working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پاکستانی پڑھے لکھے نوجوانوں میں شدت پسندی کا رجحان
صبا نور
صبا نور پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹدیز سے وابستہ ہیں۔ اس سے قبل آپ انہی صفحات پر ان کا ایک تحقیقی مضمون ''پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے ارتقائی جائزہ'' ملاحظہ کر چکے ہیں۔ اس بار انہوں نے پاکستان کے نوجوانوں میں شدت پسندی کی سطح کا جائزہ لیا ہے اور اس مقصد کے لیے انہوں نے قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کا انتخاب کیا، جو ملک کے مختلف علاقوں اور مختلف سماجی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں۔ چنانچہ ان کے اس مطالعے کو ایک نمونے کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ ہمارے نوجوان مختلف اہم مسائل پر کیا سوچتے ہیں؟ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپ کو اس کا جواب مل جاتا ہے۔ (مدیر)
پاکستان میں شدت پسندی، ایک لمبی تاریخ رکھتی ہے۔ جو کہ ہمارے معاشرے کی مختلف سطحوں میں پھیل چکی ہے ۔ حالیہ دور میں شدت پسندی ، پاکستان میں سب سے زیادہ موضوع بحث ہے۔ پاکستانی نوجوانوں میں شدت پسندی کے رجحانات کو جانچنے اور پرکھنے کے لیے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز اور قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد نے مشترکہ طور پر ایک سٹڈی کا انعقاد کیا ۔ اس ریسرچ سٹڈی کے لیے ایک سروے پروگرام ترتیب دیا گیا جس کے ذریعے پاکستانی نوجوانوں میں شدت پسندی کے رُجحانات ، اُن کے پس منظر عناصر کو جانچنے کی کوشش کی گئی۔

اس سٹڈی میں قائداعظم یونیورسٹی کے، تمام طلباء و طالبات ، بشمول بنیادی سائنس اور سوشل سائنس سے سروے فارم مکمل کرائے گئے۔ یہ سروے 70طلباء اور طالبات پر مبنی تھا جن کی عمریں 20سے 35سال کے درمیان تھیں۔ اِن تمام طلباء اور طالبات کو ہر سوال کے مخصوص آپشنز دیے گئے۔اِس سروے میں تقریباً35لڑکے اور 35لڑکیوں نے حصہ. لیا۔ جس میں سے 29%کا تعلق دیہات سے تھا جبکہ71%کا تعلق شہروں سے تھا۔ اِس سروے سے حاصل ہونے والے نتائج کو دوسرے تعلیمی اداروں سے حاصل ہونے والے نتائج کے ساتھ موازنہ کر کے مزید مطالعہ اور نتائج برآمد کیے جاسکتے ہیں۔تاہم سروے میں شامل کچھ سوالوں کی فیصد 100سے کم ہے کیوں کہ ایسی عبارتوں کو جوابات میں شامل نہیں کیا گیا جو کہ فقروں کی صورت میں حاصل ہوئیں۔سروے کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ شہروں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ز یادہ آزاد خیال ہیں۔ اور گائوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی نسبت شہروں کے نوجوانوں میں خواتین کے معاشرے میں کردار پر خیالات بنیادی رویوں سے مختلف نظر آتے ہیں۔ تاہم تمام نوجوانوں کے نزدیک خواتین اور مردوں کی حیثیت برابر ہے۔

تاہم سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ شہروں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ، دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی نسبت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ معاشرے میں تبدیلی لائی جائے۔ مزید برآں مذہبی اور ثقافتی شدت پسندی کا تناسب دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں میں زیادہ دیکھاگیا۔جواب دہند گان نے حقوق العباد کو پورے طریقے سے نبھانے پر زور دیا اور اس بات کی تائید کی کہ حقوق اللہ کو پورے کرنے پر حقوق العباد پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیے۔

60فیصد نوجوانوں کے خیال میں افغانستان کی موجودہ صورتِ حال سیاسی وجوہات کے باعث ہے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جبکہ 23فیصد نوجوانوں نے افغانستان کی صورتِ حال کو قبائلی جھگڑوں کا نام دیا۔
1
سروے سے اِس بات کی بھی وضاحت حاصل ہو ئی کہ 20%نوجوان مغربی لباس پہننا پسند کرتے ہیں،44%پاکستانی لباس کو اہمیت دیتے ہیں جب کہ 36فیصد دونوں طرح کے لباس کو پہننا پسند کرتے ہیں۔

اُن نوجوانوں سے، جنہوں نے پاکستانی لباس کو اہمیت دی اور اپنی پسند قرار دیا، اُن سے پاکستانی لباس پہننے کی وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ23فیصد پاکستانی لباس اِس لیے پہننا پسند کرتے ہیں کیوں کہ وہ ثقافت اور روایات کا ضامن ہے،29فیصد نے کہا کہ وہ اِس لباس میں سکون اور آرام محسوس کرتے ہیں، صرف13فیصد نوجوانوں نے مذہبی وجوہات کی بنا پر اِ س لباس کو منتخب کیا جب کہ 10فیصد نے اِس کو پسند کرنے کی وجہ مذہب اور ثقافت دونوں کو ٹھہرایا۔ مزید 25فیصد نوجوانوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ پاکستانی لباس کسی خاص وجہ سے نہیں پہنتے۔59فیصد نوجوانوں نے اِس بات کی تائید کہ لباس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے جب کہ 29فی صد نے اِس کا مذہب سے تعلق ظاہر کیا۔ تاہم 1فیصد نوجوانوں کے نزدیک لڑکیوں کے لیے لباس کا انتخاب مذہب سے تعلق رکھتا ہے جب کہ لڑکیوں کے لیے اِس کی اہمیت نہیں ہے۔63فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ مغربی لباس ہمیں مذہب سے دور نہیں کرتا، جب کہ 24فی صد نوجوانوں کے نزدیک مغربی لباس کو اگر پہناجائے تو یہ ہمیں مذہب سے دور کر سکتا ہے۔ تاہم 11فی صد نوجوانوں نے اِس سوال کا جواب دینے سے انکار کیا۔

جواب دہندگان کی بڑی تعداد 90فی صد نے اِس بات کا اظہار کیا کہ وہ تفریحی مقاصد سکون اور شغل کے لیے میوزک کو سننا پسند کرتے ہیں ۔ جب کہ 10فی صد نوجوان مذہبی وجوہات کی بنا پر میوزک نہیں سنتے۔ 59فی صد نوجوانوں نے اس بات کی تائید کی کہ مذہبی بنیاد پر اگر گانے گانا چھوڑ دیا جائے تو اِس کو حوصلہ افزا تصور کیا جانا چاہیے۔

سروے میں حصہ لینے والے نوجوانوں نے مرد اور خواتین کو برابر کہا۔87فی صد نوجوانوں نے لڑکیوں کی تعلیم کو نہایت اہم گردانا جب کہ 10فی صد نوجوانوں نے اس کو غیر اہم قرار دیا۔

ایک سوال کے جواب میں کہ خواتین کو گھر سے باہر کام کرنا چاہیے؟ 63فی صد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ خواتین کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ گھر سے باہر جا کر کام کر سکیں۔ 60فی صد نوجوانوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ خواتین کو طلاق دینے کا حق حاصل ہونا چاہیے جب کہ 30فی صد نوجوانوں نے خواتین کے اِس حق سے مخالفت کا اظہار کیا۔

مذہبی تعلیم کو ہمارے ہاں بہت اہمیت حاصل ہے۔ اور اس پر بہت زور بھی دیا جاتا ہے مگر سروے کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ 20فی صد نوجوانوں نے بنیادی مذہبی تعلیم والدین سے حاصل کی، 27فی صد نے (Table-2میں دیے) آپشنز میں دیے گئے تمام ذرائع سے حاصل کی۔17فی صد نے سکول اور والدین سے حاصل کی،7فی صد نے سکول سے 6فی صد نے مسجدوں سے ،6فیصد نے والدین، مساجد اور سکولوں سے اور 3فی صد نے مدارس سے۔ زیادہ تر جواب دہند گان کا خیال تھا کہ مولانا اور مدارس مذہب کو فرقہ ورانہ مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور مدارس سے حاصل ہونے والی تعلیم کسی خاص اور مخصوص فرقے کو سامنے رکھ کر ہی دی جاتی ہے جس سے اس کی تعلیمی وسعت میں کمی واقع ہوتی ہے۔

ملک میں مذہبی جماعتوں کی حکمرانی سے متعلق 23فی صد نوجوانوں کا خیال تھا مذہبی جماعتوں کو حکمرانی کا موقع ملنا چاہیے جب کہ 58فی صد نوجوانوں نے اس کی مخالفت کی۔

اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے66فی صد نوجوانوں نے اس بات کی نشان دہی کی کہ ملک میں سکالرز اودانشوراسلام کی صحیح معنوں میں خدمت کر رہے ہیں ۔ جبکہ 6فی صد کے نزدیک مولوی اسلام کی صحیح خدمت میں مصروف ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے اس Tableکو دیکھا جاسکتا ہے۔

پاکستانی معاشرے میں اسلام کی صحیح معنوں میں خدمت کون کر رہا ہے؟

2

خواتین کا پردہ کرنا اور اس کی نوعیت پر نوجوانوں نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ مذہبی ذمہ داری ہے تاہم 33فی صد نوجوانوں کا خیال تھا اس کو حالات کے مطابق کیا جانا چاہیے( جہاں ضرورت ہو)۔16فی صد نوجوانوں نے اس کو ذاتی مرضی قرار دیا جبکہ 4فی صد نے اس کو غیر ضروری قرار دیا۔

مسلمانوں کی دنیا میں آگے نہ بڑھنے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے نوجوانوں نے اِس بات کی تائید کہ کہ بہت سی وجوہات ایسی ہیں جو مل کر مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ لیکن سب سے اہم وجوہات قرآن و سنت سے دوری ہیں۔11فی صد نوجوانوں نے اس کی ذمہ داری سائنس اور ٹیکنا لوجی کی تعلیمی کمی کو قرار دیا، جب کہ 6فی صد نے مغربی دنیا کو مورد الزام ٹھہرایا جنہوں نے مسلمان ممالک کی معیشت پر قبضہ کر رکھا ہے۔2فی صد نے جہاد کو ایک وجہ بتایا۔ جب کہ 10فی صد نے باہمی طور پر سائنس اور ٹیکنا لوجی سے لا پرواہی اور قرآن و سنت سے دوری کو وجہ بتایا ۔ 3فی صد نوجوانوں کے خیال میں غلط قسم کے مذہبی خیالات اس کی ایک وجہ ہیں اور 31فی صد کے خیال میں اوپر بیان کی گئی تمام باتیں مشترکہ طور پر اس کی ذمہ دار ہیں۔
اکتالیس فی صد طالب علموں کا خیال تھا کہ ایک شخص ایک اچھا مسلمان ہو سکتا ہے اگرچہ وہ پانچ وقت کی نماز باقاعدگی سے نہ پڑھے اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھے۔

ستانوے فی صد نوجوانوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمارے معاشرے میں شادیوں کے لیے ضروری ہے کہ دونوں فریق کا تعلق ایک ہی مذہب سے ہو جبکہ 17فی صد نے اس بات کو غیر اہم قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ دونوں افراد ایک ہی مذہب کے ماننے والے ہوں۔

ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی فرقہ ورانہ سوچ پر رائے کا اظہار کرتے ہوئے 33فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ دیو بندی ، بریلوی ، شیعہ اور اہل حدیث فقے، تشریحات میں اختلافات ہیں۔ جب کہ 17فی صد کے نزدیک یہ بنیادی مذہبی فرق ہے،9فی صد کے نزدیک یہ سیاسی جھگڑوں کے نتائج میں جب کہ 33فی صد نوجوانوں کے مطابق یہ رائے میں پائے جانے والے اختلافات ہیں۔

ستائیس فی صد نوجوان مذہبی فرقوں کو قدرتی فرق تصور کرتے ہیں،24فی صد کا خیال ہے کہ یہ مذہبی فرق(فرقہ واریت) نقصان دہ ہے اور 26فی صد کے نزدیک یہ جہالت کی پیداوار ہیں۔

اُنتیس(29) فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ جہاد کے معنی ہیں اپنی خواہشات کے خلاف لڑنا۔ 20فی صد کے مطابق جہاد نام ہے ظلم کے خلاف لڑنے کا۔ 19فی صد کے نذدیک جہاد نام ہے اسلام کے دشمنوں کے خلاف لڑنے کا۔7فی صد کے نزدیک جہاد کی اصل روح یہ ہے کہ ظلم اور اپنی خواہشات کے خلاف لڑا جائے۔جہاد کی نوعیت کے بارے میں اظہار کرتے ہوئے51فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا(جن میں 51فی صد لڑکیاں اور49فی صد لڑکے)کہ یہ دفاعی بنیادوں پر لڑنا چاہیے،16فی صد کے نزدیک یہ جارحانہ ہونا چاہیے جب کہ 31فی صد نوجوان اس کے بارے میں کوئی رائے دینے سے قاصر رہے۔چونسٹھ(64) فی صد جواب دہندگان کا خیال تھا کہ شریعت کی نفاذ کی کوشش کرنا بھی ایک جہاد ہے، جب کہ16 فی صد نے اس سے انکار کیا۔ اور 20فی صد نے اس سوال پر کوئی بھی رائے قام کرنے سے انکار کیا۔چونسٹھ(64)فی صد نوجوانوں نے اس بات کی نشان دہی کی کہ جو کوششیں کشمیر میں ہو رہی ہیں بھارت کے خلاف وہ جہاد ہیں جب کہ 16فی صد نے اس کو جہاد قرار دینے سے انکار کیا اور 22فی صد نوجوانوں نے اس سوال پر اپنی رائے دینے سے انکار کیا۔تاہم جہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد نے کشمیر میں جاری کوششوں کو جہاد کا نام دیا وہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد(89فی صد) نے افغانستان میں جاری عسکریت پسندی کو جہاد قرار دینے سے انکار کیا۔

طالبان اور ان کی جاری کی ہوئی جنگ کے بارے میں رائے دیتے ہوئے ۔79فی صد جواب دہندگان کا خیال تھا کہ طالبان اسلام کی جنگ نہیں لڑ رہے جب کہ 17فی صد نے اس کو اسلام کی جنگ قرار دیا۔ جن 17فی صد نوجوانوں نے طالبان کی جنگ کو اسلام کی جنگ قرار دیا طالبان کے حملوں، سینما پر، ریڈیو اور سی ڈی دکانوں پر ، نائی کی دکانوں پر،لڑکیوں کے سکولوں اورکالجوںپر شدید الفاظ میں مذمت کی۔

پاکستان کی''دہشت گردی کے خلاف جنگ''میں شمولیت پر اظہار کرتے ہوئے60فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ جب کہ 26فی صد نے اس کو ایک درست فیصلہ قرار دیا۔

نوجوانوں میں سیاسی عقائد اور اعمال کے بارے میں شدت پسندی کو جانچنے کے لیے کچھ سوالات کیے گئے تاکہ نوجوانوں میں سیاسی اقدار کو دیکھا جائے۔ اور اس بات کو سامنے لایا جائے کہ وہ اپنے ووٹ کاسٹ کرتے ہوئے کس چیز کو اہمیت دیتے ہیں۔تاہم نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ 58فی صد نوجوان نمائندے کی تعلیم اور قابلیت کو دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں23فی صد کا کہنا تھا کہ وہ پارٹی کو دیکھ کر ہی نمائندے کو ووٹ ڈالتے ہیں اور پارٹی سے تعلق کو اہمیت دیتے ہیں۔ 7فی صد برادری کو دیکھ کر ووٹ ڈالتے ہیں۔ جب کہ صرف 6فی صد نوجوان مذہبی بنیادوں پر ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور نمائندہ منتخب کرتے ہیں۔

حدود لاء کے بارے میں جانچنے کے لیے کہ آیا نوجوان اس قانون سے واقف ہیں یا نہیں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں سے حدود لا سے واقفیت پر سوالات کیے گئے جن میں تقریباً53فی صد نوجوانوں نے اس بات کا اظہار کیا گیا کہ وہ اس قانون سے واقف ہیں جب کہ 33فی صد نے اس سے لا علمی ظاہر کی۔ وہ نوجوان جو کہ اس قانون سے واقف تھے اُن میں سے تقریباً60فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ اس کو تبدیل کیا جانا چاہیے جبکہ 28فی صد نے اس میں کوئی بھی تبدیلی کرنے سے باز رہنے پر زور دیا۔

سیاسی عوامل سے وابستگی پر اظہار کرتے ہوئے 49فی صد نوجوانوں کا کہنا تھا کہ وہ سیاسی پارٹیوں سے منسلک ہیں ۔ جبکہ صرف29فی صد نوجوانوں نے تائید کہ کہ وہ مذہبی سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں۔(تاہم مرد جواب دہندگان ،خواتین جواب دہندگان کی نسبت زیادہ شوق سے سیاسی پارٹیوں میں شمولیت لیتے اور کام کرتے پاگئے۔ جیسا کہ 54فی صد لڑکوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ وہ سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھتے ہیں) جبکہ صرف43فی صد لڑکیوں نے سیاسی پارٹیوں سے تعلق کو ظاہر کیا۔لڑکوں کی بیان کردہ شرح تناسب میں سے صرف17فی صد نوجوانوں نے مذہبی ، سیاسی جماعتوں سے تعلق کا اظہار کیا جب کہ 11فی صد لڑکیوں نے مذہبی جماعتوں میں شمولیت کا اظہار کیا۔

نوجوانوں سے سوال کیا گیا کہ موجودہ حالات میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات میں سے وہ کون سا واقعہ ہے جس نے ان پر سب سے زیادہ اثر ڈالا تو 32فی صد نوجوانوں نے لال مسجد پر آپریشن کو قرار دیا، 20فی صد نے سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت قرار دیا۔19 فی صد نے عدلیہ کے بحران کی نشان دہی کی اور 15فی صد نے قبائلی علاقہ جات میں فوجی آپریشن کو سانحہ قرار دیا جبکہ 45فی صد نوجوانوں نے مشترکہ طور رپ اس بات کا اظہار کیا کہ دونوں واقعات (لال مسجد آپریشن اور عدلیہ کا بحران) ایسے واقعات ہیں جنہوں نے ہمیں براہ راست متاثر کیا ہے۔

خلاصہ
تاہم سروے کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی نوجوانوں کی وہ تعداد جن کو اس سروے میں شامل کیا گیا شدت پسند خیالات سے عاری ہے۔ یہ خواتین اور مردوں کو باہم یکساں دیکھتے ہیں اور برابر تصور کرتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات پربھی زور دیتے ہیں کہ طالبان اسلام کے لیے جنگ نہیں کر رہے تاہم نوجوانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان نے ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' میں امریکہ کا ساتھ دینے کا غلط فیصلہ کیا۔

نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مغربی طرز کے ملبوسات پہننے سے کسی فرد کے مذہب کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ نوجوان ملک میں مذہبی پارٹیز کے رول کی مخالفت کرتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں صرف دانشورlاور سکالرز ہیں جو مذہب کی صحیح معنوں میں خدمت کر رہے ہیں۔ نوجوانوں کی بڑی تعداد جو حدود لاء سے آگاہی رکھتی تھی کا خیال تھا کہ اس قانون کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔

نوجوانوں کی محدود تعداد نے اس بات پر اظہار کیا کہ وہ ووٹ ڈالتے ہوئے مذہب کو اہمیت دیتے ہیں ۔ جب کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ مسلمانوں کی ترقی رُک جانے کی سب سے اہم وجوہات قرآن اور سنت سے دوری ہے۔

تاہم نوجوانوں کے نزدیک یہ بات نہایت اہمیت کی حامل ہے کہ شادی بیاہ کے معاملات میں افراد کا ایک ہی مذہب سے تعلق رکھنا ضروری ہے۔

جہاد پر رائے کا اظہار کرتے ہوئے نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اِس کو دفاعی طور پر استعمال کرنے پر زور دیا اور ساتھ ہی شریعت کے نفاذ کی کوششوں کو بھی جہاد کے زمرے میں ڈالا۔ تاہم سروے کے نتائج نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ پاکستانی نوجوانوں کو جس سانحے نے سب سے زیادہ اور براہِ راست اثر ڈالا وہ لال مسجد آپریشن ہے۔