working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

علمائے کرام کی خدمت میں
سلیم صافی

مسئلہ انتہاپسندی ہی ہے ، لیکن یہ انتہاپسندی ایک طرف نہیں دونوں طرف موجود ہے ۔ ایک طرف یہ انتہاپسندی ہے کہ آپ خودکش حملے کا ذکر کریں یا سوات کے کسی دلددوز واقعے کا ، تو جواب میں ڈرون حملوں اور دیگر تاویلات کاتذکرہ شروع ہوجاتا ہے اور دوسری طرف یہ انتہاپسندی ہے کہ ایک خاتون کو کوڑے لگانے کی ویڈیو کی آڑ میں اسلام اور شریعت کو برابھلاکہاجارہاہے ۔ عاصمہ جہانگیر صاحبہ اور الطاف حسین صاحب جیسوں سے کوئی پوچھے کہ آپ نے اس بے چینی کا اظہار عافیہ صدیقی کے معاملے میں کیوں نہیں کیا، آپ سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے دیہات میں وڈیروں کے ہاتھوں ظلم و ستم کی شکار خواتین کے بارے میں اتنے حساس کیوں نہیں ہیں؟ ۔آپ کے ہاں جو کچھ ہورہا ہے کیا وہ دین سے موافق ہے؟ ۔ اگر آپ کے ہاں مذہب اور جمہوریت میں رسم و رواج کا اثر قابل برداشت ہے تو پختون معاشرے میں رسم رواج اور روایت کے مذہب میںدر آنے سے آپ اتنے پریشان کیوں ہیں ۔ اگر بغیر ریاست و حکومت کے کسی لڑکی کو کوڑے مارے گئے تو یہ قابل مذمت ہے لیکن کیا اس کے ذریعے لوگوں کو ذہنی مریض بنانے اور اس کی آڑ میں مذہب کو گالی دینے کی روش درست ہے؟ ۔ اب تو آپ اے این پی کو بھی گالیاں دینے لگے ہیں حالانکہ اس جماعت کی تاریخ سیکولرزم سے عبارت ہے ۔ آپ تو سیاسی اور ذاتی مفادات کے لئے سیکولر بنے ہوئے ہیں لیکن اس جماعت کی قیادت تو صدیوں سے شعوری طور پر سیکولرزم کی علم بردار رہی ہے ۔ اے این پی کے رہنمائوں کو ''بغیر داڑھی کے طالبان'' کے نام سے یاد کرنے سے قبل آپ کو کم ازکم اس جماعت کی تاریخ اور ساخت تو مدنظر رکھنی چاہئیے تھی ۔ آخر آپ لوگ اس واقعے کی آڑ میں سوات امن معاہدے کو کیوں سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں ؟ ۔ کیا سوات امن معاہدے سے قبل وہاں پر یہ سب کچھ نہیں ہورہا تھا؟۔ آپ تولاہور اور لندن میں بیٹھ کر تبصرے کررہے ہیں لیکن رحیم اللہ یوسفزئی جیسے باخبر صحافی لکھ رہے ہیں کہ سوات امن معاہدے سے قبل سوات میں کوڑے لگانے کے درجنوں واقعات رونما ہوئے ۔ آپ نے تو صرف یہ ایک ویڈیو دیکھ لی ، جس کی ریکارڈنگ کے وقت کے بارے میں ابھی تک حتمی رائے بھی سامنے نہیں آئی لیکن ہم جیسے تو عسکریت پسندوں کے اپنے ہاتھوں سے تیار کردہ وہ سینکڑوں ویڈیو دیکھ چکے ہیں جس میں لوگوں کو ذبح کیا جارہا ہے ۔ اسی مینگورہ شہر کی چوکوں میں سرکٹی لاشوں کو لٹکا یاجاتاتھا اور مقررہ وقت سے قبل کسی کو ہاتھ لگانے کی جرات نہیں ہوسکتی تھی ۔ یہاں نہیں بلکہ قبائلی علاقوں میںتو گذشتہ کئی سالوں سے عسکریت پسندوں کی حکومت قائم ہے اور اسی طرح عسکریت پسندوں کی عدالتیں لوگوں کو سزائیں سنارہی ہیں ۔ آپ لوگ اس پر خاموش کیوں تھے ؟۔ کیا اس لئے کہ اس پر اس طرح مغرب میں اپنی قیمت نہیں بڑھائی جاسکتی تھی ۔ چند افراد کے ہاتھوں ہوا کی بیٹی کو اس طرح کوڑے لگانا ظلم ہے تو کیا ایف سی آر کا قانون ظلم نہیں اور گذشتہ ساٹھ سالوں میں آپ لوگوں نے اس ظالمانہ قانون کے خلاف اسی طرح آسمان کیوں سر پر نہیں اٹھایا؟۔سوات امن معاہدے پر ہم جیسوں کو بھی تحفظات تھے لیکن اب ایک واقعے کی آڑ میں آپ اس امن معاہدے کو سبوتاژ کیوں کررہے ہیں ؟ ۔ کیاملٹری آپریشن کے دنوں میں امن معاہدے سے قبل سوات میں اس طرح کے واقعات رونما نہیں ہورہے تھے ۔ آپ ذرا اس وقت لاہور اور لندن سے نکل کرسوات جانے کی ہمت تو کرلیتے ؟۔ کیا وہ فوجی آپریشن مسئلے کاحل تھا اور اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اس امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے اور سوات کو دوبارہ آگ و خون میں نہلانے کی بجائے اس کی خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ؟ ۔اس معاہدے کو توڑنے کی نصیحت کرنے کی بجائے اس پر عمل درآمدکے لئے زور ڈالنے اور مفاہمت کے ذریعے حکومتی رٹ کو بحال کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟۔ یقینا اس معاہدے کے بعد بھی حکومتی رٹ بحال نہیں ہوئی بلکہ عسکریت پسندوں کی رٹ لیگلائز ہوئی ہے لیکن کیا معاہدے سے قبل سوات میں حکومتی رٹ قائم تھی؟ ۔ آپ ایک طرف طالبان کوبرابھلاکہہ رہے ہیں اور دوسری طرف اے این پی کو ۔ ان حالات میں کیا سرحد کے حالات ٹھیک کرنے کے لئے آپ آئیں گے ۔ ہاں اگر ہمت ہے تو عاصمہ جہانگیر صاحبہ اور ان جیسی انسانی حقوق کی علم بردار سوات چلی جائیں اور الطاف حسین لندن سے چل کر کم ازکم پشاور چلے آئیں ۔ اس صورت میں ہم اے این پی والوں سے درخواست کرلیں گے کہ وہ ذرا ان کو زوربازو آزمانے کا موقع دیں ؟۔ایک طرف سوات کے عسکریت پسند ہیں اور دوسری طرف سرحد کی حکومت ۔ سرحد کے عوام نے مینڈیت آپ لوگوں کو نہیں بلکہ اے این پی کودیا ہے ۔ ہم ان پر تنقید کریں گے ، ان کی اصلاح کی کوشش کریں گے لیکن عاصمہ جہانگیر اور الطاف حسین سے بہتر وہ جانتے ہیں کہ مسئلہ کس طرح حل ہوسکتا ہے ؟

اگر قانونی عدالت کے فیصلے کے بغیر کسی فرد کو سزا دی گئی ہے تو یہ لائق مذمت ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس کے خلاف آواز اٹھائے لیکن اس کی آڑ میں شریعت کی سزائوں کو ظالمانہ قرار دینا بھی لائق مذمت ہے ۔ یہ سزائیں اللہ نے مقرر کی ہیں ۔ یہ اللہ کی حدود ہیں اور کسی کو اس سے روگردانی کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ وہ شخص مسلمان ہی نہیں ہوسکتا کہ جو شرعی سزائوں یا اللہ کی مقرر کردہ حدود سے انکار کرے یا انہیں تضحیک کا نشانہ بنائے ۔ہاں البتہ سوال یہ ہے کہ کس کو ، کن حالات میں ، کون سی شرائط پورے کرنے کے بعد ان سزئوں پر عمل درآمد کا اختیار ہے اور ہمارے علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ گریز کی روش چھوڑ کر ان سوالوں کا جواب دیں ۔ وہ اگر سامنے آکر اس حوالے سے پاکستانی عوام کے سامنے متفقہ مؤقف سامنے نہیں لائیں گے تو اسی طرح کے واقعات سامنے آتے رہیں گے اور اس کی آڑ میں مغرب ، عاصمہ جہانگیر اورالطاف حسین جیسوں کو دینی طبقات اور شرعی سزائوں کے خلاف ہرزہ سرائی کا موقع ملتا رہے گا ۔المیہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے غلط مباحثہ ہورہا ہے ۔ ایک طرف دینی طبقے ایساموقف اپناتے ہیں کہ جس کی وجہ سے اس طرح کے واقعات کے بارے میں واضح موقف سامنے نہیں آتا اور دوسری طرف بعض این جی اوز اور نام نہاد روشن خیال عناصر کی طرف سے ایسی لائن لی جاتی ہے کہ جس سے پتہ نہیں چلتا کہ وہ کسی خاص واقعے کو تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں یا تمام شرعی سزائوں کو ۔اسی لئے یہ علمائے کرام ،جو انبیاء کے وارث کہلائے جاتے ہیں کا فرض بنتا ہے کہ وہ کسی خوف اورلالچ کوذہن میں لائے بغیر اس حوالے سے پاکستانی قوم کی رہنمائی کریں ۔اس ابہام کو دورکرنے کے لئے میں چند سوالات اپنے علمائے کرام کے سامنے اس توقع کے ساتھ رکھ رہاہوں کہ وہ ان کا واضح جواب امت کے سامنے رکھیں گے ۔

پہلا سوال یہ ہے کہ نیک نیتی سے سہی لیکن ریاست کے بغیر کیا کسی فرد یا گروہ کو شرعی سزائیں دینے کا اختیار حاصل ہے اور خاص طور پر اس صورت میں جب ریاست شرعی بنیادوں پر قائم نہ ہواور اپنا یہ فرض پورا نہ کررہی ہو؟

دوسرا سوال یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لئے کیا چیز مقدم ہونی چاہئیے ۔ دعوت ، تبلیغ اوراصلاح معاشرہ کے ذریعے ایک اسلامی معاشرے کی تشکیل یا کہ پھر حدودوتعزیرات کا نفاذ ؟۔ کیا حدودو تعذیرات کے نتیجے میں اسلامی ریاست قائم ہوتی ہے یا کہ پھر یہ دیگر ذرائع سے قائم ہونے والی اسلامی ریاست کو قائم رکھنے کا ذریعہ ہوا کرتی ہیں؟

تیسرا سوال یہ ہے کہ ریاست پاکستان اور حکومت پاکستان کی شرعی حیثیت کیا ہے ۔ موجودہ حالات میں کیا اس کے نظام سے بغاوت شریعت کا تقاضا ہے یا کہ پھر اس کے قوانین کے احترام کے ساتھ ساتھ ، اس کے سسٹم کا حصہ رہ کر اصلاح کی کوشش کرنا قرآن و سنت کے احکامات سے موافق ہے ؟

میں عالم ہوں اور نہ شرعی احکامات کی نزاکتوں سے واقف۔ ایک ادنیٰ طالب علم اور گناہ گار مسلمان ہوں لیکن پوری دیانتداری کے ساتھ سمجھ رہاہوں کہ مذکورہ سوالات کے حوالے سے غلط مبحث کی وجہ سے ہم اس وقت ایک ایسی صورت حال سے دوچار ہوگئے ہیں کہ جس کے نتیجے میں مسلمان کے ہاتھوں مسلمان قتل ہورہا ہے ،شریعت اور شرعی احکامات کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور دین دشمنوں کو اسلام ، مسلمان اور پاکستان کو بدنام کرنے کے مواقع ہاتھ آرہے ہیں ۔ یہ سوالات میرے نہیں بلکہ ان دنوں ہر مسلمان اور ہر پاکستانی کے ذہنوں پر چھائے ہوئے ہیں اور اگرہمارے علمائے کرام سامنے آکر پوری وضاحت کے ساتھ ان کا جواب نہیں دیں گے تو وہ اپنے ایک اہم دینی فریضے کی ادائیگی سے گریز کے مرتکب ہوں گے ۔

(بشکریہ روزنامہ مشرق ،پشاور)