working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

شدت پسندی پر ابہام

پاکستان میں شدّت پسندی کے رجحانات اور اس کی سطح ماپنے کے لیے سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر کوئی منضبط کاوش نہیں ہوئی ہے۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کی ماہیت اور اقسام کا معلوم ہو سکے اور یہ کہ رویوں میں اندرونی و بیرونی سطح پر سیاسی، معاشی، مذہبی، سماجی اور ثقافتی عوامل کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں اور کس طرح یہ شدت پسندی تشدد کی طرف لے کر جاتی ہے؟ ظاہرہے جب آپ ایک مظہر کی ماہیت سے ہی واقف نہیں تو پالیسی، تعلیمی اور سماجی سطح پر اس کے تدارک کے لیے کوئی جا مع حکمت عملی ترتیب نہیں دے سکتے۔ یہاں یہ سوال بھی اْٹھایا جاتا ہے کہ کیا ہم بحیثیت قوم کوئی ایسی حکمت عملی بنانا بھی چاہتے ہیں یا نہیں؟ ہمارے خیال میں اس کا تعلق بھی مسئلے کی نوعیت اور حساسیت سے کماحقہ آگاہی کا نہ ہونا ہے۔

یہی وجہ ہے جب دہشت گرد ہمارے شہروں اور اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں توکچھ وقت کے لیے بحث شروع ہوتی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جب ان دہشت گردوں کے پس منظراور مقاصد پر نظر جاتی ہے تو ایک ابہام اپنے تسلط میں لے لیتا ہے کہ یہ اپنے ہی لوگ ہیں اور مقاصد بھی ''نیک'' ہیں مگر یہ اپنے ہی لوگوں کی جان کیوں لے رہے ہیں؟ پھر ایک غصے اور تشنج کی کیفیت میں باہر دیکھنے لگتے ہیں اور اپنے ہمسایہ ممالک سے لے کر پوری دنیا خصوصاً مغرب اپنے خلاف نظر آتا ہے جو ایک اسلامی ایٹمی قوت کے در پے ہے اور پھر اپنی حکومت بھی ان کی کٹھ پتلی نظر آتی ہے اور فوراً نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ دشمن قوتیں ہمارے محرومیوں کے شکار طبقات اور نوجوانوں کو ورغلا کر ہمارے ہی خلاف استعمال کر رہی ہیں۔

یہ ابہام عوامی سطح پر ہی نہیں ریاستی اداروں اور دانش ورانہ سطح پر بھی نظر آتا ہے اور ہمیں کسی طور یقین ہی نہیں آتا کہ ہمارے اندر سے بھی کوئی عفریت اُٹھ کر ہمیں اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ کچھ ایسی ہی صورتحال نو جوانوں کی ایک کانفرنس میں پیش آئی اور طالبان اور عسکری گروپوں کے لیے'' دہشت گرد'' کے لیبل پر کچھ تکرار ہوئی۔ ہمارا استدلال تھا کہ جب ہمارا کوئی قریبی عزیز کسی جرم کا مرتکب ہوتا ہے اور یہ جُرم ثابت بھی ہو جائے تو ہمیں اْسے مجرم کہنے میں پھر بھی تامّل رہتا ہے۔ یہی کیفیت قومی اور سماجی سطح پر ہے لیکن کیا ہمارے تامّل سے مجرم کے جرم کی کیفیت تبدیل ہو جاتی ہے؟ کیا عدالت اور معاشرہ اُسے بری الذّمہ قرار دے دیتا ہے؟ تو پھر اجتما عی سطح پر ہمارے تامّل سے دہشت گردوں کے جرائم چھپ نہیں جائیں گے۔ اگر ہم نہیں تو باہر سے لوگ تو انہیں ان کے جرم کی معرفت ہی یاد کریں گے خواہ ہمارے نزدیک جُرم کے محرکات پر بے شمار تاویلیں کیوں ہی موجود نہ ہوں۔

یہ ابہام محض اس صورت میں ہی دور ہو سکتا ہے کہ ہم ذاتی اور اجتما عی سطحوں پر اپنے آپ کا سامنا کرنے کی جرأت رکھتے ہوں اور اپنی ذات پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کے متحمل ہوں۔ حقیقت پسندی بہت سے مسائل کا واحد حل ہے۔