working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

برطانیہ میں پاکستانی طلبہ کی گرفتاری
مجتبیٰ محمد راٹھور
برطانیہ میں دہشت گردی کے شعبے میں پاکستانی طلباء کی گرفتاری اور رہائی کا ایشو آج کل پاکستان اور برطانیہ کے مابین تعلقات کے حوالے سے بہت اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ حکومت پاکستان کو سخت تشویش ہے کہ اس طرح نہ صرف عالمی سطح پر پاکستان کا امیج متاثر ہوا ہے بلکہ برطانیہ میں زیر تعلیم ہزاروں پاکستانی طلباء کا مستقبل بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ اس سلسلہ میں برطانوی وزیر اعظم گورڈن برائون گذشتہ دنوں پاکستان آئے ۔ خیال ہے کہ برطانیہ خفیہ اداروں کے سیکورٹی فائل منظر عام پر آجانے کی وجہ سے پاکستان طلباء کو قبل از وقت گرفتار کرنا پڑا جب ان کے پاس مکمل شواہد نہیں تھے ۔ چنانچہ جب وہ عدالت کو ثبوت نہیں دکھا سکے تو ان کی رہائی ایک یقینی امر تھی۔ اس حوالے سے خصوصی رپورٹ نذر قارئین ہے۔ (مدیر)
برطانیہ میں زیر تعلیم گیارہ پاکستانی طلباء کی دہشت گردی کی منصوبہ بندی کے الزام کے تحت گرفتاری اور پھر ان کی عدم ثبوت کی بنا پر رہائی سے تمام پاکستانی طلبائ(تقریباً 40ہزار)میں جو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے برطانیہ میں مقیم ہیں خوف و ہراس کی لہر پیدا ہو گئی ہے۔ اور وہ اپنے تعلیمی مستقبل کے حوالے سے اندیشے اور خوف میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان طلباء کی گرفتاری سے حکومت برطانیہ اور ان کی خفیہ ایجنسیوں کو برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کے سخت ردِ عمل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان اور حکومت برطانیہ کے تعلقات بھی متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے برطانیہ کے خفیہ اداروں کو مکمل تفتیش کے بعد بھی کوئی ایسے ٹھوس ثبوت نہیں ملے جن کی بنا پر ان طلباء کا دہشت گردی کے منصوبے میں شامل ہونا ثابت کیا جاسکتا تھا۔اس لیے ان کو جلد رہا کرنا پڑا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق گرفتار ہونے والے طلباء کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقہ جات اور صوبہ سرحد سے ہے۔ اور ان طلبا کو نارتھ ویسٹ انگلینڈ سے گرفتار کیا گیا ۔ ان گرفتار شدگان پر الزام تھا کہ ان کے پاکستانی گروپس اور القاعدہ سے تعلقات ہیں اور یہ لوگ ایسٹرکے موقع پر تعطیلات کے دوران دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ان کے دہشت گردی سے متعلق ملنے والا ثبوت یہ بتایا جارہا تھا کہ انہیں برطانیہ کے خفیہ اداروں نے معروف مراکز پر جہاں ایسٹر کے موقع پر بڑی خریداری کی جاتی ہے۔ ان تاریخوں سے متعلق گفتگو کرتے سنا ہے جن پر ایسٹر کے حوالے سے خریداری عروج پر ہوتی ہے۔

گرفتار ہونے والے11طلباء میں سے 10کے پاس سٹوڈنٹ ویزہ تھا۔ اور وہ مختلف ڈگری اور کورسز کے لیے برطانیہ میں زیر تعلیم ہیں۔ جبکہ ایک پاکستانی جس کو انگلینڈ کی بارڈر ایجنسی جو امیگریشن کو ڈیل کرتی ہے کے حوالے کر دیا گیا ہے وہ ورک پرمٹ ویزہ کے تحت وہاں مقیم تھا۔ جبکہ ان پاکستانی طلباء کے ساتھ ایک برطانوی شہری کو بھی گرفتار کیا گیا ۔ جس کے متعلق شبہ ہے کہ اس کا تعلق پاکستان کے قبائلی علاقوں کے گروپس کے ساتھ ہو سکتا ہے گروپ کے سرغنہ کا نام عابد نصیر بتایا گیا۔جبکہ دیگر طلباء میں حمزہ شنواری، محمد رمضان، سلطان شیر اور عبد الوہاب خان شامل ہیں۔ دو طلباء جانس خان اور عمر فاروق سکیورٹی گارڈ کی ملازمت کر رہے تھے۔ جن کو لنکا شائر سے گرفتار کیا گیا۔

برطانیہ میں اس وقت غیر ملکی طلباء و طالبات کی تعداد ساڑھے تین لاکھ سے زائد ہے۔ پاکستان سے ہر سال تقریباً10ہزار طلباء تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ جاتے ہیں ۔ کیونکہ برطانوی تعلیمی اداروں سے ملنے والی ڈگری اور ڈپلومے پاکستان کے کسی بھی ادارے سے جاری ہونے والی اسناد کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ برطانوی حکومت پاکستانی طلباء کو برطانیہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بہترین مواقع فراہم کر رہی ہے اور سٹوڈنٹ ویزہ کے حصول کے لیے کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ڈالتی۔ اس کے ساتھ ساتھ برطانوی ادارے داخلوں کے لیے پاکستان کے اندر مختلف پروگرام منعقد کرواتے ہیں۔ تاکہ طلباء زیادہ سے زیادہ ان اداروں میں داخلہ لیں ۔ اس طرح وہ پاکستانی طلباء سے بھاری فیسیں حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان سے برطانیہ جانے والے طلباء کی اکثریت لندن اور نارتھ ویسٹ انگلینڈ کے اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔اور ان طلبا ء کی اکثریت اپنے تعلیمی اداروں اور دیگر اخراجات پورے کرنے کے لیے پارٹ ٹائم ملازمت کرتی ہے۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ برطانیہ میں پاکستان کی نسبت اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا نہایت آسان ہے۔ لیکن پاکستانی طلبا کی دہشت گردی کے الزام کے تحت گرفتاری نے دیگر طلباء کو بھی اس پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ کہ حکومت برطانیہ یا سیکیورٹی ادارے جب چاہیں گے ان پر دہشت گردی کا الزام تھونپ کر انہیں ملک بدر کر سکتے ہیں۔ اس طرح تو ان کی اعلیٰ تعلیم کی خواہش ادھوری رہ جائے گی۔برطانیہ کی جانب سے ان طلباء کی گرفتاری کو ہم دو طرح سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ایک برطانیہ کا ویزہ سسٹم اور دوسرا کیا پاکستانی طلباء دہشت گردی کی کارروائی کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں یا نہیں؟

برطانیہ کے جب ہم ویزا کے نظام کو دیکھتے ہیں تو بحیثیت پاکستانی ہمیں اس بات کی خوشی ہونی چاہیے کہ ہمارے 10ہزار طلباء ہر سال برطانیہ جاتے ہیں اور یہ سب کچھ تعلیمی ویزا کی سہولت کی بدولت ممکن ہوتا ہے۔ اس بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں برطانیہ کا سفارت خانہ طلباء کے صرف کاغذات چیک کرتا ہے۔ اور اس کو یہ سروکار نہیں کہ وہ کس علاقے سے ہے یا اس کا تعلق کس تنظیم سے ہو سکتا ہے یا نہیں کیونکہ یہ کام ان کے سفارت خانے کے ذریعے ناممکن ہے۔ جب تک کہ وہ پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی مدد نہیں لیتے۔ پھر اگر برطانیہ نے اتنے طلباء کو تعلیمی ویزے جاری کیے ہیں تو ان پر برطانیہ کے اندر بھی چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا جاسکتا۔ کہ وہ کیا کرتے ہیں اور کن سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔ حالیہ پاکستانی طلباء کی گرفتاری سے پہلے چند ایک واقعات ہوئے ہیں جن میں پاکستانی طلباء یا پاکستانی کمیونٹی کے القاعدہ اور پاکستانی تنظیموں سے تعلقات کا خدشہ پایا گیا ہے۔ لیکن ابھی تک کوئی ایسا واضح کیس سامنے نہیں آیا۔ جس کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہو کہ یہ دہشت گرد اپنے لوگوں کو تعلیمی ویزا کے ذریعے برطانیہ بھیج سکتے یا بھیج رہے ہیں۔ جہاں تک ان طلباء کی گرفتاری کا تعلق ہے تو برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں کے مطابق انہوں نے ٹھوس معلومات کے مطابق ان طلباء کی پہلے نگرانی کی ہے اور پھر ان کو گرفتار کیا ہے۔ اور برطانیہ کے قانون کے مطابق سیکیورٹی ادارے کسی بھی شخص کو دہشت گردی کے شبہ میں گرفتار کر سکتے ہیں۔ اور 28دن تک اس سے تفتیش کر سکتے ہیں۔ اس قسم کے قانون کا ہونا کسی بھی ملک کے اپنے مفاد میں ہوتا ہے۔ جیسا کہ ہمارے اپنے ملک میں بھی اگر کسی پر شبہ ہوتو پولیس یا سیکیورٹی ادارے اسے فوراً غائب کر دیتے ہیں تاوقتیکہ اسے عدالت میں پیش نہ کیا جائے۔ اگر ہم معاملہ کو اس تناظر میں دیکھیں کہ کسی کو صرف شبہ کی بنیاد پر گرفتار کرنااور پھر اس کا میڈیا ٹرائل کرنا کیا انسانی حقوق کی پامالی کے مترادف ہے؟ تو حکومت برطانیہ کا یہ اقدام بھی انسانی حقوق کی پامالی کے دوسرے میں آتا ہے۔ کیونکہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے ان پر دہشت گردی کا الزام لگانا ۔ ان کی عزت نفس مجروح کرنے کے مترادف ہے اس کے لیے حکومت برطانیہ کو چاہیے تھا کہ ان کو گرفتار کرنے سے پہلے ان سے رسمی پوچھ گچھ کرتی اور اگر اسے شک پیدا ہوتا تو ان کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ مزید تفتیش کے لیے پھر انہیں عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔ اگر کسی بھی کارروائی کا مناسب طریقہ کار واضح کیا جائے۔ جس سے کارروائی صاف و شفاف دکھائی دیتی ہو۔ اور اس سے کسی کی عزت کی ہتک نہ ہو۔ اور نہ ہی کارروائی کسی خاص کمیونٹی کو نشانہ بنانے کے لیے کی جائے تو پھر یہ اقدام درست قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی کمیونٹی یہ خیال کرتی ہے کہ صرف ان کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تو ان کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہونا چاہیے۔
اسی واقعے کو جب ہم اس تناظر میں دیکھتے ہیں کہ کیا پاکستانی طلباء دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہو سکتے ہیں یا نہیں تواس بات میں کوئی شک نہیں کہ القاعدہ اور اس کی تمام ذیلی تنظیمیں پاکستان کے اندر مضبوط نیٹ ورک رکھتی ہیں۔ اور ان کے لیے پڑھے لکھے طبقہ کو بھی اپنے راستے پر لانا مشکل نہیں۔ کیونکہ کئی انجینئر ز، پروفیسرز اور ڈاکٹرز ان تنظیموں کے ممبران ہیں۔ جو اپنے طلباء کو بھی اس شدت پسندی کی طرف لا رہے ہیں۔طالب علم چاہے وہ پاکستان کے قبائلی علاقے جو ان تنظیموں کا ہیڈ کوارٹر ہے کا ہو یا پاکستان کے کسی دیگر علاقے کا ہو۔ جب وہ ان تنظیموں کے ہاتھ لگتا ہے تو وہ اسے کئی طریقوں سے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور ان میں سے سب سے زیادہ پڑھے لکھے کو یورپ اور دیگر ممالک میں اپنے مشن پر بھی بھیجتے ہیں۔ تو ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے ہم اس بات سے یکسر انکارنہیں کر سکتے کہ پاکستانی طلباء دہشت گردی کی منصوبہ بندی میں شریک ہوتے ہیں۔ یا وہ ان کا آلہ کار بنتے ہیں۔ صرف ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ طلباء جو انتہائی محنت و مشقت کے بعد اپنے اور اپنے خاندان کے لیے بیرون ملک کی سختیاں جھیلتے ہیں ان کو اپنے اندر چھپی کالی بھیڑوں کو سامنے لانا ہو گا۔ اور اس کے لیے انہیں وہاں کی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کی بھرپور مدد کرنی ہوگی۔اور اگر کوئی طالب علم غلطی سے گرفتار ہوتا ہے تو مشترکہ طور پر مل کر آئندہ اس قسم کے غلطیوں کے ازالہ کے لیے سیکیورٹی اداروں سے تعاون کرنا ہوگا۔ تاکہ وہ اپنے مقصد کے حصول اور اپنے وطن کے مستقبل کے اعلیٰ معمار ثابت ہو سکیں۔