working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

ماہنامہ الشریعہ کا خاص نمبر
صفدر سیال

اسلام کے ساتھ بہت بڑی زیادتی شاید ہم اہل اسلام کے ہی کچھ حلقے کر رہے ہیں جواس دائرہ امن کو اپنی شدت پسندانہ کم عقلی سے ایک دائرہِ دہشت کے طور پر پیش کر رہے ہیں جس سے اسلام کی قوتِ جاذبہ اور قوت متحرکہ دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستانی تناظر میں بالخصوص اپنوں کی یہ روش بسااوقات اسلام جیسے عالمگیر مذہب کو گلی محلے کی چودھراہٹ کے برابر لا کھڑا کرتی ہے۔ ایسا کرنے والے نہ تواسلام کے عالمگیر پیغام امن و محبت سے واقف لگتے ہیں اور نہ ہی اس دائرہ امن کی تاریخ سے۔

بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ شدت پسندانہ سوچ اور عمل اسلام کے خلاف ہونے والی اندرونی اور بیرونی سازشوں کا ردعمل ہے۔ مگر کیا یہ ردعمل مثبت، افادی اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے؟ کیا علمی، فکری اور نظری سطحوں پر کوئی ردعمل پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے جو ذہنوں کو دور دھکیلنے کی بجائے اس دائرہ امن کی طرف راغب کرے؟ کیا اسلام کوایک فطری، منطقی پرکشش اور ہر دلعزیز مذہب کے طور پر پیش کرنے میں ہم اہل اسلام اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟ یہ اور ان جیسے سینکڑوں ایسے سوال ہیں جن میں سے کچھ کا جواب الشریعہ اکادمی کا ماہنامہ" الشریعہ" پڑھ کر مل جاتا ہے اور بہت سے سوالوں کا اضافہ بھی ہوتا ہے جن کے بارے میں سوچنا از خود ایک ''جواب'' ہے جس کی موجودہ حالات میں ازحد ضرورت ہے۔

میں الشریعہ کا مستقل قاری تو نہیں ہوں لیکن نومبر / دسمبر 2009ء کا شمارہ دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ جس علمی اور فکری تحریک کی ہمیں اس وقت ضرورت ہے اس کے لیے ہمیں ایسی ہی کاوشیں درکار ہیں جو ذہنوں میں سوال اٹھائیں، سوچنے پر مجبور کریں اور منجمد ذہنوں کو جنبش دیں۔ یہ بات میں الشریعہ میں چھپنے والے مضامین میں موضوعات کے انتخاب، زاویہ ہائے بحث اور موجودہ حالات میں ان کے انطباق کے حوالے سے کہہ رہاہوں۔ مذہب کے حوالے سے بہت سی ایسی باتیں ہیں جو پروان چڑھتے چڑھتے پختہ آراء بن چکی ہیں اور ان کی حیثیت تبریکی زیادہ اور علمی و منطقی کم ہے۔ ان کی یہ حیثیت ہمیں ان کے بارے میں سوچنے سے ڈرا دیتی ہے اور تفقہو فی الدین کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ شاید ہمارے معاشرے میں موجود شدت پسند قوتیں ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اس مختصر تبصرے میں اس شمارے میں موجود تمام مضامین کا احاطہ تو نہیں کیا جاسکتا تاہم چند ایک کا ذکر ضروری ہے۔

کلمۂ حق کے نام سے ابو عمار زاہد الراشدی کا لکھا ہوا اداریہ ''مذہبی طبقات، دہشت گردی اور طالبان'' ایک سوال نامے کے جوابات پیش کرتا ہے۔ پاکستان کے فکری اور نظریاتی پس منظر سے قطع نظر، زاہدالراشدی صاحب نے ٹیپو سلطان، سردار احمد خان کھرل اور فقیر آف ایپی کی قوم پرستانہ مزاحمتی تحریکوں کو بھی شاہ اسمعٰیل شہید اور حاجی شریعت اللہ کی مذہبی اصلاحی تحریکوں کے ساتھ رکھا ہے، مصنف افغان جنگ کو شدت پسند گروہوں کا نقطہ آغاز سمجھتا ہے۔ وہ جہادِ افغانستان میں حصہ لینے والے ''مجاہدین'' کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہے: افغانی، پاکستانی اوردنیا بھر سے آئے ہوئے مجاہدین۔ پاکستان میں نفاذِ شریعت کے لیے قائم ہونے والے مسلح گروہ، جن کی شدت پسندی کو مصنف کھلے بندوں غلط قرار دیتا ہے۔ اسی دور کی پیداوار تھے۔ لیکن مصنف سمجھتا ہے کہ اسی طرح کی شدت پسندی کراچی میں قومیت اور زبان کے حوالے سے بلوچستان میں قومیت کے نام پر، اور مختلف مسلکوں میں فرقہ واریت کے عنوان سے اپنا کام کر رہی تھی۔ سوات اور وزیرستان میں یہ شریعت کے نفاذ کے عنوان سے در آئی۔ اداریے کا بڑاحصہ مدارس کے بارے میں توضیحات پر مشتمل ہے۔ مصنف کے نزدیک انتہا پسندانہ جماعتوں کی تنظیم سازی اور ٹریننگ میں دینی مدارس کا کوئی کردار نہیں۔ چونکہ یہ مسلح تحریکیں اپنا مقصد اور ایجنڈا وہی بتاتی ہیں جو باالعموم مدارس کا ہے اس لیے غلط فہمی ہوجاتی ہے۔ مدارس کے کچھ لوگ اگر ایسی سرگرمیوں میں شامل ہیں تو ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ تاہم مصنف اس بات سے انکار نہیں کرتا کہ مسلکی بنیادوں پر مدارس میں عدم برداشت کی فضا بہر حال موجود ہے۔

مسلم امہ میں قیادت کے مسائل کے ساتھ ساتھ مصنف مسلم امہ کی فکری بیداری جیسے موضوعات پر سیر حاصل بحث کرتا ہے اور یہ بھی سمجھتا ہے کہ تمام غیرمسلموں کا اسلام کا دشمن سمجھنا درست نہیں ہے۔ اسلام کے نام پر دہشت گردی کے سوال پر مصنف کہتا ہے کہ ''اسلام کے نام پر ایسی کارروائیاں اور دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کا رویہ مسلمانوں کے ایک بنیادی فریضے دعوت و تبلیغ پر اثر انداز ہو رہا ہے۔'' نفاذ شریعت کے حوالے سے مصنف سمجھتا ہے کہ اس کے لیے رائے عامہ، ووٹ اور سیاسی عمل میں سب سے زیادہ موثر اور درست ذریعہ ہے۔ عوام ایسا چاہیں تو احتجاج کر سکتے ہیں البتہ اس عوامی تحریک کا پر امن اور دستور و قانون کے دائرے کے اندر رہنا اور کسی بھی قسم کے تشدد سے اسے پاک رکھنا ضروری ہے۔ پاکستان کے اندر کسی بھی مطالبے کے لیے ہتھیار اٹھانا، مسلح جدوجہد کا ماحول پیدا کرنا، عوام کو خوف و ہراس میں ڈالنا اور لاقانونیت کی فضا پیدا کرنا جائز نہیں۔ مصنف کے نزدیک حکومتی فرمان کے بغیر معاشرے کو شرعی احکام و قوانین کا پابند بنانے کی بات نظری طور پر کتنی ہی دلفریب کیوں نہ ہو، علمی طور پر ناممکن ہے۔

صوبہ سرحد میں طالبان کی طرف سے سکھوں پر جزیہ کے نفاذ اورعورتوں کے ساتھ ان کے برتائو کے جواب میں مصنف کا خیال ہے کہ یہ غلط ہے اور غیر مسلموں اور عورتوں کے بارے میں پاکستان کے تناظر میں علماء کرام کے 22 دستوری نکات اور 1973ء کے دستور میں اسلامی تجاویز ہی نفاذِ شریعت کا صحیح معیار ہے جس سے انحراف جائز نہیں۔

نفاذِ شریعت کے نام پر الٹی سیدھی حرکتیں رائے عامہ کونفاذِ شریعت کے عمل اور جدوجہد سے متنفر کرنے کا باعث بنتی ہیں۔

الشریعہ کا دوسرا مضمون اسسٹنٹ پروفیسر کلیہ شریعہ و قانون بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد، محمد مشتاق احمد کی تصنیف ہے۔ انہوں نے واقعتاً دہشت گردی کے واقعات کے ضمن میں چند چبھتے ہوئے سوالات اٹھائے ہیں۔ اس ضمن میں کچھ سازش کے نظریات (Conspiracy Theories) بیان کرنے کے بعد وہ عوامی اور روایتی دینی طبقہ کے رویوں پر افسوس کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کئی لوگ واضح طور پر ثابت شدہ خودکش حملے کو بھی خودکش حملہ ماننے سے انکار کرتے ہیں اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ لاشعوری طور پر وہ حملہ آوروں سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر اگر کبھی وہ اسے خودکش حملہ مان بھی لیتے ہیں تو اس کے بعد سازش کے نظریات پیش کرتے ہیں کہ یہ حملہ طالبان نے نہیں کیا بلکہ کسی اورنے کیا ہے۔

صاحبِ مضمون کے نزدیک بہت سے لوگ اب بھی یہ بات ماننے پر تیار نہیں ہیں کہ خود کش حملہ آوروں کی یہ کھیپ پاکستان کے اندر ہی تیار کی جا رہی ہے اور یہ خودکش حملہ آور پاکستانی ہیں۔ ''کاش ہمارے یہ دوست جان لیں کہ ہمارا واسطہ جن لوگوں سے ہے، ان کے نزدیک ہم میں سے اکثر مرتد اور واجب القتل ہو چکے ہیں۔ کیا اسلامی یونیورسٹی پر حملوں کے بعد ہمارے ان نادان دوستوں کی آنکھیں کھل جائیں گی یا اس کے لیے اس سے زیادہ بڑے پیمانے پر تباہی کی ضرورت ہے؟''

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا مضمون"آزادی کی پرتشدد تحریکیں: سبق سیکھنے کی ضرورت "دنیا کے مختلف خطوں میں موجود 14 آزادی کی تحریکوں پر بحث کرتا ہے اور نتیجہ نکالتا ہے کہ جب تک ایک طاقتور، بہادر سنجیدہ ملک کھل کر ایسی کسی تحریک کی حمایت نہ کرے اس کا کامیاب ہونا ناممکن ہے۔

محمد عمار خان ناصر اپنے مضمون میں جہاد کی فرضیت اور اس کے اختیار کے حوالے سے عام پائی جانے والی غلط فہمیاں دور کرنے کے ساتھ ساتھ بہت معنی خیز سوالات بھی اٹھاتے ہیں مثلاً کیا کسی جارح کے خلاف جنگ کے مخصوص اسباب پائے جانے پر 'جہاد' کی فرضیت علی الاطلاق نوعیت کی ہے یا اس میں علمی حالات و امکانات کا بھی دخل ہے؟ کیا محض سبب کی موجودگی جہاد کی عملی فرضیت کے لیے کافی ہے؟ مسلمانوں کے معاشرے میں جہاد کے فرض ہونے یا نہ ہونے اور اس کے لیے عملی اقدام کا فیصلہ کرنے کا اختیار کس کو حاصل ہے؟ آیا اس کا فیصلہ اربابِ فتویٰ اور علماء کریں گے یا مسلمانوں کے ارباب حل و عقد؟

آیا یہ نظمِ اجتماعی کا حق خاص (Prerogative) ہے یا مسلمانوں کے گروہ نجی سطح پر بھی اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں؟

یہ تبصرہ نامکمل ہو گا اگر الشریعہ کے زیر نظر شمارے میں موجود مولانا مفتی محمد زاہد کے مضمون ''موجودہ پرتشدد تحریکیں اور دیوبندی فکر و مزاج'' کا ذکر نہ کیا جائے۔ صاحب مضمون کے نزدیک معاشرے میں پائی جانے والی 'خلافِ شرح' چیزوں کے بارے میں دیوبند کی پالیسی شروع سے ہی یہ رہی ہے کہ زبانی امربالمعروف و نہی عن المنکر اور علمی طور پر عدمِ مداخلت کی راہ اختیار کی جائے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ دیوبند بنانے یا استعداد میں اس کی سرپرستی کرنے والوں میں کئی لوگ 1857ء کے معرکوں کا حصہ رہے تھے اور یقینا یہ ایک عسکری جدوجہد تھی لیکن اس کو برائے نام اور بہت کمزور سہی، ایک مسلمان بادشاہ کی چھتری حاصل تھی۔ صاحبِ مضمون کے نزدیک اس بات کا انکار انتہائی مشکل ہے کہ آج دیوبندیت کی طرف نسبت رکھنے والوں میں ایسے کچھ نہ کچھ عناصر موجود ہیں جو نیک نیتی سے متشددانہ یا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کی تائید کرتے یا کم از کم اس سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ یہ دراصل دیوبند کی روایت سے ایک طرح کا انحراف ہے۔