working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

برطانوی مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات
مجبتیٰ محمد راٹھور
برطانوی مسلمان دیارِ غیر میں گوناگوں مشکلات کا شکار ہیں جن میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کے الزامات کا ہے۔ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے یا کسی منصوبے کا انکشاف ہوتا ہے، تو صورتحال اور بھی بگڑ جاتی ہے۔ طیارہ سازش کیس میں گرفتار تین مسلمان ملزمان پر فردِ جرم عائد ہونے سے برطانوی مسلمانوں پر دباؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ زیر نظر مضمون اس واقعے کی تفصیلات پر مبنی ہے۔ (مدیر)

تین برطانوی مسلمان نوجوانوں عبداللہ احمد علی(28 سال)، تنویر حسین (28 سال) اور اسد سرور(29 سال) پر برطانیہ کی ایک عدالت نے لندن سے امریکہ اور کینیڈا جانے والے طیارے کو مائع بموں کے ذریعے اڑانے اور ہزاروں افراد کے قتل کی سازش میں ملوث پاتے ہوئے فرد جرم عائد کردی۔ عدالت کے مطابق ان تینوں نے تقریباً سات طیاروں کو بالترتیب دھماکے سے تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ان کے قبضے سے ویڈیو کیسٹس اور مائع دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا تھا جس کی بنا پر ان پر فرد جرم عائد کی گئی۔ چار دیگر افراد کو اس سازش سے بری الذمہ قرار دیا گیا لیکن وہ کسی دوسرے کیس میں مطلوب تھے اس لیے انہیں رہا نہیں کیا گیا۔ جب کہ 8 افراد کو تمام الزامات سے بری قرار دیا گیا۔

مبصرین کے مطابق اس کیس نے برطانوی مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات اور ان کے القاعدہ سے تعلق کے برطانوی حکومت کے دعوے کو کسی حد تک درست ثابت کیا ہے۔ کیونکہ برطانوی خفیہ اداروں کے بقول اس تمام سازش کی کڑیاں القاعدہ سے جاملتی ہیں اور اس سازش کا اہم کردار راشد رئوف پاکستانی پولیس کی حراست سے فرار ہوگیا تھا۔ جو پاکستانی ایجنسیوں کے بقول بعد میں قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنا۔ اس کیس کے بعد برطانوی حکومت نے مسلمانوں پر کڑی نظر رکھنا شروع کر دی ہے اور مسافروں کے لیے بھی مزید پابندیاں سامنے آئیں جن میں سے ایک یہ تھی کہ وہ اب ایک خاص مقدار تک مائع اور جیل وغیرہ اپنے ساتھ سفر میں لے جاسکتے ہیں۔

برطانوی حکومت نے اندازہ لگایا کہ اگر ان افراد کی سازش کامیاب ہوجاتی تو لگ بھگ 2000 مسافر موت کے گھاٹ اتر جاتے اور اس کے ساتھ ساتھ طیارے امریکہ اور کینیڈا کے جس شہر میں گرتے وہاں کے شہریوں کی مزید ہلاکت کا بھی باعث بنتے۔ اس طرح اس سازش کو لاتعداد ہلاکتوں اور تباہی کا موجب قرار دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت کو سیاسی طور پر بھی نقصان اٹھانا پڑتا۔ لندن اور واشنگٹن کے تعلقات خراب ہوسکتے تھے۔ جب کہ اس کے ساتھ اس کیس کے امریکہ کی برطانوی اور یورپ کے شہریوں کی ویزہ پالیسی پر بھی برے اثرات پڑ سکتے تھے۔ چونکہ یورپین ممالک کے شہریوں کو امریکہ میں داخلے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں مگر اس کے بعد ضرورت پڑ سکتی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزمان کچھ دن بعدہی ان حملوں کا ارتکاب کرنے والے تھے کہ پولیس کو ان کی سازش کی خبر ہوگئی اور 2006 میں 26 افراد کو اس سازش میں شریک ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ ان گرفتاریوں نے پورے یورپ میں تہلکہ مچادیا تھا جب سینکڑوں طیاروں کو فضامیں پرواز کرنے سے روک لیا گیا اور اس طرح سفری عمل متاثر ہوا۔

پراسیکیوٹر نے کہا ہے کہ مشتبہ افراد نے سات طیاروں کی نشاندہی کی ہے جن کو نشانہ بنایا جانا تھا جو لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ سے نیویارک، واشنگٹن، سان فرانسسکو، ٹورنٹو، مونٹریال اور دو شکاگو جانے والے تھے۔ یہ 9/11 کے بعد دہشت گردوں کاسب سے خطرناک منصوبہ تھا۔

ملزمان نے مائع بم کو طیارے کے ٹوائلٹس میں رکھنے کا پروگرام بنایا تھا اور وہ ہائیڈروجن پرآکسائیڈ کے ذریعے اسے استعمال کرنا چاہتے تھے جسے انہوں نے سوڈے کی بوتلوں میں ڈالا ہوا تھا۔

جب کہ برطانوی خفیہ ایجنسی کے بقول ان افراد پر مشتمل گروپ نے مزید 18 جہازوں کو تباہ کرنے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان تمام افراد کا تعلق پاکستان میں موجود دہشت گردوں کے نیٹ ورک سے جاملتا ہے۔ اس لیے راشد رئوف کو گرفتار کیا گیا تھا۔ راشد رئوف، برطانوی نژاد پاکستانی جو پاکستان اور برطانیہ کے دہشت گردوں کے درمیان رابطے کا اہم ذریعہ تھا۔ وہ اگست 2006 میں بہاولپور سے گرفتار ہوا تھا مگر بعد میں پولیس کی حراست سے فرار ہو گیا۔ امریکہ اور برطانیہ کے خفیہ ادارے ابھی تک امریکن ڈرون حملوں میں اس کی ہلاکت کو معمہ قرار دے رہے ہیں۔

برطانیہ میں ان چھ ملزمان نے مشرقی لندن کے ایک ناکارہ گھر کو ''شہداء کی ویڈیو'' بنانے کے لیے استعمال کیا۔ ان ویڈیوز میں عبداللہ احمد علی نے برطانوی اور امریکن حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ۔''اب وقت آ گیا ہے کہ تم سب کو تباہ کردیا جائے۔'' دفاعی دلائل دیتے ہوئے ملزمان نے کہا کہ ہم تو ایک ڈاکومینٹری بنا رہے تھے اور ہمارا ایک ایسا خاکہ مرتب کرنے کا پروگرام تھا جس میں دھماکہ خیز مواد بھی استعمال ہونا تھا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ مسلمان کیسے مغربی قبضے کو رد کرتے ہیں۔

برطانوی پولیس کے مطابق ایک ریہرسل کارروائی 12 اگست 2006 کو کی گئی تھی جب ایک ملزم نے ایک مائع بم کو جہاز تک لے جانے کا پروگرام بنایا۔ جب کہ اصل کارروائی 14 اگست 2006 کو ہونا تھا لیکن اس سے پہلے ہی یہ سازش بے نقاب ہوگئی۔ اگرچہ پولیس نے کہا ہے کہ گرفتاری کے وقت ملزمان سے کوئی ایسی چیز یا بم برآمد نہیں ہوا جس سے ان پر لگایا گیا الزام ثابت ہو سکے مگر پھر بھی انہیں یقین تھا کہ یہ لوگ منصوبہ بنا رہے تھے۔

سرور نامی ملزم نے 2006 میں پاکستان کا دورہ بھی کیا تاکہ وہ القاعدہ کے ارکان سے آخری تفصیلات طے کرلے۔ تفتیش کاروں کو یقین ہے کہ ابو عبیدہ المصری ، مصری نژاد القاعدہ ممبر جو پاکستان میں روپوش ہے، وہ اس سازش کا بنیادی محرّک ہے۔

برطانوی سیکریٹری داخلہ نے عدالے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کیس اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ہم اس وقت دہشت گردی کے خطر ناک خوف کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرائون پراسیکیوشن سروس (CPS) ایسے قوانین بنا رہا ہے جن کی رو سے ایسے تمام افراد کی کڑی بازپرس ہو گی جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردی کا سہارا لے رہے ہیں۔ ان کی نیت یا ارادے جو بھی ہوں یہ کیس اس نوعیت کا پہلا مظاہرہ ہے۔ اس کیس کی مزید تفصیلات منظرِ عام پر آرہی ہیں اور جوں جوں مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات کی تصدیق ہورہی ہے۔ مسلمانوں کے اندر بے چینی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔