working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

دہشت گردی قوانین میں ترامیم

اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان ملک میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے انسداد دہشت گردی کے قوانین میں ترامیم پر غور کر رہی ہے۔ ان ترامیم کا مقصد دہشت گردی میں ملوث ملزمان کی ضمانت کو مشکل بنانا، عدالتوں کو کم از کم دس روز کا ریمانڈ دینے کا خصوصی اختیار ملزمان کی جائیداد ضبط کرنے، تحقیقات مکمل کرنے کے لیے سات روز کی مدت میں اضافہ کرنا اور ریاست کو عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کے خلاف ایک ماہ کا وقت دینا شامل ہے۔ دہشت گردی قوانین میں تبدیلی ایک مستحسن اقدام ہے۔ گذشتہ برسوں میں لاپتہ افراد کا مسئلہ بھی دہشت گردی قوانین میں سقم کا ایک اہم سبب قرار دیا جاسکتا ہے جب کہ گذشتہ سات سال میں دہشت گردی کے چند ایک مقدمات کا فیصلہ ہی ہو پایا ہے جو قوانین میں سقم کی جانب ایک واضح اشارہ ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں میں تجربہ کار ججوں کی فراہمی اور ان کے تحفظ کا بھی ہے۔ ماضی میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ ان عدالتوں کے ججوں پر حملے کیے گئے یا ڈرایا دھمکایا گیا، جس کے باعث بھی ان عدالتوں کی فعالیت متاثر ہوئی اور ان عدالتوں کے جج صاحبان کے بغیر دبائو اور آزادانہ فضاء میں کام کرنے پر سوال رہا ہے۔

ان قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے سیاسی مقدمات کو انسداد دہشت گردی قوانین اور عدالتوں کے دائرہ کار سے نکالنا ہوگا تاکہ ان قوانین کے سیاسی استعمال کو روکا جاسکے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ ''تجزیات'' نے مارچ 2009 کی اشاعت میں پاکستان میں دہشت گردی قوانین پر ایک مفصل مطالعہ شائع کیا تھا اور نشاندہی کی تھی کہ قوانین سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ریاست ان قوانین کو نافذ کرنے کی قوت رکھتی ہو۔ اگر ریاست میں ان قوانین کو استعمال کرنے کی ہمت ہی نہ ہو تو امن و امان قائم کرنے کے لیے صرف قوانین کافی نہیں ہوں گے۔ ریاست کی قوتِ نفاذ کا انحصار عوام کے ریاست اور قوانین پر اعتماد پر ہے۔ اور یہ اعتماد ان قوانین پر متعلقہ ادارتی سطحوں پر بحث اور اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ انہیں بنیادی انسانی حقوق سے ہم آہنگ بنانے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے ۔

ادارتی نوٹ
وفاقی وزیر مذہبی امور پر حملے کی مذمت
گذشتہ ماہ وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ حامد سعید کاظمی کو دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی وفاقی وزیر اعتدال کے داعی اور انتہا پسند قوتوں کے نقاد کی حیثیت سے معروف ہیں۔ ان پر یہ حملہ انتہائی قابل مذمت ہے اور انتہا پسند قوتوں میں برداشت کی اشد کمی کی جانب اشارہ کرتا ہے جو دلائل کا جواب قوت سے دینے پر یقین رکھتی ہیں۔