working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

اندرونی بغاوت: القاعدہ کے منصوبہ ساز رہنما کے اختلافی سوالات (٢)

لارنس رائٹ
 
سید امام الشریف مصری دہشت گرد گروپ ''الجہاد'' کا سابقہ رہنما تھا۔ یہ متوازی دنیا میں ڈاکٹر فادل کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور الجہاد کے ارکان کے ہمراہ القاعدہ میں ضم ہو کر اس کا باقاعدہ حصہ بن چکا تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ وہ القاعدہ کا ایک بڑا اور اہم رہنما ہونے کے باوجود زیادہ تر پسِ پردہ ہی رہا۔ حالانکہ اس نے اسلام پر دو اہم کتابیں لکھیں جو نہ صرف القاعدہ کے ارکان میں بلکہ تمام مذہبی تنظیموں کے رہنماؤں کے یہاں نہایت اہمیت کی حامل گردانی جاتی رہی ہیں۔ امام الشریف نے ایک خاص وقت پر القاعدہ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ وہ اپنے طور پر انتہا پسندانہ اور متشدّد کارروائیوں کا کبھی حامی نہیں رہا۔ اس کا اظہار اس نے اپنی خودنوشت میں بھی کیا ہے۔ لیکن اسے ہمیشہ اس امر کی شکایت رہی کہ الظواہری نے اس کی خودنوشت میں بعض ایسی تبدیلیاں کر دی ہیں جن کے سبب اس کتاب کا مقصد تباہ ہو کررہ گیا ہے۔ مضمون کا پہلا حصہ ''تجزیات'' کے دسمبر کے شمارے میں چھپ چکاہے۔ یہ دوسرا اور آخری حصہ ہے۔ مصر، سعودی عرب، افغانستان اور پاکستان میں قائم مدرسوںکے ذریعے مذہبی رجحانات کو ایک خاص نہج پر ڈالنے کے لیے کس طرح کاکام ہوتا رہاہے اور اب اس کی صورت حال کیا ہے؟ نیز ان حالات کے پیدا کرنے میں الظواہری، اسامہ بن لادن، امام الشریف اور الزرقاوی جیسے رہنماؤں کا کیا کردار رہاہے، مضمون میں سیرحاصل بحث کی گئی ہے۔ (مدیر)


منشور
جب 9/11 کے واقعات رونما ہوئے اس وقت ڈاکٹر فادل ابب میں سرجری انجام دے رہا تھا اس کے بیٹے اسماعیل الشریف نے بتایا کہ ''ہم نے پہلی مرتبہ یہ خبر BBC ریڈیو پر سنی'' فادل بھی اپنی ڈیوٹی ختم کرنے کے بعد گھر واپس آیا اور گھر والوں کے ساتھ ہی ٹی وی کے سامنے بیٹھ گیا جنہوں نے اس سے سوالات پوچھنے شروع کر دیئے اس نے جواب دیا ''یہ القاعدہ کا عمل ہی ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا میں کوئی اور ایسا گروہ موجود نہیں جو اس قسم کی کارروائی انجام دے سکے۔''
28 اکتوبر 2001ء کو یمنی خفیہ پولیس کے دو افسران فادل سے ملنے کلینک میں آئے اور اس سے باز پرس کی۔ مگر وہ ٹال مٹول سے کام لیتا رہا۔ ہسپتال کے ڈائریکٹر نے اسے بھاگ جانے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی اور یہ کہا کہ وہ اس کی حفاظت کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔ فادل کو ایک ہفتے تک ابب میں ہی رکھا گیا۔ پھر اسے حکومتی تحویل میں دارالحکومت سناء میں منتقل کر دیا گیا یمنی پارلیمنٹ اور اسپیکر نے دیگر سیاسی لوگوں کے ساتھ اس کی رہائی کے لیے احتجاج کیا مگر انہیں ناکامی ہوئی۔

فادل کو دیگر القاعدہ کے یمنی ارکان کے ساتھ جیل میں بند کردیا گیا جوکہ افغانستان پر امریکی بمباری کے بعد بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے انہوں نے فادل کے سامنے تمام سازش بے نقاب کی۔ فادل کی رائے میں القاعدہ نے ''اجتماعی خودکشی'' کی ہے اب امریکہ جواباً ان پر بم برسانے میں حق بجانب ہے اور واقعی القاعدہ کے 80 فیصد ارکان 2001ء کے آخری مہینے میں افغانستان میں مارے جا چکے تھے۔ اسمعیل الشریف نے ''الجریدہ'' کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ''القاعدہ کے عسکری رہنما ابو حافظ المصری کی موت نے میرے والد کو اداس کر دیا اس کا کہنا تھا کہ ابوحافظ کی موت سے القاعدہ ختم ہو گئی ہے کیونکہ باقی تمام رہنما نااہل ہیں۔''

شروع شروع میں یمنیوں کو کچھ معلوم نہیں پڑ رہا تھا کہ اس نامی گرامی جہادی فلاسفر سے کیا سلوک کریں۔ حکومتی ایجنسیوں میں کئی افراد ایسے تھے جو القاعدہ سے ہمدردی رکھتے تھے۔ الشریف کے مطابق 2002ء کے شروع میں ہی خفیہ ایجنسی نے فادل کو کسی بھی دوسرے پسندیدہ ملک میں بھاگ جانے کے لیے راہ ہموار کرنے کا وعدہ کیا فادل نے کہا کہ وہ سوڈان جانا پسند کرے گا لیکن یہ وعدہ وفا ہونے کی نوبت نہ آئی۔ آنے والے سال میں پیشکش تبدیل کرکے اسے کہا گیا کہ وہ سیاسی پناہ حاصل کر لے ورنہ مصری حکومت اسے گرفتار کر کے لے جائے گی۔ چنانچہ فادل نے سیاسی پناہ کی درخواست دے دی لیکن اس سے پہلے کہ کوئی جواب آتا اسے غائب کر دیا گیا۔

ہیومن رائٹ واچ کی رپورٹ کے مطابق (جوکہ اس کے کیس کی پیروی کر رہے تھے) فادل کو قید خانے سے اٹھا کرجہاز کے ذریعے قاہرہ لایا گیا۔ فادل کو دو سال تک دہشت گردی کے الزام میں وہاں رکھا گیا یہ جگہ سیاسی قیدیوں سے بدسلوکی کی وجہ سے شہرت رکھتی ہے پھر اسے تورا کی جیل کے عقربی شعبے میں منتقل کر دیا گیا جہاں مشہور سیاسی قیدیوں کو نظر بند کیا جاتا ہے۔

فادل اس روز سے اب تک وہیں عمر قید کی سزا بھگت رہا ہے۔ یوں تو یہ صاف تھا کہ اس کے ساتھ مناسب سلوک کیاجا رہا تھا اس کا بیٹا کہتا ہے کہ اسے ایک کمرہ ملا ہوا ہے جس میں باتھ اور ایک چھوٹا باورچی خانہ بھی شامل ہے اس کے پاس فریج اور ٹی وی بھی ہے ا ور ہر روز اخبار بھی آتا ہے۔ فادل اپنا وقت مطالعے میں گزارتا ہے اور ہلکی پھلکی ورزش کرتا ہے۔ (مصری ارباب اقتدار نے فادل کے ساتھ بات چیت کی درخواستیں رد کر دی ہیں)۔

ڈاکٹر فادل سے Revesion کی وجہ سے نرم گوشہ رکھا جاتا تھا لیکن وہ ظواہری کے تدریسی و تالیفی جرائم کی وجہ سے اس سے برگشتہ رہا فادل نے ''الحیات'' میں یہ دعویٰ کیا کہ ظواہری سے اس کے اختلاف ذاتی نوعیت کے نہیں بلکہ مقصدیت کے حوالے سے تھے۔ تعلیمی، پیشہ وارانہ، فقہی اور بعض اوقات ذاتی سطح پر مختلف حوالوں سے اس کا وجود مجھے بوجھ محسوس ہوتا تھا۔ وہ کبھی شکر گزار نہیں ہوتا اس نے میرا بڑھا ہوا ہاتھ، ہر مرتبہ جھٹک دیا اور مجھے اپنی مہربانیوں اور کوششوں کے جواب میں اس سے ہمیشہ دھوکہ، فریب، دغا اور جھوٹ ہی ملا۔

اسلامک سنٹر کے ڈائریکٹر اسامہ ایوب نے مجھے بتایا کہ یمن میں گرفتاری سے پہلے فادل کے نظریات موضوع بحث تھے۔ ایوب 2000ء کے اردگرد اس سے ملا اور فادل کو بتایا کہ وہ عدم تشدّد کے حوالے سے منفرد طرز کا کام کرنا چاہتا ہے ایوب نے بتایا کہ ''اس نے میری حوصلہ افزائی کی حالانکہ یمن میں سیکورٹی کے حالات اس کے لیے موافق نہیں تھے۔'' ایوب کے بقول اس نے فادل کو تنبیہ بھی کی کہ اس کے جہاد سے متعلق نظریات نے پہلے بھی خواتین اور معصوم شہریوں کے خلاف تشدّد کو ابھارا ہے۔ فادل نے جواب دیا کہ وہ ایک نئی کتاب شائع کرنے والا ہے جس میں ان تمام نظریات کی وضاحت کی جائے گی۔ اس کے خیال میں اس طرح سے مسلمانوں کے خون کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکتا تھا۔''

مذکورہ کتاب کا کچھ حصہ نومبر 2007ء میں ''المصری الیوم'' اور ''الجریدہ'' اخبارات میں شائع ہوا اس روز ''لکصار'' میں ہونے والے قتل عام کی برسی منائی جا رہی تھی فادل نے ''مصر اور دنیا میں جہاد کا استدلال'' نامی مضمون میں بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں موافقت کے موضوع پر قلم اٹھایا اس نے دعویٰ کیا کہ اس نے اپنی کتاب میں کہیں سے حوالے شامل نہیں کیے بلکہ اسلامی اقتباسات نے ہی اسے پرُ اثر بنا دیا ہے۔ جیل میں قید الجہاد کے ارکان کی اکثریت نے اس عہد پر فادل کے مسودے پر دستخط ثبت کیے کہ وہ قید سے رہا ہو کر اپنے گروپ کے دیگر ساتھیوں کو بھی ایسی ہی ترغیب دیں گے۔

قاہرہ میں حقوق انسانی کے کارکن اور پبلشر ہاشم قاسم نے مجھے بتایا کہ جس اخبار میں فادل کا مضمون شائع ہوا تھا وہ اس نے وزارت داخلہ سے 150 ہزار مصری پائونڈ میں حاصل کیا کیونکہ اس مضمون کی اشاعت میں اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ شاید اسے سرکاری سرپرستی حاصل تھی چنانچہ اس بدگمانی سے بچنے کے لیے ''الحیات'' کے قاہرہ میں مقیم بیورو چیف کو فادل کا انٹرویو کرنے تورا جیل بھیجا گیا چھ اقساط میں شائع ہونے والے مضمون میںفادل نے اپنے نظریات کا بھرپور دفاع کیا اور ظواہری کے خلاف اپنی ذاتی دشمنی کے حوالے سے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ چھوڑی۔ اس کتاب کے شائع کرنے کے چاہے جو بھی مقاصد تھے لیکن اس میں اسلامی ملائیت کے خلاف خوب کیچڑ اچھالا گیا اور یہ خیالات اس شخص کی جانب سے تھے جس نے کبھی انتہا پسندانہ سوچ کو پروان چڑھایا تھا۔

مضمون نگار ''جہاد کے استدلال'' کے ابتدائیہ میں لکھتا ہے ''بے گناہ لوگوں کا خون بہانا یا جائیداد کو نقصان پہنچانا خدا کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔'' اس نے جہاد کے لیے نئے قوانین وضع کیے جس میں دہشت گردی کو غیر شرعی قرار دے دیا اورجہاد کو نہایت مجبوری کے عالم میں جائز قرار دیا۔ گو اس کا استدلال اکثریتی مسلمانوں کی نظر میں مبہم اور غیر واضح تھا لیکن ان لوگوں کے ہاں جنہوں نے اسلام کی غلط توجیہہ کی وجہ سے اپنی زندگیاں دائو پر لگا رکھی تھیں انہیں نجات کا راستہ دکھائی دینے لگا۔

فادل لکھتا ہے کہ جہاد کا اعلان کرنے سے پہلے چند حقائق کو مدنظر رکھنا ضروری ہے مثلاً ہر ایک کے لیے پناہ کا وجود ضروری ہے۔ معرکے کے آغاز کے وقت موزوں اسباب اور وسائل ہوں فادل نے ان مسلمانوں کی سخت سرزنش کی جو اغوا، چوری جیسے کاموں سے جہاد کے لیے پیسے اکھٹے کرتے ہیں۔ ''اسلام میں ایسی کوئی گنجائش نہیں جو ناجائز کو جائز قرار دے اور جو گھر والوں کی اجازت کے بغیر جہاد میں حصہ لے اور مسلمانوں کو تکلیف میں مبتلا کرے یہ کسی طور بھی جہاد یا اسلام نہیں ہے دشمن کی پہچان اور معصوم لوگوں کی جان کا تحفظ ضروری ہے اور جو ان اصولوں کی پرواہ نہیں کرتاوہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔''

جہاد پر جانے سے پہلے ہر ایک کے لیے اپنے والدین اور قرض خواہوں سے اجازت لینا ضروری ہے ایک جنگجو کے لیے پڑھے لکھے امام اور شیخ کی خدمات بھی نہایت اہم ہیں اگر کوئی کرشمہ ساز رہنما اسلام کا نام لے کر بلائے تو ایک دم اس کی طرف رجوع نہ کریں اور اس کے وعظ پر کان نہ دھریں ''اے نوجوانو! انٹرنیٹ کے ہیروز کی ایک نہ سنو! مائیکرو فون کے لیڈروں کی باتوں کے دھوکے میں نہ آئو یہ لوگ نوجوانوں کے جذبات برانگیختہ کرتے ہیں اور خود خفیہ ایجنسیوں کی پناہ میںہوتے ہیں یا دور دراز غاروں میں رہتے ہیں یا لادینوں کی سیاسی پناہ میں ہوتے ہیں۔ انہوں نے تم سے پہلے بھی کئی لوگوں کو واصل جہنم کیا، قبروں کی راہ دکھائی اورجیلوں میںبھجوا چکے ہیں۔''

فادل کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص موزوں اور اہل ہو تب بھی جہاد کے لیے اس کی ضرورت نہیں خدا تو کافروں کو بھی قتل کرنے کا حکم نہیں دیتا ان کی حفاظت کرنے سے خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اگر دشمن دگنا مضبوط ہو تب بھی جہاد ممکن نہیں فادل لکھتا ہے ''خدا کافروں کے ساتھ پرامن معاہدے اورجنگ بندی کی اجازت دیتا ہے چاہے یہ مال کی شکل میں ہو یا اس کے بغیر اور یہ سب کچھ مسلمانوں کے تحفظ اور مفاد میں ہے۔'' الظواہری کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ''اور جو لوگ جان بوجھ کر اپنے مسلمان بھائیوں کو غیر متوازن جنگوں میں جھونکتے ہیں وہ نہ تو جنگی چالوں کو سمجھتے ہیں اور نہ فتویٰ دینے کے اہل ہیں ۔'' اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے علم کے بغیر مطب چلانا اور ایسی ہی مثال بغیر علم و عمل کے فتویٰ جاری کرنے کی ہے۔''

مسلمان حکمرانوں کے خلاف جہاد سے متعلق اپنے سابقہ بیانات کے برعکس فادل کہتا ہے کہ ان حکمرانوں سے جنگ تب جائز ہے جب یہ لادین ہوں یا یہ جنگ مسلمانوں کے مفاد میں ہو اور بہتری لائے اور یقینا مصر یا دوسرے اسلامی ممالک میں ایسی صورت حال درپیش نہیں ہے اور وہاں پر کچھائو کی وجہ مسلح بغاوتیں ہیں۔'' اس نے گناہ گار مسلمان حکمرانوں کی اطاعت کو بھی جائز قرار دیا۔

اس نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ اسلام میں بے گناہ لوگوںبشمول یہود و نصاریٰ کا قتل ممنوع ہے تا وقت کہ وہ بھرپور طریقے سے مسلمانوں پر حملہ آور نہ ہوں۔ وہ ہمارے ہمسائے ہیں اور ہمسائیوں کے حقوق کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بلا امتیاز بمباری، ہوٹلوں، عمارتوں اور ٹرانسپورٹ کو جلانے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس طرح بے گناہ لوگ ہی مرتے ہیں اگر نیکی بدی کے ساتھ شامل کر دی جائے تو سب لوگ گناہ گار ہو جائیں گے انسانوں کو نقصان پہنچانا غیر قانونی ہے۔ مسلمان ممالک میں غیر ملکیوں کو مارنا ممنوع ہے ان میں مسلمان بھی ہو سکتے ہیں۔ تمہارے پاس کسی کو مسلمان یا کافر کہنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ غیر مسلموں کو ملک میں کام کی غرض سے بلایا جا سکتا ہے جوکہ کسی سمجھوتے یا وعدے کے تحت ہوتا ہے
۔
بہت سے مسلمان بیرونی ممالک میں رہتے ہیں کیا وہ اسلام کو ایذا پسند مذہب خیال کریں گے۔ مگر وہ تو مسلمانوں کے ساتھ ا چھا برتائو کرتے ہیں۔ اس لیے مسلمان کو بھی چاہیے کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں۔ فادل سختی سے کہتا ہے کہ یہ بھی اعزاز کی بات ہے کہ کسی معاہدے کے بغیر یا غیرمسلموں کے ساتھ رہا جائے اور وہ تمہیں اپنے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت دیں۔ تمہاری اور تمہاری رقوم کی حفاظت کریں۔ تمہارے لیے کام اور پڑھائی کے مواقع فراہم کریں یا اچھی زندگی گزارنے کے لیے سیاسی پناہ دیں اور ہمدردی کے دوسرے عمل کریں اور جواب میں ان کے ساتھ دھوکہ کیا جائے انہیں قتل کیا جائے نہ نقصان پہنچایا جائے یہ کہاں کا اصول ہے۔ یہ تو حضور پاکۖ کی سنت کے سراسر منافی ہے۔

فادل تمام جہادیوں کو موردِ الزام نہیں ٹھہراتا وہ کہتا ہے ''انشاء اللہ طالبان کے جہاد افغانستان میں کامیابی سے وہاں اسلامی حکومت قائم ہو گی۔ وہ واضح کرتا ہے کہ عراق اور فلسطین میں جہاد کی صورت حال مبہم ہے اگر فلسطین میں جہاد جاری نہ ہوتا تو نہ جانے کب کا اسرائیل اپنے ہمسایہ ممالک میں گھس آیا ہوتا لیکن دیکھا گیا ہے کہ حکمرانوں نے مسئلہ فلسطین کو محض اپنے مقاصد کے لیے ہی استعمال کیا ہے۔ عراق کے متعلق اظہار خیال کرتے ہوئے فادل نے کہا کہ اگر وہاں جہاد نہ کیا جاتا تو امریکہ نے شام تک پہنچ جانا تھا لیکن اس بات کا اعتراف کرنا ناعاقبت اندیشی ہو گی کہ ان حالات میں وہاں جدوجہد اسلامی ریاست کی شکل میں ظاہر ہو گی کیونکہ عراق میں جنگ نے مذہبی منافرت کو ابھارا ہے۔ شیعہ اور سنی کی تقسیم کے حوالے سے کہا کہ اسلام سے وابستہ ہونے کے باوجود اندرونی طور پر یہ الگ الگ عقیدوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ القاعدہ اپنے آپ کو سنی تنظیم کہتی ہے اور شیعہ کو کھلم کھلا دشمن قرار دے رکھا ہے۔ فادل نے قرونِ اولیٰ کی معزز شخصیت ابن تیمیہ، جنہیں بن لادن بھی اپنی پسندیدہ اتھارٹی مانتا ہے کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے خون اور پیسوں کے محافظ بنوچاہے ان کے عقیدے مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ فادل نے تکفیر کے معاملہ پر نہایت محتاط رویہ اختیار کیا کیونکہ ماضی میں غلط رائے زنی کی وجہ سے اسے شہرت ملی تھی۔ اس نے اعتراف کیاکہ تکفیر کی کئی اقسام ہیں اور یہ معاملہ اتنا پیچیدہ ہے کہ ا سے مسلمان قاضیوں کے سپرد کر دینا چاہیے اور کسی شخص کو ان قوانین کو لاگو کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

''کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسرے پر نکتہ چینی کرے۔'' وہ اعتراف کرتا ہے کہ کئی مواقع پر خود اس سے بھی ایسی کوتاہیاں سرزد ہو گئیں اور اس نے اپنے ان گناہوں سے تائب ہونے کا اعلان کیا۔

اس نے تسلیم کیا ''دشمن کو دہشت زدہ کرنا ایک قانونی حق ہے لیکن ''قانونی دہشت'' میں بھی کئی رکاوٹیں ہیں'' القاعدہ کی جانب سے امریکہ، لندن اور میڈرڈ پر دہشت گردی کے حملے سراسر غلط تھے کیونکہ وہ قومیت کی بنیاد پر تھے اور غیر امتیازی قتل اسلام میں ممنوع ہے۔ ''الحیات'' کو دیئے گئے انٹرویو میں فادل نے 9/11 کو مسلمانوں کے لیے ''عظیم تباہی'' کا نام دیا کیونکہ القاعدہ کے اس عمل کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں عرب، افغان، پاکستانی اور دیگر مسلمان مارے جا چکے ہیں۔

انٹرویو اور کتاب میں فادل کی اصل دلیل 9/11 کے واقعے کے حوالے سے سامنے آئی جس میں اس نے ہائی جیکروں کی جانب سے حاصل کردہ امریکی ویزے کو ''حفاظتی معاہدے'' پر محمول کیا اور ہائی جیکروں کو اس کی خلاف ورزی کرنے پر دشمن سے دھوکہ بازی قرار دیا۔'' بن لادن کے پیروکار اس کی مرضی سے امریکہ میں داخل ہوئے اوراس کے حکم پر ہی امریکی عوام کو دھوکہ دیا اور قتل و غارت اور تباہی و بربادی کا موجب بنے۔'' فادل مزید لکھتا ہے ''حضرت محمدۖ نے فرمایا، قیامت کے دن ہر دغا باز کی پیٹھ پر اس کے فریب کے تناسب سے جھنڈا لہرا رہا ہو گا'' (یعنی دور سے ہی پہچان لیا جائے گا)۔

ایک نقطے پر فادل نے اپنے مشاہدے سے بتایا ''لوگ امریکہ سے نفرت کرتے ہیں اور اسلامی تحریکوں نے ان کی نفرت کو استعمال کیا عربوں اور مسلمان لیڈروں میں امریکہ کو کوسنا شہرت کی سیڑھی سمجھا جاتا ہے لیکن یہ اچھا ہوا کہ تم نے دشمن کی ایک عمارت تباہ کی اور اس نے تمہارا ملک تباہ کر ڈالا کیا یہ اچھا ہے کہ تم نے ان کا ایک فرد قتل کیا اور انہوں نے تمہارے ہزاروں جوان مار ڈالے ہیں؟'' اور یہی میرا مختصر الفاظ میں 9/11 کا تخمینہ ہے۔''
الظواہری کا ردعمل
فادل کے دلائل نے جہادیوں کے جنگ و جدال کے تمام ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا اگر مصر کی سیکورٹی کے اداروں نے ''الزہر'' کے سکالروں کو القاعدہ کے نظریے کے خلاف تردیدی کام سونپا ہوتا وہ یقینا ڈاکٹرفادل کی جانب سے شائع شدہ اس کتاب کے مطابق ہی ہوتا اورجیسا کہ ''الجہاد'' کے متعددرہنمائوں نے اس کتاب کے مسودے پر اپنے دستخط ثبت کیے تھے جس سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ یہ تنظیم اب اپنا وجود ختم کرچکی تھی شاید دہشت گردی کسی نہ کسی شکل میں مصر میں چلتی رہے لیکن شورش پسند گروہ اپنے بستر گول کر چکے تھے۔

تمام مسلم دنیا الظواہری کی جانب سے ناگزیر جواب کا انتظار کر رہی تھی اور پریس اور علماء بھی حیران کن حد تک گنگ بنے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ فادل کی "Revesions" نے سیاسی سرگرمیوں سے متعلق ایسے شکوک و شبہات ابھارے تھے جنہیں مسلمان پہلے دہشت گردی کا درجہ دیتے تھے۔ مثلاً فلسطین اور کئی دیگر ممالک میں مدافعتی تحریکیں چل رہی تھیں جو اسرائیل کی مخالفت اور امریکی فوجیوں کی مداخلت کی وجہ سے وجود میں آئیں۔ ''اخوان المسلمین'' کے احسام ایریان نے مجھے بتایا کہ ''ہمیں اس خطے میں قومی حکومت کے خلاف تشدد اور مزاحمت کے درمیان فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو کہ اس وقت عراق، لبنان اور فلسطین میں جاری ہے ہم اسے مدافعتی تشدد بھی نہیں کہہ سکتے'' اور نہ ہی اس قسم کے مباحثے فادل کی کتاب کے لیے ناگزیر تھے۔

کئی مسلمان علماء نے ڈاکٹر فادل کے نقطہ چینی سے بھرے سیاسی خون خرابے کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ کئی حضرات نے فادل کے اقدامات کو غلط ثابت کرنے کے لیے فتوے جاری کیے۔ بعض حیران کن ردِعمل بھی سامنے آئے مثلاً کویت کے سلفی نظریات سے متاثر شیخ حامد العلی جسے امریکہ نے بن لادن کے لیے سہولیات اور رقم مہیا کرنے کا ذریعہ مانا ہے، نے ویب سائٹ پر عرب دنیا میں زبردستی تبدیلی لانے کے لیے تشددکے راستے کو رد کرنے کا خیرمقدم کیا ہے۔ شیخ علی کے فتوے کبھی القاعدہ کی حکمت عملیوں سے مطابقت رکھتے تھے اس نے محسوس کیا کہ عرب حکومتوں کے مفاد میں ہے کہ وہ عدم تشدد کی حوصلہ افزائی کریں انہیں فادل کے دلائل سے متصادم بھی نہیں ہونا چاہیے۔ علی نے کہا ''میرے خیال میں یہ بات بڑی غلطی ہو گی کہ اگر ہم علمی تبدیلیوں کو سیاسی بدگمانیوں سے رد کر دیں۔'' اسلامی انتہا پسند گروپوں کو پر امن راہ اپنانے کے لیے سیاسی پارٹیوں میں ضم ہوجانا چاہیے۔ علی نے دلائل دیتے ہوئے کہا ''ہمیں یہ بات مان لینی چاہیے کہ ہمارے خطوں میں سیاسی طریقہ کار محض واجبی سی حیثیت کا حامل ہے ہماری حکومتیں وہی کھیل کھیلتی ہیں جو ان کے وجود کو استحکام بخشتے ہیں۔''

اسی دوران شام کے ایک اسلام پسند بشیر الطرطوسی جو کہ آج کل لندن میں مقیم ہے نے فادل کے اس پیغام کے خلاف جس میں اس نے مسلمان کے جہاد کے لیے نکلنے پر حوصلہ شکنی کی تھی اور ظالم حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے سے منع کیا تھا، سخت سرزنش کی۔ طرطوسی نے جہادی ویب سائٹ پر وضاحت کی ''آدھے سے زائد قرآن میں اور پیغمبر خدا کی سینکڑوں احادیث ظالم اور جابر لوگوں کے خلاف جنگ و جدال اورجہاد کے بیانات سے بھری ہوئی ہیں تم ہم سے شریعت کے احکامات کے متعلق کیا چاہتے ہو؟ اورتم ہمیں کس طرح سمجھانا چاہتے ہو؟ ان حکمرانوں کی وجہ سے ہی تو مسلم امہ آج مذہب، شان، عزت، وقار، زمین، ذرائع اور ہر قیمتی چیز سے محروم ہو چکی ہے۔'' ادھر فادل کی Revesions کی مذمت میں جہادیوں کی اشاعتیں بڑھتی ہی گئیں۔ اسلام پسندوں کا ماہر قانون ''حانی الصباحی'' جوکہ ظواہری کا وفادار ہے اور لندن میں سیاسی ویب سائٹ چلاتا ہے کا فادل کے متعلق کہنا تھا ''کیا تم سمجھتے ہو کہ کوئی گروپ تمہاری سنے گا؟ نہیں۔ ابھی تو وہ جنگ کے درمیان پہنچے ہیں۔''

اس کے باوجود حقیقت یہ تھی کہ القاعدہ کے پیرو کار اور ہمدرد فادل کے مسودے پر توجہ مرکوز کر رہے تھے اور یہ ضروری سمجھ رہے تھے کہ ظواہری ہر حال میں تردیدی بیان دے۔ جیسا کہ القاعدہ کے تشدد پسندانہ نظریات کی اساس فادل کی مہیا کی ہوئی بنیادوں پر کھڑی تھی اب الظواہری کو ایسا راستہ تلاش کرنا تھا کہ وہ مصنف کی خبر بھی لے اور اپنی تنظیم کے وقار کو بھی تباہ ہونے سے بچائے۔ یہ ایک نازک مرحلہ تھا۔

فادل کے مقابلے میں الظواہری کا اہم مسئلہ اس کی مذہبی سکالر کی حیثیت سے پہچان کا تھا۔ فادل ''الحیات'' میں لکھتا ہے کہ ''القاعدہ'' کے پاس کوئی ایسا رہنما نہیں ہے جوکسی شرعی تعلیم کا حامل خیال کیا جائے ان میں بن لادن، الظواہری اور دوسرے تمام لوگ مذہبی سکالر تسلیم نہیں کیے جاتے اس لیے ان کے فتاویٰ شرعی جواز فراہم نہیں کرتے کیونکہ ان کا شمار بھی عام لوگوں میں ہی ہوتا ہے۔ ''یقینا'' فادل خود بھی حسب ضابطہ مذہبی تعلیم سے بہرہ ور نہیں تھا۔

اسی سال فروری میں الظواہری نے ایک وڈیو کے ذریعے اعلان کیا کہ اس نے فادل کی کتاب کے جواب میں ایک مضمون تحریر کیا ہے۔ اس نے کہا کہ ''مذکورہ کتاب میں جہاد کے خلاف نظریات کا پرچار دراصل امریکہ اور مغرب کو خوش کرنے کی کوشش ہے اور میرے خیال میں اس میں تمام مسلمانوں کی بے عزتی کی گئی ہے۔ میں اس سلسلے میں مکمل تردید کرتا ہوں اور مسلم امہ کی بے گناہی کا یقین دلاتا ہوں۔'' یہ پہلاموقع تھا جب بن لادن یا الظواہری نے اندرونی خلفشار کا کھلم کھلا جواب دیا تھا۔ قاہرہ کے مرکز برائے سیاسی اور عسکری معلوماتِ عامہ کے ماہر اور تجزیہ نگار ''دیارشوان'' نے بھی مجھے یہی بتایا۔ بالآخر الظواہری کا دو سو صفحات پر مشتمل جواب انٹرنیٹ پر نمودار ہوا اور اس نے اعتراف کیا کہ اس خط کو تحریر کرنا اس کی زندگی کا ایک مشکل ترین مرحلہ تھا۔ خط کے مواد میں جا بجا بین السطور تشریحات اور اسلامی اسکالروں کے حوالے درج تھے اور اس نے حسبِ سابق یہود و نصاریٰ کی سازشوں کے خلاف دلائل دیئے تھے جبکہ فادل نے اپنی کتاب میں القاعدہ کی غیراخلاقی بنیادوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ الظواہری نے دعویٰ کیا کہ فادل کی یہ کتاب وزارتِ داخلہ کی کوششوں کا نتیجہ ہے اور اس نے اس سازش میں اسلام کے دشمنوں خصوصاً امریکہ، مغرب، یہودیوں اور مسلمان ممالک کے حکمرانوں کے ہاتھ کو شامل کیا۔ اس نے اسلامی دنیا میں جہادی نظریات کے فروغ کو ان ملحد حکمرانوں کے ایوانوں کو ہلا ڈالنے کا موجب قرار دیا۔ اس نے کچھ غلطیوں کا بھی اعتراف کیا اور کہا کہ ''میں معصوم لوگوں کے قتل سے چشم پوشی نہیں کرتا اور نہ ہی یہ کہتا ہوں کہ جہاد بالکل ہی غلطیوں سے پاک ہے۔ حضور ۖ کے دور میں بھی مسلمان رہنمائوں سے غلطیاں سرزد ہوئیں لیکن جہاد نہیں رُکا… اور میں ان جہادی گروہوں کو انتباہ کرتا ہوں کہ جو مذکورہ دستاویز کی تائید میں اپنا خنجر حکومت کے حوالے کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے سرکار ان کا گلا بھی کاٹ سکتی ہے۔''

''القاعدہ'' کا دفاع کرتے ہوئے الظواہری نے واضح طور پر کہا کہ ''کافروں'' کو یہ بات جان جانی چاہیے کہ وہ ہم سے جیسا برتائو کریں گے ہم جواب دینے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہم پر بم برسائے تو ہم نے بھی بمباری کی اور ہم نے اسے بھی قتل کیا جسے مارنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس نے 9/11 کے واقعات کا 1998ء میں امریکہ کی جانب سے سوڈان میں دوائیوں کی کمپنی پر کی جانے والی بمباری سے موازنہ کیا۔ دراصل شمالی افریقہ میں امریکی سفارت خانوں کی تباہی کے بعد یہ اقدام اٹھایا گیا تھا (امریکیوں نے اعتراف کیا تھا کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ شاید وہاں کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری ہو رہی تھی) ''میں ان دونوں آپریشن میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتا سوائے اس کے جس سے فیکٹری کی تعمیر کی گئی تھی وہ مسلمانوں کا پیسہ تھا اور جو لوگ ملبے کے نیچے دب کر ہلاک ہوئے تھے مسلمان تھے جبکہ ہائی جیکروں نے جو ٹاور گرائے تھے وہ کافروں کی عمارتیں تھیں اور جو افراد ان کی زد میں آ کر مرے تھے وہ کافر تھے۔'' جب الظواہری سے ویزا کے تقدس کے بارے میں سوال کیا گیا جسے فادل نے محفوظ سفر کے حوالے سے ایک باہمی سمجھوتہ قرار دیا تھا اس نے انگریزی کی لغت سے استفادہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کسی حفاظت کا ذمہ نہیں لیا گیا۔۔ ''چاہے یہ قانون بین الاقوامی سمجھوتوں کا ہی نتیجہ کیوں نہ ہو، ہم لوگ اس کے پابند نہیں ہیں۔'' الظواہری نے دو انتہا پسند علما کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کسی حال میں بھی مسلمانوں کے تحفظ کو مقدم نہیں سمجھتا اور وہ کیوبا کی گونتاناموبے میں انہیں ظلم و ستبداد کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ''امریکی خود ویزے کی پابندی کے بغیر مسلمانوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ اگرامریکہ اور مغربی حکومتیں ویزے کا احترام نہیں کرتیں تو پھر ہم سے بھی کوئی امید نہ رکھیں۔''

الظواہری نے فادل کے کئی دلائل کو کمال ہوشیاری سے رد کیا۔ ایک جگہ مصنف رقم طراز ہے ''کہ ہم شرعی قوانین کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے ہیں مثلاً قومیت، رنگ، نسل یا بالوں کی رنگت کی وجہ سے لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے یہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہے اس میں کوئی حقیقت نہیں، اس سلسلے میں کوئی مثال یا تاریخ بتا کر وضاحت کی جائے۔''

الظواہری نے نفسیاتی حوالوں سے بھی کئی سوال اٹھائے ہیں مثلاً ''قیدی فادل مجاہدین کے حوالے سے اپنی کمزوریوں کا اظہار کر رہا ہے وہ تو 15 سال پہلے جب سے انہیں چھوڑ کر گیا ہے دن بہ دن مضبوط ہی ہوئے ہیں۔'' خدا کے فضل و کرم سے مجاہدین کی اسلامی تحریک صبر و استقامت، عزم و ہمت اور حکمت کی وجہ سے شکست سے دوچار نہیں ہوئی بلکہ فتح کی جانب گامزن ہے۔'' اس نے 9/11 کے حملے اور عراق، افغانستان اور صومالیہ کے حالیہ تنازعات کی روشنی میں امریکہ کی ہزیمت کو اس کے زوال سے تشبیہ دی ہے۔

فادل کے اس نظریے کے خلاف کہ غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں سے ا چھا سلوک کیا جاتا ہے الظواہری نے کہا کہ کئی مغربی ممالک میں مسلمان لڑکیوں کے اسکولوں میں حجاب کے ساتھ آنے پر ممانعت کر دی گئی ہے اور مسلمان مردوں کے ایک سے زائد بیویاں رکھنے پر پابندی عائد ہے مسلمانوں پر چند اسلامی معاملات میں پیسے مختص کرنے پر رکاوٹیں حائل ہیں جبکہ دوسری جانب اسرائیل کے لیے پیسے اکٹھے کرنے اور کھلم کھلا وسائل مہیا کرنے پر کوئی پابندی عائد نہیں اس نے 2005ء کے ڈنمارک کے متنازعہ کارٹون اور بدنام زمانہ ادیب سلمان رشدی کا حوالہ بھی دیا جسے مغربی ممالک اسلام کی دشمنی میں خوب اچھال رہے ہیں۔ ایمن نے مزید بتایا کہ چند مغربی قوانین میں قرآن حکیم میں یہودیوں کی دغا بازی اوران کی غیراخلاقی رویوں کے خلاف، نازل ہونے والی آیات کے مطالعے پر اعتراض صادر کیا جاتا ہے۔

سیاحوں کے حوالے سے ظواہری کہتا ہے ''مجاہدین لوگوں کو بغیر سوچے سمجھے اغوا نہیں کرتے۔ دراصل سیاحوں کے متعلقہ ممالک کی حکومتوں کو پیغام دینا مقصود ہوتا ہے۔'' وہ مزید لکھتا ہے کہ گاہے گاہے مسلمان بھی قتل ہو جاتے ہیں لیکن یہ قابل معانی غلطی ہے ''بہت سے سکالروں کا خیال ہے کہ کفار کو نشانہ بنانا جائز ہے چاہے ان کے درمیان مسلمان ہی کیوں نہ موجود ہوں۔'' اس نے اس زمرے میں چند آیات کا بھی حوالہ دیا۔

9/11 کے حوالے سے ظواہری لکھتا ہے ''مجاہدین اس غرض سے مغربی ممالک میں خود کش حملے نہیں کرتے کہ وہ معاہدوں کی خلاف ورزی ہو گی۔ وہ خون کی ندیاں بہانا چاہتے ہیں یا وہ نیم پاگل پن کا شکار ہیں یا وہ ناکام اورذہنی مریض ہیں جیسا کہ بہت سے لوگ خیال بھی کرتے ہیں دراصل اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اس لیے حملے کرتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے ملک کے دفاع اورمقدس مذہب کو ظالموں کے چنگل سے چھڑانے کے لیے مجبور کر دیا جاتا ہے اور اپنی بقا کے لیے ان کے پاس خودکش حملوں کے سوا کوئی چارہ کارنہیں رہتا۔

ظواہری کے دلائل سے وضاحت ہوتی ہے کہ اسلام کو انتہا پسند کس خوش پسندی سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اسلام تاریخی طور پر تنازعات کی زد میں رہا اور مختلف مکاتیب فکرنے اپنی اپنی توجیہات اپنالیں۔ ظواہری کی کچھ تشریح مضحکہ خیز بھی تھی جیسا کہ اس نے جذبہ جہاد کی خاطر مسلمانوں کو تیار رہنے کی ضرورت پر زور دیا۔ امام احمد کہتے ہیں ''ہم نے ہارون بن معروف سے سنا۔ جس نے ابو وہاب کے حوالے سے کہا اور انہوں نے عمرو بن الحارث سے روایت کی۔ جنہوں نے ابو علی تمامہ بن شفیع کے حوالے سے عقبہ بن عمیر سے روایت کی کہ 'میں نے منبر پر پیغمبر خدا سے سنا ہے کہ باطل کے خلاف اپنی طاقت کو تیار رکھو' 'اور طاقت سے مراد جنگی ہتھیار ہیں' اور اس طرح شرعی عدالتیں، مذہبی سکالر جہاد کی توجیہہ کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔

مصر کے مفتی اعظم شیخ علی گوما اس صورتِ حال کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ سیاق و سباق جانے بغیر آیات کی تشریح بعض اوقات انتہا پسندی کی جانب لے جاتی ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ''ہر شے کو جوں کا توں اور سادگی سے نہیں لینا چاہیے'' اسلامی تعلیمات کی خام تشریح سے الظواہری جیسے لوگ قتل کے اقدامات کو جائز سمجھنے لگتے ہیں اور وہ مذہب کو سائنس مان لیتے ہیں۔ اور وہ اپنی حکمت عملیوں کو حق بجانب، درست اور منطقی سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس طرح ایک سرجن، مسیحا کی بجائے قاتل بن جاتا ہے اور یہ سب کچھ اس فردِ واحد کی عقل پر پردے پڑ جانے کی نشانی ہے۔

دفاعی حکمت عملی
اپنے طویل جواب میں ظواہری دوسرے معیاروں کی بار بار نشاندہی کرتا ہے کہ القاعدہ کی جانب سے شہروں پرحملوں کے ذکر کے وقت فلسطینی تنظیموں کی ایسی ہی کارروائیوں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ فادل کی جانب سے القاعدہ کی صفوں میں لڑائی کو مضحکہ خیز قرار دیتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ ''یہی سوال حماس سے کیوں نہیں پوچھا جاتا اور یہ تضاد کی واضع مثال ہے'' ایک اورنقطے پر ظواہری مصری حکومت کے تختہ الٹنے کو ''الجہاد ''کی ناکامی تسلیم کرتا ہے اور پھر کہتا ہے ''8 سالہ جہاد کے باوجود بھی فلسطین سے غاصبوں کو نکال باہر نہیں کیا جا سکا لیکن کہا جاتا ہے کہ جہاد کی وجہ سے ہی مصر میں سیاحت میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے اس کی اقتصادی حالت کو ناقابلِ تلافی حد تک نقصان پہنچا ہے جبکہ فلسطین میں جہاد کا ردِ عمل، غزہ میں گھیرائو کی شکل میں برآمد ہوا'' وہ مزید کہتا ہے کہ فلسطینیوں کی جانب سے داغے جانے والے میزائل بلا تفریق بچے، بوڑھے بلکہ عرب لوگوں کو بھی مار ڈالتے ہیں۔ لیکن فلسطینیوں کے لیے وہ معیارنہیں اپنایا جاتا جیسا کہ ''القاعدہ'' سے سلوک روا رکھا جاتا ہے۔

الظواہری جانتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ مسلمانوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ قاہرہ میں رہنے والے ایک اسلامی ادیب کمال سلطان نے مجھے بتایا کہ ''فلسطین میں درپیش آنے والے حالات ہمیشہ سے انفرادی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔'' '' اخوان المسلمین'' کے اصام الریان کا کہنا ہے کہ ''مصر میں تمام لوگ حماس اور حزب اللہ کی حمایت کرتے ہیں حالانکہ ان کا کسی اسلامی گروپ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔'' حالیہ دنوں میں عرب پریس میں فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک کی جانب سے کارروائیوں پر نقطہ چینی کے قدغن کے حوالے سے یوں شگاف پڑا ہے کہ اب ان متشدّد واقعات کے خلاف کئی فکر انگیز مضامین لکھے جا رہے ہیں۔ ایک فلسطینی قلم کار ''مرزوک الحلابی'' نے ''الحیات'' کے جنوری کے شمارے میں لکھا کہ فلسطین اور لبنان میں مزاحمت کا ایک ہی مطمح نظر ہے یعنی آزادی کا حصول۔ لیکن ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم اپنا مقصد حاصل کر لیں گے؟ ہمیں یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر مزاحمتی تحریک میں خامیاں ہوتی ہیں، حادثات کے واقعات ہوتے ہیں … اور اب ہر کارروائی کے خاتمے اور شروعات میں تشدد کا عنصرغالب آ چکا ہے۔ آج اس کی کیسے وضاحت کی جائے گی کہ ''حماس'' کے عسکریت پسند ''الفتح'' کے رہنمائوں کو مکانوں کی چھتوں سے نیچے دھکیل رہے ہیں؟'' بدقسمتی سے تشدد کے حوالے سے یہ تبدیلی اس وقت نمودار ہوئی جب مایوسی اور تحریک کی شدت سے فلسطین کھول رہا ہے۔ اس سال مارچ میں ہونے والی رائے شماری کے مطابق فلسطینیوں میں تشدد کے حوالے سے گزشتہ 15 برسوں کی نسبت بہت زیادہ حمایت پائی گئی اور اکثریت نے پرامن گفتگو کے راستے کی بھرپور مخالفت کی۔

الظواہری بھی ان خطوں میں جہاں کبھی القاعدہ خاصی مقبول تھی وہاں اس کی حمایت میں خاصی کمی محسوس کرتا ہے پاکستان میں حالیہ برسوں میں سینکڑوں لوگ القاعدہ کے خود کش حملوں کی وجہ سے لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں بے نظیر بھٹو بھی شامل ہیں۔ یہاں لوگوں کی رائے بھی بن لادن اوراس کے ساتھیوں کے خلاف ہو گئی۔ اسی طرح الجزائر کی دہشت گرد تنظیم سلفی گروپ برائے تبلیغ اور کارروائی جس سے الجزائر کے لوگوں میں اس کی مخالفت میں اضافہ ہوا۔ القاعدہ کے ممبران بھی اعتراف کرتے ہیں کہ پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے ان کی حمایت میں خاصی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس سال فروری میں شمالی عراق میں القاعدہ کے ایک کمانڈر تراب الجزائری نے کویت کے روز نامہ ''العرب'' کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا ''الجزائر میں ہونے والے ان حملوں نے عراق میں بحث مباحثے کو ہوا دی ہے۔ انہوں نے الجزائر کے صدراور اس کے خاندان کو بھی نقصان پہنچانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ میں کہتا ہوں خدا انہیں سمجھے … کیا گلیوں میں دھماکے، خون میں نہلا دینا، فوجیوں کو قتل کرنا کہ جن کی تنخواہ سے بمشکل ایک وقت کا کھانا خریدا جا سکتا ہے … کیا وہ اسے جہاد کہتے ہیں۔ خدا کی قسم یہ تو مطلقاً خلل ہے دماغ کا۔ ابوتراب نے اعتراف کیا کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو عراق میں کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ ''کیونکہ القاعدہ میں ایسے لوگ گھس آئے ہیں جنہوں نے اس کی شہرت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔'' اس نے بتایا کہ میسوپوٹیمیا سے تعلق رکھنے والے 9 ہزار میں سے ایک تہائی افراد ایسے ہیں جن پر القاعدہ کے ممبر ہونے کی حیثیت سے بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور باقی افراد القاعدہ کا نام لے کر اس کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں اور ہماری پوزیشن مشکل تر ہوتی جا رہی ہے۔''

سعودی عرب میں حکومت انتہا پسند علماء کو قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اسی سلسلے میں مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الشیخ نے اکتوبر 2007ء میں ایک فتویٰ جاری کیا جس میں سعودی نوجوانوں کوملک سے باہرجہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ممانعت کر دی۔ دو مہینے کے بعد سعودی پولیس نے القاعدہ کے کئی مشکوک افراد کو گرفتار کر لیا جنہوں نے اس مفتی کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا تھا۔ اسی طرح شیخ سلمان الودہ، ماضی میں بن لادن جس کا پرستارتھا، ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور انہوں نے ا لقاعدہ کے نام ایک کھلا خط سنایا جس میں انہوں نے پوچھا ''برادر اسامہ! کتنا خون بہایا جا چکا ہے، کتنے معصوم بچے، عورتیں اور بوڑھے لوگ قتل اور اپاہج ہو چکے ہیں، گھروں سے بے دخل کر دیے گئے ہیں اور یہ تمام کچھ القاعدہ کے نام پر کیا گیا ہے؟'' ایسی ہی بازگشت فلسطینی عالم شیخ ابو محمد المقدسی کے ہاں بھی سنائی دیتی ہے۔ ان کا شمار بھی جہاد کے چیدہ چیدہ پر اثر نظریات پیش کرنے والے افراد میں ہوتا ہے۔ القاعدہ کا ابو معصب الزرقاوی جو عراق میں ہلاک ہوا اپنی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے خصوصاً شیعہ قومیت کے قتلِ عام میں ہاتھ رنگنے اور خودکش حملوں میں ملوّث رہا اور کبھی مقدسی کا حمایت یافتہ بھی تھا مقدسی نے اسے 2004ء میں اردن میں قید کے دوران کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ مقدسی نے لکھا ''مجاہدین کو عام شہریوں کو نشانہ بنانے، کلیسائوں اور دوسری مذہبی عبادت گاہوں ا ور بشمول شیعہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کونقصان پہنچانے سے باز رہنا چاہیے۔ جہادی جنگجوئوں کے ہاتھ ہمیشہ صاف نظر آئیں۔''

دسمبر میں ظواہری نے نقطہ چینی کے خلاف ڈھال بنتے ہوئے آن لائن فورم میں بصری ٹائون ہال میٹنگ کا جواں مردی سے اہتمام کیا موسم بہار میں اس سے 900 پوچھے گئے۔ سوالات میں سے تقریباً ایک سو جوابات پر مشتمل دو طویل آڈیوز جاری کیں۔ پہلا سوال ایک جغرافیہ کے استاد کی جانب سے پوچھا گیا اس نے طنزاً کہا ''معاف کیجیے گا! مسٹر ظواہری آپ کی اجازت سے کس کس کو مارا جا رہا ہے۔ بغداد، مراکش اورالجزائر میں بے گناہ افراد کا قتل کیا جا رہا ہے کیا تم عورتوں اور بچوں کے قتل کوجہاد کا نام دیتے ہو'' پھر اس نے مطالبہ کیا ''کیا وجہ ہے کہ تم نے ابھی تک اسرائیل پر کوئی حملہ نہیں کیا۔ کیا مارکیٹ میں مسلمانوں کا خون زیادہ ارزاں ہے کاش تم نے جغرافیہ پڑھا ہوتا کیونکہ تمہیں نقشے میں صرف مسلمان ریاستیں ہی نظر آتی ہیں۔'' ظواہری نے احتجاج کیا اور بے گناہوں کے قتل میں القاعدہ کے ملوث ہونے سے انکار کرتے ہوئے کہا ''درحقیقت ہم ان کے خلاف لڑتے ہیں جو معصوم لوگوں کے قاتل ہیں ان میں امریکی، یہودی، روسی، فرانسیسی اور ان کے زرخرید ایجنٹ شامل ہیں۔'' جہاں تک القاعدہ کی جانب سے اسرائیل پر حملے کرنے میں ناکامی کا تعلق ہے باوجود اس کے کہ بن لادن اس مسئلے کو خاصا اچھالتا رہا ہے ظواہری سوال کرتا ہے ''یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ القاعدہ ہی اسرائیل پر حملوں کی مرتکب ہوجبکہ اس نے فلسطین میں جہادی تنظیموں سے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ چیچنیا، افغانستان اورعراق میں ان کے بھائیوں کی مدد کریں؟''

معصوم لوگوں کے قتل کا شدید ردعمل سامنے آتا ہے۔ الجزائیر کی کسی یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے عیدالفطر کے موقع پر 60، الجزائری مسلمانوں کے قتل کے موقع پر ظواہری کو مبارک باد دی اور پوچھا کہ انہیں یہ کس جرم کی سزا دی گئی ہے۔ ظواہری نے جواب دیا ''وہ لوگ جو 11 دسمبر کو الجزائر میں قتل کیے گئے ہرگز بے گناہ نہیں تھے۔ وہ کافر اور صلیبی تھے اور ان کا تعلق حکومتی دستوں سے تھا جو کہ انہی کے مفادات کا دفاع کرتے ہیں جبکہ القاعدہ میں ہمارے بھائی اسلامی مغرب (یعنی شمالی افریقہ) سے تعلق رکھتے ہیں وہ زیادہ سچے، انصاف پسند اور راست باز ہیں جبکہ فرانس کے بیٹے ان کے مقابلے میں کوئی اہمیت نہیں رکھتے'' ایک سعودی حیرت زدہ تھا کہ القاعدہ جس کی تاریخ قتل و غارت سے بھری پڑی ہے کس طرح مسلمانوں کی مدد حاصل کر لیتی ہے۔ '' کیا کوئی ایسا راستہ یا ذریعہ ہے کہ جس میں لوگوں کا قتل عام کیے بغیر جہاد کا مقصد حاصل کر لیا جائے'' اس نے پوچھا ''برائے مہربانی مجھے بتایا جائے کہ امریکن اور دوسری حکومتیں بھی جو کچھ کر رہی ہیں وہ بھی نہ چھپایا جائے مسلمان تو عظمت اور عدم تشدّد کی شہرت کے حامل ہیں انہیں ایسی جماعتوں کا حصہ نہیں بننا چاہیے جو صرف بدلہ لینے پر ہی اکتفا کرتی ہیں'' لیکن الظواہری سوال کندہ کے اخلاقی چیلنج کا مناسب جواز فراہم نہ کر سکا اس نے جواب دیا کہ''اگرجرائم پیشہ لوگ آپ کے گھروں میں گھس آئیں، اہل خانہ کو نشانہ بنائیں اور انہیں قتل کر ڈالیں، جائیداد کو نقصان پہنچائیں، گھروں کو جلا ڈالیں پھر تمہارے پڑوسیوں کو بھی نشانہ بنائیں تو کیا تم یہ برداشت کر لو گے یا ایسی تنظیم کا حصہ بن جائو گے جو بدلہ لینے کے لیے تیار ہو؟''

ظواہری کو اس نظریے کا بھی دفاع کرنا پڑا کہ اسرائیل نے 9/11 کے حملے کرائے تھے اس نے افواہ کو حزب اللہ کی کارستانی قرار دیا جو کہ لبنان کی شیعہ تنظیم ہے جس نے اپنے ٹیلی ویژن اسٹیشن ''المینار'' سے یہ خبر نشر کی ۔ ظواہری نے زور دے کر کہا ''اس مقصد کے پیچھے یہ بات کارفرما تھی کہ اس حقیقت سے نکار کر دیا جائے کہ سنی مسلمان ہیروز نے امریکہ کو نقصان پہنچا کر ایک تاریخ رقم کی تھی''۔

فادل سے متعلق بھی کئی سوالات اٹھائے گئے کہ کس کی اجازت سے ظواہری نے فادل کے جہادی فلسفے کی کتاب میں تبدیلیاں کیںالظواہری نے دعویٰ کیا کہ ''اس کا لب لباب یہ ہے کہ کتاب لکھنے کا کام مشترکہ کاوشوں کا نتیجہ تھا کیونکہ ''الجہاد'' نے اس کے تمام اخراجات برداشت کیے اسے تمام کتاب کی تدوین کرنا پڑی کیونکہ اس میں کئی مذہبی ابہام پائے جاتے تھے۔ ہم نے کسی کی نقل نہیں کی اور نہ ہی کچھ مستعار لیا'' بعدازاں ظواہری نے کہا ''میں ان سے مخاطب ہوں جو جہاد کے جذبے سے سرشار ہیں کہ وہ امریکی ایجنٹوں سے جو کہ ہمارے ملک کی جیلوں میں موجود ہیں اور وہاں سے پروپیگنڈے کی جنگ لڑ رہے ہیں اس پر ہرگز کان نہ دھریں'' فادل کی Revisions پر ظواہری نے تنبیہہ کی ''اگر جہادی کارروائیوں پر پابندیاں عائید کی گئیں تو یہ جہاد کا مکمل طور پر خاتمہ کر دیں گی۔''

کیا القاعدہ آخری سانس لے رہی ہے؟
یہ کہنا غلط ہے کہ القاعدہ رضاکارانہ طورپر اسلامی گروپوں کے مصداق اور ظواہری کی اپنی تنظیم ''الجہاد'' کی طرح پرتشدد پالیسی میں تبدیلی لے آئے گی۔ لیکن یہ واضح ہے کہ کٹر نظریات کے حامل اسلامی عناصر کو اپنی سرحدوں میں مقابلے کا سامنا ہے جبکہ ظواہری اور القاعدہ کے دیگر رہنما مدافعتی حوالے سے خاصے کمزور ہیں۔ مسلمانوں میں انتہا پسندی کو روحانی واسطے سے استعمال کیا گیا تاکہ وہ جہاد سے اپنے آپ کو مضبوط بنائیں۔ لاابالی نوجوان جو القاعدہ میں شامل ہوئے ان کے اپنے ذاتی مقاصد تھے۔ مثلاً انتقام، بیزاری، یا کچھ کرنے کی خواہش انہیں اس تحریک میں کھینچ لائی جب کہ کسی مخصوص فلسفے کے تحت لڑنا ان کے لیے کوئی خاص معنی نہیں رکھتا تھا۔

خفیہ ایجنسیوں کے حالیہ اندازوں کے مطابق القاعدہ دوبارہ منظم ہو رہی ہے جو کہ امریکہ کے لیے مسلسل خطرے کی گھنٹی ہے۔ جارج ٹائون، یونیورسٹی میں سیکورٹی سٹڈیز کے پروفیسر بروس ہاف مین کا کہنا ہے کہ فادل کی علیحدگی نے القاعدہ کے علمی استدلال کو کمزور کر دیا ہے۔ ''کہا جا رہا ہے کہ القاعدہ کے جنگجو پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں جاگزین ہیں اوروہ پہلے کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں اپنے راستے متعین کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت ان کے لیے زیادہ قابلِ قبول ہے دونوں ممالک خودکش حملوں کی زد میں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جنگجوئوں کی سپلائی جاری ہے گو کہ عراق میں ان کی رفتار سست ہوئی ہے مگر پھر بھی تواتر سے جاری ہے۔''

9/11 کے حملوں کے بعد سے القاعدہ کا حلقہ اثر خاصا سکڑ چکا ہے مصر کے ایک انٹیلی جنس آفیسر نے مجھے بتایا کہ القاعدہ کے ممبران کی تعداد 200 افراد سے بھی کم ہو چکی ہے۔ امریکی ایجنسیوں کے تخمینے کے مطابق یہ 300 سے 500 کے درمیان ہیں لیکن اسی دوران القاعدہ سے متاثر مزید گروپ وجود میں آ چکے ہیں۔ جو محض روحانی طورپر ان لیڈروں سے تمسک رکھتے ہیں اورالقاعدہ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو کر کام کر رہے ہیں مگر وہ الظواہری اور بن لادن کے قابو سے باہر ہیں۔ ہاف مین کے خیال میں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ بیانات میں بن لادن اور ظواہری اسرائیل اور فلسطین کے خلاف ہرزہ سرائی کر رہے ہیں۔ ''میری نظر میں القاعدہ پر یہ دبائو بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ موجودہ سال میں کچھ کرکے دکھائیں۔ ڈاکٹر فادل کی علیحدگی نے القاعدہ کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچایا ہے جس کا ممکنہ ازالہ بھی ظاہر کرنا ہو گا۔''

اس سال اگست میں القاعدہ اپنی بیسویں سالگرہ منا رہی ہے کسی دہشت پسند تنظیم کے لیے یہ ایک لمبا عرصہ حیات ہے۔ زیادہ تر تنظیمیں اپنے کرشماتی رہنمائوں کے مرنے کے بعد صفحہ ہستی سے غائب ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح یہ کہنا مشکل ہے کہ القاعدہ بھی اسامہ کے بغیر اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی۔ دیوارِ برلن کے گرنے سے ریڈ آرمی کا گروہ بھی ختم ہو گیا اوراس کا مشرقی جرمنی سے صفایا ہو گیا۔ آئرش ریپبلکن آرمی نے تقریباً ایک صدی تک اپنا اثر و رسوخ قائم رکھا یہاں تک کہ آئرلینڈ میں اقتصادی صورت حال بہترہو گئی چنانچہ پارٹی کے ممبران نے اپنے رہنمائوں کو سیاسی طور پر رام کر لیا جب کوئی القاعدہ کے پر امن خاتمے کے متعلق سوچتا ہے تواسے یہ جان کرمایوسی ہوتی ہے کہ ان کی قیادت ابھی تک باقی ہے ان کی کمین گاہیں موجود ہیں اور ان کی سماجی حیثیت بھی جوں کی توں برقرار ہے۔ دوسری جانب القاعدہ کے پاس خون اور صدمات کے سوا کچھ بھی نہیں یہ تنظیم خام ذہانت اور منقسم ٹکڑوں، مذہب اور تاریخ کی غلط تشریح، ہوشیاری اور ذہانت سے فرسودہ وجوہات پر قائم کی گئی ہے۔ فادل کی فن خطابت نے بعض قارئین کے لیے مختلف سوالات ابھارے، اس کے باوجود القاعدہ کی سو فسطائیت نے ہر شخص کو متاثر کیا ہے۔ خیال ہے کہ یہ دہشت گر گروپ کی طرح آگے بڑھے گی لیکن اس کی فلاسفی کو سنجیدگی سے کون اپنائے گا…؟

مصر میں ایک سہ پہر کو میں اہم سیاستدان اور تجزیہ نگار کمال حبیب جو کہ ''الجہاد'' کے آغاز میں ان کا اہم رکن رہ چکا تھا سے ملنے گیا۔ اس کی تحریروں نے اسے گذشتہ دور میں بنیاد پرست کے روپ میں پیش کیا لیکن پھر اس کی جدید دنیا میں واپسی ہو گئی ہماری قاہرہ کے مضافاتی قصبے میں صحافیوں کے ایک کیفے ٹیریا میں ملاقات ہوئی۔ حبیب ایک چابکدست سیاسی سوچ کا حامل انسان ہے۔ 10 سال کی قید بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکی جہاں اسے تشدد کا نشانہ بھی بننا پڑا (اس کے بازوؤں پر سگریٹوں سے جلائے جانے کے نشانات موجود تھے) حبیب نے مجھے بتایا ''اب ہمارے پیشِ نظر دو مکاتب فکر ہیں یعنی ایک پرانا مکتبہ فکر ہے جسے ''الجہاد'' یااس کے ذیلی حصہ داروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے 'القاعدہ' ان میں ایک ہے جسے ایمن الظواہری، شیخ مقدسی، زرقاوی کی سرپرستی حاصل ہے جبکہ نیا مکتبہ فکرمحض نظریے سے بھی گہرے خیالات کا حامل ہے جسے ڈاکٹر فادل کے بقول عقیدت کی جنگ سے منسوب کیا گیا ہے۔ 1970ء کی دہائی میں اسلامی تحریکوں کا رجحان کٹر پن کی جانب رہا جبکہ اب عام خیالات جیو اور جینے دو کے اصول کے غماز ہیں۔ ان دونوں اسکولوں کے درمیان تجربے کا فرق ہے'' دراصل ان دونوں مکاتب فکرکا وجود ڈاکٹر فادل کے خیالات کا نتیجہ تھا۔ حبیب کی رائے کے مطابق ''جب تک ایک شخص جہاد کی دنیا میں رہتا ہے تو مخصوص خیالات و نظریات اس کی سوچوں کا احاطہ کیے رکھتے ہیں اور جب وہ میدانِ جنگ میں ہوتا ہے تو اسے یہ پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ غلط سمت میں ہے یا درست، لیکن جب اسے گرفتار کر لیا جاتا ہے اور یہی وقت اس کے لیے سوچ و بچار اور تبدیلی کا ہوتا ہے۔''

''ڈاکٹر فادل کا Revisions کا فیصلہ اور ظواہری کا رویہ اس بات کا غماز ہے کہ یہ تحریک توڑ پھوڑ کا شکار ہے۔ یہ تھے وہ الفاظ جواسلامی گروپ کے ایک لیڈر کرم زہدی نے اسکندریہ میں اپنے جدید امپارٹمنٹ میں مجھ سے باتیں کرتے ہوئے کہے۔ 56 سالہ زہدی ایک بھرپور شخصیت کامالک ہے بھورے بال، کالی بھنویں اس کی پہچان ہیں اس کی چار سالہ بیٹی اس کی ٹانگوں سے لپٹی تھی اور ٹیلی ویژن پر ایک پرانی بلیک اینڈ وائٹ فلم خاموشی سے چل رہی تھی۔ ایسی فلمیں امید، حوصلے اور عدم تشدّد کا پرچار کرتی ہیں۔ میں نے زہدی سے پوچھا اگر وہ اور اس کے ساتھی خونی راستے کا انتخاب نہ کرتے تو ان کا ملک کتنا ترقی یافتہ ہوتا۔ اس نے اعتراف کیا ''یقینا حالات خاصے بہتر ہوتے۔ ہمارے متشدّد رویوں نے ''الجہاد'' کی آبیاری کی''۔ اس نے اس رائے کا بھی اظہار کیا کہ اگر 30 سال پہلے انوار السادات کا قتل نہ ہوا ہوتا تو فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کا قیام عمل میں آ جاتا اس نے حضرت محمدۖ کے الفاظ دہرائے ''زمین دنگاو فساد کے لیے نہیں بنائی گئی۔ تشدد کو پھیلانا نہایت آسان اور امن قائم کرنے کی راہ نہایت مشکل ہے۔

''(انگریزی سے ترجمہ: انجینئر مالک اشتر)