working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پاکستان میں اقلیتوں کے انسانی حقوق کا جائزہ
ایک تحقیقاتی رپورٹ

غیر مسلموں کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت حکومت کا فرض ہے۔ لیکن پاکستان میں اقلیتوں کے بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ سرکاری سطح سے لے کر عوامی سطح تک پالیسیاں اور رویے خاصے غیر متوازن رہے ہیں۔ اسلام نے انسانوں کو رنگ و نسل اور مذہب و ملت سے ماورا ، برابری کے حقوق دے رکھے ہیں اقلیتوں کے خلاف پر تشدد واقعات کا ایک مطلب ان حقوق سے روگردانی بھی ہے۔ ذیل میں پیش کی گئی رپورٹ ماضی سے اب تک کی صورتِ حال سے آگہی کی کوشش ہے۔ (مدیر)
مسیحی عوام پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں 2008ء میں پاکستان میں مسیحی شہریوں کی تعداد کم از کم 20لاکھ یا کل آبادی کا 1.1 فیصد تھی ماضی میں پنجاب میں ایک پیدائش کے ریکارڈ کے مطابق مسیحی شہریوں کی تعداد 28 لاکھ تھی۔ پاکستان کے 90فیصد سے زائد مسیحی صوبہ پنجاب میں رہائش پذیر ہیں۔ اور صوبے کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں اور ان میں سے 60فیصد دیہات میں رہتے ہیں ان کی اکثریت مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ طویل عرصے سے ان علاقوں میں مقیم ہے۔ ۔۔ تاہم آئے دن ان کے خلاف تشدد کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ 1997ء میں ملتان ڈویژن کے ضلع خانیوال سے 12کلو میٹر مشرق میں واقع دو جڑواں دیہات شانتی نگر اور ٹبہ کالونی میں ان کے خلاف واقعہ ہوا 2005ء میں قبضہ سانگلہ ہل ضلع ننکانہ صاحب ، کے مسیحی عوام کو تشدد اور لوٹ مار کا شکار ہونا پڑا۔

اس وقت جب پاکستان میں عیسائیوں کی تعداد تقریباً 13لاکھ کے قریب ہے جو ہماری آبادی کا کل 1.6 فیصد بنتا ہے۔ اور جو ہماری قومی زندگی کے دھارے میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ 31جولائی اور یکم اگست کو گوجرہ کے دو دیہات کو ریاں ۔ 95 ۔ ج ب اور 362ج ب میں ایک بار پھر سے ایسے ہی واقعات کو دہرایا گیا۔ جس میں قریب قریب 9 افراد کو موت سے ہم کنار کر دیا گیا اور سات سو کے قریب مکانات جلا دیے گئے۔ پاکستان میںیہ صوت حال محض عیسائی اقلیتوں تک ہی محدود نہیں۔ بلکہ دیگر اقلیتیں بھی اس کا اکثر و بیشتر شکار ہوتی رہتی ہیں۔ ہماری کتاب قرآن حکیم میں اقلیتوں اور دوسرے مذاہب کے حوالے سے کئی ایک احکامات ملتے ہیں۔

قرآن مجید بلاشبہ انسانیت کا محافظ ہے یہی وہ کتاب حق ہے جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیتی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے "اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا ہے کہ جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین پر فساد مچانے والا ہو ، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا اور جو شخص کسی ایک شخص کی جان بچائے اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کر دیا۔ (المائدہ 5:32)

قرآن مجید نے کچھ مشترکہ عقائد کی بنیاد پر عیسائیوں یہودیوں کو اہل کتاب قرار دیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے "اور صاف اعلان کر دو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی۔ ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے۔ ہم سب اس کے حکم بردار ہیں۔ (العنکبوت)

ایک اور جگہ پر فرمایا۔" رسول ایمان لائے اس چیز پر جو ان کی طرف اللہ تعالی کی جانب سے نازل ہوئی اور مومن بھی ایمان لائے۔ یہ سب اللہ تعالی، اس کے فرشتوں ، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ اس کے رسولوں میں کسی میں بھی تفریق نہیں کرتے (البقرہ)۔

پاکستان میں اقلیتوں کو کیا حیثیت دی گئی تھی۔ اس سلسلے میں قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ ہی کافی ہے۔ جس میں انہوں نے کہا تھا:
1۔ اب اگر ہم پاکستان کی اس عظیم مملکت کو پرامن اور خوش حال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں دل جمعی اور خلوص نیت سے اپنی توجہ لوگوں بالخصوص عوام اور غریبوں کی بہتری کی طرف مبذول کرنا چاہیے۔ اگر آپ ماضی کو فراموش کر کے اور پرانی عداوتوں کو دفن کر کے باہمی تعاون کے ساتھ کام کریں گے تو آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ اگر آپ اپنے ماضی کو تبدیل کر کے اس عزم کے ساتھ کام کریں گے کہ آپ میں سے ہر فرد ، اس بات سے قطع نظر کہ اس کا تعلق کس کمیونٹی سے ہے ، اس بات سے قطع نظر ماضی میں اس کے آپ کے ساتھ تعلقات کس نوعیت کے رہے ہیں اور اس بات سے قطع نظر کہ اس کا رنگ ، ذات یا عقیدہ کیا ہے ، وہ سب سے پہلے ، اس کے بعد بھی اور سب سے آخر میں بھی یکساں حقوق ، مراعات اور ذمہ داریوں کے ساتھ اس ریاست کا شہری ہے ، تو آپ جتنی ترقی کریں گے اس کی کوئی حد نہیں ہو گی۔"
2۔ میں اس بات پر مزید زور نہیں دے سکتا۔ ہمیں اسی عزم کے ساتھ کام کا آغاز کر دینا چاہیے اور وقت گزرنے کے ساتھ اکثریتی اور اقلیتی یعنی ہندو کمیونٹی اور مسلمان کمیونٹی کے یہ تمام تفاوت ختم ہو جائیں گے کیونکہ جہاں تک مسلمان ہونے کا سوال ہے تو اس میں بھی آپ لوگ پٹھان، پنجابی ، شیعہ ، سنی اور اسی طرح کے کئی ذیلی گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور بطور ہندو آپ میں برہمن ، ویش ، کھتری کے علاوہ بنگالی ، مدراسی ، اور اسی طرح کی گونا گوں تقسیم موجود ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ اختلافات باقی نہیں رہیں گے۔ درحقیقت اگر مجھ سے پوچھا جائے تو یہی اختلافات ہندوستان کے آزادی حاصل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رہے ہیں اور اگر یہ نہ ہوتے تو ہم بہت عرصہ پہلے ایک آزاد قوم ہوتے۔ کوئی بھی طاقت کسی دوسری قوم کو اور بالخصوص 40کروڑ نفوس پر مشتمل ایک قوم کو غلام بنا کر نہیں رکھ سکتی تھی ، کوئی بھی قوت آپ پر فتح نہیں حاصل کر سکتی تھی اور اگر ایسا ہو بھی جاتا تو بہت لمبے عرصے تک آپ پر اپنا غلبہ برقرار نہیں رکھ سکتی تھی، مگر ان اختلافات کی وجہ سے ایسا ہوا۔ لہٰذا ہمیں اس تجربے سے سبق سیکھنا چاہیے۔"
3۔ اب آپ آزاد ہیں آپ اپنے مندروں میں جانے کے لیے آزاد ہیں آپ اس مملکت پاکستان میں اپنی مسجدوں یا عبادت کی دیگر جگہوں پر جانے کے لیے آزاد ہیں۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات یا عقیدے سے ہو سکتا ہے ، مگر کاروبار ریاست کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم نے اپنا آغاز ایسے حالات میں نہیں کیا۔ ہم ان حالات میں آغاز کر رہے ہیں جب کوئی امتیازی رویہ ، کسی ایک یا دوسری کمیونٹی کے خلاف کوئی تفاوت اور کسی ایک یاد وسری ذات یا عقیدے کے خلاف کوئی جانب دارانہ رویہ موجود نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول کے ساتھ آغاز کر رہے ہیں کہ ہم ایک ریاست کے شہری اور یکساں حیثیت رکھنے والے شہری ہیں۔''
4۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اسی سوچ کو ایک مثال کے طور پر اپنے سامنے رکھنا چاہیے اور آپ کو پتا چلے گا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہندو ، ہندو نہیں رہے گا اور مسلمان ،مسلمان نہیں رہے گا ، مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ ہر فرد کے ذاتی اعتقاد کا معاملہ ہے ، بلکہ سیاسی معنوں میں ریاست کے شہری کے طور پر ۔"
باوجود واضح مذہبی احکامات اور بابائے قوم کے تصور (Vision) کے صورتحال ہنوز دگرگوں ہے۔ تجزیات کی اس رپورٹ میں پاکستان میں اقلیتوں اور ان کے حقوق کے جملہ پہلوئوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں 14تا 20 اگست 2009ء کو "فرائیڈے ٹائمز "میں چھپنے والا جناب خالد احمد اور اگست 2009 کے ہیرلڈ میں چھپنے والے مدیحہ ستار ، ملیحہ حمید صدیقی ، رباب کرار ، ملیحہ دیوان ، محمد بدر عالم ، ایمان شیخ اور نادیہ جاجا کی سروے رپورٹس، مضامین اور انٹرویو سے مدد لی گئی ہے۔

جب بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اگست 1947ء کی اپنی مشہور تقریر میں کہا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب مسلمان مسلمان اور ہندو ہندو نہیں رہیں گے تو ان کی مراد یہ نہیں تھی کہ وہ اپنے اپنے دین سے کنارہ کش ہو جائیں گے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان ایسا ملک ہو گا جس میں تمام شہریوں کو ، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم یکساں شہری حقوق حاصل ہوں گے اور کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتا جائے گا۔ آج ساٹھ سال سے زیادہ گزر چکے ہیں اور مسلم اکثریت نے قائد اعظم کی تلقین کو بالکل فراموش کر دیا ہے۔ یہ بات محض گفتگو برائے گفتگو نہیں بلکہ حقائق پر مبنی ہے۔ پاکستان میں مختلف اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے اور ان کو جو مسائل اور مشکلات درپیش ہیں ان کا ذیل میں جائزہ لیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہ لیا جائے کہ خود مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی جوگت بن ری ہے وہ کم سنگین ہے اصل میں دکھانا یہ مقصود ہے کہ مظلوموں کے اس انبوہ کے درمیان اقلیتیں زیادہ مظلوم ہیں۔

آئیے ، پہلے ایک نظر قادیانی اقلیتوں کے مسائل پر ڈالتے ہیں جنہیں 1974ء میں غیر مسلم قرار دے دیا گیا تھا۔ 1984 ء سے اب تک اٹھاسی قادیانیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ میں اس بات کی ممانعت ہے کہ قادیانی خود کو مسلمان کہیں یا عبادت کے لیے بلاوے کو اذان یا اپنی عبادت گاہ کو مسجد قرار دیں۔

2007ء میں فروری کے ایک دن کراچی میں نعیم نامی ایک بڑھئی فجر کی نماز ادا کرنے گھر سے نکلا۔ عام طور پر اس کے دو بیٹے ساتھ ہوتے تھے لیکن پچھلی رات وہ فیصل آباد اپنے گائوں چلے گئے تھے۔ نعیم کے جانے کے ایک گھنٹے کے اندر اندر گھر والوں کو خبر ملی کہ اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ہے۔ ایک عورت نے جو موقع کی گواہ تھی بتایا کہ اس کے قاتل تعداد میں تین تھے اور موٹر سائیکل پر سوا ر تھے۔ وہ صرف اس وقت موقع واردات سے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر روانہ ہوئے جب انہیں یقین ہو گیا کہ نعیم دم توڑ چکا ہے۔

پولیس پہلے تو ایف آئی آر درج کرنے پر تیار نہ تھی۔ ایک اور مشکل یہ پیش آئی کہ جس عورت نے یہ سب کچھ ہوتے دیکھا تھا وہ گواہی دینے پر آمادہ نہ ہوئی۔ بڑی مشکل سے کیس درج ہوا تو قادیانی جماعت اور نعیم کے گھر والوں کی کوشش کے باوجود نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ بعض پولیس افسروں کا خیال تھا کہ انہیں معلوم ہے کہ نعیم کو کس نے قتل کیا ہے۔ جس آدمی پر انہیں شبہ تھا وہ پہلے بھی ایک قادیانی کو قتل کر چکا تھا۔ اس نے اقرار جرم بھی کر لیا تھا۔ اس کی رائے میں قادیانی واجب القتل تھے۔ اقرار جرم کے باوجود اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا تھا۔

نعیم کے بیٹے مراد نے یہ سارا قصہ غیر جذباتی انداز میں سنایا۔ مراد کے والدین 1982ء میں قادیانی ہو گئے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رشتے داروں نے ان سے ملنا جلنا بالکل چھوڑ دیا۔ اگر کوئی ان کے گھر آ بھی جاتا تو چائے پانی یا کھانا کھانے کو تیار نہ ہوتا۔ عجیب بات یہ ہے کہ وہ اپنی برادری میں پہلے قادیانی نہ تھے۔ مراد کا نانا ظفر قادیانی تھا گو جماعت نے اسے اس لیے جماعت سے خارج کر دیا تھا کہ اس نے اپنی بیٹی اپنے بھائی کے بیٹے سے بیاہ دی تھی جو قادیانی نہ تھا۔

نعیم اور اس کے خاندان کا مسئلہ صرف سماجی بائیکاٹ تک محدود نہ تھا۔ اسے کام بھی مشکل سے ملتا تھا۔ چناچہ وہ پہلے ہی بتا دیتا کہ وہ قادیانی ہے۔ جن لوگوں کو اس پر اعتراض نہ ہوتا وہ ان کے لیے کام کرتا رہتا۔ مراد نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا اس طرح کام کرنے میں سہولت رہتی۔ مراد کے بقول اس کا بچپن آسان تو نہیں گزرا لیکن پر امن تھا۔ اس نے صدر کے ایک سکول میں تعلیم پائی جہاں کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ تم کسی فرقے سے ہو۔ لیکن جب وہ اور اس کے بہن بھائی گھر کے قریب ایک مدرسے میں قرآن پڑھنے گئے تو یہ معلوم ہوتے ہی کہ وہ قادیانی ہیں انہیں نکال دیا گیا۔ بعد میں اس مدرسے کو دھو دھلا کر دوبارہ پاک صاف کیا گیا۔ جب وہ کالج میں داخل ہوا تو اسلامی جمعیت طلبہ کے اراکین اسے تنگ کرنے اور برملا "کتا " کہتے مراد کی بیوی شاہینہ کا تجربہ مختلف تھا۔ سکول یا کالج یا پڑوس میں اسے اس طرح کی مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا جن سے مراد کا واسطہ پڑتا رہا تھا۔

مراد کی 23 سالہ بہن حفضہ کے تجربات مراد سے مختلف نہ تھے۔ اس کا کہنا ہے۔ "میٹرک کے امتحان سے پہلے میں ایک کوچنگ سنٹر جاتی تھی۔ وہاں ایک دن استاد نے تمام طلبہ سے ان کے مذہب کے بارے میں پوچھا۔ جب میری ساتھیوں کو پتا چلا کہ میں قادیانی ہوں تو وہ خفا ہو گئیں انہوں نے کہا تم لوگ کالا جادو کرتے ہو ، تمہارا کلمہ مختلف ہے اور تم نماز اور طرح پڑھتے ہو۔ حفضہ نے ان کے الزامات کو جھٹلایا لیکن اس کی ایک نہ سنی گئی۔ اس کی ساتھیوںنے اس سے قطع تعلق کر لیا۔

نعیم کی بہن پروین مراد کے گھر آتی جاتی رہتی تھی۔ پروین اور اس کے شوہر بشیر نے تیرہ سال پہلے قادیانیت قبول کی تھی چوں کہ فیصل آباد میں ان کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا تھا اس لیے نعیم کے کہنے پر میاں بیوی کراچی چلے آئے تھے۔ نعیم نے کہا تھا کہ کراچی میں وہ نسبتاً محفوظ رہیں گے۔ پروین کی چار بیٹیاں اور دو بیٹے ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی کے ایک سکول میں پڑھتے ہیں۔ وہاں ان کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ وہ غیر مسلم ہیں۔ نعیم کو اس کی وصیت کے مطابق ربوہ میں دفن کیا گیا۔ مراد کسی اور ملک جانے کی سوچ رہا ہے۔(تحفظ کے خیال سے مذکورہ بالا روداد میں اصل نام نہیں لکھے گئے ہیں)۔

ایسا ہی قصہ ایک عیسائی گھرانے کا ہے۔ زاہد فاروق پنجابی بولنے والا عیسائی ہے۔ اس کا باپ شکار پور کے ایک گائوں میں کھیتی باڑی کرتا تھا۔ گائوں کے چودھری نے اپنے بیٹے کا نام زاہد فاروق رکھا۔ زاہد کے والد نے سوچا کہ چودھری نے بیٹے کے لیے اچھا نام ہی چنا ہو گا۔ اس لیے اس نے بھی اپنے بیٹے کا نام زاہد فاروق رکھ دیا۔ 1968ء میں زاہد فاروق کا والد کراچی چلا آیا۔ یہاں اس کے معاشی حالات بہتر ہو گئے ماں بھی گھروں میں ماں کام کر کے پیسے کمانے لگی۔ شکار پور کے مقابلے میں بڑی تبدیلی تھی جہاں پورے خاندان کو چودھری کا غلام سمجھا جاتا تھا۔

اگر زاہد کا کنبہ پنجاب میں ٹھہرا رہتا تو ان کے حالات بہتر ہو جاتے، اولاد لکھ پڑھ جاتی۔ زمین خرید کر کھیتی باڑی کرتے یا دکان کھول لیتے۔ بہرحال ، کراچی میں آمدنی کے مواقع زیادہ تھے۔ زاہد نے بی اے کر لیا اور آج کل ایک غیر منافع جو تنظیم کے لیے کام کر رہا ہے۔ زاہد کا خاندان ان دنوں شمالی کراچی میں پہاڑ گنج میں رہتا ہے جہاں ستر فی صد آبادی عیسائیوں کی ہے۔ تیس فی صد پٹھان ہیں۔ پٹھانوں سے مراسم اچھے ہیں۔ میل ملاپ ہے۔ ساتھ بیٹھ کر کھا پی لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں ہاں ، کبھی کبھی نوجوانوں کی وجہ سے کوئی مسئلہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ عیسائی چین سے اس لیے رہ رہے ہیں کہ ان کی بڑی تعداد تحفظ کی ضمانت ہے۔

زاہد اور اسکا والد ، دونوں سیاسی طور پر فعال ہیں۔ زاہد کا کہنا ہے کہ ان کے مسائل کم آمدنی والے مسلمان گھرانوں سے مختلف نہیں۔ ان علاقوں میں ، جہاں عیسائی آباد ہوں ، پانی گیس اور بجلی فراہم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ، اس لیے زاہد کا والد چار سال تک کونسلر کے عہدے پر فائز رہا۔ انہیں اپنی بات منوانے کے لیے قدم قدم پر جدوجہد کرنی پڑی۔ بہرکیف باپ بیٹا دونوں محسوس کرتے ہیں کہ عیسائیوں کے ساتھ رویہ بہتر ہوتا جا رہا ہے۔ لوگوں میں تعلیم بڑھ رہی ہے۔ اور عیسائیوں کو اچھی نوکریاں مل جاتی ہیں۔ زاہد کی بیوی کی رائے مختلف ہے اس کا کہنا ہے کہ عیسائیوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے اور انہیں بہتر مستقبل کی خاطر کسی اور ملک چلے جانا چاہیے۔

زاہد کا نقطہ نظر زیادہ حقیقت پسندانہ ہے وہ کہتا ہے کہ " برابری ممکن نہیں "اکثریت ہمیشہ اپنے حق میں قانون بنائے گی۔ مثلاً آئین میں جہاں یہ لکھا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا۔ وہیں یہ بھی درج ہے کہ ملک کا سربراہ مسلمان ہو گا اور قانون شریعت کے مطابق بنے گا۔"جو بھی سہی ، زاہد پاکستان چھوڑنے کے حق میں نہیں ، اس کا خیال ہے کہ گستاخ رسولۖ کے قانون پر عمل درآمد کم ہو گیا ہے۔ ''بے نظیر بھٹو نے کہا تھا کہ ایسے مقدمات کی تحقیق ایس پی یا ڈپٹی کمشنر کرے گا اور مقدمہ صرف اسی صورت میں چلے گا جب کیس میں کوئی جان ہو۔'' بہت سے عیسائیوں کی طرح زاہد بھی پیپلز پارٹی کا حامی ہے وہ کہتا ہے کہ پیپلز پارٹی اس قانون کو منسوخ نہیں کر سکتی لیکن ایسے انتظامی قدم اٹھا سکتی ہے۔ کہ اس قانون کا غلط استعمال نہ ہو۔ لیکن جب تک یہ قانون موجود ہے اس کا نشانہ اقلیتیں ہی بنیں گی۔"

زاہد اور اس کے باپ کا کہنا ہے کہ حالات میں بہتری آئی ہے وہ دن گزر گئے جب ریستورانوں میں یہ پتا چلنے پر کہ کھانا کھانے یا چائے پینے والا عیسائی ہے اس سے کھانے کے علاوہ کراکری کی قیمت بھی دھرا لی جاتی تھی بھٹو کے دور میں بہتری کا آغاز ہوا۔ ضیاء الحق کے زمانے میں تنگ نظری بڑھی۔ اب حالات پھر قدرے سدھر چلے ہیں۔

تاپی کانجی تقسیم کے وقت بہت چھوٹی تھی۔ اسے 14اگست 1947ء کے بارے میں بہت کم یاد ہے "- ہم گورنر ہائوس میں چھپے ہوئے تھے اور بہت محفوظ تھے۔ ہم نے سنا کہ فسادات ہو رہے ہیں اور ہندوئوں کو مارا جارہا ہے لیکن ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوا۔" اس کے خاندان نے معاشی مجبوری کے تحت پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا اس کا باپ اس وقت گورنر سندھ کا پرسنل اسسٹنٹ تھا اسے یقین دلایا گیا کہ اس کی ملازمت برقرار رہے گی اور اس نے طے کیا کہ وہ پاکستان سے نہیں جائے گا تاپی کو والد کے فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں۔" ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور یہاں خوش ہیں۔"

جیسے جیسے وہ بڑی ہوتی گئی کراچی چہرہ بدلتا گیا۔ وہ بڑا شہر بن گیا ۔ گورنر ہائوس میں رہنے کی وجہ سے انہیں شہر کے روز افزوں مسائل سے واسطہ نہ پڑتا تھا والد کی ملازمت کی وجہ سے انہیں رہنے کے لیے مفت کوارٹر اور دوسری سہولتیں ملی ہوئی تھیں۔ اسے پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی سے ملنے کا موقع بھی ملا۔ جب نہرو آئے تو تاپی نے انہیں ہار بھی پہنائے اور ماتھے پر ٹیکا بھی لگایا۔ اس کی تصویر اخبار میں بھی چھپی۔

پاکستان میں تاپی پر جو کچھ گزری اس میں اچھا برا سبھی شامل ہے۔ بیس سال کی عمر میں اس کی شادی ایک رنڈوے سے ہوئی جس کے چھ بچے تھے۔ اگلے تیس سال میاں بیوی نے بڑی محنت مشقت کر کے اپنا بڑا کنبہ پالا۔ تاپی نے اٹھائیس سال ایک نجی سکول میں بطور آیا کام کیا۔ اس کا میاں گورنر ہائوس میں ٹیلر تھا۔ سالہا سال کی مشقت کے بعد کانجی خاندان کی تیسری نسل معاشی اور سماجی طور پر بلند مقامات پر پہنچ رہی ہے۔ تاپی کے تمام پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں کام یابی سے میٹرک کر چکے ہیں یا چند سال میں کریں گے۔ اس کی سب سے چھوٹی بیٹی ، جاسنتا ، خاندان میں کامیابی کی سب سے درخشاں مثال ہے۔ وہ گریجویٹ ہے اور فروٹیبل کے مانٹی سوری میں پڑھاتی ہے۔ اس نے اتنی رقم بھی بچالی کہ دو کمروں کا ایک اپارٹ منٹ خرید لے۔ تاپی کی سب سے بڑی نواسی ؟ الفلاح بینک کے شعبہ حسابات میں ملازم ہے۔

بھٹو کے دور تک سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا ۔ ضیاء الحق کے آنے سے انتہا پسندی بڑھی۔ اس کے بعد تاپی کو اپنی ہندو شناخت برقرار کھنے میں مشکل پیش آئی اسے کہا گیا کہ وہ ساری نہ پہنے۔ اس نے تو یہ ہدایت نہ مانی لیکن اپنی بیٹیوں سے کہا کہ وہ شلوار قمیض اپنا لیں۔ بابری مسجد کے گرائے جانے کے بعد ہندو مسلم کشیدگی میں یکایک اضافہ ہو گیا۔ کراچی اور سندھ اور بلوچستان کے دیہی علاقوں میں ہندوئوں پر ظلم ڈھائے گئے۔ ہندوئوں نے مندر جانا چھوڑ دیا۔ ویسے بھی بہت سے مندر توڑ پھوڑ دیے گئے تھے۔ ساری پہننا اور ٹیکا لگانا مشکل ہو گیا۔ رفتہ رفتہ حالات معمول پر آگئے۔ تاپی کہتی ہے ۔ "میری لڑکیاں ساری صرف شادی بیاہ پر پہنتی ہیں۔ ورنہ شلوار قمیض ہی ان کا پہناوا بن گیا ہے۔ "

تاپی کی زندگی میں سب سے بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب اس کا شوہر ریٹائر ہوا اور انہیں گورنر ہائوس چھوڑنا پڑا ۔ کئی دفعہ مکان بدلنے کے بعد اب وہ پنجاب کالونی میں مقیم ہے۔ وہ کہتی ہے ۔ " ہم گورنر ہائوس میں بڑے مزے سے ہولی اور دیوالی مناتے تھے ہمیں کوئی کچھ نہ کہتا تھا۔ "بہرحال ، وہ ایسے علاقے میں رہ کر خوش ہے جہاں اکثریت عیسائیوں کی ہے۔ " ہمارے پڑوسی ہمیں کچھ نہیں کہتے بلکہ ان میں سے بہت سے ہمارے ساتھ تہوار منانے آجاتے ہیں۔ " فی الحال تاپی بھی خوش ہے اور اس کا خاندان بھی خوش ہے۔ وہ کہتی ہے ۔ " ہم یہاں سے کبھی نہیں جائیں گے۔ ہم یہیں پلے بڑھے۔ پاکستان ہمیشہ سے ہمارا وطن ہے اور وطن رہے گا۔ "

پنجاب میں ضلع منڈی بہائوالدین میں اپنے دور افتادہ فارم ہائوس پر گزاری جانے والی زندگی کے بارے میں سپنا کویتا اوبرائے کہتی ہے۔ "میرے خاندان میں ایک ایسا اسرار جس کی تھاہ تک میں نہیں پہنچ سکتی۔ "وہ کوئی عام بے علم دیہاتی عورت نہیں۔ اس نے منڈی بہائوالدین کالج سے بی اے کیا ہے اور فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی کی ڈپلومہ ہولڈر ہے۔ سپنا اور اس کے بہن بھائی ، اپنے والدین سمیت واحد ہندو خاندا ن ہے جو اس تمام تر مسلم علاقے میں آباد ہیں۔" ہم یہاں تنہا ہیں۔ سپنا کے لہجے میں اداسی صاف واضح ہے۔

جس مکان میں وہ رہتی ہے اس کا نام حویلی دیوان چند ہے۔ اس کے دادا بائو دیوان چند اوبرائے نے یہ زمین 1923 ء میں ایک ہندو سیٹھ سے خریدی تھی۔ ان کے پاس سو ایکڑ زمین ہے۔ 1947ء میں بلوائیوں نے دیوان چند کو مارنا چاہا تو نواب زادہ غضنفر گل (جو گجرات میں پیپلز پارٹی کے ایک رہنما ہیں) کے بڑوں نے ان کی جان بچائی۔ یہ دیکھ کر گجرات میں قیام خطرے سے خالی نہیں دیوان چند اپنے فارم پر چلے آئے یہاں بھی ان پر حملہ ہوا ، انہیں لوٹا مارا گیا اور زبردستی مسلمان بنانے کی کوشش کی گئی۔

بعض اثر و رسوخ والے مسلمان خاندان دیوان چند کے دوست تھے۔ انہوں نے ان کی جان بچائی۔ جب دیوان چند نے پاکستان چھوڑ کر بھارت جانا چاہا تو ان کے مسلمان دوستوں نے کہا کہ اگر آپ یہاں سے گئے تو ہم احتجاج کے طور پر خودکشی کر لیں گے۔ چناچہ دیوان چند نے بھارت منتقل ہونے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اگرچہ اس طرح وہ اپنے اس بیٹے سے جدا ہو گئے جو تقسیم سے پہلے ہی بھارت میں مقیم تھا۔

یوں سپنا کے والد سرداری لال کے حصے میں ساری جاگیر کی دیکھ بھال آئی۔ انہوں نے مقامی سیاست میں حصہ لیا اور ایک دفعہ مقامی یونین کونسل کے چئیر مین بھی رہے۔ اب سپنا کا بھائی کنول سیاست میں حصہ لیتا ہے تین دفعہ مسلسل انتخابات جیت کر وہ آج بھی ضلع اسمبلی کارکن ہے۔ کنول کا کہنا ہے۔ " ہم جتنی اچھی زندگی یہاں گزار رہے ہیں ویسی بھارت میں نہ گزار سکتے " شاید یہ بات دل کی ڈھارس بندھانے کے لیے کہی گئی ہو۔ سپنا کو یہ دکھ ہے کہ "یہاں ہم سے ملنے جلنے والے بہت ہی کم ہیں "علیحدگی کا یہ احساس تیوہاروں کے موقع پر زیادہ شدید ہو جاتا ہے۔ کنول کا کہنا ہے کہ "ہم یہاں بالکل محفوظ ہیں اور ہم پر ، جہاں تک ہمارے دھرم کا تعلق ہے ، کسی قسم کی قدغن نہیں میں جب بھی بھارت اپنے رشتے داروں سے ملنے جاتا ہوں وہاں میرا دل نہیں لگتا میں فوراً واپس آنا چاہتاہوں۔"

سپنا کہتی ہے کہ ہماری یہ الگ تھلگ زندگی بھارت کی مادیت پرستانہ گہما گہمی سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔ کاروباری سرگرمیوں میں حصہ لینے کی وجہ سے اسے دنیا بھر میں گھومنے پھرنے کا موقع ملا ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ لوٹ آتی ہے۔ "میرے لیے ناممکن ہے کہ اپنے والدین کو چھوڑ کر چلی جائوں۔"

کنول کہتا ہے ۔ "ہم جس ملک میں چاہیں جا کر آباد ہو جائیں مگر ہم جائیں گے نہیں ۔"سپنا بہرحال کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتی۔ " ہم اس لیے کہیں نہیں جا سکتے کہ ہمارے والدین جانا نہیں چاہتے میں انہیں ذرا سا دکھ پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ لیکن اس کی بڑی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ سپنا ، اس کی چھوٹی بہن اور بھائی کی اب تک شادی نہیں ہوئی۔ سپنا کہتی ہے "میں اپنے والدین کو قائل کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہوں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ہماری نسل آگے چلے تو ہماری شادی کریں ۔ اس کے لیے تو ہم ملک چھوڑنا ہو گا یا اپنا مذہب بدلنا پڑے گا۔"جب تک والدین اس پر راضی نہیں ہوں گے۔ کچھ بھی نہیں بدلے گا۔

"پارسی ہونا کراچی ائیرپورٹ پر بڑا کام آتا ہے۔ چیک پوائنٹ پر وہ اکثر ہمارا نام دیکھ کر کہتے ہیں۔ انہیں جانے دو۔ یہ لوگ ٹھیک ہیں۔ یہ بات چھپن سالہ ارناب لک دوالا نے مسکراتے ہوئے کہی۔ اس کی ساس بھی ڈرائینگ روم میں موجو دتھی ۔ وہ لوگ کراچی کے پارسی کالونی میں رہتے ہیں جو شہر کا ایک صاف ستھرا ، گیٹ لگا۔ چھوٹا سا علاقہ ہے شیریں ملک دوالا ، جو تیراسی سال کی ہے ، تائید میں زور سے سر ہلاتی ہے۔ "جب ہم خریداری کو نکلتے ہیں تو دکانوں میں ہمارے ساتھ تھوڑا بہت ترجیحی سلوک ضرور ہوتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ پارسی ایماندار اور محنتی لوگ ہیں۔

وہ غلط بھی نہیں کہتی۔ پاکستان میں جہاں غیر مسلم اقلیتوں اور مسلمانوں میں کچھ نہ کچھ چپقلش ضرور رہتی ہے پارسیوں کو کوئی کچھ نہیں کہتا۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ 1825ء میں سندھ میں آتے ہی وہ کاروبار میں مصروف ہو گئے اور انتہائی کام یاب رہے۔ مسلمانوں کو کاروبار کی تمیز ہی نہ تھی۔ ہندوئوں کے کاروبار میں قدامت پسندی تھی۔ پارسیوں نے ہر نیا اور جدید پیشہ اور کاروبار اپنانے میں دیر نہ لگائی۔

بڑی بڑی کامیابیوں کے باوجود اب ان کا رسوخ بہت کم رہ گیا ہے۔ ارناب کہتی ہے۔ " پارسی اب یہاں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے۔ جو نوجوان یہاں سے چلے جاتے ہیں وہ لوٹ کر نہیں آتے۔ اندازہ ہے کہ 2020ء تک دنیا بھر میں صرف تئیس ہزار پارسی رہ جائیں گے۔ ارناب اپنی خوشی سے پاکستان میں رہ رہی ہے۔ "میرا یہاں سے جانے کا کوئی ارادہ نہیں ۔ یہی میرا گھر ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ لوگ اگر جانا چاہتے ہیں تو صرف لاقانونیت اور بدنظمی کی وجہ سے۔ یہ شاندار جگہ ہے۔"

ارناب کی ساس شیریں کی رائے میں پارسی لوگوں کی تعداد اس لیے کم ہو رہی ہے کہ پرانی نسل ختم ہو چکی ہے۔اور ان کی اولاد دنیا بھر میں بکھری ہوئی ہے۔ پہلے یہاں پانچ چھ ہزار پارسی تھے۔ اب ہزار رہ گئے ہیں۔

تقسیم ہند کے وقت شیریں کے ساتھ الٹ معاملہ ہوا۔ وہ بھارت سے پاکستان آئی۔ وجہ یہ کہ شیریں کے شوہر تب بینک سے وابستہ تھے۔ "جب میں بھارت سے روانہ ہوئی تو مجھے بڑا ڈرایا گیا۔ لوگوں نے کہا کہ دیکھو ، وہاں تو بس مسلمان ہیں ۔ میں آئی تو پتا چلا کہ بات کچھ بھی نہیں۔ ہمارے ساتھ کبھی کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوا۔"

پاکستان کے اقتصادی زیریں ڈھانچے کو مرتب کرنے میں پارسیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ بیچ لگژری ، پریل کونٹینیٹل ، شبرائون سب پارسیوں کے تھے۔ کائوس جی گروپ پاکستان کی سب سے پرانی شپنگ فرم ہے اور آج بھی فعال ہے۔

پارسیوں کے بعض مذہبی عقائد کا حال میں جائزہ لیا گیا ہے۔ اور وہ ناقابل عمل معلوم ہونے لگے ہیں پارسی اپنے مردوں کو دفنانے نہیں بلکہ " برج خموشاں "میں چھوڑ آتے ہیں تاکہ پرندے انہیں کھا لیں۔ بدقسمتی سے کراچی اور ممبئی بطور شہر اتنے پھیل گئے ہیں کہ گدھ نظر ہی نہیں آتے۔ پارسیوں سے کہا جا رہا ہے کہ میّت کو ٹھکانے لگانے کا کوئی اور طریقہ ڈھونڈیں۔ اندازہ یہی ہے کہ دنیا بھر میں بکھر جانے اور تعداد کم ہو جانے کی وجہ سے بالآخر کراچی میں پارسی تقریباً ناپید ہو جائیں گے۔

ماسٹر ستار مبارک نامی گائوں میں رہتا ہے جو کراچی سے دو گھنٹے کے فاصلے پر سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔ مبارک گائوں سراپا افلاس کی تصویر ہے۔ اجڑا پُجڑا ، گندا اور زندگی کی معمولی سہولتوں سے بھی محروم ۔ ماسٹر ستار کا ایک کمرے پر مشتمل جھونپڑا الگ نظر آتا ہے۔ گھر میں جائیں تو فرق اور واضح ہو جاتا ہے چھت نیچی ہے لیکن کمرا صاف ستھرا ہے اور اس کی آرائش پر بڑے لگائو سے توجہ دی گئی ہے ۔ ماسٹر ستار ماہی گیروں کے ایک خاندان کا فرد ہے۔ اس کی بیوی فوت ہو چکی ہے کیونکہ وہ بیماری کے دوران اسے میں بروقت کراچی نہ پہنچا سکا تھا۔ اس کی چھ بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ اس کی زندگی کا مقصد یہ ہے کہ اولاد پڑھ لکھ جائے اور مری تمنا یہ ہے کہ حج کر سکے۔

مبارک گائوں میں ذکری آباد ہیں۔ ستار کے پر دادا بلوچستان سے ہجرت کر کے یہاں آگئے تھے۔ باقی آبادی بھی بلوچوں کی ہے۔ یہ لوگ ذکری کہلاتے ہیں کیوں کہ ان پر فرض ہے کہ مسلسل اللہ کے اسما کا ورد کرتے رہیں۔ ذکری ایک مہدی کو ماننے والے ہیں جنہوں نے سولھویں صدی میں تربت کے نزدیک کوہ مراد پر ظہور کیا تھا۔ ہر سال پر ظہور مہدی کی یادیں ذکریوں کا بہت بڑا اجتماعی ہوتا ہے۔ تاہم ان کے مخالفین ان پر طرح طرح کے الزام عائد کرتے ہیں۔ مثلاً وہ باقاعدگی سے نماز نہیں پڑھتے ، کلمے میں مہدی کے بارے میں بعض لفظ بڑھا دیتے ہیں۔ حج پر جانے کی بجائے کوہ مراد پر جمع ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ مطالبہ بھی سامنے آتا رہتا ہے کہ ذکریوں کو غیر مسلم قرار دے دیا جائے۔

جب بھی صرف ذکری کہا جائے تو ستار خاص طور پر تصحیح کرتا ہے کہ اسے "مسلم ذکری" کہنا چاہیے۔ وہ کہتا ہے "ہم لا الہ للہ پر یقین رکھتے ہیں۔ میں ستار ہوں میری داڑھی نہ سہی مگر میں سرکاری طور پر تسلیم شدہ نکاح خواہ ہوں۔ میری تمام اولاد حافظ قران ہے۔ ہماری مسجد ہے ہم روزہ رکھتے ہیں ، ذکات دیتے ہیں۔ خانہ کعبہ ہمار ابھی کعبہ ہے اور انشاء اللہ ایک دن میں اس کی زیارت کروں گا۔

ذکریوں اور مسلمانوں میں فرق کرنا مشکل ہے کسی کو ان کی صحیح تعداد کا علم نہیں کیوں کہ مردم شماری میں انہیں مذہبی اقلیت کے زمرے میں نہیں رکھا جاتا۔ خدا گنج ، ایک مقامی سیاسی عمل پسند، کہتا ہے کہ ریاست چوں کہ بلوچ پاکستان کا کوئی خیال نہیں رکھتی اس لیے مبارک گائوں کے ذکری بدحال ہیں۔وہ بلوچی بولتے ہیں اس لیے انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کراچی سے یہاں تک جو پکی سڑک بنی ہے وہ صرف اس لیے کہ قبضہ گروپ کو زمین کی زیادہ قیمت مل سکے۔

مقامی معیشت تیز رفتاری سے موت کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس بات میں بھی ریاست کی بے پروائی کا دخل ہے۔ ستار اس صورت حال کا شکار ہونے سے اس لئے بچ نکلا کہ اس کی سوچ مختلف تھی۔ پشت ہا پشت سے اس کا خاندان ماہی گیری کا پیشہ اپنائے ہوئے ہے۔ جب مچھلیاں پکڑنے کا موسم نہیں ہوتا تو وہ تین مہینے بیکار رہتے ہیں۔ باقی سال بھی وہ مشکل سے گزر بسر کرتے ہیں۔ بیشتر لڑکے پرائمری سے آگے نہیں پڑھتے تھے کیوں کہ سیکنڈری سکول تھا ہی نہیں۔ بڑے بھائی کی حوصلہ افزائی کی وجہ سے ستار نے کراچی میں تعلیم حاصل کی۔ "مجھے پڑھنے اور پڑھانے سے لگائو تھا۔"

1985ء میں مبارک میں پہلاسرکاری پرائمری اور سیکنڈری سکول کھل گیا۔ ستار کو وہاں کل وقتی ملازمت مل گئی۔ موجودہ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی نے یہاں ایک ماڈل سکول بھی قائم کر دیا ہے۔ آٹھ مقامی لڑکے اور چند ایک لڑکیاں وہاں پڑھا رہی ہیں۔ بہرحال ، بیشتر آبادی کا ذریعہ روزگار ، آج بھی ماہی گیری ہے۔ جن لڑکوں نے میٹرک یا انٹرمیڈیٹ کر لیا ہے وہ بھی گائوں میں ہی رہتے ہیں۔ کراچی آنا جانا بہت مشکل اور مہنگا ہے اور وہاں رہائش رکھنا ان کی بساط سے باہر ہے۔ یہ سب کچھ سہی مگر ستار کے خیال میں ماڈل سکول کے قیام سے اور مقامی اساتذہ کی تقرری سے اچھا اثر پڑا ہے اور لوگوں کا تعلیم کی طرف میلان بڑھا ہے خود ستار کی تین بیٹیاں میٹرک پاس کر چکی ہیں اور ایک انٹرمیڈیٹ پاس ہے۔ ستار کو فخر ہے کہ وہ چاروں پڑھ بھی رہی ہیں پڑھا بھی رہی ہیں۔

ستار کا بیٹا شیراز خاندان کا پہلا فرد ہے جس نے بطور پیشہ ور گائوں سے باہر قدم رکھا ہے۔ وہ کراچی کی ایک کمپنی کے لیے کام کرتا ہے جو کاروں کے لیے جی پی ایس ٹریکر سسٹم تیار کرتی ہے۔ لیکن وہ یہ ملازمت چھوڑ کر کسی این جی او میں شرکت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے بھائی نے خاندان کے روایتی میدان کو چھوڑا نہیں بلکہ اس کو بالکل نئی سطح پر پہنچا دیا ہے۔ وہ کراچ اور آس پاس کے علاقوں میں بہترین مشغلہ باز ماہی گیر کے طور پر مشہور ہو چکا ہے۔ وہ مقامی مشغلہ باز ماہی گیری کا ماہر بن چکا ہے اور باصلاحیت تیراک اور غوطہ زن ہے جو پاکستانی اور غیر ملکی شائقین کی تربیت کرتا ہے اور انہیں مچھلی کے شکار پر لے جاتا ہے۔

ان سب معاملات کے باوجود مبارک گائوں میں طبی سہولتوں کی افسوس ناک کمی ہے۔ ستار یہ تو نہیں کہتا کہ ا سکے لیے انتظامیہ ذمہ دار ہے یا گائوں والوں کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے لیکن اس کی اس بات میں وزن ہے۔ "امن ، محبت اور اخوت یہی وہ واحد طریقہ ہے جسے اپنا کر ہم بطور ملک ترقی کر سکتے ہیں۔"
جب سردار سنت سنگھ ، موجودہ عمر ستاسی سال ، دس برس پہلے آکر لاہور میں آباد ہوا تو یہ 1947ء کے بعد اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ وہ ایک متمّول مشترکہ گھرانے کا سربراہ ہے اس کے چار بیٹے اور متعدد پوتے پوتیاں ہیں۔ وہ ایک اوسط طبقے کے محلے میں اپنے کشادہ گھر میں رہتے ہیں ۔ سب بیٹے اپنا اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک منتخب کونسلر ہے اور ایک اور ڈسٹرکٹ اسمبلی کارکن ہے۔ اس کے پوتے پوتیاں خاندان کی کاروں میں آتے جاتے ہیں اور نجی سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں۔

سترہ سال پہلے سردار سنت سنگھ کی زندگی بالکل مختلف تھی۔ وہ اورک زئی ایجنسی کے ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتا تھا۔ یہ جگہ پاکستان میں افغانستان کی سرحد کے پاس واقع ہے۔ اس کے پاس تھوڑی سی زمین تھی لیکن کھیتی باڑی سے آمدنی کافی نہ تھی۔ اس لیے اس نے کریانے کی دکان بھی کھول رکھی تھی اور درزی کا کام بھی کرتا تھا۔ بڑے شہر میں آنے کا فیصلہ کرنے سے پورے کنبے کی قسمت ہی بدل گئی۔ دوسری اقلیتوں کے لیے اس طرح نقل مکانی کرنا دشوار ہے۔ سردار سنت سنگھ کو کسی مسئلے کا سامنے نہیں کرنا پڑا۔ پاکستانی معاشرے میں صورتِ حال بدل جانے سے سکھوں کے لیے گنجائش نکل آئی ہے۔ وہ پولیس اور فوج میں بھی بھرتی ہونے لگے ہیں۔ اور کاروبار کرنے والے سکھ اب کوئی عجوبہ نہیں رہے۔

تبدیلی کا آغاز سنت سنگھ کے بڑے بیٹے بشن سنگھ کے ایک فیصلے سے ہوا۔ اس نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی امیر سنگھ کو اورک زئی ایجنسی سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے ننکانہ صاحب بھیج دیا۔ "چار ہزار افراد کی آبادی میں ہم واحد سکھ خاندان تھے۔ ہمارے ساتھ سب کا برتائو بہت اچھا تھا۔ مگر بچوں کی تعلیم کی کوئی صورت نہ تھی ، خصوصاً ایسی تعلیم جس کا مذہبی پہلو بھی ہو۔ بشن سنگھ نے اس پر اکتفا نہیں کیا۔ پورے خاندان کو ننکانہ صاحب لے آیا یہاں سکھوں کی بعض مقدس ترین مذہبی جگیں ہیں۔"

یہاں سے کہانی کا اگلا باب شروع ہوتا ہے۔ بشن کام کی تلاش میں لاہور آگیا۔ شہر کے اندرون میں کپڑے کی ایک ہول سیل مارکیٹ میں سیلز مین کے طور پر کام کرنے لگا۔ پانچ سال اس نے رات دن محنت کی کہ سارے کنبے کا خرچ اسی کے کندھوں پر تھا۔

شاید وہ سیلز مین کے عہدے سے آگے نہ بڑھ سکتا۔ لیکن خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ایک مسلمان دکان دار سے بشن کی دوستی ہو گئی۔بشن اسے شاہ جی کے نام سے یاد کرتا ہے۔ ایک دن شاہ جی نے میرے والد کو دس لاکھ روپے دیے اور کہا تم اپنا کاروبار کرو۔ بشن کی زندگی کا یہ سب سے سنہرا موقع ثابت ہوا۔ چند سال میں وہ نہ صرف شاہ جی کی رقم لوٹانے میں کام یاب ہو گیا بلکہ اپنے کاروبار کو اتنی وسعت دی کہ اب اس کے باقی بھائی اور سب سے بڑا بیٹا لاہور کے مختلف علاقوں میں اپنی اپنی دکانیں کھول چکے ہیں۔ وہ شاہ جی کا نہایت ممنون ہے اور انہیں اپنا مسلمان بھائی کہتا ہے۔ " وہ ہمارے خاندان کے فرد کے مانند ہیں۔

پورے خاندان کو لاہور لانے کے بعد اس نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کیا۔ "میرے بھائی نے اندرون شہر ایک یونین کونسل کا انتخاب لڑا اور جیتا تقسیم کے بعد لاہور میں پہلی بار کسی سکھ نے انتخاب میں حصہ لیا اور کام یابی حاصل کی۔ بشن کے خیال میں راستے کے بہت سے کانٹے تو ہٹ گئے لیکن بعض رکاوٹیں یا محرومیاں اب بھی ہیں۔ لاہور میں کوئی جگہ نہیں جہاں سکھ عبادت کر سکیں۔ یا اپنی مذہبی کتاب کا پاٹھ کر سکیں۔ ماڈل ٹائون میں ایک گردوارا مقفل موجود ہے۔ اگر حکومت اسے سکھوں کے حوالے کر دے تو دو بڑے مسئلے حل ہو جائیں گے۔ عبادت کے لیے جگہ مل جائے گی اور سکھ بچے ، جو ساٹھ کے قریب ہیں ، گر مکھی سیکھ لیں گے۔ گر مکھی وہ رسم الخط ہے جس میں سکھوں کی مذہبی کتابیں قلم بند کی گئی ہیں۔

دوسرے غیر مسلموں کی بہ نسبت سکھوں پر حکومت اور انتظامیہ زیادہ مہربان ہے۔ جب طالبان کی شورش کی وجہ سے باجوڑ اور مالا کنڈ میں سکھوں کی جان و مال کو خطرہ لاحق ہوا تو ریاست نے انہیں محفوظ مقامات پر پہنچانے اور اشیائے ضرورت مہیا کرنے میں مستعدی کا ثبوت دیا۔ اگر کبھی سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہوا تو اسے بگڑنے سے پہلے فرو کر دیا گیا۔ چند برس پہلے ننکانہ صاحب میں طالب علموں نے ہنگامہ برپا کیا تو سرکاری طور پر سخت قدم فوراً اٹھایا گیا۔ فسادیوں کے سرغنوں کو جلد گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

اگرچہ اس وقت لاہور میں صرف بارہ سکھ خاندان آباد ہیں بشن اور اس کے خاندان کا کہنا ہے کہ وہ الگ تھلگ محسوس نہیں کرتے۔ مسلمان پڑوسی اور ساتھی کاروباری ہمیں شادیوں اور مذہبی تقریبات پر مدعو کرتے ہیں اور اپنے جیسا سمجھتے ہیں بشن کا بیٹا ترلوک کہتا ہے۔ " یہ ہمارا شہر ہے۔ میرا خیال نہیں کہ دنیا کے کسی بھی شہر میں مجھے لاہور جتنا چین نصیب ہو سکتا ہے۔

اس ضمن میں ''ہیرلڈ'' میں ہی شامل ڈاکٹر کھٹومل کا انٹرویو بھی قابل توجہ ہے جو آئندہ صفحات میں شامل ہے۔ یہ انٹرویو نادیہ جاجا نے کیا ہے۔



تھر دیہی ترقیاتی منصوبے کے بانی رکن ڈاکٹر کھٹومل ، سے انٹرویو

 
س: سندھ میں ہندو کتنی تعداد میں ہیں؟
ج: تھرپار کر اور عمر کوٹ ایسے دو اضلاع ہیں جہاں ہندو آبادی چالیس فی صد ہے۔ ساٹھ فی صد ہندو مویشی پالتے ہیں اور باقی شہر آباد رشتے داروں کی بھجوائی رقموں پر گزارا کرتے ہیں، مویشی پالنے والے انتہائی مفلس ہیں۔ اگر کسی سال بارش نہ ہو تو آدھے مویشی مر جاتے ہیں۔ جہاں تک نچلی ذاتوں کا تعلق ہے ان کے حالات میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی۔ وہ اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں ، ہسپتال کبھی نہیں جاتے۔ بس کھیتی باڑی کر لی، مویشی پال لیے۔ تاہم ان میں سے بعض اپنی حالت سدھارنے کا جتن کر رہے ہیں۔

س: انتخابی عمل سے ہندو برادری میں کیا تبدیلی آتی رہی ہے؟
ج: جنرل ضیا نے علیحدہ الیکٹریٹ کا جو طریقہ اختیار کیا اس سے حالات بگڑے ۔ ہندو اور مسلمانوں میں صدیوں سے مل جل کر رہنے کا جو رواج چلا آرہا تھا۔ وہ ختم ہو گیا۔ جنرل مشرف نے تبدیلی کی طرف قدم بڑھایا۔ اب یونین کونسل کی سطح پر ہماری نمائندگی ہے لیکن اختیار کچھ بھی نہیں لہذا عملی طور پر کوئی فرق نہیں پڑا۔

س: حکومت کی اور کون سی ایسی پالیسیاں ہیں جن سے ہندو بری طرح متاثر ہوئے؟
ج: بھٹو کے دور میں پیشہ وارانہ کالجوں سے ہندوئوں کے لیے کوٹا مقرر کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بس اتنے ہی ہندو طلبہ داخل ہو سکتے جتنا کوٹا تھا۔ بہت سے ہندو طلبہ کے اکثریتی فرقے کے طلبہ سے زیادہ نمبر آتے تھے لیکن انہیں داخِلہ نہیں ملتا تھا۔ اس کے علاوہ تعلیم یافتہ ہندوئوں پر ملک کے دو سب سے بڑے اداروں کے دروازے بند تھے یعنی فوج اور سول سروسز ، اب کچھ تبدیلی آئی ہے۔ تھرپارکر کا ایک ڈاکٹر فوج میں کیپٹن بن گیا ہے لیکن یہ سارا عمل بہت سست ہے۔

س: کیا سندھ میں ہندو اقلیت کو تعلیم حاصل کرنے کی سہولت رہی ہے؟
ج: یہ تو ہندوئوں اور مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ تھر میں دو ہزار قصبے ہیں لیکن سکول صرف پندرہ ہیں۔ جو شہروں میں رہتے ہیں وہ میٹرک کا امتحان دے سکتے ہیں یہ امتحان پاس کرنا ایسا ہی ہے جیسے انہیں باہر جانے کا پاسپورٹ مل گیا ہو۔ جو ذرا بھی خوش حال ہو جاتا ہے وہ حیدر آباد کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ بد قسمتی سے وہ اپنی برادری کو سہارا دینے کے لیے کبھی واپس نہیں آتے۔

س: ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کیا بار بار پیدا ہوتی رہتی ہے؟
ج: تھرپارکر صحرائی علاقہ ہے یہاں لوگ باہر سے آکر آباد نہیں ہوتے۔ ہندو مسلمان مل جل کر رہتے ہیں۔ وسائل کم ہیں اس لیے مل بانٹ کر رہنے میں سلامتی ہے۔ عید اور دیوالی دونوں فرقے مناتے ہیں اور اگر بارش نہ ہو تو پھر نہ عید نہ دیوالی۔ لیکن جب تھرپارکر میں کوئلہ ملا اور سڑک بنی تو باہر سے لوگ آنے لگے۔ وہ یہاں کے اصل باشندوں کی طرح روا دار نہیں تھے۔ مثال کے طور پر مِٹھّی میں بڑا گوشت نہیں ملتا تھا۔ قصائی اور مسلمان ہندوئوں کے جذبات کا خیال کر کے گائے کی قربانی نہیں کرتے تھے۔ جب مِٹھّی تک سڑک بن گئی تو سب کچھ بدل گیا۔ اب بعض مسلمانوں نے دیوالی میں شریک ہونا چھوڑ دیا ہے۔ ترقی کا یہ المیہ ہے۔

س: کیا مذہب بدلنے کے لیے کوئی معاشی دبائو ہے؟
ج: صرف تبلیغی جماعتیں گڑ بڑ پیدا کرتی ہیں۔ رواداری کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ سندھ پر تصوّف کا بہت اثر ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کا باہر کی دنیا سے میل جول بھی نہیں۔ اگر ان سے پوچھا جائے کہ گستاخ رسولۖ کا قانون کیا ہے تو وہ کچھ نہیں بتا سکیں گے۔

س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ملک مذہب کی بنیادوں پر بٹا ہوا ہے؟
ج: میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں ایک ہی حقیقی تقسیم ہے وہ جو انگریزی بول سکتے ہیں اور وہ جو انگریزی نہیں بول سکتے جس آدمی کے تعلقات ہوں اور جس کے پاس دولت ہو وہ اس ملک میں پھل پھول سکتا ہے۔

(تلخیص و ترجمہ: زاہد حسن)