working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

تہذیبی نرگسیت
صبا نور

دہشت گردی اور اس سے پھیلنے والی تباہی رفتہ رفتہ پوری دنیا کا مسئلہ بن گئی۔ جس کو روکنے اور اس سے نمٹنے کے لیے بڑی طاقتوں نے نہ صرف طاقت کا استعمال کیا بلکہ بڑی بڑی تہذیبوں پر بھی نشانہ بازی کی۔ تاہم جس بات کو نظر انداز کیا جاتا رہا وہ رویئے ہیں جو صدیوں سے افراد کے اندر پنپ رہے ہیں اور آہستہ آہستہ نفرت کے انتہا ئی درجے تک پہنچ گئے۔

ہم نے دہشت گردوں پر تنقید کی۔ ان کے مارنے والوں کو موردِ الزام ٹھہرایا اور ظالم و مظلوم کی بے انتہا تعریفیں لکھ ڈالیں لیکن افسوس کہ حقیقت کیا ہے اس سے بے بہرہ ہی رہے۔ مبارک حیدر کی کتاب''تہذیبی نرگسیت'' بظاہر ایسے مرض کا تعارف پیش کرتی ہوئی لگتی ہے جس کا مریض خود کو اعلیٰ اور برتر سمجھتا ہے اور دوسروں کو حقیر، اُس مرض میں مبتلا مریض کے نزدیک اپنی خواہشات کی اہمیت ہے جبکہ دوسروں کی کوئی وقعت نہیں۔ اسی طرح جب یہ مرض کسی تہذیب کو لاحق ہو جاتا ہے تو وہ تہذیب خود کو عالمی تہذیبوں میں اعلیٰ اور برتر سمجھنے لگتی ہے اور یہ گمان کرنے لگتی ہے کہ تمام اختیارات اِسی کو حاصل ہیں اور اس کو حق حاصل ہے کہ وہ باقی تمام تہذیبوں کو ملیا میٹ کر دے۔

مبارک حیدر کی اِس کتاب کو شاید اس دور کی جذباتی کتابوں میں سے ایک شمار کیا جائے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کتاب نے وہ پہلو اجاگر کیے جو ہماری نظروں سے اوجھل تھے یا شاید دماغ کی اُن گہرائیوں میں دفن تھے جن کو باہر آنے کا راستہ معلوم نہ تھا۔

مصنف نے جن پہلوئوں کی نشاندہی کی وہ روایات کا خاصہ بھی ہیںوہ ہماری کوتاہیوں کا پیش خیمہ بھی جن سے ہم نگاہیں چراتے ہی رہے ہیں پوری دنیا اسلام اور دہشت گردی کے درمیان تعلق کی تلاش میں ہے اور ایک بڑی تعداد کے مطابق دہشت گردی اسلام کے بنیادی کردار کا حصہ ہے ایسے میں بہت سے دانشوروں کا یہ کہنا ہے کہ اسلام میں تشدد اور دہشت گردی کا تصور ہی موجود نہیں۔ اگر ایسا ہے تو مسلم معاشروں میں موجود تشدد کی لہر کے خلاف احتجاج نہ ہونے کے برابر کیوں ہے؟

مصنف سوال اُٹھاتے ہیں کہ اگر اسلام میں تشدد اور دہشت گردی کی جگہ نہیں ہے تو ہم ان تشدد پسندوں سے نفرت کیوں نہیں کرتے؟ کیوں نہیں اِ ن کو بُرا بھلا کہتے؟ جبکہ ہم یہ جانتے اور دیکھتے ہیں کہ جب ہمارا معاشرہ کسی عمل سے سخت نفرت کرتا ہے تو وہ عمل پر وان چڑھ نہیں پاتا۔ اور اس کی جڑوں کو نکلنے کا موقع ہی نہیں ملتا پھر کیوں ہمارا معاشرہ بے حسی کی تصویر بنا بیٹھا ہے اور ان لوگوں سے نفرت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں جن کے نزدیک تشدد اُن کی منزل کا راستہ ہے۔ الغرض اس کتاب کا مقصد یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے معاشرے کو تباہی کی طرف دھکیلنے والے عناصر کو روکا جائے اور ان سے اس حد تک نفرت کی جائے کہ یہ عناصر ہماری تہذیب کا حصہ نہ بن سکیں۔

ہم نے اپنے معاشرے کو خود ہی اتنی رسیوں میں اُلجھا دیا ہے کہ ہرگِرہ میںکئی بل ہیں جن کو سلجھانا نہایت دشوار ہے۔ ہم نے خود ہی کچھ زاویوں پر بلا جواز نفرت کی ایسی بلند وبالا دیواریں تعمیر کر رکھی ہیں جن کو کوئی پھلانگنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ لیکن وہ رویے وہ اقدار اور وہ نظریات جو پوری دُنیا کے لیے لمحہ فکریہ بن گئے ہیں اُن کو شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیا ہے۔

یہ کتاب ہمارے خود پسند معاشرے کو آگاہی دلاتی ہے کہ اُن کی خود پسندی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ ایک مرض کی شکل اختیار کر گئی ہے جس کے فوائد تو دربعید اس کے نقصانات ہمارے مستقبل کے چراغوں کو ہوا دینے لگے ہیں۔

مصنف نے سخت الفاظ میں اُن لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے جنہوں نے دین کو سیاست اور روزگار کا حامل بنا رکھا ہے اور اِس کی اصل روح کو مسخ کر دیا ہے۔ نام نہاد مدرسوں اور قاریوں نے مسلمان نوجوانوں کی نفسیات کو اس حد تک نقصان پہنچایا جس نے ان نوجوانوں میں تنگ نظری اور ایذاپسندی کو جنم دیا اور غلبہ اسلام کی تحریک نے زور پکڑا جس کے پیچھے کار فرما عقائد نے معاشرے میں مسلم تہذیبوں کے خلاف اس قدر مضبوط جڑیں قائم کر لیں جن پر تناور درخت کھڑے ہو گئے ہیں اور ان کی وسعت میں اضافہ ہو تا چلاجارہا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی ان کے خلاف آواز بلند کرنے کو تیار نہیں۔

غلبہ اسلام کی تحریک پاکستان اور افغانستان میں کسی اسلامی حکومت کے قیام سے شروع ہوکر مرحلہ وار یہ عزائم رکھتی ہے کہ خلافت کو قائم کیا جائے اور عوام کو درپیش مسائل کو حل کیا جائے پھر تمام مسلم ممالک میں یکجہتی پیدا کر کے قریبی ایشیائی ممالک سے لے کر یورپ اور امریکہ تک کو فتح کیا جائے۔فتح اور شکست کا سلسلہ ازل سے ہی چلا آرہا ہے جس میں دُنیا کی مختلف تہذیبوں نے اپنے اپنے وقتوں میں دوسری تہذیبوں اور قوموں کو فتح کیا۔ ان کے علاقوں پر ظلم کیے۔ ہر فاتح کو ظالم قرار دیا گیا اور مفتوح کو مظلوم ۔ جس کی مثالیں تاریخ میں بے شمار تعداد میں ملتی ہیں اور آج کل بھی نظر آتی ہیں مگر حقیقتاً فتح کے اس انداز پر دنیا کی ہر تہذیب خواہ اُس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو تنقید کرتی ہے اگر ایسا اس تہذیب کے عروج میں نہ ہوا تو اُس کی آئندہ نسلوں نے تنقید ضرور کی بلکہ اکثر فاتح قوموں نے خود اس پر احتجاج کیا۔ مگر اسلامی تاریخ میں اگر چودہ سو سال کا جائزہ لیا جائے تو کوئی ایسا منکر نہیں ملتا جس نے مسلمانوں کے فتح کے انداز پر اعتراض کیا ہو کیونکہ یہ ہر مسلم کے ایمان کا حصہ بنا دیا گیا ہے کہ ہر وہ چیز جو اسلام کے نام پر کی جائے وہ صداقت ہے۔خواہ اُس عمل کے پیچھے کیسے بھی مقاصد کیوں نہ ہوں۔یہی وجہ ہے کہ غلبہ اسلام سے سرشار افراد کے نزدیک اُن کے عقائد اس قدر اہمیت کے حامل ہیں کہ وہ کچھ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں جس میں علماء کا اہم کردار ہے دنیا نے ترقی کی راہ اپنائی اور حالات و واقعات کو بدل ڈالا لیکن مسلم اُمہ کی فکری حالت نہیں بدلی اور وہ صدیوں سے خود کو خود پسندی اور ملی فخر کے غار میں ہی قید کیے بیٹھے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فکری اور علمی سطح پر عقائد کی اصلاح نہ ہونے کی وجہ سے معاشرہ انتشار کا شکار ہو گیا۔

مصنف نے پاکستانی معاشرے میں موجود مذہبی قیادت کا ذکر کرتے ہوئے اِس بات کی نشاندہی کی کہ پاکستان میں مذہبی قیادت اضطراب کا شکار ہے جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ معاشرے کا ہر فرد مذہب کو اٹل معنی میں لیتا ہے مگر عمداً اسلامی اقدار سے دور بھاگتا ہے۔نہ تو دینی قیادت معاشرے کی اصلاح کرنے کی خواہاں ہیں اور نہ ہی سیاسی قیادت اسلامی حکومت کے قیام کے لیے سرگرم جبکہ دونوں قیادتوں کے نزدیک تمام مسائل کا حل اسلامی معاشرہ اور اسلام کی حکومت میں مضمر ہے اور اسلامی حکومت کے قائم ہوتے ہی تمام مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔

وہ اِس زمرے میں صرف تین قسم کی مذہبی قیادت کا ذکر کرتے ہیں۔
1۔ تبلیغی مذہبی قیادت: جو مسائل پر زیادہ تفصیل سے بات نہیں کرتی اور ان کا ذکر اجمالی انداز میں کرتی ہے اور اللہ سے دُعا کرتی ہے کہ وہ ان مسائل کو دور کرکے مسلمانوں کو دنیا میں سرفراز فرمائے۔ جبکہ اِن کا اولین مقصد اسلام کی تبلیغ ہوتا ہے۔
2۔ سیاسی قیادت: جو مذہب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہے۔
3۔ جہادی مذہبی قیادت:یہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام کی حفاظت اور بالاآخر اسلام کے غلبہ کے لیے کام کرتی ہے۔ ان کے لیے عوامی اور قومی مسائل فوری اہمیت نہیں رکھتے۔

الغرض ہماری مذہبی قیادت عوام اور ان کے مسائل سے بے بہرہ ہی رہتے ہیں اِن کو عوام کی پریشانیاں اور تکلیفیں بے چین نہیں کرتیں بلکہ اُن کے لیے ایک ہی چیز مسلسل اضطراب کا باعث بنتی ہے اور وہ معاشرے میں پھیلنے والی فحاشی اور عریانی ہے ۔ یا پھر ارکان اسلام کی ادائیگی میں لوگوں کی کوتاہیاں۔ان کے پاس معاشرتی مسائل کے حل کے لیے کوئی بات عمل نہیں۔ ان کو پریشان کرتے ہیں صرف امریکہ کے عراق اور افغانستان پر مظالم، لیکن اپنے ہاں موجود مظالم اُن کی آنکھ سے اوجھل ہی رہ جاتے ہیں۔

مصنف اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ہمارا مسلم معاشرہ نرگسیت کے مرض کی حدود میں داخل ہو چکا ہے جہاں اس کو صرف اپنا آپ ہی دیکھائی دیتا ہے بغور دیکھیں تو ہماری مسلم تہذیب دوسری تہذیبوں کی موجودگی سے انکار اور اُن کے حق ِ موجودگی سے انحراف کرتی دکھائی دیتی ہے۔ جو کہ نرگسیت کی واضح دلیل ہے۔

نرگسیت علم نفسیات کی اصطلاح ہے جس کا مفہوم خود پسندی ہے۔ جس کی مثبت حالتیں ہر ذی فرد میں پائی جاتی ہیں ۔ جیسا کہ خود اعتمادی،عزت نفس اور مسابقت ۔ حقیقتاً نرگسیت سے مراد بالعموم ایسی نرگسیت ہوتی ہے جس کا علاج کیا جانا چاہیے کیونکہ یہ شخصیت کا مرض ہے جو تنظیمی اور سماجی معاملات میں سنگین مسائل کا سبب بنتاہے اور اِس مرض میں مبتلا افراد اپنے ارد گرد کے دوسرے لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث بنتے ہیں جبکہ المیہ یہ ہے کہ اس مرض میں مبتلا مریض خود کو مریض تصور ہی نہیں کرتا۔نرگسیت کا مرض جس طرح فرد واحد کی شخصیت کو نقصان پہنچاتا ہے، خاندان اور تنظیم کے نقصان کا باعث بنتا ہے اُسی طرح تہذیبی نرگسیت، قوموں اور عالمی تنظیموں کے مخالف کھڑی ہوتی ہے اور ان کو اضطراب کا شکار کرتی ہے جس سے ان کی برادری کی اجتماعی نشوونما کا سلسلہ رُک جاتا ہے۔نرگسیت کا مرض صرف کسی ایک تہذیب میں ہی نہیں پایا جاتا بلکہ اس کی موجودگی کے عناصر ہر انسانی معاشرے میں پائے جاتے ہیں جہاں اجتماعی اور انفرادی نرگسیت کی خصوصیت کا حلیہ اکثر اوقات ایک سا ہی ہوتا ہے مگر ہر معاشرے میں اس کی موجودگی مختلف انداز میں پائی جاتی ہے۔لیکن جب تہذیبوں میں رنگ رنگ کے کلچر اپنی جگہ بنانے لگتے ہیں اور نئے نظریات ، عقائد پیدا ہوتے ہیں تو تہذیبی برداشت اور مفاہمت کا راستہ اپناتے ہوئے نرگسیت کے زور کو توڑ ڈالتی ہیں لیکن وہ تہذیبیں جو اس تبدیلی کے عمل میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں وہ نرگسیت کے مہلک مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔نرگسیت سے چھٹکارا تب ہی ممکن ہوتا ہے جب تبدیلی کے عمل کو چلنے دیا جائے اور اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بنا جائے۔''پاکستان میں ملک سے بغاوت ''کے مظاہر اس بات کو عیاں کرتے ہیں کہ یہاں فرد واحد یا گروہ خود کو مملکت سے بڑ ا یا برابر سمجھتے ہیں اور دوسری طرف مملکت فرد کو کسی آئینی اور قانونی اصول سے تبدیلی کا موقع فراہم نہیں کرتی۔ یعنی فرد اور مملکت اپنی اپنی نرگسیت کا اظہار کرتے ہیں جس سے معاشرہ انتشار کا شکار ہوتا ہے۔تاہم مشاہدات کی رو سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ انفرادی رویوں میں تہذیبی نرگسیت کی چھاپ اتنی ہی گہری ہوتی جاتی ہے جتنی کہ ان کے معاشروں میں اختلاف رائے پر پابندی ہوتی جاتی ہے۔ہمارے ہاں قبائل کو نرگسیت کے مرض سے جوڑا جاتا ہے۔ جبکہ ہم یہ بھول جاتے ہیںکہ دنیا میں بہت سے قبائل نے حالات کے بدلائو کے ساتھ خود کو بھی بدلا اور نئی روایات کو ان ہدایات میں شامل کیا جس سے وہ نئے حالات میں مدغم ہو گئے۔ مگر پاک افغان قبائل کا رخ عالمی معاشروں کے مخالف ہی رہا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ان قبائل نے خود کو نئے حالات کے مطابق ڈھالا انہوں نے نئی اقدار کے خلاف پروپیگنڈا نہیں کیا اور نہ ہی اپنے ارد گرد کے ممالک کو درہم برہم کرنے کے اقدامات کیے جبکہ پاک افغان قبائل کی موجودہ جنگ صرف اپنی قبائلی روایات کے تحفظ کی جنگ مزاحمت نہیں بلکہ یہ جنگ اس تہذیبی نرگسیت کا پھل ہے جس کا رد عمل طیش کی صورت اختیار کر کے عالمی خطرہ بن گیا ہے۔

مریضا نہ نرگسیت کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں۔ نرگسیت کے مرض میں مبتلا فرد ، گروہ یا معاشرہ اپنے ارد گرد باصلاحیت اشخاص ، گروہوں اور سیاستدانوں سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف کردار کشی اور تذلیل و تنقید کی مہم چلاتا ہے اور اس عمل میں وہ اپنی فضیلت اور صلاحیت کو طرح طرح سے بیان کرتے ہیں اور کسی احتیاط یا انکساری کو ضروری نہیں سمجھتے۔ بہر حال نرگسیت میںمریض کسی اصول کا پابند نہیں ہوتا۔ اُسے اپنی خواہشات اور پیش قدمی کے لیے جو بھی موضوں لگتا ہے وہ کر گزرتا ہے مثلاً اگر اُس کو طاقت میں برتری حاصل ہے تو وہ طاقت کو میرٹ قرار دے گا۔

اسی طرح نرگسیت کی ایک اور علامت سازش کا خوف اور احساس مظلومیت ہے۔ مریض کو لگتا ہے کہ لوگ اس کی عظمت سے خائف ہیں اور حسد کرتے ہیں چنانچہ اُس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اس کے لیے وہ ہر ممکن ذریعے سے اپنے ارد گرد کے لوگوں کو خود سے کم تر رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاہم نرگسیت کی علامات کا ذکر کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ نرگسیت کی مندرجہ ذیل علامات ہیں۔
1۔ نرگسیت کے مرض میں مبتلا افراد اپنی ضروریات کو اجتماعی ضروریات پر فوقیت دیتا ہے۔
2۔ جذباتی رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔
3۔ اپنی غلطی کو دوسروں کے سر ڈال دیتا ہے۔
4۔ تکبر، خودنمائی، فخر اور فنکارانہ مطلب برادری کا قائل ہوتا ہے۔
5۔ ندامت اور تشکر سے انکار کرتا ہے۔
6۔ اُس کی گفتگو میں نمائش کا عنصر غالب رہتا ہے۔

نرگسیت اور خوش فہمی بھی باہم لازم و ملزوم دِکھتے ہیں جیسے نرگسیت فرد کی شخصیت کے منفی پہلو کو بڑھاتی ہے اُسی طرح خوش فہمی اُس کی شخصیت کی نشوونما کو روکتی ہے اور اگر خوش فہمی ملکی اور قومی سطح پر آجائے ایسے میں یہ بد ترین شکل اختیار کرتے ہوئے بھیانک نتائج سامنے لاتی ہے۔

معاشرتی حالات سے نکل کر اگر ہم مذہبی حالات کا جائزہ لیں تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ہم مذہب میں بھی نرگسیت کا شکار ہیں ہم نے نرگسیت کا ادراک کرتے ہوئے ایسے تصورات کو شامل کر لیا ہے جو کہ درحقیقت اس طرح سے نہیں ہیں جس طرح سے ہم ان کو بیان کرتے ہیں۔

بقول مصنف اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے ایک دعویٰ ہے جس کی قرآن و حدیث میں کہیں تاکید نہیں کی گئی اور نہ ہی ایسا کوئی مفصل بیان موجود ہے جس سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہوں کہ اس کے بعد کسی ریسرچ، کسی علم کی ضرورت نہیں ہے پھر مصنف کہتاہے کہ خود حدیث نبوی ۖ سے ثابت ہے کہ اجتہاد یعنی اپنی عقل و دانش سے فیصلہ کرنے کا اختیار بعد کے مسلمانوں کو حاصل ہے۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن و حدیث میں دی گئی ہدایات بعض معاملات پر مفصل اور بعض پر نہایت مختصر ہیں اور اسلام کو وقت کے ساتھ بدلنے اور مکمل ہونے کی ضرورت ہمیشہ رہے گی یعنی جب تک دنیا اور انسان کا وجود باقی ہے مسائل اور ان کے حل آتے رہیں گے۔ یعنی قیامت کے دن تک ہر نظام تکمیل کے مراحل سے گذرتا رہے گا۔ یہ تسلیم کر لینا کسی طرح بھی اسلام کی عزت اور فضیلت میں کمی نہیں کرتا۔ چنانچہ یہ دعویٰ کہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے محض مذہبی قیادت پر مسلط ایک طبقہ کا دعویٰ ہے۔ جس کا مقصد صرف اتنا ہے کہ مسلم عوام اس طبقہ سے بے نیاز ہو کر اپنی عقل سلیم اور علم کی بنیاد پر فیصلے کرنے کی جرأت نہ کریں(صفحہ99)۔

دوسرا بڑا مفروضہ جس پر تہذیبی نرگسیت کی بنیاد ہے وہ ہے غلبہ اسلام یعنی ہر دوسرے دین پر اسلام کو غالب کرنا۔ جبکہ قرآن و حدیث میں اس مفروضے کی بھی تاکید کہیں موجود نہیں ہے۔

''مذاہب کا وجود مٹا دینا یا تمام مذاہب کے ماننے والوں پر مسلمانوں کا چھاجانا حکمران ہونا یا غالب آنا اس آیت میں یا کسی دوسری آیت میں موجود نہیں فتح کے ذریعے فضیلت حاصل کرنے کا فلسفہ اگرچہ اسلاف نے اپنایا اور ایک عرصہ مسلمانوں نے دنیا کے بیشتر حصوں پر حکومت کی۔ تاہم اس کا تعلق دین کے کسی حکم سے نہیں۔ نہ ہی کوئی ایسا حکم آج کی دنیا کے لیے دیا جاسکتا ہے کہ جب مسلمان اپنے کردار اور علم کے اعتبار سے دنیا کی پسماندہ ترین قوموں میں سے ہیں(صفحہ102)غلبہ اسلام کے مفروضے پر تنقید کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں کہ مذاہب کا وجود ختم کر دینا یا تمام دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو مسلمان کر لینا۔ حکمران ہونا یا غالب آنا اس بات کا ثبوت نہیں کہ اسلام کا غلبہ ہونا چاہیے۔ تاہم اگر رسول پاکۖ اس موجودہ زمانے میں ہوتے تو تشدد سے بڑھتی ہوئی نفرت اور بین الاقوامی رابطوں کے اس دور میں تشدد کے مقابلے میں سفارت اور مکالمے کو ترجیح دیتے، طاقتور دشمن کی بے انصافی اور ظلم کے خلاف امن پسند اور منصف مزاج قوتوں کو متحرک کرتے ۔ دشمن کی اپنی صفوں میں عدل و انصاف کی جو قوتیں موجود ہیں اُن سب مثبت قوتوں کی حمایت آج ہم نے صرف اس لیے گنوا دی ہے کہ ظلم کے خلاف ہماری نام نہاد جنگ کی کمان رسولۖ جیسے عالمی مدبر کے ہاتھ میں نہیں بلکہ ایسے جاہلوں کے ہاتھ آگئی ہے جن کا نظریہ حیات انسانی تہذیب سے نفرت پر مبنی ہے۔

معاشرے پر تنقید کرتے ہوئے مصنف کا کہنا ہے کہ معاشرے میں نرگسیت ہر فعل و عمل میں پائی جاتی ہے بلکہ ہم اس کو انفرادی کمزوریوں کے زمرے میں ڈال دیتے ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔

چونکہ فرد اور قبیلے کی طرح تہذیبوں کو بھی دوسری تہذیبوں سے رابطے کی ضرورت ہوتی ہے جیسے فرد، قبیلہ کے بغیر ادھورا اور قبیلہ تہذیب کی غیر موجودگی میں نامکمل ہوتا ہے اُسی طرح تہذیب بھی اپنے اندر نامکمل ہوتی ہے اور اس کو اپنی تکمیل کے لیے دوسری تہذیبوں میں شامل ہونا پڑتا ہے۔ اور جب کوئی تہذیب ایسا نہ کرے تو وہ اُس نفسیاتی فرد کی مانند ہو جاتی ہے جس کو معاشرہ اور قبیلہ کہنا چھوڑ دیتا ہے اور اِس کا سفرِ زندگی رُک جاتا ہے۔

روحانیت کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے مصنف نے اس رائے کا اظہار کیا کہ روحانیت کے مفہوم کو سمجھنا نہایت مشکل ہے چونکہ ہر مذہب نے روحانیت کے جو اصول مقرر کیے ہیں وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں ہندو مذہب میں موسیقی کو روح کی غذا گردانا جاتا ہے تو اسلام میں روحانیت کو عبادات میں رکھا گیا ہے۔ مشائخ کے ہاں روح کا سفر تو اِن روز مرہ عبادات سے کہیں آگے جا کر ہی شروع ہوتا ہے جو فرد دن میں پانچ نماز ادا کر کے نبھاتا ہے۔

ایسی صورت حال میں یہ فیصلہ کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے کہ روح کی غذا کس حد تک مقرر کی جائے اور اس کے لیے کیسا طرز اختیار کیا جائے؟ جبکہ حالات اس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں کہ روز بہ روز زندگیوں میں تبدیلی جنم لے رہی ہے۔ بے شمار تحریکیں پنپ رہی ہیں اور یہ تیز تر تبدیلی اِنسانوں میں پریشانی کا باعث ہے جو افراد اِن تبدیلیوں کو اپنانے سے قاصر ہیں اُن کے پائوں اُکھڑ رہے ہیں اور روحانیت جو سکون قلب کا باعث ہے اُس کے معیار کا تعین ایک الگ پریشانی ہے۔

''ایسے ذہنی خلفشار اور فکری خلا میں مذہبی قیادت کا یہ بیان مرہم کی طرح سکون دیتا ہے کہ بندے تیری پریشانی کا باعث یہ ہے کہ تو مادیت کے پیچھے دوڑتے دوڑتے اپنی روح سے غافل ہو گیا ہے۔روحانیت کی طرف پلٹ کہ اسی میں تجھے سکون ملے گا۔''(خبر دار دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ملتا ہے)قرآن کی اس آیت میں اللہ کے ذکر سے مراد کیا ہے اس کے کیا اعلیٰ معنی ہیں اس سے بے خبر مذہبی عالم جو خود دنیا داری ہی میں سر کے بالوں تک ڈوبا ہوا ہے بیان کرتا ہے کہ مذہبی عبادات اور احکام پر عمل کرنا ہی ذکر اللہ ہے ۔ صدیوں کی عادات اور روایت یہی رہی ہیں کہ لوگ مذہب کے تحت زندگی گزار دیتے آئے ہیں۔ چنانچہ عالمِ دین کی یہ آواز اپنی طرف کھینچتی ہے اور فکری تربیت سے محروم عام آدمی قبول کرلیتا ہے کہ پلٹ کر مذہب کی آغوش میں آجانا یعنی اپنے آبائو اجداد کی بتائی ہوئی عبادات پوری کرنا روحانیت ہے۔(صفحہ 116)

کتاب کے آخری اسباق میں مصنف حالات کا تقابلی جائزہ پیش کرتا ہے اور سوال اُٹھاتا ہے کہ کیا اِ ن تمام حالات کو دیکھتے ہوئے''طالبان کے پاس اپنے عوام اور دنیا بھر کے عوام کے لیے موجودہ انسانی اور جمہوری حقوق سے بہتر حقوق موجود ہیں؟ کیا لوگوں پر اُن کی رضامندی کے خلاف ہر طرح کا جبر مسلّط کرنا اور اُن پر جبراً حکومت کرنا، عورتوں کو تمام موجود ہ حقوق سے محروم کر کے انہیں گھروں میں بند کر دینا کیا ایک بہتر دنیا کا نقشہ پیش کرتا ہے(صفحہ 134)

بہر حال یہ بھی حقیقت ہے کہ ازل سے لوگ اپنی عزت نفس کے لیے لڑتے آئے ہیں اور ہر اُس چیز کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں جس کو وہ اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ آج کل کے انسان کی ضروریات بڑھ گئی ہیں اور وہ مساوات، عدل اور ترقی کا خواہاں ہے۔ ایسے میں کیا طالبان بطور قوم دنیا بھر کے انسانوں کی اِ ن امنگوں کو پورا کرنے کے لیے کوئی نظام متعارف کروا سکیں گے؟ آج کل کی دنیا کا دوسرا بڑا المیہ یہ ہے کہ قوموں کے بیچ طاقت کے لیے رسّہ کشی جاری ہے جو کہ علمی برتری سے ہی ممکن ہے کیا طالبان کے پاس ایسا فارمولا ہے جس سے مسابقت کے اِن میدانوں میں انصاف اور توازن قائم ہو سکے؟ کیونکر ایسا کرنے کے لیے پہلے اس دوڑ میں برابر کی شمولیت ضروری ہے۔

آج کی دنیا کا تیسرا بڑا مسئلہ طاقت اور تشدّد کا استعمال ہے۔ کیا طالبان کوئی ایسا لائحہ عمل دے سکتے ہیں جس کی بدولت عالمی براداری خود بخود اِن کی طرف کھینچی چلی آئے؟

چوتھا بڑا مسئلہ آج کی دنیا میں گھٹتے وسائل، بڑھتی آبادی، توانائی، پانی اور خوراک و سائل ، درجہ حرارت کا بڑھنا اور سمندروں کی حدوں کا بلند ہونا ہے ایسے میں کیا طالبان کو اِن مسائل کا علم ہے؟ اور کیا وہ اِن سے نمٹنے کے لیے کوئی لائحہ عمل رکھتے ہیں؟
اور وہ پانچواں بڑا مسئلہ عالمی نظامِ سرمایہ کا ہے جس کی زد میں ہر صدی میں کئی انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ کیا طالبان نے اِن سے نمٹنے کا کوئی طریقہ کار وضع کیا ہے؟

شروع ہی سے یہ طرزِ عمل اپنایا گیا ہے جس میں افراد کے ایک گروہ کو دشمن کے طور پر پیش کیا جاتا رہا تاکہ دوسرے گروہوں میں تعاون اور اتحاد پیدا کیا جاسکے۔ الغرض یہ کہ ایک سیاسی طرز ضرور ہے مگر کچھ ایسا نہیں جس کو تبدیل نہ کیا جاسکے۔ لوگوں کو تعاون اور اتحاد کی لڑی میں پرو کر رکھنے کے لیے کسی دوسرے کو نفرت اور دشمن کا روپ دینا ہرگز درست نہیں۔

شاید وقت آگیا ہے جب ہم اپنے روّیوں کا بغور جائزہ لیں اورنفرت اور اضطراب کے وہ روےّے جو ہماری زندگیوں میں متحرک ہیں اِن کا سِرا کھینچ لیں کیونکہ ''تہذیبی نرگسیت کی اساس نفرت پر محیط ہے اور منفی جذبوں کے اس شجر کا پھل وہ جارحیت ہے جسے اُکسانے کے لیے ایک چھوٹا سا عیار اور منظّم گروہ کئی عشروں سے ہمارے معاشروں میں سرگرم ہے اس منظّم گروہ کی سرپرستی کرنے والے عالمی فنکار بھی اپنی قوموں کا ایک قلیل حصہ ہیں یہ اقلیت کا اکثریت کے خلاف اعلان جنگ ہے۔

تہذیبی نرگسیت کا علاج ممکن ہے۔ لیکن اگر ہم نے خود تنقیدی کا راستہ اختیار نہ کیا تو عالمی برادری کو شاید یہ حق حاصل ہو جائے کہ وہ ہمارے یہ ہاتھ باندھ دے جن سے ہم نہ صرف اپنے بدن کو زخمی کرتے ہیں بلکہ نوع انسانی پر بھی وار کرتے ہیں۔''

مبارک حیدر کی یہ کتاب بلا شک و شبہ لچکدار ذہنوں میں کئی سوالات اُبھارتی ہے جن کے جوابات حاصل کرنے کی جستجو میں وہ ذہن ضرور منزل تک پہنچ سکتے ہیں مگر یہ اُن ذہنوں کے لیے باعثِ ہل چل اور تکلیف دہ ہے جو کہ تصویر کو مخصوص زاویے سے دیکھنے کے عادی ہیں ۔ بہر حال مصنف کی کوشش کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتامگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب افراد کو کچھ سمجھانا مقصود ہو تو اُن کی عزتِ نفس کی پاسداری کی جائے ۔ ان کے نظریات اور عقائد کی ہتک اور تذلیل نہ کی جائے خاص کر مذہب کی اہمیت، اس کے ماننے والوں کے لیے اُن کا کل سرمایہ ہوتی ہے جس پر تنقید وہ برداشت نہیں کرتے۔ بلاشبہ ہمارے معاشرے میں ایسے ناسور پیدا ہو چکے ہیں جن کے خلاف رائے کا کھل کر اظہار کیا جانا چاہیے اور اِن کے غلط رویوں کی نشاندہی بھی کی جانی چاہیے مگر اس کے لیے جو راستہ بھی اختیار کیا جائے اُس میں میانہ روی اور انسانیت کے معیار موجود ہوں تاکہ وہ خود بخود ایسے افراد کو لمحہ فکر مہیا کرے ۔ جو ان کے عقائد کو مزید پختگی نہ دے اور نہ ہی تنقید برائے تنقید کا باعث بنے کیونکہ بعض اوقات خالص تنقید بھی نرگسیت کے مرض کی پیدائش کا باعث بن سکتی ہے۔