working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

کراچی میں سانحہ عاشورہ: محرم کے جلوس میں المناک خونریزی کا تجزیہ:

خالد احمد

28دسمبر کو کراچی میں مرکزی جلوس عاشورہ کے دوران پیش آنے والے واقعے کے پس منظر میں گہرے نفسیاتی عوامل کا رفرما ہیں اور عوام کی بڑی تعداد ماضی کی طرح اب بھی امریکہ، بھارت اور اسرائیل کو ہی موردِالزام ٹھہرا رہی ہے۔ متاثرہ شیعہ قومیت بھی امریکہ پر الزام دھرنے میں پیش پیش ہے۔ ان تمام وجوہات میں کچھ دیرینہ عوامل شامل ہیں۔ کبھی ان فرقہ وارانہ فسادات کے پیچھے حکومت کا ہاتھ سمجھا گیا اور اکثر اوقات حکومت کو امریکہ کے اتحادی کے طور پر بھی تنقید کا سامنا رہا ہے۔ عجیب بات ہے کہ ہر مرتبہ عاشورہ محرم کے جلوس کو نشانہ بنایا گیا اور شیعہ قومیت اس کی زد میں رہی ۔ادھر وقت گذرنے کے ساتھ مذکورہ مکتبہ فکر نے بھی خود کو جوابی کارروائی کیلئے منظم کر لیا ہے۔

مسلمانوں میں شہادت کا جذبہ تو ازل سے ہی موجود رہا ہے ۔2003ء میں کوئٹہ میں عاشورہ کے جلوس کے موقع پر قتل عام عراق کے المناک واقعے کی یاد دلاتا ہے جسے آیت اللہ العظمیٰ سیستانی نے امریکہ کی کارستانی قرار دیا تھا۔ جب کہ حکومت نے کوئٹہ کے اہل تشیع کے مہیا کردہ ثبوت کے برعکس رویہ اپنایا۔ آج امریکہ کے ہمنوا صدر زرداری کا کہنا ہے کہ کراچی کے قتل عام کے پیچھے غیر ریاستی عناصر کا ہاتھ ہے۔ اس سے شیعہ قومیت کے اس خیال کو تقویت ملی کہ اس معاملے میں کہیں نہ کہیں حکومت کا کردار ضرور شامل رہا ہے۔

امریکہ کا کردار:
30دسمبر 2009کو روزنامہ ''پاکستان'' میں عمران خان کا انٹرویو شائع ہوا جس میں انہوں نے کراچی میں عاشورہ کے روز 45افراد کی ہلاکت کو غیر ملکی سازش قرار دیا جس کا مقصد شیعہ اور سنی فرقوں کے درمیان خلیج کو گہرا کرنا تھا۔ انہوں نے عوام کو متحدرہنے کی تلقین کی تاکہ دشمنوں کے عزائم خاک میں مل جائیں اور انہیں یہاں بھی عراق کی طرح ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ اخبار نے وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کا وہ بیان بھی قلم بند کیا جس میں کراچی کے قتل عام میں سنی مسلمانوں کو بری الذمہ قرار دیا گیا تھا اور اسے ملک دشمن عناصر کی سازش پر محمول کیا گیا۔ جبکہ متعدد دکانوں کو جلا کر خاکستر کرنے کے معاملے میں بھی شیعہ قومیت کے ملوّث ہونے کے امکان کو یکسر رد کر دیاگیا۔

31دسمبر 2009کو ''نوائے وقت'' میں جماعت اسلامی کے قائد منور حسن نے اس خونی کارروائی کو ہندوستان کی سیکورٹی ایجنسی RAWاورMQMکے کھاتے میں ڈال دیا۔ انہوں نے کراچی میں شیعہ مسلمانوں کے قتل کو Black Waterکی سازش بھی قرار دیا۔ 30دسمبر 2009کو روزنامہ ''پاکستان'' نے مذہبی رہنماؤں خصوصاً جناب لیاقت بلوچ اور عبدالقادر شاہین کے حوالے سے خبریں شائع کیں جن میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ قتل عام کسی مسلمان کی کارروائی نہیں تھی بلکہ اس میں شیطانی قوتوں کا ہاتھ تھا اور یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت امریکہ کے ہاتھوں یر غمال بن چکی ہے۔

غیر ریاستی عناصر اور حکومتی کردار:
صدر زرداری نے عاشورہ کے قتل عام کی منفرد تو جیہہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ ان کی نوڈیرو میں ہونے والی تقریر کا رد عمل ہے جس میں انہوں نے غیر ریاستی عناصر کو بے نقاب کیا تھا۔ اس سے یہ حقیقت بھی منکشف ہوتی ہے کہ صدر کا تعلق شیعہ مکتبہ فکر سے ہے لیکن پاکستان کے عمومی سوچ کے حامل لوگوں میں حکومتی اور غیر حکومتی کردار نے خاصے ابہام کو جنم دیا ہے اور بیت اللہ محسود کے ہاتھوں بے نظیر کا قتل اور خود مرحومہ کی جانب سے نامزد ریاستی عہدے داروں کے ناموں کو طشت ازبام کرنا عجب گورکھ دھندہ نظر آتا ہے۔اس تمام صورت حال کے اصل مآخذ پر غور کیوں نہیں کیا جاتا؟ سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ کراچی گروہی اور فرقہ پرست جماعتوں کا مرکز ہے۔ یہاں دیوبندی مدرسوں کا مضبوط جال بھی بچھا ہوا ہے جن میں پشتون طلباء کی اکثریت ہے۔ ANPکے رہنما اسفند یار ولی کے بقول ان طلباء میں سے 80فیصد کا تعلق صوبہ سرحد سے نہیں بلکہ قبائلی علاقہ جات سے ہے جو تحریک طالبان اور ان سے وابستہ دیگر جنگجوئوں کا گڑھ تصور ہوتا ہے۔ مزید برآں بریلوی مساجد پر اس وقت سے ہی تسلط حاصل کر لیا گیا تھا جب حکومت نے القاعدہ سے دیو بندی مکتبہ فکر کی مذہبی ہم آہنگی کی وجہ سے ان کی بھر پور مدد شروع کی تھی ۔ کراچی کے شیعہ جو کہ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں،حکومت اوراس کے پروردہ غیر ریاستی کرداروں سے خوف کے عالم میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

شیعہ قومیت کے قتل کا طریقہ کار:
آج تمام شیعہ حضرات یہ روایتی جملے کہتے نظر نہیں آتے کہ '' سب کچھ امریکہ کے ایماپر ہوا ہے''۔ 31دسمبر2009کو انڈس نیوز پر علامہ محمد امین شہیدی نے واضح طور پر کہا ہے کہ قبائلی علاقوں اور پنجاب میں نسلی بنیادوں پر قائم تربیتی کیمپ اس بات کے غماز ہیں کہ انہیں حکومت کی سر پرستی حاصل ہے۔ انہوں نے اس معاملے کا ناتا امریکہ سے بھی جوڑا اور black waterکی ملک بھر میں موجودگی کا ذکر بھی کیا۔ یہ ایک ایسی شعبدہ بازی ہے جس نے شیعہ قومیت کو فائدہ نہیں پہنچایا اور اس نظریے سے اتنی آسانی سے پیچھا چھڑانا بھی ممکن نہیں۔ اس ضمن میں علامہ حسن ترابی کی مثال دی جا سکتی ہے جنہیںحرکت المجاہدین کے مدرسے سے تعلق رکھنے والے ایک بنگلہ دیشی خود کش بمبار نے مار ڈالا تھا ۔ (حرکت المجاہدین کے رہنما فضل الرحمن خلیل آج کل اسلام آباد میں آرام سے زندگی گزار رہے ہیں)

اپریل2006میں تحریک اسلامی (شیعہ) کے رہنما علامہ ترابی نے جو کراچی میں ایک بم حملے میں بال بال بچے تھے ، سندھ ہائی کورٹ سے لشکر جھنگوی سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے قاتل کی رہائی کے فیصلے کا بطور خاص تذکرہ کیا۔ علامہ ترابی کو بالآ خر ایک خودکش بمبار نے اس وقت قتل کر دیا جب وہ شیعہ سنی مشترکہ ریلی میں شرکت کے بعد واپس لوٹ رہے تھے۔ اس جلسے میں انہوں نے خاص طور پر امریکہ کو شیعوں کے قتل میں ملوث ہونے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اسی سال ہنگو میں بھی شیعوں کے جلوس عاشورہ پر حملے میں 36افراد مارے گئے حالانکہ کوہاٹ اور ہنگو کے علاقوں کے اہل تشیع نے طالبان کی جانب سے عائد کردہ اس حکم کی پاسداری بھی کی تھی جس میں انہیں نو روز جیسی رسمیں منانے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔ نومبر کے مہینے میں کراچی میں ہی عید میلاد النبیۖ کی ریلی میں بریلوی رہنماؤں کو ایک خودکش حملے میں شہید کر دیا گیا۔ اس حملے کی منصوبہ بندی کے تانے بانے بھی جنوبی وزیر ستان سے جاملتے ہیں۔

فتوٰی اور مدارس:
چند سال پیشتر 2004میں اہل تشیع کی مشہور مسجد امام حیدری میں ایک خودکش حملے کے نتیجے میں 23نمازی مارے گئے۔ یہ مقام کراچی کے اس سندھ مدرسے کا حصہ تھا جہاں قائداعظم نے تعلیم حاصل کی تھی۔ شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور احتجاج کرنے والے شیعوں نے سرکاری املاک کو نشانہ بنایا تا کہ حکومت کو شیعہ کش اقدامات سے باز رہنے کا پیغام پہنچایا جا سکے۔ 29مئی2004کو بنوری مدرسے کے سرپرست مفتی نظام الدین شامزئی قتل کر دئیے گئے۔ جواباً دیو بندی مدرسوں سے وابستہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے بنوری مدرسے سے متصل پولیس تھا نے سمیت سرکاری عمارتوں کو تباہ کر دیا۔
1980کی دہائی میں شامزئی کی رہنمائی میں پاکستان کے تمام بڑے بڑے مدرسوں کے علماء نے شیعہ مسلک کو کافر قرار دینے کا فتویٰ جاری کیا تھا جسے بعدازاں کتابی شکل میں مجتمع کر کے شائع بھی کر دیا گیا۔ (2003 میں کوئٹہ میں ہونے والا قتل عام بھی مذکورہ فتویٰ کی دست بدست تقسیم کا ہی نتیجہ تھا) پاکستان کے شیعہ جانتے ہیں کہ ان کے خون سے کس کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے 1980کی دہائی میں دو مرتبہ شیعوں کا قتل عام کروایا۔ پہلا واقعہ کرّم ایجنسی کے علاقے پارا چنار میں ہوا جبکہ دوسرا قتل عام شمالی علاقہ جات کے علاقے گلگت میں کیا گیا۔ حقیقت میں پارا چنار کا قتل عام تو کبھی بھی بند ہونے میں نہ آیا کیونکہ تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ حکیم اللہ محسود کا شیعہ کش کے طور پر مسلسل نام لیا جاتا رہا ہے۔موصوف آجکل TTPکے رہنما ہیں۔

قتل عام اور آتش زدگی کے واقعات:
2001میں پارا چنار کے بالمقابل افغانستان کے علاقے تورہ بورہ کے پہاڑوں سے القاعدہ کے جنگجو پاکستان آنے لگے۔ غیر ملکی شدت پسندوں کو جنوبی وزیرستان میں پناہ لیناتھی کیونکہ پارا چنار کی اکثریت شیعہ آبادی پر مشتمل تھی جنہیں وہ اپنا ہمنوا خیال نہیں کرتے تھے۔ اس طرح شیعہ قومیت کی قبائلی علاقوں میں خصوصاً اور پاکستان بھر میں عموماً قتل عام کی منصوبہ بندی کی گئی۔ اسلام آباد کی لال مسجد کی انتظامیہ کا شیعہ مخالف کردار بھی سامنے آیا کیونکہ غازی فیملی کے سرپرست مولانا عبداللہ، بنوری مدرسہ کراچی سے ہی فارغ التحصیل تھے۔ وہ بھی 1998ء میں مذہبی تعصب کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اسلام آباد میںواقع بری امام کے مزار پر شیعہ جلسے میں خودکش حملہ بھی اسی قتل کا بدلہ تھا۔ISIکے ایک سابق رہنما نے 2005میں ایک ایرانی ریڈیو کی نشریات میں سامراجی طاقتوں کو اس المناک واقعے کا ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے امریکہ اور اسرائیل پر بھی الزام لگایا کہ انہیں مسلمانوں کا اتحاد گوارا نہیں ہے۔
کبھی وہ دن تھے جب پاکستان میں شیعہ قومیت کو ایران کی حمایت حاصل تھی۔ پھر یہ حکمت عملی ناکامی پر منتج ہوئی۔ پچھلے 20سالوں سے دو اہم تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ شیعہ مسلمانوں میں جارحانہ خودبیداری پیدا ہوئی ہے اور وہ اپنے مکتبہ فکر سے زیادہ وفادار ہو گئے ہیں کیونکہ حکومتی شہ پر غیر ریاستی عناصر انہیں ملحد قراردینے کے در پے ہیں ۔ اب وہ محرم الحرام کے جلوسوں میں عدم تحفظ کے احساس سے نبرد آزما ہونے کیلئے بھر پور طریقے سے تیار ہو کر آتے ہیں اور حملوں کے واقعات کا پوری قوت سے جواب دینے کیلئے جوابی کارروئی کرنے کی استعداد کار کے ساتھ موجود ہوتے ہیں۔

(ترجمہ :انجینئر مالک اشتر)