working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

لیبیائی اسلامی جنگجو تنظیم کا القاعدہ سے لاتعلقی کا اعلان:یورپ پر اس کے اثرات
مجتبیٰ محمد راٹھور

القاعدہ کے ساتھ عرب ممالک کے لوگوں کے تعلقات اب کوئی پوشیدہ راز نہیں رہا۔ تاہم نئی صورت حال میں ان اسلامی، مذہبی گروپس کا القاعدہ کے ساتھ اپنی شناخت بحال رکھنا ایک کارِ مشکل ہے۔ لیبیا سے تعلق رکھنے والی اسلامی جنگجو تنظیم LIFG کو بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ تبھی تو وہ ایک انتہائی اہم اجلاس میں اپنے پرانے ساتھیوں کے القاعدہ سے تعلقات کے بیانات کی وضاحتیں دے رہے ہیں اور اس سے اپنے کسی قسم کے تعلقات سے منحرف ہیں۔ (مدیر)

برطانیہ میں مقیم لیبیائی اسلامی جنگجو تنظیم (LIFG) کے راہنمائوں نے میڈیا کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ لیبیا میں قائم اپنے گروپ کے راہنمائوں اور لیبیائی حکومت کے درمیان جاری مذاکرات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے القاعدہ سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے۔ ابوللیث اللیبی، جو امریکہ کے ایک فضائی حملے میں گزشتہ سال وزیرستان میں مارا گیا ہے۔ کے اس بیان کو ذاتی قرار دیا جس میں اس نے گروپ کا الحاق القاعدہ سے کیا تھا۔ ان راہنمائوں نے کہا کہ ابوللیث اللیبی کا یہ فیصلہ ہماری تنظیم کے بنیادی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ہمارا گروپ نہ تو ماضی میں القاعدہ کا حصہ رہا ہے اور نہ ہی آئندہ القاعدہ کا حصہ بنے گا۔ برطانیہ میں رہائش پذیران راہنمائوں نے ہر قسم کے پرتشدد جہاد سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے پرامن سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اور وہ حکومتِ لیبیا سے مذاکرات کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ان راہنمائوں نے جو لندن میں خفیہ طور پر مقیم ہیں۔ ہر قسم کے دھماکوں اور بمباری کی مذمت کی اور عام شہریوں اور جائیداد کی تباہی کو غیر اسلامی قرار دیا۔

لیبیا کا یہ اسلامی جنگجو گروپ 1980ء کی دہائی کے وسط میں لیبیا میں قائم ہوا۔ اس گروپ نے لیبیا کے صدر قذافی کی حکومت کو غیر اسلامی قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کا اعلان کیا۔ اس گروپ نے لیبیا میں قذافی مخالف تحریکوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور حکومت کے مفاد ات کو نشانہ بنایا۔ پھر جب افغان جہاد شروع ہوا تو یہ گروپ افغان جہاد میں شامل ہونے کے لیے افغانستان منتقل ہو گیا۔ افغان جہاد کے خاتمے کے بعد اس گروپ کے کچھ اراکین افغانستان میں بھی ٹھہر گئے۔ مگر 11ستمبر2001 ء کے امریکہ حملے نے انہیں مجبور کیا کہ وہ پاکستانی علاقوں میں منتقل ہو جائیں جبکہ بعض ایران منتقل ہو گئے۔

اس گروپ کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات کا ثبوت اس طرح ملتا ہے کہ 2005ء میں اس گروپ کے رکن ابواللیث اللیبی نے ایک بیان میں تنظیم کا القاعدہ سے الحاق کر دیا تھا۔ تاہم برطانیہ کے راہنمائوں نے اس بیان کومسترد کر دیا اور ہر قسم کے عالمی اسلامی جہادی نیٹ ورک سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا۔ حکومت لیبیا کے سخت حفاظتی اقدامات کی وجہ سے تنظیم کے اکثر راہنما یورپ اور برطانیہ میں بھی منتقل ہو گئے تھے۔ اور ان میں سے ایک اچھی خاصی تعداد برطانیہ میں بھی منتقل ہو چکی تھی۔ انفرادی حیثیت سے بھی اور ایک تنظیم کی حیثیت سے اس کے ارکان شدت پسند حلقوں میں قابل احترام گردانے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں مقیم LIFG کے متعدد اراکین افغانستان میں مقیم القاعدہ کے تحت کام کرنے والے لیبی باشندوں سے قریبی تعلق رکھتے ہیں۔

میڈیا کو جاری ہونے والے اس بیان کے مطابق جس کا عنوان ''حکومت لیبیا اور اسلامی جنگجو گروپ کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے متعلق ایک کھلا خط''ہے اہم نکات میں سے چند ایک درج ذیل ہیں۔
(1) یہ گروپ صرف لیبیائی عوام پر غاصبانہ قبضے کو ختم کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ تاکہ انصاف اور خلوص پر مبنی نظام کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ یہ گروپ کسی بھی عالمی ایجنڈے کی تکمیل یا بیرونی یا اندرونی پارٹی کے مفادات کو حاصل کرنے کے لیے قائم نہیں کیا گیا۔
(2) لیبیائی حکومت لیبیائی عوام کے حقوق کی پامالی اور انہیں آزادی سے محروم رکھنے کے ساتھ ساتھ ناجائز قبضے، رشوت، مساوات اور انصاف کی عدم فراہمی مسلمان امام کی گرفتاریوں اور تنظیم کے کئی افراد کے ساتھ قید میں غیر انسانی سلوک اور دعوت و تبلیغ کے کام میں رکاوٹ کی ذمہ داری قبول کرے۔
(3) LIFG اپنے آپ کو دیگر تنظیموں سے جدا تصور کرتی ہے جو اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے غیر قانونی اور غیر اسلامی حرکات کو فروغ دے رہے ہیں۔
(4) گروپ اپنے تجربے کی روشنی میں اس بات پر متفق ہے کہ عسکری کارروائیاں، تنظیم کے مقصد کو حاصل کرنے اور لوگوں کو حکومت پر ناجائز قبضے سے نجات دلانے کے لیے قطعی طور پر درست نہیں، اس لیے ہم تنظیم کے اس مؤقف کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ جس میں تنظیم نے عسکری کارروائیوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
(5) اگر حکومت اور ہمارے گروپ کے درمیان دو سال سے جاری مذاکرات خون خرابے کو مزید پھیلانے سے روکنے، قیدیوں کی آزادی، حفاظت اور انصاف کی فراہمی، دعوت و تبلیغ کی اجازت، تعلیمی اور سیاسی جدوجہد کی اجازت کی طرف ممدومعاون ثابت ہوں تو ہم ان کی بھر پور حمایت جاری رکھیں گے۔
(6) ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ لیبیائی حکومت اس سلسلہ میں اپنی اہلیت ثابت کرے۔ ہم ان مذاکرات کو لمحہ بہ لمحہ دیکھ رہے ہیں اور اگر حکومت اپنی ماضی کی پالیسیاں ترک نہیں کرتی تو ہم اپنی پالیسیاں بنانے میں بھی آزاد ہوں گے۔
(7) ہم ان تمام حکومتوں سے مطالبہ کرتے ہیں جنہوں نے القاعدہ سے تعلق کی بناء پر ہمیں دہشت گرد قرار دیا ہے کہ ہمارا نہ اب اور نہ ہی ماضی میں القاعدہ سے کوئی تعلق رہا ہے۔ اس لیے ہمیں اس لسٹ سے نکالا جائے۔ اور جن لوگوں نے ذاتی طور پر القاعدہ سے تعلق کو قبول کیا ہے۔ ہماری تنظیم کا ان سے کوئی سروکار نہیں۔
(ٹیلی گرافـ9جولائی 2009ئ، القدس العریـ3جولائی2009ئ)

یورپ میں عرب اسلامی شدت پسند گروپ کے اس بیان کو بہت زیادہ سراہا جا رہا ہے کیونکہ اس وقت یورپ خصوصاً برطانیہ میں عرب شدت پسند عناصر جو نظریاتی طور پر القاعدہ سے مطابقت رکھتے ہیں اپنا بہت زیادہ اثرو رسوخ رکھتے ہیں یا اس کے ساتھ ساتھ لندن عرب سیاسی دنیا کا مرکز بن چکا ہے۔ یورپ میں مقیم عرب باشندے زیادہ تر لبرل اور عیاش پرست ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلامی شدت پسند گروپس بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ 1994ء میں اسامہ بن لادن نے بھی لندن میں خالد الفواز کی زیرادارت میڈیا سینٹر قائم کیا تھا جو 1998ء میں بند کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ بہت سے برطانوی شہرت کے حامل افراد بھی عرب گروپس سے متاثر ہو کر شدت پسندی کی جانب مائل ہوئے۔ جن میں سے اکثر گرفتار ہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں اس وقت ''المہاجرون'' کو عرب شدت پسند گروپس میں سب سے زیادہ خطرناک تصور کیا جا رہا ہے۔ جنہوں نے ایک بڑی تعداد میں برطانوی نوجوانوں کو القاعدہ اور طالبان کے تربیتی کیمپوں میں عسکری تربیت کے لیے بھیجا۔ یہ برطانوی مسلمانوں سے بھی فنڈز حاصل کرتی ہے۔ ''المہاجرون'' برطانیہ کے 25 سے زائد شہروں میں فعال ہے۔ برطانیہ کے معتدل مسلمانوں کا طبقہ برطانیہ میں مسلمانوں کے درمیان بڑھتی ہوئی شدت پسندی پر گہری تشویش کا اظہار کرتا ہے۔ اور اسے مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کے خلاف سازش تصور کرتا ہے اور اس سلسلہ میں القاعدہ سے منسلک تمام عرب اسلامی شدت پسند گروپس کی مذمت کرتا ہے۔

چونکہ برطانیہ اور یورپ کے دیگر ممالک میں عرب شدت پسند گروپس اپنا گہرا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اور وہ ان علاقوں سے القاعدہ کے لیے نوجوانوں کو بھرتی کرنے کے ساتھ ساتھ مالی معاونت میں بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے مسلمان نوجوان بھی عرب نوجوانوں سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اس لیے لیبیائی اسلامی جنگجو تنظیم کی طرف سے القاعدہ سے لاتعلقی کا اعلان ان کے نظریات کی نفی اور پر تشدد جہاد کو چھوڑنے کے فیصلے کا یورپ کے مسلمان نوجوانوں پر گہرا اثر مرتب ہو سکتا ہے۔

القاعدہ اور طالبان کے نظریات کا توڑ کرنے کے لیے عرب ممالک کی جانب سے ان متشدد اسلامی تنظیموں سے مذاکرات کا فیصلہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اور اگر ان گروپس کے مطالبات پر توجہ دی جائے اور ان کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ان کی تنظیموں کے افراد کو رہا کیا جائے تو عرب ممالک ان سے کافی حد تک چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ جیسا کہ لیبیائی حکومت نے جنگجو تنظیم کے راہنمائوں سے کہا ہے کہ وہ جہادی سرگرمیوں کی تحقیق اور مطالعہ پر زور دیں۔ اور ان تمام شرائط اور قیود جیسے حکمرانوں کو کب غیر اسلامی قرار دیا جا سکتا ہے اور اس طرح کے دیگر معاملات کے حل کے لیے اسلامی تعلیمات کو فروغ دینے پر زور دیں اور لیبیا کے اندر رہتے ہوئے ان معاملات کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ اس طرح کی تحقیق اگر تمام اسلامی ممالک میں متفقہ طور پر کی جائے تو عالم اسلام مشترکہ طور پر جہاد کی تشریح سے متعلق اور القاعدہ کے نظریات پر متفقہ فیصلہ دے سکتا ہے۔