working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

تہذیبوں کا تصادم … ایک تجزیاتی مطالعہ۔٢
ڈاکٹر کوثر محمود
 
تہذیبوں کے تصادم کا مسئلہ پچھلی کچھ دہائیوں کا پیدا کردہ ہے۔ تاہم بین الاقوامی معاملات اور قوموں کے درمیان پیدا ہونے والے نئے رشتوں میں اس کو بنیادی اہمیت حاصل رہی ہے پچھلی دہائی کے دوران بعض دانش وروں کے نزدیک تصادم کی یہ فکری شکل اقوام عالم کے مابین عملی تصادم کی صورت میں سامنے آئی۔
تاہم ان تجزیہ نگاروں کا ایک طبقہ اسے تہذیبی تصادم قرار دینے سے عرصہ دراز تک گریز پا رہا کیونکہ ان کے نزدیک تہذیب اپنے لغوی معنوں میں بے حد وسعت رکھتی ہے جبکہ اسے محض مذہب اور مذاہب کے درمیان جنگ تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ یوں تو نائن الیون کے واقعہ کو نئی صلیبی جنگوں کا آغاز کار بھی قرار دیا گیا۔ لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ یہ ساری کی ساری قیاس آرائیاں تھیں۔ دراصل ان سب سے پہلے معاشی پہلو اور معیشتی مفادات وابستہ تھے۔ تہذیبوں کے تصادم، پر فکری مطالعہ کی یہ دوسری کڑی ہے۔ اس کا پہلا حصہ آپ ''تجزیات'' کے خصوصی شمارہ میں ملاحظہ کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر کوثر محمود، ایک منفرد لہجے کے شاعر، مترجم اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ صائب الرائے دانشور بھی ہیں۔ (مدیر)

3 حصہ سوئم......تہذیبوں کی تشکیلِ نو
سرد جنگ کے دوران دو منطقوں/انتہائوں میں بٹی دنیا کے ممالک کیلئے یہ ممکن تھا کہ وہ اپنے آپ کو وابستہ یا غیر وابستہ (aligned or non-aligned)ملک کے طور پر رکھ سکیں لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد ان ممالک کے لیے شناخت کا ایک بحران پید اہوگیا ہے کہ اب وہ اپنے آپ کو کس سے وابستہ کریں اور( امریکہ سے) کیسے الگ تھلگ رکھیں۔

اس بحران سے نبردآزما ہونے کے لیے ان ممالک نے اپنے آپ کو ان ثقافتوں کا اتحادی سمجھناشروع کردیا ہے جو ممالک مشترکہ آبائواجداد، ایک مذہب، ایک زبان، یکساں اقدار اور ایک جیسے ادارے رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو اُن ملکوں سے دور کرلیا ہے جو اُن سے مختلف ہیں۔ایسی علاقائی تعاون کی تنظیمیں وجود میں آئی ہیں جو سیاسی اور معاشی اتحاد کا درجہ رکھتی ہیں ان میں جنوب مشرقی اقوام کا اتحاد، آسیان(Asean : Association of South East Nations)شامل ہیں۔

ہٹنگٹن کچھ کٹے ہوئے ممالک (Torn Countries)کا بھی بیان کرتا ہے جو اپنی الگ تہذیبی شناخت پر مصر ہیں ان ممالک میں روس، ترکی، میکسیکو اور آسٹریلیا شامل ہیں۔

ہٹنگٹن اس امر پر بھی بحث کرتا ہے کہ تہذیبوں کا نیا ڈھانچہ معدودے چند ہمہ مقتدر ریاستوں کے گرد گھومتا ہے ؛ثقافتی اقدار کی یکسانیت اُن ریاستوں کی قائدانہ حیثیت کو قانونی اور بااعتبار بناتی ہے اور اپنے رکن ممالک اور بیرونی قوتوں اور اداروں پر اپنی سیادت و قیادت اور اپنے نظامِ فکر کو نافذ و مسلط کرتی ہیں۔
ان کلیدی اور مقتدر ریاستوں کی مثال فرانس اور جرمنی سے دی جاسکتی ہے کہ جن کے دائرہ اثر سے یورپی یونین میں سے کون انکاری ہے (لیکن) اُن کا دائرہ اثر وہاں ختم ہوجاتا ہے جہاں مغربی عیسائی دنیا کی حدیں ختم ہوجاتی ہیں ؛باالفاظ دیگر تہذیبیں سختی کے ساتھ اپنی مذہبی وابستگی کے دائرے میں مقید ہیں۔

ہٹنگٹن اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلامی تہذیب میں کوئی ریاست کلیدی اور مرکزی کردار ادا کرتی نظر نہیں آتی اور یہی وجہ ہے کہ یہ معاشرے ابھی تک ترقی کے ثمرات حاصل نہیں کرسکے اور نہ ہی مکمل جدیدیت کے سانچے میں ڈھل سکے ہیں۔

کتاب کے اس حصّے کا بقیہ کلیدی ریاستوں کی مختلف تقسیم کو جراحت کے ساتھ واضح کرتا ہے۔

 4 -حصہ چہارم.....تہذیبوں کا تصادم
ہٹنگٹن پیشین گوئی کرتا ہے اور بالصراحت بیان کرتا ہے کہ تہذیبوں کے درمیان ایک عظیم تصادم رونما ہوگا۔ پہلے وہ پیش بینی کرتا ہے کہ اسلامی اور چینی تہذیبیں اپنے مشترکہ دشمن یعنی مغرب کے خلاف متحد ہوکر عمل پیرا ہوں گی۔ ہٹنگٹن کے مطابق تین معاملات ایسے ہیں کہ جو مغرب کوبقیہ دنیا سے الگ کرتے ہیں۔

-1 مغرب کے پاس یہ اہلیت ہے کہ وہ اپنی فوجی بالادستی کو اس طرح قائم رکھ سکتا ہے ۔وہ نئی ابھرتی ہوئی عالمی قوتوں کو ایٹمی طاقت حاصل کرنے سے (جوہری ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کے نام پر ) بزورِ قوت روکے۔
-2 مغربی سیاسی اقدار، مثلاً انسانی حقوق اور جمہوریت کی باقی دنیا میں ترویج کرنا۔
-3 غیر مغربی مہاجرین کی مغربی معاشروں میں آمد کو روکنا اور ان پر مختلف قدغنیں لگانا۔

غیر مغربی ممالک ، مغربی ممالک مذکورہ بالا تینوں اقدامات کو اپنی ثقافتی بالادستی کو برقرار رکھنے کے ہتھکنڈوں کے طور پر دیکھتے ہیں وہ اپنی کتاب کے باب ''تہذیبوں کی عالمی سیاست''میں پیشین گوئی کرتا ہے کہ مغربی ممالک اور اسلام کے درمیان محدودپیمانے پر جنگ کا خطرہ موجود ہے لیکن امریکہ اور چین کے درمیان کلیدی ریاستوں کے درمیان بین التہذیبی جنگ کا بڑا امکانی خطرہ ہے۔

اسلام اور مغرب
ہٹنگٹن اسلام اور عیسائیت کے درمیان مناقشات کی مختصر تاریخی توجیہہ پیش کرتا ہے اور اُن پانچ عناصر کی نشاندہی کرتا ہے کہ جنہوں نے بیسویں صدی میں ان دونوں مذاہب کے درمیان تنازعات کو ہوادی ہے؛ اُن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
-1 مسلمانوں کی آبادی (دوسری اقوام کی نسبت) نہایت تیزی سے بڑھی ہے جس میں غیر مطمئن اور بے روزگار نوجوانوں کی اکثریت شامل ہے یہ نوجوان طبقہ مذہبی تحریکوں میں بھرتی کیلئے آسان ہدف ہے یعنی مذہبی تحریکوں میں شمولیت پر آسانی سے تیار ہوجاتا ہے۔
-2 اسلام کی حالیہ حیاتِ نو نے مسلمانوں کو مذہب سے نئی وابستگی اور شیفتگی عطا کی ہے اور وہ اپنے مذہب کا دوسروں سے تقابل کرتے ہوئے خود کو حق بجانب سمجھنے لگے ہیں۔
-3 مغرب کی اُن کوششوں نے کہ جو وہ پوری دنیا میں یکساں اقدار اور ایک جیسے اداروں کے قیام کیلئے کررہا ہے اور اپنی فوجی برتری کو قائم رکھے ہوئے ہے، مسلمان معاشروں میں ایک شدید نفرت اور بے چینی کو جنم دیا ہے۔
-4 کمیونزم کے مشترکہ خطرے کے خاتمے کے بعد مغرب اور اسلام آپس میں ایک دوسرے کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔
-5 مغرب اور اسلام کے درمیان روز افزوں روابط نے اُن ثقافتی اور تہذیبی تضادات کو نمایاں تر کردیا ہے کہ پہلے جنہیں نسبتاً معمولی اور غیر اہم سمجھا جاتا تھا۔

ایشیا ، چین اور امریکہ
ایشیا اور چین میں معاشی ترقی نے امریکہ کے ساتھ معاندانہ تعلقاتِ کار کو جنم دیا ہے۔ جیسا کہ اوراقِ سابق میں بتایا گیا کہ چین اور ایشیا میں معاشی فتوحات کے طفیل یہ قومیں اپنی تہذیب و ثقافت کے بارے میں فخریہ انداز اختیار کرنے لگی ہیں۔ ہٹنگٹن پیشین گوئی کرتا ہے کہ مشرقی ایشیا کے ممالک کی معاشی کامیابیاں اور چین کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت آپس میں مل کر دنیا کیلئے کسی بڑے تصادم کا سبب بن سکتے ہیں۔ یہ تنازعہ اُس صورت میں مزید شدت اختیار کرجائے گا اگر اسلامی ممالک (تہذیبیں) چین کے ساتھ اتحاد کرلیتی ہیں۔ اس باب کے آخر میں ایک تفصیلی نقشہ دیا گیا ہے جو سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا کی پیچیدہ صورت ِ حال کی عکاسی کرتا ہے۔

ہٹنگٹن کی صراحت کے مطابق روس اور افغانستان کی جنگ اور پہلی خلیجی جنگ (First Gulf War)یہ دونوں جنگیں تہذیبی جنگوں کا نقطہ آغاز ہیں۔ہٹنگٹن افغان جنگ کو تہذیبی جنگ سے اس لیے تعبیر کرتا ہے کہ اسے پہلے پہل کسی بیرونی جارح طاقت کے خلاف کامیاب مزاحمت کے طور پر دیکھا گیا، جس نے خود انحصاری کے جذبے کو تقویت دی اور اسلامی دنیا میں بہت سے جنگجو مزاحمت کاروں کی قوت و طاقت میں اضافہ ہوا۔ اس جنگ کی باقیات میں اسلامی تنظیموں کا پریشان کن اتحاد تھا کہ جو اسلام کو غیر مسلم دنیا میں ترویج دینے کے لیے ہمہ تن کوشاں تھا۔ باالفاظ دیگر اس جنگ نے جنگجوئوں کی ایک نسل کو پیدا کیا کہ جو مغرب کو اپنے طرزِ زندگی کیلئے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔

پہلی خلیجی جنگ مسلمانوں کا ( آپس میں ایک) تنازعہ تھا کہ جس میں مغربی ممالک نے مداخلت کی۔ ہٹنگٹن بیان کرتا ہے کہ اسلامی بنیاد پرست گروہوں(Islamic Fundamentalist Groups) نے اس جنگ کی علانیہ مذمت کی اور اس جنگ کو عراقی عوام کے خلاف فوجی جارحیت اور معاشی ناطقہ بندی قرار دیا۔ اس جنگ کو اسلام اور عیسائیت کی جنگ خیال کیا گیا جس کا ایک فریق امریکہ تھا اور دوسرا فریق وہ خود(یعنی مسلمان) تھے۔
تہذیبوں کے درمیان فالٹ لائن کی بہتر طور پر تفہیم کیلئے ہٹنگٹن اس فالٹ لائن کی امتیازی خصوصیات اور حرکیات بیان کرتے ہوئے وضاحت کرتا ہے کہ اُس تنازعے کی مبادیات اور ہمہ جہتی کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ:
۔ یہ گروہی تنازعات ہیں جو ریاستوں اور گروہوں کے درمیان ہیں جو ہمیشہ ایک مختلف تہذیبی پس منظر رکھتے ہیں۔
۔ یہ تنازعات ہمیشہ اُن لوگوں کے درمیان ہیں جن کا مذہب ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
۔ یہ تنازعات طویل مدت تک چلتے ہیں۔
۔ ان میں تشدّد شامل ہوتا ہے۔
۔ امریکہ کی اُن لوگوں کے خلاف جنگ سے بالآخر مذہبی شناخت کا مسئلہ برآمد ہوا۔
۔ (اس جنگ کی) حمایت اور معاشی امداد اُن مشترکہ لوگوں کے گروہوں نے کی کہ جو قومی یا مرکزی دائرے سے منتشر ہوکر اپنے ملکوں سے باہر تھے لیکن اپنی ثقافتی شناخت برقرار رکھے ہوئے تھے۔(17)
۔ تشدّد ہمیشہ کے لیے شاذ ہی ختم ہوا۔
۔ امن کی طرف جھکائو کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی وجہ سے بڑھا ۔

-5 حصہ پنجم.....تہذیبوں کا مستقبل
کتاب کے اس آخری حصے میں ہٹنگٹن اُن عناصر کے بارے میں بحث کرتا ہے کہ جو مغرب کے ساتھ مبارزت طلب ہیں (وہ عناصر جو مغرب کو چنوتی/چیتاونی دے رہے ہیں) اور یہ کہ آیا یہ عناصر اندرونی ہیں یا بیرونی اور کیا یہ عناصر مغرب کی قوت کو زک پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں گے؟

مغرب کی طاقت کو چیلنج کرنے والے بیرونی عناصر میں وہ ثقافتی شناختیں شامل ہیں جو غیر مغربی دنیا میں اُبھر رہی ہیں۔ مغربی معاشرے کے اندرونی معاملات کہ جو مغرب کی قوت کو کم کیے جارہے ہیں اُن میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پر ایمان و ایقان کا روز بروز کم ہوتے جانا ہے وغیرہ۔ وہ واحد عالمی ثقافت اور کثیر الثقافتی کے حامیوں میں جاری بحث پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنا فیصلہ دیتا ہے کہ ایک کثیرالثقافتی دنیا ناگزیر ہے (یعنی بہت سی ثقافتوں کا دنیا میں بیک وقت موجود ہونا لازم ہے) کیونکہ واحد عالمی سلطنت ناممکن ہے۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور مغرب کی بقا کیلئے لازم ہے کہ وہ اپنی مغربی شناخت کی تجدید کریں۔ مغرب کے واحد اور ہمہ گیر عالمی طاقت بنے رہنے کیلئے لازم ہے کہ وہ مختلف تہذیبوں کے بڑھتے ہوئے اثر ونفوذ اور اُن کی روز افزوں معاشی طاقت کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالے؛ تب ہی مغرب بطور ایک عالمی قوت اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے۔ ان ابھرتی ہوئی تہذیبوں کا رُخ موڑے بغیر (یعنی ان کو غیر موثر یا محدود کیے بغیر) مغرب کی قوت واقتدار کا زوال نوشتہء دیوار ہے اور اس صورت میں مغرب کا دوسری طاقتور تہذیبوں سے تصادم ہوکر رہے گا۔

ہٹنگٹن کے مطابق وہ صورتِ حال کہ جس میں مغرب دوسری تہذیبوں سے برسرِ پیکار ہو دنیا کے امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اس صورت میں کسی عالمی نظم و نسق(International order)کا قیام محض ایک خواب ہوگا۔ (خاتمہ خلاصہ کتاب)

تہذیبوں کا تصادم۔۔۔ ایک تجزیاتی مطالعہ
مکرّر عرض ہے کہ ہٹنگٹن کی یہ کتاب جب منظر عام پر آئی تو اقصائے عالم میں اس پر سنجیدہ بحث کا آغاز ہوا۔ ہمارے ہاں شاذو نادر اس پر بحث ہوئی اور ہمارے کچھ ''روشن خیال دانشوروں'' نے اسے ایک احمقانہ کتاب قرار دیا۔٭١٨ تاہم ناچیز کے نزدیک یہ کتاب عصرِ حاضر کی ایک سنجیدہ دستاویز ہے اور اس کا باقاعدہ علمی اور تنقیدی جائزہ لینا چاہیے لہٰذا چند عنوانات کی ذیل میں اپنی بات کہنے کی کوشش کروں گا۔
٭ کیا یہ ایک طبع زاد خیال ہے؟
٭ کیا یہ کتاب معروضی صورتحال کی درست عکاسی کرتی ہے؟
٭ یا اس کتاب میں پیش کردہ معلومات کو کوئی خاص نہج دینے کی کوشش کی گئی ہے؟
٭ مستقبل کی اہم تکون، مغرب (امریکہ) ، چین اور اسلام کا تفصیلی جائزہ
٭ کیا تہذیب پر زیادہ زور دینا مذہب کی اہمیت کو کم کرنا ہے؟
٭ مشرق اور عالمِ اسلام کے لیے ایک آئینہ
٭ پس چہ باید کرد؟

کیا یہ ایک طبع زاد خیال ہے؟
جیسا کہ اوراقِ سابق میں بتایا گیا کہ سیموئل فلپس ہٹنگٹن نے 1993ء میں فرانسس فوکویاما کی کتاب،' تاریخ کا خاتمہ اور آخری آدمی' کے ردِعمل میں اپنا مضمون لکھا جسے بعد ازاں توسیع کرکے 1994ء میں کتابی شکل دی لیکن یہ اصطلاح تہذیبوں کا تصادم(Clash of Civilization) فارن افئیر کے مجلے میں استعمال ہوچکی تھی بلکہ تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ اصطلاح سب سے پہلے ایک ہندوستانی مصنف اور براڈکاسٹر نرد چندرا چودھری (1999ء - 1897 ئ) نے 1959ء میں چھپنے والی اپنی سوانح عمری ، '' ایک گمنام ہندوستانی کی خودنوشت سوانح''(Autobiography of an unknown Indian) کے اندر استعمال کی اور اُس خودنوشت سوانح میں برطانوی اور ہندوستانی تہذیبوں کے تصادم پر اپنا نقطہ نظر بیان کیا اور ہندوستان کی تہذیب پر برطانوی اثرات کا جائزہ لیا گیا۔(19)

کیا یہ کتاب معروضی صورتحال کی درست عکاسی کرتی ہے؟
اس کتاب میں پیش کردہ واقعات و معلومات کی صداقت میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے اور خصوصاً عالمِ اسلام کو اس آئینے میں اپنا چہرہ ضرور دیکھنا چاہیے لیکن جہاں جہاں پیش کردہ معلومات واقعات سے کچھ نتائج کے استخراج کا معاملہ آتا ہے وہاں اختلاف کی گنجائش یقینا بنتی ہے اور اُس کا متعلقہ مقام پر اظہار بھی کیا جائے گا لیکن کتاب کے آخر میں (از صفحہ 368 تا373) جب مصنّف ایک امکانی جنگ کا تفصیلی نقشہ کھینچتا ہے تو اس مقام پر کتاب درجۂ ثقاہت سے گر کر فکشن کے دائرے میں داخل ہوجاتی ہے۔ مصنّف یہ فرضی منظریوں بیان کرتا ہے.

''چین اعلان کرتا ہے کہ وہ پورے سمندر پر اپنا کنٹرول قائم کرے گا۔ ویت نامی مزاحمت کرتے ہیں اور چینی اور ویتنامی بحری جنگی جہازوں کے درمیان لڑائی چھڑ جاتی ہے؛ امریکہ ویت نام کی مدد کو آتا ہے اور چین پر معاشی پابندیاں لگادیتا ہے۔چینی بحریہ، تائیوان میں امریکی تنصیبات پر حملہ کرتی ہے ۔ اس دوران عالمی کشیدگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان، پاکستان پر حملہ کردیتا ہے۔ جاپانی فوجیں جاپان میں باقی ماندہ امریکی ٹھکانوں پر قبضہ کرلیتی ہیں۔ روس چین سے سائبیریا میںبرسرِ پیکار ہوجاتا ہے جنگ کے دوران خلیجی ممالک اور عرب تیل کے ذخائر اسلامی عسکریت پسندوں کے قبضے میں آجاتے ہیں۔ ایران خفیہ طور پر بوسنیا اور الجیریا کو نیوکلیائی میزائل دے دیتا ہے البانیہ اور ترکی بوسنیاکی مدد کی کوشش کرتے ہیں تو یونان اور بلغاریہ ترکی پر چڑھائی کردیتے ہیں۔۔الجیریا ایک جوہری میزائل (فرانس کے شہر) ماغ سائی کے باہر پھینکتا ہے۔۔وغیرہ وغیرہ''

تمام پیش آنے والے واقعات اور اُن کی جزئیات کے بارے میں صحیح صحیح تو صرف اُس وقت معلوم ہوسکتا ہے کہ جب آپ نے کوئی فلم کا سکرپٹ لکھ رکھا ہو اور آپ اُس کی عکس بندی اُسی ترتیب کے مطابق کرلیں ۔مذکورہ بالا منظر محض ایک فلمی منظر معلوم ہوتا ہے ورنہ امریکی اتنے بھی بے وقوف نہیں کہ اُنہیں یہ معلوم نہ ہو کہ جب جنگ شروع ہوتی ہے تو کسی کو کچھ معلوم نہیںہوتا کہ وہ آئندہ لمحے کیا رُخ اختیار کرے گی۔ اگر امریکیوں کو ویت نام کے جنگی نتائج کا علم ہوتا تو کبھی وہ اس معاملے میں نہ اُلجھتے اور عراق اور افغانستان کی جنگ بھی اُن کے مطلوبہ نتائج کے ساتھ کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔اور تو اور اگر جاپانیوں کو 1942ء میں ایٹم بم کی ہولناکی کا ذرابھی ادراک ہوتا تو وہ امریکی صدر ٹرومین کی دھمکی کو تسلیم کرتے ہوئے جنگ بندی پر آمادہ ہوجاتے اور اپنے لاکھوں معصوم شہریوں کی جان ہلاکت میں نہ ڈالتے۔(20) لہٰذا کتاب کے اختتامی حصے کو فکشن قرار دیتے ہوئے اس سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے اور اگلے عنوان کی طرف آتے ہیں۔

کوئی خاص نہج؟
جی ہاں۔اس کتاب کے مطالعے سے تو یہی لگتا ہے کہ مصنّف نے مندرجہ ذیل بنیادی مفروضے قائم کیے ہیںکہ:
-1 دنیا کو آٹھ تہذیبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
-2 آئندہ کوئی جنگ معاشی یا نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہوگی بلکہ تہذیبی تفریق جنگوں اور تنازعات کا سبب بنے گی۔
-3 امریکہ کی معاشی اور فوجی بالادستی کو اگر کوئی خطرہ لاحق ہے تو وہ صرف چین سے ہے۔
-4 مسلمان ممالک سیاسی ،فکری اور معاشی ابتری کا شکار ہیںاور یہ کبھی ایک جھنڈے تلے جمع نہیں ہوں گے۔
-5 مصنّف کی نظر میں مسلمانوں کا معاشی طور پر پس ماندہ بلکہ مغرب کا دست نگر ہونے کے باوجود اپنی تہذیبی اقدار کو آفاقی جاننا اور دنیا کی ہر تہذیب پر نافذ کرنے کا جنون فساد کی جڑ ہے۔
-6 مذہب کو اعتقادات و عبادات کی حد تک برداشت کیا جاسکتا ہے لیکن اگر کوئی مذہب اپنا ضابطۂ حیات پیش کرے تو تب وہ گردن زدنی ٹھہرتا ہے۔
-7 مستقبل کی امکانی جنگ امریکہ کی سربراہی میں مغرب اور چین کے درمیان ہوگی اور عالمِ اسلام چین کا حلیف ہوگا۔

یہ وہ مفروضات ہیںکہ جن کو اول مصنّف نے قائم کیا اور پھر ان کو ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ چین کا معاشی میدانوں میں کامیاب ہونا اور فوجی برتری کی طرف گامزن ہونا اور مغربی ثقافت کو قبول نہ کرتے ہوئے اپنی تہذیب و ثقافت پر عمل پیرا ہونا یہ وہ عوامل ہیں کہ جن کی وجہ سے امریکہ چین کو اپنا حریف تصّور کرتا ہے جبکہ مسلمانوں کو وہ صرف فساد فی الارض کی ذیل میں رکھتا ہے۔

چونکہ مصنّف امریکی حکومت کا ایک عہدے دار بھی تھا لہٰذا اس کتاب میں پیش کردہ معلومات کو کسی خاص رُخ پر چلانے کی پالیسی بھی کارفرما نظر آتی ہے ۔مصنّف عالم اسلام کو کس نظر سے دیکھتا ہے اس کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

عالم ِ اسلام ہٹنگٹن کی نظر میں
فاضل مصنّف سابق امریکی وزیرخارجہ کے حوالے سے کہتا ہے کہ اکیسویں صدی میں چھ عالمی قوتیں دنیا کے معاملات کو کنٹرول کریں گی(21) امریکہ، یورپ، چین، جاپان، روس اور چھٹے نمبر پر امکانی طور پر ہندوستان ہوسکتا ہے۔ لہٰذا کتاب کی ابتداء سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ مصنّف یا امریکہ کی نظر میں مستقبل میں عالمی معاملات پر مسلمانوں کا کوئی اثررسوخ نہیں۔ ایک ارب سے زائد آبادی اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود مسلمانوں کا عالمی سیاست میں کوئی کردار کیوں نہیں ہے مصنّف اس کی ٹھوس وجوہات بیان کرتا ہے۔

١۔ عالمِ اسلام میں کوئی مرکزی وحدت موجود نہیں۔ فکری، تہذیبی، لسانی اور مذہبی اختلافات اس انتشار کا سبب ہیں۔ عالمِ اسلام کی ممکنہ قیادت و سیادت کے چھ دعوے دار ہوسکتے ہیں لیکن ان میں کوئی بھی ایک مؤثر مرکزی ریاست کے تقاضے پورے نہیں کرسکتا۔ انڈونیشیا اگرچہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلمان ملک ہے (کبھی یہ اعزاز ہمیں بھی مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے قبل حاصل تھا) مناسب معاشی ترقی کے باوجود باقی دنیا کے مسلمانوں کے لیے اس لیے بھی قابل قبول نہیں کہ ایک تو وہ مرکز سے دور ہے دوسرے یہ کہ مسلمانوں کی مذہبی زبان عربی وہاں کم ہی سمجھی جاتی ہے۔کمزور فوجی قوت کی وجہ سے اُسے عالمی معاملات میں بے اثر سمجھا جاتا ہے۔

مصر بھی عالمِ اسلام کی قیادت کا دعوے دار ہے لیکن اُس کی غربت کی وجہ سے اُس کے اس دعوے کو قابل توجہ نہیں سمجھا جاتا۔

ایران اپنے تشیع مذہب اور فارسی زبان کی وجہ سے باقی دنیا کے مسلمانوں کے لیے اجنبی ہے اور مذہبی اختلاف کی وجہ سے تمام مسلمان اُسے اپنی قیادت سونپتے ہوئے ہچکچاتے ہیں اگرچہ شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی اسی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے

پاکستان بڑے حجم اور فوجی مہارت کے باوجود غربت اور داخلی عدم استحکام کا شکار ہے؛ ہندوستان کے ساتھ مسلسل کشیدگی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اسے اپنے وجود کے لالے پڑے رہتے ہیں عالمِ اسلام کی قیادت محض ایک خام خیالی ہوسکتی ہے ۔

معاشی طور پر توانا اورلسانی تفاخر سے سرشار عرب عوامی زبان والے ملک کو اپنا لیڈر کیسے مان لیں گے؟امیر اور کم آبادی والا سعودی عرب اگرچہ اسلام کے مقدس مقامات کے حوالے سے مرکزی ریاست بن سکتا تھا لیکن یہ ریاست مغرب کے ایجنٹ کے طور پر دیکھی جاتی ہے اور ہر معاملے میں امریکہ کی محتاج نظر آتی ہے بلکہ اس ریاست کا اپنا وجودہی قانونی جواز سے خالی نظر آتا ہے۔ مغربی استعمارکی پروردہ ، اس ریاست کو غیر مؤثر فوج، نسلی لسانی تفاخر اور مخصوص برانڈ کے اسلام کی وجہ سے بقیہ عالمِ اسلام میں پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ امریکہ اب مسلمان ممالک میں براہِ راست سیاسی مداخلت کرنے کے بجائے سعودی عرب کی خدمات حاصل کرتا ہے بلکہ حکماً کہتا ہے اور چونکہ اُس حکومت کو عوام کی تائید حاصل نہیں لہٰذا وہ بلاچون و چرا اِن احکامات کو بجالاتی ہے۔

آخری نام ترکی کا آتا ہے؛ اوسط ترقی، آبادی اور فوجی اہلیت کے باوجود لگتا ہے کہ ترکی خود ہی عالمِ اسلام کی قیادت سے دستبردار ہوگیا ہے۔ خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد ترکی نے اپنا سیکولر تشخّص قائم کرنے کے لیے خلافت کے ادارے سے جان چھڑائی ،اور تو اور اپنا رسم الخط بھی تبدیل کرکے جدیدیت کی راہ اپنائی اور یورپی یونین کا رکن ہونے کا طالب ہے۔ لیکن یورپی یونین ترکی پر اپنے دروازے کھولنے کے لیے آمادہ نہیں کیونکہ ترکی میں٦کروڑ بے روزگار نوجوان یورپ کے سماجی خدمات کے نظام کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔

مندرجہ بالا اختلافات ایسے ہیں کہ مستقبل قریب میں ان کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے۔ لہٰذا مسلمانوں کی ابتری یونہی قائم رہے گی، مسلمان ممالک میں کوئی موثر ابلاغیات کا سلسلہ نہ ہونے کی وجہ سے قومی وحدت کا ہمیشہ فقدان رہے گا۔ مختلف زبانیں بولنے والے ایک تہذیب کیسے ہوسکتے ہیں۔ یہ سوال سماجیات کے ہر طالب علم کے لیے اچنبھے کا باعث بنا رہے گا۔

مسلمانوں کی عالمی آبادی کے بارے میں پیوفورم(Pew Forum)کے اعداد وشمارمجریہ 2009ء پر نظر ڈالنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جس کے چیدہ چیدہ نکات یہ ہیں؛
232ممالک سے اعداد و شمار جمع کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ اس وقت دنیا میں 1.57 ارب مسلمان موجود ہیں جو دنیا کی کل آبادی (6.8ارب کا) 23فیصد بنتے ہیں۔مسلمان تمام براعظموں میں موجود ہیں اور اُن کی آبادی کا غالب حصہ یعنی 60%ایشیا، 20%مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں رہتا ہے۔ 30کروڑ مسلمان اُن ملکوں میں رہتے ہیں کہ جہاں ان کی مذہبی اکثریت نہیں۔

چین میں شام سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں اور روس میں اردن اور لیبیا کی مجموعی آبادی سے بھی زیادہ مسلمان بستے ہیں۔

کل مسلم آبادی کا 10-13%شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے اور 87-90%سُنی ہیں۔(22)

دنیا کی آبادی سالانہ 1.41%کی شرح سے بڑھ رہی ہے لیکن مسلمانوں کی سالانہ افزائش 1.84%کے حساب سے ہورہی ہے۔

ابھی عیسائیت کے ماننے والے 30%کے لگ بھگ ہیں جبکہ مسلمان23%ہیں لیکن مسلمانوں میں بلند شرح پیدائش کو اقوام عالم تشویش سے دیکھتی ہیں تاہم آپس میں برسرِ پیکار مذاہب کے لیے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ کسی مذہب کو نہ ماننے والے ملحدوں کی تعداد میں 2001ء کے 8.4%کے مقابلے میں 14%تک اضافہ ہوگیا ہے۔ یعنی اب کسی مذہب کو نہ ماننے والے 29کروڑ40لاکھ تک پہنچ چکے ہیں۔ پتہ نہیں مذہبی واویلا کرنے والوں کا دھیان اس طرف کیوں نہیں جاتا۔(23)

معاشی طاقت تیزی سے مشرقی ایشیا کو منتقل ہورہی ہے
ہٹنگٹن کے تجزے کے مطابق ''معاشی طاقت تیزی سے مشرقی ایشیا کو منتقل ہورہی ہے۔ہندوستان معاشی ترقی کے آسمان میں پرواز کرنے ہی والا ہے''(24) ہٹنگٹن ہی کی تصریح کے مطابق طاقت کی تعریف یہ ہے کہ ''کسی فرد یا گروہ کی وہ استعداد کہ جو کسی دوسرے فرد یا گروہ کے رویّے کو تبدیل کردیتی ہے''(25) لہٰذا اگر مغرب چین سے کوئی خطرہ محسوس کرتا ہے تو اُس کی معاشی ترقی کی وجہ سے کیونکہ فوجی برتری کے لیے مضبوط معیشت کا ہونا لازم ہے وگرنہ ہماری طرح ایٹمی قوت ہونے کے باوجو در در کی بھیک مانگنی پڑتی ہے۔

ہٹنگٹن نے اقوامِ عالم کی معاشی ترقی کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے کشور محبوبانی کے حوالے سے بیان کیا کہ:
''برطانیہ اور امریکہ کو اپنی فی کس آمدنی کو دگنا کرنے میں بالترتیب 58 برس اور 47 برس لگے تھے تاہم جاپان نے یہ 33 برس میں ممکن کردکھایا، انڈونیشیا نے 17برس، جنوبی کوریا نے 11اور چین نے محض 10برس میں یہ ہدف حاصل کرلیا''(26) اگرچہ چین کی تیز رفتار ترقی سب پر عیاں ہے لیکن مصنّفنے اس امر کی وضاحت نہیں کی کہ فی کس آمدنی کی بنیاد کیا تھی کہ جسے دُگنا کرنے میں اتنا وقت صرف ہوا۔ یہ شرح اُس ملک کے لیے کیسے یکساں ہوگی کہ جس کی فی کس سالانہ آمدنی 2000 ڈالر تھی اور اُسے دُگنا کرکے 4000ڈالر کیا گیا؟اور ایک ملک کہ جس کی آمدنی 200ڈالر تھی اور اُسے دگنا کر کے 400ڈالر کیا گیا..... مصنّف اس بارے میں خاموش ہے۔

علاوہ ازیں چین کی معاشی ترقی میں ایک اہم عامل سمندر پار چینیوں کا ذکر کرتے ہوئے ہٹنگٹن کہتا ہے:
'' سمندر پار چینی جو جنوب مشرقی ایشیا میں رہتے ہیں، اپنے اپنے ملکوں کی معیشت پر چھائے ہوئے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں چینی فلپائن کی آبادی کا ایک فیصد تھے لیکن مقامی ملکیتی فرموں کی فروخت (Sales)میں اُن کا حصہ 35 فیصد تھا۔ انڈونیشیا میں 1980ء کی دہائی کے وسط میں چینی اس کی آبادی کا 3.20 فیصد تھے لیکن نجی مقامی سرمائے کے 70فیصد مالک تھے اور ایک چینی کمپنی انڈونیشیا کی خام قومی پیداوار (GNP)میں 5فیصد کی حصّہ دار تھی۔ 1990ء کی دہائی میں چینی تھائی لینڈ کی آبادی کا دس فیصد تھے لیکن ملکی پیداوار میں 50فیصد کے حصہ دارتھے اور دس سب سے بڑے کاروباری گروپوں میںسے 9 کے مالک چینی تھے۔ چینی ملائشیا کی آبادی کا ایک تہائی ہیں لیکن معیشت پر قریباً مکمل طور پر چھائے ہوئے ہیں۔''(27)

ہندوستان تو شاید ٹھیک سمت میں جارہا ہے لیکن پاکستان سے غربت کے سائے کب ختم ہوں گے؟ اس بارے میں سوچنے کی کسی کو فرصت اور ضرورت ہی نہیں ہے۔ اقبال آخری آدمی تھا کہ جس نے عالمِ اسلام میں معیشت پر سنجیدہ غوروفکر کیا اور دنیا کو بتایا کہ مغرب کی جان پنجۂ یہود میں ہے تو اس کا سیدھا سادہ مطلب ہے کہ یہودی دنیا کی معیشت پر چھائے ہوئے ہیں اور معاشی بالادستی کے بغیر فوجی، تہذیبی بالادستی کا تصور ایک احمقانہ خیال سے بڑھ کر کچھ نہیں۔

معاشیات کا آسان اصول ہے کہ ایک تو اپنی آمدنی بڑھائیں اور دوسرے اپنے اخراجات کم کریں۔ فرض کریں کہ ہر پاکستانی روزانہ ایک روپیہ کی اضافی آمدنی پیدا کرے یا ایک روپیہ روزانہ بچت کرے اور اس رقم کو کسی صورت خرچ نہ کیا جائے تو محض دس سال کے قلیل عرصے میں 6کھرب 20 ارب اور 50 کروڑ روپیہ جمع ہوسکتا ہے جو موجودہ شرح کے مطابق ساڑھے سات ارب ڈالر کے قریب بنتا ہے لیکن قومی خوشحالی کے لیے نیک نیتی اور مستقل مزاجی سے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

تہذیب/مذہب؟
اگرچہ ہٹنگٹن نے کئی مقامات پر تہذیب کی نشوونما اور ارتقاء میں مذہب کے کردار پر بحث کی ہے لیکن مجموعی طور پر تہذیبی شناخت کو نمایاں اہمیت دی ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ:
''سرد جنگ کے بعد کی دنیا میں ثقافت، فیصلہ کن اور اتحاد ساز قوت ہے۔ لوگ نظریات کے تحت الگ ہوئے لیکن ثقافت نے انہیں مربوط کردیا جیسا کہ دو جرمنی (ایک) ہوچکے ہیں دو کوریا اور کئی چین ایک ہونا شروع ہوگئے ہیں''(28)

لیکن ہٹنگٹن کے تجزیے میں دور دور تک اسلامی دنیا کے امکانی اتحاد کا کوئی اشارہ نہیں ملتا بلکہ عالمِ اسلام کے اختلافات کو پوری شرح و بسط سے بیان کرنے کے بعد وہ برملا کہتا ہے کہ اسلامی دنیا میں جمہوریت کی ناکامی کا بڑا سبب اسلامی ثقافت ہے ۔(29)

مشرق اور عالمِ اسلام کے لیے آئینہ
ہٹنگٹن کے تجزیات پر ناک بھوں چڑھانے اور اُسے لعنت ملامت کرنے کے بجائے ٹھنڈے دل سے بے لاگ تجزیہ کرنا چاہیے کہ کہیں وہ ٹھیک تو نہیں کہہ رہا؟ دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات کو تسلیم کیا جائے کہ ہٹنگٹن نے عالمِ اسلام کی جو تصویر کشی کی ہے وہ سو فیصد معروضی حقائق پر مبنی ہے یعنی وہ صورتِ احوال جیسی ہے ویسے ہی دکھاتا ہے اگرچہ اس صورتِ حال سے وہ جن نتائج کا استخراج کرتا ہے اُس سے اختلاف کی گنجائش نکلتی ہے لیکن مجموعی حیثیت سے عالمِ اسلام کو جو آئینہ دکھاتا ہے اُس سے اصلاحِ احوال کی تبھی صورت نکل سکتی ہے کہ ہم اپنی کوتاہیوں اور واماندگیوں کو تسلیم کرنے کی اخلاقی جرأت رکھتے ہوں۔

اسی طرح ہٹنگٹن اپنے ایک انٹرویو میں برملا کہتا ہے کہ اگر میرا پیش کردہ تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ درست نہیں تو اس کا متبادل کیا ہے؟ یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک اقصائے عالم میں کسی طرف سے بھی اس کا کوئی متبادل سامنے نہیں آیا۔

پس چہ باید کرد
شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا ایک مصرعہ ہے ''پس چہ باید کرداے اقوام مشرق''( اے اقوامِ مشرق اب کیا کرنا چاہیے؟)اور اس سے بھی سخت تر موقف اپنے شعر میں یہ اپناتے ہیں کہ:
گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کاری شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکرِ انسانی نمی آید
ترجمہ: (فرنگی جمہوریت سے احتیاط کرو اور روش قدیم پر پختگی سے کاربندر ہو کہ دوسو گدھوں کے دماغ سے ایک انسان کی فکر برآمد نہیں ہوسکتی۔)

بظاہر یہ نعرہ بڑا دلکش معلوم ہوتا ہے لیکن ہٹنگٹن کا یہ سوال اپنی پوری شدت سے قائم ہے کہ اُس کا متبادل کیا ہے؟

مشرق کے پاس مغربی تہذیب کی یلغار اور عصری مسائل سے مقابلہ کرنے کا واحد راستہ اپنی تہذیب اور اپنی اخلاقی اقدار کی موثر تعلیم ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں بزرگوں کا ادب و احترام اور خاندان میں اُن کا مرکزی کردار ہمیشہ سے مسلّم رہا ہے۔ اس پہلو کی ترویج سے کم از کم مغربی معاشرے کے اولڈ پیپلز ہوم کے مقابلے میں اپنی کوئی مثبت قدر پیش کی جاسکتی ہے لیکن ہمارے ہاں بزرگوں کے لیے اقامتی گھروں کا قیام کیا ہماری تہذیب کے منہ پر طمانچہ نہیں ہے؟ کاروباری معاملات میں اپنی ساکھ بنانے کے لئے ابھی صدیاں درکار ہیں زمانہ قیامت کی چال چل چکا ہے اور ہمیں ابھی تک اس بات کا بھی یقین نہیں کہ ہم بساطِ زمانہ پر موجود ہیں۔

اگرچہ تہذیب کسی ایک جامد تصّور کا نام نہیں ہے اس میں ہر لمحہ نئے عوامل شامل ہوتے رہتے ہیں۔ نئی دریافتیں،لوگوں کا آپس میں میل جول، بغرض تعلیم وسیاحت دوسرے ملکوں میں جانا، سائنس کے نت نئے انکشافات تہذیبی عناصر اور تہذیبی روّیوں کی مسلسل کاٹ چھانٹ کرتے رہتے ہیں۔ حکام بالا دست کی تہذیب خواہ وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو عوام الناس طوعاً وکرہاً اُسے اپنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں؛وقت بھی اقتدار کے پیمانے بدل دیتا ہے ابھی کل ہی کی بات ہے شرفاء کا ننگے سر پھرناسخت معیوب سمجھا جاتا تھا لیکن آج شاذہی کوئی اس کو خلافِ شرافت سمجھتا ہو لہٰذا تہذیبی اقدار کو اضافی (یاRelativeوقت اور مقام سے مشروط)مان لینے میں کوئی حرج نہیں لیکن یہ بات بالکل طے ہے کہ کسی تہذیب کا آخری اور سخت جان محافظ اُس کا رسم الخط ہوتا ہے اور جب ادیب شاعر اُس زبان کا استعمال ترک کردیں تو رفتہ رفتہ اس زبان، اس تہذیب کا نام ونشان مٹ جاتا ہے۔ انقلابِ فرانس کے بعد فرانس کے ادیبوں شاعروں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ وہ سرکار دربار کی زبان یعنی لاطینی میں کچھ نہ لکھیں گے بلکہ عوام کی زبان فرنچ میں لکھا کریں گے تو دیکھتے ہی دیکھتے اُس ملک میں لاطینی زبان کا کوئی نام لیوانہ بچا۔

آج یہ جو گلوبلائزیشن یا عالمی گائوں کا تصّور موجود ہے، اس کے پیچھے صرف اور صرف تجارتی اغراض پوشیدہ ہیں۔ وگرنہ کسی بھی سرمایہ دار کو کسی قسم کی تہذیبی یا مذہبی اقدار سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اُسے صرف اپنے بڑھتے چڑھتے منافع سے غرض ہے اور سرمایہ اپنی نام نہاد اخلاقیات خود طے کرتا ہے کسی بھی معاشرے میں مسلمہ مذہبی، اخلاقی، تہذیبی و ثقافتی ڈھانچے کو مسمار کیے بغیر سرمایہ داری کی پُرشکوہ عمارت تعمیر نہیں ہوسکتی۔

عصرِ حاضر میں تہذیبی شناخت کا مسئلہ شدت سے سر اٹھا رہا ہے۔ اس محاذ پر ہمارے ادیبوں شاعروں کی خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے۔ تاہم اپنے حلقۂ احباب میں سے اس موضوع پر دلچسپی اور تنقیدی بصیرت رکھنے والے ادیبوں میں فرخ یار، ڈاکٹر ارشد معراج،شفیق احمد خان۔سلیم گورمانی اور محترمہ سعیدہ ارم سے توقع ہے کہ وہ ہٹنگٹن کی اس دستاویز کا بالا ستعیاب جائزہ لیں گے اور ہماری فکری رہنمائی کریں گے۔

گماں مبر کہ بہ پایاں رسید کارِ مغاں
ہزار بادۂ ناخوردہ در رگِ تاک است

حوالہ جات
 17 (یہاں پر ہٹنگٹن کے اصل الفاظ یوں ہیں
Encouraged & financed by Diaspora Communities،
Diasporaچھٹی صدی قبل مسیح میں بابل کی جلاوطنی کے بعد فلسطین کے باہر کے علاقوں میں یہودیوں کی منتشری۔ مجموعی طور پر اسرائیل سے باہر آباد یہودی/ایسے قومی یا مرکزی گروہوں کا انتشار یا بکھرائو یا لامرکزیت جو اپنے وطن سے باہر رہ رہے ہوں لیکن اپنا ثقافتی تشخص قائم رکھے ہوئے ہوں ۔ بحوالہ قومی انگریزی اردولغت صفحہ 570 )
18 (ڈاکٹرحمیدرازی کا فہمیدہ ریاض سے انٹرویو18اپریل، 2009 ء ، روزنامہ نوائے وقت، راولپنڈی)
19 بحوالہ(Microsoftencarta.2005/Chaudhri,Nirad Chandra)
20 (ملاحظہ ہو ناچیز کا مضمون، ایٹمی حملے کے بعد کا منظر۔ حوالہ Revival in)
21 (تہذیبوں کا تصادم، سیموئل پی ہٹنگٹن، ترجمہ محمد احسن بٹ، مثال پبلشنگ، اردوبازار،لاہور/بار اول جنوری 2003صفحہ 73)
22
http://pewforum.org/docs
23 http://en.wikipediia.org/wilg/claims_to_be_the_fastest_ growing_ religion
23B
http://news.bbc.co.uk/2/hi/europe/4385768.stm
24 (بحوالہ بالا صفحہ 104)
25 (بحوالہ بالا صفحہ 107)
26 (بحوالہ بالا صفحہ 133)
27 (بحوالہ بالا صفحہ 216/17)
28 (بحوالہ بالا ، صفحہ 39)
29 (بحوالہ بالا، صفحہ 224)