working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

شدت پسندی اس کا تدارک اور ریاستی اداروں کی ذمہ داریاں
جوشوا ٹی وائٹ
جوشوا ٹی وائٹ جان ہاپکنز یونیورسٹی واشنگٹن کے سینٹر، فیتھ اینڈ انٹرنیشنل افیئرز کے ریسرچ فیلو اور اسی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کے طالب علم بھی ہیں۔ انھیں امریکہ میں جنوبی ایشیائی امور سے متعلق ایک ماہر کی حیثیت حاصل ہے۔ وہ 2005-06 کے دوران اپنی تحقیق کے سلسلہ میں پشاور میں قیام پذیر رہے۔ ان کا زیرِنظر تحقیقی مضمون، پاکستان کے علاقے صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میں انتہا پسندانہ یورش کے حوالے سے مختلف جہتوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس مضمون کی خاصیت یہ ہے کہ اس میں جہاں پس منظر اور پیش منظر پر مفصل بحث کی گئی ہے وہاں پر حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں مستقبل کا بھی ایک نقشہ کھینچا گیا ہے جو اس مطالعے کی اہمیت کو اور بھی دوچند کر دیتا ہے اور یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ پاکستان سے باہر بیٹھے ہوئے دنیا کے دانشور اور مفکر ان حالات کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ مضمون نذرِ قارئین کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا احساس بھی ہے کہ فی الوقت کچھ نئے واقعات بھی ظہور پذیر ہو چکے ہیں جن پر اس وقت مصنف کی نگاہ نہیں تھی، تاہم اس کے باوجود اس مطالعے کی اہمیت کم نہیں ہوتی کیونکہ اس مضمون کا پس منظر واقعاتی سے زیادہ تحقیقی ہے۔ (مدیر)

پاکستان کے مغربی سرحدی علاقے گزشتہ تین دہائیوں سے مذہبی انتہاپسندی کی لپیٹ میں رہے ہیں۔ افغانستان میں 1980ء کی دہائی سے روسی جارحیت کے خلاف یہ خطہ ایک مرکزی حیثیت اختیار کر چکاتھا۔ یہی وجہ ہے کہ1988ء میں القاعدہ نے بھی اپنے بال و پر درست کرنے کے لیے اسی سرزمین کاانتخاب کیا۔ جب کہ1994ء کی طالبان تحریکوں کے پیچھے بھی یہاں پنپنے والے تمام عوامل کار فرما رہے۔ حالیہ برسوں میں ایک نئی طالبان تحریک معرض وجود میں آئی ہے جس کے ڈانڈے بھی اسی خطے کی مذہبی سیاسی اور جغرافیائی حالات سے جاکر ملتے ہیں۔ ان عوامل کے کارفرماہونے کے پیچھے تین چیزیں نہایت اہم تسلیم کی گئی ہیں جن میں طالبان کا ہاتھ ہے۔

مغربی اہداف کے نقطہ نظر کے حوالے سے انہوں نے افغان تنازع کے تناظر میں کرزئی حکومت کاتختہ الٹنے کے لیے خاصہ کام کیا ۔اس کے علاوہ ان کا دوسرااہم مقصد مغربی ممالک کے اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ایک محفوظ جنت کا انتخاب کرناتھا۔جہاں القاعدہ کی نشوونما مقصود تھی۔ تیسرا اہم ہدف یہ تھا کہ وہ پاکستان پر گہری نظر رکھناچاہتے تھے تاکہ ایک طرف تو فاٹا میں اثر و رسوخ بڑھاسکیں اور دوسرا صوبہ سرحد اور اس کے بندوبستی علاقوں میں اسلامی حکومت کی راہ ہموار کی جاسکے۔ اس طرح حکومت پاکستان کا امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے ساتھ تعاون کو بھی کمزور کرنامقصود تھا۔اس تمام صورت حال سے نبردآزما ہونے کے لیے تجزیہ نگار چند اہم نکات پر زور دیتے ہیں۔ جس میں سرفہرست پاک افغان تعلقات ہیں۔ جن کی مضبوطی سے ہی دہشت گردی کامقابلہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ مگر پاکستان میں جہادی گروپوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے چند اہم چیلنجز درپیش ہے۔ جن کی وجہ سے امریکہ کی ترجیحات کھٹائی میں پڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس تمام صورت حال کے بگاڑ میں2002ء سے لے کر 2007ء کے درمیان صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل(ایم ایم اے) کی حکومت کاکردار رہاہے اور اسی وجہ سے تمام صورت حال نے موجودہ خطرناک شکل اختیار کی ہے جو بالآخر طالبان کی بغاوت اور پشتون قومیت پرستوں کی واپسی پر منتج ہوئی۔

تجزیہ نگار امریکہ مداخلت کے حوالے سے ایسی تجاویز کی سفارش کرتے ہیں جس میں صوبہ سرحد میں قانون کی عمل داری ممکن ہے ۔جہادی اور مذہبی شدت پسندوں سے بھرپور طریقے سے نبٹنے کے لیے پاکستان کی حکومت کو امریکہ کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی کرناہوگی کیونکہ بندوبستی اور قبائلی علاقوں میں امن وامان بحال کرناتنہا،پاکستان کے بس کاروگ نہیں ہے۔ عسکری حکمت عملی کے علاوہ بھی دونوں حکومتوں کو ان شورش زدہ علاقوں میں طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ جس میں سیاسی استحکام، مضبوط حکومت کا قیام اور اعتدال پسند مذہبی عناصر کاعمل دخل ہوناچاہیے۔گزشتہ دو سالوں سے صوبہ سرحد جنگ کی لپیٹ میں رہاہے۔ جس کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں حکومتی عمل داری بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ دوسری طرف فاٹا میں سیاسی اصلاحات کی وجہ سے بندوبستی علاقوں جیسی صورت حال کاسامنا بھی کرنا پڑ رہاہے اور دونوں جانب مذہبی گروہوں کے لیے ہمدردی کے جذبات میں تیزی سے اضافہ ہواہے۔ وہ مذہبی عناصر جو کبھی بندوبستی علاقوں میں اپناوجود رکھتے تھے اب فاٹا کے علاقہ میں اپنی جگہ بناچکے تھے۔

2001ء سے 2008ء تک صوبہ سرحد میںاسلامی سیاست کاعمل دخل
جدید اسلام پسندی کی حدود و قیود
2002ء سے 2005ء تک صوبہ سرحد میں مذہبی جماعتوں کی حکمرانی سے سیاسی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ جس نے اسلامی سیاسی رویوں کو نئی جہت دی۔ متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے مکمل طور پر طالبان طرز کی حکمت عملی سے گریز کیا اورنئی راہیں، اندرونی اور بیرونی دبائو کی وجہ سے نسبتاً بہتر ایجنڈے پر عمل درآمد کرتے ہوئے منتخب کیں۔ یہی وجہ ہے کہ2008ء کے الیکشن میں ظاہری شکست کے باوجود عوامی حلقوں میں ان کے کردار سے صرف نظر نہیںکیاجاسکتا۔ جونہی وفاق میںمسلم لیگ نواز اقتدار میں آئے گی تو یہ مذہبی پارٹیاں بھی اس کے زیر سایہ صوبہ سرحد کی سیاست میں دوبارہ استحکام حاصل کر لیں گی ۔ امریکہ جو کہ عموماً مذہبی جماعتوں سے میل جول نہیں رکھتا۔ اس کو بھی متحدہ مجلس عمل جیسی اسلامی جماعتوں کے ساتھ تعاون کی پالیسی اختیار کرناہوگی۔

مذہبی انتہاپسندی پر فکری تقسیم
2005ء سے نئے طالبان کی آمد نے بڑی مذہبی پارٹیوں کے استعداد کار کو متاثر کیا ہے۔ خصوصاً متحدہ مجلس عمل میں جماعت اسلامی ،جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) اور عسکریت پسند جماعت تحریک طالبان پاکستان (TTP)کے تعلقات میں دوری پیداہوئی ہے۔ حالانکہ ان دونوں جماعتوں میں مغرب اور شریعت کے حوالے سے مفاہمت پائی جاتی ہے۔ مذہبی جماعتیں نئے طالبان کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے تذبذب کاشکار ہیں اور ان کی تحریک کے پھیلائو کو اپنے لیے خطرہ بھی سمجھتی ہیں۔خصوصاً ان علاقوں میں جہاں اسلامی جمہوری عناصر کی حمایت موجود تھی۔ وہاں اس تحریک کے پھیلائو سے جمعیت علمائے اسلام(ف گروپ) کو خاصا دھچکا پہنچاہے کیونکہ نوجوان نسل جو مدرسوں سے فارغ التحصیل ہو رہی ہے عسکریت پسندوں کے گروپوں میں شامل ہوتی جارہی ہے جس سے پراناسیاسی تسلسل بری طرح مجروح ہواہے۔

باغیانہ رویے اور مقامی سیاست
2002ء کے تجزیہ نگاروں نے متحدہ مجلس عمل کو افغان طالبان کے تناظر میں جانچنے پر غلطی کاارتکاب کیا جس سے وہ سیاسی مفادات نہ حاصل کر سکے۔بالکل اسی طرح اب وہ نئے طالبان کو القاعدہ کے حوالے سے دیکھنے کی غلطی کر رہے ہیں اور اس طرح وہ عسکریت پسند گروہوں کو جو کہ مقامی اور مذہبی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،کو پرکھنے میں بھی بالکل غلط اندازے لگارہے ہیں۔ نئی طالبان تنظیمیں سوات ،خیبر، درہ آدم خیل اور جنوبی وزیرستان میں باہم سرگرم عمل ہیں۔ جن کے لیے حکومت کو ایک نئی حکمت عملی سے نمٹنا پڑے گا۔

قانون سازیاں اور امن معاہدے
2006ء کا وزیرستان معاہدہ جوکہ پاکستانی فوج اور مقامی عسکریت پسندوں کے مابین ہوا تھا ناکام ہوا۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ نئے طالبان گروہوں کے درمیان معاہدوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ حالانکہ ناکام شدہ امن معاہدہ کئی حوالوں سے متاثر کن بھی رہا اور حکومتی مداخلت کے حوالے سے کئی شقیں حوصلہ افزا تھیں۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتاہے کہ گفت و شنید سے ہی باغیانہ عناصر کی سرگرمیوں پر بہتر نظر رکھناممکن ہے۔

غیر مذہبی اور شریعتی حکومت کی احمقانہ بحث
2008 ء کے الیکشن میں ایم ایم اے کی شکست سے یہ بات واضح ہوگئی کہ میانہ رو وطن پرستوںنے مذہبی جماعتوں کو صوبہ سرحد سے نکال باہر کیا۔عوامی نیشنل پارٹی نے اسلام پسند حکومت کی ناکام پالیسیوں کابھرپور فائدہ اٹھایا۔ جس سے اسلام کے اصل مذہبی اور سیاسی جذبات کوتقویت ملی۔اے این پی اور پی پی پی کے اتحاد سے جدید اور نئے اسلامی خیالات کا احیاء ہوا اور جدید شریعتی قوانین کی راہ ہموار ہوئی جس سے عسکریت پسندوں کی عوامی حمایت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

مقامی حکومتوں کا نظام اور اسلام
صوبہ سرحد میں نئے عسکریت پسندوں کا وجود سیاسی اور نظریاتی بنیادوں پر استوار ہے لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے حکومتی عملداری کے حوالے سے ریاستی ڈھانچے کی ساخت پر کم توجہ دی گئی۔ جس کی وجہ سے باغیانہ عناصر نے سر اٹھایا۔ جنرل مشرف کی 2002ء کی اصلاحات نے مقامی حکومتوں کے حوالے سے ان عناصر کو مضبوط کیا اور یہ لوگ قبائلی اور بندوبستی علاقوں میں مضبوط تر ہو گئے اور اس طرح بھی حکومتی عملداری بُری طرح متاثر ہو تی گئی۔

صوبہ سرحد میں باغی مخالف منصوبہ بندی
بندوبستی علاقوں میں مقامی آبادیوں میں یہ خیال فروغ پا رہا ہے کہ نئے طالبان گروپ مذہبی تحریکوں کی بجائے جرائم پیشہ گروپوں کا اتحاد ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کئی علاقوں سے انہیں واپس دھکیلا جا رہا ہے ایسے موقع پر امریکہ کو چاہیے کہ صوبائی حکومت سے مل کر فائدہ اٹھائے اور فنڈ مہیا کرے اور پولیس کے ساتھ مل کر فوری کاروائی کرے۔ مقامی آبادیوں میں لشکر وں کوتربیت دے اور مقامی طور پر انصاف مہیا کرے۔امریکی پالیسی ساز اداروں کو چاہیے مقامی حکومتوں کے دائرے میں صوبائی حکومت کو مضبوط کرے تا کہ حکومت کی بنیادیں مضبوط ہوں اور اس طرح عسکریت پسندوں کے خلاف نمٹنے کے لیے آسانی پیدا ہوگی۔

فاٹا میں منصوبہ بندی
فاٹا میں امریکی حکومت زیادہ تر ایف سی کی تربیت اور جدید آلات مہیا کرنے پر زور دیتی رہی ہے ۔ لیکن جب تک اداروں میں نتیجہ خیز اصلاحات نہ کی جائیں گی تب تلک باغیوں کی سر گرمیوں پر پوری طرح قابو پا نانا ممکن ہے۔ امریکہ کو چاہیے کہ پاکستان کے دوست ممالک کی تنظیموں کے دائرہ کار کو وسیع کرے تاکہ فاٹامیں مختلف قسم کے ترقیاتی کاموں کا آغاز ہو اس طرح یہ کنسورشیم جدید اصلاحات کو ممکن بنانے کے لیے مختلف قبائلی علاقوں میں کئی زون بنائے جس سے حکومت کی اصلاحات میں تیزی آسکے گی اور لوگوں کی مختلف کونسلوں میں رسائی ممکن ہوگی اور جلد انصاف ملے گا۔ اس طرح پورے فاٹا میں ترقیاتی پروگرام کا آغاز ہو سکے گا اور سیاسی استحکام کی بھی راہ ہموار ہو گی۔

دوسرے عوامل کا کردار
پا کستانی حکومت کا قبائلی ڈھانچے کی تاریخی ساخت کے حوالے سے تاریخی عمل دخل رہا ہے۔ امریکی پالیسی ساز اداروں نے بھی عراق کی جنگ کے دوران جو انبار آپریشن ترتیب دیا ویسا ہی تجربہ پاکستان میں بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن اس قسم کی حکمت عملی قبائلی سوچ کے حوالے سے مختلف مشکلات کا باعث بن سکتاہے۔پشتون قبائلی نظام میں قبائلی لشکر وں کا و جود کامیابی کا باعث بن سکتا ہے اگر اسے حکومتی سرپرستی حاصل ہو لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ عارضی اتحاد جلدی ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے یا حکومت کے خلاف ہی اٹھ کھڑا ہو۔ اس لیے جو بھی قدم اٹھایا جائے اس میں سیاسی استحکام و سا لمیت ضروری ہے جس میں مقامی آبادیوں کا عمل دخل اور نسبتاً معتدل مزاج اسلامی گروپوں کی حمایت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔

موثر ترقیاتی منصوبہ بندی
فاٹا میں باغیانہ عناصر کی موثر سرکوبی اور قبائلی مقامی اداروں کی مضبوطی کے لیے تعمیری پروگرام ترتیب دینے چاہیں ۔ یو ، ایس۔ ایڈ (USAID)کے پروگراموں کو سیاسی مدد سے آگے بڑھانا چاہیے۔ جس سے فاٹا میں امریکی اثرورسوخ میں اضافہ ہو گا۔ اور سرحدکے ساتھ ساتھ امن قائم کرنے کے لیے حوصلہ افزائی ہو گی۔ امریکی ترقیاتی کاموں کے لیے براہ راست مدد دینی چاہیے اور جدید مدرسوں کے پھیلے ہوئے نظام میں ہنر مندوں کو تلاش کر کے تربیتی پروگرام شروع کرنے چاہیں۔

اختتامیہ
امریکہ جو کہ ایسے مضبوط اور دیرپا فارمولا کی تلاش میں کام کر ر ہا ہے اور یہ بخوبی سمجھتا ہے کہ صوبہ سرحد کے لوگ اسلام کے حوالے سے راسخ العقیدہ ہیں اس لیے ایسے عوامل کی حوصلہ افزائی کی جائے جو کہ جمہوری تسلسل کو فروغ دیں اور جس سے حکومت کی عملداری مضبوط ہو اور ایسے عناصر کو بھی جو کہ مقامی سیاسی اداروں کی بنیاد پر روایتی اور نظریاتی امنگوں کے ترجمان ہوں کی مدد کرے۔ اور یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ باغیانہ عناصر اور آزدای کی مخالفت کرنے والوں کی بیخ کنی سیاسی عمل کی بقا میں مضمر ہے۔

صوبہ سرحد 2010ء میں
حالیہ کشیدہ صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے مصنف نے حکومت پاکستان کی پالیسیوں ، امریکیوں کی سرگرمیوں اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کا فرضی خاکہ کھینچا ہے جس میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ امریکی تعاون سے کس حد تک طالبان کی پیش رفت میں رخنہ اندازی کی گئی ہے۔ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کس نہج پر ہیں۔ تمثیل کچھ اس طرح چلتی ہے کہ یہ 2010ء ہے دو سال پہلے صوبہ سرحد کی صورت حال نہایت دگرگوں تھی۔ سوات میں تحریک طالبان پاکستان (TTP)کے عسکریت پسند پاکستانی فوج کے ساتھ نبرد آزما تھے اور مختلف باغی خیبر ایجنسی سے پشاور پر چڑھ دوڑنے کی باتیں کر رہے تھے ۔ باجوڑ آپریشن کی وجہ سے فاٹا کے رہنے والے بندوبستی علاقوں کی جانب ہجرت کر گئے تھے اور صوبہ سرحد کی حکومت کے افسران باقاعدگی سے عسکریت پسندوں کا نشانہ بنتے رہے تھے۔ پاکستان آرمی کے آپریشن کے باوجود امریکہ فکر مند تھا کہ باغیوں کی بیخ کنی کے باوجود یہ لوگ بندوبستی علاقوں تک اپنااثر و رسوخ پھیلاچکے تھے اور مرکز میں نئی منتخب حکومت کے لیے مسائل کا انبارلگ چکاتھا جب کہ امریکن پالیسی ساز اداے فکر مند تھے کہ واشنگٹن نے بذات خود صوبہ سرحد پر کم توجہ مرکوز کی اور اپنے آپ کو محض منشیات کی سمگلنگ اور چند ترقیاتی پروگرام اورکچھ سماجی کاموں تک محدود رکھا۔2009ء کے شروع میں امریکی افسران نے اسلام آباد کی مرکزی حکومت اور صوبہ سرحد کی حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد بندوبستی علاقوں میں باغیوں کی سرگرمیوں کے حوالے سے دو اہم نکات کی نشاندہی کی جس سے طالبان کے پھیلائو میں مدد فراہم ہوتی تھی۔ جس میں سے ایک اہم نکتہ بروقت انصاف کی فراہمی کے سلسلے میں رکاوٹ تھی جس کی وجہ سے طالبان گروپوں نے قاضی عدالتوں کا نظام متعارف کرایا اور دوسرا طالبان کی سرکوبی کے لیے حکومتی اداورں کی بے حسی تھی جو بروقت اقدامات سے گریز کرتی رہی تھی۔ چنانچہ مقامی آبادی عسکریت پسندوں کے رحم و کرم پر تھی پہلے مسئلے کے حل کی جانب یو ۔ایس حکومت نے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر یو ایس ایڈ (USAID)کی وساطت سے جمہوری حکومتی پروگرام ترتیب دیئے۔ زمینی حقائق سے اس بات کی نشاندہی ہوچکی تھی کہ یہی چار اضلاع ایسے تھے جہاں نئے طالبان کے لیے حالات نہایت موافق تھے۔ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہاں زیادہ تر مقامی لوگ شریعت کی عمل داری چاہتے تھے لیکن وہ اس بات کی خواہش نہیں رکھتے تھے کہ ان پر ملا حکمران ہو یا افغان طرز کی طالبانی حکومت کی ظالمانہ سزائیں نافذ کی جائیں۔ اس منصوبے کے دوسرے مرحلے میں امریکی حکومت نے ضلعی عدالتوں کے حوالے سے اپنے فنڈز کی رفتار تیز کی اور ایسے اقدامات کیے جس کی مدد سے مقامی تنازعوں کے حل کے لیے مقامی قبائلی روایتوں کو بھی مدنظر رکھاگیا۔

عوام کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے بندوبستی علاقوں میں پولیس کی طاقت کو بہتر بنانے پر اقدامات اٹھائے گئے کیونکہ پولیس ہی ایک ایسی دفاعی قوت ہے جس کا اگلے دفاعی مورچوں پر ہوناضروری تھا۔ گو کہ پاکستانی فوج ایک سریع الحرکت خاصیت رکھتی ہے لیکن ان علاقوں میں اکثر ان کو بھی مزاحمت کاسامنا کرناپڑا۔ مقامی حکومتی عہدیدار اکثر یہ کہتے سنے گئے تھے کہ صوبائی حکومت ایسی مضبوط پولیس کی طاقت کی تشکیل نو کرے جو فوراً موقع پر پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہو تاکہ لوگوں کو عدم تحفظ کاشکا رنہ ہوناپڑے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ باغیوں کی سرگرمیوں پرنظر رکھے اور متنازعہ فی علاقوں میں فوری کارروائی کرے۔

حالات سے پتہ چلتاہے کہ امریکی بیورو کریسی صوبہ سرحد میں پولیس کی اصلاحات کے حوالے سے اپنے خیالات کلی طور پر مجتمع نہ کر سکی تھی۔لیکن پھر بھی اسلام آباد میں ان کا سفارت خانہ حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر بونیر،زیریں دیر، کوہاٹ، مردان اور پشاور میں پولیس کی تربیت کے حوالے سے اور جدید اسلحہ اور فنڈز دینے کے لیے تعاون کرتا رہا ۔امریکہ اور پاکستان کے افسران پر مشتمل ایک گروپ تشکیل دیا گیا جس نے تمام پروگراموں پر نظر رکھی اور باقاعدگی سے ضروری تفاصیل ممکن بنائیں۔ حکمت عملی کے تحت ایک کمیٹی ترتیب دی گئی ۔یہ کمیٹی صوبہ سرحد کے وزیراعلیٰ، ایف سی اور پولیس کے انسپکٹر جنرل کے علاوہ آرمی کے نمائندوں پر مشتمل تھی اور یہ لوگ اس پروگرام پر کاربند تھے کہ ایک اضافی سیکیورٹی کی طاقت کااحیاء ممکن بنایاجائے۔ اس پروگرام کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ ہر مقامی آر سی او کے حکومتی عہدیدار کو اس کے علاقہ میں طاقت فراہم کی جائے اور اس کے لیے ایک ایسا نقشہ ترتیب دیا گیا جس کی منصوبہ بندی میں مقامی سیاسی لوگوں، بیورو کریٹس، پولیس افسران اور مذہبی لیڈروں کو نمائندگی دے کر سریع الحرکت فورس کا مظاہرہ کیاگیا۔جومقامی لوگوں پر مشتمل لشکر کسی بھی کال پر 24 گھنٹے میں کارروائی کر سکتے تھے۔ جس سے باغی عناصر کی حوصلہ شکنی ممکن تھی۔

گو کہ اس پروگرام نے سست روی سے شروعات کیں ۔صوبائی حکومت نے لوگوں کو بھرتی کرنے کے معاملے میں تقریباً ایک سال کاعرصہ لیااور جو لوگ متعارف کرائے وہ بھی پانچ مذکورہ اضلاع سے منتخب شدہ نہیں تھے۔ یہ کلیةً ایک نیاتجربہ تھا۔ لیکن حکومت پرعزم تھی کہ متعلقہ اضلاع میں یہ ایک اچھی فورس ثابت ہوگی۔ چنانچہ ایسا تربیتی پروگرام ترتیب دیا گیاجس میں نئے فرائض اور ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں۔ 2010ء کے شروع میں اس پروگرا م کے اچھے نتائج سامنے آئے وہ مقامی آبادیاں جو طالبان کے اثر و رسوخ سے غیر مطمئن تھیں ۔اس فوری عمل درآمد کرنے والی فورس کو اپنی مدد کے لیے بار بار طلب کرتی رہی ہیں اوراس فورس کی مدد کے لیے (Centcom)کے تعاون سے ہیلی کاپڑوں کی سہولت بھی حاصل رہیںجس سے پولیس ان دور دراز علاقوں میں کارروائیاں کرنے میں کامیاب رہی جہاں پر صوبائی حکومت کا عمل دخل ضروری خیال کیا جاتاتھا اس اسپیشل پولیس فورس نے 2010ء کے درمیانی عرصہ میں ایک اور اہم کام بھی انجام دیا جب کبھی بھی پاکستانی فوج کو سوات کی وادی میں اپنے عقبی تحفظ کے لیے ضرورت پڑی اس فورس کو موجود پایا۔ 2010ء کے آخر میں یہ فورس صوبہ سرحد کے دس اضلاع سے بڑھ کر24 اضلاع تک پھیل گئی اور بندوبستی علاقوں میں باغیوں کے اثر و رسوخ کو کافی حد تک کم کرنے میں اہم کردار اداکیا۔

2009ء کے شروع میں ان پروگراموں کے ساتھ ساتھ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پالیسی بنانے اور انصاف مہیا کرنے کے حوالے سے وفاقی اور صوبائی سطح پر وسیع البنیاد منصوبہ بندی کی۔ جس میں وفاق کے کردار اور مذہبی پارٹیوں کو بھی نظر انداز کیاحالانکہ مذہبی پارٹیاں امریکہ کی مخالفت میں ماضی کی طرح آگ پر تیل چھڑکتی رہیں تھیں لیکن امریکن افسران نے محسوس کیا کہ اسلامی پارٹیوں کے لیڈران کی اپنے مفادات کے حوالے سے، جس میں ان کے حمایت یافتہ نئے طالبان اورمدرسہ کے فارغ التحصیل طلباء کی مدد بھی شامل ہے ان کے لیے ڈھکی چھپی حمایت کا موجب بنتے رہیں گے ۔2010ء کے وسط میں حالات کیا نئی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ نواز گروپ حیرت انگیز طور پر مضبوط ہوگیاہے۔اسے صوبہ سرحد میں تمام مذہبی عناصر اور جماعتوں کی حمایت حاصل ہوچکی ہے۔ادھر امریکہ نے بھی اس نئے ابھرنے والے گروپ کے ساتھ سمجھوتہ کر لیاہے اور برطانیہ ،جرمنی ،سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اعلیٰ افسران سے مل کر امریکی عہدیداروں نے مدرسہ چلانے والے لیڈروں کے حمایت یافتہ نئے طالبان کی سرگرمیاں اپنے حق میں حاصل کر لی ہیں اور ان فارغ التحصیل طلباء کے لیے نئے تعمیری مواقع بھی مہیا کیے ہیں۔

فاٹا میں باغی عناصر کی سرکوبی اور اصلاحات
2010ء کا سورج نصف النہار پر ہے دو سال پہلے فاٹا میں سیکیورٹی کی صور ت حال تیزی سے بگڑتی جارہی تھی۔ مقامی عسکریت پسند جن کاتعلق باجوڑ جنوبی وزیرستان اور ان کے درمیانی علاقوں سے تھا۔ یہ لوگ آپس میں پوری طرح متحد تھے۔ امریکہ کے سیکیورٹی اہل کار وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں قیام پذیر عسکریت پسندوں اور تحریک طالبان پاکستان کے علاوہ حقانی گروپ کے لوگوں کے ساتھ لڑائی میں الجھے ہوئے تھے۔ پاکستانی حکومت اور امریکہ کے درمیان عدم اعتماد کی فضا رفتہ رفتہ بڑھ چکی تھی۔ یاد رہے کہ بش حکومت کی750 ملین ڈالرز کی امدادجو کہ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے شروع کی گئی تھی۔ کئی پراجیکٹس کے باعث متعدد تبدیلیوں کا باعث بنی تھی۔ لیکن سیکیورٹی کی دگرگوں صورت حال اور حکومت کی عمل داری کے فقدان کی وجہ سے تمام قبائلی علاقوںمیں حقیقی تبدیلیوں کو واشنگٹن شکوک و شبہات سے دیکھ رہا ہے۔ شروع شروع میں اسلام آباد کی حکومت نے فاٹا میں اصلاحات کے حوالے سے ایک کھلا رویہ اپنایاجس سے ان علاقوں کی پاکستانی سا لمیت کے لحاظ سے اقدامات کو تقویت ملی۔ لیکن سیاسی دور اندیشی کے فقدان نے تمام اصلاحاتی منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ امریکی فوجی افسران اس حوالے سے ایک چوراہے پر کھڑے تھے۔ افغانستان میں باغیانہ عناصر کی سرگرمیاں بڑھتی ہی چلی جا رہی تھیں اور پاکستانی قبائلی علاقوں کی بگڑتی ہوئی صورت حال قابو سے باہر ہوچکی تھی۔ مطلوبہ افراد تک پہنچ مشکل تھی اور حکومتی عملداری بھی نہ ہونے کے برابر تھی۔یہ بات تسلیم کر لی گئی تھی کہ عراقی الانبار ماڈل کی طرح کا آپریشن فاٹا میں تقریباً ناممکن تھا۔ پشتون لوگوں کے پیچیدہ قبائلی ڈھانچے کی وجہ سے وسیع البنیاد سیاسی تناظر میں عارضی علاج بھی ناممکن تھا۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ سیکیورٹی ،ترقیاتی منصوبے اور حکومتی عملداری آپس میں پیہم مربوط ہیں۔ امریکی افسران نے ایک نیا نتیجہ اخذ کیا جس میں قبائلی علاقوں کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے نئے طریقہ کار کا آغاز کیاگیا۔ انہوں نے فاٹا کو ماڈل ریفارمز زونز(MRZ) میں تقسیم کرنے کامنصوبہ بنایا۔جس میں ہر ایک زون کو مقامی حکومتوں کے نظام کی نمائندگی کے حوالے سے نئے طریقہ کار کو متعارف کرانا مقصود تھا۔ اس سلسلے میں پاکستانی دوستوں کے بین الاقوامی کنسورشیم کی مدد بھی لی گئی جس میں سعودی عرب ،ترکی اور عرب امارات شامل تھے۔ ان مذکورہ زونوں میں ترقیاتی کوششوں کے حوالے سے نئی منصوبہ بندی کی گئی جس کے نتیجے میں ایسی سیاسی تخم ریزی ہوئی جس کے اثرات تمام قبائلی علاقوں میں محسوس کیے گئے۔

شروع شروع میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس دیرینہ معاملے میں سرگرمی دکھائی تھی مگر پھر دلچسپی کااظہار نہ کیا۔شاید اس کے پیچھے سیاسی عزائم کارفرماتھے۔ جب کہ پشاور کی عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت نے اس منصوبے کو فاٹا اور صوبہ سرحد کو قریب کرنے پر محمول کیا۔ یہ ایک ایسا نظریہ تھا جس کا وہ بہت پہلے سے تقاضا بھی کرتے آئے تھے۔جب کہ مذہبی جماعتوں نے اس موقعے کو قبائلی علاقوں میں اپنے تعلقات کار کو بڑھانے کے لیے مناسب خیال کیا اور پاکستان آرمی نے اس پلان کے متبادل کے طور پر مخصوص ہتھیار اور امریکہ کے ملٹری سکولوں میں تربیت کے حوالے سے رسائی بڑھانے کا عندیہ دیا۔ یہ پروگرام ابتدائی طور پر پانچ قبائلی ایجنسیوں میں شروع ہو اتھا۔ماڈل ریفارمز زون (MRZ)کے حوالے سے تقربیاً ایک ایک تحصیل منتخب کی گئی تھی اور قبائلی لوگوں کے ساتھ یہ معاہدہ کیا گیا کہ ترقیاتی منصوبوں کے فوائد میں انہیں حصہ دار بنایا جائے گااور اس کے علاوہ ایف سی کی سیکورٹی کے حوالے سے مدد بھی فراہم کی گی نتیجتاً لوگوں کی نئے تشکیل شدہ حکومتی ڈھانچے میں شمولیت کو ممکن بنانے کے لیے ان کے روایتی رسم و رواج کے حوالے سے اداروں میں سیاسی عمل دخل کی حو صلہ افزائی کی گی۔

یہ پلان کئی سیاسی ترجیحات پر مشتمل تھا حکومت اور بین الاقوامی کنسورشیم (MRZ) کے منصوبوں پر قرار واقعی ارتکاز کے لیے وافر افردای قوت اور ذرائع کے استعمال کو ایف سی کے جوانوں کی مدد سے ممکن بنایا گیا۔ اس سلسلے میں پولٹیکل ایجنٹ کا کردار فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز کے تحت فعال بنایا گیا۔ اور گورنمنٹ نے اسی روایت کو بھی برقرار رکھا کہ پولٹیکل ایجنٹ کی وساطت سے پشاور ہائی کورٹ کی قاضی عدالتوں میں اپیل کا حق بھی محفوظ رکھا۔ اسکے علاوہ گورنر نے فرنٹیر کور (FC)کے اند ر ایک نئی شاخ کا اجراء کیا گیا۔جنہیں آر ۔سی ۔او کی ہدایت کے تحت بندوستی علاقوں میں کہیں بھی تعینات کیا جا سکتا تھا۔

یہ نیا اصلاحاتی پروگرام فاٹا میں مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے ایک نیا اور منفرد تجربہ تھا۔ تحصیل کی سطح پر یونین کونسلز کا وجود عمل میں آیا اور انتخابات جماعتی بنیادوں پر منعقد کئے گئے ہر تحصیل میں نوجوان لوگوں کی شمولیت کے حوالے سے متوازی کونسلوں کا قیام عمل میں آیا اور انہیں و سیع البنیاداختیارات تفویض کیے گئے جبکہ انتہائی اختیار پشاور میں بیورکریسی کے پاس ہی رہے ایک کونسل کے ممبر کو اس کے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے استحقاقی فنڈ مہیا کئے گئے۔اس ڈھانچے میں منتخب شدہ اختیارات اور مقامی جرگہ کو اکٹھا کرنے کی سعی کی گئی جب کہ جرگہ کے ممبران کے اختیارات محض واجبی رہے اور وہ ترقیاتی کاموں ، شکایات اور تنازعات حل کرنے کے حوالے سے عملی طور پر بے دخل کر دئیے گئے تحصیل کی سطح تک منتخب شدہ افراد کو صوبائی اسمبلی میں آبزرور کی حیثیت بھی حاصل رہی اور انہیں وہ استحقاق بھی حاصل رہا جو پہلے قبائلی ملک کے پاس ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر پرمٹس کی تقسیم بھی ملک کے ہاتھ سے جاتی رہی اور فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے ابھی انہیں بے دخل کر دیا گیا۔

MRZکے ترقیاتی منصوبوں کا سیاسی مقصد تو یہ تھا کہ حکومت کی اتھارٹی کو قبائلی علاقوں میں پھیلا یا جائے اور نئے سیاسی نظام کے تحت اداروں میں لوگوں کی شمولیت ممکن بنائی جائے۔حقیقت میں یہ تسلسل خاصی مشکلات پر مبنی تھا۔نئے نظام کے حوالے سے کئی مسائل اور قانونی پیچیدگیوں نے ۔ ایف۔ سی اور لیویز کے جوانوں کو خاصا وقت درکار تھا جب ہی وہ ترقیاتی منصوبوں میں بہتر عمل دخل دکھاسکتی تھیں الیکشن کا پہلا مرحلہ طالبان کے حملوں سے بھی متاثر ہوا اور امریکی افسران اس وقت تذبذب کا شکار ہوئے جب سیاسی پارٹیوں نے حکومتی کونسلزکی متعد د سیٹیں جیت لیں۔

طالبان کے مختلف گروپس نے پہلے سال میں ہی کئی ترقیاتی منصوبوں کو نشانہ بنایا اور محض دوبارایسا ہو کہ حکومت کو باقاعدہ فوج تعینات کرنا پڑی تا کہ باغیوں کا صفایا ہو 2009ء کے آخر میں حالات تبدیل ہونا شروع ہوئے حکومت پر عزم تھی کہ وہ ان علاقوں میں اپنی عملداری بحال کرلے گی۔ اور ترقیاتی کاموں کو عوام کی مدد سے مکمل کرے گی۔یو ایس ایڈ(USAID)نے این جی اوزکی تربیت کے حوالے سے کئی اقدامات کر رہی تھی، پشاور، کوہاٹ، بنوںاور ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقوں کی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل طلباء کو مصروف کر رہی تھی۔ جونہی MRZزون میں سیکیورٹی کی صورت حال بہتر ہوئی تھی۔ NGOsکی وساطت سے نوجوان لوگ تعمیراتی کمپنیوں میں ملازمتیں اختیار کر رہے تھے۔ MRZکے منصوبوں کو فاٹا میں باغیانہ عناصر کی سرگرمیوں کے حوالے سے بھی تنقید کانشانہ بننا پڑ رہاتھا۔ مگر اس کے اثرات نہ ہونے کے برابر تھے۔ لیکن 2010ء کے وسط میں یہ بات مستحکم ہوچکی تھی۔ کہ MRZکے وسیع عزائم ہیں۔ کئی اور قبائلی اور لیڈر بھی اس بات کاتقاضا کر رہے تھے کہ ان پروگراموںکو ان کے علاقوں تک وسعت دی جائے حکومت پاکستان اب اس قابل ہوچکی تھی کہ ترقیاتی کاموں کے حوالے سے لوگوں کے معیار زندگی ,ترقی اور بے روزگاری کا سدباب کر سکے حکومت اپنی غلطیوں سے کئی سبق سیکھ چکی تھی۔ MRZکے حوالے سے نئے لیڈر آناشروع ہوچکے تھے جو محض اس ادارے کی ہی پیداوار تھے۔ مذہبی جماعتیں پشتون قومیت پسندوں کے خلاف نبردآزما تھیں جو بنیادی صحت کے یونٹ اور دوسرے متحرک پروگراموں کی مدد سے فاٹا میں ترقی کی نوید لارہے تھے۔MRZکے منتخب شدہ لیڈر اس دوران اس بات پر زور دے رہے تھے کہ ان کے نمائندوں کوصوبائی اسمبلی میں آبزرور کی بجائے مکمل نمائندگی دی جائے۔وزیرستان کے صورت حال جوںکی توں تھی۔ وہاں بھی اس بات پر بحث و تمحیص جاری تھی کہ قبائلی علاقوں میں بھی وسیع اصلاحات جاری کی جائیں۔ سیکیورٹی کے حوالے سے MRZکے تجربات نے فاٹا میں نئے طالبان کے اثر و رسوخ کو ختم کرنے میںاپناکردار ادا کیا تھا۔ لیکن صوبہ سرحد اور بالخصوص امریکہ اور پاکستانی افسران کے ساتھ مل کر فاٹا میں چھوٹے چھوٹے علاقوں تک غیر سماجی عناصر تک رسائی ممکن ہوچکی تھی۔ اس طرح اس بات کی توقع کی جارہی تھی کہ حکومتی عملداری کی مکمل بحالی کی نوید اب زیادہ دور نہیں تھی۔