working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پاکستان کے قبائلی علاقو ں میں ڈرون حملے
فرحان یوسف

قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے آج سے کوئی پانچ سال قبل شروع ہوئے۔ پاکستان میں عمومی طور پر یہی خیال کیا جاتا تھا کہ حملہ آور امریکی ڈرون طیارے افغانستان سے پرواز کرتے ہیں۔لیکن افسوس ناک اور حیران کن حقیقت اسی وقت منکشف ہوئی جب امریکی سینٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی سرابرہ نے کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں میزائل حملے کرنے والے ڈرون طیارے پاکستان کے اندر ہی سے پرواز کرتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی امریکی اہلکار نے اس بارے میں واضح الفاظ میں بیان دیا ہے کہ طیارے کہاں سے پرواز کرتے ہیں۔ کمیٹی کی سماعت کے دوران سینیٹر فاء نسٹائن نے سرحدی علاقوں میں مبینہ شدت پسندوں کے خلاف ڈرون حملوں پر پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے احتجاج پر حیرت اظہار کرتے ہوئے کہا، ''جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ ڈرون طیارے پاکستان کے اندر ہی ایک فضائی اڈے سے پرواز کرتے ہیں۔'' انٹیلی جنس کی سربراہ کی حیثیت سے سینیٹر فاء نسٹائن کو انتہائی خفیہ معلومات تک رسائی حاصل ہے اور اس پس منظر میں ان کا بیان بہت غیر معمولی ہے۔
8اگست کو ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 18جون 2004ء سے لے کر 8اگست 2009ء تک قبائلی علاقوں میں 49ڈرون حملے ہو چکے ہیں جن میں 597 افراد ہلاک ہوئے۔ اگر 11 اور 21اگست 2009ء کو ہونے والے حملوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو اس طرح حملوں کی تعداد 51 اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد624 ہو جاتی ہے۔ یہ حملے تقریباً پانچ سال اور چار ماہ کے عرصہ میں ہوئے۔ واضح رہے کہ مشرف دور میں قبائلی علاقوں میں 36 ڈرون حملے ہوئے تھے۔ جبکہ مشرف کے بعد تقریباً ایک سال کے عرصے میں 26 سے زائد حملے ہو چکے ہیں۔ جدول ملاحظہ کیجئے۔


6

اس جدول سے صاف ظاہر ہے کہ ڈرون حملے سال بہ سال کتنی تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ بعض حکومتی ارکان کے احتجاج اور متعدد سیاسی قائدین اور جماعتوں کی طرف سے ڈرون حملوں کی مذمت کے باوجود حملے اس قدر تیزی سے بڑھتے گئے۔ کہ 2004ء میں ایک ڈرون حملہ ہوا اور 2009ء کے آٹھ ماہ سے بھی کم عرصہ میں 28 حملے ہو چکے ہیں۔ یہ حملے قبائلی علاقوں میں مختلف ایجنسیوں میں ہوئے۔ جدول ملاحظہ کیجئے۔


7

تحریک طالبان کا سربراہ بیت اللہ محسود 5اگست 2009ء کو ہونے والے ڈرون حملے کی زد میں آکر ہلاک ہو گیا۔ بیت اللہ محسود کی بیوی بھی اس حملے کا نشانہ بن گئی۔ ان کے علاوہ القاعدہ اور طالبان کے سینئر لیڈر جو ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔ ان میں یہ نام شامل ہیں: القاعدہ رہنما مدحت مصری، القاعدہ سینئر لیڈر خالد حبیب، عراقی القاعدہ کمانڈر ابو عقاص، محمد حسن خالد، کمانڈر خوزولی، قاری حسین۔ اس کے علاوہ درجنوں شہری بھی ان حملوں کا نشانہ بنے۔ نہ جانے ان حملوں میں مارے جانے والے شہریوں کے نتیجے میںکتنی مائوں نے اپنے جگر گوشے کھو دیے، کتنی بہنوں کے بھائی ہلاک ہوئے ،کتنے بچے یتیم ہوئے اور کتنی عورتیں بیوہ ہوئیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈرون حملے پاکستان کی خود مختاری پر حملہ ہیں۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی اور اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف ان ڈرون حملوں کی مذمت کر چکے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ امریکی ڈرون حملے پاکستان کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ ان سے پاکستانی عوام میں امریکا کے خلاف نفرت پیدا ہو رہی ہے۔ اگر یہ حملے جاری رہے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ خطرے میں پڑ جائے گی۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے اور کوئی خودمختار ملک اپنی سرزمین پر ایسے حملوں کی اجازت نہیں دیتا۔

چند ماہ پہلے وفاقی وزیر انسداد منشیات خواجہ محمد خان ہوتی نے وفاقی کابینہ سے استعفیٰ دے دیا۔ استعفیٰ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے قبائلی علاقہ جات کی خراب صورتحال اور امریکی ڈرونز حملوں کا ذکر بھی کیا۔

کچھ پاکستانیوں کا یہ بھی خیال تھا کہ جو طالبان پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں، امریکہ ان کو ڈرون حملوں کا نشانہ نہیں بنا رہا۔ لیکن 5اگست 2009ء کو شمالی وزیرستان میں بیت اللہ محسود پر ڈرون حملہ اور اس کے نتیجے میں اس کی ہلاکت کی اطلاع کے بعد امریکہ نے امید ظاہر کی کہ اب پاکستان میں ڈرون حملوں کی مخالفت میں کمی آ سکتی ہے۔

امریکہ کا یہ مؤقف ہے کہ افغانستان اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی طالبانائزیشن اور دہشت گردی کو کنٹرول کرنے کے لیے ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جس طرح طالبانائزیشن اور دہشت گردی پھیل رہی ہے۔ اگر اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو مستقبل میں عالمی امن کے لیے خطرات پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔