working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

اندرونی بغاوت: القاعدہ کے منصوبہ ساز رہنما کے اختلافی سوالات
لارنس رائیٹ
مضمون کے مصنف لارنس رائیٹ کا کہنا ہے کہ بعض اسلامی تنظیمیں پرتشدد طریقے اختیار کر کے اتنی آگے جا چکی ہیں کہ اب وہ آخری کنارے پر پہنچ گئی ہیں۔ پھر وہ اسلامی تنظیم ''الجہاد'' کے حوالے سے سوال اٹھاتے ہوئے کہتا ہے کہ کیا ''الجہاد'' کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے اور کیا یہ عمل القاعدہ کے ساتھ بھی پیش آ سکتا ہے۔ جبکہ صورتِ حال جو ہمارے سامنے ہے۔ القاعدہ کو ہم دوسرے عمل سے نبردآزما دیکھتے ہیں یعنی اسے دنیا بھر میں کنارے لگانے کے لیے ہر ملک اپنی سی تدابیر اختیار کیے ہوئے ہے جبکہ یہ تنظیم اب ایک ایسے تناور درخت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جس کی جڑیں کہیں زمین کے اندرون میں پیوست ہو چکی ہیں۔ یہ مضمون نہ صرف ان تنظیموں بلکہ ان کے رہنمائوں جیسے الظواہری، سید امام الشریف کے ساتھ ساتھ ماضی میں مصر کے صدر جمال عبدالناصر کے انتظامی طریق کار، اس کے وسیع و عریض نیٹ ورک جو اسے ہر طرح کی اطلاعات فراہم کرتا۔ اس کی خفیہ پولیس جو بے حد فعال تھی۔ جس کے ذریعے اس نے جیلیں جہادیوں سے بھر دی تھیں اور قیدخانے، ایذا رسانی جن کا خاص وصف تھی۔
یہ مضمون اس امر کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے کہ کس طرح پشاور اور بعض دوسرے سرحدی شہر، عرب اور دوسرے خلیجی ملکوں سے آنے والے ان جہادی رہنمائوں کا گڑھ بن گئے اور کس طرح مقامی لوگوں نے ان کے مقاصد کے بیج کو پھلنے پھولنے کے لیے آبیاری کی۔ نیز ان کے نزدیک ایک اسلامی حکومت کے حوالے سے اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی لانے کے لیے کیا کچھ اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور وہ اس میں کس حد تک آگے جا سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ ان کے اس ایک فقرہ سے لگایا جا سکتا ہے۔ ''بے دین حکومتوں کا خاتمہ مسلح جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔''
مضمون کا پہلا حصہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ باقی آیندہ پر اٹھا رکھتے ہیں۔ (مدیر)

پچھلے مہینے عربی اخبار ''الشرق الوسط'' کے لندن کے دفتر میں انتہا پسندوں کی کئی ناموں سے معروف ایک اسلامی تحریک کی جانب سے فیکس موصول ہوا۔

سید امام الشریف جو کہ مصری دہشت گرد گروپ ''الجہاد'' کا سابقہ لیڈر تھا اور متوازی دنیا میں ڈاکٹر فادل کے نام سے پہچانا جاتا تھا اور الجہاد کے ارکان کے ہمراہ القاعدہ میں ضم ہو کر اسکا باقاعدہ حصہ بن چکا تھا۔ اس تنظیم میں ایمن الظواہری اور امیر اسامہ بن لادن بھی شامل تھے۔ القاعدہ کی ہر اول کونسل کا فادل سے پہلا رکن منتخب ہوا بیس سال پیشتر اس نے جدید اسلام پر دو اہم کتابیں لکھیں جن سے القاعدہ استفادہ کرتی رہی تھی اس میں نوجونوں کی بھرتی کا طریقہ کار اور اقدام قتل کے جواز فراہم کیے گئے تھے مگر اب فادل نے ایک نئی کتاب لکھنے کا اعلان کیا۔ جس میں القاعدہ کے پر تشدد رویوں سے لا تعلقی کا اظہار کیا گیا تھا اس نے مصر کی توراجیل سے فیکس بھیجی تھی جس میں وضاحت کی گئی '' اگر اسلام کے دشمن ظلم کا ارتکاب کریں پھر بھی ہمیں شرعی طور پر فساد پھیلانے سے منع کیا گیا ہے''

فادل کے فیکس سے ان افواہوں کی تصدیق ہوگئی کہ الجہاد کے قیدی لیڈر بھی اسی رحجان کا حصہ ہیں جس کے تحت ابتداء میں شمولیت اختیار کرنے والے اب تشدد پسندانہ رویوں سے علیحدگی اختیار کررہے تھے فادل کی دستبرداری دہشت گردوں کیلئے خطرے کی گھنٹی تھی کیونکہ اس نے ان کے حقِ خود اختیاری کو کھلم کھلا چیلنج کردیا تھا اس نے لکھا کہ'' خدا اور رسولۖ کی اطاعت کسی دنیاوی لیڈر کی پیروی سے بہتر ہے''… فادل نے کہا کہ سینکڑوں کی تعداد میں مصر کی جہادی تنظیموں سے وابستہ افراد اس کے استدلال کی تصدیق کررہے ہیں۔

فادل کی فیکس کے دو مہینے کے بعد الظواہری ایک ویڈیو ٹیپ پر نمو دار ہوا اور القاعدہ کی جانب سے وضاحتی بیان جاری کیا'' کیا فادل کے پاس مصری جیل میں بھی فیکس مشین موجود ہے'' اس نے کہا'' میں حیران ہوں کہ وہ بھی ایسی بجلی کی تاروں سے جڑا ہوا ہے، جس سے مشینیں کام کرتی ہیں'' اس طنزیہ بیان سے شاید اس تکلیف دہ ، سوچ کا اظہار ہوتا تھا جو کہ فادل کے نئے اور جدید منشور کی صورت میں مصر اور کویت کے اخبارات کی زینت بننے کے بعد القاعدہ کے اندر داخل ہورہے تھے۔فادل کا گزشتہ سے پیوستہ کام القاعدہ کیلئے قتل و غارت گری کے قانون کی بنیاد پر فراہم کرتا تھا حال ہی میں قاہرہ کے سفر کے دوران میں مسلمان مصنف اور پبلشر گیمل سلطان سے ملا اس نے بتایا کہ فادل جیسے سکالر کے وضع کردہ نظریات کی دنیا میں پذیرائی ہوئی ہے۔ مونسٹر جرمنی کا ڈائریکٹر ہے نے مجھے بتایا ''بہت سے لوگ فادل کی ریسرچ کو بنیاد بنا کر کام کرتے ہیں، یقیناً وہ بہت اہم شخصیت ہے جب ڈاکٹر فادل تقریر کرتا ہے تو ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے سناجائے '' اگرچہ فادل اور الظواہری کے درمیان مباحثہ پوشیدہ ، کڑوا اور تلخ حقائق پرمبنی تھا مگر یہ پیش رفت مغرب کیلئے اہمیت کی حامل تھی۔

دوسری اسلامی تنظیمیں پر تشدد طریقے اختیار کرکے اتنی آگے جا چکی ہیں کہ اب وہ آخری کنارے پر پہنچ گئی ہیں کیا الجہاد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا اور کیا یہ عمل القاعدہ کے ساتھ بھی پیش آسکتا ہے…؟
جہاد کے امام
القاعدہ میں اس تصوّراتی جنگ کی جڑیں 40 سال پرانی ہیں۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب 1968 ء میں دو ذہین نوجوان قاہرہ یونیورسٹی کے میڈیکل کے شعبے میں ایک دوسرے سے ملے 17 سالہ طالب علم الظواہری وہاں زیر تعلیم تھا اور خفیہ طور پر ایک اسلامی تحریک سے بھی وابستہ تھا۔اگرچہ پیدائشی لیڈر نہ تھا۔ لیکن ایک لا ابالی نوجوان کی طرح بلند ہمت تھا اور یہ یقین رکھتا تھا کہ قسمت اس کے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔

دوسرا طالب علم لمبا چوڑا اور مضبوط جسم کا مالک سید امام الشریف تھا وہ اپنی ذہانت اور شرافت کی وجہ سے مشہور تھا۔امام کے متعلق عام خیال تھا کہ ایک دن وہ بڑا سر جن یا مبلغ بنے گا۔ (الشریف نام سے اس کا نسبی تعلق حضرت محمد ۖ کے خانوادے سے ظاہر ہوتا ہے)۔ اس کا باپ ہیڈ ماسٹر تھا اور بنی سیف کے قصبے میں جو کہ قاہرہ کے جنوب میں 75 میل پر واقع ہے ملاز م تھا اور پرانے خیالات کا داعی تھا۔ امام بھی ہفتے میں دو روزے رکھتا اور باقاعدگی سے قرآن کی تلاوت کرتا وہ چھٹی جماعت میں ہی قرآن حفظ کرچکا تھا۔ جب وہ پندرہ سال کا تھاتو مصری حکومت نے اس کی ذہانت کی وجہ سے بورڈنگ اسکول قاہرہ میں اسے داخلہ دے دیا۔ تین سال بعد وہ میڈیکل سکول میں داخل ہوا اور پلاسٹک سرجن بننے کی تیاری شروع کردی اور جلے ہوئے مریضوں کے علاج میں کمال حاصل کیا۔ الظواہری اور امام دونوں نیک اوراعلیٰ خیالات کے حامل، لائق تحسین اور کٹڑ نظریات کے مالک تھے وہ فطرت کے اصولوں کی مدد سے معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی دولت سے مالا مال تھے اور یہ صلاحیتیں ان میں خدا داد تھیںایسے دماغ ایک مثالی انجینئر اور ٹیکنوکریٹ کے ہی ہوسکتے تھے۔چنانچہ انہوں نے انتہا پسند مکتبہ فکر سلفی ازم کی شاخ کی بنیاد رکھی جسے اسلام کی نشاة ثانیہ کا نام دیا گیا۔

امام جان چکا تھا کہ الظواہری انڈر گراؤنڈ دنیا سے تعلق رکھتا ہے۔''مجھے دوسرے طالبعلموں سے معلوم ہوا کہ ایمن اسلامی گروپ میں شامل تھا'' یہ بات اس نے ایک عربی قومیت کے اخبار کے رپورٹر کوبتائی تھی یہ گروپ'' الجہاد'' کے نام سے جانا جانے لگا۔ ان کے مباحثوں کامرکزی خیال اسلام ہوتا اور وہ ملک کو اسلام سے دور ہوتا دیکھ رہے تھے اور مصری حکومتی قوانین کو اسلامی اور شرعی قوانین سے متصادم خیال کرتے تھے اور یہی وہ وقت تھا جب''الجہاد'' سے وابستہ نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ انہیں اب کچھ کرنا ہوگا۔

اور اس طرح یہ نوجوان اپنی زندگیوں اور شاید اپنے خاندانوں کو بھی خوفناک خطرات سے دوچار کرنے والے تھے مصر کی فوجی حکومت اس وقت جمال عبدالناصر کے زیر انتظام تھی اس کا بہت وسیع نیٹ ورک تھا جو اطلاعات فراہم کرتا اور خفیہ پولیس بھی خاص فعال تھی جیلیں، جہادیوں سے بھر دی گئیں۔ قید خانوںکے دروازے کھل گئے۔جہاں ایذا رسانی آئے دن کا معمول تھی۔ ان ظالمانہ روّیوں کے باوجود مصری عوام کی بڑی تعداد مساجد کا رخ کررہی تھی اور انہوں نے گویا جمال عبدالناصر کی سوشلسٹ اور لادین حکومت کی سیاسی انداز میں نفی کردی تھی۔

1967 ء میںجمال عبدالناصر اپنے عرب اتحادیوں کے ہمراہ اسرائیل کے خلاف صف آراء ہوا جس کے نتیجے میں مصر کی ہوائی فوج کا خاتمہ ہوگیا اور صحرائے سینائی اسرائیل کے زیر تسلط آگیا۔ عرب ممالک کو شدید زک پہنچی اور ان کا جھکاؤ مذہبی انتہا پسندوں کی جانب ہوگیا جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ مسلمان خدا کی سرپرستی سے محروم ہوچکے ہیں اور واپسی کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ حقیقت میں اسلام کیلئے کام کیاجائے تاکہ دنیا میں دوبارہ اللہ کی حاکمیت منوائی جاسکے۔

1977 ء میں الظواہری نے امام کو اپنے گروہ میں شامل ہونے کی پیش کش کی اور اپنے آپ کو اس تنظیم کے اہم راہنما کے طور پر پیش کیا امام نے ''الحیات'' کو بتایا کہ میری شمولیت اس بات سے مشروط تھی کہ وہ ان اسلامی مفکروں سے جو الظواہری کے بقول اس کے ہمراہ تھے ملنا ضروری تھا کیونکہ کوئی تنظیم اس وقت تک قانونی حیثیت کی حامل نہیں سمجھتی جاتی جب تک علماء اسلام تصدیق نہ کریں۔

امام نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ ایمن بذاتِ خود اس روپ کا امیر بن بیٹھا تھا اور اس کے ساتھ شیخ یا علماء شامل نہیں تھے۔

1981 ء میں وہ سپاہی جو''الجہاد'' سے متاثّر تھے انہوں نے دھوکے سے انوارالسادات کو قتل کردیا اس نے دو سال پہلے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے تھے۔لیکن جہادی حکومت کا تختہ الٹنے میں ناکام رہے۔ سادات کے بعد حسنی مبارک نے ہزاروں مذہبی انتہا پسندوں کا گھیراؤ شروع کردیا۔

الظواہری پر بھی اسلحے کی سمگلنگ کا الزام لگا۔ اس سے پہلے کہ وہ پکڑا جاتا امام کے گھر گیا اور اسے فرار ہونے کا مشورہ دیا الظواہری کے چچا محفوظ اعظم کے بقول امام کا بیٹا اسماعیل الشریف جو کہ اب یمن میں رہتا ہے اس وقت کہنے لگا کہ یہ کبھی نہیں ہوگا کیونکہ الظواہری نے ہی اس کو جال میں پھنسایا ہے اور تفتیش کرنے والوں کے سامنے امام کا نام افشا کیا ہو گا۔ اگلے تین سالوں میں یہ جوان جو کبھی ایک جیسی شخصیت کے مالک تھے میں دوری نمودار ہونے لگی۔ الظواہری اس جدائی پر سیخ پا ہوا اور جیل نے اسے مزید سنگ دل بنا دیا اور قید میں رہ کر انتقام کی آگ مزید بھڑک اٹھی۔ اس نے اپنی جوانی کے پاکیزہ خیالات ترک کردیئے جب کہ امام حدود سے تجاوز نہیں کرتا تھا وہ پھر مصر سے نکل بھاگا اور پشاور کے راستے سے پاکستان میں آگیا جہاں افغان عوام روس کے افغانستان پر قبضے کے خلاف مزاحمت کررہے تھے امام نے اپنا اصل نام مخفی رکھا اور ڈاکٹر فادل بن گیا کیونکہ جہاد میں ناموں کا بدل لینا ایک عام وطیرہ تھا لینن ٹروٹسکی اور چی گویرا کی طرح اس نے بھی انقلابی سکالر اور ذی فہم شخص کا لبادہ اوڑھ لیا یوں فادل سرجری کا کام انجام دینے لگا۔ وہ بھی زخمی جنگجوؤں کی خدمت کرتا اور جہاد کے لیے روحانی جذبات کو ابھارتا ۔1984 ء میں الظواہری کی سزا ختم ہوئی اور وہ بھی مصر سے نکل آیا وہ جلد سے جلد پشاور پہنچ کر فادل سے ملنا چاہتا تھا جو اس وقت ہلال احمر کے ہسپتال میں ڈائریکٹر بن چکا تھا۔ اس کے باوجود کہ فادل ظواہری کو سرجن بننے کے لائق نہیں سمجھتا تھا مگر اس کی درخواست پر اس نے اس کوسرجری سکھائی جس سے ظواہری بھی آپریشن کرنے کے قابل ہوگیا۔

1980 ء کی دہائی کے وسط میں فادل، الجہاد کا امیر بن گیا(فادل نے الحیات کو بتایا کہ یہ کہنا سرا سر غلط ہے کہ جماعت میں اس کا کردار فقط شریعت کی تعلیم دینے تک ہی محدود تھا) ظواہری کی شخصیت پر جیل میںاعتراف جرم کی وجہ سے دھبہّ لگ چکا تھا اس لیے وہ جنگی حکمت عملیوں سے کنارہ کش ہو چکا تھا اور وہ فادل کے عملی استعداد کار سے بھی خاصا مختلف تھا پشاور میں آنے والے جہادی فادل کے قرآن و حدیث پر دسترس کی وجہ سے بے حد احترام کرتے تھے۔ اسامہ ایوب جو ان دنوں پشاور میں تھا، نے انکشاف کیا''فادل کہتا فلاں کتاب ملاحظہ کرو، فلاح صفحہ پلٹو اور مذکورہ مضمون بمعہ حوالہ جات کے سامنے ہوتا۔''

کمال ہیلباوے جو کہ ''اخوان المسلمین'' کا مصر میں نمائندہ تھا وہ بھی پہلے سے پشاور میں موجود تھا وہ ان دنوں کو یاد کرکے کہتا ہے کہ''فادل کا اندازِ تخاطب جامع ہوتا ،وہ اپنی شخصیت سے مرعوب کردیتا اور انہیں اپنے جہادی نظریے پر قائل کرکے چھوڑتا تھا۔ القاعدہ کے سابقہ ممبران اس کے متعلق کہتے ہیںکہ وہ بیک وقت چار چار اور پانچ پانچ گھنٹے مسلسل لیکچر دیتا تھا وہ اکثرکہتا کہ حکومت جو اقدامات کرے وہ خدا کی جانب منسوب ہوں اگر ایسا نہیں ہوتا تو لوگوں کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ کسی بھی طریقے سے حکمرانوں کو ہٹا کر الگ کر دیں۔ ایک جہادی فانی الصباحی کا کہنا ہے کہ الجہاد کے نئے آنے والے ممبران فادل کے پسِ منظر میں رہنے کی وجہ سے ظواہری کو اصل امیر سمجھتے تھے ۔ فادل اس قدر سماجی نہیں تھا وہ بالکل تنہائی پسند تھا۔ ایمن ہمیشہ پیش پیش رہتا تھا لیکن اصل میں ڈاکٹر فادل ہی حقیقی رہنما تھا۔

ظوہرای کو جو شہرت اور توجہ حاصل ہوئی وہ فادل کے ہی مرہون منت تھی۔ الحیات کو انٹرویو دیتے ہوئے فادل نے بتایا کہ ظواہری میڈیا کا شیدائی تھا اور نمود و نمائش کو پسند کرتا تھا۔ چنانچہ اسی طرح فادل کی زبان سے ظواہری گفتگو کرتا اور یوں لوگوں کی ہمدردی حاصل کرتا رہا۔ یوں رفتہ رفتہ یہ محرک دونوں اشخاص کے درمیان تنازعہ بنتا گیا۔

خلیج
پشاور میں فادل نے جہاد کے لیے نئے نئے انداز متعارف کرائے۔ جہادیوں کو جذباتی تحریروں کی ضرورت تھی جو انہیں ایسا مکتبہ فکر مہیا کرے جس سے جنگ کا جواز مہیاہو۔

ان کا اصل مقصد روس کو فتح کرنا نہیں تھا بلکہ لوگوں کو شہادت اور نجات کی راہ دکھانی تھی جب ''رہنمائے جہاد'' نامی کتاب1988 ء میں منظر عام پر آئی اس وقت افغان جہاد اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہا تھا یہ کتاب جلد ہی جہادی تربّیت کا حصہ قرار پاگئی۔ ابھی گائیڈ اس عنوان سے شروع ہوئی تھی کہ جہاد ہی اسلام کی اصل روح ہے۔ مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اپنے آپ کو کافروں کے مقابلے کے لیے تیار رکھیں۔

فادل نے امن کی کوششوں کو بدزنی پر محمول کیا کیونکہ جہاد ایک مذہبی فریضہ ہے جس کا انعام خدا کے پاس ہے جو لوگ جہاد کی خاطر رقم مہیا کرتے ہیں وہ جنت میںجائیں گے مگرجہادیوں کا رتبہ ان سے بلند ہے۔سب سے بڑا انعام شہادت ہے ہر آدمی اپنے آپ کو جہاد کا اہل بنائے، بہت سے مسلمان ملکوں پر ملحد حکمرانی کررہے ہیں جنہیں طاقت کے زور سے ہٹا دینا چاہیے تاکہ اسلامی حکومت کیلئے راہ ہموار کی جاسکے … جہادی گائید میں لکھا تھا کہ''بے دین'' حکومتوں کا خاتمہ مسلح جدوجہد سے ہی ممکن ہے''

عرب ممالک میں اس کتاب کو اتنا خطرناک سمجھا گیا کہ اس کے پڑھنے والے کو قابل گرفتاری قرار دے دیا گیا۔

11 اگست 1988 ء کو فادل کی پشاور میں ''الجہاد'' کے اہم رہنماؤں کے ساتھ ایک میٹنگ ہوئی جس میں ایک فلسطینی عبداللہ عظام بھی شریک ہوا جو کہ اس جہاد کیلئے عرب نوجوانوں کی بھرتی کامنصوبہ بنارہا تھا۔اعظم کے ساتھ آنے والا نوجوان جس کا نام اسامہ بن لادن تھا وہ بھی ان کے ساتھ اس اجلاس میں شامل تھا۔روس نے پہلے ہی افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا عندیہ دے دیا تھا اور ان نوجوانوں کے ذہن فتح کے بعد نئے نئے خوابوں سے سر شار ہورہے تھے مگر یہ سب ایک جیسے خواب نہیں تھے مثلاً الجہاد کے لیڈر خصوصاً الظواہری یہ چاہتا تھا کہ ان جنگجوؤں کو مصر کی حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے استعمال کرے۔عظام عرب مجاہدین کا رخ فلسطین کی جانب موڑنا چاہتا تھا مگر پیسوں کی کمی آڑے آرہی تھی جس کی وجہ سے کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ برآمد ہوا۔ بن لادن کی بات دوسری تھی وہ امیر آدمی تھا اورخود ساختہ خیالات کا مالک تھا اس کی رائے میں تمام عرب ایک بڑا لشکر ترتیب دے کر واپس جانے والی روسی فوج کا وسطی ایشیاء تک تعاقب کریں اور اس مارکسی حکومت کے خلاف جہاد کریں۔ جو اس وقت جنوبی یمن میں اقتدار پر قابض تھی منتظر الزیاط جو کہ قاہرہ میں اسلام پسندوں کا وکیل ہے اسی نے الظواہری کے کی زندگی کے حالات بھی قلم بند کیے تھے کا کہنا ہے کہ فادل نے مشورہ دیاکہ الجہاد کے ارکان کو بن لادن کی مدد کرنی چاہیے۔ سعودیوں کی رقم اور مصری ماہرین کی شمولیت سے اس روز ایک نیا گروپ تشکیل پا گیا جسے القاعدہ کا نام دیا گیا جبکہ فادل اس کا اہم اور مرکزی کردار بن کر سامنے آیا الحیات کو انٹرویو دیتے ہوئے فادل نے بتایا کہ''کئی سال تک القاعدہ میرے مشوروں پر عمل کرتی رہی۔

1989ء میں روسی فوجوں کے افغانستان سے انخلاء کے بعد الظواہری اور الجہاد کے دوسرے بہت سے لوگ دوبارہ سوڈان میں پائے گئے ہیں۔لادن نے بھی سعودی عرب کے شاہی خاندان سے اختلاف کی وجہ سے ملک چھوڑ دیا اور سوڈان میں کارروائیاں کرنے لگا ظواہری نے فادل ور اس کے اہل خانہ سے درخواست کی کہ وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہو جائیں۔فادل اس وقت اس کے بقول ایک نہایت علمی کام مکمل کررہا تھا جس کا نام اس نے''آفاقی حکمت کی تلاش'' تجویز کیا تھا۔ فادل کے بیٹے اسماعیل الشریف نے مجھے بتایا'' ہم فوراً تیار ہوگئے ظواہری نے خرطوم کے ہوائی اڈے پر ہمارا استقبال کیا اور ہمیں ایک فلیٹ میں ٹھہرایا۔… پھر میرے والد سے کہنے لگا تمہیں کام کی ضرورت نہیں ہم تمہیں باقاعدگی سے تنخواہ دیں گے ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم اپنی کتاب مکمل کرو''۔

سوڈان میں الجہاد کے ارکان اپنے گروہ کو ایک بڑی تنظیم کی صورت میں دیکھ رہے تھے انہوں نے مصر میںجنگی صورت حال پیدا کردی تھی دونوں بڑے گروہ یہ چاہتے تھے کہ لادین حکومتوں اور سرکاری ملائوں کے مکتبوں سے نجات حاصل کی جائے مگر دونوں کے انداز مختلف تھے الجہاد کا نیٹ ورک قاہرہ کے مرکز میں واقع لوگوں کے گھروں تک پھیلا ہوا تھا جب کہ الظواہری کا خیال تھا کہ فوجی انقلاب کے ذریعے ملک میں تبدیلی لائی جائے۔ کرم زہدی جو کہ ایک اسلامی گروپ کا بانی تھا اور اسود کی زرعی یونیورسٹی کا سابقہ طالب علم رہ چکا تھا اس کے گروہ کی یہ رائے تھی کہ ملک میںسماجی انقلاب لایاجائے۔ اس جماعت کے ارکان اسلامی اقدار کا احیاء چاہتے تھے اور ان کا نعرہ تھا'' اچھائی لاؤ اور برائی بھگاؤ'' ان نوجوان نے ویڈیو کی دکانوں، موسیقی اور سینما گھروں اور شراب کی دکانوں کو آگ لگانا شروع کردی وہ عورتوں کو حجاب میں دیکھنا چاہتے تھے وہ مصر کی لا دین اقلیتوں کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو جاتے اور کلیساؤں کو نشانہ بناتے۔ انہوں نے حکومت کے سیکورٹی اداروں کے علاقائی دفاتر پربھی حملے کیے ،کمانڈروں کے سر قلم کردیئے اور بڑی تعداد میں پولیس کے آدمی مار ڈالے۔ کشت و خون کو اسلامی گروپ کی کامیابی پر محمول کیا گیا اور یہ قتل ِعام اللہ کے نام پر کیا جارہا تھا ۔1981 ء میں انوار السادات کے قتل کے بعد مصری حکومت نے مجاہدین کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کیا۔ زہدی کو گرفتار کر لیا گیا اور وہ بھی الظوہری کی طرح توراجیل میں تین سال تک قید رہا گو کہ وہ دونوں دوست نہیں تھے مگر ایک دوسرے سے عزت سے پیش آتے تھے زہدی نے ماضی کی باتیں سناتے ہوئے بتایا'' ڈاکٹر ایمن نرم مزاج اور با اخلاق انسان تھا وہ فوجی ماہر ہرگز نہیں تھا وہ تو ایک عام سا ڈاکٹر تھا کوئی بھی ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ وہی کل والا ایمن الظواہری ہے ''زہدی دو عشروں تک جیل میں قید رہا جبکہ ظواہری تین سال کی سزا کاٹنے کے بعد رہا ہوا تھا۔

1990 ء میں اسلامی گروپ کا نمائندہ قاہرہ کی گلیوں میں قتل کردیا گیا جس میں حکومت کے ملوّث ہونے پر شک کیا گیا… لیکن جلد ہی ایک اسلامی گروپ نے اس کی ذمہ داری قبول کرلی پھر دہشت گردی کی نئی لہر آئی درجنوں پولیس افسران قتل کردیئے گئے انٹیلیکچوئل بھی ان کی ہٹ لسٹ میں شامل تھے جن میں نوبل انعام یافتہ ناول نگار نجیب محفوظ بھی شامل تھا اسے بھی گردن پر زخم آئے مگر وہ بچ گیا اگلے قدم کے طور پر اسلامی گروپ نے سیاحوں کو نشانہ بنایا اور یہ وضاحت کی "یہ لوگ مصری معاشرے کو پراگندہ کررہے ہیں اور اپنی نازیبا اور غیر اخلاقی حرکات کے مرتکب ہوتے ہیں جو کہ اسلام کے سراسر منافی ہیں۔"

یہ گروہ دیسی ساخت کے بموں سے سیاحوں پر حملے کرتے جو کہ بسوں ، ریل گاڑیوں اور بحری جہازوں پر نیل میں سفر کرتے تھے یوں ملکی معیشت کمزور ہو کر رہ گئی۔1990 ء کے عشرے میںمصر میں بارہ سو سے زائد افراد دہشت گردوں کے حملوں میںمار ڈالے گئے۔

ادھر الجہاد کے جلاوطن لوگوں نے فیصلہ کیاکہ انہیں بھی ان ہنگاموں میں حصہ لینے کی ضرورت ہے مگر فادل متفق نہیں تھا۔ اس کے خیال میں نا انصاف حکمرانوں کے خلاف جنگ تو جاری رہنی چاہیے مگر اسے یقین تھاکہ مصری حکومت خاصی طاقتور ہے اور بغاوت نا کام ہو جائے گی۔ اسے یہ بھی گلہ تھا الجہاد محض اسلامی گروپ کی ہمسری میں آپریشن کررہی ہے جو کہ ایک حواس باختہ عمل تھا جس کا کوئی فائدہ نہیںہوگا اس کا اندیشہ جلد ہی سچ ثابت ہو گیا۔ جب مصری سیکورٹی سروسز نے ایک کمپیوٹر پکڑلیا جس میں الظواہری کے تمام ساتھیوں کے نام درج تھے تقریباً ایک ہزار کے قریب لوگ پکڑے گئے۔1993 ء میں الظواہری نے انتقامی کارروائی کے طور پر خود کش بمبار روانہ کیے تاکہ وہ وزیر داخلہ حسن الالفی کو نشانہ بنائیں۔ الفی تو حملے میںبچ نکلا مگر اس کا ایک بازو ضائع ہوگیا.

دو مہینے بعدالجہاد نے مصری وزیراعظم عاطف صدیقی کو بم مارنے کی کوشش کی وزیراعظم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن اس دھماکے میں اسکول کی ایک بارہ سالہ بچی ماری گئی۔ پے در پے ناکامیوں کے بعد''الجہاد'' کے ارکان نے اپنے رہنماؤں سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیاجب فادل مستعفی ہوا تولوگ یہ جان کر حیرت زدہ رہ گئے کہ وہ ان کا امیر تھا یوں الظواہری الجہاد کا لیڈر بن گیا ۔فادل 1994 ء میں یمن کی جانب نکل گیا وہاں اس نے دوبارہ میڈیکل کی پریکٹس شروع کردی اس طرح گزشتہ زندگی کو بھول جانے کی کوشش کی، اس نے جانے سے پہلے اپنے قلمی مسوّدے کومکمل کیا اور الظواہری کے حوالے کردیا اورکہا کہ اس کے بکنے سے خطیر رقم ہاتھ آئے گی۔

فادل نے یہ کتاب عبدالقدیر بن عبدالعزیز کے فرضی نام سے لکھی کیونکہ یہ نام مصر ی نہیں تھا اور اس بہروپ سے اس کی شناخت نہیں ہوسکتی تھی اس فرضی نام کے استعمال سے اس کے پیش نظر یہ خیال تھاکہ شاید تنازعات میں اس کی پوزیشن پرحرف نہیں آئے گا۔

فادل کی کتاب
"The Compendium of the Pursuit Divine Knowledge"
ایک ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل تھی اور اس موضوع سے شروع ہوتی تھی کہ نجات کا ذریعہ صرف مکمل مسلمان ہونے کی صورت میں ہے۔مگر کسی مثالی انسان کا ایک غلط قدم اسے جنت کے راستے سے بھٹکا بھی سکتا ہے۔ فادل کے نزدیک مصر اور دوسرے عرب ممالک کے مسلمان حکمران مرتد افراد کی لسٹ میں شامل ہو چکے تھے اس نے دعویٰ کیا کہ ''ان کی عبادات اور ان کے پیچھے عبادت کی ادائیگی قابلِ قبول نہیں اور ان لوگوں کا خون بہانا جائز ہے'' اس نے اعلان کیا کہ مسلمانوں پر فرض ہے کہ ایسے رہنماؤں کے خلاف جہاد کریں اور جو ان بے دین عناصر کی تقلید کرتے ہیں وہ بھی ملحد ہیں ان کے خلاف جہاد فرض ہے اور جو لوگ جمہوری الیکشن میںحصہ لیں گے خدا انہیں بھی ضرور سزا دے گا اس نے کہا کہ میں مسلمانوں کو یہ صاف الفاظ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ لادین قوم پرست جمہوریت تمہارے مذہب اور عقیدے کے منافی ہے۔ جو اس پر عمل کرے گا سمجھ لو اس نے خدا کی کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور حکومتی ادارے مثلاً پولیس ، عدالتیں سب غیر اسلامی ہیں اور جو پر امن تبدیلی، جہاد اور غیر سیاسی اصلاحات کا حامی ہے راہِ راست پر ہے ۔فادل نے متنبہ کیا کہ زندگی ایک تنے ہوئے رسّے کی مانند ہے ایک انسان کئی راستوں سے اس پر چل سکتا ہے لیکن ایک غلط قدم اٹھانے سے مذہبی دائرے سے خارج ہو جاتا ہے اگرکوئی ایمان لائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ ملحد ہے اور خارجی ہے اور واجب القتل ہے۔

فادل نے اس کتاب میں مسئلہ تکفیر پر بحث کی ہے کہ ایک مسلمان کا بغیر ثبوت کے دوسرے مسلمان کو کافر کہنا یا اس کے عقیدے پر شک کا اظہار کرنا نا انصافی ہے ۔

اس نے حدیث سے حوالہ دیا کہ جب ایک شخص اپنے دوسرے بھائی کو کافر کہتا ہے تو ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ ان میں سے ایک ضرور کافر ہے'' فادل نے اسلام کی اتنی تنگ نظری سے تعبیر کی کہ تقریباً ہر شخص اس کے مقدس دائرے سے خارج ہوسکتا ہے ان خیالات کی پیروی کرنے والے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سیدھے راستے پر ہیں اور وہ قتل کرنے میں حق بجانب ہیں اس نظریے نے القاعدہ اور اس کے اتحادیوں کو کشت و خون کرنے کا جواز مہیا کیا۔

فادل نے بتایا کہ الظواہری بہت خوش تھا اس کے ریمارکس تھے کہ یہ کتاب خدائے عظیم کی طرف سے ایک بہت بڑی کامیابی کی نوید ہے کیونکہ ظواہری کے ساتھ اس کتاب نے آگے تک کا سفر کرنا تھا جب فادل یمن میں تھا تو اس کے خیال کے مطابق اسے سونپی گئی اسلامی تحریک کی ذمہ داری مکمل ہوچکی تھی اس کے بیٹے اسماعیل الشریف نے کویتی اخبار ''الجریدہ'' کو بتایا کہ فادل نے بن لادن کے ساتھ یہ کہہ کر کہ تمام رابطے ختم کر دیئے کہ وہ کسی دوسرے کی نصیحت پر کان نہیں دھرے گا فادل اپنے خاندان کے ہمراہ ایب کے پہاڑی قصبے میں منتقل ہوگیا اس کی دوبیویاں تھیں چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں وہ اپنے آپ کو ڈاکٹر عبدالعزیز الشریف کہلوانے لگا چھٹی والے دن وہ اپنے خاندان کے ساتھ گھومتا اور زیادہ وقت پڑھنے پڑھانے میںمصروف رہتا وہ خبروں کے علاوہ کبھی ٹی وی نہیں دیکھتا تھا اسماعیل الشریف نے مجھے بتایا کہ وہ دوست نہیں بناتا کہ یہ وقت کا ضیاع ہے۔
یمنی حکومت سے کام کے اجازت نامے کے انتظار کے دوران فادل رضا کارانہ طور پر ایک مقامی ہسپتال میں کام کرنے لگا اس کی مہارت کی خبر جلد ہی لوگوںمیں پھیل گئی۔

لوگ پورے ملک سے اس کے پاس آنے لگے اس کے بیٹے نے مجھے بتایا یہ ایک حقیقت تھی کہ فادل بغیر تنخواہ کے کام کررہا تھا اگر کویت یا یورپ میں کام کرتا تو شاید اس کو اتنی پذیرائی نہ ملتی دراصل اس کی شخصیت میں کئی اسرار پوشیدہ تھے۔ ابب میں رہتے ہوئے فادل کو معلوم ہوا کہ اس کی کتاب میں خاصی کانٹ چھانٹ کردی گئی ہے اس کے اصل مسوّدے میں مخصوص تنظیموں اور افراد کا نام لے کر تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اور کتاب میںسے اصل مواد حذف کردیا گیا اور عنوان میں بھی تبدیلی کرکے اس کا نام"Guide to the Path of Rightleosness For Jihad & Blief" رکھ دیا گیا۔ اس کے ماسٹر پیس کے ساتھ ایک کم علم شخص کی جرأت رندانہ نے اسے سیخ پا کر دیا لیکن جلد ہی اس نے درانداز پکڑ لیا جو اس تمام تبدیل شدہ صورت حال کا ذمہ دار تھا الجہاد کا ایک رکن یمن میں کام کی غرض سے آیا اس نے فادل کو بتا دیا کہ یہ تمام کارستانی الظواہری کی ہے۔فادل نے بتایا کہ 1995 ء میں الظواہری نے یمن کا سفر کیا اور فادل سے معافی کی درخواست کی ۔اس وقت الظواہری مصر میں اپنی کارروائیاں معطل کرچکا تھا اور اس کی تنظیم ڈانواں ڈول تھی جب پرانے امیر نے الظواہری سے ملنے سے صاف انکار کردیا فادل نے الحیات کو اس کی وجہ یہ بتائی کہ'' شاید ہی اسلامی تاریخ میں ایمن الظواہری جیسا جھوٹا، دھوکے باز، جعل ساز اور دوسرے مصّنف کی کتاب میں تبدیلیاں کرنے والا شخص گزرا ہو''۔ الظواہری اور فادل کی آپس میں بول چال بند ہوگئی لیکن ان دونوں کے درمیان الفاظ کی جنگ جاری رہی۔

جیل کا فصیح و بلیغ مباحثہ
اس دوران اسلامی گروپ کے قید لیڈروں کے درمیان بحث مباحثوں نے سر اٹھایا۔ کرم زہدی بھی دیگر 20 ہزار مجاہدین کے ساتھ محبوس تھا وہ کہتا ہے''اب ہم بوڑھے ہو رہے تھے ہم نے ثبوت کی روشنی میں اشیاء کو پرکھنا شروع کردیا ۔ہم نے کتابیں پڑھیں اور خیالات میں تبدیلی رونما ہونے لگی'' تمام قیدی اس نتیجے پر پہنچے کہ انہوں نے چھوٹی باتوں میں آکر غلط راستے کا انتخاب کیا تھا۔ شروع شروع میں اس موضوع پر گفتگو خاصی مشکل تھی جیل میں قید تنظیم کے ارکان ایک طویل عرصے سے مصر کی حکومت کے خلاف مزاحمت کررہے تھے۔ زہدی نے ''اخوان المسلمین'' کے حوالے سے بتایا'' جب ہم نے عدم تشدد کا پرچار کیا تو انہوں نے ہمیں کمزور اور بزدل کہا اور ہماری حمایت کی بجائے تشدد کوجاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا اس طرح ہمیں جیل کے اندر،باہر اور مصر سے ماورا بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا''۔

1997 ء میں یہ افواہ سرگرمی سے پھیلی کہ اسلامی گروپ اور مصری حکومت کے مابین ممکنہ سمجھوتہ طے پا گیا ہے الظواہری ان دنوں قندھار(افغانستان) میں القاعدہ کی پناہ میں چھپا ہوا تھا۔اسلام پسند وکیل منتظر الزیاط وہاں مختلف تنظیموں میں مصالحتی سمجھوتے کرانے میںمصروف تھا زیاط نے عموماً سیکورٹی ایجنسیوں اور اسلامی تنظیموں کے درمیان بھی سفارت کاری کی جس کی وجہ سے اس پر دونوں جانب سے اعتماد نہیں کیا جاتا تھا الظواہری کی آپ بیتی بعنوان"Rood to Al-Qaeda: the story of Bin Laden,s Right-hand-man" کے مصّنف زیاط نے بتایا کہ الظواہری نے اسے اسی سال مارچ میں بلوایا وہ اس وقت کاروبار کے سلسلے میں لندن میں تھا الظواہری نے اسے کہا کہ تم کیوں اپنے بھائیوں کو ناراض کررہے ہو''زیاط نے جواب دیا کہ جہاد کو مسلح جدوجہد تک محدود نہیں کر دینا چاہیے'' الظواہری نے اسے نظریات تبدیل کرنے کا مشورہ دیا بلکہ یہاں تک وعدہ کیا کہ وہ اسے لندن میں سیاسی پناہ بھی دلوا سکتا ہے زیاط لکھتا ہے کہ میں نے نہایت خوشدلی سے اس کی تجویز ٹھکرا دی''

جولائی تک اسلامی گروپ اور حکومت کے درمیان ہونے والی گفتگو کو صیغہ راز میں رکھا گیا مگر پھر اچانک ایک قیدی لیڈر جس پر فوجی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا اس نے اچانک اعلان کردیا کہ اس کی تنظیم نے تمام پرتشدد کارروائیوں کو بند کردیا۔ رنجیدہ ظواہری نے قیدی لیڈروں کو ایک خط لکھا'' خداجانتا ہے کہ جب سے میں نے یہ اعلان سنا ہے میرا دکھ بڑھتا جارہا ہے ۔کیا تمہیں معلوم کہ اس وجہ سے منفی اثر جڑ پکڑ رہا ہے'' اس نے لکھا''فرض کریں ہم اگریہ نظریات ترک کرتے ہیں تو پھر ہم نے اسے پہلے شروع ہی کیوں کیا تھا'' اس کی رائے تھی کہ ایسے تمام اقدامات واپس لے لیے جائیں جن سے جہادی تحریک کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

الظواہری کی ناراضگی مول لے کر الجہاد کے قیدی ارکان نے عدم تشدد جیسے اقدامات میں دلچسپی ظاہر کرنا شروع کردی۔ سید عبدل منیم منیب جسے 1993 ء میں الجہاد کے ممبر کے طور پر پکڑا گیا اور اس پر کوئی الزام بھی ثابت نہیں ہوا مگر اس کے باوجود اس نے چودہ سال مصر کی جیل میںگزارے تھے اس کے خیال میں''رہنماؤں نے اپنی سوچ میں تبدیلی لانا شروع کردی، کبھی یوں ہوتا کہ ایک نقطے پر سب اختلاف کرتے ہیں مگر پھر رفتہ رفتہ سب کچھ ممکن ہو جاتا'' تشّدد کے متعلق موضوع پر15x9 فٹ کی جیل کی کوٹھری جہاں 130 افراد کی موجودگی میں گفتگو کرنا قطعاً نا ممکن تھا یہ لوگ باہر کی خبروں سے بھی محروم رہتے تھے صرف چند اسمگل شدہ ریڈیو ان کے ہاتھ لگ چکے تھے وہ لوگ مذہبی بحث مباحثوں میںالجھے رہتے اور اس بات پر غور کرتے تھے کہ ان سے کہاں چوک ہوئی تھی اس طرح ان قیدیوں نے حکومت کے ساتھ ایک خفیہ راستہ تلاش کرلیا۔الظواہری کی تنہائی بڑھتی جارہی تھی وہ سمجھتا تھا کہ تشدد ہی وہ ایندھن ہے جو کہ انتہا پسند اسلامی تنظیموں کو مجرم رکھتا ہے جبکہ دہشت کے بغیر مستقبل تاریک ہو جائے گا اس نے کئی اسلامی لیڈروں کے ساتھ مل کر جو کہ مصر سے باہر رہتے تھے منصوبہ بندی کی اور ایک نیا راستہ نکالا تاکہ اسلامی گروپوں کو منظم کیاجاسکے۔عدم تشدد کے معاہدے کے صرف4 ماہ کے بعد 17 نومبر1997ء کو چھ نانوجوان کوئن ہینپٹ کے مقبرے میں داخل ہونے اس وقت سینکڑوں سیاح میدان میں چہل قدمی کررہے تھے قاتلوں نے پینتالیس منٹ تک لگاتار فائرنگ کی جن کی بعد میں اسلامی گروپ کے ارکان کے طور پر شناخت کرلی گئی تھی۔اس حملے میں 62 لوگ ہلاک ہوئے جب کہ دہشت گرد ان کے علاوہ تھے جن کی لاشیں بعد میں ایک صحرائی غار سے برآمد ہوئیں انہوں نے اجتماعی خود کشی کرلی تھی۔یہ مصر کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا دہشت گرد حملہ تھا۔ ظواہری اور جلاوطن اسلامی گروپ کے ارکان کو امید ہوگئی کہ واقعہ پر امن کوششوں کی جڑکاٹ کے رکھ دے گا لیکن وہ غلطی پر تھے۔ زہدی کہتا ہے'' کہ ہم نے اس مسئلے کو اخبارات میں اٹھایا کیا یہ عمل ہماری کمر پر خنجر گھونپنے کے مترّادف ہے''۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ مصر کے لوگ تشدد کے خلاف ہوگئے۔جس سے اس انتہا پسند نظریات کی حامل اسلامی تحریک کی خوب کردار کشی ہوئی اسلامی گروپ کے قیدی لیڈروں نے بہت سی کتابیں اور پمفلٹ شائع کیے جنہیںRevision کا نام دیا گیا اس میں انہوں نے مکمل طور پر نئی سوچ متعارف کرائی زہدی نے مجھے بتایا کہ''ہم نوجوانوں کو اپنے تجربات کی روشنی میں یہ بتانا چاہتے تھے تاکہ وہ اس قسم کی غلطی کے دوبارہ مرتکب نہ ہوں جو پہلے ہم سے سرزد ہوچکی تھیں'' اس نے بار بار ٹی وی کی نشریات میں ان باتوں کا اعادہ کیا اور ایمن الظواہری کو نصیحت کی کہ وہ ان کی گزارشات پر کھلے ذہن سے غور کر ے1999 ء میں اسلامی گروپ نے تمام فوجی کارروائیوں کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ نہ صرف مصر میں بلکہ امریکہ کے خلاف بھی جارحیت ختم کردی گئی ان کے ایک نمائندے نے بعد ازاں وضاحت کی کہ'' اسلامی گروپ قومیت کی بنیاد پر قتل کیے جانے پریقین نہیں رکھتا''۔

قاہرہ میںواقع ہزار سالہ قدیم یونیورسٹی ''الازہر'' میں اس نئی تبدیلی پر تبصرے شروع ہوگئے''مصر میں قیام کے دوران میں شیخ علی گوماسے دارالفتح میں ملا جو مصر کا مفتی اعظم تھا اور حکومت کی جانب سے فتویٰ جاری کرنے کا منصب بھی اس کے پاس تھا۔ میں ان کے دفتر میں بیٹھا کئی گھنٹے تک انتظار کرتا رہا کیونکہ گوما برطانوی مندوبین کی حمایت سے ملاقات میں مصروف تھے 2003 ء سے گوما مفتی اعظم کے منصب پر فائز تھے جو کہ مصر میں ایک بڑا مذہبی عہدہ شمار ہوتا ہے مفتی اعظم جدید اسلام کے داعی مانے جاتے تھے وہ ٹیلی ویژن کے مذاکروں میں شریک ہوتے اور سرکاری روزنامہ''الحرام'' میںکالم بھی لکھتے۔ وہ ایک روشن خیال عالم ہیں وہ یقین سے کہتے تھے کہ جمہوری قوانیں میں کوئی سقم نہیں اور صلاحیت کی چنداں ضرورت نہیں کہ گوما مسلمان عورتوں کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خواتین کو مردوں کے برابر حقوق ملنا چاہئیں۔ اسلام سے متعلق ان کی جدید سوچ نے ان کے اور انتہا پسندوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کردیں مگر وہ ترقی یافتہ طبقے کی آنکھ کا تارہ بن گئے۔ بالآخر دروازہ کھلا اور گوما برآمد ہوئے وہ پچپن برس کے لمبے تڑنگے انسان اور پروقار شخصیت کے مالک تھے چہرہ گول اور داڑھی تراشی ہوئی تھی انہوں نے سفید قبا زیب تن کر رکھی تھی وہ پودینے کی شاخ کو اپنی ناک کے ساتھ مس کررہے تھے کہ ان کے ماتحت نے انہیں سرگوشیانہ انداز میں میرے آنے کی وجہ بیان کی ان کی پیٹھ کی جانب حُسنی مبارک کی تصویر آویزاں تھی، گوما بن سیف میں پیدا ہوئے تھے یہی قصبہ فادل کا جائے پیدائش بھی تھاانہوں نے مجھے بتایا'' میں نے 1990 ء سے جیلوں میں جانا شروع کردیا تھا ہم نے قیدیوں کے ساتھ طویل مباحثے اور گفت و شنید کی جو کہ تقریباً تین سال کے عرصے تک جاری رہی ۔ یہ مباحثے قیدیوں میں تبدیلی لانے کا باعث بنے" "Revisions کے چھپنے سے پہلے گوما ان پر نظر ثانی کرتے وہ کہنے لگے '' ہم ان ترامیم کو مشروط قبول کرتے اور انہیں اسلام کی اصل تبلیغ نہیں سمجھتے لیکن یہ مخصوص حالات میں ایک خاص وقت کیلئے بہترین حکمت عملی تھی''۔انہوں نے بتایا کہ قیدی بادل نخواستہ نئی سوچ کا مطالعہ کررہے تھے اور پیش رفت بھی جاری تھی انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا'' دہشت گردی کٹڑپن سے جنم لیتی ہے اور کٹڑپن تبلیغ سے آتا ہے یہ دائروں کے اندر دائرے کی مانند ہے اور ایک ایک کرکے فردکو ان دائروں کے چکّرمیں الجھا کر کامیابی حاصل کی جاتی ہے ہم ان میں مشکل سے دوتین ڈگری کی تبدیلی لاتے ہیں لیکن اس طریقہ کار میں سب سے بہتر حربہ یہ ہے کہ ان افرادکو دہشت گردی سے انتہا پسندی کی سطح تک لائیں اور پھر وہاں سے کٹڑپن کی جانب راغب کریں ہمیں ابھی تک ایسا کوئی شخص نہیںملا جو ایک دم دہشت گردی سے عام انسانوں کے قالب میں ڈھل گیا ہو''۔

کئی عشرے پہلے میں قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میںانگلش پڑھایا کرتا تھا ۔تب سے اس شہر سے کئی انقلاب دیکھے ہیں۔1970 ء میں جب جمال عبدالناصر فوت ہوئے میں وہیں تھا اس وقت امریکہ اور مصر میں سفارتی تعلقات نہیں تھے اور محض چند سو امریکن اس ملک میں رہتے تھے لیکن مصری باشندے امریکہ سے محبت کرتے تھے جب میں9/11 کے واقعے کے بعد 2002 ء میںیہاں آیا تو پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ کر نکل چکا تھا اور حالات یکسر بدل گئے تھے۔ امریکی اور مصری حکومتیں ایک دوسرے کے قریب آ چکی تھیں لیکن عوام میںاجنبیت اور دوری کے بیچ بوئے جاچکے تھے۔ جب میںقاہرہ میںرہتا تھا اس وقت اس شہر کی آبادی 60 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی لیکن اب اس میں تین گنا اضافہ ہو چکا تھا شہر کی زندگی نا قابل برداشت حد تک گھٹن کا شکار تھی۔پیدل چلنے والے بے ہنگم ٹریفک میں پھنسے تھے ان کے چہروں پر خون اور دہشت کے سائے تھے سٹریٹ لائیٹس یا سڑک پار کرنے کے راستے پر اصولوں کی بے ضابطگی سے پتا چلتا تھا کہ حکومت کو عوام سے کوئی سروکار نہیں اور وہ اپنے ہی معاملات میں الجھی ہوئی ہے۔ ایک روز مجھے قاہرہ یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا اور اس کی زبوں حالی دیکھ کر چونک سا گیا یہاں ہزاروں طلباء زیر تعلیم ہیں۔ الظواہری اور فادل جب یہاں زیر تعلیم تھے تب سے آج تک طلباء کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوچکا تھا۔ کیمپس خاموش تھا طلباء کے چہروں سے بے چینی عیاں تھی پرفیسروں نے کم تنخواہوں کے خلاف احتجاجاً ہڑتال کر رکھی تھی قاہرہ کے مضافات میں روٹی کی قیمت بڑھانے پر فسادات پھوٹ پڑے تھے اور متوسط طبقے کے لوگ اور شہری آلودگی کے خلاف احتجاج کررہے تھے جبکہ حکومت کی ترجیحات مختلف تھیں وہ "اخوان المسلمین" کے 800 ارکان کو پکڑ کر جیلوں میںٹھونسنے کی فکر میں تھی ۔ میں طلباء اور اساتذہ سے ملا اور ان کے درمیان کوئی تفاوت نظر نہ آیا وہ آج بھی پہلے کی طرح انتہا پسندی کو مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی دخل اندازی کا نتیجہ سمجھتے تھے ،جبکہ9/11 کے واقعہ کو اندرونی معاملات کا شاخسانہ قرار دیتے تھے طلباء پر خلوص تھے اور عقیدہ پرستی کم تھی۔امریکی صدارتی انتخابات میں انہوں نے دلچسپی کا اظہار کیا کیونکہ عالمی اثرات ان کے سیاسی نظام پر بھی مرتب ہوتے تھے اور اسلامی بنیادوں پر مذہبی تبدیلیوں نے انہیں مضطرب کردیا تھا کیونکہ ان سے عام مصری کی زندگی میں نہایت قلیل تبدیلی دیکھی گئی تھی۔ جب میں قاہرہ میں تھا اس وقت جمال ناصر کا دور دورہ تھا اورعرب ،اسرائیل سے اپنے علاقے واپس چھڑانے کے سحر میں گرفتار تھے معاشی طور پر مصر،بھارت اور جنوبی کوریا کی مساوی سطح پر تھا۔اس عرصے میں مصری جان چکے تھے کہ ترقی یافتہ ممالک بہتر حکمت عملی اپنا رہے ہیں وہ ممالک جہاں کبھی آمرانہ اور ظالمانہ حکومتیں تھیں ان کی جگہ آزاد خیالی اور جمہوریت لے رہی تھی اور ان کے نظام بھی شہریوں کی ضروریات کے مطابق لچکدار ہورہے تھے جبکہ مصر کی حالت جوں کی توں برقرار تھی اور مسائل سے نمٹنے کیلئے ایک بڑا چیلنج درپیش تھا۔

9/11 کے واقعات کے بعد خوشیاں منانے والے مصری یہ سوچ رہے تھے کہ اب ان کی زندگیوں میںتبدیلی کی نوید سنائی دے گی اور حالات بہتر ہوجائیں گے۔ وہ سوچنے لگے تھے کہ چونکہ امریکہ خون میں نہا گیا ہے اب اس کی مسلمان دنیا پر گرفت ڈھیلی پڑ جائیگی اور امریکی حمایت سے محروم ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ کے ظالم حکمرانوں کو اقتدار سے الگ کردیا جائے گا۔ لیکن امریکہ نے پیچھے ہٹنے کی بجائے دو مسلمان ملکوں پر لشکر کشی کردی اور علاقائی سیاست پر پہلے سے بھی زیادہ اختیار حاصل کرلیا اور ادھر القاعدہ نے بھی عوام کی ہمدردی حاصل کرلی جو کہ مسلمان ملکوں میں تبدیلی کے خواہاں تھے۔9/11 کے بعد القاعدہ کے پاس موقع تھا کہ وہ اصلاحات کا پروگرام متعارف کراتی مگر قرون اولیٰ کے طرز کے نظام اور تصوراتی پروگراموں کی باتیں کرکے اس نے عوام الناس کا اعتماد کھو دیا۔ نوجوانوں نے جب اپنی خستہ حالی کا ارد گرد کی قوموں سے موازنہ کیا تو چارو ناچار انتہا پسندوں کی بند گلی سے باہر نکلنے کے متعلق سنجیدگی سے سوچنے لگے۔9/11 سے پہلے مصری حکومت نے اسلامی گروپ لیڈروں کو جیلوں میں قید مجاہدین سے بحث مباحثے کی خاموشی سے اجازت دے رکھی تھی تاکہ قیدی تشدد پسندی کی راہ ترک کرکے دوبارہ عام زندگی بسر کرسکیں۔ امریکہ پر حملوں کے بعد ریاستی سیکورٹی کے اداروں نے فیصلہ کیا کہ اس طرح کے مباحثوں پر زیادہ توجہ مرکوز کی جائے مکرم محمد احمد، جووزیر داخلہ کے خاص قریب تھا اور حکومتی ہفتہ وار ''المصوّر'' کا ایڈیٹر بھی تھا اسے اجازت دے دی گئی کہ ان مباحثوں کی اشاعت کا بندوبست کرے۔ اس نے بتایا کہ تین نسلیں جیل میں قید تھیں وہ لوگ بے حد مایوس تھے بہت سے مجاہدین اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ باہر کے معاشرے میں ہیرو کے طور پر ان کا استقبال کیا جائے گا اور ان کے دن تبدیل ہونے والے ہیں''اب کرم زہدی اور دوسرے قیدی لیڈروں نے انتہا پسندوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ۔انہیں شروع میں سبز باغ دکھائے گئے تھے جو کہ روحانی طور پرناکامی کا سبب بنے۔ احمد اپنی یادداشتیں سناتا ہے کہ''ہم نے ایک جیل سے دوسری جیل جانا شروع کردیا مجاہدین نے جب اپنے رہنماؤں کے بدلے ہوئے تیور دیکھے تو کہنے لگے کہ تم نے ہمیں18 سالوں سے دھوکے میں رکھا تھا اور ہم سے یہ سب کچھ پہلے کیوں نہیں کہا گیا؟''

ان اعتراضات کے باوجود بھی اسلامی گروپ کے قیدی ارکان نے اپنے رہنماؤں کے نئے نظریات کو قبول کیا ۔احمد کہتا ہے کہ ابتداء میں قیدیوں میں ندامت کے آثار ہویدا تھے اور وہ سرخ کپڑے پہنے سزا کا انتظار کررہے تھے اور ایسے مجرموں میں اب کیا تبدیلی آناتھی۔ احمد کہتا ہے کہ ان قیدیوں میں سے ایک نے مجھے بتایا کہ''میں یہ تصیح حسنی مبارک کیلئے پیش نہیں کررہا میں اس حکومت کو خاطر میں نہیںلاتا، سب سے اہم بات یہ ہے کہ میں نے لوگوں کو قتل کیا ہے یعقوبی فرقے کے بے گناہ عیسائیوں اور بے گناہ لوگوں کا قتل عام کیا ہے اب مجھے خدا سے ملنا ہے اس لیے میں اپنے گناہوں کا اعتراف کررہا ہوں'' پھر وہ شخص زور زور سے رونے لگا۔

بحث مباحثے کے دوران حقیقت کا ادراک ہونے پر خاصی اخلاقی ہزیمت کا سامنا ہوتا تھا ''اس بھائی کے متعلق رائے معلوم کی جاتی جو حملے میں مار دیا گیا تھا اور اب احساس جاگ اٹھا تھا کہ یہ غیر اسلامی فعل تھا۔ کیا وہ شہید ہوا اگر نہیں تو پھر اس کے گھر والوں کو کیسے تسلّی دیں گے۔ ایک اور رہنما کہتا ہے کہ اگر مرنے والا نیک اور ایماندار مسلمان تھا تو اسے آخرت میں جنت ضرور ملے گی۔ کیونکہ متشّد دکارروائیاں اسلام میں ناجائز ہیں۔

ایک اسلامی گروپ نے مصر میں ایسے ملکوتی پولیس والوں کا روپ اپنایا۔ جو میک اپ زدہ خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینکنے کے مرتکب ہوتے، اس کے ایک لیڈر کا کہنا تھا:
''ہمیں موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے اور بزدلی کا طعنہ دیا جاتا ہے مگر یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جو تشدد ہم کرتے ہیں کیا وہ کوئی قابل نفرت اقدام ہے۔''

یہ جذباتی مباحثے مصر کے اخباروں میں کثرت سے شائع ہوتے، زہدی نے مصری لوگوں سے اسلامی گروپ کی جانب سے کی جانے والی متشدّد کی کارروائیوں کی معافی مانگی وہ سب سے پہلے سادات کے قتل سے آغاز کرتا ہے اور اسے شہید گردانتا ہے۔ اس جرأت مندانہ اعتراف نے دوسری تنظیموں کو بھی موقع فراہم کیا کہ وہ بھی اپنا قبلہ درست کر لیں اخوان المسلمین جیسی جماعت میں بھی تبدیلی محسوس کی گئی جس نے آج تک اپنے خونین ماضی میں جھانکنے کی سعی تک نہیں کی تھی۔

میں" اخوان المسلمین "کے رکن حسام ایریان سے ملنے اس کے دفترمیں گیا ۔وہ پستہ قامت ہے اورعبادت کی کثرت کی وجہ سے اس کی پیشانی پر محراب کا نشان بنا ہوا ہے۔ میں نے اسے بیتے دن یاد کرائے جب ہم اپریل 2002ء میں ملے تھے اور وہ اسی روز جیل سے رہا ہو کر آیا تھا وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا کہ اس کے بعد بھی وہ دو دفعہ جیل سے ہو آیا ہے۔ ہم دونوں بوجھل قدموں کے ساتھ نیم روشن استقبالیہ کمرے میں بیٹھ گئے وہ کہنے لگا۔ ''شروع سے لے کر آج تک اخوان المسلمین پر امن رہے ہیں تاریخ پرنظر دوڑائیں تو ان کے کھاتے میں تین یا چار پرّتشدّد واقعات ہی ڈالے جا سکتے ہیں اور یہ بھی سیاسی قتل تھے اور یہ کارروائی انفرادی اقدام کانتیجہ تھی۔ ہم نے جماعت کے پلیٹ فارم سے اس کی مذمّت بھی کی۔ مزید برآں سیاسی شخصیات کا قتل قاہرہ میں یہودی برادری پر دہشت گردوں کے حملے اور صدر ناصر کے قتل کی کوشش کے علاوہ ''اخوان المسلمین'' نے تقریباً 750 عمارتوں کو آگ لگانے کے واقعات میں حصّہ لیا۔ خصوصاً 1952ء میں قاہرہ کے نائٹ کلب، تھیٹر، ہوٹل اور ریستورانوں میں کیے جانے والے حملوں نے مصر کی آزاد خیالی اور ترقی پسندانہ پالیسی کا بیٹرا غرق کر دیا۔'' (مصر کی اخوان المسلمین نے ہی حماس کی داغ بیل رکھی تھی اور یہ ویسے ہی ہتھکنڈے استعمال کرتی آئی ہے جن پر اب اسلامی گروپ کی جانب سے تنقید کی جاتی ہے)۔

دوسری انتہا پسند تنظیموں کے برعکس ''اخوان المسلمین'' اسلامی حکومت لانے کے لیے قانونی طریقے سے سیاسی تبدیلیوں کی خواہاں ہے۔ ایریان نے اپنا بیان جاری رکھا۔ ''ہم بھی Revesion کا خیر مقدم کرتے ہیں جن میں تشدّد کی مخالفت کی گئی ہے کیونکہ ہم نے شورش کے خاتمے کے لیے سالہا سال کام کیا ہے لیکن یہ "Revesion"ابھی ناممکن ہیں کیونکہ اصلاحات اور نئی حکمت عملی کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

اس نے ا شارہ کیا کہ اسلامی انتہا پسند کافی عرصے سے ''اخوان المسلمین'' پر یہ الزامات عائد کرتے آئے ہیں کہ وہ حکومتی پالیسی کے ساتھ متفق ہو چکے ہیں اور پیشہ وارانہ فرائض انجام دینے کو تیار ہیں'' اسی طرح یہ قیدی بھی دبائو کا شکار ہیں اور جمہوری طریقے سے سیاسی تبدیلی کو قبول بھی کر لیں گے مگر جب ان سے پوچھا جائے گا کہ پھر تمہارے اور دوسرے مسلمان بھائیوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے تو کوئی جواب نہیں بن پڑے گا۔''

زہدی کے مطابق مصری حکومت نے عدم تشدّد کے وعدے اور خیر سگالی کے طور پر 12 ہزار 5 سو اسلامی ارکان کو رہا کر دیا ہے۔ ان میں سے کئی ارکان پر کوئی فردِ جرم عائد نہیں کی جا سکتی تھی۔ بعض پر معمولی نوعیت کے مقدمات تھے یا عام سی سزائیں سنائی گئی تھیں۔ کچھ لوگ تو اسیری کی وجہ سے ذہنی مریض بن چکے تھے زہدی کہتا ہے ''12 سال کی قید کا سن کر ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔''

جب یہ قیدی آزاد ہوئے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ معاشرہ پہلے سے زیادہ مذہبی اقدار اختیار کر چکا ہے۔ مغرب زدہ عورتیں اب حجاب پہنتی تھیں یا سعودی خواتین کی طرح مکمل نقاب کرتی تھیں۔ مساجد کی رونقوں میں بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر علما کے پرجوش مذہبی بیانات نشر ہورہے تھے۔ جیلوں سے آزاد شدہ لوگ بمشکل ہی یقین کر سکے کہ ان کی قربانیوں اور کارکردگی کے نتیجے میں سماجی تبدیلیاں آ چکی ہیں اور وہ فتح مند ہو گئے ہیں۔
لیکن اب بھی مصری حکومت کی جانب سے عوام کے لیے بے رحم اور ظالمانہ پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ جیسے ہی یہ قیدی آزاد ہوئے ان کی جگہ لینے کے لیے نئے سیاسی لوگ، احتجاج کرنے والے آزاد خیال لوگ جیلوں میں ڈال دیئے گئے معیشت ترقی کر رہی تھی مگر پیسے کا ارتکاز امراء کی جانب ہی تھا اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی تھیں اور لوگ بھوک اور افلاس کا شکار ہوتے جا رہے تھے۔

مصری حکومت کے نقطہ نظرکے مطابق اسلامی گروپ کے ساتھ سمجھوتے نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ یہ ایک غیر متوازن کامیابی تھی۔ مکرم محمد احمد جو ''المصوّر'' کے ایڈیٹر کے طور پر کام کر چکا ہے اور جیل میں قیدیوں کے ساتھ مباحثوں میں بھی شریک رہا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ صرف دو مثالیں ایسی ہیں جس میں ان ارکان نے اپنی پرانی پرتشدد زندگی کی راہ اپنانے کا اشارہ دیا اور ان دونوں واقعات میں ان کے اپنے ہی گروہ کے لوگوں نے انہیں ورغلانے کی کوشش کی تھی۔'' اسلامی گروپ کے قانونی مشیر منتظر زیاط کا کہنا ہے ''جیل یا وقت نے انہیں شکست دے دی تھی اور کچھ لوگ اسے ناکامی کا نام بھی دیتے ہیں۔''(جاری ہے)
ترجمہ: انجینئر مالک اشتر