working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

تہذیبوں کا تصادم ایک تجزیاتی مطالعہ(١)

ڈاکٹر کوثر محمود

پچھلے کچھ برسوں کے دوران سیموئل فلپس ہٹنگٹن کی کتاب ''تہذیبوں کا تصادم'' کو بین الاقوامی امور کے ماہرین اور تجزیہ نگاروںکی خصوصی توجہ حاصل رہی کہ انہوں نے جدید جنگوں خاص طور پر 9/11 کے بعد کے واقعات کو تہذیبوں کے مابین تصادم پر معنون کیا۔ جس سے پوری دنیا میں ایک نئی طرز کی بحث کا آغاز ہو نکلا۔ تاہم ان تجزیّہ نگاروں کا ایک طبقہ اسے تہذیبی تصادم قرار دینے سے عرصہ دراز تک گریز پا رہا کیونکہ ان کے نزدیک تہذیب اپنے لغوی معنوں میں بے حد وسعت رکھتی ہے جبکہ اسے محض مذہب اور مذاہب کے درمیان جنگ تک معدود نہیں کیا جا سکتا۔ یوں تو نائن الیون کے واقعہ کو نئی صلیبی جنگوں کا آغاز کار بھی قرار دیا گیا۔ لیکن حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ یہ ساری کی ساری قیاس آرائیاں تھیں۔ دراصل اس سب سے پہلے معاشی پہلو اور معیشتی مفادات وابستہ تھے۔
ڈاکٹر کوثر محمود، ایک منفرد لہجے کے شاعر، مترجم اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ صائب الرائے دانشور بھی ہیں۔ ذیل کے مضمون میں انہوں نے نہ صرف تہذیب کے معنی ہم تک پہنچانے کی سعی کی بلکہ اس بحث کو کُلیتاً ایک نئے تناظر میں دیکھا ہے۔ذیل میں ان کے اس فکرانگیز مضمون کا پہلا حصہ دیا جا رہاہے جس میں انھوں نے تہذیب کے معنی، مغربی تہذیب اور تہذیبوں کے بدلتے ہوئے توازن کے حوالے سے بات کی ہے۔ آئندہ شمارے میںآنے والے حصے میں انھوں نے تہذیبوں کی تشکیلِ نو، اسلام اور مغرب، ایشیا اور چین کا مغرب کے ساتھ تہذیبی تصادم، اور معاشی طاقت کی جنوبی ایشیا کی جانب تیزی سے منتقلی کے حوالے سے بحث کی ہے۔(مدیر)
سیمؤیل فلپس ہٹنگٹن کی کتاب ''تہذیبوںکا تصادم'' بلا شبہ بیسویں صدی کے اختتام پر اور اکیسویں صدی کے منظر نامے پر ایک ایسی پیچیدہ دستاویز ہے کہ جس پر اقصائے عالم میں بڑے زور و شور سے مباحثہ ہوا اور غالباً بین الاقوامی سطح پر تہذیبوں کی تفہیم کے بارے میں اس کتاب کی وجہ سے ہی ہمہ جہت مکالمہ شروع ہوا۔اس کتاب پر بات کرنے سے پہلے مناسب ہو گا کہ پہلے یہ دیکھاجائے کہ تہذیب کی مختلف مکاتب ہائے فکر کیا تعریف کرتے ہیں؛پھر اس کتاب کا مختصر خلاصہ اور بعد ازاں اس کتاب کے حوالے سے اپنی معروضات پیش کی جائیں گی۔

تہذیب یاCivilizationکی تعریف
تہذیب یاCivilizationکی ہر دور میں مختلف مفکرین نے مختلف تعریف کی ہے؛ اگرچہ ابھی تک تہذیب کی کوئی ایک جامع اور متفقہ تعریف موجود نہیں لیکن عموماً تہذیب اور اس کے عناصر کے بارے میں کہا گیا کہ:
''تہذیب ایک ایسے معاشرے کا نام ہے جہاں لوگوں کی ایک کثیر تعداد بہت سے مشترکہ معاملات میں ایک دوسرے کی ہم خیال ہوتی ہے''
''تہذیب بمعنی سماجی ترقی کسی معاشرے میں سماج کی ترقی یافتہ ترین صورت کا نام ہے جس میں پیچیدہ قانونی، سیاسی اور مذہبی ادارہ جات شامل ہوتے ہیں''
''تہذیب بمعنی ثقافت، کی تعریف کے مطابق کسی ایک خاص معاشرے کی حالت جو ایک خاص وقت اور جگہ کے ساتھ مشروط ہو''
''تہذیب بمعنی تہذیب نفس (Refinement)کسی معاشرے میں فکری اور آداب معاشرت (manners)کی اعلیٰ ترین صورت کا نام ہے''(1)
انگریزی زبان کی امریکن، ہیرٹیج ڈکشنری کی تعریف کے مطابق؛
-1 '' کسی انسانی معاشرے میں ذہنی،ثقافتی اور مادی ترقی کی اعلیٰ ترین صورتِ حال کو تہذیب سے تعبیر کیاگیا ہے (ترقی کی اس اعلیٰ ترین صورت حال) کے اشاریوں میں فنونِ لطیفہ اور سائنس کی ترقی، حالات و واقعات کا درست ریکارڈ رکھنا بشمول ادبیات کا ریکارڈ) اور پیچیدہ یعنی کثیر الجہتی سیاسی اور سماجی اداروں کا قیام اور ترقی شامل ہے''
-2 ''وہ خاص معاشرہ جو کسی قوم نے ایک خاص علاقے یا خطے کے اندر ایک خاص زمانے میں پیدا کیا ہو مثلاً جیسے مایان تہذیب، یا قدیم رومی تہذیب''
-3 ''تہذیب یافتہ بننے کی سطح تک پہنچنے کا عمل''
-4 ثقافتی اور عقلی نفاست اور لطافت''
-5 جدید معاشرہ عامیانہ نمائش اور ناگوار حد تک حدِ اعتدال سے تجاوز کے بعد اپنی تمام تر سہولت کے ساتھ تہذیب کی طرف پلٹ آیا ہے''(2)
تہذیب یا سولائزیشن کی بطور اسم (noun)کو، کولن کی بنیادی انگریزی کی لغت، دوسرا ایڈیشن، ہارپرکولن پبلشرز2004-6 میںیوں تعریف کی گئی ہے:
-1 '' کسی خاص قوم، خطے یا کسی متعین زمانے میں مخصوص لوگوں کی ثقافت اور مجموعی طرزِ زندگی''
-2 ''ایک انسانی معاشرہ جس میں منظم ثقافتی، سیاسی اور قانونی ادارے ہوں۔''
-3 '' وہ نسلیں کہ جنہوںنے مجموعی طور پر یہ درجہ پالیا ہو''
-4 '' شہر یا گنجان آبادی والے علاقے، برخلاف اُن جگہوں کے کہ جہاں کہیں کہیں کوئی آبادی ہو''
-5 ''ذہنی، ثقافتی اور اخلاقی نفاست اور لطافت''(3)

تہذیب کی چند اور تعریفیں
براڈل کے نزدیک: ''ایک تہذیب ایک ثقافتی علاقہ ہوتی ہے اور ثقافتی خصوصیات اور مظاہر کا مجموعہ ہوتی ہے۔''(4)
ویلر سٹائن تہذیب کی یوں تعریف کرتا ہے:
''تہذیب دنیا کے متعلق نقطۂ نظر، رسم ورواج، ساختوں اور ثقافتوں (مادی ثقافت اور اعلیٰ ثقافت دونوں) کا ایک خصوصی سلسلۂ علت و معلول ہوتی ہے جو ایک قسم کا تاریخی ''کُل'' وضع کرتا ہے جو اس مظہر کی دیگر خصوصیتوں کے ساتھ ساتھ وجود پذیر ہوتا ہے۔''(5)

ڈاسن کے مطابق؛
'' ایک تہذیب کسی مخصوص اصلی، ثقافتی تخلیقی عمل کی پیداوار ہوتی ہے جو کہ مخصوص لوگوں کا فعل ہوتا ہے''(6)
ڈرخانیم اور ماز کے نزدیک:
''مخصوص تعداد کی قوموں پر مشتمل ایک اخلاقی ماحول کی ایک قسم، جس میں ہر قومی ثقافتی کل کی صرف ایک صورت ہوتی ہے۔''
اوسولڈ سپنگلر کے مطابق:
''تہذیب ثقافت کی ناگزیر منزل ہوتی ہے۔۔ترقی یافتہ نوعِ انسان جس کی اہلیت رکھتی ہے۔۔تہذیب کی ہر تعریف میں ثقافت موجود ہے۔''(7)
آرنلڈ ٹائن بی کہتا ہے کہ:
''تہذیب کسی چیلنج کا جواب دینے کیلئے ظہور میں آتی ہے، پھر خوشحالی کے دور سے گذرتی ہے، پھر آفاقی حالت ابھرتی ہے اور پھر انتشار پیداہوجاتا ہے۔''(8)
مندرجہ بالا تعریفات کی روشنی میں تہذیب کی یوں تعریف کی جاسکتی ہے کہ:
'' یہ کسی خاص دور میں کسی خاص خطے میں انسانی معاشرے کی مجموعی ترقی کا نام ہے جس کے لازمی عناصر میں منظم شہر، ثقافتی، سیاسی اور قانونی ادارے شامل ہیں اور وہ معاشر ہ عقلیت پسندی کی بنا پر قائم ہوتا ہے اور فنونِ لطیفہ اور سائنسی ترقی کے ثمرات سے لوگوں کی مجموعی زندگی ایک خاص ڈھب سے گزرتی ہے۔''

سولائزیشن(Civilizationبمعنی تہذیب) کے لغوی معنی۔
سولائزیشن(Civilizationبمعنی تہذیب) لاطینی زبان کے لفظ سوس(Civis)سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں ''شہر یا قصبے میں رہنے والا'' جب ہم کچھ لوگوں کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ مہذب ہیں تو لازماً اپنے آپ کو ایک منظم گروہ کی شکل دے چکے ہوتے ہیں بجائے اس کے کہ انفرادی سطح پر ادھر ادھر مصروف عمل رہیں۔اس سے ماورا اگر ہم کسی تہذیب کو قابلِ شناخت سمجھتے ہیں تو اُن تہذیبی عناصر میں ایک مشترکہ زبان، فنون، فنِ تعمیر، تعلیم، (مشترکہ ) ذہنی بالیدگی)، ایک خاص طرزِ حکومت جو اپنا دفاع کرسکتا ہو، شامل ہیں۔

تمام تہذیبیں زمان و مکان کی قیود سے ایک دوسرے کے ساتھ تعامّل پذیر ہوتی ہیں اور کسی خاص گروہ کی آبادی کثرت سے ہواور وہاں قوت واقتدار بھی رکھتے ہوں مثلاً عظیم رومی سلطنت(Roman Empire)کو روم سے کنٹرول کیا جاتا تھا جس کی سرحدیں شمالی افریقہ سے لے کر بحیرہ روم کے مشرقی علاقوںتک پھیلی ہوئی تھیں اُن کی اپنی زبان تھی تعلیم یافتہ طبقہ اُس زبان میں گفتگو کرنا پسند کرتا تھا حتیٰ کہ فنی تعلیم (قانون، سائنس، طب، سیاست وغیرہ) میں اُس زبان کی اصطلاحات آج تک ویسی ہی قائم ہیں حالانکہ اُس تہذیب کا خاتمہ پندرہ سو سال قبل ہوچکا ہے۔ آج بھی وکلائ، سیاستدان، ڈاکٹر اور سائنسدان لاطینی اصطلاحات کو بلاتکلف استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ ولیم شیکسپئیر لاطینی زبان میں کامل دست گاہ رکھتا تھا۔ آج بھی لاطینی زبان کئی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے اور ہم آج بھی رومن طرزِ تعمیر( اور رومن طرز کے ستونوں) کو پسند کرتے ہیں، رومن اعداد، کلینڈر، آسمان پر فلکیات کے حوالے سے مختلف مجمع ہائے نجوم کے نام رومی دیوی دیوتائوں کے نام اپنی روزمرہ کی گفتگو میں استعمال کرتے ہیں؛ سینٹ (Senate) گورنر (Governor) الیکشن /انتخاب (Election)انصاف (Justice) ووٹ (Vote) رائے شماری(Census) حتیٰ کہ لفظ آئین (Constitution) سمیت تمام الفاظ (لاطینی زبان سے مستعار لیے گئے ہیں اور بغیر کسی تغیر و تبدل کے انہی معنوں میں استعمال ہورہے ہیں رومی تہذیب کم و بیش ایک ہزار سال تک بالادست تہذیب کے طور پر قائم رہی۔رومی اور مصری علی الترتیب انطونی اور قلوپطرہ کی قیادت میں ایک دوسرے سے متحارب ہوئے لیکن دونوں تہذیبوں نے ایک دوسرے سے صلح کرلی اور ان دونوں تہذیبوںکے میل جول سے ایک نئی تہذیب نے جنم لیا جس میں ہر دومعاشروں کی اچھی اور نمایاں اقدار اور اس وقت کے علمی، سائنسی میدانوں میں اختصاص جھلکتا نظر آتا ہے۔

آج اگرچہ یہ بات ناممکن دکھائی دیتی ہے لیکن ہماری اپنی (موجودہ) تہذیب بھی عین ممکن ہے کسی روز ایک قصہ پارینہ اور محض ایک یاد بن کر رہ جائے۔''(12)
'' ایک وقت تھا کہ جب لوگ خوراک کی تلاش میں ادھر ادھر مارے پھرتے تھے پھر لوگوں نے جانوروں کو پالتو بنالیا اور اُن کی بطور خوراک پرورش و پرداخت کرنے لگے تو پھر اُنہیں شکار کی تلاش میں ادھر ادھر مارے مارے پھرنے کی ضرورت نہ رہی اور جب بہت سے لوگ ایک جگہ پر آباد ہوگئے تو وہ ایک شہر کہلایا۔ لہٰذا شہروں کے قیام کی ابتداء کو ہم تہذیب کا نکتہ آغاز کہہ سکتے ہیں زراعت اور گلّہ بانی کے لیے بنیادی ضرورت پانی تھا لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ابتدائی شہر دریائوں کے کناروں پر بسائے گئے اور لوگوں کو خوراک کی تلاش سے نسبتاً فراغت ہوئی تو وہ دوسرے معاملات پر سوچنے لگے انہوں نے مختلف اوزار بنائے، انہوں نے کپڑا بننا سیکھا، عمارتیں بنائیں اور اپنے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھایا۔ جوں جوں شہروں کی آبادی بڑھتی گئی تو انہوں نے اپنے رہنما (Leader)چن لیے جنہوں نے مختلف قوانین بنائے اور ہر کوئی امن اور چین کے ساتھ اپنا اپنا کام کرنے میں مشغول ہوگیا۔ یہ حکومتی نظام کی ابتداء تھی۔

مختصر یہ کہ تہذیب کسی خاص جگہ پر مختلف میدانوں میں لوگوں کی مجموعی معاشرتی ترقی کا نام ہے''(13)

تہذیبوں کا تصادم(The Clash of Civilization)
'' تہذیبوں کا تصادم'' ایک نظریہ ہے جسے امریکی ماہر سیاسیات، سیموئل فلپس ہٹنگٹن (Samuel Phillips Huntington)نے پیش کیا جس کا لُبِ لباب یہ ہے کہ ''(امریکہ اور روس کے درمیان) سرد جنگ کے خاتمے کے بعد دنیا میں تنازعات اور جنگوں کا باعث مختلف نظریات نہیں ہوں گے بلکہ تنازعات کی بنیادی وجوہات لوگوں کی ثقافتی اور مذہبی شناختیں ہوں گی۔'' اُس کے اپنے الفاظ یوں ہیں:
(People's cultural & religious identities will be primary sources of conflict in the post cold War World)
یا باالفاظ دیگر یوں کہیے کہ:
اب سرمایہ داری اور سوشلزم کا تنازعہ دنیا میں جنگ کا باعث نہیں بنے گا۔اس نظریے کو سب سے پہلے اُس نے1992ء میں امریکن انٹر پرائزز انسٹی ٹیوٹ کے اندر دیے جانے والے ایک لیکچر میں پیش کیا جسے بعد ازاں 1993ء میں امورخارجہ کے مجلے ''Foreign Affairs'' میں ''تہذیبوں کا تصادم'' کے عنوان کے تحت ایک باقاعدہ مضمون کی صورت میں شائع کیا گیا اس سے قبل 1993ء میں(Francis Fukuyama)کی کتاب ''تاریخ کا خاتمہ اور آخری آدمی'' (The End of History and the Last Man)منظرِ عام پر آئی اور ہٹنگٹن نے اس کتاب کے ردعمل کے طور پر اپنے لیکچر میں پیش کردہ نظریے کی توسیع کرتے ہوئے 1994ء میں اسے باقاعدہ کتاب کی شکل دی اور اس کا نام ''تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تشکیل نو'' (The clash of Civilization and the Remaking of World)رکھا تاہم یہ اصطلاح ''تہذیبوں کا تصادم'' برنارڈلیوس(Bernard Lewis)نے اپنے ایک مضمون بعنوان ''مسلمانوں میں غیض و غضب کی وجوہات'' (The Roots of Muslim Rage)میں سب سے پہلے استعمال کی، جو ماہنامہ اٹلانٹک(The monthly Atlantic)کے شمارہ بابت ستمبر1990ء میں اشاعت پذیر ہوا۔

سابق ایرانی صدر محمد خاتمی نے اس نظریے کے جواب میں ''تہذیبوں کے درمیان مکالمے''(Dialogue among civilization)کے تصوّر کو پیش کیا۔

صدرخاتمی کی اس اصطلاح کوبہت زیادہ پذیرائی اور قبولیت اس وقت ملی جب اقوام متحدہ نے سال2001ء کو تہذیبوں کے درمیان مکالمے کا سال قرار دیا۔

اس کتاب کے پس منظر کا اجمالی جائزہ
سرد جنگ کے خاتمے کے بعدعالمی سیاست کے بارے میں مختلف نظریات کا جائزہ لیتے ہوئے دانشوروں نے ان خطوط پر سوچنا شروع کیاکہ اب عالمی سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی۔ کچھ نظریہ سازوں اور مصنفین کی یہ دلیل تھی کہ سردجنگ کے بعدانسانی حقوق، آزاد جمہوریت (Liberal democracy) اور آزادانہ سرمایہ دارانہ معیشت Capitalist free market economyہی اقوام عالم کے لیے قابل قبول نظریات رہ جائیں گے؛ یعنی صرف یہی نظریات باقی رہ جائیں گے اور لوگوںکو انہیں لازماً قبول کرنا پڑے گا اور اس دلیل کو فرانسس فوکویاما نے اپنی کتاب ''تاریخ کاخاتمہ اور آخری آدمی'' کا مرکزی نکتہ بنایا۔

ہٹنگٹن اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ اب روایتی نظریات کا دور ختم ہوچکا ہے اور دنیا کا نظام اپنے معمول پر آچکا ہے اور اس نظام میں ثقافتی تضادات ،تنازعات نمایاں ہوتے جارہے ہیں اور اپنے مقالے میں اُس نے اس بات کو مرکزی نکتہ بنایا کہ اب مستقبل میں عالمی سطح کے تنازعات میں ثقافتی اور مذہبی امتیازات کلیدی کردار ادا نہیں کریں گے۔

اسی نظریے کی توسیع کرتے ہوئے اس نے یہ مفروضہ قائم کیا کہ دنیا (آٹھ) مختلف تہذیبوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے اور یہی تہذیبیں اُن کی اعلیٰ ترین شناخت ہوںگی اور اس تہذیبی شناخت کا تنازعات کے حل میں کردار رفتہ رفتہ بڑھتا جائے گا۔

ہٹنگٹن 1992ء میں فارن افئیر کے شمارے میں چھپنے والے اپنے ابتدائی مضمون میں لکھتا ہے کہ:
'' میرا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ نئی دنیا میں نظریاتی اختلافات یا معاشی صورتحال تنازعات کی کلیدی وجہ نہ ہوگی۔ انسانوں میں تفریق کا سبب ثقافتی معیارات ہوں گے اور یہی ثقافتی اقدار لوگوں میں (عالمی سطح کے) تنازعات کو جنم دیں گی۔ عالمی معاملات میں قومی ریاستیں یا قوم پرست ریاستیں(وہ ریاستیںکہ جن کی بنیاد قوم پرستی ہے) کا مرکزی کردار بدستور سابق رہے گا لیکن عالمی سیاست میں بڑے تنازعات اُن اقوام اور گروہوں میں اُبھریں گے کہ جو مختلف تہذیبی پس منظر رکھتے ہوںگے۔ تہذیبوں کا تصادم عالمی سیاست پر حاوی ہوجائے گا وہ مقامات کہ جہاں تہذیبیں ایک دوسرے سے تعامّل پذیر ہیں۔ہٹنگٹن کے الفاظ میں فالٹ لائن (زمین کی وہ کمزور تہہ جہاں سے زلزلہ آتا ہے اور زمین کے اوپر عمارات وغیرہ تہہ و بالا ہوجاتی ہیں) وہی مقامات مستقبل کے میدانِ جنگ ہوں گے۔

مزید برآں ہٹنگٹن خبردار کرتا ہے کہ مغربی تہذیب زوال پذیر ہے اور یہ مفروضہ قائم کرتے ہوئے وہ برطانوی مورّخ آرنلڈ جے ٹائن بی(Arnold J Toynbee) کارول کگلے (Carrol Quigley)اور اوسولڈ سپنگلر(Oswald Spenglar)سے متاثر نظر آتا ہے۔

ہٹنگٹن کے اس نظریے کے جواب میں بے پناہ ردِعمل سامنے آیا اور اُس نے اپنے اس نظریے میں توسیع کرتے ہوئے 1996ء میں اسے باقاعدہ کتابی شکل دی جس کا نام ''تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تشکیل نو''(The clash of civilization & remaking of world order)رکھا ۔
ہٹنگٹن کی کتاب کا خلاصہ اور اس کے چیدہ چیدہ نکات(14)
نیویارک، امریکہ سے چھپنے والی ہٹنگٹن کی مذکورہ کتاب کا خلاصہ ہولی ہینڈرک سن(Hollie Hendrikson)نے بزبان انگریزی کیا جس کا اردو ترجمہ یوں ہے:
'' تہذیبوں کا تصادم اور عالمی نظام کی تشکیلِ نو، نامی کتاب دراصل سیموئل فلپس ہٹنگٹن کے ایک مقالے، مشمولہ مجلّہ' فارن افئیر' 1993ء کی توسیع ہے جس میں ہٹنگٹن نے سردجنگ کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والی عالمی صورتحال پر رائے زنی کی ہے۔ سردجنگ کے خاتمے سے قبل دنیا کے معاشرے نظریاتی اختلافات کی بنیادوں پر جمہوریت اور کمیونزم میں تقسیم تھے۔ہٹنگٹن کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ اب دنیا کی تقسیم، نظریاتی، سیاسی اور معاشی بنیادوں پر نہ ہوگی بلکہ اب تہذیبوں کے ثقافتی تضادات تنازعات کا سبب بنیں گے اور یہ تنازعات و اختلافات وہاں وہاں جنم لیں گے جہاں مختلف تہذیبیں ایک دوسرے کے مقابل ہوں گی۔ہٹنگٹن نے اپنی کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا
-1 حصہ اوّل۔ تہذیبوں کی دنیا (A world of civilizations)
-2 حصہ دوئم۔ تہذیبوں کا بدلتا توازن(The shifting balance of civilizations)
-3 حصہ سوئم۔ تہذیبوں کا ابھرتا ہوا نظام(The emerginig order of civilizations)
-4 حصہ چہارم۔ تہذیبوں کے تصادم(Clashes of civilizations)
-5 حصہ پنجم۔ تہذیبوں کا مستقبل ۔(The future of civilizations)-
 
1-حصہ اوّل۔ تہذیبوں کی دنیا
ہٹنگٹن اپنے دلائل کے آغاز میں ہی پہلے سے موجود تمام مثالوں اور نظریات کو بیک جنبشِ قلم مسترد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مذکورہ نمونے اس نئے عالمی نظام کو واضح کرنے میں اور (موجودہ صورتحال کی) پیش بینی کرنے میں غیر موثر ثابت ہوئے ہیں۔ ہٹنگٹن کہتا ہے کہ '' ہمیں ایک ایسے نقشے(لائحہ عمل) کی ضرورت ہے جو حقیقت کو نہ صرف موثر طور پر پیش کرے بلکہ حقائق کو آسان اور قابل فہم بھی بنائے تب ہی یہ نقشہ /لائحہ عمل ہمارے لیے احسن طور پر کار آمد ثابت ہوسکتا ہے۔'' ہٹنگٹن ایک نئے تہذیبی تصور کو پیش کرتا ہے کہ جو دنیامیں سردجنگ کے خاتمے کے بعد نظریاتی خلاء کو پُر کرنے کی کوشش میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ وہ اس سلسلے میں دنیا کو آٹھ بڑی تہذیبوں میں تقسیم کرتا ہے۔
-1 چینی تہذیب (Sinic)اس میں چین کے ساتھ مشترکہ رسوم ورواج کی بنا پر جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک ویت نام اور کوریا کو بھی وہ اس میں شامل کرتا ہے۔
-2 جاپانی (Japanese)تہذیب۔ وہ جاپانی تہذیب کو سارے ایشیاء سے مختلف قرار دیتا ہے
-3 ہندوتہذیب کو ہندوستان کی مرکزی تہذیب قرار دیتا ہے اور تسلیم کرتا ہے کہ اس کے بارے میں اُسے بہت کم معلومات ہیں۔
-4 اسلامی تہذیب۔ جس کا آغاز جزیرہ نمائے عرب سے ہوتا ہے اور شمالی افریقہ تک پھیل جاتی ہے اور اس میں وسطی ایشیائ، ترکی، ایران اور ملائیشیا کی ذیلی تقسیم نظر آتی ہے۔
-5 راسخ العقیدہ کٹر عیسائیت(Orthodox)جس کا مرکز روس میں ہے اور یہ مغربی عیسائیت سے الگ ہے۔
-6 مغربی تہذیب جس کا مرکز یورپ اور شمالی امریکہ ہے۔
-7 لاطینی امریکی تہذیب وسطی اور جنوبی امریکی ممالک جو ایک کارپوریٹ(15) ماضی اور تحکمانہ ثقافت رکھتے ہیں اور ان میں اکثریت کیتھولک فرقے کی ہے۔
-8 افریقی تہذیب۔ اگرچہ اس براعظم افریقہ کی کوئی ایک ہمہ گیر شناخت نہیں دکھائی دیتی لیکن ہٹنگٹن اس کے باوجود یہ دعویٰ کرنے پرمُصر ہے کہ افریقہ کے باشندوں میں واحد افریقی شناخت کا تصور تقویت پارہا ہے۔

ہٹنگٹن اس تہذیبی تقسیم کے بیان کے بعد تہذیبوں کے آپس میں تعلقات کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ 1500ء سے قبل یہ تہذیبیں جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے بالکل علیحدہ اور جداگانہ حیثیت رکھتی تھیں لہٰذا نظریات اور ٹیکنالوجی کا پھیلائو صدیوں میں کہیں جاکر ممکن ہوا۔ ہٹنگٹن استدلال کرتا ہے کہ جدید تحقیق اور ٹیکنالوجی تہذیبوں کی تخلیق اور ترقی میں عمل انگیز (16)(Catalyst)کی حیثیت رکھتی ہیں۔

1500ء کے دوران مغربی ثقافتوں کی سمندری سفر پر مہارت نے تہذیبوں کی توسیع میں مدد دی جو (مخصوص) خیالات، اقدار اور مذہب کی بالادستی پر منتج ہوئی۔بیسویں صدی میں تہذیبوں کے درمیان تعلقاتِ کار مغرب کی بقیہ دنیا پر اثرونفوذ کی یک رُخی سمت میں بڑھنے کے بجائے کثیر الجہتی حیثیت اختیار کرگئے اور اس کا اثر تمام تہذیبوں پر پڑا؛ باالفاظ دیگر ثقافتی و تہذیبی اثرونفوذ(Interdependent)باہمی طور پر ایک دوسرے پر منحصر تھا یعنی مغربی تہذیب نے نہ صرف دوسری تہذیبوں کو متاثر کیا بلکہ خود بھی اقصائے عالم میں متعدد چھوٹی چھوٹی اور نسبتاً کم طاقتور تہذیبوں سے متاثر ہوئی۔

ہٹنگٹن مغربی تہذیب کی قیادت و سیادت (عام الفاظ میں چودھراہٹ)کو مسترد کرتا ہے اور کسی مسلمہ واحد عالمی تہذیب کی بھی نفی کرتا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے کہ عالمی ذرائع ابلاغ میں مغرب کی بالادستی ہے اور یہ امر غیر مغربی لوگوں میں مغرب کے خلاف غم و غصے اور نفرت کی بڑی وجہ ہے۔ ایک واحد اور ہمہ گیر عالمی ثقافت کا تصور لمحۂ موجود کے سیاسی نظام کی وضاحت کرنے میں معاون ثابت نہیں ہوتا۔تاہم ہٹنگٹن اس امر کے حق میں دلائل دیتا ہے کہ جدیدیت (Modernization) نے تہذیبوں کے آپس میں روابط کو فروغ دیا ہے اور مختلف تہذیبوں میں باہمی طور پر مشترک عوامل بڑھتے جارہے ہیں۔کتاب کے اس حصہ اول کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ ہٹنگٹن جدیدیت اور مغربیت(Modernization & Westernization)کو دو الگ الگ رجحانات قرار دیتا ہے یعنی دنیا جتنی جدیدیت کی طرف بڑھ رہی ہے اتنا ہی مغربیت سے دور ہوتی جارہی ہے اسی خیال کو اُس نے اپنی کتاب کے حصہ دوئم میںمبسوط طور پر پیش کیا ہے۔

2-حصہ دوئم.....تہذیبوں کا بدلتا توازن
ہٹنگٹن اس حصّے کا آغاز اس دلیل سے کرتا ہے کہ عالمی امور میں مغربی طاقتوں کا اثرونفوذ دن بدن کم ہوتا جارہا ہے۔ طاقت کے منابع پر مغرب کی گرفت کے بارے میں متضاد آراء موجودہیں۔ ایک دھڑے کے مطابق مغرب اب بھی ترقی اور تحقیق و ٹیکنالوجی میں (بلاشرکت غیرے) اجارہ داری کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی طرح فوجی قوت میں برتری اور معاشی بالادستی بھی اسے حاصل ہے لیکن دوسرے دھڑے کا موقف ہے کہ مغرب کا اثرونفوذ (دوسری اقوام کے مقابلے میں) نسبتاً زوال پذیر ہے (یعنی جس رفتار سے دوسری غیر مغربی اقوام کا اثرونفوذ بڑھتا جارہا ہے اُس کے مقابلے میں مغرب کا اثرونفوذ اتنا نہیں بڑھ رہا اور منطقی طور پر دوسری قوموں کی بالادستی بڑھتی چلی جائے گی اور مغربی اثر کم ہوتا چلا جائے گا)۔

ہٹنگٹن اس دوسرے نقطۂ نظر کو اختیار کرتا ہے اور مغرب کے زوال کی تین جہتیں اور امتیازات بیان کرتا ہے:
-1 موجودہ مغرب کا زوال نہایت سست رفتار ہے اور آج کی عالمی طاقتوں کو کوئی فوری خطرہ لاحق نہیں۔
-2 کسی طاقت کا زوال ایک سیدھی لکیر کی مانند (یکساں) نہیں ہوتا یہ اُلٹی سمت بھی جاسکتا ہے تیز تر بھی ہوسکتا ہے اور یہ زوال (کسی معین وقت کے لیے) رُک بھی سکتا ہے۔
-3 ایک ریاست کی طاقت اس میں مضمر ہوتی ہے کہ اُس ریاست کے مقتدر حکمران کیا رویہ اختیار کرتے ہیں اور کیا فیصلے کرتے ہیں۔

کتاب کے اس حصّے میں ہٹنگٹن اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ عالمی سیاست میں مذہب کا کردار بڑھتا جارہا ہے۔اُس کے مطابق موجودہ دور میں سیاسی نظریات کے خلاء کو مذہب نے پُر کیا ہے ۔ دنیا بھر کے اہم مذاہب میں مذہب سے وابستگی، شیفتگی اور مذہب پر عمل پیرا ہونے میں اضافہ ہوا ہے۔ مذہب کی طرف اُن لوگوں کے رجحان میں بھی اضافہ ہوا ہے کہ پہلے جن کا مذہب سے تعلق برائے نام تھا۔ ہٹنگٹن مزیدبیان کرتا ہے کہ لوگوں کا سیاست کے بجائے مذہب کو ترجیح دینا ثقافتوں اور مختلف معاشروں میں بڑھتے ہوئے روابط کا نتیجہ ہے۔ لوگوں کو ایک نئی شناخت درکار ہے، وہ ایک مستحکم معاشرے کی آرزو کرتے ہیں، انہیں نئی اخلاقی اقدار کے مدرکات کی ضرورت ہے کہ جو انہیں (زندگی کی) مقصدیت اور معنویت عطا کریں۔ مذہب اُن کی یہ ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کتاب کا پانچواں باب،' معاشیات، علمِ شماریات ،آبادی اور مبارزت طلب تہذیبیں 'میں اس امر پر بحث کی گئی ہے کہ غیر مغربی قوتوں کا عالمی امور میں اثرونفوذ اور فیصلہ کن کردار (مغرب کے مقابلے میں) نسبتاً تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ہٹنگٹن خصوصی طور پر جاپان، چارایشیائی ٹائیگروں(ہانگ کانگ، تائیوان، جنوبی کوریا، سنگاپور) اور چین کے ملکوں پر اپنی توجہ مرکوز کرتا ہے کہ جنہوں نے اپنی ثقافتی معقولیت کو معاشی میدانوں میں ترقی اور کامیابی سے بزورِ قوت منوالیا ہے۔ایشیائی معاشرے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے تحفظات و مطالبات پرسرِ تسلیم خم کرنے کی روش کو رفتہ رفتہ خیر باد کہتے جارہے ہیں اور امریکی یا مغربی دبائو کے سامنے مقاومت (کھڑا ہونے کی طاقت) دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ایشیائی ممالک کا دن بدن معاشی ترقی کرنا اور مغربی معیارات کو اپنائے بغیر جدیدیت کی طرف گامزن ہونا ہٹنگٹن کے اس نظریے کو براہِ راست تقویت پہنچاتا ہے کہ دنیا مغربی معیارات کو کم اپنا رہی ہے اور زیادہ جدیدیت کی طرف مائل ہے اور ترقی کررہی ہے۔

ایشیائی معاشروں کے برخلاف مسلمان معاشروں میں لوگوں کا مذہب سے لگائو اور مذہب کی طرف عملی رجحان زیادہ شدت اور قوت سے ابھر کر سامنے آیا ہے اور اُس کے مطابق اسلام کی مسلم معاشروں میں حیاتِ نو سے جہاں جدیدیت کو قبول کرنے کا رجحان بڑھا ہے وہاں مغربی ثقافت کو مسترد کرنے کا رجحان بھی بڑھا ہے اور مسلمانوں میںمذہبی وابستگی میں اضافے کے ساتھ یہ خیال بھی تقویت پکڑ رہا ہے کہ اسلام ہی دنیا بھر کے لیے مکمل ضابطہ حیات ہے (اور نئی دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے)۔

ہٹنگٹن اس بات کو بھی دلائل سے واضح کرتا ہے کہ مسلمان ریاستوں کی معاشی ناکامی، (غیرمطمئن) نوجوانوں کی تعداد میں اضافے اور آمرانہ طرزِ حکومت نے لوگوں کو مذہب میں پناہ لینے کی طرف مائل کیا ہے اور مسلمان ریاستوں میں (عوامی سطح پر) مذہبی جوش و جذبے اور ولولے نے مذہب اسلام کو حیاتِ نو بخشی ہے۔

(جاری ہے)
_____________

حوالہ جات
-1
http://www.en.wikipedia.org/wiki/civilization

-2 http://www.thefreedictionary.com/civilization

-3 http://www.thefreedictionary.com/civilization

-4 (بحوالہ تہذیبوں کا تصادم، سموئیل پی ہٹنگٹن، ترجمہ محمد احسن بٹ، مثال پبلشنگ، اردوبازار، لاہور، بار اول، جنوری2003صفحہ 60)

-5 بحوالہ بالا، صفحہ 60)

-6 بحوالہ بالا، صفحہ 60)

-7 بحوالہ بالا، صفحہ 60)

-8 بحوالہ بالا، صفحہ 63)

-9 بحوالہ
http://www.brainyquote.com/ci/civilization144391.thml

-10 بحوالہhttp://archeology.about.com/od/items/qt/Islami_civ.html

-11 بحوالہ:http://www.ourcivilization.com/define.html

-12 بحوالہ:
http://simple.wikipedia.org/wiki/civilization

-13 بحوالہ:http://oncampus.richmond.edu/academics/education n/projects/ webunits/greeceremony/eivdence

-14بحوالہ:
http://www.beyondintractability.org/booksummary/.10741/

-15 (کارپوریٹسٹCorporatist) کارپوریشن: سند یافتہ ادارہ بہت اجتماعیہ تنظیم کے تحت متحد اشخاص کی ایک تعداد جس کا وجود ازروئے قانون مسلسل ہواور

اختیارات و فرائض ممبران کے انفرادی اختیارات و فرائض سے ممیز ہوں۔(بحوالہ قومی انگریزی اردولغت صفحہ460)

-16 عمل انگیز (Catalyst)وہ شے کہ جس کی موجودگی سے کسی کیمیاوی عمل کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے لیکن وہ شے بذاتِ خود اُس عمل میں حصہ نہیں

لیتی یا باالفاظ دیگر کوئی عمل، عمل انگیز کے بغیر بھی مکمل ہوسکتا ہے لیکن Catalystکی موجودگی سے اس کی رفتار تیز ہوجاتی ہے۔