working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

عسکریت پسندوں کی بھرتیوں کا طریقہ کار
برین فش مین، عبداللہ وارث
عسکریت پسندوں کی بھرتیوں کا طریقہ کار، طالبان کے ساتھ مصالحتی کوششوں کا جائزہ، القاعدہ کے خوف کا تدارک اور طالبان کا نمائندۂ خاص۔ مسلم خان،
یہ چاروں مضامین امریکی ملٹری اکیڈمی کے سنٹر برائے مقابلہ دہشت گردی کے ماہانہ شمارے CTC SENTINEL برائے فروری 2009 میں چھپے ہیں۔ معروف امریکی جنرل جان ابی زیر کی سربراہی میں کام کرنے والے اس سنٹر کا فوکس دہشت گردی ہے۔ ہم ان چاروں مضامین کا اردو ترجمہ CTC کی اجازت اور شکریئے کے ساتھ نذر قارئین کر رہے ہیں۔ (مدیر)
''جہادیوں کی ریکروٹمنٹ'' کے نام سے ایک نئی کتاب منظرِ عام پر آئی ہے جس میں بنیاد پرستی اور تنظیمی حوالوں سے نئی نسل کو ترغیب دینے کے طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے۔51صفحات پر مشتمل ابو عمر القاعدی کی کتابA COURSE IN THE ART OF RECRUITMENT" اس طرح ترتیب دی گئی ہے کہ اس میں کم تربیت یافتہ بھرتی کرنے والے جہادی ادارے آزادانہ طور پر ایسے طریقے اپنائیں جس سے دنیا میں متحرک عسکری تنظیموں کو معتدل او ر آزاد خیال مسلمان آسانی سے میسر آسکیں گے عمر کی دستی کتاب میں بہترین بھرتی، کرنے کے طریقہ کار کو اجاگر کیا گیا ہے جس میں ریکروٹ کی بھرتی کا شفاف، آسان اور تہہ دار طریقہ اپنانے کے علاوہ دفتری طریقہ کار کی بھی وضاحت کی گئی ہے۔ ابوعمر کی رائے میں اس کا بھرتیوں کا ڈھانچہ اور خاموشی سے جانچنے کا اصول بھرتی کرنے والوں کو اس پر اکسائے گا کہ وہ کم تعلیم یافتہ کم شرعی علم رکھنے والے جوانوں کو ہی بھرتی کے قابل سمجھیں اس کی یہ کتاب جہادی ویب سائیٹ پر کھلی تعداد میں تقسیم کی گئی ہے لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ عسکریت پسندوں نے کہاں تک اس سے استفادہ کیا ہے۔ وہ بنیادپرستی کے حوالے سے خیالات اور طریقہ کار کے اندرونی فلسفے پر بحث کرتا ہے اور کم ہنر مند لوگوں کو بھرتی کرنے کی راہ میں حائل مشکلات کو حل کرنے کے لیے آسان اور سادہ طریقے متعارف کراتا ہے۔

اس طریقہ کار پر عمل پیرا ہونے کے لیے وہ پانچ مراحل یا درجوں کا تذکرہ کرتا ہے تاکہ عسکریت پسندوں کی بھرتی کا اصل نظریہ اور ان کے مقامات کا بہتر طور پر انتخاب ممکن بنائے ا بو عمر ہر درجے کے مقاصد کو نہایت تفصیل سے بیان کرتا ہے اور چیدہ چیدہ عوامل کی نشاندہی ممکن بناتا ہے تاکہ ایک درجے سے دوسرے درجے میں ترقی کے لیے عام پہلووں پر اچھی طرح نظر رکھی جا سکے۔ بھرتی کرنے والے اہلکاروں کو دئیے گئے نمبروں سے نئے بھرتی شدہ جوانوں کی جانچ پرکھ کی جاتی ہے تاکہ معیار کو ممکن بنا کر انہیں اگلے درجے میں ترقی دی جاسکے ورنہ ان کا نام خارج بھی ہو سکتا ہے۔ بھرتی کرنے والے اہلکار جو جہادی تعلیمات سے نابلد ہوں ان کے لیے یہ کتاب''ہاں یا ناں'' کی بنیاد پر کئی سوالنامے ترتیب دیتی ہے۔ اور اسی کی روشنی میں ان جگہوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو بھرتیوں کے لیے محفوظ ہوتے ہیں۔

ابو عمر کا بھرتی کا طریقہ کار''انفرادی یا ذاتی دعوہ '' پر انحصار کرتا ہے اس میں ہر ایک فرد کو اسلام کی جانب پکارا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اب وہ سننے والوں اور عمل کرنے والوں میں شامل ہو گیا ہے۔ جب اس کے برعکس ''اجتماعی دعوہ'' کے مطابق مختلف اقسام کے افراد کو تبلیغ ، مجالس اور پندو نصائح کے ذریعے اسلام کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ابو عامر کے بقول''انفرادی دعوہ'' والے نظریے پر عمل پیرا ہونے والے کو ترجیح دی جائے کیونکہ ایسا شخص سیکیورٹی ایجنسیوں کی نظر میں کبھی نہیں آسکتا۔ وہ مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اس سے بھرتی ہونے والے فرد کی قابلیت مترشح ہو جاتی ہے اور آسانی سے اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کا پتہ چل سکتا ہے اور یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس نئے ریکروٹ کا تنظیم کے لیے وجود ضروری بھی ہے کہ نہیں ۔ اگر وہ شخص اگلے درجے میں ترقی کے قابل نہ ہو تو تمام کارروائی یہیں ختم کر دی جائے تاکہ اس فرد پر مزید وقت اور محنت ضائع نہ ہو۔

ابو عمر کے مطابق انفرادی انتخاب کے لیے بھرتی کرنے والے حضرات کو شریعت کے علم کی زیادہ شدید ضرورت نہیں ہوتی جبکہ اجتماعی بھرتی کے معاملے میں نئے آنے والے نوجوان کئی قانونی اور سیاسی دلائل کا سہارا لیتے ہیں جو کہ عوام کے علم میں آنے پر نکتہ چینیوں کا باعث بن سکتے ہیں۔''انفرادی دعوہ'' کے ممبران جذباتی ردِ عمل کا اظہار کرتے ہیں او ان سے ذاتی تعلقات استوار ہو سکتے ہیں۔ عمر نے اس حکمت عملی کے لیے''الترغیب و الترتیب'' کی اصطلاح استعمال کی ہے ماضی میں ایسی دعوت کئی مسلمان مفکرین پہلے بھی دے چکے ہیں جس میں قرآن الحکیم سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ ابوعمر اس ضرورت پر زور دیتا ہے کہ بھرتی کرنے والے حکام ان اصولوں کو مدِ نظر رکھ کر نوجوان بھرتی کریں۔ وہ کہتا ہے بہترین پھل حاصل کرنے کے لیے فوراً عمل کر گزرنا چاہیے اور ردِ عمل کی قیمت تو بعد میں ہی چکائی جاتی ہے۔

فرد کی انفرادی شخصیت کی وجہ سے یہ ترغیب مغرب میں اور جہاں آمر اور مرتد حکمرانوں کی حکومتیں ہوں خاصی بارآور ہوگی وہ مزید کہتا ہے کہ اگر ایک استاد کسی شاگرد کو ایک سال میں تربیت دے کر تیار کرتا ہے اور پھر وہ شخص کسی دوسرے فرد کو اگلے سال تربیت دیتا ہے تو اس طرح تیس سالوں کے بعد جہادیوں کی تعداد کروڑوں میں پہنچ جائے گی۔پہلے درجے میں بھرتی کرنے والے کو سب سے پہلے ٹارگٹ اور مقصد کو مدِ نظر رکھنا چاہیے وہ کہتا ہے کہ کسی جہادی کو ترغیب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ کسی گہرے دوست یا عزیز کا انتخاب کرو جو کہ راسخ العقیدہ مسلمان نہ ہو یا پھر آپ کا ہم عمر ہو یا پھر گھر کے قرب و جوار میں رہتا ہو۔ ابو عمر ان جہادیوں کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے جو محض مذہبی لوگوں کو ہی بھرتی کرتے ہیں درحقیقت وہ''سیلفسٹ'' اور حفاظ کو بھرتی کرنے کا مخالف ہے کیونکہ زیادہ تر ''سیلفسٹ'' عناصر القاعدہ کے مخالف ہیں جبکہ حفاظ کو ان کے اساتذہ ایسے ہی فرسودہ نظریات سے گمراہ کرتے ہیں وہ ان لوگوں کو جاسوس گردانتا ہے سائنس دانوں اور آرمی کے افراد اور دیگر پیشہ ور لوگوں کو بھی بھرتی کرنے کے خلاف ہے کیونکہ وہ القاعدہ کے پیغامات کو تبدیل کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ ابو عامر مذہبی لوگوں کو خارج از امکان قرار دیتا ہے اور سکیولر عناصر کی حوصلہ افزائی کرتا ہے کیونکہ یہ عام لوگ ہیں اور اکثریت میں بھی ہیں اور انہیں خطرے میں پڑے بغیر آسانی سے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔ دوسرے درجے تک پہنچنے کے لیے ابو عمر تجویز پیش کرتا ہے کہ بھرتی کرنے والے عناصر کو مطلوب افراد کے دوستوں اور قریبی رشتہ داروں سے روابط بڑھانے چاہیں انہیں کھانے پر مدعو کریں خیر سگالی کے پیغامات بھیجیں اور تحفے تحائف ارسال کریں ۔ ہر ریکروٹ خاص توجہ کا طالب ہوتا ہے اس لیے بیک وقت دو افراد سے زائد جوان منتخب نہیں کرنا چاہیے۔ اوران افراد کو اسلام کی رسمی ذمہ داریوں سے متعارف کرایا جائے تاکہ ان میں احساسِ ذمہ داری کا مادہ جاگے۔ وہ لکھتا ہے!''دوسرے درجے کی تربیت کو سلیقے اور صفائی سے مماثل کیا جاسکتا ہے یہ ایک ایسا طریقہ علاج ہے جس میں خاموشی اور دھیرے دھیرے سے پیار محبت کا انداز اختیار کر کے ایسی تربیت اختیار کی جائے کہ نوجوان آپ کا تابعدار بنتا جائے اسے عبادت کا پابند بنایا جائے مگر اس طریقے سے نہیں کہ وہ انہیں بوجھ سمجھے''

تربیت کے تیسرے مرحلے میں ماہرین ریکروٹس میں مذہبی جذبات ابھاریں لیکن یہ تمام کچھ نہایت محتاط انداز میں ہو جس میں مکمل ہم آہنگی اور ان کی حمایت حاصل رہے اور یہ سفر بتدریج طریقے سے آگے بڑھتا رہے۔ اور اس سطح پر جنت کی نعمتیں اور راہِ نجات نظر آنے لگے اور فوراً اس کے لیے آمادہ ہو جائے۔
اس کے علاوہ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کی ویڈیوز بھی برابر دکھائی جاتی رہیں اور اس دوران مرکز نگاہ نئے جہادی رہیں۔ مزید برآں افغانستان اور عراق میں بیرونی جارحیت اور دراندازوں کے عزائم سے پردہ اٹھایا جائے مغرب کے خلاف نفرت ابھارنے سے ان کے دماغ میں کئی سوالات جنم لیں گے جو رکاوٹ بن سکتے ہیں مگر ایسے مواقع پر ابو عمر ماہرین سے توقع رکھتا ہے کہ وہ فوراً زیرِ تربیت افراد سے کہیں کہ شک و شبہات لوگوں کو راستے سے بھٹکا دیتے ہیں اور شروع شروع میں ایسا ہوتا ہے مگر حقیقت کا تقاضا کچھ اور ہے۔

ابوعمر اسلامی ممالک کے حکمرانوں کے خلاف پائے جانے والے شبہات پر اپنے خدشات رکھتا ہے اس نے حضرت ابنِ عباس کی ایک حدیث نقل کی ہے''ایک کفر ایسا ہے جو کہ دوسرے کفر سے کم ہوتا ہے۔''یعنی اگر کوئی حکمران شریعت کا عملی نفاذ نہ کرے تو اس پر اسے مرتد نہیں مانا جاسکتا اور اس طرح براہِ راست حملے کی زد سے محفوظ ہو جاتا ہے کیونکہ اگر وہ نادانستہ طور پر کوئی اور طرزِ حکومت نافذ کرے اور اپنے دل میں یہ خیال رکھتا ہو کہ شریعت ہی اصل راستہ ہے مگر اس کو نافذ کرنے کے طریقہ کار سے نابلد ہے۔ لیکن ابن تیمہ کا''نظریہ تکفیریہ'' جو کہ مذکورہ حالات میں اِن حکمرانوں کو اسلام کے دائرے سے ہی خارج کر دیتا ہے اور انہیں مرتد قرار دیتا ہے یہی نظریہ جہادیوں میں بھی مقبول ِ عام ہے۔

ابو عمر چوتھے درجے میں اسلام کے روایتی نظریے کے احیاء کا طالب ہے اور مندرجہ ذیل پانچ حقائق کا تذکرہ ضروری خیال کرتا ہے۔
١۔ قرآن اور سنت سے وابستگی
٢۔ جہاد ایک مذہبی فریضہ ہے اور اس کے لیے ہر وقت تیار رہنا
٣۔ تکفیریہ نظریے کی قبولیت
٤۔ جمہوریت بھی ایک مذہب ہے اور الیکشن میں حصہ لینا قابلِ قبول نہیں
٥۔ ''الوٰلی ولبٰریٰ '' یعنی''وفاداری اور انکار'' کا نظریہ

ابنِ عمر کے خیال میں اوسط درجے کا ریکروٹ مُلا نہیں بن سکتا۔ اس لیے بنیادی خیالات سمجھانے کے لیے قدیم دور کے جہادیوں کے قصے سادہ پیرائے میں گوش گذار کیے جائیں اس کے لیے وہ کئی جہادی کتابوں کی سفارش کرتا ہے جنہیں کورس کا حصہ ہونا چاہیے۔ ان میں عبداللہ اعظم کی''مسلمانوں کے مقبوضہ علاقوں کی آزادی'' ، عبد الولید انصاری کے حالاتِ زندگی پر مبنی کتاب ، شیخ الشیخ کی''فتویٰ''، ابو بشیر الطرطوسی کی''جمہوریت کا اسلامی نظریہ اور مختلف الخیال پارٹیاں'' قابل ذکر ہیں۔ان کتابوں کی تعلیم کے علاوہ ابو عمر توقع رکھتا ہے کہ ماہرین ریکروٹس کو جہادیوں کی فلمیں دکھائیں اور ویب سائٹ کا استعمال سکھائیں تاکہ وہ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کر سکیں ابو عمر جہادی میڈیا کے استعمال میں احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیتا ہے اور یہ تجویز کرتا ہے کہ جہادی فلمیں اس وقت دکھائی جائیں جب سب جواں ہشاش بشاش ہوں تاکہ پروپیگنڈہ کے تمام سیاسی پیغامات کو اچھی طرح ذہن نشین کر سکیں۔

ابو عمر پرزور طریقے سے بتاتا ہے کہ ریکروٹس تمام جہادی نظریات کو قبول کرنے کی خاطر اسلامی نظریات کی تعبیروں کو من و عن ویسا ہی سمجھتے ہیں اس لیے شکوک و شبہات اور ابہام ان کی بنیادیں مضبوط کرنے کی راہ میں تباہ کن ہو سکتے ہیں نئے جہادی اس بات پر بھی دہشت زدہ ہو سکتے ہیں اگر انہیں معلوم ہو کہ ان کے پیش رو غیر قانونی اقدامات سے گریز نہیں کرتے جیسا کہ عراق اور الجیریا میں دیکھا گیا ہے۔ اس مسئلے سے نپٹنے کے لیے وہ وضاحت کرتا ہے کہ نئے بھرتی ہونے والے جہادیوں کو محض یہ باور کرانا چاہیے کہ ان کا سب سے قریب اور واضح رشتہ صرف اور صرف خدا سے ہے اس لیے جہادیوں کو صرف جہاد سے سروکار رکھنا چاہیے انہیں اپنے مقصد پر نظر رکھنی چاہیے اور دنیا کی آسائیشوں سے نالاں رہنا ہوگا۔

ابو عمر کے ریکروٹمنٹ پروگرام کا پانچواں اور آخری مرحلہ تربیت گاہ کا قیام ہے اور یہ مقام اس وقت آتا ہے جب جہادی ذہنی اور روحانی طور پر تیار ہو چکے ہوتے ہیں اور جہاد کے نظریے سے پوری طرح آگاہی رکھتے ہیں۔ ابو عمر سمجھتا ہے کہ یہی وہ وقت ہے جب تمام تیار شدہ نوجوان''ابو مصب الصوری'' کی مشہور کتاب''دنیا میں اسلام کی مدد کے لیے پکار'' کا مطالعہ کریں اور اس کے نظریے پر یعنی مرکز سے دور رہ کر انفرادی طور پر جہاد کے لیے پھیل جائیں۔ بھرتی کرنے والے عناصر نئے جہادیوں کو ہدایت دیں کہ وہ اپنے ملک میں جہاد کریں۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ جہادی ایسا کرنے سے ہچکچائیں اور عراق اور افغانستان جانے کے لیے زیادہ زور دیں تو ان ریکروٹس کے جذبات بھڑکا کر انہیں قائل کریں کہ مذہبی فریضے کے تقاضے کے علاوہ دین بھی یہی پابندی عائد کرتا ہے کہ سب سے پہلے گھر سے جہاد کا آغاز کرو۔

ابو عمر کا سب سے اہم کردار یہ ہے کہ وہ ایسے طریقہ کار کی جانب رہنمائی کرتا ہے جس سے خام ذہن کے نوجوانوں کو وہ پیمانے مل جاتے ہیں جن سے وہ القاعدہ وغیرہ کے پروپیگنڈے کو بہتر طور پر زیر استعمال لانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ابو عمر کا یہ تکنیکی ڈھانچہ کم پڑھی لکھی نسل میں القاعدہ کے نظریات کو پھیلانے کا باعث بنتا ہے۔ اس طرح وہ القاعدہ کی تنظیم اور افغانستان اور عراق کے اندر بکھرے ہوئے جہادیوں کی سماجی تحریکوں کے درمیان پل کا کام انجام دیتا ہے۔ ابو عمر کی کتاب اس طرح بھی خاصی اہم تصور ہوتی ہے کہ اس میں تنظیمی عناصر کی قابلیت کو ہر جہادی چاروں جانب پھیلانے کی کوشش کرتا ہے۔ابو عمر کے اس تربیتی پروگرام سے کم پڑھے لکھے لوگ تربیت یافتہ بن جائیں گے گو کہ تمام عمل خاموشی سے قیام پزیر ہوگا کیونکہ تمام جہادی اپنی دریافت کو ہر ممکن طریقے سے چھپانے کی کوشش کریں گے لیکن عملی زندگی میں تمام احتیاطی تدابیر اس قدر کامیاب بھی نہیں رہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غیر ہنر مند جہادی طاقت حاصل کریں۔

ہر نئے طریقے اور اچھوتے خیال کی مانند یہ نظریہ بھی ایک دو دھاری تلوار کی طرح ہے جس کا فیصلہ آنے والے وقت پر چھوڑ دینا چاہیے۔