working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد
محمد عامر رانا
پشاور کے قریب واقع رحمان بابا اور نوشہرہ میں بہادر باباکے مزارات پر دہشت گردی کی وارداتوں سے جہاں عوام و خواص میں غم و غصے کی لہر دوڈ گئی ہے وہاں معاشرے میں فرقہ واریت کے پھیلتے ہوئے زہر کے مزید پہلو نمایاں ہوئے ہیں۔ شیعہ سنی کے تنازعے سے شروع ہونے والی کشیدگی اب وہابی سنی اور دیو بندی بریلوی کی سطح پر آچکی ہے۔ یہ خطر ناک رجحان مذہبی تقسیم کو مزید گہرا کر سکتا ہے لامحالہ جس کے اثرات معاشرتی و سیاسی انتشار، معیشت کی کمزوری اور ثقافتی بدحالی کی صورت میں ہی نکلیں گے۔فرقہ واریت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے پُر تشدد رجحانات اس کے اثرات جہادی عوامل سے اس کے تال میل اور اس پس منظر میں امن و امان کی بدترہوتی صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ اس کے جملہ پہلوئوں سے آگاہی ہو سکے۔

موضوع ، تعارف اور پس منظر:
پاکستان میں مذہبی اعتقادات میں فرق کی بنیاد پر فرقہ وارانہ تشدد کوئی انہونا مظہر نہیں ہے۔ برصغیر کی تقسیم سے قبل شیعہ سنی فرقہ ورانہ فسادات رونما ہوتے رہتے تھے۔ اور عموماً ان کا مرکز انبالہ، روہتک، کرنال،پٹیالہ، اور حصار ہوا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی فرقہ وارانہ فسادات کے واقعات رونما ہوتے رہے لیکن ان کی نوعیت اور شدت وہ نہیں تھی، جو آج ہے۔ شیعہ سنی فسادات کا پہلا بڑا واقعہ1963ء میں خیر پور سندھ میں ہوا۔ اس کے بعد1970ء میں ایک اشتہاری مہم اس حوالے سے بڑا واقعہ تھی۔ جو پورے ملک میں ''جاگ سُنی جاگ پاکستان تیرا ہے'' کے عنوان سے چلائی گئی تھی۔لیکن اسّی کی دہائی کے آخر میں شیعہ سُنی فرقہ واریت خون آ شام ہو گئی اور اس کا سلسلہ ہنوز تھمنے میں نہیں آرہا۔ 1987ء سے 2001ء کے درمیان فرقہ وارانہ دہشت گردی کے1353 واقعات رونما ہوئے جنہوں نے964 قیمتی جانیں لیں اور 300کے قریب افراد کو گھائل کیا۔ جبکہ2001ء سے 2008ء تک کے عرصے میں ان کی شدت میں اتار چڑھائو کے رجحان کے ساتھ2600 جانیں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھیں۔

فرقہ وارانہ تنظیموں پر کام کرنے والے محقق اور صحافی عظمت عباس نے پاکستان میں فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا کم شدت کے فرقہ وارانہ فسادات کا دور جو 1980ء تک کے عرصے پر مشتمل ہے لیکن یہ جب بھی وقوع پذیر ہوئے نہ تو منظم تھے اور نہ ہی ان کے پیچھے کوئی منصوبہ بندی کار فرما ہوتی تھی۔ دوسرا عرصہ ضیاء الحق کے دور سے آج تک کے عرصے پر محیط ہے۔ جب باقاعدہ پرتشدد فرقہ وارانہ تنظیمیں وجود میں آچکی تھیں اور منظم فرقہ وارانہ وارداتوں کا سلسلہ شروع ہوا لیکن عظمت عباس کا یہ تجزیہ فروری 2002ء کا ہے۔2009تک آتے آتے یہ رجحان تین حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ تیسرا رجحان نو گیارہ 2001ء کے بعد واضح ہونا شروع ہوا جب پُرتشدد فرقہ وارانہ تنظیموں، مقامی جہادی، علاقائی اور عالمی عسکری تنظیموں میں فرق منہدم ہونے لگا اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے ایجنڈے میں وسعت آنا شروع ہوئی اور وہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بیرونی مفادات ، سرکاری مفادات سیکورٹی فورسز اور ثقافتی مراکز پر بھی حملہ آور ہونے لگیں۔ خیر اس کا تذکرہ تو بعد میں کیا جائے گا لیکن سردست پرتشدد فرقہ وارانہ لہر کے پس پردہ محرکات پر روشنی ڈالتے ہیں۔

اسلام میں فرقہ وارانہ اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہے اور برصغیر پاک و ہند بھی اس سے کبھی محفوظ نہیں رہا۔ مختلف مسالک اور فرقوں کا ایک دوسرے کو ''کافر'' یا ''خارج از اسلام'' قرار دینا بھی پرانا وطیرہ ہے شیعہ سُنی، دیوبندی، وہابی سمیت کوئی بھی اس سے ماورا نہیں ہے اور ان تمام مسالک کے ایک دوسرے کے خلاف ایسے بے شمار فتوے نہ صرف تحریری صورت میں موجود ہیں بلکہ ان مسالک کے مدارس اور کتب خانوں سے با آسانی دستیاب بھی ہیں۔ ان میں کسی دو مسالک کی تخصیص بھی نہیں دیو بندی مسالک کی نہ صرف شیعہ بلکہ بریلوی اور اہلحدیث مسالک کے خلاف فتووں پر مشتمل کتاب،کتابچے پمفلٹ بھی دستیاب ہیں۔ ان میں سے بیشتر مطبوعات کے محض عنوانات درج کرنا بھی کسی خطرے سے خالی نہیں ہو گا۔مختلف مسالک کے ایک دوسرے کے خلاف مناظروں، مساجد اور مدارس میں مختصر دورانیے کے دورہ جات، خطبے، تقاریروں کی روایت بھی اتنی ہی پرانی ہے لیکن قیام پاکستان کے بعد ملک میں برداشت کی ایک فضاء تھی اور جیسے جیسے فرقہ وارانہ پُرتشددجیسے واقعات بڑھے برداشت کی سطح بھی بتدریج کم ہوتی گئی۔اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جب مذہب اور خاص طور پر فرقہ وارانہ معاملات میں سیاست در آئی تو نہ صرف برداشت کی سطح متاثر ہونے لگی بلکہ ردعمل میں ایسی تحریکیں اور تنظیمیں وجود میں آنے لگیں۔

جنرل ضیاء الحق کے1979ء میں نافذ کیے گئے زکوة و عشر آرڈیننس نے شیعہ کمیونٹی میں تشویش کی لہر دوڑا دی جس کے تحت زکوٰة کی وصولی اور تقسیم، ریاست کا فریضہ قرار پائی اور تمام بنک اکائونٹس پر بھی اسے لاگو کر دیا گیا۔ حنفی اور شیعہ مذاہب میں زکوة کی وصولی اور تقسیم پرفقہی اختلافات موجود ہیں لیکن آرڈیننس میں یہ فرق روانہ رکھا گیا۔ اس پر احتجاج کرتے ہوئے شیعہ عالم دین مفتی جعفر حسین نے اسلامی نظریاتی کونسل سے استعفیٰ دے دیا اور وفاق علماء شیعہ پاکستان کے پلیٹ فارم سے حکومت کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔ یہی دور تھا جب ایران میں امام خمینی انقلاب برپا کر چکے تھے، پاکستان میں بھی شیعہ تقویت محسوس کررہے تھے، اور ایرانی انقلابی رہنمائوں سے رابطے میں تھے۔ ایک شیعہ طلباء گروپ امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آئی ایس او) ایرانی انقلاب کی حمایت میں پیش پیش تھا۔جب مفتی جعفر حسین نے1979ء میں زکوة آرڈننس کو چیلنج کرنے کے لیے بھکر میں کنونشن بلایا تو آئی ایس او نے شیعہ کمیونٹی کو متحرک کرنے کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ اسی کنونشن میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھی گئی اور5 جولائی 1989ء کو اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے کنونشن کا اعلان کر دیا۔ اس وقت تین شیعہ تنظیمیں آل پاکستان شیعہ کانفرنس، ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پولیٹکل پارٹی بھی منظر عام پر تھیں لیکن یا تو یہ حکومت کے ساتھ تھیں یا پھر زیادہ فعال نہیں تھیں شیعہ قیادت کے خلا کو پُر کرنے کا یہ سنہری موقع تھا خاص طور پر ایسے سیاسی ماحول میں جب دیگر مسالک کی مذہبی سیاسی جماعتیں سیاسی قومی منظر نامے پر اہم کردار ادا کر رہی تھیں۔

تہران میں امریکی سفارتحانے پر ایرانی طلبہ کے قبضے کو طاغوت کے خلاف فتح قرار دیا جا رہا تھا کہ کسی ایسے ہی منصوبے پر پاکستان میں عملی جامہ پہنایا جائے۔

5 جولائی 1980ء کو اسلام آباد میں شیعہ کنونشن ہوا، اور مطالبات منوانے کے لیے مرکزی سیکرٹریٹ کا گھیراو کر لیاگیا۔ حکومت مجبور ہوئی اور شیعہ طلباء کے لیے علیحدہ اسلامیات، زکوة و عشر سے چھوٹ اور دیگر مطالبات تسلیم کر لیے گے۔ اس معاہدے میں امام خمینی نے اہم کردار ادا کیا تھا اور ضیاء الحق سے ان مطالبات کو تسلیم کرنے کی یقین دہانی لی گئی تھی۔ اسی کنونشن میں امام خمینی کا ایک پیغام بھی پڑھا گیا جس میں شرکاء کو حوصلے بلند رکھنے کی تلقین کی گئی تھی۔

ایک شیعہ تنظیم کا اتنی شدت سے اُبھرنا، سُنی جماعتوں میں تشویش کی نظر سے دیکھا گیا۔ اس کے فوری ردِعمل میں دیو بندی جماعت جمعیت علمائے اسلام اور بریلوی جماعت جمعیت علمائے پاکستان نے دو بڑی ''اہل سنت کانفرنسوں'' کا انعقاد کیا اور اسے ''سوادِ اعظم'' کے لیے بڑے خطرے کی گھنٹی کے طور پر پیش کیا۔ تین برس دیو بندی اور بریلوی جماعتیں اس مسئلے پر غور کرتی رہیں۔ آخر1983ء میں کراچی سے مولانا سمیع اللہ اور مولانا اسفند یار نے دیوبندی تنظیم سواداعظم اہلِ سنت کانفرنس کا ڈول ڈالا۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ معاملات میں اسلام آباد کنونشن کے موقع پر ایرانی حمایت کے باعث بیرونی مداخلت کا دروازہ کھُل ہی چکا تھا۔ سعودی عرب بھی پاکستان میں بڑھتے ہوئے ایرانی اثر و نفوذ کو تشویش کی نظر سے دیکھ رہا تھا عراق کی ایران کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہو رہا تھا اور'' سواد اعظم اہل سُنت'' کی صورت میں اسے پاکستان میں ایرانی اثر و رسوخ کو کم کرنے کا موقع ملا۔ 1985ء میں پنجاب میں ابھرنے والی انجمن سپاہ صحابہ کے امیر مولانا حق نواز جھنگوی جمعیت علمائے اسلام پنجاب کے نائب امیر تھے اور پنجاب میں ان کی شہرت بریلوی مسلک کے خلاف زبردست مقرر کی تھی۔ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ سپاہ صحابہ کی تشکیل کے وقت مولانا حق نواز جھنگوی جمعیت علمائے اسلام کے رکن کی حیثیت سے تحریک بحالی جمہوریت (ایم آرڈی) میں بھی پیش پیش رہے اور ان کی فرقہ وارانہ حریف تحریک نفاذ فقہء جعفریہ بھی اس تحریک کا حصہ تھی۔

سپاہ صحابہ نے صحابۂ کرام کے خلاف شیعہ لڑیچر کے خلاف مہم اور پاکستان میں ایرانی طرز کے ''شیعہ انقلاب'' کا رستہ روکنا اپنی تنظیم کے بنیادی اسباب قراردئیے اور ذیل مقاصد طے کیے۔
1۔ پاکستان میں خلافت راشدہ کا نظام نافذ کیا جائے
2۔ پاکستان کو سُنی سٹیٹ قرار دیا جائے۔
3۔ جن کتب میں صحابہ کرام کی توہین کی گئی ان پر پابندی عائد کی جائے۔
4۔ جو شیعہ ذاکر اور علماء صحابہ پر تبرا کرتے ہیں ان کو سزا دی جائے۔

سپاہ صحابہ کی تحریک نے مذکورہ مقاصد کے تحت زور پکڑا اور ضلع جھنگ اس کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ جھنگ میں اس تحریک نے طبقاتی تصادم کی صورت اختیار کرلی جہاں بڑے شیعہ زمینداروں اور سُنی کاروباری طبقے کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے تھے۔ دونوں طبقوں کے علاوہ جرائم پیشہ گروہوں کے بھی علاقے میں اپنے مفادات تھے اور ان کے تحفظ کے لیے انہوں نے فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے میں اہم کردار ادا کیا۔ کچھ تجزیہ نگار سپاہ صحابہ کی تشکیل کو جنرل ضیاء الحق کی ''پیپلز پارٹی مخالف'' پالیسی کا حصہ بھی قرار دیتے ہیں کہ اس نے پیپلز پارٹی کی قوت کو کمزور کرنے کے لیے سندھ میں لسانی اور پنجاب میں فرقہ ورانہ تنظیموں کی سرپرستی کی۔ ضیاء الحق ایران میں اپنے''امریکی پٹھو'' کے امیج اسلام آباد معاہدے اور شیعہ تنظیموں کی مخالفت سے بھی پریشان تھا۔ اس کے علاوہ افغان سوویت جنگ نے بھی اہم عامل کا کردار ادا کیا جہاں وہابی اور دیوبندی تنظیموں کو جہاد کے لیے سرکاری سرپرستی حاصل تھی جس کے باعث دیو بندی اور وہابی فرقہ ورانہ تنظیموں کو بھی عسکری تربیت کے علاوہ سعودی عرب اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی مالی، اخلاقی اور سیاسی مدد حاصل ہوئی۔ جیسے جیسے فرقہ وارانہ تنظیموں کو اندرونی ،بیرونی وسائل اور حمایت میسر آتی گئی ، فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا۔ شیعہ، سُنی علماء اور رہنمائوں کے قتل کے واقعات تیزی سے بڑھنے لگے۔ ضلع جھنگ فرقہ وارانہ فسادات کا مرکز بن گیا جہاں 1986ء سے 1989ء کے دوران 300 سو افراد فرقہ وارانہ دہشت گردی کا نشانہ بنے۔

فرقہ وارانہ کشیدگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب اگست 1988ء میں تحریک جعفریہ کے سربراہ علامہ عارف الحینی کو پشاور میں قتل کر دیا گیا جواباً دسمبر 1989ء میں مولانا حق نواز جھنگوی کے قتل نے فرقہ ورانہ تشدد کی ایسی لہر کو جنم دیا جو آج تک تھمنے میں نہیں آ رہی۔ شیعہ تنظیموں نے علامہ عارف الحینی کے قتل کی ذمہ داری امریکہ اور حکومت پر ڈالی جب کہ سپاہ صحابہ نے اپنے رہنما کے قتل کا ذمہ دار ایران اور جھنگ کے شیعہ جاگیرداروں پر عائد کی۔

فرقہ وارانہ تشدد کا پھیلائو
اسلام آباد میں شیعہ کنونشن، سپاہ صحابہ کی تشکیل، افغان سوویت جنگ میں دیو بندی اور وہابی گروہوں کی سرکاری سرپرستی، ضیاء الحق کی پالیسیوں اور بیرونی قوتوںکی فرقہ وارانہ تنظیموں کی سرپرستی، یہ وہ چیدہ چیدہ نکات ہیں جو فرقہ ورانہ تشدد کو تحریک دینے کا سبب بنے۔ ابتداء میں اس کا مرکز پنجاب، لیکن آہستہ آہستہ اس کا پھیلائو بڑھتا گیا اور مقامی عوامل بھی اس میں شامل ہوتے گئے۔ 1986ء افغان مجاہدین کے چند گروہوںنے فوجی حکومت سے شکایت کی کہ انہیں کرم ایجنسی میں پارا چنار کے قبائلی علاقوں سے افغانستان میں آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے، یہاں شیعہ طوری قبائل آباد ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق فوجی حکومت نے خفیہ ایجنسیوں کو کھلی چھٹی دے دی کہ افغان مجاہدین کو کھلی اجازت دی جائے کہ وہ اپنے طور پر طوری قبائل سے معاملے کو حل کر لیں۔ اس کے نتیجے میں دونوں فریقین میں تصادم شروع ہو گیا جس میں 500سو سے زائد طوری قبائلی ہلاک ہوئے اور کروڑوں کا مالی نقصان الگ ہوا۔ اس دوران حکومت نے قطعی مداخلت نہیں کی۔

اِسی طرح1988ء میں سُنی مظاہرین نے گلگت میں 150 شیعہ ہلاک کر دئیے۔ فرقہ وارانہ تنظیموں نے حکومت کی پشت پناہی پر دائرہ کار کو وسیع کیا اور کوئٹہ میں 100 سے زائد افراد کو قتل کر دیا گیا۔ پنجاب میں بھی سلسلہ دراز ہوا جس میں اہل حدیث علماء علامہ احسان الہٰی ظہیر (1986) اور مولانا حبیب یزدانی(1987ئ) میں ہلاک ہوئے۔ فقہ جعفریہ کے علامہ عارف الحینی (1988ئ)اور سپاہ صحابہ کے مولانا حق نواز جھنگوی (1989) اور ایرانی قونصل صادق گنجی (1990ئ) کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔

پویس کے ریکارڈ کے مطابق1980ء کی دہائی کے وسط میں جو ٹارگٹ کلنگ ہوئیں ان کے مطابق 1987ء اور1989 کے درمیانی تین سال میں پنجاب میں تشدد کے 102واقعات ہوئے جن میں 22 افراد ہلاک اور263 شدید زخمی ہوئے۔ لیکن 1990ء میں یہ رجحان خطرناک حد تک بڑھ گیا 274واقعات میں32 افراد مارے گئے جب کہ528 شدید زخمی ہوئے۔ فرقہ واریت مسلسل بڑھتی رہی اور 1997ء تک پنجاب میں 200 افراد اس کا نشانہ بنے۔

اگست 1997ء میں جب صرف 9دنوں کے دران 45افراد نشانہ بنے تو حکومت نے اس جانب اپنی توجہ مبذول کر لی۔ دہشت گردی کی لہر کا مقابلہ کرنے کے لیے پویس کی مدد کرنے کے لیے رینجرز کو طلب کر لیا گیا جب کہ موٹر سائیکل پرڈبل سواری پر پابندی عائد کر دی گئی جو کہ دو سال رہی۔ حفاظتی اقدامات کا خاطر خواہ اثر ہوا جن کے بعد فرقہ واریت کے پسِ منظر میں1997ء کے دران صرف سات واقعات ہوئے۔ یہ صورتحال1998ء تک رہی جس کے دوران 36واقعات میں 87لوگ مارے گئے۔ 3دسمبر 1999ء تک 12مختلف واقعات میں 42 افراد فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گئے جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے یہ تاثر دیا کہ انہوں نے فرقہ واریت کے خلاف جنگ جیت لی ہے۔ لیکن ایک بار پھر فرقہ واریت کی خطرناک لہر آ گئی جب صرف اکتوبر کے پہلے دس دنوں میں 21واقعات میں 39افراد مارے گئے۔ضیاء کے بعد کے دور میں فرقہ وارانہ ہلاکتوں میں کئی نئے رجحانات دیکھنے کو ملے۔ 1980ء میں فرقہ وارانہ فسادات کی لپیٹ صرف مختلف تنظیموں کے رہنماتھے۔ جب کہ بعد کے سالوں میں اس کا نشانہ عام افراد تھے جن کا تعلق براہ راست کسی تنظیم سے نہیں تھا۔1996ء کے بعد جب فرقہ واریت میں اضافہ ہوا تو ان تنظیموں نے نئی حکمت عملی اختیار کر لی انہوں نے اہم رہنمائوں کے ساتھ ساتھ مخالف فرقے کے دانشوروں، پیشہ ور افراد اور حکومتی افسران کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ مثال کے طور پر کمشنر سرگودھا سید تجمل عباس، صوبائی سیکرٹری اسامہ موعود،ڈپٹی کمشنر خانیوال سید علی رضا، ایس ایس پی گوجرانوالہ اشرف مارتھ، ایس پی کرائم فیصل آباد سردار علی محمد بلوچ، جوڈیشنل مجسٹریٹ گوجرانوالہ سیدفداحسین اور ڈی ایس پی طارق کمبوہ وغیرہ کو بھی ہلاک کر دیا گیا۔ 1990ء کے بعد فرقہ ور دہشت گردوں نے 65 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کیا جن میں ایس ایس پی کے رینک کا بھی ایک عہدیدار شامل تھا۔ حتیٰ کے اس کے بعد ایک نیا سلسلہ چل نکلا جب ان تنظیموں نے ڈاکٹر کے مقابلے میں ڈاکٹر ،وکیل کے مقابلے پر وکیل،تاجر کے مقابلے پر تاجر کو ہلاک کیا۔ سب سے خطرناک عمل یہ تھا کہ ایک واقعہ کا جواب گھنٹوں میں دے دیا جاتا تھا۔ اس عرصے میں پاک افغان بارڈر اور کشمیر میں تربیتی مراکزقائم تھے جہاں ان کو ہتھیار اور ان کو استعمال کرنے کی تربیت بھی مل جاتی جبکہ خطرناک اسلحہ تو ہر کہیں بآسانی مل رہا تھا۔ چنانچہ دہشت گردوں نے صرف خود کار ہتھیار ہی استعمال نہیں کیے بلکہ راکٹ ،دستی بم اور تباہی پھیلانے والے بم بھی استعمال کیے۔

18 جنوری 1997ء کو لاہور سیشن کورٹ میں بم دھماکہ ہوا جس میں19پولیس اہلکاروں کے ساتھ سپاہ صحابہ کے سربراہ مولاناضیاء الرحمٰن فاروقی اور کئی دوسرے لوگ ہلاک ہوئے۔ اس میں پہلی بار پلاسٹک دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔تقریباً اسی قسم کے ہتھیار اسرائیل کے خلاف لبنان میں حزب اللہ استعمال کر رہی تھی۔ محرم علی کو اس کارروائی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ وہ ملک میں فرقہ واریت کے نتیجے میں سزا ئے موت پانے والا پہلا جنگجو کہلایا۔ جسے11اگست 1998ء کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے ساتھ شریک ملزم ڈاکٹر قیصر عباس ابھی تک مفرور ہے جس کی گرفتاری کے لیے حکومت نے پانچ لاکھ انعام مقرر کر رکھا ہے۔اسی سال اکتوبر میں سرگودھا کے نزدیک ایک پل کو اُس وقت ٹائم بم سے اڑا دیا گیا جب انسداد دہشت گردی کی عدالت کے ایک جج زوارحسین شاہ یہاں سے گزر رہے تھے۔ اگرچہ جج معمولی زخمی ہوئے تاہم اس واقعہ نے ثابت کر دیا کہ فرقہ واریت میں ملوث تنظیمیں بم بنانے اور اسے چلانے میں مکمل مہارت حاصل کر چکی ہیں۔ اس طرح کی ایک اور کارروائی کو اس وقت ناکام بنا دیا گیا جب پولیس نے ایک جنازے کی گزر گاہ پرواقع پل کے نیچے نصب بم کو ناکارہ بنا دیا اس جنازے میں تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی رہنما بھی شامل تھے۔

3 جنوری 1999ء کو ایک اور واقعہ ہوا جب رائے ونڈ روڈ پر موجود پل کو اڑا دیا گیا جس کے نتیجے میں تین راہگیر ہلاک ہو گئے اس پل سے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف گزرنے والے تھے۔ پولیس نے بتایا کہ اس کا نشانہ میاں نواز شریف تھے اوریہ کارروائی لشکر جھنگوی نے کی۔ اس بم میں یوریا کھاد اوردوسرے عام اجزاء استعمال کیے گئے تھے۔پولیس نے اس واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کر لیا اس کی منصوبہ بندی نور گل نے کی جس نے افغانستان کے تربیتی مراکز میں تربیت حاصل کی تھی۔ وہ روزانہ کی عام استعمال کی اشیاء سے بم بنانے میں مہارت رکھتا تھا۔

فرقہ وارانہ تشدد کی تاریخ میں ایرانی سفارتکار اور ثقافتی مراکز پر حملے بھی اہم واقعات ہیں۔ ان واقعات کی ذمہ داری سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی نے قبول کی۔ ایران کے ثقافتی مرکز لاہور کے ڈائریکٹر جنرل صادق گنجی کو 1989ء میں اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب دو دن بعد وہ واپس ایران جا رہے تھے انھیں اُس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ لاہور کے ایک ہوٹل میں اپنے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں شرکت کے لیے ہوٹل کے باہر پہنچے تھے۔ اس حملے میں ملوث افراد میں سے ایک شخص کو موقع پر گرفتار کر لیا گیا کیونکہ وہ موٹر سائیکل سے گر پڑا جب کہ چار دیگر فرار ہو گئے جن میں ملک کے انتہائی مطلوب دہشت گرد ریاض بسرا بھی تھا جسے چند ماہ بعد گرفتار کر لیا گیا لیکن وہ پویس کی حراست سے بھاگ نکلا۔

مولانا جھنگوی کو سزائے موت سنائی گئی اور یہ فیصلہ اپیلٹ کورٹ نے بھی برقرار رکھا انہیں 28فروری 2001ء کو میانوالی جیل میں پھانسی دے دی گئی اس طرح وہ فرقہ ورانہ تشدد کے نتیجے میں پھانسی پانے والے ملک کے دوسرے فرد بن گئے۔ مولانا جھنگوی کی پھانسی کا خطرناک ردعمل سامنے آ سکتا تھا چنانچہ اس خدشے کے پیش نظر حکومت نے فرقہ وارانہ تنظیموں کے ایک ہزار سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ ایک اور واقعہ اس وقت ہوا جب لاہور سیشن کورٹ واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے والے سپاہ صحابہ کے مظاہرین نے 19جنوری 1997ء کو خانہ فرہنگ لاہور کو آگ لگا دی۔ جس کے نتیجے میں ہزاروںکتابیں، فن خطاطی کے نادر نمونے بھی جل گئے اور یہ سب قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی موجودگی میں ہوا جنھوں نے اس موقع پر تماشائی کا کردار ادا کیا۔

اس واقعہ کے ایک ماہ بعد 20فروری 1997ء کو خانہ فرہنگ ملتان پر حملہ ہوا اور سات افراد جن میں خانہ فرہنگ ملتان کے ڈائریکٹر بھی تھے ہلاک ہو گئے۔ لشکر جھنگوی نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کر لی اور اسے سیشن کورٹ حملے کا جواب قرار دیا۔ چند ماہ بعد 17 ستمبر کو پانچ مسلح افراد نے فائرنگ کر کے راولپنڈی میں پانچ ایرانی کیڈٹس اور ان کے ڈرائیور کو ہلاک کر دیا۔ یہ کیڈٹ پاکستان میں تربیت حاصل کرنے آئے تھے ،ان کی ہلاکت سے پاک ایران تعلقات میں سرد مہری آگئی۔ پولیس نے بعد ازاں اس واقعہ میں ملوث پانچوں افراد گرفتار کر لیے اور پانچوں کو عدالت نے سزائے موت دے دی۔ تاہم اس وقت پولیس کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا جب اپیلٹ کورٹ نے پانچوں ملزموں کو بری کر دیا۔

کتابیات

اردو
1۔ جہاد کشمیر و افغانستان محمد عامر رانا
2۔ دہشت گردی یاجہادی مقبول ارشد
3۔ سفیر انقلاب تسلیم رضا خان
4۔ سفیر نور تسلیم رضا خان
5۔ ایران افکار و عزائم از نذیر احمد
6۔ اسیران سپاہ صحابہ انگریزی:
1. True face of jihadlis by Amir mir
2. The flultering flag of jihad by Amir mir.
3. Seeds of terrorism by Muhammad Amir Rana.
4. Sectarianism the players and the game by Azmat Abbas
5. Ghost wars by steve coll.

رسائل :
1۔ ماہنامہ خلافتِ راشدہ فیصل آباد
2۔ ہفت روزہ ''ضرب مومن'' کراچی
3۔ ہیرلڈ
4۔ نیوز لائن
5۔ فرائیڈے ٹائمز