working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

غیرت بہیر کیا سوچ رہے ہیں؟
عقیل یوسف زئی

ڈاکٹر غیرت بہیر، حزبِ اسلامی، افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے داماد اور ترجمان ہونے کے ساتھ ساتھ دور رس نتائج کی حامل سوچ رکھنے والے اور صاحبِ بصیرت شخصیت ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ اور بدامنی کی دلدل میں دھنسا افغانستان اوراس کے عوام مزید تباہ کاریوں کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس کے حل کے لیے ان کے پاس کچھ لائحہ عمل نہیں جن کا اظہار انہوں نے عقیل یوسف زئی کے ساتھ اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کیا ہے۔ عقیل یوسف زئی وزیرستان، فاٹا، سوات اور سرحد کے امور پر ماہرانہ رائے رکھتے ہیں۔ (مدیر)
حزب اسلامی، افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار کے داماد اور ان کے ترجمان ڈاکٹر غیرت بہیر کو حزب اسلامی میں وہ مقام حاصل ہے جو کہ القاعدہ میں ڈاکٹر ایمن الظواہری کا ہے وہ کابل میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی مجاہدین کی دوسری باقاعدہ حکومت کے دوران اسلام آباد میں پاکستان کے سفیر رہے ہیں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وہ اسلام آباد میں مقیم رہے۔ نائن الیون کے بعد جب امریکیوں نے پاکستان کے ساتھ مل کر طالبان اور دوسری جہادی تنظیموں کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا تو غیرت بہیر کو اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کرکے باگرام ائیر بیس منتقل کیا گیا جہاں وہ چھ سال تک امریکی فورسز اور تفتیشی اداروں کی تحویل میں رہے۔

کچھ عرصہ قبل ان کو افغان صدر حامد کرزئی کے زبردست دباؤ پر رہائی مل گئی تو وہ اسلام آباد پہنچنے کے بعد ایک اہم سفارتی مشن پر یورپ کے دورے پر نکل پڑے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ حزب اسلامی، طالبان اور کرزئی انتظامیہ کے درمیان ایک ایسے فارمولے پر کام کررہے ہیں جس کے ذریعے امریکیوں کے افغانستان سے انخلاء کو پر امن طریقے سے ممکن بنا کر افغانستان میں ایک وسیع البنیاد نمائندہ حکومت کا قیام یقینی بنایا جاسکے۔ اسلام آباد میں ان کا کیا گیا خصوصی مگر غیر معمولی انٹرویو اس مقصد کے لئے شامل اشاعت کیا جارہا ہے کہ افغانستان کی اعلیٰ قیادت پاکستانیوں کے مقابلے میں اپنے ملک کے دفاع اور استحکام کے لئے کن خطوط پر سوچ رہے ہیں بین السطور میں ان کی باتوں سے بہت سی تبدیلیوں کے اشارے مل سکتے ہیں اس انٹرویو کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گردی کے نام پر جاری عالمی مہم جوئی کے حوالے سے اوبامہ حکومت کے قیام کے بعد بہت سی عسکری اور سیاسی تبدیلیوں کے اشارے اب اندرون خانہ حقیقت بننے دکھائی دے رہے ہیں مثال کے طور پر 29 اکتوبر کو برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن نے کہا کہ ان کا پہلا ہدف طالبان کی بجائے القاعدہ ہے جبکہ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے7 نومبر کو کہا کہ وہ اور دوسرے افغان گروپس امریکہ کو افغانستان سے نکلنے کا باعزت راستہ دینا چاہتے ہیں۔

س: امریکیوں کے قبضہ میں گزرا چھ سال کا عرصہ کیسا تجربہ ثابت ہوا ؟
ج: ان چھ سالوں کے دوران اتنے تلخ واقعات اور تجربات سے گزرا ہوں کہ ان کی یادداشتیں بیان کرکے خود کو مزید ذہنی اذیت سے دو چارکرنا نہیں چاہتا۔ امریکیوں کے لئے انسانی اور سیاسی حقوق کی کوئی ہمیت نہیں ہے۔ ذاتی طور پر اس عرصہ کے دوران جہاں امریکہ کی ذہنی پستی کے کئی مظاہر دیکھے وہاں اپنی سرزمین افغانستان مسلمانوں اور پوری دنیا کی سیاست پر بہت سوچ کر نئے نتائج اخذ کیے۔ مجھے قید میں رکھنے کا امریکہ کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔میں آرام سے اسلام آباد میں فیملی کے ہمراہ قیام پذیر تھا اور امریکہ کا معاملہ بھی براہ راست حزب اسلامی کی بجائے طالبان کے ساتھ چل رہا تھا اس کے باوجود مجھے اٹھوا لیا گیا اور چھ سال تک محض اس کوشش میں قید و ظلم کا شکار بنایا گیا کہ میں ان کے ساتھ سودے بازی کرلوں۔ عرصہ چھ سال کے بعد امریکہ نے رہا کر دیا تو اس کے افسران نے معافی مانگتے ہوئے خود اعتراف کیا کہ میرے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ میری گرفتاری، تشدد، تفتیش اور دوسرے تمام معاملات امریکیوں کے ہاتھ میں تھے۔ مجھ پر ایسی حالت بھی گزری کہ میں تشدد اور درد کے باعث تلاوت کرتے وقت قرآن مجید بھی ہاتھوں میں اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا تھا نہ تو میرا کسی کے ساتھ رابطہ ممکن تھا اور نہ ہی مجھے اپنے خاندان کا کوئی علم تھا کہ کہاں اور کیسا ہے ۔ میں نے ان کے ساتھ نہ کوئی سیاسی مفاہمت کی نہ تعاون کیا اور نہ ہی رہائی کے لئے کوئی سودے بازی کی چونکہ میں بے قصور تھا اس لیے انہوں نے چھ سال کے بعد29 مئی2008 ء کو رہا کردیا۔ ابتدائی تشدد کی یہ حالت تھی کہ چند ہی مہینوں کے اندر میرے وزن میں 30 کلو کی کمی واقع ہوگئی۔

س: آپ کو دوران قید افغانستان کے سیاسی حالات کی اطلاعات مل رہی تھیں؟
ج: مجھے بہت اندھیرے میں رکھا جاتا تھا ۔ ذرائع ابلاغ تک رسائی نا ممکن تھی ملاقاتوں کی اجازت بھی نہیں تھی اس کے باوجود مجھے پختہ یقین تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان میں پھنس گئے ہیں کیونکہ مجھے افغانوں کی تاریخ، خطرات اور جذبۂ حریت کا علم تھا۔ مجھے اس بات کا بہت دکھ تھا کہ مظلوم افغان بہت تکلیف اور ظلم برداشت کر رہے ہوں گے اس کے باوجود یہ بھی علم تھا کہ وہ مزاحمت سے باز نہیں آئیں گے کیونکہ افغانوں کو مغلوب کرنا تو ممکن ہے تاہم ان پر قبضہ کرنا یا ان کو شکست دینا ممکن ہی نہیں ہے امریکہ اب واقعتاً پھنس کر رہ گیا ہے۔

س: آپ کے خیال میں افغان مسئلے کا پائیدار حل کیا ہوسکتا ہے؟
ج: یہ بات بالکل واضح ہے کہ طاقت اور سازشوں کے ذریعے افغانوں کو شکست نہیں دی جاسکتی۔ جلد یا بعد میں اس مسئلے کے حل کے لئے مغربی قوتوں کو تمام افغان نمائندہ قوتوں سے مذاکرات کا راستہ اپنا کر اپنی افواج نکالنا ہوں گی۔ ملٹری پالیسی سے حالات نہ صرف اورپیچیدہ ہو جائیں گے بلکہ امریکہ اقتصادی طور پر بھی جنگ کی طوالت افورڈ نہیں کر پائے گا۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نکلنے کے لئے باعزت راستہ دیا جائے۔ ہم اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ہم بھی اتنی بڑی طاقتوں کو بزور قوت باہر نہیں نکال سکتے۔ سب ہی فریقین کو سیاست، مذاکرات اور لچک کا مظاہرہ کرکے زمینی حقائق تسلیم کرنا ہوں گے تب ہی جا کر مسئلے کا حل نکل آئے گا حملہ آور قوتوں کو طالبان ، حزب اسلامی اور تمام نمائندہ افغان قوتوں سے بات کرنا ہوگی اور اس کے لئے افواج کو باہر نکالنے کا ارادہ بھی کرنا ہوگا۔ جمہوری حکومت کا قیام ایسے مسلمان ممالک کی امن فورس کا قیام جن کی سرحدیں افغانستان سے نہیں ملتیں اور آزادانہ الیکشن کے انعقاد جیسے اقدامات وقت کا تقاضا ہے اور ایسا کیے بغیر خطے میں نہ تو امن قائم ہوگا اور نہ ہی استحکام آئے گا۔میں ذاتی طور پر امریکہ اور اتحادیوں کے ساتھ حقائق کی بنیاد پر مذاکرات کا حامی ہوں۔

س: کیا آپ اب بھی افغان سیاست میں حزب اسلامی کا کوئی فعال کردار دیکھنے کے قائل ہیں؟
ج: حزبِ اسلامی نے نہ صرف افغان جہاد میں مرکزی کردار ادا کیا ہے بلکہ یہ لاکھوں افغانیوں کی ایک موثر جماعت کی حیثیت بھی رکھتی ہے بلاشبہ حزب اسلامی کی نظریاتی ، سیاسی اور تنظیمی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں(1) باشعور، اہل دانش اور تعلیم یافتہ طبقوں کی مؤثر تعداد اس پارٹی سے وابستہ ہے اس کے ہمہ گیر سیاسی کردار کو اس کے مخالفین بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔حزبِ اسلامی کے لیڈرگلبدین حکمت یار کو ایک عالمی لیڈر کا مقام حاصل ہے ان کے کردار، نظریات اور ہولڈ کو نظرانداز کرنا ممکن ہی نہیں ہے ان کو اتحاد میں لیے بغیر کوئی بھی پلان یا فیصلہ عملی ہونا ممکن نہیں ہے۔ ہم سیاسی،جمہوری اور عملی لوگ ہیں ہم افغانستان میں اپنے کردار اور اس کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں۔

س: بعض حلقے حکمت یار کو افغان حکومت کی جانب سے معافی دلانے کے کسی پلان کا ذکر کررہے ہیں کیا یہ درست ہے؟
ج: یہ افواہیں وہ لوگ پھیلا رہے ہیں جو کہ حکمت یار کی شخصیت، کردار اور سیاسی وابستگی سے واقف نہیں ہیں وہ ایک جرأت مند، مستقل مزاج اور نظریات کے پکے شخص ہیں۔ معافی جیسی چیزیں ان کی فطرت ہی میں شامل نہیں وہ اپنے مؤقف پر ڈٹے رہتے ہوئے اپنی سیاست کرنے کے قائل ہیں۔ ہم مفاہمت اور سودے بازی کے فرق کو سمجھتے ہیں۔

س: حالیہ افغان الیکشن میں آپ کی پارٹی نے بھی غیر اعلانیہ حصہ لیا کیا آپ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ؟
ج: ہم تجربات سے سیکھ چکے ہیں کہ اگر کوئی مسئلہ بلٹ کی بجائے بیلٹ سے حل ہوسکتا ہے تو اچھی بات ہے ہم افغان معاشرے کا حصہ ہیں جمہوری عمل اور رائے پر یقین رکھتے ہیں اگر حزب کے ساتھیوں نے الیکشن میں تمام تحفظات کے باوجود حصہ لیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کو معاشرے اور عوام سے الگ نہیں رکھ سکتے۔ ہم کوئی لسانی یا علاقائی گروپ کا پس منظر نہیں رکھتے ہم پورے افغانستان میں عوامی نمائندگی رکھتے ہیں۔ پچھلے الیکشن میں بھی ہمارے ساتھیوں نے انفرادی طور پر حصہ لیا تھا کیونکہ ہم سیاسی اور جمہوری عمل کے حامی ہیں ہم نہیں چاہتے کہ اعتراضات کے باوجود الیکشن کے عمل سے باہر رہ کر خود کو عوام سے دور رکھیں۔

س: کیا آپ حالیہ الیکشن کو آزادانہ ، غیر جانبدارانہ نمائندہ سمجھنے کا سیاسی اعتراف کررہے ہیں؟
ج: الیکشن مشکوک ، جانبدارانہ اور غیر نمائندہ تھے، عوام کی اکثریت اس سے بوجوہ لا تعلق رہی۔ ٹرن آؤٹ بہت کم رہا اور طالبان کی دھمکیاں بھی اثر انداز ہوئیں۔ اس کے باوجود اس کی اہمیت سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ افغانستان کے لوگوں میں گولی کی بجائے ووٹ ڈالنے کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے وہ جنگیں کر کر کے نہ صرف بد حال ہوگئے ہیں بلکہ تھک بھی گئے ہیں وہ امن اور استحکام چاہتے ہیں اور ہم ان کی اس خواہش کااحترام کرتے ہیں ہم طالبان اور دوسرے تمام لوگ افغانستان کو ایک وحدت میں قائم دیکھنا چاہتے ہیںاور یہی سبب ہے کہ ہم مزاحمت، جہاد اور عملی جدوجہد کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل کا خیر مقدم کرتے ہیں افغانستان کے ان باشندوں کو بھی ووٹ ڈالنے کا حق ملنا چاہیے تھا جو کہ پاکستان اور ایران کے علاوہ متعدد دوسرے ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان کو محروم رکھا گیا۔

س: آپ نے یورپ کا حال ہی میں دورہ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ آپ پھر سے متحرک ہو گئے ہیں؟
ج: میرے ان دوروں کے سیاسی مقاصد نہیں تھے بلکہ میں ذاتی کام نمٹانے اور لوگوں سے ملنے مختلف ممالک میں گیا ہوا تھا اس کے باوجود میں زیادہ وقت اپنے خاندان کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں۔ میری متعدد سیاسی ،سفارتی اور حکومتی نمائندوں سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں ان ملاقاتوں کے دوران لازمی بات ہے کہ افغانستان کے معاملات پر بات کرنے سے ہم الگ نہیں رہ سکتے۔ ان غیر رسمی ملاقاتوں کے دوران میں نے اس بات پر دوسروں کو قائل کرنا چاہا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مناسب ماحول بنا کر افغانستان سے نکل جانا چاہیے ہم ان کو باعزت راستہ دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ میں ان کو بتاتا رہتا ہوں کہ ایک مستحکم، آزاد، غیر مسلح مگر مضبوط سیاسی نظام کا حامل افغانستان سب کے مفاد میں ہے اور عالمی برادری کو ایسا ممکن بنانے کے ٹھوس اور اہم فارمولے پر کام کرنا چاہیے۔ ہم دوسروں کو قائل کررہے ہیں کہ جنگ تشدد اور سازش کے ذریعے قیام امن کی کوششیں یا خواہش کبھی پوری نہیںہوں گی۔ عملاً میں فی الحال عملی سیاسی اور جماعتی سرگرمیوں میںحصہ لینے کی بجائے زیادہ وقت اپنے بچوں کو دینا چاہتا ہوں اور اپنی نقل و حرکت کو محدود رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہوں۔