working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

سازشی نظریات کیسے پروان چڑھتے ہیں؟
ڈیوڈ آر ونووچ
حیرت ہوتی ہے کہ بعض لوگ کچھ ایسے منفرد اور دلچسپ موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں کہ گویا آپ کے دل کی بات کہہ دی ہو! کچھ ایسا ہی موضوع ہے ''ڈیوڈ آرنووچ'' کی اس کتاب کا بھی۔ جس میں سے کچھ حصے کا ترجمہ آپ کے لیے پیش کیاجا رہا ہے۔ اگرچہ اس کتاب میں بعض ایسے نظریات بھی بیان کیے گئے ہیں کہ اقتدار چند ہاتھوں میں کیوں مرتکز ہے؟ دنیا نفرت اور تنازعات سے کیوں بھری ہے؟ سازشی تھیوری، تیار کرنے والے ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں! تاہم ساتھ ہی ایسے واہمے اور سازشیں بھی تخلیق کرتے رہتے ہیں کہ ''اپنے واہموں کا خاتمہ کریں'' آپ سے جھوٹ بولا جا رہا ہے ''جو کچھ آپ جانتے ہیں وہ غلط ہے'' اور یہ سارا کچھ ایک منصوبے کے تحت کیا جاتا ہے۔ آپ اٹھارہ اٹھارہ پونڈ کی ان مہنگی کتابوں میں سے کوئی خرید لیں تو آپ کو ان میں تیل کی صنعت سے لے کر جرائم اور ادھر ادھر کے بے شمار موضوعات پر مختلف افراد کی تحریریں ملیں گی…''
ذیل میں ناسا کی اپالو کے ذریعے چاند پر روانگی، جان ایف کینڈی کا قتل، نائن الیون، ڈیانا کی موت اور یہودی پروٹوکولز سے متعلق سازشی تھیوریوں کے ساتھ ساتھ بے شمار دیگر سازشی تھیوریوں کے بارے میں بھی دلچسپ واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ مزید سازشی تھیوریاں تیار کیسے کی جاتی ہیں۔ اس پر بھی سیر حاصل معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ (مدیر)

میرے یہ کتاب لکھنے میں سارا تصور ایک شخص کیون جاروس کا ہے۔

ہمیں بی بی سی نے ایک فلم بنانے کے لیے تیونس بھیجا تھا جو ان ملکوں کے بارے میں ایک پروگرام میں شامل کی جانی تھی جہاں حکومتیں عوام پر جبر کرتی ہیں۔

لمبا تڑنگا، گٹھے ہوئے سر والا کیون کیمرہ مین پروڈیوسر تھا اور میں نے کمینٹری کرنا تھی ہم نے تشدد کا نشانہ بننے والے اپوزیشن کے ارکان اور ان کے گھروں کی فلم بندی بھی کرنی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ تیونس کی خفیہ پولیس سے چھپ چھپا کر کرناتھا کیونکہ ہم ان کے نعروں میں آجاتے تو ہمیںیقینا پکڑ لیا جاتا اور شاید مار پیٹ کرملک سے نکال دیا جاتا۔

ہم کرائے کی ایک کار میں تیونس سے الجم جارہے تھے کہ باتوں باتوں میں کیون نے کہا ناسا اور امریکی حکومت نے1969ء میں اپالو اور اس کے خلا بازوں کے چاند پر اترنے کاڈرامہ جعل سازی سے تیار کیا تھا۔ یہ بات سن کر مجھے دھچکا سا لگا۔ کیونکہ میں کیون سے عمر میںبڑا تھا اور میںنے چاند پر انسان کے اترنے کامنظر خود ٹیلی وژن پر دیکھا تھا اور انگلینڈ کے1966 ء کے ورلڈ کپ جیتنے کے واقعہ کی طرح یہ میری ذاتی تاریخ کا حصہ تھا جسے میں کھونا نہیں چاہتا تھا۔

کیون کے دلائل کی بنیاد یہ تھی کہ اپالو کی لینڈنگ کی تمام تصاویر جعلی تھیں۔تصویروں میں جو کچھ ہورہا تھا وہ ممکن نہیں تھا اور جو ہونا چاہیے تھا وہ ان میں نہیں تھا مثلاً چاند پر ہوا کے نہ ہونے کے باوجود امریکی پرچم کا پھڑ پھڑاتا ہوا لگنا،ستاروں کانظرنہ آنا اور خلا بازوں کی چال میں لڑکھڑاہٹ، فوٹو گرافی کے ماہرین اور سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد نے برسوں تحقیق کرکے ان اعتراضات کی تائید کی ہے۔ انہوں نے جو نتائج اخذ کیے وہ عملی طور پر نا قابل تردیدہیں اگر یہ تصاویر جعلی تھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا چاند پر اترنا بھی ایک ڈرامہ تھا۔ میرا فوری ردعمل ایک طرح کی تشکیک تھا۔یہ نہیں کہ میں اس تھیوری کو غلط ثابت کرنے کیلئے دلائل سے مسلح تھا۔ بات اتنی تھی کہ اس نے میرے معقولیت کے احساس کو مجروح کیا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ اتنے بڑے پیمانے پر دھوکے میںہزاروں نہیں تو سینکڑوں لوگ تو ضرور ملوث ہوں گے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہوں گے جنہوں نے واشنگٹن کے کسی دفتر میں بیٹھ کر منصوبہ بنایا۔ ناسا کے لوگ ہوں گے جنہوں نے اس سے اتفاق کیا۔ خلا باز ہوں گے جن سے کہا گیا ہوگا کہ وہ ساری زندگی اس بارے میں کوئی بات زبان پر نہ لائیں وہ ہمیشہ خوف زدہ رہے ہوں گے کہ اپنے /اپنی انتہائی بے تکلف دوست کو انتہائی بے تکلفی کے لمحات میں کہیں کچھ بتا نہ بیٹھیں۔

پھر سیٹ ڈیزائنر، فوٹو گرافر، پراپس(Props) ڈیپارٹمنٹ والے،سیکورٹی والے خلا بازوں کو سمندر سے نکالنے کا ڈرامہ کرنے والے نیوی کے جوان اور دوسرے بے شمار لوگ شامل ہوں گے۔یہ تقریباً نا ممکن ہے کہ اتنابڑا آپریشن خفیہ رکھا جائے اور یہ سمجھ سے باہر ہے کہ حکمران اتنا بڑا رسک لیں جو ان کیلئے انتہائی شرمندگی کاباعث بن سکتا ہو۔ امکانات میں اس عدم توازن کی وجہ سے کیون کے شواہدکو پرکھے بغیر مجھے پورا یقین تھاکہ وہ غلط ہیں۔

کیون کوشاید پتہ نہ ہو1978 ء میں اسی تھیوری پر ایک فلم بھی بنائی گئی تھی جس کا نام (Capricorn) تھا۔ اس میں یہ اضافہ کیا گیا تھا کہ خلا بازوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا تاکہ ان میں کوئی کہیں کسی کویہ نہ بتا دے کہ وہ چاند پر نہیں اترا ہے۔ اس طرح کیون کی تھیوری کے مقابلے میں وہ فلم زیادہ قابل اعتبار لگتی ہے۔
سازشی تھیوریاں میرے ذہن پر چھا گئیں میںسوچنے لگا کہ لوگ ان پریقین کیوں کرلیتے ہیں کیون اس طرح کا کوئی سادہ لوح شخص نہیں جو ہر سنی سنائی پر یقین کرلیتے ہیں وہ ایک ذہین، تعلیم یافتہ اور سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص تھا اگر اسے کبھی شبہ ہوتا کہ تیونس خفیہ پولیس کہیں آس پاس موجود ہے تو اس کا خیال ہمیشہ درست ہوتا تھا تو پھر کیون جیسے شخص نے ایسی خلاف عقل تھیوری پر یقین کیسے کرلیا۔ میں اس معاملے کوسمجھنا چاہتا تھا2002 ء کے آغاز میں خاص طور پر1969ء کے واقعات کی جانچ پرکھ نہیں کی جارہی تھی ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے اور اس کے نتیجے میں افغانستان پر اتحادی حملے کے بارے میں بھی سازشی تھیوری تیزی سے پھیل رہی تھی یہ سب مجھے خطرناک لگتا تھا میںنے تحقیق شروع کی تو اندازہ ہوا کہ یہ تھیوریاں بہت معمولی پیمانے پر نہیں وسیع پیمانے پر پھیلی ہوئی ہیں بلکہ روز بروز مزید پھیل رہی ہیں۔
سازش بک شاپس میں
مغرب میںہم آج کل فیشن ایبل ''سازشیت'' کے دور سے گزر رہے ہیں مبینہ سازشوں پر مبنی کتابیں دکانوں کے حالات حاضرہ اور تاریخ کے شیلفوں پر اسی طرح سجائی جاتی ہیں جیسے وہ بڑے مورخوں اور عالموں کی تحقیقی کتابیں ہوں سخت محنت اور طویل تحقیق کے بعدلکھی گئی جان ایف کینیڈی کی سواغ عمری اور ایسی سنسنی خیز کتاب ساتھ ساتھ رکھی نظر آتی ہے جس پر 43سال بعد دعویٰ کیا گیا کہ کینیڈی کو مافیا نے قتل کیا۔پورے امریکہ اور برطانیہ میں میوزک اور ڈی وی ڈی کی دکانوں کی بڑی بڑی چینز میںجو تھوڑی سی اے تھری سائز کی پیپر بیک کتابیں نظر آتی ہیں ان کے عنوان بھی کچھ اس طرح ہوتے ہیں' ''اپنے واہموں کا خاتمہ کریں، آپ سے جھوٹ بولا جارہا ہے، جو کچھ آپ جانتے ہیں وہ غلط ہے، میڈیا کے حقائق مسخ کرنے کے بارے میں اس انفرمیشن گائیڈ، تاریخ پر پردے اورثقافتی مغالطے'' حقیقت سے آگاہ ہونے کے لیے آپ اٹھارہ اٹھارہ پونڈ کی ان مہنگی کتابوں میں سے کوئی خرید لیں تو آپ کو ان میں تیل کی صنعت سے لے کر جرائم تک ادھر اْدھر کے بے شمار موضوعات پر مختلف افراد کی تحریریں ملیں گی۔جن میں یہ باور کرایا گیا ہو گا کہ حکومتیں، میڈیا، کارپوریشن، منظم مذاہب اور سائنسی ادارے سب حقائق کو ہم سے چھپانے جھوٹ اور توہمات ہمارے ذہنوں میں بھرنے میںلگے ہوئے ہیں۔ ایسی ایک کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے میری نظر ایک عنوان پر پڑی ، پوری یونین بے نقاب: آمریت کا پردہ چاک، برطانیہ کی وزارت دفاع کی ایک سابق افسر لنڈ سے جینکنز کے لکھے اس مقالے میں قومی ریاستوں کو تباہ کرنے کی نام نہاد یوروکریٹک سازش، کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں ایک جگہ جینکنز لکھتی ہے کہ علاقائیت کی حوصلہ افزائی اس پیچیدہ سازش کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد یورپیوں کو کمزور کرکے سپر سٹیٹ مسلط کیے جانے کی مزاحمت کے ناقابل بنانا ہے۔ وہ لکھتی ہے کہ اقلیتی زبان کے استعمال پر اصرار (خصوصاً بچوں کی تعلیم ہی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ وہ علاقہ الگ تھلگ ہوکر رہ جائے اور وسیع تر دنیامیں اس کے لوگوں کے لیے مواقع محدود ہو جائیں اس سے وہ دوسرے درجے کے شہری بن جائیں گے اور ان پر کنٹرول آسان ہوجائے گا۔ تمام علاقائی اقلیتوں میںکئی زبانوں میں تراجم کی سروسز ہوں گی جس سے وہ مزید مؤثر ہوتی جائیں گی۔ یہ ایسی تھیوری ہے جسے اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ''دہلیز والوں نے یونائٹیڈ کنگڈم کوکس طرح تباہ کیا مقبول سیریز ''رف گائیڈز'' کی ایک حالیہ کتاب میں، اہم ترین سازشی تھیوریوں کو گنوایا گیا ہے اوربعض کو ایسے لفظوں میں تسلیم کیا گیا ہے اس کے مصنفین اس حد تک چلے گئے ہیں کہ تاریخ نویسی کے عظیم مباحثے کے ایک نئے سنگ میل پر جا کھڑے ہوتے ہیں۔ مصنفین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ پہلے یہ خیال تھا کہ عظیم شخصیات کے کارنامے دنیا کے معاملات کو کوئی رخ دیتے ہیں پھر کہا جانے لگا کہ بڑی تاریخی اور سماجی قوتیں حالات بدلتی ہیں۔ لہٰذا اب یہ تسلیم کیا جانے لگا ہے کہ پلان، منصوبے، سازشیں حتیٰ کہ سازش کے مفروضے دنیا کو بدل سکتے ہیں۔

اس طرح کے خیالات ٹیلی ویژن اور فلموں میں بھی ہوتے ہیں۔ دستاویزی فلمیں جانبدارانہ ہوتی جا رہی ہیں۔ ان میں ایسا مواد شامل ہوتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ کسی نہ کسی نے سازش کی ہے۔ اس سلسلے میں مائیکل مور کی 2004ء کی دستاویزی فلم ''فارن ہائٹ 911'' کی مثال دی جا سکتی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اس طرح کی فلموں وغیرہ کو تاریخی تجزیے کے بڑے کارناموں یا تحقیقاتی صحافت کے عمدہ نمونوں کے ساتھ شمار کیا جاتا ہے بلکہ عام طور پر زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ ان کے دلائل کو نہیں پرکھا جاتا۔ صرف عوامی مقبولیت کو دیکھا جاتا ہے۔

تو سازش کیا ہے؟
اگر سازش کی تعریف دو یا زیادہ افراد کا کسی غیر قانونی،خفیہ یا غیراخلاقی کارروائی کے لیے اکٹھا ہونا ہے تو ہم سب کو اتفاق ہوگا۔ بے شمار سازشیں ہوتی ہیں۔ کئی مجرمانہ افعال سازش کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ سیکورٹی ایجنسیاں جن کے منصوبے لازمی طور پر خفیہ ہوتے ہیں مسلسل سازش ہی کر رہی ہوتی ہیں۔ کمپنیاں اپنی تجارتی سرگرمیاں خفیہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں اور بعض اوقات دوسرے کے تجارتی راز حاصل کرنے کے لیے ان کے آدمی خریدتی ہیں یہ بھی سازش ہوتی ہے۔ کسی نے یہ سمجھوتہ کہ وہ آپ کی والدہ کو یہ نہ بتائے کہ آپ اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سوئی ہیں، بھی اسی تعریف میںآتا ہے۔ البتہّ سازشی تھیوری کچھ مختلف چیز ہے۔ اس کتاب کا مقصد اسی کو واضح کرنا ہے۔

امریکی سکالر اور سازشی تھیوری کے بارے میں دو کتابوں کے مصنف ڈینیل پائپس کا کہنا ہے کہ سازشی تھیوری ایک ایسی سازش کو کہا جا سکتا ہے جو دراصل کبھی ہوئی ہی نہ ہو۔ امریکی تاریخ دان Richard Hofstadter نے 1960ء کے عشرے میں لکھا تھا کہ حقیقی سازشی تھیوری اس بات سے ممیّز ہوتی ہے کہ وہ کس پیمانے پر ہے۔ اس کے ماننے والوں کو تاریخ میں بس ادھر ادھر ہی سازشیں نظر نہیں آتیں بلکہ وہ ہر تاریخی واقعے کا محرک ایک عظیم سازش کو سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں تعریفیں میرے لیے زیادہ کار آمد نہیں۔ مثلاً پائپس حتمی طور پر یہ کیسے ثابت کر سکتا ہے کہ ایک سازش کا وجود ہی نہیں؟ ظاہر ہے کہ ہر سازش اس وقت تک ایک تھیوری ہے جب تک اسے ثابت نہ کیا جائے۔

Hofstadter کی سازش کی تعریف کو قبول کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ اس میں مثال کے طور پر یہ خیال شامل ہو گا (جیسا کہ ''ڈان برائون کی" The Da Vinci Code "میں ہے کہ چرچ دو ہزار سال سے یسوع کی بلڈ لائن کے بارے میں حقیقت کو دباتا آ رہا ہے۔ (یعنی بڑے پیمانے پر دھوکہ) لیکن یہ چھوٹے پیمانے کا الزام شامل نہیں ہو گا کہ برطانوی (یا فرانسیسی) انٹیلی جنس ایجنسیوں نے 1997ء میں پیرس میں شہزادی ڈیانا کو ختم کرایا۔ چھوٹی تھیوریوں کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ان پر یقین کیا جائے تو مجھے لگتا ہے کہ یہ سب جمع ہو کر دین کے بارے میں یہ تاثر دیتی ہیں کہ ہمارے منتخب کردہ نمائندوں سمیت تمام حکمران کرپٹ اور جھوٹے ہیں۔

میرے خیال میں سازشی تھیوری کی ایک بہتر تعریف یہ ہو سکتی ہے: کسی حادثاتی یا غیر ارادی عمل کے ساتھ کسی کی نیت یا ارادہ منسوب کردینا۔ اس تعریف میں مزید اضافہ یہ کیاجاسکتا ہے۔ کسی سے کوئی ایسا خفیہ فعل منسوب کرنا جسے معقول طریقے سے کم خفیہ اورکم پیچیدہ طور پر بھی بیان کیا جا سکتا ہو۔ سو ایک سازشی تھیوری کا مطلب غیرارادی طور پر سازش فرض کرنا ہے جبکہ اس کی اغلب وجوہ بھی بیان کی جا سکتی ہوں۔ اس لیے مثال کے طور پریہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ 1969ء میں انسان واقعی چاند پر اترے بمقابلہ اس کے کہ ہزاروں افراد ایک دھوکے کے لیے جمع کیے گئے اور انہوں نے ایسا کیا۔

سازش کی مخالفت بھی ایک نظریہ!
ایک لاطینی مقولے کا مطلب کچھ یوں نکلتا ہے کہ جب دو نظریے پیش کیے جائیں تو ان میں وہ زیادہ قابل قبول ہے جس میں مفروضات کم ہوں۔ بعض اوقات ہم تھیڑوں میں ایسے لوگ دیکھتے ہیں جو ہمارا ذہن پڑھ لیتے ہیں یا دیہات میں مستقبل کی باتیں بتانے والے ہوتے ہیں۔ ہم مان لیتے ہیں کہ ان کو قدرت نے کوئی خصوصی غیرمعمولی حس دی ہے یہ نہیں سوچتے کہ تماشائیوں میں تھیڑ والوں کا کوئی آدمی کس طرح سے معلومات سٹیج والے شخص تک پہنچا رہا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ جادو کے کرتب جادو نہیں ہیں لیکن یہ مان لیتے ہیں کہ سٹیج پر کھڑا ہوا شخص ہمارے دل کی بات جان سکتا ہے۔

اٹھارھویں صدی کے سکالر ٹام وینی نے اپنی کتاب "The Age of Reason" میں لکھا تھا کہ قدرت کے راستے سے ہٹ کر کچھ ہو تو اسے کرشمہ یا معجزہ کہا جاتا ہے۔ کوئی شخص یہی بتاتا ہے کہ اس نے یہ معجزہ دیکھا تو ایک سوال فوراً ذہن میں آتا ہے کہ کیا یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ قدرت اپنے معمول یا راستے سے ہٹ گئی یا پھر یہ کہ کوئی شخص جھوٹ بول سکتا ہے۔

یقینا تاریخی امکان اور عدم امکان کی تعریفوں پر دلائل دیئے جا سکتے ہیں۔ اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ بعض عالم سازشی تھیوریوں کے خلاف دلائل کواتنے ہی ناقص قرار دیں جتنی وہ تھیوریاں ہیں۔ پیٹر نائٹ نے اپنی کتاب کانسپریسی کلچر میں لکھا ہے لگتا ہے ڈینیل پائپ جیسے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سازشی تھیوری میں یقینا پوشیدہ ایجنڈے والی ایک پر اسرار قوت ہے جو افراد کے ذہنوں بلکہ پورے معاشروں پر مسلط ہو جاتی ہے۔ یہاں بالکل الٹ مفہوم لیا گیا ہے۔ پائپس نے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ سازشی سوچ سیاسی بحث مباحثے کو کس طرح آلودہ کرتی ہے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ''سازشیت'' کے خلاف دلائل بجائے خود ایک نظریہ بن گئے ہیں۔ اس طرح کی طرز فکر کو کانٹی جنسی تھیوری (Contigency Theory) کہا جاتا ہے۔ جہاں سازشی تھیوری بھڑکانے کی کوشش کرتی ہے وہاں یہ بجھانے کی کوشش کرتی ہے۔

اقتدار چند ہاتھوں میں کیوں مرتکز ہے؟ دنیانفرت اور تنازعات سے کیوں بھری ہے؟ سازشی تھیوری والے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن کانٹی جنسی تھیوری والے ان سوالوں کو دبانے کی کوشش میں یہ کہتے ہیں کہ کوئی نفرت نہیں ہے، سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ کانٹی جنسی تھیوری حکمران طبقے کا ردعمل سمجھی جاتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ تاریخی امکانات کی کوئی سائنس نہیں ہے لیکن تاریخ کو سمجھنے والوں میں امکان اور عدم امکان کی ایک وجدانی حس پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ Status queکی توثیق کر رہے ہیں۔ جیسا کہ عظیم برطانوی مورخ لیوس نیمیئر نے لکھا: ''تاریخ کے مطالعے سے بیش بہا چیز حاصل ہوتی ہے وہ تاریخی حس یعنی ایسی وجدانی فہم کہ چیزیں کس طرح نہیں ہوتیں۔ سازشی تھیوریاں میری اس حس کو مجروح کرتی ہیں۔''

تاریخ اور سازشیں
برطانیہ کے انتہائی محترم نظریہ دان رابن رمزے نے سازشوں کے بارے میں اپنی بہت دلچسپ مختصر کتاب میں ایک مختلف انداز میں بات کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''سازشی تھیوریوں میں حالیہ افسانے کی ایک بڑی اور اہم وجہ حقیقی سازشوں کی موجودگی ہے۔ لوگ سازشی تھیوریوں پر اس لیے یقین کر لیتے ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ دنیا سازشوں سے بھری ہے۔ رمزے سیاسی سازشوں کے سلسلے کی (بظاہر) شہادتوں میں یہ مثالیں دیتے ہیں۔ صدر کینڈی، ان کے بھائی رابرٹ، مارٹن لوتھر کنگ، میلکم ایکس، ٹیمسٹرز یونین (Teamster's Unian) کے کرپٹ لیڈر جمی ہوفا کے قتل اور صدارتی انتخاب میں رچرڈنکسن کی فتح کے لیے خطرہ بننے والے الباما کے سابق گورنر اور صدارتی امیدوار جارج ویلیس پر فائرنگ کا واقعہ۔

اگرچہ یہ تمام سازشیں مشتبہ ہیں لیکن رمزے بس یہ کہہ رہے ہیں کہ سازشی خیالات مزید سازشی خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ اگر وہ مغرب کی بجائے مشرق وسطیٰ کی سازشی تھیوریوں پر بات کرتے تو شائد اس میں زیادہ وزن ہوتا۔ ڈینیل پائپس دلیل دیتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ سازشی تھیوریوں سے کیوں گونج رہا ہے، اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس خطے میں گزشتہ دو صدیوں میں دنیا کے کسی بھی علاقے سے زیادہ حقیقی سازشیں ہوئیں۔ مغربی حکومتیں اکثر خفیہ رابطوں کے ذریعے مشرق وسطیٰ کی سیاست پراثر انداز ہونے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ یہ سلسلہ سلطنت عثمانیہ سے عرب علاقوں کو الگ کرنے کے لیے فرانس اور برطانیہ کے 1916ء کے خفیہ سائکس پکٹ (Sykes-Picot) معاہدے سے 1953ء میں ایران میں مصدق کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے امریکہ اور برطانیہ کے گٹھ جوڑ تک پھیلا ہوا ہے۔ لاطینی امریکہ پچاس سال تک یکے بعد دیگرے فوجی انقلابوں کا شکار رہا ہے۔ اگر وہاں کے لوگوں کی سوچ اس طرح کی نہ ہو تو یہ بات حیران کن ہو گی۔ البتہ گزشتہ سو سال میں برطانیہ اور امریکہ میں ایسی بہت کم بڑی سازشیں ہوئی ہیں جن کے بارے میں کسی دو سنجیدہ مورخوں نے اتفاق کیا ہو۔

واٹر گیٹ ایک افسوس ناک اور بھید بھری سازش تھی جو سیاسی جاسوسی پر پردہ ڈالنے کی کوشش میں کی گئی۔ 1955-56ء کا ایران۔ کونٹرا معاملہ ایک بھرپور سازش تھی جب امریکن حکومت کے سینئر ارکان نے کانگریس کی طرف سے نکاراگوا کے اینٹی کمیونسٹ باغیوں (کونٹراز) کو مالی امداد دینے پر پابندی کے توڑکے لیے انہیں ہتھیار فراہم کیے جووہ امریکہ کے دشمن ایران کو بیچتے رہے۔ تمام معاملہ کھل کر سامنے آ گیا۔ دو انکوائریاں ہوئیں اور نیشنل سیکورٹی کونسل کے دو ملازمین معمولی سے قصوروار پائے گئے۔ پھر ان کی اپیلوں پر ان کی سزائیں اس بنیاد پر ختم کر دی گئیں کہ کانگریس کو شہادت دینے کے بدلے ان سے معافی کا وعدہ کیا گیا تھا۔

برطانیہ کی سب سے بڑی سازش 1924ء کا زینو ویف (Zinoviev) کا خط ہے۔ سالوں تک یہ کہانی چلتی رہی کہ برٹش سیکورٹی، رمزے میکڈونلڈ کی قیادت میں پہلی لیبر حکومت کو ہٹانا چاہتی تھی۔ اس نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کے سربراہ گریگوری زینوویف کا ایک جعلی خط تیار کیا جس میں لیبر پارٹی کے بالشویک نواز موقف کو سراہا گیا تھا۔ یہ خط اخبار ''ڈیلی سیل'' تک پہنچا دیا گیا۔ جس نے اکتوبر 1924ء کے عام انتخابات سے صرف چار روز قبل یہ خط ان چیختی چنگھاڑتی سرخیوں کے ساتھ چھاپ دیا: ''سوشلسٹوں کے آقائوں کا خانہ جنگی کا منصوبہ'' ''ماسکو کا ہمارے سرخوں کو حکم'' ''عظیم سازش بے نقاب'' نتیجے میں لیبر پارٹی الیکشن بری طرح ہار گئی۔

جنوری 1999ء میں ٹونی بلیئر کی نئی لیبر حکومت کے کہنے پر فارن آفس کی چیف ہسٹورین گل بینٹ نے اس معاملے کی تحقیق کی۔ وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ یہ خط دراصل لیٹویا کے کمیونسٹ مخالف سفید روسیوں نے تیار کیا تھا۔ وہ برطانیہ اور نئی نئی بنی ہوئی سوویت یونین کے درمیان نئے سمجھوتوں کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔ یہ خط برطانوی انٹیلی جنس ایم آئی 6 تک پہنچایا گیا جس کے بعض ارکان نے اسے ڈیلی سیل تک پہنچایا۔

لیبر پارٹی کے وزیر خارجہ رابن کک نے اخبار ''گارڈین'' میں لکھا ''اس بات کی کوئی شہادت نہیں ہے کہ ایم آئی 6 نے جعلی خط تیار کیا۔ لیبر کے خلاف انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کسی منظم سازش کی کوئی شہادت ہے نہ لیبر پارٹی اس خط کی وجہ سے الیکشن ہاری (بینٹ نے بھی اپنی رپورٹ میں یہی لکھا تھا) لیبر کا مسئلہ یہ تھا کہ اس نے ختم ہوتی لبرل پارٹی کی حمایت پر انحصار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اکتوبر 1924ء کے انتخابات میں لیبر پارٹی کے ووٹوں میں اضافہ ہوا تھا۔

سازشی تھیوریوں کے تانے بانے
ان مثالوں سے ظاہرہے کہ حقیقی سازشوں کو یا تومبالغے کے ذریعے بڑھا چڑھا کر ان کی اہمیت بنائی جاتی ہے یا پھر وہ درحقیقت ناکام اور بے نقاب ہوتی ہیں۔ ان کے طاقتور ترین ملک کے سربراہ رچرڈنکسن کی چند ٹیپوں کو صاف کرا سکنے میں ناکامی انتہائی حقیقی سازشوں کی ایک مثال ہے۔ دوسری طرف سازشی تھیوریاں اکثر اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب ہوتی ہیں۔

میری تحقیق کے مطابق ایک درجن بڑی سازشی تھیوریوں میں (جن کا اس کتاب میں تذکرہ کیا گیا ہے) بعض مشترک خصوصیات ہیں جن کی بدولت وہ بڑے پیمانے پر پھیلیں۔ وہ خصوصیات یہ ہیں:-

1 تاریخی تغّیر
جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔ سازشی لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کے لیے بہت بحث کرتے ہیں کہ ہر جگہ سازشیں ہیں۔ اگر ملتے جلتے واقعات کی ایک پوری تاریخ موجود ہو گی تو کوئی ایک واقعہ ناقابل یقین نہیں لگے گا۔ یہ واقعات 1605ء کی بارود سازش جیسے پرانے بھی ہوسکتے ہیں اور پرل ہاربر، ریشستاگ (Reichstag) کی آتش زدگی اور 1965ء کا خلیج ٹونکن کا واقعہ بھی۔ آپ جان ایف کینیڈی کے قتل کی سازش کو بنیاد بنا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ رابرٹ کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ بھی امریکی ریاست کے ہاتھوں مارے گئے۔

نائن الیون ٹرتھ موومنٹ میں شریک افراد کے حالات زندگی پڑھ کر میں حیران رہ گیا۔ کیلی فورنا برانچ کی پنتالیس چھیالیس سالہ انتہائی سرگرم خاتون نے بتایا کہ جوانی میں اس نے دنیا کے گرد کشتی پر ایک سفر کیا تھا۔ سیاسی طور پر وہ 1992ء میں سرگرم ہوئی جب اس نے ایک فلم دیکھی جس نے اسے پریشان کردیا۔ جس پر اس نے حکومت اورمیڈیا پر ریسرچ شروع کر دی۔ یہ فلم اولیور سٹون کی ''جے ایف کے'' تھی۔-

 2تشکیک
سازشی تھیوری سیاسی طور پر عوام کے حق میں ہوتی ہے۔ وہ اس طرح کہ یہ اقلیتی اشرافیہ کے عوام کے خلاف اقدام کو بے نقاب کرنے کا دعویٰ کرتی ہے یا جیسا کہ کیلی فورنیا کے مذہبیات کے ایک پروفیسر نے کوپن ہیگن کی سنٹرل لائبریری میں ایک اجتماع سے نائن الیون کے بارے میں خطاب کرتے ہوئے کہا ''شاید ہماری سوسائٹی کی اشرافیہ کے ارکان نہیں چاہتے کہ سچ کا انکشاف ہو۔'' اس کے برعکس سازشی تھیوری پر یقین آپ کو ایک بہادر ایلیٹ گروپ کا حصہ بنا دیتا ہے جو ان سست لوگوں کو حقارت سے دیکھتا ہے جو سرکاری موقف پر یقین کر لیتے ہیں۔ اس بات پر بھی زور دیا جاتا ہے کہ سازش کی موجودگی کا احساس بھی سوجھ بوجھ والے لوگ ہی کر سکتے ہیں۔ جو لوگ حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے ان پر روبوٹ یا بھیڑوں کی پھبتی کسی جاتی ہے۔

3 محض سوال کرنا
2001ء سے معزز قسم کے سازشی بنیادی ٹیکنیک استعمال کر رہے ہیں کہ وہ محض حقیقت تک پہنچنے کی خاطر پریشان کن سوالات کرتے ہیں۔ تاکہ پڑھنے یا سننے والا خود کسی نتیجے پرپہنچے۔ سوال کچھ اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جن سے یہ پختہ تاثر پیدا ہو کہ واقعی کوئی خفیہ سازش ہوئی ہے۔

4 ماہرین کی شہادتیں
سازشی اپنی تھیوریوں میں وزن پیدا کرنے کے لیے ان کے حق میں مشہور شخصیات اور ماہرین کے حوالے دیتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان ماہرین کا مرتبہ بھی مبالغہ آمیزی کے ساتھ بڑھا چڑھا کر بیان کیا جاتا ہے۔ نائن الیون ٹرتھ موومنٹ کے ایک اہم ر کن برطانیہ کے سابق وزیر ماحولیات مائیکل میجر کبھی برطانوی کابینہ کے رکن نہیں رہے۔ لیکن امریکہ کے سینڈیکٹیڈ ''الیکس جونز شو'' میں شامل ریڈیو انٹرویو میں انہیں بار بار ''بلئیر حکومت کی نمبر 3 شخصیت'' کہا جاتا رہا تھا۔

مذہبیات کے عالم ڈیوڈر نے گرفن، نائن الیون سازش کے حامیوں میں سب سے محترم شخصیت ہیں۔ جب وہ اچانک فزکس، ایرڈ ائنامکس اور انجینئرنگ کے متعلق معاملات میں ماہرانہ رائے دینے لگتے ہیں تو سوچیں اس وقت ان کا کیا ردعمل ہو گا جب جان کے روتھ کے مذہبی نظریات کے جائزے پر مبنی عالمانہ کتاب پر سائنسی جریدے پاپولر مکینکس کے ایڈیٹر سے رائے لی جائے۔

ضرورت ہو تو سازشی تھیوری کے داعی اپنے ماہرین کی کدالی فکشنز کے بارے میں ابہام سے بھی کام لیتے ہیں۔ لندن کے 7 جولائی کے دھماکوں کے بارے میں جو دو فلمیں بنی ہیں ان میں سے ایک میں ایک شخص رنگ کولر سٹروم کی شہادت شامل ہے۔ جسے ''لیکچرر اینڈ ریسرچر'' بتایا گیا ہے۔ لیکن کس چیز کا لیکچرر اور کس شعبے کا ریسرچر؟ یہ نہیں بتایا گیا۔ بعد میںپتہ چلا کہ وہ کیمیا گری پر سیاروں کی حرکت کے اثرات پر لیکچرر بنا تھا اور فصلوں کے ادل بدل کر کاشت کرنے کے بارے میں ایک کتاب کا مصنف تھا۔

سازشی تھیوری کے داعیوں میں ایک اور رجحان ایک دوسرے کا حوالہ دینے کا ہے یعنی ''من ترا مُلا بگویم تو مرا حاجی بگو'' کے ذریعے ایک دوسرے کا قد بھی اونچا کیاجاتا ہے اور اپنی تھیوری کو بھی پھیلایا جاتا ہے۔ مثلاً نائن الیون پر فرانسیسی سازشی مصنف تھائری میساں امریکی مصنف ویبسٹر ٹارپلے کا حوالہ دیتا ہے۔ ٹارپلے ٹریوڈ اے گرفن کا اور ڈیوڈ اے گرفن تھائری میساں کا حوالہ دیتا ہے۔

5 علمی اعتبار
سازشی تھیوریوں کے مصنف ان میں علمیت شامل کر کے انہیں وقیع بنانے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔ وہ ان میں اتنی تفصیلات اور الم غلم معلومات بھر دیتے ہیں کہ وہ ایک علمی مقالہ لگے۔ ان میں غیر سازشی ذرائع کے حوالہ جات بھی دیئے جاتے ہیں لیکن تحقیق کی جائے تو وہ اکثر سیاق و سباق سے الگ اور گمراہ کن ہوتے ہیں۔ مثلاً ڈیوڈ رے گرفن نے 9/11 کے بارے میں اپنی کتاب ''دی نیو پرل ہاربر'' (The New Pearl Harbor) میں تھائری میساں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ''وہ ایک ایسی تنظیم کے سربراہ ہیں جن کا ذکر اپریل 2002ء میں گارڈن نے ایک ایسے موقر آزاد تھنک ٹینک کے طور پرکیا جس کے بائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والے تحقیقاتی منصوبے معقولیت اور معروضیت کا نمونہ سمجھے جاتے رہے ہیں۔'' یہ بددیانتی کا ایک شاہکار ہے کیونکہ گارڈین کا پورا اقتباس اس طرح ہے ''فرانسیسی میڈیا نے فوری طور پر (میساں کی) کتاب کے دعووں کو رد کر دیا ہے حالانکہ میساں والٹئیر نیٹ ورک کے صدر ہیں جو ایک موقر آزاد تھنک ٹینک ہے جس کے بائیں بازو کی طرف جھکائو رکھنے والے تحقیقاتی منصوبے معقولیت اور معروضیت کا نمونہ سمجھے جاتے رہے ہیں، ''لی نوول آبرز وٹیئر'' نے لکھا ہے ''یہ تھیوری ہرشخص کے لیے باعث اطمینان ہو گی کہ اسلامی انتہا پسندوں کا کوئی وجود نہیں ا ور ہر شخص خوش ہے۔ یہ تھیوری حقیقت کا خاتمہ کرتی ہے۔ اخبار 'لبریشن' نے کتاب کو خوفناک حربہ اورایسے غیر محتاط اور غیر ذمہ دارانہ الزامات کا ملغوبہ قرار دیا ہے جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔''

ظاہرہے کہ حوالہ سیاق و سباق سے الگ کر کے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ میڈیا کے غلط اور ناجائز استعمال کی ایک اور مثال ٹیلی ویژن پر کسی واقعے کی ابتدائی غیر تصدیق شدہ خبروں اور رواروی میں بیان کیے گئے امکانات میں سے کسی ایسے ایک کو قطعیت کے ساتھ حرف آخر کے طور پر بیان کرنا ہے جو ان کی سازشی تھیوری کی تائید کرے۔ مغرب میں رپورٹر واقعات کو الجھانے اور خوف زدہ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ بڑی بڑی تباہیوں کی ابتدائی خبریں غلط اور محض قیاس آرائی نکلتی ہیں۔

گریفن نے اپنی کتاب ''دی نیو پرل ہاربر'' میں ورلڈٹریڈ سنٹر سے ٹکرانے والے طیاروں سے شہادتیں ملنے پر اعتراض کرتے ہوئے ''گارڈین'' کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ ''یہ خیال کہ یہ پاسپورٹ آگ کے شعلوں سے بچ گیا۔ ایف بی آئی کے دہشت گردوں کے خلاف کریک ڈائون پر یقین کرنے والوں کے اعتماد کے لیے ایک امتحان ہے'' درحقیقت یہ کوئی رپورٹ نہیں تھی ایک کالم نگار این کارف کے کالم میں چلتے چلتے ایک فقرہ تھا۔ اسے جنوبی لندن کے کسی اور کالم نگار سے اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں کہ ٹون ٹاورز سے کیا نکلا اور کیا نہیں۔

سازشی تھیوری کو سیکرٹ سروس کے لوگوں کے حوالوں، ان کی مخصوص زبان اور کوڈ ورڈز کے ذریعے آخری پالش کر کے چمکایا جاتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مصنف کے جاسوسوں اور سائنس دانوں سے رابطے رہتے ہیں۔ ایسے مصنف آج کل جو دلچسپ الفاظ اور تراکیب استعمال کرتے ہیں ان میں یعنی سیکالوجیکل آپریشن Psyops False Flag اور Wet Disposal(قتل کر دینا) شامل ہیں۔

6 تھیوریاں بھی بطور ثبوت
سازشی تھیوریاں تخلیق کرنے والے ہارتے کبھی نہیں۔ وہ اپنے دلائل میں ایسی لچک رکھتے ہیں کہ کوئی نئے حقائق سامنے آئیں تو انہیں بھی تھیوری میں سمولیا جائے۔ ایسے پریشان کن مسائل پر یہ کہا جاتا ہے کہ اصل سازش میں یہ ڈس انفرمیشن توجہ ہٹانے کے لیے جان بوجھ کرشامل کی گئی تھی۔ شہزادی ڈیانا کے قتل پر یقین رکھنے والے ایک شخص نے کہا اس واقعے کے بارے میں ''ایم آئی 6'' نے جان بوجھ کر فضول تھیوریاں پھیلائی ہیں تاکہ قتل میں اس کے کردار پر پردہ ڈالا جا سکے۔

9/11 کے بارے میں مقبول فلم Loose change کے پروڈیوسر کورے روو (Korey Rowe) سے اس فلم میں بعض واقعاتی غلطیوں کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے جواب دیا ''ہمیں معلوم ہے کہ اس ڈاکومنٹری میں غلطیاں ہیں۔ وہ ہم نے جان کر رہنے دی ہیں تاکہ لوگ ہمیں غلط سمجھ کر خود بھی تحقیق کریں۔''

7 نگرانی اور جاسوسی کا تاثر
سازشی تھیوری پھیلانے والے یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ خطرے میں ہیں (خواہ وہ کسی محفوظ ترین ملک میں ہوں) سابق برطانوی اسلحہ انسپکٹر ڈاکٹر ڈیوڈ کیلی کی موت کو خود کشی قرار دیئے جانے کے خلاف قانونی چارہ جوئی میں معروف لبرل ڈیموکریٹ رکن پارلیمنٹ فارمن بیکر نے فروری 2007ء میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں شبہ ظاہر کیا تھا کہ بعض نامعلوم افراد ان کی ای میلز intercept کر رہے ہیں۔ بعض ای میلز ان کے کمپیوٹر پر ادھوری موصول ہوئی ہیں۔ یہ بات ان کے لیے پریشان کن ہے۔ کیلی قتل سازش تھیوری کے ایک اور داعی سابق آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر ڈیوڈہالپن نے بھی اخبار ''مارننگ سٹار'' کوایک خط لکھا کہ ان کی چھ ہزار سے زائد ای میل فائلیں غائب ہو گئی ہیں۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ چونکہ وہ ڈاکٹر ڈیوڈ کیلی کا معاملہ اٹھا رہے ہیں، فلسطین پر قبضے اور فلسطینیوں سے وحشیانہ سلوک کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ برطانوی حکومت اور عراقیوںکے خلاف جنگی جرائم کے خلاف لکھتے، بولتے اور جلوس نکالتے رہے ہیں اس لیے کوئی سرکاری ایجنسی ان کے پیچھے پڑ گئی ہے۔

لطف یا خوف؟
میرا یہ کتاب لکھنے کا مقصد ان لاکھوں مردوں اور عورتوں کو کچھ مواد فراہم کرنا بھی ہے جنہیں کسی بار یا ڈنر پارٹی میں یہ الفاظ سننا پڑتے ہیں ''میں آپ کو بتاتا ہوں، حقیقت کیا ہے…'' انہیں معلوم ہوتا ہے کہ بات کرنے والا نامعقول گفتگو کر رہا ہے لیکن اکثر انہیں صرف اس لیے یہ سب سننا پڑتا ہے کہ اسے خاموش کرانے کے لیے ان کے پاس دلائل نہیں ہوتے۔ انٹرنیٹ استعمال کرنے والے بھی ہزاروں لاکھوں ویب سائٹس پر ہونے والے پروپیگنڈے کا جواب اس کتاب میں پا سکتے ہیں۔

میں یہ بھی سمجھنا چاہتا تھا کہ حقیقت کے مقابلے میں غیر حقیقی، ناقابل یقین اور خلاف قیاس باتیں اکثر ہمارے ذہنوں میں کس طرح جگہ پا لیتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، میں سازشی تھیوری کی نفسیات کو سمجھنا چاہتا تھا۔

انسان چاند پر اترا یا نہیں __ اس بارے میں دوستانہ بحث اور ایسے دلائل سے لطف اندوز ہونے کا ایک پہلو بھی ہے۔ سازشی تھیوریوں پر یقین کرنا بجائے خود نقصان دہ اور ضرر رساں ہے یہ تاریخ کے بارے میں ہمارے نظریے اور انداز فکر کو مسخ کرتا ہے اور تباہ کن فیصلوں کا موجب بنتا ہے۔

صہیونی بزرگوں کے پروٹوکولز (The Protocols of the elders of Zion)
یہ پہلی جنگ عظیم کے بعد کا زمانہ تھا۔ قدامت پسند لوگ یہودیوں کو شک و شبے کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہودی بیشتر دوسرے لوگوں کے برعکس انٹرنیشنل تھے۔ وہ تقریباً ہرملک میں رہتے تھے اور اکثر اعلیٰ عہدوں اور دولت کے مالک تھے۔ ہر جگہ موجود ہونے کے باوجود وہ الگ تھلگ تھے۔ وہ اپنی الگ زبان میں عبادت کرنے، دوسرے مذاہب کے لوگوں سے شادیاں کرنے کے اقرار کرتے اور تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دیتے تھے۔ لوگ انہیں کسی عظیم راز کا پاسبان سمجھتے تھے۔

انہی دنوں تقریباً اسّی صفحات کی ایک کتاب سامنے آئی۔ یہ جرمن اور انگریزی زبان میں تھی۔ انگریزی میں اس کا نام The Protocols of the Elders of Zion تھا۔ یہ ہدایات اور لائحہ عمل پر مشتمل تھی کہ موجودہ طاقتوں، سلطنتوں، حکومتوں اور چرچوں کو کس طرح ختم کر کے ایک نئی عالمی حکومت قائم کی جائے جس کا سربراہ خاندان دائو دی کا سپریم یہودی آمر ہو۔ پروٹوکولز میں ہدایت کی گئی کہ اس مقصد کے لیے طبقاتی نفرت پیدا کی جائے۔ جنگوں کو ہوا دی جائے۔ انقلاب لائے جائیں اور قومی اداروں کو بدنام کیا جائے۔

روایتی اقدار کو تباہ کرنے کے لیے لبرل ازم کو فروغ دیا جائے۔ اس سے سوشلزم آئے گا اور پھر کمیونزم ریاستیں ختم ہوجائیں گی اور دنیا کو ایک نئے نظام کی تلاش ہو گی اور فری میسن کی مدد سے ہم اس کے لیے تیارہوں گے۔ پروٹوکول جو بیس سرخیوں کے تحت مینجمنٹ کے لیکچروں کی طرح ہیں۔ پہلے پروٹوکول میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں اچھی فطرت والوں کے مقابلے میں بدفطرت افراد زیادہ ہیں اس لیے تعلیمی مباحث سے زیادہ تشدد موثر ہوسکتا ہے۔ پروٹوکولز میں ضابطہ پالیسی، سیکورٹی، اسلحہ بندی، اجارہ داری، پریس، ٹیکس پالیسی اور تعلیم کے ابواب ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک ا نتخابی منشور نظر آتا ہے لیکن اسے رائے دہندگان سے پوشیدہ رکھنا ہے۔ اس کا انداز میکاولی کاہے کہ انسانوں کی کمزوریوں کو کس طرح استعمال کیا جائے۔ پروٹوکول 12 میں کہا گیا ہے کہ ادب اور صحافت سب سے اہم تعلیمی قوتیں ہیں۔ اس لیے ہم زیادہ سے زیادہ رسالوں اور اخباروں کے مالک بن جائیں گے لیکن لوگوں کے شک سے بچنے کے لیے تمام رسالے ایک دوسرے سے مختلف بلکہ ظاہری شکل، خیالات اور رجحانات میں ایک دوسرے سے ہٹ کر ہوں گے۔ یہ رسالے ہر مکتبہ فکر کے ہوں گے۔ ارسٹوکریٹک، ری پبلکن، انقلابی حتیٰ کہ انارکسٹ بھی۔ ہندو دیوتا وشنو کی طرح ان کے ایک سو ہاتھ ہوں گے اور ہر ہاتھ کی نبض مختلف ذہنی رجحان کے تحت ہو گی۔ فحش اور عریاں مواد بھی خوب پھیلایا جائے گا تاکہ وہ تقریروں اور پارٹی پروگراموں سے زیادہ راحت پائیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پروٹوکولز نے کس اجلا س میں جنم لیا۔ یہ لیکچرر کس نے کب اور کہاں دیئے۔ اس کے جرمن ایڈیشن کے ایڈیٹر 74 سالہ سابق فوجی افسر، زوربیک نے لکھا کہ اگست 1897ء میں سوئس شہر باتل میں پہلی صہیونی کانفرنس ہوئی تھی جس میں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کے لیے ایک ملک کی ضرورت پر غور کیا گیا۔ کانگریس کے دس اجلاس ہوئے جن کی صدارت بابائے صیہونیت ڈاکٹر تھیوڈور ہرزل نے کی۔

انہوں نے ہی یہ پروٹوکول بیان کیے۔ ہرشخص کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ 9 پروٹوکولز کا مسودہ کہیں لے جانے والے ایلچی نے بھی اپنی قیمت وصول کی۔ اسے مسودہ کہیں پہنچانے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ فرنکفرٹ کے میسنک لاج میں روسی سیکرٹ پولیس کا ایک ایجنٹ اسے ملا جس کے ساتھ نقل نویسوں کی ایک ٹیم بھی تھی۔ ایلچی نے قیمت وصول کی اور ایک رات کے لیے مسودہ ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے راتوں رات اصل زبان (شاید عبرانی) میں اس کی نقل تیار کی۔ صبح کو ایلچی نے مسودہ واپس لیا اور تاریخ سے غائب ہو گیا۔ نقل روس پہنچی جہاں سکالرز نے اس کا ترجمہ کیا۔

1905ء میں ماسکو کے ایک سکالر سرگئی اے فیلوس نے ایک کتاب "The Great in the small" لکھی۔ پروٹوکولز اس میں بطور ضمیمہ شامل تھے۔ زوربیک کے جرمن ایڈیشن کے بعد پروٹوکولز کے کئی یورپی زبانوں میں تراجم شائع ہوئے۔ امریکہ میں تین مختلف ایڈیشن چھپے۔ اس کے بعد عربی ترجمہ بھی آ گیا۔ ہرجگہ سکالرز اور حکمرانوں میں اس کاچرچا ہونے لگا۔ 1919ء میں ایک اور کتاب چھپی Friedrich wichtl کی اس کتاب The World Freemasunry world revolution میں یہودیوں اور فری میسن کے بارے میں وہی خیالات تھے جنہیں پروٹوکولز نے تقویت دی تھی ایک 19 سالہ لڑکے نے اپنی ڈائری میں لکھا ''یہ کتاب سب کچھ واضح کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ہمیں کس کے خلاف لڑنا چاہیے۔ یہ لڑکا ہنرخ ہملر تھا۔

پروٹوکولز برطانیہ میں 1920ء میں "The Jewish Peril" کے نام سے شائع ہوئے۔ تقریباً تمام بڑے برطانوی اخباروں نے اس پر تبصرے کیے۔ دی ٹائمز نے "a Disturbing Pamphlet: A call for Inquiry" کے عنوان سے اداریہ لکھا جس میں یہ بھی کہا گیا کہ اگر یہ جعلسازی ہے تو حالات و واقعات اس کے مطابق کیوں ہو رہے ہیں؟

ٹوری اخبار مارننگ سٹارنے پروٹوکولز پر 23 طویل مضامین شائع کیے اور پھر انہیں The cause of world unrest کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیا۔ اخباری تبصروں نے ایسی فضا پیدا کی کہ یہودیوں کو کلیدی عہدوں سے ہٹانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔ امریکہ میں پروٹوکولز" فلاڈیلفیا پبلک لیجر"نے شائع کئے لیکن یہودی حوالہ نہیں دیا۔ پھر کرسچن سائنس مائینٹر نے پروٹوکولز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ واقعی کوئی خفیہ سیاسی تنظیم موجود ہے۔

امریکی سرمایہ دار فورڈ جنگ اور کمیونزم کا سخت مخالف تھا۔ اس نے اپنے خیالات کے پرچار کے لیے ''ڈیربورن انڈیپنیڈنٹ'' کے نام سے ا خبار بھی نکالا جس کی اشاعت تین لاکھ تک پہنچ گئی۔ (ڈیربورن وہ جگہ ہے جہاں فورڈ کاروں کا پہلا کارخانہ لگا) اس اخبار میں ایک صفحہ "Mr. Ford's own page" بھی ہوتا تھا۔ فورڈ اس میں یہودیوں کے خلاف کافی کچھ چھاپتے رہے تھے۔ 26 جون 1920ء کو انہوں نے پروٹوکولز قسط وار چھاپنے شروع کر دیئے۔ اس کے بعد انہیں کتابی صورت میں چھاپا گیا۔ فورڈ نے 50 لاکھ ڈالر سبسڈی دی جس کے باعث کتاب کی قیمت صرف 25 سینٹ رکھی گئی۔ اس کی پانچ لاکھ کاپیاں صرف امریکہ میں بک گئیں۔

جرمن سکالر کا انکشاف
انہی دنوں ایک جرمن سکالر ڈاکٹر جے سٹانجک نے برلن کے ماہنامہ "In Deutschen Reich" میں ایک مضمون میں انکشاف کیا۔ یہودی بزرگوں کا ایک خفیہ اجلاس باسل کی کانگریس سے بہت پہلے بھی ہوا تھا جس کا احوال باسل کانگریس سے تیس سال پہلے ایک کتاب میں شائع ہو چکا تھا۔ لیکن یہ کتاب تاریخ یا حقائق کی نہیں ایک ناول ہے۔ یہ کتاب 1868ء میں جرمن زبان میں شائع ہوئی تھی اور کسی "Sir John Retoliffe" نے لکھی تھی۔ درحقیقت یہ ایک جرمن صحافی Hermann Guedsche کا قلمی نام تھا۔ اسے 1848ء میں ایک سیاستدان کے جعلی خط تیار کرنے پر سزا ہوچکی تھی۔ محکمہ ڈاک کی ملازمت کے برطرف ہونے کے بعد وہ صحافی بن گیا تھا اور پیسہ کمانے کے لیے فرضی نام سے ناول بھی لکھا کرتا تھا۔ یہ ناولBiarritz ان میں سے ایک تھا۔ اس کی کہانی یہ ہے کہ پراگ کے یہودی قبرستان میں اسرائیل کے بارہ قبیلوں اور جلاوطنوں کے نمائندے جمع ہوتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ سو سال تک کیا کرتے رہے اور اب ان کے کیا ارادے ہیں۔ وہ اپنے عہد کی تجدید کے ساتھ رخصت ہو جاتے ہیں۔ اس بھولے بسرے ناول Biarritz کا وہ باب جس میں یہودی نمائندوں کے اپنے اپنے آئندہ پروگرام بیان کیے گئے ہیں۔ 1872ء میں کسی نے روس سے ایک پمفلٹ کی صورت میں چھاپ دیا جس کے آغاز میں کہا گیا کہ اگرچہ اجلاس افسانوی تھا لیکن یہ ایک حقیقت بیان کرتا ہے۔ 1881ء میں فرانس کے ایک رسالے Le Contemporian نے اسے ''ربیّ کی تقریر'' کے عنوان سے چھاپ دیا اور تمام یہودی نمائندوں کے دعوے ملا کر واحد تقریر بنا دی۔ اب یہ افسانے سے حقیقت بنا دی گئی تھی اور یہ ظاہر کیا گیا تھا کہ یہ تقریر یہودی بزرگ نے ایک مزار پر حقیقی اجتماع میں کی اور ایک انگریز سفارت کار سرجان ریڈکلف اسے احاطہ تحریر میں لائے۔ یہ ''تقریر'' 1891ء میں روس کے ساحلی شہر اوڈیسا کے ایک اخبار نے شائع کی اور دعویٰ کیا کہ یہ آٹھ سال قبل ایک اجتماع میں کی گئی۔ 1896ء میں یہ کتابی شکل میں فرانس میں شائع کی گئی۔ مقرر کا نام اب چیف ربیّ جان ریڈ کلف ہو گیا۔ اس کے بعد مختلف ایڈیشنوں میں ربیّ کے نام بدلتے رہے۔ اکتوبر 1920ء میں فرانسیسی جریدے نے ایک مضمون شائع کیا جس میں مذکورہ تقریر اور پروٹوکولز میں مماثلت بیان کی گئی تھی لیکن اسے اس بات کا ثبوت قرار دیا گیا تھا کہ دونوں ہی صحیح ہیں۔ یہ اضافہ بھی کیا گیا کہ تقریر قلمبند کرنے کی وجہ سے بہادر برطانوی بغاوت کار کو جان سے ہاتھ دھونے پڑے۔ اس طرح ایک جرمن جعلساز کا گھڑا ہوا افسانہ حقیقت بنا دیا گیا۔

میکیاولی کی آمد
1921ء میں ٹائمز لندن کے نمائندے فلپ گریوز کو ایک جلا وطن روسی زمیندار ملا اور بتایا کہ وہ یہودیوں اور فری میسن کی سرگرمیوں میں دلچسپی لیتا رہا ہے۔ پروٹوکولز بھی تفصیل سے پڑھے ہیں ایک دن زلا کی خفیہ پولیس کا ایک سابق عہدیدار کچھ پرانی کتابیں فروخت کرنے کے لیے لایا۔ جو اس نے خرید لیں۔ ان میں سے ایک چھوٹی سی فرانسیسی کتاب کا پہلا صفحہ غائب تھا لیکن اس کی جلد پر جولی لکھا تھا۔ پیش لفظ کے ساتھ جنیوا 15/ اکتوبر 1864ء درج تھا۔ کتاب پڑھی تو لگا کہ یہ تو اکثر و بیشتر حرف بہ حرف پروٹوکولز والا مواد ہے۔ وہ بہت حیران ہوا کہ پروٹوکولز تو جس مبینہ اجلاس کی رپورٹ ہیں وہ تواس کتاب کی اشاعت سے تیس سال پہلے ہوا تھا۔ فرانسیسی کتاب یہودیوں کے متعلق تھی ہی نہیں۔ اس کا موضوع فرانس کی 1860ء کے عشرے کی سیاست تھا۔ یہ دراصل نپولین III کی حکومت کے خلاف تھی۔ اس کے خلاف براہ راست تو کچھ نہیں لکھا جا سکتا۔ پیرس کے ایک وکیل نے یہ کیا کہ تاریخی شخصیات میکیاولی اور فرانسیسی فلسفی مانسپتکیوکی جہنم میں ملاقات اور اس میں ہونے والا مکالمہ لکھ ڈالا۔ اس تمثیلی انداز کے باوجود جولی سزا سے نہیں بچ سکا۔ اسے جرمانہ اور پندرہ ماہ قید کی سزا ہوئی۔ مکالمے میں میکیاولی دراصل نپولن III ہے جو بتاتا ہے کہ استبداد کے لیے اس نے کیا کیا کیا۔ سکالرز کا کہنا ہے کہ پروٹوکولز 1 سے 19 ہیں جو میکیاولی کے ڈائیلاگ 1 تا 17 سے ملتے ہیں۔ مورخ فارمن کوہن کا کہنا ہے کہ پروٹوکول کے 160 پیرے یا تقریباً چالیس فیصد حصہ براہ راست جولی کی کتاب سے لے لیا گیا ہے۔ پریس کے بارے میں پروٹوکول کا اقتباس درج کیا جا چکا ہے۔ اب دیکھیں ڈائیلاگ میں میکیاولی کیاکہتا ہے: ''میں ہرپارٹی کے لیے رسالہ نکالوں گا۔ ارسٹوکریٹک پارٹی کے لیے ارسٹوکریٹک رسالہ، ریپبلکن پارٹی کے لیے ریپبلکن، انقلابی پارٹی کے لیے انقلابی اور ضروری ہوا تو انارکسٹوں کے لیے انارکسٹ رسالہ۔ وشنو دیوتا کی طرح میرے پریس کے سوبازو ہوں گے۔ ان کا ہر ہاتھ عوام کی نبض پرہو گا۔

''جس شخص نے ڈائیلاگس کو پروٹوکولز میں تبدیل کیا اس نے ترتیب بدلنے کی زحمت بھی نہیں کی۔ اگست 1921ء میں ٹائمز میں تین قسطوں میں آیوز کا مضمون ''پروٹوکولز کا خاتمہ'' کے عنوان سے شائع ہوا۔ لیکن مختلف ممالک میں سیاسی مقاصد کے لیے ابھی تک اس کے ترجمے شائع ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ پروٹوکولز کی جعلسازی کب ، کس نے اور کیوں کی؟

زوربیک کی کہانی بیان کی جا چکی ہے کہ مسودہ کس طرح روس پہنچا اور سر گئی نائلوس نے شائع کیا۔ خود نائلوس نے مختلف دعوے کیے ہیں۔ 1905ء کے ایڈیشن میں اس نے لکھا کہ یہ ایک بڑی دستاویز کا حصہ ہے جو فرانس میںصیہونیوں کے آرکائیوز سے نکالا گیا ہے۔ 1911ء کے ایڈیشن میں اس نے لکھا کہ یہ اصل دستاویز ترجمہ ہے جو ایک خاتون نے فرانس میں ایک فری میسن لیڈر سے خفیہ معلومات کے دوران چرایا۔ یعنی باسل کانگریس، فرینکفرٹ میں نقل نویسی کا حصہ ختم اور ایک فاحشہ کی چوری باقی رہ گئی۔ یقینی بات ہے کہ پروٹوکولز کے دوسرے ایڈیشنوں میں نصف درجن سے زیادہ مختلف جگہوں سے انہیں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ امریکی سفارت کار اور صحافی ہرمن برنمسٹین کی تحقیق کے مطابق زار روس کی خفیہ پولیس کے پیرس میں متعین ایک افسر آئیوانووچ راچکووسکی نے ''پروٹوکولز'' ان کتابوں کی مدد سے تیار کیے تھے جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اسی شخص نے پلیخانوف کے جعلی خط بھی تیار کیے تھے۔ 1934ء میں سوئیٹرزلینڈ میں پروٹوکولز شائع کرنے والے پبلشرز کے خلاف مقدمے میں جولی، نائلوس، گوئیدس جے اور راچکووسکی کے بارے میں مواد عدالت کے سامنے رکھا گیا۔ عدالت کے سربراہ جج نے کہا ''مجھے توقع ہے کہ ایک دن آئے گا جب کوئی شخص نہیں سمجھ سکے گا کہ اتنے معقول اور سمجھ دار لوگوں کو چودہ دن تک اس بات پر کیوں دماغ کھپانے پڑے کہ پروٹوکول آف زئین اصلی ہے یا گھڑی گئی ہے۔ میں پروٹوکولز کو مضحکہ خیز اور واہیات سمجھتا ہوں۔''
"The Role of the Conspiracy theory in Shaping modern History"
: DAVID AARONOVITH از
ترجمہ اور تلخیص: الف میم