working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

''صوبہ پنجاب کے طالبان''
حسن عباس
حسن عباس، ہاورڈ یونیورسٹی میں فیلو ہیں، نیویارک ٹائمز، بوسٹن گلوب، فار ایسٹرن اکنامک ریویو، دی ہندو اور ڈان جیسے ممتاز اخبارات میں لکھتے ہیں، وطن دوست کے نام سے انہوں نے بلاگ بھی شروع کر رکھا ہے Combating Terrorism Centre جریدے میں ان کا زیر نظر مضمون ''پنجابی طالبان'' شائع ہوا ہے جس کو باقاعدہ اجازت کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے ۔ (مدیر)
مارچ2009کو صوبہ پنجاب کے گنجان درالحکومت لاہور کے مضافات میںپولیس کے تربیتی مرکز میں عسکریت پسندوں نے خون کی ہولی کھیلی اس واقعے میں پولیس کے آٹھ اہل کار جاں بحق ہو ئے ایک مہینہ سے بھی کم عرسے میں اس سے پہلے لاہور میں ہی 3مارچ کو پاکستان کا دورہ کرنے والی سری لنکاکی ٹیم کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آچکا تھا جس میں آٹھ افراد نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے تھے۔ عمومی طور پر پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں برپا خون ریزی سے پنجاب ابھی دور تھا لیکن 2007سے اس صوبے میں بھی حالات بگڑنا شروع ہو چکے تھے۔
پاکستان کے دل اسلام آباد اور پنجاب میں دہشت گردوں کے حملوں نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ انہیں مقامی طور پر ''پنجابی طالبان'' کی جانب سے تمام ضروری امداد ملتی رہی ہے ان واقعات کے پیچھے ان بڑے گروہوں کا ہاتھ شامل تھا جو لشکرِ جھنگوی، سپاہ صحابہ پاکستان اور جیشِ محمد کے جھنڈے تلے کشمیراور اندرونِ ملک فرقہ واریت اور قتل و غارت کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے تھے۔

ان گروہوں کے ممبران پاکستان کے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طالبان کی حمایت میں سرگرداں رہے تھے اور اسی وجہ سے وہ ملک کے حساس اور اہم شہروں مثلاً اسلام آباد، راول پنڈی اور لاہور میں تباہی پھیلانے میں کامیاب ہوئے۔ ستمبر2008میں میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں ہونے والے بم دھماکوں کے بعد درجنوں مشکوک پنجابی طالبان کو پکڑ کر پوچھ گچھ کی گئی جس سے پنجابی عسکریت پسندوں کا چہرہ بے نقاب ہوا۔ ایک محقق جو کہ میریٹ کے حوالے سے تفتیش کر رہا تھا کا کہنا ہے کہ تمام شہادتیں پتہ دیتی ہیں کہ اس تخریب کاری کی کارروائی کا جہاں جنوبی وزیرستان میں ایک سرا نکلتا ہے وہاں دوسرا جھنگ میں پایا جاتا ہے۔ جھنگ ایک ایسا علاقہ ہے جسے لشکرِ جھنگوی کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اور متعلقہ ٹرک جس میں بارود بھرا گیا تھا اسے بھی جھنگ سے ہی یہاں لایا گیا تھا۔

اس آرٹیکل میں ان تین اہم مقاصد پر روشنی ڈالی گئی ہے جو کہ پنجابی طالبان کے وجود میں آنے کے بعد بنیادی اسلوب مہیا کرتے ہیں۔

پنجابی طالبان کون ہیں؟
پنجابی طالبان ایسی تنظیموں کا ملغوبہ ہیں جن پر حکومت نے ماضی میں اس لیے پابندی عائد کر دی تھی کہ ان کا تعلق پنجاب کی فرقہ واریت کو دوام بخشنے والی جماعتوں سے تھا انہوں نے جہادِ کشمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور ان کے تحریکِ طالبان پاکستان (TTP ) افغانستان کے طالبان اور فاٹا کے قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد کے عسکریت پسندوں کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار تھے یہ لوگ فاٹا اور پاکستان کے کسی بھی حصے میں آزادانہ گھومتے، افغانستان اور فاٹا کے عسکریت پسندوں کو پاکستان کے اندر تک تخریبی کارروائیوں کے لیے نقل و حمل اور قیام و طعام کی تمام سہولتیں مہیا کرتے ۔ مثلاً محض مارچ2005اور مارچ2007کے درمیان 2000کے قریب عسکریت پسند شمالی اور جنوبی پنجاب سے جنوبی وزیرستان منتقل ہوئے اور اپنے تعلقات کے دائرے کو وسیع اور مضبوط کرنے کی خاطر مختلف کاروبار کا آغاز کیا۔ انہوں نے پنجاب کے مختلف شہروں کے حوالے سے سیکیورٹی کے ڈھانچے کی قیمتی معلومات TTPکے ہم خیال دوستوں کو فراہم کیں جنہوں نے بعد ازاں لاہور، اسلام آباد اور راول پنڈی کے ساتھ ساتھ پنجاب کے مختلف شہروں کو اپنے انتقام کا نشانہ بنایا۔

دہشت گردی کے خلاف بننے والے پاکستانی ادارے( NACTA ) کے نئے چیئرمین طارق پرویز کا ہمہ جہتی تبصرہ بھی نظر سے گذرا ہے جس میں پنجابی طالبان کے ڈھانچے کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ان کے نظریات ، نقل و حمل کے وسائل اور پیسہ گلف سے آتا ہے۔ عرب ملکوں میں خصوصاً مصری اور سعودی نیشنل تمام حرکی معاونت مہیا کرتے ہیں ۔ اور منجھے ہوئے پنجابی طالبان انتہا پسند حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں جب کہ پاکستانی طالبان انہیں شہداء مہیاکرتے ہیں۔


''پنجابی طالبان'' کی اصطلاح سب سے پہلے اس وقت سامنے آئی جب پنجاب کے کچھ مذہبی عناصر نے ''حرکت الجہاد الاسلام'' کے قائد قاری سیف اللہ اختر کی زیرِ قیادت 1990میں افغانستان میں ملا عمر کی حکومت کی مدد کی اس جماعت کے نام کی دوبارہ بازگشت اس وقت سنائی دی جب2003،2001کے درمیان سابق پاکستانی صدر جنرل پرویز مشرف نے پنجاب کے چند عسکری اور مذہبی گروہوں پر پابندی عائد کی۔ چنانچہ اپنے آپ کو محفوظ کرنے کے لیے یہ تمام گروپ فاٹا کی جانب منتقل ہونے لگے جہاں انہوں نے اپنے کیمپ قائم کر لیے ان تمام گروہوں نے خصوصاً فاٹا اور عمومی طور پر شمالی وزیرستان میں اپنے علیحدہ تربیتی مراکز بھی قائم کیے۔

موجودہ پنجابی طالبان کی متعدد خامیاں بھی سامنے آئی ہیں۔ مثلاً ان میں تنظیمی نظم و ضبط کا فقدان ہے اور کمان کمزور ڈھانچے پر استوار ہے اور یہ لوگ دور دراز بیٹھے لوگوں کے کمزور نیٹ ورک کے حصے کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ اور یہ بکھرا ہوا شیرازہ کبھی لشکرِ جھنگوی، سپاہِ صحابہ پاکستان، جیشِ محمد اور ان کی کئی ذیلی تنظیموں پر مشتمل تھا۔ اور بعض ایسے اشخاص بھی ان کے ساتھ شامل ہیں جن کا کسی گروہ سے کوئی تعلق نہیں رہا۔

دوسرے نمبر پر یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ان میں سے کئی ایک نے1990کی دہائی میں براہ راست حکومتی سرپرستی میں پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی تھی اور گوریلا کارروائیوں اور تباہی پھیلانے کی مکمل تیاری میں حصہ لیا ۔ پنجابی طالبان بھاری ہتھیار استعمال کرنے کے بھی ماہر ہیں اور TTPکے علاوہ ان علاقوں کے دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ آزادانہ کارروائیاں انجام دیتے رہے ہیں مثال کے طور پر دسمبر2008کے اواخر میں پانچ پنجابی طالبان اس وقت فضائی ڈرون حملے میں جاں بحق ہو گئے جب وہ ایک ٹرک میں مسلح ہو کر ڈرون طیارے کا پیچھا کر رہے تھے۔ ان کا ٹرک مٹی او ر گھاس کے جُھنڈ میں پوشیدہ تھا۔ مگر وہ اپنی مشکوک نقل و حرکت سے نشانہ بن گئے۔

تیسری بات یہ بھی ہے کہ یہ لوگ زیادہ تر سنی العقیدہ اور سلفسٹ مسلمان مکتب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک انٹرنیشنل کرائسسز گروپ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ''پنجاب میں دیوبندی فرقے کی انتہا پسند شاخ نے فوج کے دم سے ہی اپنی جڑیں مضبوط کی تھیں کیوں کہ پنجابی طالبان نے ان دیو بندی مدرسوں کے پھیلائے ہوئے جال سے تعلیم حاصل کی تھی جنہیں سابق صدر جنرل ضیا الحق نے 1977سے 1988تک پنجاب بھر میں پھیلایا تھا، چھٹے نمبر پر پنجابی عسکریت پسند پشتون طالبان سے روایتی طور پر مختلف ہیں۔ چاہے زبان کا مسئلہ ہو یا لباس اور ثقافت کو ہی پرکھا جائے تو یہ کافی دوری پر نظر آتے ہیں پنجابی طالبان مقابلتاً زیادہ پڑھے لکھے ہیں، بہترین تربیت یافتہ ہیں اور اپنے پشتون ساتھیوں کی نسبت ٹیکنالوجی کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں کیوں کہ یہ تمام تر پنجاب کی اس ترقی کا نتیجہ تھا جو کہ صوبے میں تعلیمی سہولتوں کی وجہ سے ممکن ہوا کیوں کہ یہاں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور ذرائع ابلاغ کی ترقی یافتہ سہولتیں موجود ہیں۔


پانچواں اہم پہلو یہ بھی ہے کہ TTPاور افغان طالبان کے برعکس''پنجابی طالبان'' نسبتاً کمزور ایمان کے حامل ہوتے ہیں پاکستانی سیکیورٹی کے ادارے دعویٰ کرتے ہیں کہ پنجابی طالبان کو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے خریدا جاسکتا ہے۔ پنجاب میں امن وامان قائم کرنے والے اداروں کے ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ کئی پنجابی طالبان نے اپنے مستقبل کا دوبارہ آغاز جرائم پیشہ انداز سے کیااور جب ان تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی تو وہ فاٹا کی جانب منتقل ہو گئے اور انہوں نے منشیات کی اسمگلنگ کی اور درہ آدم خیل کی مارکیٹ سے اسلحہ کی خرید وفروخت کر کے رقم اکٹھا کی۔

آخر میں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ''پنجابی طالبان''فدائی حملوں کے لیے اپنے آپ کو موزوں سمجھتے ہیں کیوں کہ جنوبی ایشیا کے پس منظر میں دیکھا گیا ہے کہ حملہ آور ہتھیاروں سے مسلح ہو کر موت تک جنگ لڑتے ہیںاور یہ مزاج خود کش حملوں سے مماثلت رکھتا ہے کیوں کہ حملہ آور کی موت یقینی ہوتی ہے۔

پنجابی طالبان کی اقسام
1۔ لشکرِ جھنگوی
2 ۔ سپاہِ صحابہ پاکستانیہ دونوں جماعتیں ایک جیسے نظریات کی حامل اور پنجاب سے تعلق رکھتی ہیں اور دونوں پر ہی حکومت نے پابندی بھی عائد کر رکھی ہے۔ لشکرِ جھنگوی کے ممبران کی تعداد'1000'کے لگ بھگ ہے جب کہ سپاہ صحابہ کے کارکنوں کی تعداد کم و بیش''100,000''سرگرم ارکان پر مشتمل ہے اور حملہ آور وں کا تخمینہ 2000سے 3000افراد کے درمیان ہے حالاں کہ دونوں گروپس بنیادی طور پر شیعہ مخالفت میں وجود میں آئے لیکن ان کے ممبران جہاد کشمیر اور افغانستان میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ مثلاً سپاہ صحابہ کا ایک سابقہ ممبر جس کی کمانڈر طارق کے نام سے تصدیق ہو چکی ہے وہ صوبہ سرحد میں کوہاٹ سے متصل اورکزئی ایجنسی میں طالبان کی درہ آدم خیل شاخ کا انچارج ہے وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شیعہ مکتبہ فکر پر حملوں کے سلسلے میں مطلوب تھا وہ غیر ملکیوں کے اغوا برائے تاوان میں بھی ملوث رہا ہے مزید برآں فروری میں ایک آئل کمپنی میں کام کرنے والے پولش انجینئر کے قتل میں بھی اس کا نام لیا جاتا رہا ہے۔


اس طرح لشکرِ جھنگوی کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ وہ القاعدہ اور پاکستانی طالبان اور دوسرے مذہبی گروپوں کے درمیان گفت و شنید کا وسیلہ بنتی رہی ہے۔ اور لشکر جھنگوی ہی وہ جماعت ہے کہ جس نے طالبان دور میں اپنے تربیت یافتہ افراد پنجاب سے افغانستان بھیجے جس سے 1990کی دھائی میں القاعدہ کے اہم رہنمائوں سے تعلقات قائم کرنے کا موقع میسر آیا۔

پنجاب میں کئی مساجد اور مدارس سپاہِ صحابہ پاکستان اور لشکر جھنگوی کے گڑھ بن چکے تھے جو کہ ''پنجابی طالبان'' کے مراکز کے طور پر کام کرتے تھے کراچی پولیس کے چیف نے حالیہ دنوں میں لشکرِ جھنگوی کے عہدیداران سے پوچھ گچھ کے بعد انکشاف کیا کہ ان لوگوں نے سیکیورٹی کے افسران ، جوانوں اور NATOفورسز پر حملوں کا اعتراف کیا ہے اس کے لیے انہوں نے کراچی سے نوجوانوں کا انتخاب کیا اور وزیرستان اور مانسہرہ میں ان کی تربیت کی اور انہیں فوج کے خلاف آپریشن کے لیے تیار کیا۔ حکومتی پابندی کے باجود دونوں گروپ سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی پاکستان بھر میں فعال کردار ادا کرتے رہے۔حالاں کہ لشکر جھنگوی پاکستان کی سول اور فوجی ایجنسیوں کی زد پر رہی لیکن سپاہ صحابہ نے اپنے آپ کو جامع حکمت عملی سے حکومتی نظروں سے محفوظ رکھا اور اس کا ثبوت ان کا قومی اسمبلی میں سیٹیں جیت کر آنے سے ملتا ہے۔


جیشِ محمد(JeM)
حرکت المجاہدین (HuM)کا ذیلی گروپ جیشِ محمد کو بھی پنجاب سے ہی مدد اور طاقت فراہم ہوتی تھی۔ اپنے اندرونی اختلافات اور2001میں حکومتی پابندی نافذ ہونے کے بعد یہ تنظیم نئے ناموں سے سامنے آتی رہی اور اپنے آپ کو متحرک رکھا اس کے فعال افراد تقریباً5000کی تعداد ہیں جبکہ 1500سے لے کر 2000تربیت یافتہ حملہ آور ہیں۔ پاکستان کے ماہر تجزیہ نگار عامر رانا نے ایک نئی جہت سے اس گروپ کی طاقت کا اندازہ لگایا ہے وہ کہتے ہیں کہ ان کی بقا کا اصل راز یہ ہے کہ فوج انہیں کشمیر میں عسکری حوالے سے زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ حالانکہ حکومتِ پاکستان جیشِ محمد کے چیف''مسعود اظہر'' کی موجودگی سے لاعلمی کا اظہار کر چکی ہے۔ لیکن یہ افواہ بھی ہے کہ وہ وزیرستان میں بیت اللہ محسود کی ہمراہی میں ہے۔

اختتامیہ
''پنجابی طالبان''کے میکانکی جال کو سمجھنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن مضبوط شواہد سے پتا چلتا ہے کہ یہ ابھی تعمیر و ترقی کے ابتدائی مراحل سے گذر رہے ہیں۔ تاہم لشکرِ طیبہ جیسی تنظیم اور اس کی اتحادی''جماعة الدعوة'' پنجابی طالبان سے خاصی مختلف ہیں کیوں کہ ان کا مضبوط ڈھانچہ اور کمان کی استعدادِ کار کئی سالوں کی محنت شاقہ کے بعد عمل میں آئی ہے اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو'لشکر جھنگوی'اور'جیش محمد'کی چھوٹی گروہوں میں تقسیم کی وجہ سے ان کے رہنمائوں کے باہمی اختلافات اور جائیداد اور رقوم پر باہم نااتفاقی جیسے مسائل تھے۔اس بات کے کم ہی امکان ہیں کہ'پنجابی طالبان' مستقبل قریب میں کسی منظم گروہ کی شکل میں سامنے آئیں بلکہ یہ بکھرے ہوئے ارکان کی شکل میں دیگر دہشت گردوں کے آلہ کار بننے کے لیے اپنا وجود برقرار رکھیں گے۔'پنجابی طالبان' کا اپنے تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے کارروائیاں کرنے کا مقصد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کی بالادستی قبول نہیں کرتے۔


سیکیورٹی کے حوالے سے ایک تجزیہ نگار زرینہ ستی نے پیشن گوئی کی ہے کہ''تحریکِ طالبان پاکستان'' کا پنجابی باب ایک ایسے عزم اور مضبوط ارادے سے کھلے گا کہ بیت اللہ محسود اور مولوی فض اللہ جیسے قد آور اشخاص ان کے سامنے بونے نظر آنے لگیں گے۔ اور یہ تبدیلی پاکستان کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگی کیوں کہ پنجاب نہ صرف گنجان آبادی والا ترقی یافتہ صوبہ ہے بلکہ فوج کے ہیڈ کوارٹرز اور ایٹمی اثاثے بھی یہاں موجود ہیں۔ مزید برآں پاکستان آرمی کا ایک بڑا حصہ بھی اسی صوبے سے تعلق رکھتا ہے اگر کبھی''سول وار'' جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا اور قانون کی عمل داری کے لیے فوج طلب کی گئی تو اس طرح فوج میں ڈسپلن کے کئی سنجیدہ مسائل جنم لے سکتے ہیں اس لیے ایسے منفی خیالات کا حقیقت کا روپ دھارنے سے پہلے مناسب تدارک کرنا ہوگا تاکہ انتہا پسند اپنے تخریبی ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکیں۔