working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

انسانی زندگی میں مذہب کی اہمیت
جب ہم مذاہب کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں۔ تو ہم پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے ۔ کہ جب سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے ۔تب سے انسان اور مذہب ساتھ ساتھ ہیں ۔ابتدا میں تمام انسانوں کا مذہب ایک تھامگر جوں جوں انسانوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا لوگ مذہب سے دور ہونے لگے پھر خالق کائنات نے مختلف ادوار میں انسانوں کی راہنمائی کے لیے پیغمبر بھیجے لیکن پیغمبروں کے اس دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد ان کے ماننے والوں نے ان کے پیغام پر عمل کرنے کی بجائے خود سے نئے دین اور مذاہب اختیار کر لیے اس طرح مذاہب کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا او ر اس وقت دنیا میں کئی مذاہب پیدا ہو چکے ہیں جن میں سے مشہور مذاہب ،اسلام،عیسائیت،یہودیت،ہندو ازم،زرتشت،بدھ ازم ،سکھ ازم شامل ہیں۔

اس بات سے انکار ممکن ہیں کہ بنی نوع انسان ہر دور میں کسی نہ کسی مذہب کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ لیکن ان تمام مذاہب کی تعلیمات میں کسی نہ کسی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے ۔جیسا کہ دنیا کے تمام مذاہب کی تعلیمات میںکسی نہ کسی قتل، چوری ،زنااور لڑائی جھگڑے کو سختی سے ممنوع قرار دیتے ہیں اور تمام قسم کی اچھائیوں کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔

انسان بنیادی طور پر اشرف المخلوقات اسی لیے قرار دیا گیا ہے ۔کہ یہ اپنے اندر اخلاقی پہلورکھتا ہے ۔ اور اس کا اخلاقی قدروں پر مبنی وجود ہی کسی بھی معاشرے کے قیام کی بنیاد بنتا ہے۔ در حقیقت باہمی حقوق اور احساس ذمہ داری کا احساس ہی خاندان ،قبیلے اور معاشرے کے مضبوط تعلقات کا سبب بنتا ہے ۔ اور صرف مذہب ہی ایسی چیز ہے ۔جو اس دنیا میں انسان کو زندگی گزارنے کے لیے اصول و ضوابط فراہم کرتاہے۔ یہی مذہب انسان میں احساس ذمہ داری کا شعور پیدا کرتا ہے ۔ اسے اپنے فرائض اور واجبات یاد دلاتا ہے ۔جو اس کے اور اس کے پیدا کرنے والے کے درمیان تعلقات کی بنیاد ڈالتے ہیں۔جب انسان کسی مذہب کی تعلیمات کی پیروی کرنا شروع کرتاہے ۔ تو پھر اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ وہ اس دنیا میں کیوں آیا ۔اسے خدا نے کیوں پیدا کیاپھر جب وہ اپنے مذہب سے اس بات کا جواب حاصل کرتاہے ۔ تو اسی تگ و دو میں مصروف ہو جاتا ہے ۔کہ وہ اپنے مذہب کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی کوشش کرے ۔ اس طرح انسان جب اپنے مذہب کی اچھی باتوں کو اپناتا ہے تو وہ ایک صحت مند معاشرہ کے قیام کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے ۔ لیکن اگر وہ مذہب کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کی بجائے دوسرا رخ اختیا رکرتاہے ۔تو وہ معاشرے میں فساد کا سبب بنتا ہے۔

مذہب ایک ایسی چیز ہے جو کسی بھی شخص کو ایک مقصد بتا دیتا ہے کیونکہ جو لوگ زندگی میں کچھ مقصد رکھتے ہیں وہ ضرور کسی نہ کسی مذہب کے تابع ہوتے ہیں ۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ انسانی زندگی میں مذہب کی کوئی اہمیت نہیں درحقیقت وہ مذہب کے مفہوم کو سمجھ نہیں پائے۔ جیسا کہ ایک مغربی مفکر نے کہا تھا کہ اگر ایک شخص اخلاقی طور پر اچھا ہے ۔ اعلیٰ کردار اور بلند اصولوں کا مالک ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اچھائیاں بھی اپنے اند ر رکھتا ہے لیکن وہ مذہب پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی یہ خیال کرتا ہے کہ کوئی ایسی ذات ہے جو ہمیں دیکھ رہی ہے ۔تو پھر اسے مذہب کی ضرورت نہیں ہے ۔جبکہ اسی طرح اگر کوئی شخص مذہب کو اختیار کرتے ہوئے پھر بھی برے اخلاق رکھتا ہے ۔ تو اس کے مذہب کیا کیا فائدہ ۔یہ دلیل اس بناء پر رد کی جاتی ہے کہ مذہب کسی بھی انسان کی راہنمائی تو کر سکتا ہے ۔ لیکن اسے مکمل طور پر اپنی پیروی پر مجبور نہیں کر سکتا۔ مذہب صرف الفاظ کا نام نہیں کہ مان لینے سے ہی انسان مذہبی بن جاتا ہے ۔ بلکہ یہ تو عمل کا نام ہے ۔مذہب انسان کے کردار و عمل سے ظاہر ہوتاہے ۔ آپ اس شخص کو تو مذہبی نہیں کہ سکتے جو مذہب کا نام لیتا ہے ۔لیکن مذہب کے بتائے ہوئے بغیر بھی انسان اخلاقی قدروں کو اپنا سکتا ہے ۔تو کسی حد تک تو یہ بات درست ہے مگر انسان کو یہ بتانے والا کہ فلاں چیز اچھی ہے یا فلاں چیز بری ہے ۔یہ صرف مذہب کا کام ہے ۔دنیا کے تمام مذاہب نے اخلاقیات اور انسانوں کے مابین باہمی معاملات پر اصول فراہم کیے ہیں۔جن کے ہوتے ہوئے کوئی بھی انسان مذہب کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا ہمارا دین ،دین اسلام تو تمام مذاہب پر فوقیت رکھتاہے ۔جس نے بنی نوع انسان کے ہر گوشے کے متعلق راہنمائی فراہم کی ہے اور ایک کم علم رکھنے والا مسلمان بھی اپنے مذہب کی اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا ۔

آج کے دور میں انسانیت کی تذلیل کا سبب ہی مذہب سے دوری ہے ۔صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی زندگیوں سے دور کر دیا ہے ۔ انہوں نے مذہب کو صرف چند رسموں تک محدود کر دیا ہے ۔آج بھی اگر تمام انسان اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں تو دنیا میں امن و سکون لوٹ سکتا ہے ۔دین اسلام تو مسلمانوں کی قدم قدم پر راہنمائی کرتا ہے ۔مگر اس کے باوجود آج بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ دین انسان کا ذاتی معاملہ ہے مگر کیا یہ بات کہنے سے ہم لوگ دین سے بری الذمہ ہو گئے ۔اگر ذاتی معاملہ ہی ہے تو کم از کم اسے اپنی ذات پر تو لاگو ہونا چاہیے۔شاید اس طرح انفرادی بہتری سے مجموعی بہتری عمل میں آسکے۔ ملک پاکستان کے قیام کی بنیادی وجہ اسے مذہب اسلام کی تجربہ گاہ بننا تھا ۔لیکن ملائوں نے اسے مسجد تک محدود کر دیا۔ اور پھر اس کی مختلف توجیحات کر کے اور اسے قید و پابندیوں میں جکڑ کر عام مسلمانوں کی پہنچ سے بھی دور کر دیا ۔حالانکہ اگر مسلمانوں کو مذہب کی اہمیت یاد دلا دی جاتی اور یہ بات بتا دی جاتی کہ آپ کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی جو آپ نے مذہب کی پیروی کرتے ہوئے کی ہے کبھی رائیگاں نہیں جائے گی۔ بلکہ آپ کے مذہب کا حصہ کہلائے گی۔ تو مسلمان کبھی اپنے مذہب سے دور نہ ہوتے۔

اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کو دین اسلام کی اہمیت یاد دلائی جائے۔ اور انہیں یہ باور کروایا جائے کہ وہ مذہب کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنالیں ،کیونکہ مذہب صرف عبادات کا نام نہیں بلکہ مذہب عبادات،اخلاقیات اور معاملات کا مجموعہ ہے ۔

وما توفیقی الا باللہ