working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

''روشن باتیں''
مجتبیٰ محمد راٹھور

اللہ تبارک وتعالیٰ کے نیکوکار بندے اس دنیا میں محنت اور مجاہدہ سے نہ صرف اپنی ذات میں رتبۂ کمال تک پہنچتے ہیں بلکہ اپنے أخلاق حسنہ اور تعلق ربوبیت کی وجہ سے دوسرے لوگوں کی بھی رہنمائی کا سبب بنتے ہیں۔ ان کی پوری زندگی اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں گزرتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ عشق ان کی امتیازی خصوصیت ہے۔ حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ (تذکرة الاولیأ) اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کے بارے میں اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں ''کہ یہ مقام وہی شخص پا سکتا ہے، جس کے دائیں ہاتھ میں قرآن پاک ہو اور بائیں ہاتھ میں سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہو اور ان دونوں شمعوں کی روشنی میں وہ قدم بڑھاتا جائے تاکہ نہ شبہات کے گڑھوں میں گرے اور نہ بدعت کے اندھیروں میں پھنسے۔''

صوفیائے کرام اور اولیائے عظام نے خود بھی قرآن پاک اور سنت نبوی پر عمل کیا اور اپنے حلقۂ عقیدت میں داخل ہونے والوں کو بھی کتاب و سنت کی پیروی کی تاکید فرمائی۔ ''کشف االمعجوب'' حضرت شیخ علی ہجویری معروف بہ داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ'' کی تصنیف ہے۔ جس میں آپ نے طریقت و شریعت کے مباحث پر استدلال کیا ہے۔ کشف المعجوب میں جس طرح حضرت داتا گنج بخش نے قرآن و حدیث سے استدلال کیا ہے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف علوم باطنہ کے ماہر تھے بلکہ آپ علوم شر یعت کے بھی غواص تھے اور علم تفسیر و حدیث پر آپ کو مکمل عبور حاصل تھا اور یہ سب کچھ آپ کے مرشد کامل کا فیضان تھا۔ جس کے بارے میں حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ خود، فرماتے ہیں کہ میرے مرشد شیخ ابوالفضل محمد بن حسن الختلی رحمة اللہ علیہ ہیں جو علم تفسیر و حدیث کے عالم تھے۔'' وہ مسلک تصوف میں حضرت جنید بغدادی رحمة اللہ علیہ کا مذہب رکھتے تھے۔ جب حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ لاہور میں تشریف لائے تو آپ کے قیام کے دوران ہزاروں لوگوں نے آپ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا۔ لاہور میں قیام کے دوران اپنا تمام وقت تبلیغ اسلام اور تصنیف و تالیف میں صرف فرمایا۔ آپ کے سلسلہ تصوف میں قدم رکھنے سے پہلے تصوف نظری شکل میں موجود تھا۔ پھر جب تصوف نے علم کی دنیامیں قدم رکھا تو رموز طریقت اور اسرار حقیقت پر بھی قلم اٹھایا گیا۔ ابتداء میں تصوف کے بارے میں تذکرہ کرنے والی ساری کتب عربی زبان میں تحریر کی گئی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ اسے دیگر زبانوں میں منتقل کیا گیا۔ حضرت داتا گنج بخش رحمة اللہ علیہ کی مادری زبان فارسی تھی۔ اس لیے آپ نے عوام کے افادہ کے لیے کشف المعجوب کو فارسی زبان میں تصنیف فرمایا۔ جبکہ اس کے علاوہ آپ نے اکثر کتب عربی زبان میں تحریر کیں۔ جس میں سے اکثر کتابیں معدوم ہو چکی ہیں۔ کشف المعجوب اپنے موضوع اور مباحث کے اعتبار سے جس قدر بلند پایہ کتاب ہے وہ تعریف و توصیف سے ارفع ہے۔ حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمة اللہ علیہ کا ارشاد گرامی ہے ''اگر کسی کا پیر نہ ہو۔ تو ایسا شخص جب اس کتاب کا مطالعہ کرے گا۔ تو اس کو پیر کامل مل جائے گا۔''

کشف المعجوب ایک ایسا علمی شاہکار ہے، جس کی بدولت برصغیر پاک و ہند میں صحیح اسلامی تصوف نے فروغ پایا۔ اسی وصف خاص کی بدولت آج بھی کشف المعجوب کی قدر و منزلت اتنی ہے جتنی آج سے نو سو برس پہلے تھی۔

اس کتاب میں تصوف کے طریقے کی تحقیق، اہل تصوف کے مقامات کی حقیقت و کیفیت، ان کے اقوال اور رموزو اشارات کو بیان کیا ہے۔ اس کتاب میں صاحب کشف المعجوب جس مسئلہ یا رمز طریقت پر قلم اٹھاتے ہیں اولاً وہ قرآن حکیم اورارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی سند لاتے ہیں پھر اس کا استدلال آثار و اخبار سے کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ کتاب آپ کے بعد کے بزرگان طریقت اور ارباب تصوف کے لیے ہمیشہ مآخذ کا کام دیتی رہی ہے۔
کشف المعجوب نام تحریر کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ''اے طالبان حق تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اولیاء اللہ اور محبوب بارگاہ ایزدی کے سوا سارا عالم لطیفۂ تحقیق سے محجوب و مستور ہے۔ چونکہ یہ کتاب راہ حق کے بیان، کلمات تحقیق کی شرح اور حجاب بشریت کے کشف میں ہے۔ لامحالہ اس کتاب کے لیے اس کے سوا کوئی نام موزوں نہیں ہو سکتا۔ چونکہ حقیقت کا منکشف ہونا مستور اشیاء کے لیے فنا و ناپید ہونے کا سبب بنتا ہے۔ جس طرح موجود و حاضر کے لیے پردہ حجاب میں ہونا موجب ہلاکت ہے۔ یعنی قرب جس طرح بُعد کی طاقت نہیں رکھتا اس طرح بُعد بھی قرب کی برداشت نہیں رکھتا۔ اسی طرح حقائق اشیاء کے معانی و مطالب اسی پر کھلتے اور منکشف ہوتے ہیں جس کو خاص اسی لیے پیدا کیا گیا ہو۔ ان کے سوائے دوسروں کے لیے یہ ممکن نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
''کل میسر لما خلق لہ''
ہر مخلوق کے لیے وہی چیز ہے جس کے لیے اسے پیدا کیا گیا ہے۔