working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

کیا افغان طالبان عالمی دہشت گردی میں ملوّث ہیں؟
این سٹنرسن
افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کو شروع ہوئے آٹھ سال کا عرصہ بیت چکاہے۔مگر یہ رکتی نظر نہیں آرہی، نتیجہ یہ ہے کہ اب افغانستان اور پاکستان دونوں ممالک دہشت گردی کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ طالبان کی جارحانہ کارروائیوں اور کرزئی حکومت کے امن و امان قائم کرنے میں ناکامی نے افغانستان میں سلامتی کے حوالے سے جن شکوک و شہبات کو جنم دیا ہے ان سے افغانستان سمیت پورے خطے میں خطرات بڑھ رہے ہیں۔یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں بدامنی، جنگ، افراتفری اور خود کش حملوں کے نتیجے میں جس قدر بچوں کا نقصان اس ملک میں ہوا ہے۔ شاید ہی کسی دوسرے ملک میں اتنی تعداد میں بچے متاثر ہوئے ہوں۔ اسلامی بنیاد پرستی کے زعم نے طالبان کو ایک مذہبی تحریک میں بدل دیا ہے اس کی سماجی پذیرائی میں نسلی پہلو کی آمیزش سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ نسلی اقلیتوں کو طالبان نے قدیم اسلامی روایات اور پشتون قوم کی سر بلندی جیسے مقاصد کی تکمیل کا عندیہ دے رکھا ہے۔ ذیل کی رپورٹ ان تمام مضمرات سے پردہ اٹھاتی ہے۔(مدیر)
جون2001ء میں اے بی سی نیوز پر دکھائی گئی ایک ویڈیو میں افغان طالبان کمانڈر منصور داداللہ کو لگ بھگ300 نقاب پوش افراد کے گروپ سے مخاطب دکھایا گیا۔ ان نقاب پوش افراد کو خود کش حملہ آور ظاہرکیا گیا جو مغربی ممالک بالخصوص امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور جرمنی میں مشن پرجانے والے تھے۔(1) یہ ویڈیو میڈیا کی فوری توجہ کا مرکز بنی تاہم بعد ازاں اسے جہادیوں کی بڑھک سمجھ کر مسترد کر دیا گیا۔ اس ویڈیو کے نشر ہونے کے دو سال بعد بھی افغان طالبان منصور داداللہ کے الفاظ کو عملی روپ نہیں دے سکے۔ افغان طالبان تحریک جس کی تشکیل1994ء میں ہوئی تھی اپنے آغاز کے مقابلے میں اب بہت حد تک تبدیل ہوچکی ہے۔

بعض سکالر اسے عالمی جہادی تحریک کا اہم جزو قرار دیتے ہیں۔(2) افغان طالبان رہنما اکثر و بیشتر القاعدہ کی طرز کی مغرب مخالف تقاریر کرتے رہتے ہیں اور یہ خود کش حملوں کو جنگی حربے کے طور پر استعمال کرنے کی تائید بھی کرچکے ہیں جبکہ خود کش حملوں کا افغانستان کے اندر اس سے قبل کوئی تصور نہیں تھا۔

افغان طالبان امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اولین دشمن سمجھتے ہیں۔ جنہوں نے بقول ان کے2001ء سے ان کے ملک پر قبضہ جما رکھا ہے۔ آئے دن افغانستان کے اندر غیر ملکیوں کومارنے کا سلسلہ جاری رکھے ہیں اور اس میں فوجی یا سویلین افراد میں کوئی فرق نہیںکرتے۔

افغان طالبان عالمی سطح پر دہشت گردی میںبراہ راست ملوث ہونے کا آغاز کب کرتے ہیں کیا وہ مناسب وقت کا انتظار کررہے ہیں؟(3) اس تحریر میں افغان آپریشن میںشریک نیٹو ممالک کے اندر طالبان کے حملوں کے امکانات کاجائزہ لیا گیا ہے۔(4) جنگجو کمانڈروں نے اپنے طور پر مغرب پر حملوں کی دھمکیاں دی ہیں۔ لیکن افغان طالبان کی سینئر قیادت فی الوقت یہ حکمت عملی اختیار کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن اس آرٹیکل میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ اس قسم کی مہم جوئی سے افغان طالبان قیادت کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔ اس بات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ طالبان نیٹ ورک میں نچلے درجے کی قیادت انفرادی طور پر اور موقع ملنے کی صورت میں حملہ کر سکتی ہے۔ بیت اللہ محسود سے تعلق رکھنے والے پاکستانی طالبان ایسے مواقع کو استعمال کرنے کی خواہش کااظہار کرچکے ہیں اس طرح وہ مغربی ممالک کے لیے افغان طالبان کے مقابلہ میں زیادہ اور بڑافوری خطرہ ہیں۔(5)
 
افغانستان کے اندر مغربی شہریوں پر حملے
افغان طالبان جنگجوؤں کی مہم چھاپہ مار کارروائیوں اور دہشت گردی کے حربوں کا آمیزہ ہے۔ زیادہ تر افغان پولیس اہلکار ، سیکورٹی فورسز، غیر ملکی باشندے ان حملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں۔ غیر ملکی سفارت کاروں ، غیر سرکاری تنظیموں کے کارکنوں پر حملوں کے علاوہ غیر ملکیوں کے آنے جانے کی جگہوں پر بھی حملے کیے جاتے ہیں۔افغان طالبان یہ حملے سیاسی اور پروپیگنڈا مقاصد کے حصول کے علاوہ وسیع تر شورش کو تقویت پہنچانے کیلئے کرتے ہیں۔ افغان طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ نیٹو کے سفارتی مشنوں پر اس لیے حملے کرتے ہیں کہ ان ممالک نے اپنی فوجیں افغانستان بھیجی ہیں۔

2008ء میںکابل جرمن سفارتخانے میں بم حملوں کے بعد طالبان کے ترجمان نے ان حملوں کا جواز یہ پیش کیا تھا کہ جرمنی نے شمالی افغانستان میں اپنی فوجیں بھیج رکھی ہیں جو معصوم افغانوں کے قتل میں ملوث ہیں۔ترجمان نے افغانستان میں فوجیں بھیجنے والے تمام ممالک کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی۔ (6)

افغان طالبان مغربی ممالک کی طرف سے ان کے ملک پر قبضہ کے علاوہ دشمنی کی دیگر وجوہات بھی بیان کرتے ہیں۔ اسلام یا پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی میںملوث ممالک مثلاً ڈنمارک اور ہالینڈ کو براہ راست دھمکیاں دی گئیں۔(7) ہالینڈ کو2008ء میںجب وہاں سے تعلق رکھنے والے سیاستدان گریٹ وائلڈر نے اسلام مخالف فلم''فتنہ''ریلیز کی اسے سینکڑوں دھمکیاں ملیں۔ افغان طالبان قیادت کے بیانات میں تمام مسلمانوں سے کہا گیا کہ وہ اس گستاخی کا بدلہ لیں۔(8) لیکن افغان طالبان نے کہا کہ فی الفور ان کا جواب افغانستان میں موجود ہالینڈ کے فوجیوں پر حملوں تک محدود رہے گا۔ انہوں نے ایسے حقیقی حملوں کی ذمہ داری کا دعویٰ بھی کیا۔ بیان میںکہا گیا کہ:
''ہم انشاء اللہ اپنی طرف سے ہالینڈ کے فوجیوں سے انتقام لینے کا عہد کرتے ہیں جو ہمارے ملک میں قابض فوج کی حیثیت سے آئے ان میں سے زیادہ تر صوبہ ارزگان میںجمع ہیں گزشتہ روز ان دو کی ہلاکت اور ان کے ٹینکوں کی تباہی ہمارے انتقام کے سلسلے کا حصہ ہے۔(9)

اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان طالبان مجموعی طور پر مغرب مخالف ہیں اور وہ افغانستان کے اندر غیر ملکی فوجیوں اور سویلین پر حملے کرنے سے گریز نہیں کرتے تاہم تصادم زدہ افغان علاقے سے باہر مغوی ٹھکانوں پر حملوں کا معاملہ مختلف ہے۔

مغربی ملکوں پرحملوں کی دھمکیاں اور سازشیں
افغان طالبان لیڈروں ملا داد اللہ اور اس کے بھائی منصور داد اللہ نے واشگاف الفاظ میں جنگ کو افغان سرحدوں سے باہر پھیلانے کی دھمکیاں دی تھیں۔ ملاداد اللہ افغان طالبان کی شوریٰ کونسل کا رکن اور جنوبی افغانستان میں کمانڈر تھا وہ مئی 2007ء میں قتل ہوگیا۔ اس کے بعد اس کا بھائی منصور داد اللہ اس کاجانشین بنا جو کئی انٹرویوز اور ویڈیوز کے ذریعے منظر عام پر آیا۔ مثلاً منصور داد اللہ نے جون 2007ء میں خود کش بمبار مغربی ممالک میں بھیجنے کی دھمکی دی تھی لیکن دسمبر 2007ء میں اسے اعلیٰ قیادت کی حکم عدولی کی پاداش میں کمان سے ہٹا دیا گیا۔(11) ملا داد اللہ ، منصور داداللہ اور القاعدہ نیٹ ورک کے درمیان تعلقات کی حقیقی نوعیت کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔(12) ان دونوں بھائیوں اور افغان طالبان قیادت کے بیانات میں اکثر مواقع پر اختلاف پایاجاتا تھا دونوں بھائی ایک مقامی میڈیا ایجنسی(عمرسٹوڈیو) کے ذریعے اپنی علیحدہ میڈیا مہم چلاتے تھے جس سے ان کی خود مختارانہ طور پر کام کرنے کی خواہش کا اظہار ہوتا ہے۔حتمی طور پر بہت کم ایسے شواہد ملے ہیں جن سے منصور داداللہ کا دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کا عزم اور صلاحیت ثابت ہوتی ہو۔اس ویڈیو کے جاری ہونے کے بعد کے دو سالوں میں مغربی ممالک میں گرفتار ہونے والے مشتبہ دہشت گروں کا افغان طالبان یاداداللہ سے کوئی ٹھوس رابطہ ثابت نہیںہوا۔

مغرب کے خلاف حملوں کی دھمکی کی ایک اور مثال نومبر2008ء میں العربیہ ٹی وی پر نشر ہونے والی ویڈیو ہے۔(13) جس میں فاروق نامی مقامی افغان طالبان کو دکھایا گیا جس نے 18 اگست2008ء کو دس فرانسیسی فوجیوں کو گھات لگا کر ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا۔ اس نے فرانس کو متنبہ کیا کہ وہ افغانستان سے نکل جائے یا پھر پیرس میں ہمارے رد عمل کیلئے تیار رہے۔(14) اس مقامی طالبان کمانڈر کی پیرس میں حملوںکی دھمکی محض ایک بڑھک لگتی ہے ۔دسمبر2008ء میں پیرس کے ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور سے دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا۔ ایک گروپ نے جو خود کو افغان ریولوشنری فرنٹ(افغان انقلابی محاذ) کہتا تھا اس کی ذمہ داری قبول کی۔

اس گروپ نے خط کے ذریعے کہا کہ'' اپنے صدر کو یہ پیغام پہنچا دو کہ وہ فروری2009ء سے قبل افغانستان سے فوجیں نکال لے ورنہ ہم تمہارے سرمایہ داروں کے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز میںکسی وارننگ کے بغیر ایکشن کریں گے۔(15) یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس گروپ کا کوئی رکن گرفتار ہوا یا نہیں لیکن بعض ایسے اشارے ضرور ملے جن سے انداز ہوا کہ اس گروپ کے افغان طالبان یا القاعدہ کے ساتھ رابطے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس خط میں استعمال کی گئی زبان اور طریقہ کار کی مسلم عسکریت پسندوں کے مقابلے میں بائیں بازو کے مزاحمت کاروں سے زیادہ مماثلت پائی گئی۔

ہمارے علم کے مطابق افغان طالبان قیادت یا فاروق گروپ نے اس سلسلہ میں مزید کوئی تبصرہ نہیںکیا۔ افغان طالبان قیادت کی جانب سے فاروق یا داد اللہ برادران کے بیانات کی کھلے عام تردید نہ کرنا اس بات کی علامت نہیں کہ انہوں نے ان کی تائید کی ہے افغان طالبان قیادت عموماً اپنے ارکان پر کھلے عام تنقید کرنے سے گریز کرتی ہے تاکہ افغان طالبان کے اندر پھوٹ یا عدم اتفاق کی افواہوں کو ہوا نہ ملے۔

پاکستانی طالبان:ایک مختلف معاملہ
پاکستانی طالبان افغان طالبان سے مختلف ہیں وہ بین الاقوامی دہشت گردی میں ملوث ہوتے رہے ہیںبیت اللہ محسود کی سربراہی میں تحریک طالبان محسود کی ہلاکت تک مغرب پر حملوں کی واضح دھمکیاں دیتی رہی ہے۔ بلکہ ایسے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) افغان طالبان کا حصہ ہے۔ پھر بھی اس کے دعوؤںکا افغان طالبان کے دعوؤں سے موازانہ سود مند ہوگا ۔تحریک طالبان، پاکستان کے بعض دعوے سچ ثابت نہیں ہوئے ۔ مثلاً اپریل2009ء میں بیت اللہ محسود نے نیو یارک کے امیگریشن سنٹر پر فائرنگ کی ذمہ داری قبول کی۔ یہ حملہ ویت نام کے ایک شہری نے کیا۔(18) ایک دلچسپ کیس بارسلونا حملے کا منصوبہ ہے جو جنوری 2008ء میں اس وقت بے نقاب ہوا جب سپین میںدرجن سے زائد پاکستانی اور دو بھارتی شہری گرفتار ہوئے۔ ان پر بارسلونا کے پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم پر حملوںکا منصوبہ بنانے کا الزام تھا۔(19) اسی سال اگست میںجاری ہونے والے ایک ویڈیو ٹیپ انٹرویو میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان مولوی عمر نے ان حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔اس نے کہا کہ اس منصوبہ میں شامل لوگوں سے بیت اللہ محسود نے حلف لیا تھا اور یہ کہ ان حملوں کا محرک ہسپانوی فوج کی افغانستان میں موجودگی تھی۔(20) حراست میںلیے گئے عسکریت پسندوں اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان رابطوں کے کئی اور اشارے بھی ملے جن میں ایک قابل ذکر یہ ہے کہ گروپ کے ارکان میں سے ایک نے وزیرستان اور افغانستان میں تربیت حاصل کرنے اور تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ سے ملاقات کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔(21) بارسلونا کیس ظاہر کرتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان عالمی دہشت گردی کے حملوں سے منسلک ہونے یا براہ راست ان حملوں میں ملوث ہونے کی خواہشمند ہے ۔یہی ان میں اور افغان طالبان میں نمایاں فرق ہے افغان طالبان کا ابھی تک مغربی ممالک میں حملوں کے کسی منصوبے سے تعلق واضح نہیںہوا۔

استعداد اور مواقع
افغان طالبان قیادت کے اپنی جنگ مغربی ممالک تک نہ لے جاسکنے کی ایک اہم وجہ صلاحیت یا استعداد کی کمی ہوسکتی ہے۔ یورپ میں دہشت گردی کے حملوں میں ملوث دیگر عسکریت پسند گروپوں مثلاً جیرین آرمڈ اسلام گروپ(جی آئی اے) یا القاعدہ کے برعکس طالبان کے پاس مضبوط اور مستعد امدادی نیٹ ورک موجود نہیںہے ان کے بیشتر معاون نیٹ ورک خلیجی خطے یا پاکستان کے اندر موجود ہیں۔(22) افغان طالبان ، القاعدہ نیٹ ورک یا پاکستان اور افغانستان میں موجود دیگر غیر ملکی جنگجوؤں کے اشتراک سے حملے کرسکتے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ حکمت عملی اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں ۔ مثلاً اسلامک جہاد یونین(آئی جے یو) نے یورپ سے ایسے رضا کار جمع کیے ہیں جنہوں نے مقامی نیٹ ورک کی طرف سے افغانستان میں کارروائیاں کی ہیں۔ سب سے مشہور واقعہ ترک نژاد جرمن شہری Cuneyt ciftci کا صوبہ خوست میںامریکی فوجی اڈے پر خود کش حملہ ہے۔(24) جلال الدین حقانی نے خود اس حملے کی تعریف کی تھی جو غیر ملکی عسکریت پسندوں کے پاس مقامی گروپ سے براہ راست رابطوں کو ظاہر کرتی ہے۔(25) ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اگر حقانی گروپ جنگجوؤں کو یورپ میں حملوں کے لیے بھیجنا چاہے تو اسے بہت سے لوگ مل سکتے ہیں۔ ان میں قابل ذکر جرمن شہرت کے حامل افراد کا گروپ Sauerlandcen ہے جس نے2006ء میں جرمنی میںدہشت گردی کے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس گروپ کے اسلامک جہاد یونین سے رابطے ہیں اور اس کے ارکان نے شمالی وزیرستان میں تربیت حاصل کی۔(26) یہ واضح نہیں ہوسکا کہ وہ افغان طالبان کی طرف سے کارروائی کرتے تھے یا دیگر مقامی گروپوں کی طرف سے حالانکہ افغان طالبان جرمنی کو اپنے بڑے دشمنوں میں شمار کرتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ افغان جنگجو غیر ملکی رضا کاروں کو اپنی مقامی گوریلا جنگ میں تو استعمال کرسکتے ہیں ان کی بیرون ملک حملوں میں دلچسپی کم ہے۔

سراج الدین حقانی سے جب ان غیر ملکیوں بالخصوص اسلام جہاد یونین کے جنگجوؤں کے بارے میں پوچھا گیا جن کو وہ تربیت فراہم کرتا تھا تو اس کاجواب تھا کہ ہمیں افغانستان کی اندرونی جنگ سے غرض ہے اور ہم یہیں پر حملوں کو ترجیح دیتے ہیں۔(27) ایک اور انٹرویو میں اس نے زیادہ واضح الفاظ میں کہا کہ ہم اپنے اتحادیوں سے کہیں گے خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا دنیا کے کسی اور خطے میں کہ وہ افغانستان میں امریکیوں کے خلاف جنگ کریں نہ کہ کسی اور ملک میں۔ ہماری پالیسی یہ ہے کہ ہم کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے خواہ وہ اسلامی ملک ہویا غیر اسلامی۔(28) ان طالبان قیادت کی بھی یہی حکمت عملی دکھائی دیتی ہے۔

2008ء میں افغان طالبان کے سرکاری ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ اسلامی امارت کے مجاہدین افغانستان میں ہیں ہماری قیادت افغانستان کے اندر موجود ہے اور ہماری سرگرمیاں افغانستان کے اندر ہی ہیں۔(29) قابل ذکر بات یہ ہے کہ افغان طالبان نے خود کو القاعدہ کی عالمی دہشت گردی سے بھی دورکرلیا ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے2009ء میں ہی ایک انٹرویو میں کہا کہ طالبان اور القاعدہ مختلف چیزیں ہیں۔ القاعدہ کادائرہ پوری دنیا میں پھیلا ہے جبکہ ہم صرف اپنے علاقے تک محدود ہیں۔(30) یہ بات قابل توجہ ہے کہ افغان طالبان قیادت نے سرکاری طور پر القاعدہ یا اس کی کارروائیوں کی مذمّت نہیں کی اور وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ القاعدہ یا دیگر غیر ملکی مسلمانوں کی افغان جنگ میں اپنے ساتھ شمولیت کا خیرمقدم کریںگے۔(31) تاہم لگتا ہے کہ افغان طالبان کے قائدین القاعدہ کی عالمی جہادی حکمت عملی سے منسلک نہیں ہونا چاہتے۔اس کے بارے میں یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ یہ محض نظریئے اور روایات کا سوال ہے۔ افغان طالبان قیادت جامد اور غیر متغیر نہیں ہے۔2001ء کے بعد سے خودکش حملوں کی بطور ایک پالیسی کے توثیق اس کی ایک مثال ہے۔ اس کا زیادہ صحیح جواب اس بات کا جائزہ لے کر مل سکتا ہے کہ مغرب میں دہشت گردانہ حملے میں طالبان قیادت کو کیافائدے اور کیا نقصانات نظر آتے ہیں۔

ترغیب یا عدم ترغیب
افغان طالبان کے لیے مغرب میں حملے کا منصوبہ تیار کرنے کی ممکنہ ترغیب 2001ء کے میڈرڈ حملے جیسے اثرات ہوسکتے ہیں۔ یہ حملہ سپین میں انتخابات سے چند روزقبل کیا گیا اور اس نے حزب اختلاف کی جماعت کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔کیونکہ اس نے الیکشن جیتنے کے بعد عراق سے ہسپانوی فوج واپس بلانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس حملے سے جہادی ویب سائٹ پر ایک دستاویز جاری کی گئی تھی جس میں اس حکمت عملی کے حق میں دلائل دیئے گئے تھے ممکن ہے اس دستاویز نے حملہ آوروں کو متاثر کیا ہو۔(32)

اسی طرح افغان طالبان قیادت نیٹو کے اندر اختلافات سے بخوبی آگاہ ہے ۔ اسے پتہ ہے کہ کئی یورپی ممالک میں اس جنگ کو بہت کم عوامی حمایت حاصل ہے۔افغان طالبان یورپی ممالک میں رہنے والوں کے لیے بیانات جاری کرچکے ہیں۔ جن میں کہا گیاہے کہ وہ اپنے ملک کی امریکی مفادات کے لیے کام کرنے کی پالیسیوں کی حمایت نہ کریں۔(33) اس کے باوجود یہ بات حیران کن ہے کہ طالبان نے نیٹو کی کمزوریوں سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ اس کاجواب اس حقیقت میں مضمر ہے کہ ملک سے باہر حملے کرنے سے افغان طالبان کو کافی نقصانات ہو سکتے ہیں۔اگرچہ افغان طالبان قیادت یہ بات براہ راست تو بیان نہیںکرتی غالباً وہ ایسی سرگرمیوں سے آزاد ہے جن کی وجہ سے پاکستان میں ان کی محفوظ پناہ گاہوں پر دباؤ میں اضافہ ہو۔2001ء کے بعد سے پاکستانی حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میںامریکہ کی اتحادی ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ عام خیال ہے کہ افغان طالبان کو پاکستانی علاقے سے غیر سرکاری طور پر مدد اور حمایت مل رہی ہے۔ اس سے اس بات کی بھی وضاحت ہوسکتی ہے کہ افغان طالبان لیڈروں کی پاکستان میں موجودگی کوپاکستان 2001ء سے برداشت کیوںکرتا آرہا ہے جبکہ القاعدہ کے متعدد ارکان کا مستعدی سے تعاقب کرکے انہیں گرفتار کیا گیا۔ 2004ء میںپاکستانی فوج نے قبائلی علاقوں میں پاکستانی عسکریت پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔ لیکن موجودہ کریک ڈاؤن اس لیے کیا جارہا ہے کہ وہ خود ریاست کی سلامتی کیلئے خطرہ بن گئے ہیں۔اس وقت پاکستانی حکام پر افغان طالبان کے محفوظ ٹھکانے ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جارہا ہے اور ان سے ''ڈومور'' کا مطالبہ ہورہا ہے ۔ کیوں کہ پاکستان میں افغان طالبان کے ان محفوظ ٹھکانوں کو امریکہ اور نیٹو کی افغانستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کی مہم میں بڑی رکاوٹ سمجھا جارہا ہے۔افغان طالبان پاکستانی طالبان سے کسی قسم کے تنظیمی تعلق سے مسلسل انکار کرتے آرہے ہیں۔بلکہ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان کے باہر ان کے قطعاً کوئی عزایم نہیں ہیں۔(35) موجودہ حالات میںعالمی دہشت گردی کے ساتھ منسلک ہونا ان کی مجموعی حکمت عملی کے لیے بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔ افغان طالبان کو جب تک ان کی موجودہ حکمت عملی کامیاب محسوس ہوگی انہیں کسی نئے علاقے میں مہم جوئی میںکوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔

این سٹنرسن ناروے کی ڈیفنس ریسرچ اسٹیبلشمنٹ (ایف ایف آئی) کے ٹیررازم ریسرچ گروپ کی فیلو ہیں اور پی ایچ ڈی کررہی ہیں انہوں نے اوسلو یونیورسٹی سے مطالعہ عربی میں ایم فل کیا۔ وہ ایک کتاب Al-Qaida's Quest for weapons of mass destruction the history behind the help کی مصنفہ ہیں۔

_____________
حوالہ جات
1- Inside the taliban graduation ABC news, june 28, 2007
2- Antonio Giustozzi,Karan,Kalasbnikov and Laptop:the NeoTaliban insurgency in Afghanistan (London:-2 Hurst,2007,p.13
-3 افغان شورش کی مختلف پرتوں کے درمیان امتیاز کرنا ضروری ہے ۔افغان طالبان قیادت (ملا عمر اور ان کی شوریٰ کونسل جیسے کوئٹہ شوریٰ کا نام بھی دیا جارہا ہے) عمومی ہدایات دیتی ہے اور تنظیم کی طرف سے بیان دیتی ہے۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقے میں مقامی کمانڈر طالبان کے نام پر کارروائیاں کرتے ہیں اور اکثر کافی آزادانہ طور پر غیر ملکی عسکری نیٹ ورک مثلاً پاکستانی طالبان اور القاعدہ افغان شورش کی قیادت کرتے ہیں لیکن ا ن کا ایجنڈا زیادہ وسیع ہے اور اپنے نام سے ہی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مضمون میںیہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سینئر طالبان قیادت کا سرکاری نقطہ نظر وہ ہے جو ان کی سرکاری ویب سائٹس، اعلامیے اور اسلامی امارت افغانستان کے ترجمان بیان کرتے ہیں، ملا عمر نے 2007ء میں خود کہا تھا کہ اسلامی امارت القاعدہ کا بیان وہ ہوگاجو ہمارے سرکاری ترجمان دیں یا امارت کے ویب پیج پر ہو۔
For more,see Mukhtar A. khan Quetta:The Headquarters of the Afghan Taliban: CTC sentinel 2:5(2009)
-4 مقامی تنازعات کو بین الاقوامی بنانے کے بارے میں مزید مطالعے کے لیے دیکھئے:
Ashid kjak.Thomas Hegghammerism? Exploring the links Annika Hansenetal.., Restasing heaceor provohing terror between Multilateral military interwentions and international terrorism (Kjeller :Norwagian defence research establishment.2003):brynjar lia and ashild kjok,islamist insurgencie,diosporic,support networks and thir host state.The case of the algerion CIA in europe 1993-2000(Kjeller norwegian defence research establishment ,2001) Kjeller :norwegian defence rseak estabishment ,2001) Matthew levit .Could hamas target the west?: studies in conflict and terrorism 30.11.(2007):PP.945.
-5 یورپی منصوبے میں بیت اللہ محسود کی تحریک طالبان پاکستان کے ملوث ہونے کے بارے میں مزید دیکھئے:
Fernado reinares" A case study of the january 2008 suicide bomb plot in barcelona"CTC sentinel.2.1 (2009)
6- "Two dead in eplosion near german embassy" Der spieget.january 17.2009
-7 2005ء میں ڈنمارک اخبار میں، گستاخانہ کارٹون کی اشاعت پر پورے عالم اسلام کا احتجاج ہوا۔
8- Islamic emirate of Afghanistan "The eternal enemies of Islam have committed another historic crime" april.2008
9- Islamic emirate of afghanistan"Statement from the shura council on the production of a film desscarting the Quran by a member of parliamentin holland. "march 30,2008: islamic emirate of afghanistan "heavey casualities were inflieted on the dutch forees in uruzgan (in revenge for the film by geert wilders) "march 31, 2008 islamic emirate of afghanistan. "killing 8 dutch occupiers, Including the son of the Commander of the Dutch forces, in the series of revenge operations in re.taliation for the publishing of the harmful film , fitna" april 21,2008.
10- "inside the taliban graduation"
-11 افواہ تھی کہ وہ اپنے القاعدہ کے اتحادیوں کی مدد سے آزاد طاقت کا مرکز اپنانا چاہتا ہے۔خدشہ تھاکہ اس طرح وہ ملا عمر کاحریف بن جائے گا۔دیکھئے:
Dadullah sacking highlights taliban rifts." Jane. Terrorism and security monitor january 16, 2008
-12 اس تعلق کے بارے میںبہت کم تفصیلات ملتی ہیںالبتہ یہ بات قابل غور ہے کہ شیخ محمد یاسر کے علاوہ صرف ملا داد اللہ اور اس کا بھائی منصور ہی طالبان کے وہ اہم رہنما ہیں جن کا القاعدہ کی پراپیگنڈہ ایجنسی''الصحاب'' ذکر کرتی رہی۔
13- "Taliban Threatens to carry out operations in paris unless france withdraws from afghanistan"al-Ar abiya, November 18.2008:" Taliban video warning to france} Reuters, November 17.2008
14- "Taliban kill 10 french troops in afghanistan" reuteres, august 19.2008
15- "eplosives found in paris store" BBC, December 2008
16- {"Explosives found paris Department store."times online ,December 17.2008
-17 ایضاً
-18 ایضاً
-19 اس منصوبے کے تفصیلی تجزیئے اور اس کے بین الاقوامی رابطوں کیلئے دیکھئے Reinares
20- "NEFA Exclusives: video interviews with Top pakistani taliban spokesman maulvi omar" NEFA foundation Agust 29.2008
21- Reinares
22- "Taliban,s foreingn support vexes U.S" Wall street journal-22 ,june 1.2009
23- "Einar wigen islamic jihad union: al-Qaida's key to the turkie world? (Kjeller:Norwegian Defence Research Establisment,2009).
24- "Germany's firstsuicide bomber in afghanistan?" Der spiegel. March 15-2008
25- "Video: Afghanistan veteran mujahadeen defices west." Adnkronos, Internationl , undated.
26- Petter nesser" Lessons Learned from the september 2007 German Terrorist Plot, CTC sentinel 1:4(2008)
27- "Interiew withe taliban commander sirajuddin haqqani."NEFA foundation , August 18.2008
28- "taliban,s siraj haqqani shrugs off $5m bounty." Afpax insider.july 4.2009
29- "interview with taliban spokesman zabiullah mujahid NEFA foundation, february 1, 2008
30- "Transcript:Afghan taliban spokesman discusses war." CNN may 5, 2009
31- "Agha jan mutasim: The struggle in Afghanistan and opportunities for dialogue." al-jazira, May 10,2009.
32- Brynjar lia and thomas hegghammer" jihadi startegic studies: The Alleged al qaida policy study preced. ing the Madrid bombings," Studies in conflict and terror-ing the madrid bombings."studies in conflict and terror ism 27.5 (2004): PP 355.375
-33 آئی جے یو اور القاعدہ جرمنی میںبھی لوگوں پر زور دیتی رہیں کہ وہ ان سیاستدانوں کو ووٹ دیں جو افغانستان سے جرمن فوجوں کی واپسی چاہتے ہیں انہوں نے حملوں کی دھمکی بھی دی۔ یہ پروپیگنڈہ بھی کیا گیا کہ جرمنی میں جنگ کی کم حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ نیٹو ٹوٹنے والا ہے۔
34- "Taliban,s sanctuary bases in pakistan must be eliminated." RAND corporation. june 9,2008
35- "Interviw with taliban spokesman zabiullah mujahid." NEFA foundation. February 1.2008.