ کلمہ استعجاب ''واہ'' نکلا اور پھر اس جگہ کا نام ہمیشہ کے لیے ''واہ'' پڑ گیا۔ موہن لال (1832ئ)، ہیوگل (1835ئ)، شہامت علی (1838ئ) اور سی ایم وی سٹوارٹ (1913ئ) نے بھی اس باغ کی تعمیر کو جہانگیر سے منسوب کیا ہے۔(14)

پہاڑی کی یہی چوٹی کبھی بابا ولی قندھاری کی اقامت گاہ رہی تھی۔ اب یہاں آس پاس بکریاں، مور، بطخیں، مرغیاں اور کبوتروں کے غول کے غول منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ یہ چرند پرند زائرین سے بھی خاصے مانوس ہیں اور ان کی آمد سے بے نیاز اپنے آپ میں مگن رہتے ہیں۔ منتوں اور مرادوں کے ضمن میں عقیدت مند پانی سے بھرے گھڑے اٹھا کر پہاڑی پر لاتے ہیں۔ بجلی کے آ جانے سے برقی روشنیوں اور رنگ برنگے قمقموں نے بھی رونق دوبالا کر دی ہے۔ خدام الفقراء کی جانب سے لنگر و نیاز کا باقاعدہ انتظام ہوتا ہے۔ گاہے گاہے قوالیاں بھی سننے کو ملتی ہیں۔

حال ہی میں حکومتی اداروں کے تعاون سے لوہے کی پائپ لائن بچھا کر پانی کو پہاڑی کے اوپر پہنچا دیا گیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ کئی صدیاں گزرنے کے بعد بابا حسن ابدال اور باباگرونانک کے مرید اور چیلے بالآخر دونوں صوفیوں کے درمیان صلح کرانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ کیونکہ وہ چشمے جو کبھی باہمی نزاع کی وجہ سے سوکھ گئے تھے اب امن اور محبت کی فضا میں دوبارہ جاری ہو گئے ہیں۔ یقینا یہ ساری رونقیں اور خوشیاں ویرانے میں چپکے سے بہار آ جانے کی نوید ہیں۔

حوالہ جات
-1 گندھارا، محمد ولی اللہ خان، لوک ورثہ اسلام آباد، 1987ئ، ص 231 تا 234
-2 تاریخ حسن ابدال، تالیف منظور الحق صدیقی، 1977ئ، ص22
-3 ہیون سانگ، سفر نامہ ہند، مترجم یاسر جواد، تخلیقات لاہور، 2001ئ
-4 A Record of Bhuddhistic Kingdoms, Translated & annotated
by James Legge Published by Lok Virsa, Islamabad, Pakistan.
-5 The story of Hasan Abdal by M. Wali Ullah Khan, Daily
Pakistan Times, dated December 8, 1957
-6 راول دیس، عزیز ملک، 1969ئ، ص38
-7
tariqjaved7@hotmail.com
-8 Religion of The World, by M. Hoppe Lewis Macmillan New
York, USA. p.212
-9 کمپنی کی حکومت، باری علیگ، طیب پبلشرز لاہور، ص 363 تا 365
-10 ایضاً
-11 بھگت کبیر، حیات و تعلیمات اور منتخب کلام، ڈاکٹر عبدالحفیظ، المطبعة العربیہ، لاہور، 2001ئ، ص116
-12 آب کوثر، شیخ محمد اکرم، مطبع علی مجید پرنٹرز لاہور، 2000ئ، ص465
-13 The Oxford History of India, by Vincent A. Smith Oxford
University Press New York, 5th Edition, p267-8
-14 تاریخ حسن ابدال، تالیف منظور الحق صدیقی، 1997ئ، ص63