working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پاکستان میں انتہا پسندی کا سماجی اور ثقافتی پسِ منظر
محمد اعظم
آج پاکستان کاشمار ان ملکوں میں کیا جارہا ہے جہاں پر انتہا پسندوں کا اثر و رسوخ روز بروز بڑھ رہا ہے اور دنیا یہ سوچ رہی ہے کہ شاید انتہا پسند،پاکستان پر قابض ہو جائیں گے۔ اس انتہا کے برعکس بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ آج پاکستان کا مستقبل اس بات سے وابستہ ہے کہ وہ انتہا پسندی کو روکنے میں کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔ اگر بات انتہا پسندی کے تدارک کی ہو تو پہلے یہ دیکہنا ضروری ہے کہ انتہا پسندی کے فروغ کا سماجی و تاریخی پس منظر کیا ہے؟ اس حوالے سے یہ تحقیقی مضمون سوچنے اور سمجھنے کے کئی زاویے آشکار کرتا ہے۔(مدیر)

مملکتِ خدادا پاکستان میں آج کل انتہا پسندی کا تذکرہ زبانِ زد عام ہے حکومتی اور قومی سطح پر کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں جہاں اس اہم موضوع پر بحث نہ کی جاری ہو چانچہ اس مضمون میں بھی ان سماجی اور ثقافتی عوامل کی جانچ کی کوشش کی گئی جو کہ موجود ہ دگرگوں حالات کا باعث بنے اس سلسلے میں ماہرین سے رابطہ کر کے ان سولات کے جوابا ت تلاش کرنے کی سعی کی گئی ہے اور اس مقصد کی خاطر تمام ابتدائی اور عمومی وسائل کو بروئے کار لایا گیا ہے تاکہ کوئی پہلو تشنہ طلب نہ رہ جائے ایک بات جو روز ِ روزشن کی طرح عیاں ہے کہ انتہا پسندی کے حوالے سے اس کی بنیادی وجوہات، پسِ پردہ عوامل، طریقہ کار اور محرکات کو جاننے کی خاطر خواہ کوشش نہیں کی گئی آج تک محض روایتی اقدامات سے ہی اشک شوئی کی گئی ہے۔ مشتِ نمونہ از خروا رے کے مصداق جو تحقیقاتی کام سامنے آیا ہے۔ ان میں طارق رحمان، عائشہ جلال، سہیل عباس، سہیل محمود، عامر رانا، شبانہ فیاض اور کرسٹین فیئر کے نام قابلِ ذکر ہیں انہوں نے اس اہم حوالے سے نہ صرف قیمتی معلومات فراہم کی ہیں۔ بلکہ اپنے مخصوص شعبوں سے انصاف کرنے کی حتی المقدور کوشش بھی کی ہے۔ تاہم اس آرٹیکل میں بھی ان تمام سماجی اور ثقافتی پہلووں کو مد ِ نظر رکھ کر ان اہم عوامل پر بحث کی گئی ہے جنہوں نے بنیاد پرستی کے پھیلائو میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پاکستان کے ثقافتی اور سماجی پس منظر میں معاشرے کی ساخت کے حوالے سے صبیحہ حفیظ، عبد القدیر ، صدیق قریشی اور چند دوسرے محقق افراد کا دقیق کام بھی سامنے آیا ہے جس سے استفادہ وقت کی ضرورت ہے۔

طاہر عباس نے مغربی نقطہ نظر سے انتہا پسندی پر اظہار خیال کیا ہے انہوں نے اپنی کتاب ISLAMIC POLITICAL RADICALISMمیں متاثر کن آرٹیکل لکھے ہیں جس میں ان اجزائے ترکیبی پر غور کیا گیا ہے جس سے انتہا پسندی نے نشو ونما پا کر یورپ اور ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ انہوں نے ان بین الاقوامی سیاسی عوامل پر بھی روشنی ڈالی ہے جس نے اسلامی انتہا پسندی کو ہوا دی۔ اسی طرح صبیحہ کا کلاسیکل تحقیقات پر مبنی کام The Changing Pakistan Societyکی کتابی صورت میں سامنے آیا۔ اس کتاب کے مضمون میں سماجی رویوں اور لوک ثقافت کے شعوری عمل دخل سے پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کا مکمل تجزیہ کیا گیا ہے۔ عائشہ جلال نے جنوبی ایشیا کے تناظر میں مذہب ، جہاد اور فرد پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔

دوسری جانب محمود کا تحقیقی کام سامنے آتا ہے جس میں پاکستان، مصر اور ایران کے بنیاد پرستوں کے ڈاندے ملانے کی سعی کی گئی ہے اور پاکستان میں انتہا پسندی کے پس منظر اور مضمرات پر بحث بھی شامل ہے۔ عامر رانا نے بھی اپنے متعدد تحقیقی مقالات میں مذکورہ موضوعات پر خاصا کام کیا ہے۔ خصوصاً''The seeds of Terrorism''اور ''Gatway to Terrorism'' قابلِ ذکر ہیں۔ ان کتابوں میں انتہا پسندی کے پھیلائو، تشخص اور تدارک کے حوالے سے قلم اٹھایا گیا ہے۔ جب کہ Gatwary to Terrorismمیں انتہا پسند گروہوں کے متعلق خاصا معلوماتی مواد شامل کیا ہے۔ان کا حال ہی میں ایک تحقیقی آرٹیکل Jihadi, Print Media in Pakistan'' کی صورت میں بھی منظر عام پر آچکا ہے۔

ادھر حقانی نے جنوبی ایشیاء میں جہادیوں کے مذہبی نظریوں کے تصور کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔ جبکہ حسن عباس کی کتابPakistan's Drift into Extremismملک کے انتہا پسند گروہوں کے نظریوں کا تقابلی جائزہ پیش کرتی ہے خصوصاً9/11کے اثرات پر فکری کام سامنے آیا ہے۔ کرسٹین فیئر نے بھی اپنی رپورتاژ میں پاکستان میں سماجی اور ثقافتی قدروں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے انتہا پسندی پر خاصی گہرائی سے جائزہ لیا ہے اس نے اپنا تحقیقی کام Who are Pakistan Militant of their Familyکی شکل میں شائع کیا ہے اس کے علاوہ Militant Recritment in Pakistan: Implications for Al Qaeda & Other Organizations''میں بھی اس نے نہایت مہارت سے بنیاد پرستی اور اس کے ظہور اور پاکستان میں اس کے مختلف روابط پر فکری کام انجام دیا ہے۔

کاوُل نے بھی''Role of religion in politics:Impact on the civil and Military Socity of Pakistan"میں سول اور آرمی کے حلقوں میں اسلامی انتہا پسندی کے اثرات پر کافی مواد زیبِ قلم و قرطاس کیا ہے۔ رائے نے بھی اپنی کتابThe Failure of Political Islamمیں مسلم دنیا میں انتہا پسندی اور ان کے مختلف گروپوں کی مشرقِ وسطیٰ میں سرگرمیوں سے پردہ کشائی کی ہے۔ اور پاکستان میں ان کے روابط کا انکشاف کیا ہے۔ اِس حوالے سے سِٹرن نے تحقیقی مواد پر مبنی اپنی کتاب'Religious Militants kill,terror in the name of God' میں اس اہم موضوع پر حیرت انگیز تحقیقات کی ہیں۔ وہ پاکستان میں مذہبی مدرسوں میں سروے مرتب کرتی رہی ہے۔ مزید برآں ڈیوس نے پاکستان اور افغانستان کے تعلیمی نظام میں ان عوامل کی نشان دہی کی ہے جو انتہا پسندی کو ہوا دینے کا موجب بنے۔

چٹ کارا نے''Combating Terrorism'' میں بھی پاکستان میں بنیاد پر ستی پر اپنا نقطۂ نظر پیش کیا ہے۔ اس نے کئی انتہا پسند تنظیموں پر بھی بحث کی ہے۔ بے نظیر بھٹو بھی اپنی کتاب Reconciliationمیں پاکستان میں انتہا پسندوں کی سرگرمیوں اور ان کے بین الاقوامی روابط پر خاصی بحث اور تقاریر کر چکی ہے''Between Moderation & Radicalization'' نامی آرٹیکل میں احمد نے ہندوستان میں جماعتِ اسلامی اور انتہا پسندی پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ ڈائیر اور دوسرے احباب نے مل کر Countering Violent Islamic Extremism: A Community Responsibility''نے اپنے مشہور آرٹیکل انتہا پسندی اور اُس کے چار درجات یعنی انتہا پسندی کی ابتدا، اس کی تشخیص ، پہچان اور عملی اقدامات پر درجہ بدرجہ مکمل کی ہے۔ صفیہ آفتاب نے بھی غربت اور انتہا پسندی کے درمیان گہرے روابط تلاش کیے ہیں۔

ادھر ماہرین، ثقافت و عمرانیت کلوفورڈ گریٹذ اور ڈیوڈ شینائیڈر کی رائے میں ثقافتی نظام کا سماجی قدروں سے ہٹ کر تجزیہ کرنا چاہیے۔ جب کہ عملی طور پر ان دونوں کے درمیان حد فاصل قائم کرنا مشکل ہے۔

سماجی اور ثقافتی حقائق کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جس میں پہلی قسم گھریلو ماحول اور گھریلو ثقافت ہے جبکہ عالمی معاشرہ اور اس کی ثقافت دوسری قسم میں آتا ہے اور دوسری قسم پاکستانی معاشرے سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے۔

گو کہ یہ تمام عوامل فطری ہیں مگر اس دستاویز میں دوسرے کئی عناصر یعنی سیاسی، اقتصادی، مذہبی، نفسیاتی، تعلیمی اور تخیلاتی عوامل سے پہلو تہی برتی گئی ہے حالانکہ یہ مضامین ایک دوسرے کے ساتھ گہرے مربوط ہیں۔''معاشرہ اور ثقافت'' ، سیاسی ، اقتصادی اور مذہبی بندھنوں میں رچے بسے ہوتے ہیں۔ کیونکہ سماجی قدریں ہی معاشرے کی سمت متعین کرتی ہیں۔

جب سے معاشرے میں بنیاد پرستی نے نفوذ کیا ہے باقی عوامل بھی سماجی و ثقافتی قدروں میں اپنا رنگ جمانے لگے ہیں۔ مثلاً انتہا پسندانہ لٹریچر ، اخبارات، جرائداور سیاسی و سماجی تقاریب بھی خبروں کا باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں۔کال ہائون نے انتہا پسندی کی ایک موزوں تعریف کی ہے اس کے بقول بنیادی اور انتہائی سیاسی چیلنجز ہی نظم و ضبط کے فقدان کا باعث ہیں اور اس کے لیے انتہا پسندی کا لفظ غیر موزوں ہے تاہم دانشوروں نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مختلف تناظر میں بھی تجزیہ کیا ہے اور کچھ لوگوں نے انہیں باہمی طور پر ایک ہی موضوع سمجھا ہے۔ کچھ عناصر بنیاد پرستی کوسیاسی دہشت گردی کا نام دیتے ہیں۔ جو کہ بالکل ہی مناسب نہیں ہے کیونکہ انتہا پسندی اپنا مخصوص پس منظر رکھتی ہے انتھونی کے بقول انتہا پسندی کو محض منفی طور پر چسپاں کرنے کے لیے بعض گروپ اسے اپنے نام کے ساتھ لگا لیتے ہیں۔ تاہم دونوں نظریوں کے درمیان بحث و تمخیص چلتی رہی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب بھی نہیں کہ بنیاد پرست کبھی انتہا پسند یا دہشت گرد نہیں ہوسکتے۔

انتہا پسند اپنے آپ کو کبھی انتہا پسند نہیں کہتے لیکن بنیاد پرست بسا اوقات اپنے آپ کو بنیاد پرست کہلوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اس تناظر میں فلاہیرٹی نے بنیاد پرست گروہوں اور ان کی تحریکوں کے حوالے سے مندرجہ ذیل مخصوص نکات وضع کیے ہیں۔
(الف) یہ محض خام خیالی ہے کہ انتہا پسندی ناقابلِ عمل نظریہ ہے۔
(ب) دنیا کا وجود تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔
(پ) افہام و تفہیم اور طاقت کے توازن کا نظریہ مسترد ہو چکا ہے۔
(ت) دنیا کے لیے ایک نئے سماجی لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔
(ٹ) ختم ہونے سے ہی وسائل کا آغاز ہوتا ہے۔
(ث) بے صبری اور عجلت کی احساس بھی ایک حقیقت ہے۔
(ج) نقصِ امن کے لیے نئی تبدیلیاں متعارف کرانے سے لوگوں میں جوش و خروش
پیدا ہوتا ہے۔

ثقافت معنوی اعتبار سے ایک وسیع پس منظر رکھتی ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک ثقافت ایسے اصولوں کا مرقع ہے جو انسانی رویوں کو سمجھنے سے وجود میں آتا ہے۔ جبکہ ہیچ کے الفاظ میں مروجہ رسم و رواج کی سوچ اور عادات ، عقائد ، کردار کی حکومت، سیاسی تنظیم، اقتصادی سرگرمیاں اور اس کے دیگر خصائل جو کہ ایک نسل سے دوسری کی جانب تعلیم کی صورت میں منتقل ہوتے ہیں اور یہ نظریات مورثی علم الحیات کے مرہونِ منت نہیں۔ ثقافت کا یہ مطلب بھی لیا جاتا ہے کہ ایسے رواج اور عقائد، آرٹ، زندگی کا طریق اور سماجی تنظیم جو کسی خاص ملک یا کسی گروہ کے ساتھ منسلک ہو خالد کی رائے میں کلچر لوگوں کی فنی قابلیت کا نام ہے۔ اور ہم اسے اپنی زبان میں ثقافت کہتے ہیں۔ یہ دراصل ایک ایسا تعمیری طریقہ کار ہے جو معاشرے کو محفوظ کرتا ہے۔ کلچر کو استعاروں کا نظام بھی کہا گیا ہے۔ اور معاشرہ لوگو ں کی اس مخصوص قومیت کا نام ہے جو کہ رسوم و رواج اور قوانین وغیرہ کا مجموعہ ہو جبکہ سماجی اقدار معاشرے سے اپنی تنظیمی بُنت کے اعتبار سے جڑی ہوں عمرانیات کی رُو سے کلچر سے روایات جنم لیتی ہیں اور لوگوں کے رویوں کا خیال اُجاگر ہوتا ہے۔ جبکہ انفرادی طور پر شخصی رویہ معاشرے میں موجود قوانین اور رسم و رواج ، قدروں اور امن وامان کے میکانکی نظام سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ایک اور رائے بھی موجود ہے اور اس پر کافی حد تک اجتماع بھی پایا گیا ہے کہ معاشرہ اور ثقافت رویوں اور عادات کو جنم دیتے ہیں۔ یہ تمام نکات اس لیے زیر بحث لائے گئے ہیں کہ کہیں یہ عوامل انتہا پسندی کی جانب راہنمائی کرنے میں ممد و معاون تو نہیں…؟ اور اگر اس کا جواب اثبات میں ہوا تو پھر یہ کس حد تک کارگر ہیں کیا یہ ابتدائی عوامل ہیں یا ان کی نوعیت محض ثانوی ہے۔

جب تمام معاشرہ ایک طرف ہو اور انتہا پسند دوسری جانب تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سماجی ثقافتی رویوں کی لہر ، اقدار اور عادات انتہا پسندی کے براہ راست وجوہات میں شامل نہیں۔اور ملک میں نظر آنے والے انتہا پسندی کے عوامل کہیں اور پوشیدہ ہیں تاہم معاشرتی ڈھانچے اور ثقافت کو کُلی طور پر بری الذمہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے سماجی اور ثقافتی عوامل کو ہی محض اس بحث میں سر فہرست نہیں سمجھنا چاہیے۔ تاہم ان کا جتنا کردار رہا ہے وہ ضرور لمحۂ فکریہ ہے۔

کچھ لوگوں کی رائے میں جہاں ساختی حدود و قیود، محرومیاں ،سماجی ڈھانچہ اور اس میں توڑ پھوڑاور ناکافی تعلیمی سہولیات ہوں وہ انتہا پسندی کے لیے زرخیز خطے تصور ہوتے ہیں۔ اور اس معاملے میں رچرڈ سن کے اس نظریے سے اتفاق پایا جاتا ہے کہ سماجی، اقتصادی اور ثقافتی عوامل ہی ایسی پوشیدہ اکائیاں ہیں جو کہ کسی بھی معاشرے میں بنیادی محرک کا باعث بنتی ہیں لیکن اس کا یہ کہنا کہ کسی معاشرے میں دہشت گردوں کا وجود اس کی اپنی سطح کے مطابق ہوتا ہے اس سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔ ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا معاشرے اور ان کی ثقافتی سرگرمیاں دہشت گردی کی خاطر انتہا پسند عوامل کے لیے پرکشش ماحول فراہم کرتی ہیں…؟یہ ایک پختہ حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ اور جدید معاشرے جن میں امریکہ اور برطانیہ بھی شامل ہیں کے افراد کی سطح پر یا مختلف گروہوں میں انتہا پسندی کے نظریات اور طریقۂ کار نے فروغ پایا ہے۔ کُوپر کے نکتہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے کئی مصنفین خیال کرتے ہیں کہ دراصل ثقافت ہی انتہا پسندی کے لیے بنیادی تبدیلی کا باعث بنتی تو لوگوں کی اکثریت انتہا پسند بن چکی ہوتی۔

پاکستان کا ثقافتی اور سماجی ڈھانچہ تبدیلیوں کے عمل سے گزررہا ہے مختلف اقسام کے سماجی بہائو آگے بڑھ رہے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے کی سمت منفی ہے اور نہایت کم شرح میں مثبت اقدار کا فروغ دیکھنے میں آیا ہے۔ تبدیلی کا جھکائو انتہا پسندی کی جانب زیادہ ہے۔ اور پرامن سماجی و ثقافتی پیش رفت نہایت قلیل ہے۔ پچھلی چند دہائیوں سے انتہا پسندی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ رحمان کی رائے میں پوری دنیا تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے۔ چنانچہ ہمارا معاشرہ بھی تیزی سے تبدیلی کی جانب گامزن ہے اور انتہا پسندی کا یہ بھی ایک اہم سبب ہے۔

جاوید کا خیال ہے کہ تاریخی اعتبار سے اس خطے کا موسم بہت معتدل ہے اور پچھلی ہزاری میں مسلمان مصنفین صوفیاء نے معتدل لٹریچر لکھا ان میں خاص طور پر گیارویں صدی عیسوی میں علی ہجویری اور ان کی طرح دوسرے کئی صوفیا نے جدید خیالات اور تصورات میں محبت اور امن برائے انسانیت کا پیغام روشناس کرایا۔ جاوید کے بقول1960اور1970کی دہائیوں کے بعد حالات نے پلٹا کھایا۔ انتہا پسندی اور شدت پسندی پوری طاقت کے ساتھ ابھرنے لگی۔ وہ موجودہ سماجی اور ثقافتی تبدیلیوں کے متعلق رقم طراز ہے:
''مدرسوں نے خانقاہوں کی جگہ لے لی اور پاکستانی ثقافت نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی اور اس کا منطقی نتیجہ کلچر کے خاتمے پر منتج ہوا1990کی دہائی میں اس وقت ایک بڑی تبدیلی آئی جب عوام الناس نے حقیقی طور پر گھٹن کے ماحول میں تبدیلی کو محسوس کیا اور یہ تبدیلی''طالبان'' کے نام پر عمل میں لائی گئی۔''
پاکستان میں سماجی تبدیلیوں کی بازگشت سے چار اقسام کے تنازعات سامنے آئے ہیں۔
1۔ ثقافت اور تخیلاتی تبدیلی
2۔ علاقائی اور قومی کلچر میں تفاوت
3۔ اقتصادی ترقی اور کلچر کا فروغ
4۔ اسلامی خیالات اور جدت پسندی میں ٹکرائو

کِمپ کے خیال میں پاکستان کے پختون قبائلی علاقوں اور افغانستان میں انتہا پسندی میں جو اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس کی بنیادی وجہ قبائل میں نااتفاقی اور حکومتی ڈھانچے کی کمزوریاں ہیں جس کی وجہ سے بیرونی قدامت پرست عوامل کو اپنے قدم مضبوط کرنے کا موقع ملا۔ حالانکہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو پاکستان کے مذکورہ بالا علاقوں کے قبائلی ڈھانچے میں کسی قسم کی دراڑیں نظر نہیں آتیں بلکہ حقائق اس کے الٹ ہیں انتہا پسندوں نے قبائلی علاقوں کے نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔

یہ فرض کیا جاتا ہے کہ سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں کے نتیجے میں انسانی رویوں میں مختلف اقسام کی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ انتہا پسندوں کی اکثریت سماجی کاموں میں کم ہی ہاتھ بٹاتی ہے یہ لوگ بس اپنے آپ کو متحرک رکھتے ہیں۔ کم ثقافتی سمجھ بوجھ والے حضرات ہی انتہا پسندی کے لیے موزوں خیال کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ انتہا پسند طبقہ ایسے افراد کا مجموعہ ہوتا ہے جو کسی سماجی بھٹی سے نہیں گذرتے۔ یہ لوگ سماج کے دیگر لوگوں کے ساتھ معاشرتی طور پر کٹے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی سرگرمیوں کا محور اور دلچسپیاں بھی جدا ہوتی ہیںبلکہ عملی طور پر یہ پہلے سے موجود سیاسی اور سماجی ڈھانچے کے برعکس نظریات کے حامی ہوتے ہیں جب کہ آئینی طور پر ایسا کوئی جواز نہیں جو ان کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے مددگار ہو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سماجی اصولوں کی خلاف ورزی کا ارتکاب کرتے ہیں ایک سابق رُکن سینٹ ثناء اللہ بلوچ کا بھی نئے سماجی کنٹریکٹ کے حوالے سے ایک نظریہ سامنے آیا ہے۔

ان گروہوں کے سرگرم عمل ہونے سے پتا چلتا ہے کہ ملک کا سماجی سفر روز بہ روز مشکلات سے دوچار ہوتاجارہا ہے۔ہمارے سماجی طریقہ کار میں کمزوریاں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ انتہا پسندی اور تشدد کا عنصر غالب آرہا ہے۔ خاندان بچوں کے نشو ونما کے حوالے سے اہم رول ادا کرتے ہیں جبکہ والدین اپنی اولاد کے معاملے میں لاپرواہ ہو چکے ہیں۔ بچوں کی تربیت اس وقت تک نامکمل ہوتی ہے جب تک اس کی نفسیاتی ضرورتوں کو پورا نہ کیا جائے اس طرح وہ والدین کی قرار واقعی محبت اور توجہ سے محروم رہتے ہیں اور شروع سے ہی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ والدین کم عمری میں بچوں کو نرسری اسکولوں میں داخل کرا دیتے ہیں اس طرح وہ والدین کی ضروری محبت اور بھرپور توجہ سے عاری ہو جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں یہ عوامل متشدد رویوں اور تخریبی عادات کی بنیاد کا باعث بنتے ہیں چنانچہ ہمارا سماجی ڈھانچہ اور اس کی ترقی کی شرح میکانکی طاقت کے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔ گھریلو تنازعات سماجی ترقی کو غلط سمتوں میں دھکیل کر لے گئے ہیں۔ خاندان ایک معاشرے کی چھوٹی اکائی ہوتی ہے اور گھر کا ماحول سماجی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انتہا پسند، سماجی طور پر غربت زدہ یا پھر بالکل اس کے بالکل الٹ لوگ ہوتے ہیں حالانکہ یہ بات درست نہیں ۔ اس میں سے زیادہ تر انتہا پسند مہذب خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور انہُوں نے سماجی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں نااہلی کا ثبوت دیا۔
پارسن کے بقول سماجی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے چار اجزا کی ضرور ت ہے۔
1۔ اختیارات کی تشریح
2۔ مقاصد کی تکمیل
3۔ سا لمیت کا تقاضا
4۔ کچھائو کا سدِ باب
وہ مزید کہتا ہے۔
''شکستہ ڈھانچے کی کامیابی کا راز ایسے ارتقائی عمل میں پوشیدہ ہے جہاں خط حرکت کا رُخ اوپر کی سمت ہو او ر آبادی کو تعمیری عامل سمجھا جائے اور لوگ بھی اپنے آپ کو جواب دہ سمجھیں اور سرگرمیوں کے پھیلائو کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔''

پاکستان جیسے ملک کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اسے شروع سے ہی اپنی درست سمت کے تعین میں مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ایک محبت وطن کی تشریح کا معیار خاصے ابہام کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے معاشرتی اداروں میں بنیادی حقوق اور تحفظ کو منوانے کا فقدان ہے چند ایک سماجی اور سیاسی ڈھانچے اور ادارے کسی نہ کسی طرح انتہا پسندی کے نظریات اور سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں مثلاً پاکستانی ذرائع ابلاغ اور دوسرے ادارے دانستہ اور نادانستہ طورسے منفی پروپیگنڈے کا حصہ رہے ہیں جس سے شدت پسندی کو ابھرنے میں مدد ملی ہے۔

ذرائع ابلاغ ہی ایسا طاقت ور آلہ ہے جو کسی معاشرے کے سماجی طریقہ واردات میں رنگ بھرتا ہے۔ یہاں سے ایسے نظریات کو فروغ حاصل ہوتا ہے جو کہ ناظرین اور قارئین میں نرم گوشے یا شدت پسندانہ رویوں کا اُبھار سکتے ہیں۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے ہمیشہ سے ایک محرک اور عامل کا کردار ادا کیا ہے جس سے انتہا پسندی کو پھلنے پھولنے میں مدد ملی ہے۔ ذرائع ابلاغ ہی ایسی مشینری تھی جس نے9/11کے بعد تشدد آمیز واقعات کو بھڑکایا اور جلتی پر تیل کا کام کیا۔ کچھ عناصر کا یہ بھی خیال ہے کہ میڈیا نے سماجی اور ثقافتی تبدیلی اور خبروں کو عام لوگوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عبد القدیر کی رائے میں ثقافتی تبدیلی کے اثرات کچھ یوں ہیں۔

''ریڈیو ، ٹیلی ویژن ، ویڈیو اور ٹیلی فون کے متعارف ہونے سے دو سمتی راستوں کا وجود عمل میں آیا ہے دوسری قوموں کے نظریات جن پر وہ لوگ عمل پیرا ہیں کو اپنے طور پر دریافت کیا گیا ہے اور ان کی نظروں میں اچھا بننے کے لیے ان پر عمل پیرا ہونے کی کوشش بھی کی گئی ہے اس سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ پاکستانی معاشرہ نئے ذرائع سے فوراً متاثر ہوتا ہے اور جو پیغام بیرونی واسطوں سے ملتاہے بے چون و چرا اس پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔''

ہمارا معاشرہ سماجی اقدار میں عجیب و غریب نمونہ پیش کرتا ہے۔ کسی کو مارنا یا قتل کرنا اعلیٰ حوصلگی کا مقام سمجھا جاتا ہے اور ذرائع ابلاغ بھی ایسے واقعات کا خوب چرچا کرتے ہیں جن سے ان عناصر کی حوسلہ افزائی ہوتی ہے۔ آئی۔ اے رحمن کے بقول خاص طور پر اردو ذرائع ابلاغ نے پاکستان میں انتہا پسندی کو بڑھانے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ انگریزی میڈیا کا شمار اس کے بعد آتا ہے۔

حقیقی جمہوریت حاصل کرنے کے لیے ایک ایسی ثقافت کا فروغ ضروری ہے جس سے ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم پر شخصی آزادی ، پریس اور مذہبی آزادی کا خیال رکھا جائے۔ لیکن پاکستان میں پریس دیگر ترقی یافتہ جمہوری ممالک کی طرح مکمل آزادی سے ابھی خاصا دور ہے شاید اس کی وجہ سے بھی معاشرہ گھٹن کا شکار چلا آتا ہے۔

پاکستان کا نظامِ تعلیم بھی ابھی تک وہ کردار ادا کرنے میں ناکام رہا ہے جس سے عوام میں قرار واقعی سماجی اور ثقافتی رویے فروغ پا سکیں۔ اور ترقی پسند موضوعات پر رائج شدہ نصاب بالکل ہی خاموش ہے۔ ہماری روایتی ثقافت اور تاریخ ،سماجی قدریں، رویے اور عادات ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوتے جارہے ہیں۔ مثلاً ہماری لو ک ثقافت کو ہی لے لیجیے عوام الناس اس کے متعلق نہایت قلیل علم رکھتے ہیں بلکہ کئی اکیڈمیاں تو ان کے وجود سے ہی بے بہرہ ہیں۔

پاکستانی لوک ثقافت کو انتہا پسندی کا متضاد کہا جاسکتا ہے ۔ کیوں کہ اس میں شدت پسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں اگر اسلام آباد میں نیچرل ہسٹری میوزیم میں جا کر دیکھا جائے تو مذکورہ مفروضے کی تصدیق ہو سکتی ہے یہاں پاکستان کی ثقافت کو اجاگر کرنے کے لیے خاصا کام کیا گیا ہے اس عجائب گھر کا ایک گوشہ ایسی نایاب کتب کے لیے مختص ہے جہاں انمول ثقافتی تحریریں محفوظ ہیں۔ اور یہ نمونے ہر قسم کی پیار اور محبت کے لٹریچر سے معمور ہیں یہ تجویز بھی ہے کہ لوک ورثہ کو سماجی مکانیت کو کنٹرل کرنے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ صبیحہ کی رائے میں قومی ورثہ ایک ایسا آلہ ہے جو تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے۔ اس سے بخوبی یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ لوک ورثہ کی تعلیم اور علم پڑھنے اور پڑھانے سے انتہا پسندی کا قلع قمع ممکن ہے۔

لوک ورثہ معاشرے کی قدروں اور رنگینیوں کا آئینہ ہوتا ہے اور معاشرے کی جمالیاتی حس اس کی نبض ہے۔ صبیحہ کی رائے میں لوک ورثے کو تعلیمی اداروں میں بطور آزاد مضمون بھی پڑھانا چاہیے۔ کیوں کہ یہ نسلوں کے درمیان''جنریشن گیپ'' کم کرتا ہے اور نوجوان لوگوں کو اپنے زمینی رشتوں سے متعارف کرانے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔ لوک ورثے کی تعلیم بوڑھوں اور جوانوں کے بیچ ایک مضبوط پل کا کام انجام دیتی ہے۔ بوڑھے لوگ لوک کہانیوں سے آگاہ ہوتے ہیں کہاوتیں، پہیلیاں ،جادوئی کہانیاں، قصے ، مافوق الفطرت واقعات اور اس طرح کی دوسری ثقافتی اقدار سے عوام کو روشناس کراتے ہیں۔
وہ مزید کہتی ہے۔
''نوجوان بوڑھے لوگوں کی فکر مستعار لے کر گہری حکمت عملی اور فعالیت سے کام کرنے کے اہل ہیں اس طرح مل بیٹھنے سے نسلوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہوگی اور یوں دونوں نسلوں کے درمیان فاصلوں کو کم کرنے کا موقع ملے گا۔

ڈائیر وضاحت کرتا ہے کہ جن لوگوں کے سماجی بندھن کمزور ہوتے ہیں جلد ہی انتہا پسندوں کے جھانسے میں آجاتے ہیں حالاں کہ انتہا پسند خود بھی قطعی تنہائی پسند نہیں ہوتے بلکہ ان کے مخصوص سماجی تعلقات ہوتے ہیں اور نئے بھرتی ہونے والے ریکروٹس کو بھی انہی راستوں پر گامزن کر دیتے ہیں مزید برآں نئے نوجوان بھرتی ہو کر دیگر ہم خیال نوجوانوں کے ساتھ اپنے سماجی تعلقات مضبوط کر لیتے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں ضروریات زندگی کا مادی تصور نہایت اہم رہا ہے مگر چند جذباتی مثالیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ ایسے لوگ جو مخصوص سہولیات کے متمنی ہوتے ہیں اور مادی ضروریات کو خاطر میں نہیں لاتے ایسے عناصر انتہا پسندی کی جانب جلد راغب ہوجاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ متفرق ضروریات کی تمنا کسی منفی سوگری کا حصہ ہے کیونکہ غیر تعمیری سرگرمیاں خطرناک ثابت ہوتی ہیں اور فرد کی شدت پسند نظریات کی جانب کشش بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں تاہم بعض مثبت ضروریات بھی اسی سمت میں لے جاسکتی ہیں۔

سماجی عدم تحفظ کی وجہ سے بھی نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے جس سے وہ آسانی سے شدت پسندوں کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ ناانصافی بھی انتہا پسندی کی ایک اہم وجہ ہوتی ہے معاشرتی انصاف کا فقدان سماجی اقدار کو کمزور کرتا ہے ہمارے سماجی قدروں کے مختلف درجے ہیں۔ جو کہ متوازن معاشرے کے ڈھانچے سے مناسبت نہیں رکھتے مثلاً جاگیرداروںاور اُمرأکے طبقے کو نہایت عزت کے مقام سے دیکھا جاتا ہے امیر لوگ اور مراعات یافتہ طبقات غریب لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اس قسم کے رویوں نے نچلے طبقات کے لوگوں کو نفسیاتی مسائل میں جکڑ رکھا ہے۔ نتیجتاً یہ لوگ انتہا پسندو ں کے لیے ترنوالہ ثابت ہوتے ہیں انتہا پسند اور ان کی تنظیمیں مذکورہ افراد کو مواقع فراہم کرتی ہیں کسی شخص کی ترقی کی راہ میں جتنی رکاوٹیں حائل ہوں گی وہ انتہا پسندوں کے لیے اتنا ہی موزوں ہوگا۔

رشوت ستانی کا ماحول بھی اہم عوامل میں سے ایک ہے۔ہر شعبہ ہائے زندگی میں رشوت ستانی کے وجود نے افراد کو مایوسی کے سمندر میں دھکیل دیا ہے اس طرح لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کسی انتہا پسند گروپ کی وساطت سے اپنی محرومیوں کا ازالہ کریں۔ پاکستان میں امن وامان کی بگڑتی ہوئی صورت حال اور اسٹبلشمنٹ کی دگرگوں حالت کے ساتھ ساتھ پولیس اور تھانوں ، چیک پوسٹوں اور متحرک دستوں پر حملے۔ ان تمام کا آپس میں گہرا رشتہ نظر آتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں حکومت کے خلاف لڑنا بہادری اور حوصلہ مندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں حکومتی فورس کے خلاف جارحانہ کارروائیاں سماجی اقدار کا حصہ بن چکی ہیں۔ انتہا پسند خود کش حملے بھی کرتے ہیں اور ان کے یہ اقدامات مختلف سماجی حلقوں میں سراہے جاتے ہیں۔

چوہدری کی رائے میں پختون کلچر اپنے جارحانہ رویوں اور طور اطوار میں پنجابی ثقافت سے بالکل مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں انتہا پسندی کے لیے خاصی کشش پائی جاتی ہے قبائلی علاقے کا پختون محسود کہتا ہے کہ مقامی آبادیوں کے رویوں میں تبدیلی لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ قبائلی علاقوں میں کچھ حصے ایسے بھی ہیں جہاں بچوں کے کھیل تماشوں میں بھی جارحانہ رنگ پایا جاتا ہے محسود کہتا ہے کہ کھیل کود سے فارغ ہو کر گھر پلٹتے ہیں تو ایک دوسرے کو پتھر مارنے کی وجہ سے زخمی ہو جاتے ہیں یا ہڈی پسلی ٹوٹی ہوتی ہے۔ جاوید اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے۔

''پشتون ثقافت کے متعلق عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اِس میں شدت پسندی کا عنصر موجود ہے لیکن اگر ان کے ہیرو مثلاً رحمن بابا اور خوش حال خان خٹک کو پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ شاید ان کا تعلق پنجاب کی سر زمین سے تھا۔ یہ تمام لوگ معتدل مزاج، محبت کرنے والے اور امن کے داعی تھے۔ تاہم اس میں شک نہیں کہ لوگوں کے رہن سہن اور ثقافت میں انتہا پسندی کی جانب رجحان بدرجہ اتم پایا جاتا ہے اور موجودہ دگرگوں صورتِ حال کے پس منظر میں یہ اظہر من شمس ہیں۔''

حالیہ دنوں پنجاب یونیورسٹی لاہور نے ایک سروے رپورٹ مرتب کی جس سے معلوم ہوا کہ سماجی دبائو اور کچھائو بھی شدت پسندی کے حوالے سے بنیادی کردار کا حامل ہے انتہا پسند معاشرے کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگوں کو ڈھونڈ تے ہیں یونیورسٹیوں میں سے ایسے سنجیدہ نوجوانوں کو منتخب کرتے ہیں جن کے لیے معاشرہ ایک سوالیہ نشان ہوتا ہے…؟در حقیقت زیادہ تر اسلامی قومیتیں اقتصادی نظام کا حصہ نہیں ہوتیں۔ سیف کہتا ہے کہ یہی وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے نوجوان انتہا پسندی کی حمایت میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ وضاحت کرتا ہے کہ جب یہ لوگ بنیادی حقوق سے محروم کر دیے جاتے ہیں تو محروم شخص اپنی باقی زندگی اس کے ازالے کے لیے گزار دیتا ہے۔

ایک اور سوال بھی اٹھتا ہے کہ سیاسی،اقتصادی اور سماجی محرومیاں ہی اگر انتہا پسندی کا باعث ہیں تو پھر تو یہ ایک انقلابی تحریک کی شکل اختیار کیوں نہیں کرتیں اس کا جواب یہ ہے کہ ان محرومیوں نے بھی اکثریتی آبادی کو متاثر نہیں کیا تاکہ وہ کسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوں۔ یوں عوامی تحریک کی عدم موجودگی میں انفرادی طور پر یہ متاثرہ اشخاص کسی بھی متحرک انتہا پسند تنظیم کا حصہ بن جاتے ہیں جو ان کے اطراف میں موجود ہوتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں سازشوں اور افواہوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ پاکستانی ثقافت میں لکیر کے فقیر عناصر کی بھر مار ہے جنہوں نے مختلف گروہ تشکیل دے رکھے ہیں اور پھر یہ لوگ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر ایک ہی رنگ میںرنگے نظر آتے ہیں۔ مافوق الفطرت اور جادوئی خیالات کی معاشرے میں بھرمار ہے انتہا پسند ان بشری کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں ۔

ادراک اور کم فہمی دوسرے گروہوں پر نقطہ چینی کا باعث رہی ہے کیونکہ یہ مختلف النظریات گروہ پاکستانی معاشرے میں خاصے گہرے دھنسے ہوئے ہیں بین الاقوامی سیاست اور باقی دنیا خصوصاً مغرب کے متعلق خیالات، ثقافتی ارباب کی وجہ سے اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ عام پاکستانیوں کی رائے مغرب اور خصوصاً سیاسی زعما کے متعلق انتہائی منفی سوچ کی آئینہ دار ہے اس قومی اور بین الاقوامی سوچ نے دانستہ یا نادانستہ طور پر کئی افراد کو انتہا پسندوں کے حلقۂ اثر میں دھکیل دیا ہے۔

مواقع اور آسائشیں تعمیری کاموں کی مناسبت سے نہ ہونے کے مترادف ہیں۔ زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جہاں پر تعمیری سوچ کا سرے سے فقدان ہے جب کہ شہروں میں بھی تخلیقی سرگرمیاں ناکافی ہیں لوگوں کی اکثریت ایسے علاقوں میں سفر کرنے سے یکسر قاصر ہے جہاں تمام سہولتیں میسر ہیں۔

مزید برآں تعمیری اور ثقافتی سرگرمیوں پر سرمایہ کاری کرنا فضول خرچی اور شاہانہ ٹھاٹھ کے مترادف سمجھا جاتا ہے ملک کے کئی حصوں خصوصاًFATAمیں کھیلوں میں شمولیت کو منفی سرگرمیوں سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جاوید کے بقول ایسا معاشرہ جہاں کھیلیں اور دیگر ثقافتی سرگرمیوں کا فقدان ہو وہ انتہا پسند نہ بنیں تو پھر کیا کریں۔وہ مزید کہتا ہے کہ انسانیت کے متعلق مقامی پیمانے غلط تصور پر مبنی ہیں ہم اس بات کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ سماجی سرگرمیاں بھی اتنی ہی ضروری ہیں جیسا کہ زندگی کے باقی پہلو اہم ہیں۔

انتہا پسندوں کے گروپوں میں شمولیت سے ممبران کو وہ تمام مواقع میسر ہوتے ہیں جو کہ متبادل ردِ عمل سے کسی طور کم تصور نہیں ہوتا نوجوان جو اپنے کسان اور ہنرمند والدین کے ساتھ فیکٹریوں اور دکانوں میں کام کرکے عاجز آچکے ہوتے ہیں یا یکسانیت سے اکتا جاتے ہیں وہ ان تنظیموں سے وابستہ ہو کر شہر شہر گھومتے ہیں ایڈونچر کرتے ہیں اس طرح ان کی تربیت اور کارروائیاں بھی انجام پاتی رہتی ہیں ۔اور ان میں سے خاصی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو بھرتی ہونے کے بعد پہلی مرتبہ گھر سے دور کے اضلاع یا دیگر صوبوں کی راہ دیکھتے ہیں اور ان میں جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔

انسان میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ بیرونی حالات سے جلد متاثر ہو جاتا ہے اور جہاں تک ثقافت کا تعلق ہے یہ بھی تعمیری اور تخریبی دونوں اثرات کی حامل ہوتی ہے تعمیری ثقافت کا یہ فائدہ ہے کہ یہ مخصوص مقاصد کو پرامن طریقے سے حاصل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے جبکہ ثقافتِ ثانی اپنی کوشش طاقت کے بل بوتے پر منواتی ہے۔ اگر ثقافت اور شخصیت کے درمیان مثبت رشتہ ہو تو شہری امن پسند بن جاتے ہیں وگرنہ اس کے الٹ نتیجہ نکلتا ہے اس زمرے میں پاکستانی معاشرے کی مثال پیش کی جائے تو یہاں فرد اور ثقافت کے تعلقات بری طرح متاثر ہوئے جس سے انتہا پسندی کو تقویت ملی ہے۔

مقامی انتہا پسند اپنی ثقافت سے اثر قبول کرنے کی بجائے۔ بیرونی سوسائٹی اور ثقافت سے متاثر ہوئے یا دوسرے لفظوں میں ان میں شدت پسند جذبات اور رویوں کو قبول کرنے کے عوامل موجود تھے یہی وجہ ہے کہ پاکستانی ثقافت خصوصاً صوبہ سرحد اور فاٹا میں نسبتاً زیادہ تبدیلی کے عمل سے گذری یہاں بیرونی ثقافت کی حامل خصوصیات تیزی سے پھیلیں اور لوگ علاقائی اور بین الاقوامی جنگوں کی نذر ہو گئے اس کی واضح مثالوں میں افغانستان مشرقِ وسطیٰ اور وسطی ایشیائی ممالک کے نام لیے جا سکتے ہیں۔

پاکستانی سرزمین تاریخی طور پر بیرونی حملہ آوروں کی زد میں رہی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں غیر ملکی ثقافتیں بھی پروان چڑھتی رہی ہیں۔ حملہ آور اپنی طاقت کا بے رحما نہ استعمال کرتے تھے اور مقامی لوگ اپنے آپ کو کمزور اور بے یار و مددگار سمجھتے در حقیقت ان کی کمزوری ہی وہ اہم وجہ تھی جس کی وجہ سے حملہ آور تواتر سے اپنی طاقت کا استعمال کرتے اور دراندازی کا موجب بنتے۔ اب اس آبادی نے جب خود طاقت کا مزا چکھا معاشرے اور اسٹیٹ میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ قائم کیا تو حالات یکسر تبدیل ہوتے گئے کچھ افراد اور مختلف گروہ اتنے مضبوط ہو گئے اور انہوں نے ایسے طریقے اختیار کر لیے جس سے سماجی، سیاسی اور اقتصادی تبدیلیوں کے لیے اپنی مرضی مسلط کرنے لگے ۔ اور یوں صدیوں سے سلگتی ہوئی بین الاقوامی ثقافت نے بالآخر انتہا پسندی کی صورت میں جنم لیا۔

یہ کہنا کہ یکساں طرز کا کلچر موجودہ عالمی سماجی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے کہ جو مقامی ثقافتوں پر حملہ آور ہو کر ان کی روایتی جڑوں کو کھوکھلا کرتا ہے یہ بات پاکستان کی حد تک درست بھی ہے انتہا پسند سختی سے اس عالمی ثقافت کے خلاف مداخلت کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب ان پر اپنی ثقافتی یلغار ٹھونسنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انتہا پسند عناصر کے بین الاقوامی رابطے خاصے مضبوط ہیں۔ اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا مذہب اور سماجی اقدار بیرونی حملوں کی زد میں ہیں۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے اسباب میں سیاسی کلچر کے ساتھ اقتصادی ثقافت کا بھی عمل دخل ہے ملک کی اقتصادی اکائیوں میں بٹی ہوئی قوم کو مندرجہ ذیل گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے یعنی غربا ء نچلا درمیانی طبقہ، درمیانی طبقہ، بالائی درمیانی طبقہ اور امُرا۔ غرباء احساس محرومی کا شکار ہیں اور درمیانی طبقے کا شمار بھی محروم لوگوں میں ہوتا ہے۔ محرومی کا یہ احساس اس وقت اور بھی گہرا ہو جاتا ہے جب بے روزگاری عام ہو۔ عمومی طور پر بے روز گاری بھی انتہا پسندی کی جانب ایک قدم ہے ایک سٹڈی سروے کے مطابق جو کہ FAIRکا پاکستان کے141شہداء کے گھر انوں پر مشتمل تھا اور ان کے شہدا کشمیر اور افغانستان کی جنگوں میں کام آئے تھے فیئر نے یہ بھی کوشش کی کہ روس کی افغانستان میں مداخلت کا عرصہ بھی شمار میں نہ آئے اور اس طرح اس نے1990سے اپنے سروے کا آغاز کیا اس کی رپورٹ کے مطابق تین چوتھائی شہدا ء بے روزگار تھے۔ جہاں تک فاٹا کا تعلق ہے وہاں روزگار کے کوئی مواقع موجود نہیں اور بسا اوقات تمام گھرانہ محض ایک شخص کے روزگار پر پلتا ہے یہی وجہ ہے وہاں انتہا پسندی سب سے عروج پر ہے ایسی صورتِ حال میں نوجوانوں کا مذہبی انتہا پسند تنظیموں میں شمولیت کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا اور اقتصادی تبدیلیاں بھی غیر یقینی صورتِ حال کی ذمہ دار ہیں کیونکہ دنیا کے روایتی پیمانے تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں ۔

رچرڈ سن کی رائے میں اگر نوجوانوں کو کھپانے کے لیے کوئی موزوں ڈھانچہ پہلے سے موجود نہ ہو تو اس کے برے نقائص برآمد ہوتے ہیں اور یہی صورتِ حال منفی سرگرمیوں کی جانب رہنمائی کرتی ہے۔

امیر طبقہ اور اُمرا نے کمزور لوگوں کا استحصال کیا ہے درمیانی اور غریب طبقات جو کہ امرا کے دستِ کرم پر ہوتے ہیں محرومی سے دوچار ہیں نتیجتاً یہ احساس انہیں بدلہ لینے پر اکساتا ہے۔ اس طرح ہمارا اقتصادی نظام بھی انتہا پسندی کے عوامل کو ابھارتا ہے کیونکہ نوجوانوں کے لیے کم مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ فرحانہ9/11سے پہلے کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ مختلف سماجی اور اقتصادی گروہوں میں کچھائو اور فرسٹریشن بھی بد امنی کا موجب ہے۔

سماجی طریقہ کار کے تحت تعلیم بھی شدت پسندی کا موجب رہی ہے مثلاً ہمارا نظامِ تعلیم اور معاشر ہ پوری طور پر اس بات کے شاہد ہیں کہ وہ نوجوانوں کے بنیادی سماجی رویوں کو صراطِ مستقیم کی ڈگر پرچلانے میں ناکام رہا جب کہ مناسب تعلیم وتربیت سے ہی مطلوبہ سماجی تبدیلی لانا اور بہترین شہری تیار کرنا ممکن تھا۔

یہاں بنیادی طور پر تین نظام تعلیم رائج ہیں۔ یعنی پرائیویٹ انگلش میڈیم ادارے، پبلک ادارے اور مدرسے۔ جبکہ رحمن نے پاکستانی اسکولوں کو چار درجوں میں تقسیم کیا ہے جو مدرسوں، اردو میڈیم ایلیٹ انگلش میڈیم اور کیڈیٹ کالجز پر مشتمل ہے۔یہ مختلف نظام ہی دراصل اِن سماجی اور اقتصادی طبقات کی موجودگی کا مظہر ہیں ۔ حقیقت میں یہ ایک ایسی دنیا کا ذکر ہے جہاں مختلف مضامین، طبقاتی ڈھانچے،فیسیں اور تنخواہوں کا گورکھ دھندہ چلتا ہے۔ رحمن کی تحقیقی رپورٹ کے مطابق مدرسوں میں فی طالب علم کے حوالے سے اوسطاً5714/-روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ جس میں قیام و طعام بورڈنگ اور لاجنگ بھی شامل ہیں اور یہ شرح سالانہ اخراجات کی بنیاد پر ہے۔ جب کہ اردو میڈیم کالج اور سکولوں کے طالب علم کی ٹیوشن فیس فی کس اوسطاً5500/-روپے سالانہ ہے اے ۔ لیول کے طالب علم پر 96,000/-روپے خرچ آتا ہے جبکہ انگلش میڈیم کے لیے یہی فیس36,000/-روپے سالانہ ہے کیڈیٹ کالج اور اسکولوں میں ہر طالب علم پر96061/-روپے کا سالانہ تخمینہ لگایا گیا ہے۔

اس طرح اساتذہ اور سٹاف کی جانب سے بھی طلباء کے ساتھ رویے درست نہیں ۔ پبلک اسکولوں اور مدرسوں میں طلباء کو سزائیں دینے کا تصور موجود ہے۔ اسٹاف کے ممبران بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر طلباء کی بے عزتی کر ڈالتے ہیں ۔ متذکرہ بالا دو اسکولوں کے طلبا نسبتاً زیادہ احساسِ محرومی کا شکار ہوتے ہیں اس طرح یہ طلباء اپنی عزتِ نفس کا سودا کر کے یا تو اسکول چھوڑ دیتے ہیں یا پھر جیسے تیسے تعلیم مکمل کر لیتے ہیں ۔ اور جب یہ طلباء بلوغت کی حدوں کو چُھوتے ہیں تو انگلش میڈیم اسکولوں اور کیڈیٹ کالج کے طلبا سے اپنا موازنہ کرتے ہیں تو ان کی نسبت ملازمت کے مواقع کی کمی ہوتی ہے۔ اس طرح کئی ایک واقعات میں خودکشی کے کیس بھی سامنے آئے ہیں اگر یہ طلبا خودکشی جیسے گھنائونے جرم کا ارتکاب کر سکتے ہیں تو شدت پسند تنظیموں میں ان کی شمولیت کچھ بعید نہیں۔سماجی سائنس جدید قدروں کو پھیلانے ، انسانی رویوں اور عادات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن پاکستان میں اس سائنس سے بھرپور استفادہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی حکومت اور سوسائٹی نے اس جانب کوئی توجہ دی۔ حالانکہ سوشل سائنسز کا ڈیپارٹمنٹ کئی یونیورسٹیوں میں موجود ہے لیکن اسے کلی طور پر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ا س سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اربابِ اقتدار جان بوجھ کر سوشل سائنسز کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک ایسی طاقت ور''برائی'' ہے جو کہ حکمران طبقے کو نکیل ڈال سکتی ہے۔

پاکستان کے سیاسی کلچر میں بھی ایسے عوامل بدرجہ اتم موجود ہیں جو کہ انتہا پسندی کو ہوا دینے کا موجب ہیں حالاں کہ آئینی اور قانونی طور پر تمام شہری مساوی بنیادوں پر سیاسی مواقع سے فائدہ اٹھانے کے اہل تصور ہوتے ہیں مگر عملی طور پر حقیقت اسی کے برعکس ہے کئی ایسے سماجی طبقات ہیں جو کہ سیاسی حقوق سے محروم ہیں۔ بعض لوگوں اور کچھ خطوں میں یہ احساس محرومی اس قدر بڑھ چکا ہے کہ وہ لوگ طاقت کے بل بوتے پر حقوق حاصل کرنے کے لیے سامنے آگئے ہیں ۔ اب وہ اپنی جنگ لڑنے کے لیے باہر نکل چکے ہیں اس طرح ہمارا سیاسی کلچر براہِ راست محروم لوگوں کو انتہا پسندی کی جانب راغب کرتا ہے اور قبائلی علاقہ جات اِس کی بہترین مثال ہیں۔

صدیق قریشی کی رائے میں سیاسی کلچر اور تنازعات کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں جس کے نتیجے میں عدم برداشت ، تنازعات اور عدم تحفظ کی ثقافت نے ملک میں فروغ پایا ہے۔ پاکستانی سیاسی ثقافت ،خرید و فروخت ، ملمع سازی اور پبلک دفاتر میں راہ ہموار کرنے اور پھر آرام سے بیٹھ رہنے کا نام ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ پورا ملک شروع دن سے ہی سیاسی افراتفری کا شکار رہا ہے جو ں ہی ایک مسئلہ حل ہوتا ہے دوسر اسر اٹھا لیتا ہے اس سیاسی صورتِ حال نے امن اور سکون کی راہ میں مسائل کو جنم دیا ہے۔ عوام سیاسی حکمرانوں اور اداروں پر بھروسہ نہیں کرتے ایسی صورتِ حال میں انتہا پسندی کی کوئی بھی دعوت خاصی پرکشش لگتی ہے اور یہ پس منظر شدت پسندانہ عناصر کے لیے زرخیز زمین کا کام دیتا ہے۔

سیاسی حکمران بھی ترقی کے حوالے سے محض بلند بانگ دعوے ہی کرتے ہیں سیاسی پارٹیاں اقتدار حاصل کرنے کے لیے عوام سے بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں مگر ہر دفعہ نتیجہ اس کے برعکس ہی نکلتا ہے اسی طرح فوجی حکمران بھی اپنے اقتدار کے دوام کے لیے عوام سے وعدے وعید کرتے ہیں تاکہ ان کی ہمدردی حاصل ہوتی رہے۔ عوام بھی اتنے سادہ لوح ہیں کہ ہر دفعہ ان عناصر کے جھانسے میں آجاتے ہیں ۔ اس طرح احساس محرومی کی شرح بڑھتی رہتی ہے جو کہ ڈیپریشن اور دبائو کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور اسی نے ملک میں شدت پسند عناصر کو پنپنے میں مدد دی ہے۔

مذہبی انتہا پسندی کے ہوشربا پھیلائو کی ابتدائی وجہ افغانستان میں روسی دراندازی اور ایران کا اسلامی انقلاب تھا۔ تمام دنیائے اسلام سے مجاہدین اکٹھے ہو کر پاکستان کے راستے روسی فوجوں سے لڑنے کے لیے افغانستان داخل ہوئے اور پاکستان میں ہی قیام پذیر ہوئے جو رفتہ رفتہ ہمیشہ کے لیے یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے مقامی گروہوں میں انتہا پسندانہ نظریات کو ہوا دی خصوصاً فاٹا کے قبائل کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ سے افغانستان میں آنے والی تبدیلیوں سے متاثر ہوتی رہی ہے۔

ریاست اس بات کی ذمہ دار ہوتی ہے کہ ملک میں قومی ثقافت کو فروغ دے دوسری جانب صوبائی سطح پر علاقائی کلچر بھی قومی ثقافت کے مقابل کھڑے ہیں جیسا کہ عبدالقدیر نے جائزہ لیا ہے کہ پاکستانی کی قومی ثقافت کی مختلف جہتیں ہیں خالد نے بھی بجا طور پر کہا ہے کہ لوگوں کی پہچان کے حوالے سے حکومت جو بھی اقدامات لیتی ہے ثقافت کا اس سے متاثر ہونا ایک فطری عمل ہے مثلاً حکومت نے پڑوسی ملک کی دشمنی میں نفرت کے کلچر کو فروغ دیا ہے۔
پاکستان ایک مسلم اکثریتی آبادی کا ملک ہے اور اسلام پاکستانی معاشرے اور ثقافت میں جھلکتا ہے حالانکہ لوگ مسلمان کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور تمام اسلامی تہوار اور رسومات جوش و خروش سے مناتے ہیں مگر اصل اسلامی روح کا ان میں فقدان ہے لوگوں کی اکثریت قرآن فہمی اور اس کے مطالب سے محروم ہے اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اصل مسلمان کی پہچان کیا ہے۔ اس تمام سوچ کے پیچھے مندرجہ ذیل عوامل کارفرما ہیں۔

زبان کا مسئلہ
اس کے باوجود کہ عوام الناس قرآن حکیم کا باقاعدگی سے مطالعہ کرتے ہیں مگرا ن کی اکثریت عربی کے معانی سمجھنے سے نابلد ہے۔ اس لیے وہ اسلام کی اصل روح سے دور ہیں۔مکاتیبِ
 
فکر کی مختلف سوچ
تمام مبلغین اسلام سے پہلے اپنے اپنے مکتبہ فکر کو اہمیت دیتے ہیں اور اس کے ارد گرد ہی اپنی دلچسپیاں مرتکز رکھتے ہیں جب کہ اسلام کا ذکر اس کے بعد آتا ہے۔ اپنی بنیادی وابستگی اور ذاتی فوائد کی وجہ سے وہ قرآن کی محض منتخب شدہ آیات کی ہی تبلیغ کرتے ہیں اس طرح ''امن کے مذہب'' کے متعلق یہ گروہی نقطۂ نظر اسلام کی اصل روح سے دور ہو جاتا ہے اس منفی سوچ نے معاشرے میں خونی تنازعات کو جنم دیا ہے یقینا اسلام کو اس قدر نقصان بیرونی قوتوں سے نہیں پہنچا جتنے زخم خود مسلمانوں نے لگائے ہیں۔ خدا جانے ان کے پیچھے کون سی صلیبی جنگوں کا شاخسانہ کارفرما ہے۔

مذہب کا سیاسی استعمال
مذہب کو متواتر سیاسی طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ سیاست دانوں اور حکمرانوں نے شاید ہی کبھی مذہبی لوگوں کا مذہب کے نام پر استحصال نہ کیا ہو۔ اسلام کے سیاسی تشخص کو استعمال کرنے میں موقع پرست پیش پیش رہے ہیں517لوگوں پر تجزیے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے ہر چھٹے شخص نے جو کہ جہاد کے لیے افغانستان جا چکا تھا اس سوال پر مثبت جواب کا اظہار کیاکہ انہیں مٹھی بھر افراد نے جہاد کے لیے استعمال کیا تھا…؟مذہبی گروہوں کے سیاسی استعمال کے لیے اسلحہ بھی دیا جاتا رہا ہے حکومتی اداروں کے علاوہ اسلحہ مہیا کرنا انتہا پسندی کو جنم دیتا ہے دوسرے لفظوں میں شدت پسندوں کو وجود میں لانے میں حکومت کا اپنا کردار بھی نظر آتا ہے۔ علماء نے بھی فاٹا میں شدت پسندانہ نظریات کے احیاء میں بنیادی کردار ادا کیا ہے۔

1980کی دہائی میں افغانستان میں روسی مداخلت کو کچلنے کے لیے حکومت نے جہادی ثقافت کو فروغ دیا اس تناظر میں تقاریر، واعظ، اور جہادی ترانے وجود میں آئے جنہوں نے جہادی کلچر کے فروغ میں ہاتھ بٹایا۔فیئرکے سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ 44فی صد جہادی مذہبی اجتماعات سے متاثر ہو کر انتہا پسند گروپوں میں شامل ہوئے جبکہ42فی صد جہادی ایسے تھے جو کہ دوستوں اور رشتہ داروں سے متاثر تھے کئی مثالوں سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اسلام کے تصور کو سختی سے مسخ کیا گیا ہے۔ پاکستان کے سماجی کلچر پر اسلام کا لیبل چسپاں کیا گیا ہے حالانکہ یہ ڈھانچہ بالکل ہی غیر اسلامی ثقافت پر استوار ہے اسلامی تعلیمات کو غلط طریقے سے پیش کیا جاتا رہا ہے حالانکہ ان کا اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اور بعض اوقات غیر اسلامی روایات اور قدریں بھی عملی طور پر مذہب کا حصہ بنا دی گئیں۔

معاشرے اور ثقافت میں اسلام کے نام پر کئی سماجی اور ثقافتی قدروں اور سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی بھی کی گئی ہے اسلامی نظام کو نافذ کرنے کے لیے ریاست ،مختلف گروہ اور تنظیمیں سرگرم عمل ہیں اور اس سلسلے میں کئی مثبت سماجی قدروں پر جو کہ امن اور محبت کے لیے ضروری خیال کی جاتی ہیں قدغن لگا دی گئی ہے اس سے بھی انتہا پسندی کے نظریات اور تخیل کو استحکام حاصل ہوا۔ نتیجتاً کئی لوگوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا اور وہ عوامل جو کہ اسلامائیزیشن کی راہ میں تنقید کا باعث بنے صبیحہ نے ان کی وضاحت کی ہے وہ کہتی ہے۔

''اسلامی قوانین کے نفاذ میں زمینی حقائق کو سمجھنا بے حد ضروری خیال ہے۔ مثلاً پہلے سے موجود ملکی قوانین ، رسم و رواج اور ایسی روایات جو کہ قرآنی تعلیمات سے متصادم ہیں اور اگر یہ اسلام کے معیار پر پورا نہیں اترتیں تو ان میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اس طرح یہ تحقیقی کام وہ تمام خامیاں طشت از بام کرے گا جو پاکستانی قدروں اور رسم و رواج میں اپنے غیر اسلامی تشخص کی وجہ سے در آئی ہیں ۔ اور ہمیشہ سے موجود یہ سوال اس بات کا شاہد ہے کہ ابھی تک اس پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔اسلام کی ترقی پسند اور جدید نظریات کی تعلیمات کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا ہے محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ایسی آیات جنہیں سیاق و سباق سے نہیں پرکھا جاتا اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کی گئی ہیں جس سے اسلام کی اصل روح کو کچل دیا گیا ہے۔

مذہبی کلچر میں کم علمی کی وجہ سے عدم برداشت اور تنازعات کی جانب جھکائو بڑھا ہے جس سے ثقافت میں کمزور سیاسی عنصر اور اقتصادی حوالے سے نسبتاً کم پیش رفت دیکھی گئی ہے مساجد میں طاقت کے بل بوتے پر قبضہ بھی ایک عام روایت بن چکی ہے ایک مکتبۂ فکر دوسرے کو مسجد سے بے دخل کر دیتا ہے۔ عموماً اسلام کی مخصوص تعلیمات کا پرچار کیا جاتا ہے جس سے ایسے مذہبی اور سماجی ماحول نے جنم لیا ہے جو کہ محض مخصوص طبقے کی اقتصادی اور ذاتی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اس قسم کی ثقافت کے احیاء کے لیے مذہبی علماء اور دیگر مفاد پرست طبقے پوری طرح ذمہ دار ہیں آج تک لوگوں کے جذبات اور احساسات کو مذہب کی آڑ میں ابھار کر محض طبقاتی سماجی ترقی حاصل کی گئی ہے۔

کوئی مذہب شدت پسندی کی ترغیب نہیں دیتا۔ حالاں کہ انتہا پسندوں کی جانب سے اسے ایک آلے کے طور پر استعمال کر کے لوگوں کو بھرتی کرنے کا جواز بنایا گیا ہے مذہبی عمائدین نے دیگر پہلوئوں کو نظر انداز کر کے محض اپنے مفاد کی خاطر بھاری قیمت وصول کی ہے۔ فرحانہ کے تجزیے کے مطابق ''جاہل ملّا اور عوام'' بھی اس انارکی کے ذمہ دار ہیں ایک اور ریسرچ کے مطابق زیادہ تر لوگ مذہب کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں مذہبی ادارے براہ راست یا پوشیدہ طور پر منفی بنیادوں پر استوار سماجی اور اقتصادی ڈھانچوں کی مدد کرتے ہیں اور ان سے اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے لیے عوام کے رویوں اور عادات میں تبدیلی متعارف کرائی جاتی ہے۔ انتہا پسندی کو محض مذہب کے نام پر ہی فروغ نہیں ملا بلکہ اسے ابھارنے میں غیر مذہبی قومیتیں ،پارٹیاں اور کئی تنظیموں کا عمل دخل بھی رہا ہے۔

اختتامیہ
مندرجہ بالا تمام شواہد کی روشنی میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ پاکستان کی سماجی اور ثقافتی بنیادیں ایسی زمین پر قائم ہیں جو کہ شدت پسندی کے لیے خاصی زرخیز ہے اور انتہا پسندی کو ہوا دینے والے یہ عناصر براہِ راست کام نہیں کرتے بلکہ انہیں کسی واسطے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں تک شدت پسندی کو براہِ راست پھیلانے کا تعلق ہے اس میں حکومتی پالیسی کا عمل دخل،سیاسی مہرے اور بین الاقوامی ہاتھ نمایاں رہا ہے ثقافتی اور سماجی کلچر ملک کی تعلیمی ثقافت کے گرد گھومتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تعلیمی نظام کی گاڑی پٹری سے اتر چکی ہے۔ اور منزل بھی نظر نہیں آتی ۔ کیوں کہ ان اداروں میں انفرادی طور پر مسلط کردہ مذہبی ثقافت پنپ رہی ہے جو کہ فرقہ بندی کے طابع ہے جبکہ اقتصادی صورتِ حال بھی غیر مساوی بنیادوں پر استوار ہے۔ اربابِ اقتدار، غیر جمہوری رویے اور ادارے اس شکست و ریخت میں برابر کے ذمہ دار ہیں جب کہ مذہب، ذرائع ابلاغ اور تعلیم کو بھی حکومت اور متوازی طاقتوں نے ایک آلے کے طور پر استعمال کیا ہے جس سے شدت پسندی میں اضافہ ہوا ہے۔

انتہا پسندی کے اس وسیع تناظر میں ابھی تک کئی پہلو تشنہ طلب ہیں خصوصاً مندرجہ ذیل سوالات کا حل توجہ کا طالب ہے۔
الف )شدت پسند عناصر کی سماجی نفسیات کی چھان بین
ب) گھریلو حالات، انتہا پسندی اور دونوں کا سماجی تعلق
ج) بیرونی ذرائع ابلاغ کا پاکستان میں انتہا پسندی کے حوالے سے کردار
د) عالمی سماج اور بیرونی ثقافت کا پاکستان میں شدت پسندی کے فروغ میں حصہ مزید برآں ایک نیا مضمون ''سماجی شدت پسندی'' کے نام سے متعارف کرانے کی ضرورت ہے تاکہ اس کا ہر پہلو سے بغور جائزہ لے کر عوامل، مقاصد، وجوہات بروقت بے نقاب کیے جائیں تاکہ حالات بگڑنے کی نوبت نہ آئے۔